صفحات

Monday, July 24, 2017

::::::: میانہ روی، اعتدال کیا ہے ؟:::::::


::::::: میانہ روی، اعتدال کیا ہے ؟:::::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
 بہت سی اصطلاحات اپنے اصلی مفاہیم سے دُور ہو چکی ہیں ، یا یوں کہیے کہ لوگوں میں اُن کے اصلی مفاہیم ناپید ہو چکے ہیں ، اور اُن کی جگہ مختلف معانی اور مفاہیم لے چکے ، جان بوجھ کر ایسا کیا گیا ہو یا نادانستگی میں ایسا ہوا ہے ، یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسا ہو چکا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے ،
ایسی اصطلاحات میں سے ایک """ میانہ روی """ ہے ، جسے عربی میں """ الوسطیۃٌ """ کہا جاتا ہے
 لوگوں کے ہاں اب اس کا مفہوم کچھ کا کچھ ہو چکا ہے ،  عموماً  لوگ میانہ روی سے یہ مُراد لیتے ہیں کہ"بُرائی کو بُرائی ، بُرے کو بُرا مت کہیے ، بس خود اچھائی کیے جایے "،
جب کہ  ہمیں ہمارے اور ساری ہی مخلوق کے اکیلے خالق و مالک اللہ جلّ شانہ ُ نے اپنے دِین حق  اِسلام میں  یہ میانہ روی  سِکھائی ہے کہ  :::
  """ اِنسان اپنے معاملات میں ، خواہ وہ دِینی ہوں یا دُنیاوی ، اُن میں غُلو نہ کرے ،
 یعنی اللہ عزَّ و جلَّ  کی مقرر کردہ حُدود سے نہ تو کِسی طور  تجاوز نہ کیا جائے ،  اور نہ ہی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی مقرر کردہ حُدود میں کِسی انداز میں کوئی  کمی نہ کی جائے  ،
 اور یہ ہے کہ نبی اللہ  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سیرت مُبارکہ پر  بھی اِسی طرح کِسی زیادتی یا کمی کے بغیر مضبوطی سے عمل پیرا رہا جائے ،
مثا ل کے طور پر ، کوئی شخص یہ کہے کہ چونکہ نماز سے عِبادات میں سے اِفضل عِبادت ہے لہذا میں چاہتا ہوں کہ میں ساری رات جاگ کر نماز پڑھا کروں ،  لہذا میرا اِرادہ ہے کہ میں ساری رات جاگا کروں اور کبھی نہ سویا کروں ،  تو ایسے شخص کے بارے میں ہم کہیں گے کہ یہ شخص غالٍ ہے ،  یعنی ،  دِین میں غُلو (زیادتی ، حدود سے تجاوز )کرنے والا ہے اور راہِ حق پر نہیں ہے ،
 اِس بات کو اِس واقعہ سے سمجھیے کہ  ایک دفعہ تین صحابہ رضی اللہ عنہم اِیمان والوں کی ماؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پاکیزہ بیویوں کی خدمت میں  حاضر ہوئے ، اور اُن ایک نے کہا """ میں ہمیشہ (ہر رات )جاگا کروں گا اور سویا نہیں کروں گا """ ،
دُوسرے  نے کہا """میں ہمیشہ (ہر دِن) روزہ رکھا کروں گا اور کبھی بغیر روزے کے  نہیں رہوں گا """،
تِیسرے  نے کہا """ میں شادی نہیں کروں گا """،
رسول  اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو اِرشاد فرمایا (((أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا والله إني لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ له لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عن سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي:::  تُم لوگ یہ یہ باتیں کرتے ہو اور میں تُم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اللہ (کی ناراضگی اور عذاب )سے بچنے (کے لیے محنت کرنے )والا  ہوں ، اور لیکن میں(کبھی )روزہ رکھتا  بھی ہوں    اور (کبھی)  نہیں بھی رکھتا ،  اور (راتوں میں ) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور شادیاں بھی کرتا ہوں لہذا جِس نے میری سُنّت سے مُنہ پھیرا وہ مجھ میں سے نہیں )))صحیح البُخاری /حدیث4776 /کتاب النکاح /باب 1، صحیح مُسلم  /حدیث1401 /کتاب النکاح /باب1 ،
اِن تینوں نے دِین میں غُلو(کے اِرادے  ظاہر کر کے قولی طور پر غُلو )کیا تو رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے (اُن لوگوں سے ناراضگی کا اِظہار فرماتے ہوئے)ایسا کرنے والوں  سے اپنی برأت کا اعلان فرمایا ، کیونکہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے مُنہ پھیرا  جس میں (نفلی) روزہ رکھنا اور نہ رکھنا ، (نفلی)نماز کے لیے رات میں جاگنا اور سونا،اور عورتوں سے شادی کرنا سب ہی کچھ شامل  ہے،
:::   مُلاحظہ :::گو کہ اُنہوں نے  یہ اِرادے اپنی   عِبادات کی تعداد میں إضافہ کرنے کے لیے ، اپنے لیے زیادہ نیکیاں کمانے کے لیے کیے تھے  لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن کی باتوں کو ناپسند فرماتے ہوئے اُن باتوں پر عمل کرنے کی صُورت میں شدید نقصان اور ناکامی کی خبر دی  ،
یعنی اُن سے اپنی براءت کا اظہار فرمایا [[[ اِس موضوع کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے میری کتاب "وہ ہم میں سے نہیں" کا مطالعہ فرمایے ، یہ کتاب درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :     http://bit.ly/1JgaCOH     ]]]
رہا معاملہ تقصیر (یعنی کمی ) کرنے والوں کا تو وہ ایسے لوگ ہیں جو(کچھ اِس طرح ) کہتے ہیں کہ""" ہمیں نفلی عبادات اور نیکیوں کی ضرورت نہیں  لہذا ہم تو صرف فرض پورے کرتے ہیں""" اور عین ممکن ہے کہ ایسا کہنے والے فرائض بھی پوری طرح سے ادا نہ کرتے ہوں ،
اور معتدل (یعنی میانہ رو ) وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اُن کے خُلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کی راہ پر چلتا ہے ،
:::دوسری  مِثال ::: تین آدمیوں کا سردار ایک  فاسق شخص   ہو ،
ایک آدمی کہے  ، میں تو اِس فاسق کو سلام تک بھی نہ کروں گا ،اور نہ ہی اس بات کروں گا،اور اسے چھوڑ کر دُور چلا جاؤں گا ،
اور دُوسرا آدمی کہے ، میں اِس فاسق کے ساتھ چلوں گا ، اِسے سلام بھی کروں گا ، اور اُس کے ساتھ خوش اِخلاقی کے ساتھ پیش آؤں گا اور اُسے اپنے پاس دعوت بھی دوں گا اور اُس کی دعوت قُبول بھی کروں گا ،میں تو اُسے ایک اچھا آدمی سمجھتا ہوں  
اور تیسرآدمی کہے ، یہ فاسق ہے لہذا میں اِس کے فِسق کی وجہ سے اِس کو پسند نہیں کرتا لیکن اِس کے اِیمان کی وجہ سے اِس سے نفرت بھی نہیں کرتا اور نہ ہی میں اِسے چھوڑ ں گا سوائے اِس کے کہ اُسے چھوڑنے میں اُس کی اِصلاح کا اِمکان ہو ، لیکن اگر اُسے چھوڑنا اُس کے مزید بگاڑ کا سبب ہو سکتا ہو تو میں اُسے  نہیں چھوڑں گا ، بلکہ نصیحت کرنے کے لیے اُس کے آس پاس رہوں گا ،  
تو اِس مِثال میں پیش کردہ تین آدمیوں میں سے پہلا تو غُلو کرنے والا ہے ، اور دُوسرا تقصیر کرنے والا اور تیسرا میانہ روی والا ،
پس اِسی طرح ہم سارے ہی دِینی و دُنیاوی معاملات کے بارے میں غلو کرنے والوں ، تقصیر کرنے والوں اور میانہ روی پر عمل کرنے والوں کو پہچانیں گے ،  
::: تِیسری  مِثال ::: (تین مختلف مَرد جن میں سے) ایک شخص کی بیوی اُس کی عقل و ہوش پر حاوی ہو چکی ہو یہاں  تک کہ اُس کی مرضی کے بغیر وہ کچھ بھی نہ کرتا ہو، جہاں وہ بیوی چاہے اور جیسے چاہے اُسے اِستعمال کرتی ہو ، اور یہ شخص اپنی بیوی کو نہ تو کِسی برائی سے روک سکتا ہو اور نہ ہی کسی خیر کی طرف مائل کر سکتا ہو ،
اور دُوسرے شخص کا مُعاملہ یہ ہو کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ تکبرانہ رویہ رکھتا ہو اُس کی کوئی پرواہ نہ کرتا ہواور اُس بیوی کی بجائے نوکرانی سمجھتا ہو ،اُس کی کِسی بات کو ماننا تو درکنار  سُننا بھی مُناسب نہ سمجھتا ہو،
اور تیسرے شخص کا مُعاملہ یہ ہو کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کے مُطابق رویہ رکھتا ہو (کہ  اللہ کا حکم ہے) ، (( (وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ::: اور  جانے پہچانے طریقے سے عورتوں کے لیے (حقوق کا معاملہ ) لیے بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ اُن پر (فرائض  کا )ہے ))) سُورت  البقرة  (2)  / آیت228،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حُکم ہے  (( (لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مؤمنه إن كَرِهَ منها خُلُقًا رضى منها آخَرَ::: کوئی اِیمان والا (خاوند) کسی اِیمان والی (بیوی )کو غُصہ (اور غُم ) نہیں دِلاتا ، اگر اُس (بیوی) کا کوئی کام خاوند کو نا پسند ہو تو (وہ خاوند سوچے کہ )کوئی کام پسند بھی ہو گا )))صحیح مُسلم/حدیث1469 /کتاب الرضاع /باب 18،
تو اِس مِثال میں یہ آخر والا تیسرا  شخص متوسط (یعنی میانہ رو) ہے ، اور پہلا شخص  غُلو کرنے والا، اور دُوسرا شخص مُقصر (یعنی تقصیر ، کمی کرنے والا ) ہے ،
آپ انہی مِثالوں کے مُطابق  اپنے اور دُوسروں کے تمام دِینی اور دُنیاوی معاملات میں اُن کا رویہ دیکھ کر کِسی کے بارے میں یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کون میانہ روی پر عمل پیرا ہے """ (شیخ محمد العُثیمین رحمہ ُ اللہ کے ایک بیان سے ماخوذ ) ،
اِس بیان کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ میانہ روی اور تقصیر میں بہت فرق ہے ، کچھ لوگ اپنی تقصیر کو میانہ روی کا نام دے کر اُسے اِسلام کے پردے میں لپیٹتے ہیں اور اُسے جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک غیر ثابت شدہ بات((( خَیر الأمور أوساطھا ))) کو رسول اللہ صلی ا للہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرمان کے طور پر   مان کر اپنی تقصیر کی دلیل بناتے ہیں ، گو کہ یہ قول حدیث نہیں ہے ، لیکن ہے حِکمت والی بات ، اور اِس میں میانہ روی کو خیر کہا گیا ہے نہ کہ غُلو یا   تقصیر کو ، اِس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمارے اکثر مُسلمان بھائی بہن اپنے دِینی اور دُنیاوی معاملات اور احکام پر عمل نہیں کرتے اور کئی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر بات درست طور پر سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اپنی ذاتی سوچ و فِکر اور خوش فہمیوں پر مبنی حسنء ظن کی بنا پر لوگوں کے فلسفوں سے محفوظ رہنے کی ہمت عطاء فرمائے ، کہ یہ بھی میانہ روی میں سے ہے ۔
والسلام علیکم ،طلب گارء دُعاء ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 20/04/1431ہجری، بمُطابق، 05/04/2010عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment