::: فوت شُدہ لوگوں کو بُرا کہنے، اُن کی بُرائی بیان کرنے کا مسئلہ :::
بِسمِ
اللہ الرّحمٰن ِ الرَّحیم
و لہُ الحمدُ فی الاُولیٰ و فی الآخرۃ ، و افضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ
اللہ، الذَّی لا نَبیَّ و لا مَعصومَ بَعدہُ
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و
برکاتہُ ،
ہمارے معاشرے کی رگوں میں دوڑنے والے اندھیروں میں سے ایک
اندھیرا شخصیت پرستی کا بھی ہے، اور ایک اندھیرا جماعت پسندی کا بھی،
افسوس کہ دیگر کئی معاملات کی طرح اِن دونوں معاملات میں
بھی اعتدال کا دامن کسی ہی ہاتھ میں دِکھائی دیتا ہے، اکثریت اِس سے تہی دست ہے،
آج ایک مراسلہ پڑھنے میں آیا جِس میں لکھنے والے بھائی نے، ایدھی
صاحب کے رفاعی کاموں کا تقابل کرنے کے لیے کچھ دیگر جماعتوں اور شخصیات کے کارنامے
بیان کرتے ہوئے اُنہیں پہاڑ دِکھانے کی کوشش کی اور ایدھی صاحب کو بونا،
ممکن ہے اُن بھائی صاحب کی بات کسی حد تک دُرست ہی ہو،
لیکن،،،،،،،،،،،
اب اگر کوئی اور بھائی کسی اور جماعت یا شخصیت کے کارنامے
ذِکر کرنے لگے اور کہے کہ اِن کے سامنے تو
فُلاں فُلاں جماعت اور آدمی اور اُن کے کام بونے ہیں، ہیچ ہیں، وغیرہ وغیرہ،
اللہ ہی جانے ہم لوگ شخصیات اور جماعتوں کے اندھیروں سے کب
نکلیں گے؟
کب ہم میں یہ ہمت آئے گی کہ ہم اپنے معاملات کو واقعتاً
اللہ عزّ و جلّ اور اس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
تعلیمات کے مطابق مکمل کر سکیں، نہ کہ اپنی پسند کردہ ، اختیار کردہ شخصیات اور
جماعتوں کے مقرر کردہ معایر کے مُطابق، اور غلط کار کی غلطی کو غلطی مان کر اُس کی
اِصلاح کی کوشش کریں، نہ کہ غلط کار کو راست باز دِکھانے کی کوشش،
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایدھی صاحب کے رفاعی کاموں کا کسی
جماعت کے رفاعی کاموں سے تقابل کر کے ، ایدھی صاحب کی شخصیت کو کم تر ثابت کرنے کی
کوشش کی بجائے اُس غلط قول کو دلائل کے ساتھ غلط ثابت کیا جائے جس قول کو ایدھی
صاحب کی شخصیت کی نسبت دے کر مسلمانوں میں رائج کیے جانے کی مذموم کوشش کی جا رہی
ہے،
ایدھی صاحب کی شخصیت کو اگر ہلکا یا بُرا ثابت کر بھی دیا
جائےتوبھی لوگ اُن کی انسانیت کو اصل دین کہنے والی بات کو یہ کہہ کر مانتے رہیں گے
کہ"""چلو جی اگر وہ غلط بھی تھا تو بھی بات تو ٹھیک کہہ گیا
"""،
لہذا ، میرے وہ بھائی جو عبدالستار ایدھی کی شخصیت اور اُس
کے کاموں میں خرابیاں اور بُرائیاں نکالنے اور کسی جماعت یا جماعتوں کے کاموں کو
بلا عیب و برتر دِکھانے کی کوشش کر تے ہیں اُن سے گذراش ہے کہ اپنی قوت اور
صلاحیات اُس کام ،بات ، اور چیز کو غلط ثابت کرنے میں اِستعمال کریں جس کے غلط
ثابت ہونے پر اچھائی اور خیر کی اُمید ہے،
میری ایک خصوصی گذارش ہے کہ میری مذکورہ بالا باتوں کو کوئی
بھی بھائی یا بہن اُن کی ذات پر کوئی تنقید نہ سمجھے، اور نہ ہی یہ کہ یہ باتیں
میں نے ایدھی صاحب کی حمایت میں لکھی ہیں، بلکہ یہ باتیں عمومی طور پر کہی گئی ہیں
،
اِس دُکھ بھری تمہید کے بعد، اُس حدیث شریف کے بارے میں کچھ
بیان کرتا ہوں جس کو ایک تصویری مراسلے کے طور پر پیش کیا گیا کہ اُم المؤمنین
عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا نے کہا ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے اِرشاد فرمایا (((لاَ تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا
قَدَّمُوا:::فوت ہو چکے لوگوں کو بُرا
مت کہو، کیونکہ وہ اُس تک پہنچ چکے ہیں جو کچھ انہوں نے آگے بھیجا تھا )))صحیح
بخاری/حدیث/1393کتاب الجنائز/بابمَا
يُنْهَى مِنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ 97،
کسی بھی بات سے پہلے میں قارئین کرام کی توجہ خود امام
بخاری رحمہُ اللہ کی اِس حدیث شریف کے بارے میں فقہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا
ہوں،
غور فرمایے امام صاحب رحمہُ اللہ نے اِس حدیث کو ذِکر کرنے کے
لیے باب کا نام رکھا ہے """مر چکے لوگوں کو بُرا کہنے میں جو منع
ہے اُس کا باب"""،
یعنی امام صاحب رحمہُ اللہ نے اِس حدیث شریف سے یہ سمجھا کہ
اِس میں کسی مُردے کے بارے میں اُس کی ہر ایک بُرائی کو ہی بیان کرنے کی ممانعت
نہیں ہے،
امام صاحب رحمہُ اللہ کا یہ فہم بالکل دُرست ہے، اور یہ
امام بخاری رحمہُ اللہ کی حدیث شریف کے بارے میں بہترین فقہ کی بہت سے مثالوں میں
سے ایک ہے،
اِسی فقہ کے مُطابق کہ یہ حکم ہر ایک میت کے بارے میں نہیں
ہے، اور نہ ہی ہر ایک میت کے ہر ایک برے معاملے کا ذِکر کرنے کی ممانعت پر مشتمل
ہے، اِمام بخاری رحمہُ اللہ نے اِس باب کے بعد والے باب کا عنوان رکھا،
اگلے باب کا عنوان امام صاحب رحمہُ اللہ نے رکھا ہے
"""باب ذِكْرِ شِرَارِ الْمَوْتَى::: سب سے بڑھ کر شر والے فوت شُدگان کے ذِکر کا باب """،
امام بخاری رحمہُ اللہ کے مقرر کردہ عناوین پر غور کرنے سے
ہی معاملہ کافی واضح ہو جاتا ہے،
پھر بھی کچھ مزید وضاحت کے میں أئمہ کرام رحمہم اللہ کی
پیش کردہ تشریحات میں سے ایک دو پیش کرتاہوں،
لیکن اُس سے پہلے اِسی مسئلے سے متعلق چند دیگر احادیث
شریفہ پیش کرتا ہوں، تا کہ اِن شاء اللہ سب ہی قارئین کرام کے لیے یہ مسئلہ واضح
ہو جائے،
::: (1) ::: شعبہ بن مُغیرہ رضی اللہ عنہ
ُ سے نے کہا کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((لاَ تَسُبُّوا الأَمْوَاتَ فَتُؤْذُوا الأَحْيَاءَ :::مر چکے لوگوں کو بُرا مت کہو کہ(ایسا کرنے سے کہیں)تُم لوگ
زندہ لوگوں کو تکلیف نہ پہنچاؤ)))سُنن الترمذی/حدیث/2110کتاب البِر و الصلۃ /باب مَا جَاءَ فِى
الشَّتْمِ51،إِمام الالبانی
رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
::: (2) ::: أنس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ
سے نے کہا کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((مَنْ أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْراً وَجَبَتْ لَهُ الجَنَّةُ وَمَنْ
أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرّاً وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ أَنْتُمْ شُهَدَاءُ الله فِي
الأَرْضِ:::تُم لوگ جِس کی تعریف
کرو گے اُس کے لیے جنّت واجب ہوگئی ، اور جس کی بُرائی بیان کرو گے اُس کے جہنم
واجب ہو گئی، تُم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو)))سُنن الترمذی/حدیث/2110کتاب
البِر و الصلۃ /باب مَا
جَاءَ فِى الشَّتْمِ51،إِمام الالبانی
رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
غور فرمایے، قارئین کرام، شعبہ بن مغیرہ رضی اللہ عنہ ُ والی حدیث میں ،
کسی مر چکے کی بُرائی بیان نہ کرنے کے حکم کا سبب بھی ذِکر کیا گیا ہے ، کہ ایسا
کرنے سے اُس میّت کے لواحقین کو تکلیف ہو گی، لہذا ایسا مت کرو،
جس سے یہ پتہ چلا کہ، کسی مُردے کی کوئی بُرائی ذِکر کرنے
سے ممانعت کا سبب اُس کے لواحقین یا چاہنے والوں کی دِل آزاری ہونا ہے،
اور ،انس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ والی حدیث میں ، واضح طور
پر کسی مُردے کی اچھائی اور بُرائی دونوں ہی بیان کرنے کا ذِکر ہے،
اِن دونوں صحیح احادیث شریفہ کی روشنی میں ، صحیح بخاری کی
عائشہ رضی اللہ عنھا والی حدیث شریف میں مذکور حکم میں سے عُلماء کرام نے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ ،
"""اگر کسی مُردے کی کوئی بُرائی
ذِکر کرنے میں اُس مُردے کی ہی خیر ہو، یا ، دیگر مُسلمانوں کی خیر ہو تو پھر کسی
ایک یا چند ایک کی دِل آزاری کا خیال نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اکثریت کی مصلحت
اور خیر کسی ایک کی یا چند ایک کی خیر پر مقدم ہے لیکن ضرورت کی حد سے خارج نہیں
ہوا جائے گا """،
اور اِس پر عمل کی سب سے بڑی مثال اُمت کے أئمہ کرام رحمہم
اللہ کی رف سے مختلف زندہ اور مُردہ راویوں پر جرح ہے،
اِسی مسئلے کی طرف اِشارہ
کرتے ہوئے إِمام النووی رحمہُ اللہ نے جس باب میں صحیح بخاری والی روایت
نقل کی ہے ، اُس کا عنوان رکھا ہے""" باب
تحريم سب الأموات بغير حق ومصلحةٍ شرعية::: مر چکے لوگوں
کو بغیر حق کے ، اور بغیر شرعی مصلحت کے برے
کہنے کے حرام ہونے کے بیان کا باب"""،
یعنی، اگر شرعی طو ر پر کسی مُردے کو بُرے کہنے کا حق ہو،
یا، شرعی طور پر کسی مصلحت کے حصول کے لیے
اُسے بُرا کہنے کا جواز ہو ، تو اُسے بُرا کہا جا سکتا ہے ،
إِمام النووی رحمہُ اللہ کی
اِس بات کی شرح میں علامہ محمد بن العثمیین رحمہُ اللہ نے کہا """ لأموات يعني الأموات من المسلمين، أما الكافر فلا حرمة له إلا إذا
كان في سبه إيذاء للأحياء من أقاربه فلا يسب وأما إذا لم يكن هناك ضرر فإنه لا
حرمة له وهذا هو معنى قول المؤلف رحمه الله: بغير حق لأننا لنا الحق أن نسب
الأموات الكافرين الذين آذوا المسلمين وقاتلوهم ويحاولون أن يفسدوا عليهم دينه، أو
مصلحة شرعية مثل أن يكون هذا الميت صاحب بدعة ينشرها بين الناس فهنا من المصلحة أن
نسبه ونحذر منه ومن طريقته لئلا يغتر الناس به.
مُردے،
یعنی، مُسلمانوں کے مُردے، رہا معاملہ کافر کا تو اُس کی کوئی حُرمت نہیں، سوائے
اِس کے کہ اگر اُسے بُرا کہنے میں اُس کے زندہ رشتہ داروں کو تکلیف ہوتی ہو، تو
اُسے بُرا نہ کہا جائے، اور اگر ایسا نہ ہو تو اُس کافر کی کوئی حُرمت نہیں(یعنی
اُسے بُرا کہنے میں کوئی حرج نہیں)،
إمام
النووی رحمہُ اللہ کے قول ، بغیر حق کے ، کا یہی مفہوم ہے، کیونکہ ہمارا حق ہے کہ ہم کافروں کے اُن مُردوں
کو بُرا کہیں جنہوں نے مُسلمانوں کو تکلیف پہنچائی ہو، یا مُسلمانوں سے لڑائی کی
ہو، یا، مُسلمانوں کے دِین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کی ہو،
یا،
شرعی مصلحت کی وجہ سے(بھی مر چکے لوگوں کو بُرا کہا جا سکتا ہے)مثال کی طور پر، اگر وہ مُردہ، کسی بدعت کو رائج کرنے رہا
ہو، ایسی صُورت میں (سب مُسلمانوں کی)مصلحت کے لیے ہم اُس مر چکے شخص کو بُرا کہیں
گے، اور اُس شخص کے بارے میں ، اور اُس کے (غلط)طریقے کے بارے میں لوگوں کو تنبیہ
کریں گے ، تا کہ لوگ اُس کی شخصیت کی وجہ سے گمراہ نہ ہو جائیں """،
إِمام محمد بن إ،سماعیل
الصنعانی رحمہُ اللہ نے """سُبلُ السلام/کتاب الجنائز""" میں لکھا کہ """ قَالَ ابْنُ رَشِيدٍ،إِ نَّ سَبَّ الْكَافِرِ يَحْرُمُ إذَا تَأَذَّى بِهِ الْحَيُّ
الْمُسْلِمُ وَيَحِلُّ إذَا لَمْ يَحْصُلْ بِهِ الْأَذِيَّةُ وَأَمَّا الْمُسْلِمُ
فَيَحْرُمُ إلَّا إذَا دَعَتْ إلَيْهِ الضَّرُورَةُ كَأَنْ يَكُونَ فِيهِ
مَصْلَحَةٌ لِلْمَيِّتِ إذَا أُرِيدَ تَخْلِيصُهُ مِنْ مَظْلِمَةٍ وَقَعَتْ مِنْهُ
فَإِنَّهُ يَحْسُنُ بَلْ يَجِبُ إذَا اقْتَضَى ذَلِكَ سَبَّهُ وَهُوَ نَظِيرُ مَا
اُسْتُثْنِيَ مِنْ جَوَازِ الْغَيْبَةِ لِجَمَاعَةٍ مِنْ الْأَحْيَاءِ لِأُمُورٍ::: (علامہ)ابن رشید نے کہا، کسی (مر چکے )کافر کو بُرا کہنا اُس وقت حرام
سمجھا جائے گا ، جب، اُس کو بُرا کہنا کِسی مُسلمان کے لیے تکلیف کا سبب بنتا
ہو(خیال رہے یہ تکلیف کسی مُسلمان کی اُس کافر سے شرعی طور پر کسی ناجائزلگاؤ
وغیرہ کی وجہ سے ہو تو اُس کا کوئی خیال نہیں
رکھا جائے گا)،اور ، اگر (کسی مُسلمان کو )کوئی اذیت نہ ہوتی ہو ، تو پھر
مُردہ کافر کو بُرا کہا جا سکتا ہے، اور
اگر مُسلمان مُردہ شخصیت ہو تو ، پھر سوائے(شرعی طور پر جائز) ضرورت کے اُس کی
کوئی بُرائی ذِکر کرنا حرام قرار دِیا
جائےگا، مثلاً ، اگر ایسا کرنے میں اُس میّت کی ہی مصلحت ہو، کہ اگر اُس نے کِسی کا کوئی حق مارا ہو، تو اُس کا ذِکر کرنا اچھا
سمجھا جائےگا، بلکہ واجب ہے کہ(حق دار کا حق دِلوانے کے لیے)اگر اُس مرنے والے کی (حق تلفی کرنے والی) بُرائی کا
ذِکر کیا جائے، تاکہ(وہ حق ادا کر کے )اُس میّت کو عذاب سے بچایا جانے کی کوشش کی
جائے، یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ(بُرائی والے لوگوں کی بُرائی سے بچانے کے لیے
) زندہ لوگوں میں سے ( ایسے بُرے لوگوں)کی غیبت کرنا جائز ہوجاتا ہے"""،
اِس کے عِلاوہ بھی عُلماء کرام رحمہم اللہ نے اِس مسئلے کو مختلف اِلفاظ میں واضح کیا ہے،
جِس کا حاصل کلام وہی ہے جو پہلے عرض کیا
گیا کہ """اگر کسی مُردے کی کوئی بُرائی
ذِکر کرنے میں اُس مُردے کی ہی خیر ہو، یا ، دیگر مُسلمانوں کی خیر ہو تو پھر کسی
ایک یا چند ایک کی دِل آزاری کا خیال نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اکثریت کی مصلحت
اور خیر کسی ایک کی یا چند ایک کی خیر پر مقدم ہے، لیکن ضرورت کی حد سے خارج نہیں
ہوا جائے گا"""،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب
کو خیر سمجھنے ، ماننے اور اپنانے کی
توفیق عطاء فرمائے،
و السلام علیکم،طلب گارء دُعاء ،
عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 27/10/1437 ہجری ، بمطابق
، 01/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ
درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment