::::::: اپنے اِیمان کی جانچ کیجیے
:::::::
بِسّمِ
اللَّہِ الرَّحمٰن ِ الرِّحیم، و
الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیٰ رِسولہِ الکریم
السلام
علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
تمام اِنسان مُعاشرتی معاملات
میں ایک دُوسرے کے ساتھ مل جل کر اُن مُعاملات کو نمٹانے پر مجبور ہیں کہ کہیں
کوئی تنہا اپنی مُعاشرتی زندگی کے مُعاملات اور ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتا ،
اور مُعاشرتی زندگی میں اِنسانوں کے درمیان مُختلف
مُعاملات کے بارے میں اِختلاف واقع ہونا ایک فِطری سی بات ہے ، لیکن اس اِختلاف کو
اگر ختم نہ کیا جائے اور اُس میں اپنی اپنی ضد پر قائم رہا جائے تو اُس کے نُقصانات
بسا اوقات بے شمار ہوتے ہیں اور صدیوں اور نسلوں پر محیط رہتے ہیں ،
اِنسانی زندگی کے مُعاملات
میں سے سب سے أہم معاملہ دین کا ہے ، جس سے اِنسان کی دُنیا اور آخرت کا پر
معاملہ وابستہ ہوتا ہے ، بحیثیت مُسلمان ہماری زندگی کا کوئی معاملہ دِین سے خارج
نہیں ہوتا ، کسی مُسلمان کو یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ اپنے معاملات میں کچھ کو دِینی
سمجھے اور کچھ کو محض دُنیاوی اور پھر جس طرح چاہے اُن کو نمٹاتا رہے ،
اِختلافات کے خاتمے کے لیے
ضروری ہے کہ اِختلاف کرنے والوں کے لیے کوئی صاحب عدل اور رحمت والی ہستی فیصلہ
کرے ، اور اِس حق سے اِنکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ اکیلے لا شریک خالق اللہ تبارک
و تعالیٰ سے بڑھ کر رحیم و رحمن اور انصاف کرنے والا کوئی نہیں ،
جس نے اپنی مخلوق کے اِختلافات کے خاتمے کے لیے
اُن کی طرف اپنے رسول بھیجے اور اپنے دِین کی دعوت دی ، پھر جنہوں نے اِس دِین کو
قبول کیا اور اِیمان والوں میں شامل ہو گئے ، اِن اِیمان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ
نے اپنے بے مثال عدل اور بے کراں رحمت کی بنا پر اُن کے ہر اِختلاف کے بارے میں
فیصلہ کرنے کے لیے ایک حاکم مقرر فرما دیا (((
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ
يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ
حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا :::پس(اے محمد) آپ کے رب کی قسم ہے
یہ لوگ کبھی اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے
اِختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں(اور )پھر آپ جو کچھ فیصلہ
فرمائیں (اُس فیصلے کے بارے
میں )اپنے دِلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور( آپ کے فیصلوں کو )خوشی سے قبول کریں)))،
سُورت النِساء(4)/آیت 65،
پس یاد رکھنے کی بات ہے کہ
اِیمان صرف کسی قول کا نام نہیں ، صِرف اتنا ہی نہیں کہ کوئی """ لا اِلہَ اِلّا اللہ و مُحمدً رُسولُ اللہ """ کی ز ُبانی گواہی دے
دے ، لازم ہے کہ اس گواہی اور اس قول کا تقاضا پورا کیا جائے کہ کہنے والے کو یقین
کامل ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی اور معبود نہیں ، اس کے علاوہ جتنے بھی معبود
تھے ، ہیں یا ہوں گے سب باطل تھے اور ہیں اور ہوں گے ، اور اللہ ہی اکیلا حقیقی
نفع پہنچانے والا ہے ، نُقصان پہنچانے والا ہے ، وہی حقیقی حاکم ہے اور سب کچھ اُسی
کی مَشیئت سے واقع ہوتا ہے ، اور اُس کے عِلاوہ کوئی شریعت بنانے والا نہیں ، اپنے
انبیاء و رُسل علیہم السلام میں سے جسے
کتنا چاہا اتنا اختیار اور عِلم دیا ،
لہذا یاد رکھنا چاہیے کہ
اِیمان محض الفاظ کی ادائیگی میں محدود نہیں ، اللہ کے اِس مذکورہ بالا فرمان کے مُطابق
اِیمان کی دُرُستگی اور تکمیل کی نشانیوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اِختلافات کی صُورت
میں اِیمان والے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلوں پر ہی
خوش دلی سے عمل کرتے ہیں ، اور اگر ایسا
نہ کریں تو اللہ کے ہاں اُن کا شُمار اِیمان والوں میں نہیں ہوتا ، اللہ سُبحانہ ُ
و تعالیٰ کے فرمان مُبارک پر غور فرمایے ،
(((فَلاَ
وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ::: پس(اے
محمد) آپ کے رب کی قسم ہے یہ لوگ کبھی اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب
تک کہ اپنے اِختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں)))،
یعنی اللہ کے ہاں اِیمان والوں میں شُمار ہونے کے لیے لازم ہے کہ
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنے اِختلافات کے بارے میں حاکم مانا جائے ،
اور یہ ماننا محض لفاظی نہ ہو ، بلکہ اِس پر کِسی منطق ، فلسفے ، شرط اور چُوں و چَراں
کے بغیر عمل کیا جانا لازم ہے ، ((( حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ
بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ
وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ::: جب تک کہ اپنے
اِختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں(اور )پھر آپ جو کچھ فیصلہ
فرمائیں (اُس فیصلے کے بارے
میں )اپنے دِلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور( آپ کے فیصلوں کو )خوشی سے قبول کریں )))،
محبت ء رسول صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم ، اور حق پرستی کے صرف ز ُبانی
دعووں اور نعروں کی بجائے، عملی طور پر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل تابع فرمانی کرتے ہوئے اُن صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دے سکیں ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی
تعلیمات کے مُطابق عملی مُسلمان بن کر رہ
سکیں ، تا کہ ، اللہ عزّ و جلّ کے ہاں حقیقی اور سچے اِیمان والوں میں شمار ہو سکیں ۔
والسلام علیکم ورحمۃُ اللہ و
برکاتہ،
طلب گارء دُعا ، عادِل سُہیل
ظفر ۔
تاریخ کتابت : 21/08/1432 ہجری ،بمُطابق ، 22/07/2011عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخہ درج ذیل ربط پر
مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment