صفحات

Tuesday, June 6, 2017

::: حدیثء نبوی کے اِستعمال میں دو انتہائی رویے :::

::: حدیثء نبوی کے  اِستعمال میں دو انتہائی رویے :::
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمدٌ  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سَلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خسَرَ مَن أَبتدعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عَدھا حَسنۃ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
اھل سنّت و الجماعت کے تمام مذاھب اور مسالک  اِس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ اللہ کے دِین کو جاننے کے دو بنیادی مصادر ہیں ،
::: (1) :::  کتاب اللہ ، قران کریم ،
::: (2) :::  سُنّتء رسول،  قولی سُنّت (حدیث )، فعلی سُنّت (کام )، تقریری سُنّت (جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دیکھے سنے اور اُن کا اِنکار نہیں فرمایا )،
اِن دو مصادر  کے بعد  آتے ہیں قیاس و اجتھاد ،   یعنی جن معاملات میں قران و حدیث میں کوئی واضح نص مُیسر نہ ہو اُن کے لیے کِسی دُوسری نص پر قیاس کرتے ہوئے معاملے کا حل تلاش کرنا ،  لیکن عقیدے اور عِبادات کے معاملات میں قیاس و اجتھاد کی  قطعا کوئی گنجائش نہیں  ہے ،
یہ بات انتہائی واضح ہے کہ سُنّت رسول  سے رُو گردانی کرتے ہوئے ہم اللہ کے دِین کے بہت سے مسائل میں حق تک نہیں پہنچ سکتے ، مثلاً  طہارت و پاکیزگی اختیار کرنے کے مسائل ، حج و عمرے کے مسائل ، مُردے کی تغسیل ، تکفین و تدفین کے معاملات وغیرہ،  لہذا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ   کے بغیر اللہ کے دِین کو حق طور پر جاننے کی ، اور  اللہ عزّ و جلّ کے فرامین اور احکام میں اللہ پاک کی مُراد جاننے کی کوئی سبیل نہیں ،
کیونکہ اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے رسول کریم کو  ہی یہ منصب عطاء فرمایا تھا، کہ وہ اللہ کے کلام کو قولی اور عملی طور پر بیان فرمائیں ((( بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ :::اور(اے محمد)ہم نے آپ کی طرف ذکر (قران)نازل کیا تا کہ آپ لوگوں کے لیے واضح فرمائیں کہ اُن کی طرف کیا اتارا گیا ہے اور تا کہ وہ غور کریں))) سورت النحل(16)/ آیت44،
اور مزید تاکید فرمائی کہ((( وَمَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُواْ فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ::: اور(اے محمد )ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب صرف اس لیے اتاری ہے کہ یہ لوگ جِس(چیز  ) میں(بھی) اِختلاف کرتے ہیں  آپ اِن لوگوں پر(اِس کتاب کے مطابق)وہ (چیز)واضح فرما دیجیے ، اور(ہم نے یہ کتاب)ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت (بنا کر نازل کی ہے) )))سورت النحل(16)/آیت64،
::::: اللہ تبارک و تعالیٰ  کے ان دو فرامین میں ہمیں بڑی وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ پاک  کی نازل کردہ کتاب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام مُبارک کی وضاحت اور بیان  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذمہ داری تھی ، لہذا اللہ تعالیٰ  کی کتاب قران  کریم میں سے ہر ایک بات کو سمجھنے کے لیے، اللہ  پاک کے ِاسی کلام  شریف کے بعد سب سے پہلے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ  اور عمل مُبارک کو  ہی  دیکھا جائے گا ،
لغوی قواعد ، منطقی قیاس آرائیاں ، عقلی چہ میگوئیاں ، فلسفیانہ غوطہ بازیاں ، تخیلات کی پروازیں ، سب کی سب قطعا کوئی حجت  نہیں ہیں ، کوئی دلیل نہیں ہیں ، جبکہ تک کہ انہیں اللہ  تعالیٰ کے کلام سے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ سے سند ءِقُبولیت حاصل نہ ہو ،
اور ان دو مصادر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے براہ راست شاگردوں ، مدرسہ ءِ رسالت سے دین سیکھنے اور اللہ کے کلام کے معانی اور مفاہیم سیکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین، جن کے دِلوں کے تقوے کی گواہی اللہ پاک نے دی ، ان کی جماعت کے اقوال و افعال سے  ورنہ تو  گمراہی ہی گمراہی ہے ،
 جس کا شکار خوشی فہمیوں میں گِھرے ہوئے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خود کو قران سمجھنے والے سمجھتے  ہیں اور جہالت زدہ  فلسفوں کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں ،
 یہاں تک کبھی """صحیح ثابت شدہ سنت """ کا ہی  انکار کرتے ہیں اور تو کبھی کسی """غیر ثابت شدہ روایت """کو  مانتے ہیں ،
  کبھی قران کریم کے عِلاوہ ہر ایک کتاب کو ناقابل اعتماد قرار دیتے ہیں ، اور کبھی پھر انہی کتابوں میں سے اپنے لیے دلائل بھی پیش کرتے ہیں ، کبھی أئمہ اور عُلماء رحمہم اللہ کا ادب کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی اُن کو جھوٹا اور جاہل ثابت کرنے کی کوشش میں مشغول نظر آتے ہیں، اِن لوگوں کی مثال اُس شخص جیسی ہے جسے خود ہی اپنے احوال کا پتہ نہیں ہوتا ، اپنے ہی اقوال کے جال میں اُن کے فلسفوں کے پاؤں پھنسے رہتے ہیں ، جتنا نکالنا چاہیں اتنی ہی نئی گرہیں اُن  لوگوں  کے گِرد لگتی چلی جاتی ہیں ،
اللہ عزّ و جلّ نے ایسے لوگوں کی حالت اپنے مُبارک اِلفاظ میں یُوں بیان فرمائی ہے کہ (((  مُّذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لاَ إِلَى هَـؤُلاء وَلاَ إِلَى هَـؤُلاء وَمَن يُضْلِلِ اللّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلاً ::: وہ  لوگ اس کے درمیان میں تذبذب کا شکار رہتے ہیں ، نہ تو اِن کی طرف ہوتے ہیں ، اور نہ ہی اُن کی طرف ، اور(اے محمد )جسے اللہ گمراہ کرے آپ ہر گِز اس کے (ہدایت) کا کوئی راستہ نہیں پا سکتے)))سورت النساء(4) /آیت143، 
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین  رحمہم اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کا یہ فرمان مبارک بھی ذکر  کیا ہے ،
 عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا      ((( مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَمَثَلِ الشَّاةِ الْعَائِرَةِ بين الْغَنَمَيْنِ تَعِيرُ إلى هذه مَرَّةً وَإِلَى هذه مَرَّةً:::منافق کی مثال اُس بکری کی طرح ہے جو دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے کبھی ایک  کی طرف مائل ہوتی ہے اور کبھی دُوسرے کی طرف)))صحیح مُسلم /حدیث 2784 /کتاب صِفات المُنافِقِینَ وأٔحکامِھِم ،
پس ایسے لوگ  جو کبھی کچھ کہتے ہیں ، اور کبھی کچھ ، اپنی  ہی آراء پر مطمئن نہیں ہوتے ، اپنی  باتوں کو ہی ٹھیک دِکھانے کے لیے کبھی اُنہی  مصادر سے دلیل لاتے ہیں جِن پر بد اعتمادی کا اظہار کرتے ہیں ، اور  کبھی اُن إصادر سے جِن کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی ہی نہیں ، ایسے لوگ مُنا فقین کی صف میں شُمار ہوتے ہیں ،
قارئین کرام ، یاد رکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  اللہ پاک کی وحی کے مطابق ہی کلام فرماتے تھے ،  اِس کی گواہی بھی اللہ پاک نے دی ہے (((((وَ مَا یَنطِقُ عَنِ الھَویٰٓ O اِن ھُوَاِلاَّ وحیٌ یُوحَیٰ:::اور وہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )اپنی مرضی سے بات نہیں فرماتےOوہ(یعنی اُن کی بات )تو صِرف(اللہ کی طرف ) سے کی گئی وحی ہوتی ہے )))))) سورت النجم(53)  /آیات 3 ، 4 ،
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ کا معاملہ ایسا نہیں  کہ جو کچھ چاہا اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات کے  طور پر مان لیا ، نشر کر دِیا ،
حدیث شریف کے اِستعمال  میں مرور ء زمانہ کے ساتھ ہم اِس وقت ایسے حالات تک آن پہنچے ہیں کہ،
 ایک طرف تو بغیر کِسی تحقیق و تصدیق کے کِسی بھی روایت کو حدیثء رسول مان کر نشر کردِیا جاتا ہے اور مسائل اخذ کیے جاتے ہیں ،
اور دُوسری  طرف  ایسے لوگ ہیں جو روایات ءحدیث  کی تدوین اور تحقیق کے عُلوم سے دُور ہیں ،  حدیث کو محض اپنی عقل ، سوچ و فِکر پر پرکھتے ہیں ، اعتراضات کرتے ہیں ، حتیٰ کہ صحیح اور ضعیف  کا فرق جانے بغیر مطلقًا سب ہی احادیث کا اِنکار ہی کر دیتے ہیں،
جب کہ یہ معروف ہے کہ صدیوں پہلے سے مُسلمانوں میں ضعیف روایات مروج کرنے کا کام شروع  ہو چکا تھا، جِس کی دو وجوہات بتائی جاتی ہیں ،
::: (1) :::  لوگوں میں دِین کی رغبت پیدا کرنے کے لیے فضائل اور وعید پر مبنی روایات  بنائی گئیں ،
::: (2) :::  مُسلمانوں کو اُن کے دِین  کےمسائل میں گمراہ کرنے ، حق سے دُور کرنے کے لیے روایات بنائی گئیں ،
اور یہ بات محدثین کرام رحمہم اللہ کے لیے معروف تھی ، اِسی لیے امام بخاری اور امام مُسلم  رحمہما اللہ جیسے عظیم المرتبہ محدثین نے لاکھوں روایات میں سے چھان پھٹک کر ، بڑی ہی باریک بینی سے تحقیق کر کے اپنی  صحیح کتابوں میں صِرف صحیح روایات شامل کیں ،
اور تقریباً سب ہی محدثین نے تمام روایات اسناد کے ساتھ نقل کیں تا کہ راویوں کی جانچ کے مُطابق کِسی روایت کے صحیح یا ضعیف ہونے کی پہچان کی جا سکے ،
روایات حدیث میں سے صحیح اور ضعیف کی تفریق کوئی ماضی قریب کی بات نہیں ، بلکہ صدیوں پہلے محدثین کرام نے ضعیف روایات کو الگ الگ کتابوں میں جمع کرنے کا کام شروع کر دِیا تھا،
مثلاً امام محمد بن طاھر المقدسی رحمہُ اللہ (متوفی 507ہجری) نے  "تذکرۃ الموضوعات " لکھی ،
امام الحسین الجوزقانی رحمہُ اللہ (متوفی 543ہجری) نے "کتاب الاباطیل، الموضوعات من الاحادیث المرفوعات" لکھی،
امام ابو الفرج عبدالرحمن ابن الجوزی  رحمہُ اللہ (متوفی 597ہجری) نے "الموضوعات "لکھی ،
یہ صِرف چند مثالیں ہیں تا کہ  قارئین کرام کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ صحیح اور ضعیف احادیث کا"شور"ماضی قریب کے کِسی "گستاخ"کی کاروائی ہے ،
بحیثت مُسلمان ہمیں اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہر بات دُوسروں  تک پہنچانی چاہیے ، کیونکہ ہمیں یہی ترغیب دی گئی ہے (((بَلِّغُوا عَنِّی وَلَو آیَۃً :::میری طرف سے( آئی ہوئی باتوں کی)تبلیغ کرو خواہ (تُمہارے پاس اُن میں سے ) ایک ہی بات کیوں نہ ہو)))صحیح البخاری /کتاب الانبیاء /باب51،
لیکن اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد  رکھنا ہی چاہیے کہ کِسی بھی روایت کو حدیث کے طور پر نہ تو ماننا چاہیے اور نہ ہی اُسے دُوسروں تک پہنچانا چاہیے ،
ذرا غور سے پڑھیے کہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس بارے میں کیا فیصلہ صادر فرما رکھا ہے :
((( مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ::: جِس نے مجھ پر جھوٹ منسوب کیا اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا)))صحیح بخاری /حدیث/107کتاب العِلم/باب 38،
((( إِنَّ كَذِبًا عَلَىَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ فَمَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ:::یقیناً مجھ سے جھوٹ منسُوب کرنا کسی بھی اور سے جھوٹ منسُوب کرنے کے جیسا نہیں ، بلکہ جِس نے جانتے بوجھتے ہوئےمجھ سے جھوٹ منسُوب کیا(یعنی بلا تصدیق و ثبوت کوئی بات یا کام منسُوب کر دِیا)تو اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا)))صحیح مُسلم/حدیث/5مقدمہ/باب 2،
اِس مفہوم کی صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ تقریباً حدیث شریف کی ہر کتاب میں موجود ہیں ،
میں نے صِرف صحیح بخاری شریف اور صحیح مُسلم شریف کی روایات پر ہی اکتفاء کیا ہے ، کہ یہ دونوں کتابیں حدیث شریف کی تمام کتابوں میں سے سب سے زیادہ صحیح ترین اور قابل اعتماد ہیں ، 
::::::: فقہ الأحادیث،شرح اور أحکام :::::::
ہمارے کئی  مُسلمان بھائی بہنیں نیک نیتی ہی بِنا ءپر ،  ایسی روایات سناتے اور نشر کرتے رہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، یا فعلی ، یا تقریری سُنّت شریفہ کے طور  ثابت نہیں ہوتیں ،
بلکہ اُن میں سے اکثر روایات تو ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی حوالہ ، کوئی سند ہی نہیں ملتی ، اور کئی ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں صدیوں پہلے محدثین کرام رحمہم اللہ یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ روایات لوگوں کی خود ساختہ مَن گھڑت روایات ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک سے ثابت نہیں ہوتِیں،
جھوٹی ، غیر ثابت شدہ روایات کو بطور حدیث و سنّت پھیلانے والوں میں ہمارے کچھ بھائی بہنیں مذکورہ بالا احادیث شریفہ میں سے لفظ " مُتَعَمِّدًا" کا معنی " اِرادۃً" کرتے اور سمجھتے ہیں ، اور  یہ گمان رکھتے ہیں کہ "ہم جان بوجھ کر تو کوئی جھوٹ منسوب نہیں کرتے ، ہم تو مختلف کتابوں میں مذکور روایات بیان کرتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ"،
جب کہ اُن کا گمان نا دُرست ہے ،
یہ میرا ذاتی فہم نہیں ، بلکہ ایک جلیل القدر صحابی أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ کے فرمان کے مُطابق ہے ،
أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا ہے کہ""" میں تُم لوگوں کو اِس لیے زیادہ حدیثیں نہیں سنُاتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ(((مَنْ تَعَمَّدَ عَلَىَّ كَذِبًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ::: جِس نے بلا تصدیق کوئی بات مجھ سےمنسُوب کرنے کا اِرادہ کیا تو یقیناً اُس نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا)))"""صحیح مُسلم/حدیث/3مقدمہ/باب 2،
أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ کا یہ قول صاف صاف سمجھا رہا ہے کہ """ مُتَعَمِّدًا، یا ، تَعَمَّدَ """سے مُراد جھوٹ بنا کر منسوب کرنا  ہی نہیں ، کیونکہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں ایسا کرنے کا تصور بھی محال ہے ،
بلکہ""" مُتَعَمِّدًا، یا ، تَعَمَّدَ """کا مفہوم """بلا تصدیق"""ہے ،  پس ہمیں یہ یاد رکھنا ہی چاہیے کہ حدیث کی کسی روایت کو بلا تصدیق نہ ہی مانا جائے اور نہ ہی دُوسرے تک پہنچایا جائے،
اللہ سُبحانہُ و تعالٰی ہم سب کو  حق جاننے ، ماننے ،اپنانے اور اُسی پرعمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہو کر اُس کی رضا اور بخشش پانے والوں میں سے بنائے ، والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 06/09/1438ہجری، بمُطابق،01/06/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment