صفحات

Thursday, July 27, 2017

:::::: مُنافق اور مُنافقت کی نشانیاں، نجات کا طریقہ::::::


:::::: مُنافق اور مُنافقت کی نشانیاں، نجات کا طریقہ::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جنون،اور اُس کے دیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
مُنافقت  کا معنی    ٰ ہے اپنے قول او رعمل سے وہ کچھ ظاھر کرنا جو دِل میں موجود عقائد و عزائم کے خِلاف ہو ،
اور اِسلام میں منافقت کا مفہوم ، دِل میں کفر ، شرک اور گناہوں کا اقرار اور عمل کے وجود کے ساتھ ، اپنے آپ کو قولی اور عملی طور پر   اِیمان  والا ،  اللہ کی توحید کو ماننے والا، اور گناہوں سے دُور رہنےو الا ظاہر کرنا ،
 اللہ تعالیٰ نے جہنم کا  سب سے نچلا   درجہ ،  منافقین ، یعنی ، منافقت کرنے والوں  کا ٹھکانہ   مقرر فرما رکھا ہے (((إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ::: یقیناً منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے  ))) سُورت النِساء (4)/آیت145 ،  
خواہ یہ منافق ، نفاق ء اکبر  (بڑی مُنافقت ) پر عمل کرنے والے ہوں ، یا نفاقء اصغر(چھوٹی مُنافقت ) پر، اعتقادی نفاق والے ہوں یا عملی مُنافقت والے ، سب کا ٹھکانہ وہی ہے ،
منافقت کی کچھ  خصوصیات ایسی بھی ہیں جنہیں اکثر لوگ محض نفسیاتی ، یا شخصی عادات سمجھتے ہیں ، جب کہ اللہ  تعالیٰ کے ہاں وہ منافقت والے کام ہیں ، اور اُن کاموں کو کرنے والے ، اُن صِفات کے حامل لوگ مُنافق ہیں ،
اللہ تعالیٰ نے  ہمارے لیے اُس کی شفقت و رحمت کے حصول کے اسباب میں سے ایک سبب  یہ بھی عطاء فرمایا ہے کہ اللہ پاک نے اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے  ہمیں اُس کے ہاں مُنافقت قرار پائے جانے والے کاموں کی خبر عطاء فرمادی ، اُس کے ہاں مُنافق قرار پائے جانے والوں کی صِفات کی پہچان عطاء فرما دی ،
آیے مُنافقت اور مُنافقت کی اُن نشانیوں کو جانتے ہیں  ،
::: (1) ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ ::: جِس میں(یہ)چار (خَصلتیں،صِفات، نشانیاں) ہوں وہ خالص مُنافق ہے ، اور جِس میں اِن میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اُس میں نِفاق کی خَصلت ہے یہاں تک کہ وہ اُسے چھوڑ دے ، (1) جب اُس کے پاس اَمانت رکھوائی جائے تو وہ اُس میں خیانت کرے (2)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (3)جب وعدہ کرے تو وعدہ خِلافی کرے(4)جب جھگڑا کرے تو پھٹ پڑے(یعنی بے حیائی پر اتر آئے))))متفقٌ علیہ،
::: (2) :::  اور اِرشاد فرمایا(((ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ، وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَ حَجَ وَ أعتمَرَ وَقَالَ إني مُسْلِمٌ: مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ:::جس میں تین (خَصلتیں،صِفات، نشانیاں)ہوں (تو)وہ مُنافق ہے خواہ  وہ نماز (بھی)پڑھتا ہو،اور روزہ(بھی) رکھتا ہو،اورحج(بھی) کرتا ہو،اور عمرہ(بھی) کرتا ہواور،(یہ بھی ) کہتا ہو کہ میں مُسلمان ہوں ،(یہ وہ شخص  ہے) جو (1)بات کرے تو جھوٹ بولے (2)وعدہ کرے تو وعدہ خِلافی کرے (3)جب اسے امانت داربنایا جائے تو خیانت کرے)))صحیح الجامع الصغیر /حدیث 3043،
::: (3) :::  اور اِرشاد فرمایا (((إِنَّ الْحَيَاءَ وَالْعَفَافَ وَالْعِيَّ عن اللِّسَانِ لا عِيَّ الْقَلْبِ،وَالْعَمَلَ مِنَ الإِيمَانِ، وَإِنَّهُنَّ يَزِدْنَ فِي الآخِرَةِ،وَيُنْقِصْنَ مِنَ الدُّنْيَا، وَمَا يَزِدْنَ فِي الآخِرَةِ أَكْثَرُ مِمَّا يُنْقِصْنَ فِي الدُّنْيَا ؛ وَإِنَّ الشُّحَّ والفُحشَ وَالْبَذَاءَ مِنَ النِّفَاقِ، وَإِنَّهُنَّ يَزِدْنَ فِي الدُّنْيَا، وَيُنْقِصْنَ مِنَ الآخِرَةِ، وَمَا يُنْقِصْنَ فِي الآخِرَةِ أَكْثَرُ مِمَّا يَزِدْنَ فِي الدُّنْيَا::: بے شک حیاء اورعِفت اور ز ُبان کی کم علمی نہ کہ دِل کی کم علمی، اور (اُس کے مُطابق)عمل اِیمان میں سے ہیں ، اور بے شک یہ سب آخرت (کی خیر)میں اضافہ کرتے ہیں ، اور دُنیا (کے شر)میں کمی کرتے ہیں، اور جو کچھ یہ آخرت میں اضافہ کرتے ہیں وہ دُنیا میں کمی سے زیادہ ہے ، اور بے شک لالچ ، اور بے حیائی،اور بے ہودہ گفتگو نِفاق میں سے ہیں اور یہ سب دُنیا (کے شر)میں اضافہ کرتے ہیں اور آخرت (کی خیر)میں کمی کرتے ہیں اور جو کچھ یہ آخرت (کی خیر)میں سے کم کرتے ہیں وہ اس سے زیادہ ہے جو یہ دُنیا میں سے بڑھاتے ہیں))) سلسلہ الاحادیث الصحیحہ/حدیث3381،
::::::: صحابہ رضی اللہ عنہم وأرضاھُم  أجمعین کے اقوال میں سے  :::::::
::::::: دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المومنین عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہما سےکا کہنا ہے کہ میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ (((إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُنَافِقَ الْعَلِيمَ::: میں اس اُمت پر صاحبء علم منافقوں کے بارے میں بہت ڈر رتا ہوں )))
پوچھا گیا ، منافق صاحبء علم کیسے ہو سکتا ہے ؟
تو أمیر المومنین عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہما نےاِرشاد فرمایا (((عَالِمُ اللِّسَانِ، جَاهِلُ الْقَلْبِ وَالْعَملِ ::: ز ُبان کا عِالم لیکن دِل اور عمل سے جاھل )))الاحادیث المختارہ /حدیث 236/ روایۃ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ ُ /ابو عثمان عبدالرحمٰن بن مل النھدی عن عمر رضی اللہ عنہ ُ ،
 صاحبء کتاب امام محمد بن عبدالواحد المقدسی کا کہنا ہے کہ اسے مخلتف اسناد سے روایت کیا گیا ہے ، جن میں مرفوع بھی ہیں اور موقوف بھی ہیں اور زیادہ درست یہ ہے کہ یہ موقوف ہے ، یعنی عُمر رضی اللہ عنہ ُ کافرمان ہے ،  
::::::: حذیفہ ابن الیمان رضی اللہ عنہ ُ سے پوچھا گیا کہ """ منافق کون ہے ؟ """
فرمایا """ الَّذِي يَصِفُ الْإِسْلَامَ وَلَا يَعْمَلُ بِهِ::: وہ جو اِسلام کا دعویٰ دار ہو لیکن اُس پر عمل نہ کرتا ہو"""
::::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ """ ہم حکمرانوں اور سرداروں  کے پاس جاتے ہیں تو کچھ اور بات (یعنی ان کی تعریف ہی)کرتے ہیں اور جب وہاں سے نکلتے ہیں تو  اس  بات کے خلاف  بات کرتے ہیں """ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ( ((كُنَّا نَعُدُّهَا نِفَاقًا::: ہم اُسے مُنافقت میں گنا کرتے تھے)))صحیح البخاری /کتاب الاحکام/باب 27،
مختلف الفاظ میں یہ اثر بہت سی کتابوں میں صحیح اسناد کے ساتھ مروی ہے ، مثلاً سُنن ابن ماجہ/حدیث 3975 /کتاب الفتن /باب 12،مسند احمد /حدیث 5829 ، وغیرھا،
مذکورہ بالا احادیث شریفہ ، اور اقوال ء صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  میں  مُنافق کی درج ذیل نشانیاں بتائی گئی ہیں :::
::: (1)  :::  خیانت ،       ::: (2)  :::  جھوٹ  ،      ::: (3)  :::  عہد شکنی ، وعدہ خِلافی  ،
::: (4)  :::  غداری ،     ::: (5)  :::  غصے کی حالت میں بے قابو ہو کر برائی اور بدکلامی پر اُ  تر آنا  ،
 ::: (6)  :::  لالچ ، ::: (7)  :::  بے حیائی  ،    ::: (8)  ::: بے ہودہ  گفتگو ، فحش  کلامی  ،
::: (9)  ::: بہت اچھی اور عالمانہ باتیں کرنا ، لیکن اُن کی حقیقت نہ جاننا ،
میرے محترم بھائی بہنوں ، اِن مذکورہ بالا  نشانیوں کی روشنی میں ہم سب ذرا اپنے بارے میں سوچیں تو    کہ ہم کونسی سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ؟ اور ہمارے اَرد گِرد کس کس میں کیا کیا نشانی پائی جاتی ہے ؟ اور اگر ہمارے اندر اِن میں سے کوئی نشانی ہے تو اُس سے نجات کی کوشش کریں ، اور اپنے  جِس  مُسلمان بھائی بہن میں اِن میں سے کوئی نشانی پائیں اُسے بھی حِکمت اور نرمی کے ساتھ آگاہ کرتے ہوئے اصلاح کی رغبت دلائیں ،
میرے محترم بھائیوں بہنوں ، مُنافقت سے نجات کا طریقہ یہی ہے کہ ہم اگر اپنے اندر منافقت کی صِفات پائیں تو خود سے اُنہیں چھوڑیں ، اپنے آپ کو اُن سے آزاد کروائیں ،  جیسا کہ اوپر ذِکر کی گئی سب سے پہلی حدیث شریف میں بتایا گیا ہے ،
::: مُنافقت سے نجات کا طریقہ   ::: عمومی طور پر اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی معرفت میں اضافہ بری صِفات  سے نجات میں مدد گار ہوتا ہے ، اور ہر  نیکی جو خالصتاً اللہ کی رضا کے حصول کی نیت کی جائے ، ایمان میں اضافے اور تقویت کا سبب ہوتی ہے ، لہذا  اپنے رب اللہ جلّ و عُلا کے معرفت مین اضافہ کیا جانا چاہیے ، لیکن قصے کہانیوں کے ذریعے  نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دِی ہوئی خبروں کے ذریعے ، اور حدیث شریف بھی صِرف وہ  مانی اور اپنائی جانی چاہیے جِسے ائمہ کرام نے صحیح قرار دِیا ہو، ہر ایک روایت کو حدیث نہیں ماننا چاہیے ، اور  نیک نیتی کے ساتھ اپنی نیکیوں میں اضافہ کیا جانا چاہیے ،   اللہ تعالیٰ ہم سب کو مُنافقت اور مُنافقین سے محفوظ رکھے،
 و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
 طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :18/09/1431ہجری، بمُطابق،28/08/2010عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment