صفحات

Tuesday, August 15, 2017

::: اللہ تعالیٰ کی اور مخلُوق کی صِفات کے بارے میں وضاحت :::


:::   اللہ تعالیٰ کی اور مخلُوق کی  صِفات کے بارے میں  وضاحت  :::
بِسمِ اللَّہ ، والصّلاۃُ و السّلامُ علیٰ رسولِ اللَّہ مُحمدٍ و علیٰ آلہِ و أصحابہِ و أزواجہِ أجمعین
 السلامُ علیکم ورحمۃ  ُ  اللہ و برکاتہُ ،
صِفات کے ناموں کی "  لفظی مُشابہت" کے ز ُمرے میں بھی کِسی اور سے منسوب نہیں کی جا سکتیں ، یا یوں کہہ لیجیے " لفظی مُشابہت" کے باب میں سے بھی اللہ کے عِلاوہ  کِسی اور کو اِس صِفات سے متصف نہیں کہا ، لکھا ، سمجھا جاسکتا ،
کچھ صاحبان ، اللہ عزّ و جلّ کی صِفات ، اور مخلوق میں کچھ صِفات کے ناموں کی مُشابہت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ گویا ، معاذ اللہ ، دونوں  کی ، یعنی خالق اور مخلوق کی صِفات بھی ایک ہی جیسی ہیں ،  
یا ، خالق کی صِفات مخلوق بھی اپنا سکتی ہے ،
اور اِس طرح  وہ  اللہ تبارک و تعالیٰ کی کِسی مخلوق کو ، کِسی یا کچھ صِفات میں  اُس کے خالق جیسا ہی سمجھنے لگتے ہیں ،  
اور کچھ لوگ ،  کچھ صِفات کے ناموں کی مُشابہت  کہ وجہ سے   خیال کرتے ہیں کہ ،  اللہ جلّ و عُلا کی جِن صِفات کا کِسی اور مخلوق میں ہونے کا ذِکر کیا گیا ہے ، اور  وہ ذِکر اِس بات کی دلیل ہے کہ  اللہ تعالیٰ  کی کِسی   بھی دُوسری صِفت  کِسی  مخلوق میں مانا جا سکتا ہے ، اور ایسا ماننا شرک نہیں ہے ،
یہ خیال ، محض خیال ہی ہے ، اِس کا حقیقت سے سوائے مخالفت کے کوئی اور تعلق نہیں ،
کیونکہ ، اللہ جلّ ثناوہُ ، و تبارک اسماؤہُ کی صِفات کی کیفیت اُس کی ذات پاک کی شان کے مُطابق ہے ، اور مخلوق میں اُسی نام کی کِسی صِفت کا موجود ہونا ، اُس مخلوق کے شخصیت کے مُطابق ، دونوں میں سوائے ناموں کے کوئی مشابہت نہیں ،
خالق کی صِفات "  لفظی مُشابہت" کے ز ُمرے میں بھی کِسی اور سے منسوب نہیں کی جا سکتیں ، یا یوں کہہ لیجیے " لفظی مُشابہت" کے باب میں سے بھی اللہ  تبارک  وتعالیٰ کے عِلاوہ  کِسی اور کو اُن صِفات سے مُتصف نہیں کہا ، لکھا ، سمجھا جاسکتا ،
سوائے کِسی ایسی صِفت کے نام کی حد تک جِس صِفت کا مخلوق میں ہونے کا ذِکر خُود خالق اللہ عزّ و جلّ نے فرمایا ہو، یا اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اُس کی خبر ادا کروائی ہو،
غور فرمایے :::
"""اللہ  تعالیٰ بھی سمیع ہے بندہ بھی سمیع ہے، اللہ تعالیٰ  بھی رؤف ہے، اللہ  تعالیٰ کے بندوں میں  بھی رؤف ہیں، اللہ  تعالیٰ بھی رحیم ہے ، اور اللہ کے بندوں میں بھی رحیم ہیں ،
لیکن ،  اللہ  تعالیٰ کا سمیع ہونا  اُس کی ذات پاک کی شان ، اور اُس کی اپنی صِفات کے مُطابق ہے اور بندے کا سمیع ہونا اُس کو دِی گئی صِفات کے اعتبار سے"""
مزید غور فرمایے ، کہ :::
 اِن صِفات کی نِسبت اللہ  تعالیٰ کی طرف ہو گی تو اُن صِفات  کی کیفیت  اللہ عزّ و جلّ  کی شان کے مُطابق ہو گی ، جسے  اللہ تعالٰی ہی  بیان فرما  سکتا ہے ، اور اگر کِسی صِفت کی نِسبت  مخلوق میں سے کسی کی طرف ہو گی تو کوئی بھی ناطق مخلوق  اپنے مُشاھدے کے مُطابق اُس کی کیفیت بیان کر سکتی ہے  ،
یہ "مُشابہت لفظی "ہے ، اور اِن  صِفات میں اور کئی دیگر  صِفات میں یہ" مُشابہت لفظی" قران و حدیث میں وارد ہے ،
اِس مُعاملے میں خوب اچھی طرح سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ،
اللہ عزّ و جلّ کی صِفات مُبارکہ ، اور معاملات  کو  مخلوق کی صِفات  اور معاملات سے نام کی مُشابہت سے بڑھ کر کوئی اور مُشابہت دینا ناجائز ہے ،  با الفاظ دیگر ، نام کی مُشابہت کی وجہ سے کیفیات کو  مُشابہہ سمجھنا ناجائز ہے ،  
جی ہاں ، ناجائز ہے ،
اگر کوئی یہ سمجھے کہ جِس طرح اللہ تعالٰی نے خود کو روؤف اور رحیم فرمایا ہے ، اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صِفات میں بھی ، روؤف اور رحیم  ہونے کی صِفات کا ذِکر فرمایا ہے ، لہذا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں  اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی کی صِفات کے جیسی دیگر صِفات بھی  تھیں ، یا ہیں ،
جیسا کہ کچھ لوگ ، معاذ اللہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ہر جگہ حاضر وناضر سمجھتے ہیں ، دُنیا میں تشریف لا کر لوگوں  کی مُشکلات دُور کرنے والا سمجھتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ کے عِلم ء غیب کا مکمل عِلم رکھنے والا سمجھتے ہیں ،  اور ،،، اور ،،، اور ،،،
جب کہ ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے  اُس کی ذات پاک ، صِفات مُبارکہ  کے بارے میں  ایک قانون مقرر فرما رکھا ہے کہ ﴿لَیسَ کَمِثلِہِ شيئٌ و ھُوَ السِّمِیعُ البَصِیرُ::: اُس(اللہ)کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہےسُورت الشوریٰ(42)/آیت11،
اور  یہ بھی فرما رکھا ہے کہ ﴿ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَى فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ:::اور اللہ کے لیے تو آسمانوں اور زمین میں بہت ہی بُلند و برتر مثال ہے، اور وہ بہت زبردست اور حِکمت والا ہےسُورت الروم(30)/آیت27،
پس اللہ جلّ صفاتہُ و تبارک أسماوہُ کی کِسی صِفت کے لیے ، اُس کی مخلوق کی صِفات کی مُشابہت والی بات کرنا ، مثا ل دینا قطعاً دُرست نہیں ،
یاد رکھیے ، اور خوب اچھی طرح سے یاد رکھیے کہ  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی ذات پاک ، صِفات مُبارکہ اور ناموں سے متعلق  صِرف وہی بات کرنا دُرُست ہے جِس بات کو اللہ تعالیٰ یا اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تائید مُیسر ہو،
اللہ تعالیٰ کی کِسی صِفت کو، کِسی معاملے کو ، کِسی کام کو  سمجھنے ، یا ، سمجھانے کے لیے کِسی مخلوق کی کِسی صِفت ، کِسی معاملے، کِسی کام سے مثابہت دینا، اُسے مثا ل بنانا دُرُست نہیں،
اور اِسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ  کی صِفات کے ناموں کی مُشابہت کی وجہ سے  کِسی مخلوق کو اُنہی صِفات سے مُتصف سمجھنا بھی قطعاً نا دُرُست ہے ، یا کِسی بھی مخلوق کو اللہ کی صِفات میں سے کوئی صِفت اپنا لینے کے قابل سمجھنا بھی قعطاً   نا دُرُست ہے ،   بلکہ کِسی بھی مخلوق میں ، اللہ کی صِفات جیسی کوئی صِفت ماننا ، شرک ہے ، خواہ کوئی اِس شرک کو عطائی کہہ کر چھپانے کی کوشش کرے ،
 لیکن حقیقت یہی ہے کہ""" اللہ جلّ شانہ ُ  کی صِفات، اور مخلوق کی صِفات  کے ناموں کی مُشابہت  سے اُن صِفات کی کیفیات کا ایک جیسا ہونا قطعا مراد نہیں ہوتا ، اور نہ ہی کِسی طور لازم ہے ، اللہ عزّ و جلّ کی صِفات اُس کی ذات پاک اور اُس کی شان کی مُطابق ہیں ، اور مخلوق کو دِی گئی  صِفات اُس کی شخصیت کے مُطابق """
﴿سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ:::پاک ہے اللہ اُن صِفات (اور باتوں سے)جو یہ (اللہ کے بارے میں )کہتے ہیںسُورت الصافات(37)/آیت159،
لہذا ،اِس مسئلے میں بات کرنے والے  ہر ایک شخص کو یہ چاہیے کہ اللہ عزّ و جلّ کے بارے میں کوئی بھی بات کرنے سے پہلے خوب اچھی طرح سے سوچے ،  اللہ تعالیٰ اور اُس کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی دِی ہوئی تعلیمات کے مُطابق سمجھے ، اور پھر بات کرے ،
نصیحت  کو  مؤثر بنانے ، یا اپنی بات کو  سمجھانے کے لیے ایسا کوئی انداز ، کوئی اسلو ب اختیار نہیں کیا جانا چاہیے جو اللہ تبارک و تعالٰی یا اُس کے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کِسی فرمان کے خِلاف ہو،
اللہ عزّ و جلّ نے اپنی ذات پاک ، اور اپنی صِفات مُبارکہ کے میں جو کچھ ، اور کتنا کچھ اور جِس طرح  براہ راست اپنے کلام شریف میں بتا یا ہے ، یا ، اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کے ذریعے بیان کروایا ہے، اُس تک رکنا چاہیے، اُن کی طرف سے کوئی مثال بیان کرنے سے کِسی اور کے لیے ، اللہ تعالیٰ کی ذات و صِفات کے لیے اپنی مرضی سے مثالیں دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا ،
اور نہ ہی اللہ تعالٰی کی طرف سے کِسی مخلوق کو دِی گئی کِسی صِفت کی کوئی ایسی کیفیت مقرر کرنا جائز ہے جِس کیفیت کی کوئی تائید اللہ تعالیٰ ، یا ، اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف مُیسر نہ ہو،
میں نے"""اللہ کہاں ہے ؟""" میں لکھا تھا کہ :::
::: تیسرے شک کا جواب :::
::::::: تیسرا شک جِس کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ :::
""" اِس طرح اللہ کی مخلوق سے مُشابہت ہو جاتی ہے اور یہ  جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیںسُورت الشُوریٰ(42)/آیت11"""۔
::::::: اس شبہے کا ابتدائی ذِکر کرتے ہوئے چند صفحات قبل میں نے لکھا تھا """ اس آیت مبارکہ کو بھی اپنی ذاتی فِکر کے مُطابق سجھنے والوں نے اس کے دُوسرے حصےکی طرف کوئی توجہ کیے بغیر اپنی ذاتی سوچوں اور جہالت زدہ قران فہمی کی بنا پر سمجھا اور حقیقت کے بر عکس مفہوم لے کر اس کی ضد کرنے لگے """
اور اب اِن شاء اللہ اس کی  تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ ، 
::::::: اگر یہ بات کہنے والے اپنی دلیل کے طور پر پیش کیے جانے والے آیت مبارکہ کے اِس حصے کے بعد آیت شریفہ کو آخر تک پورا پڑھ کر اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر کو سمجھ لیتے تو وہ فلسفہ اُن کو شکار نہ کرپاتا جِس کا یہ شِکار ہوئے ،
 اللہ سُبحانہُ و تعالی  نے فرمایا ہے ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں، اور وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہےسُورت الشُوریٰ(42)/ آیت11،
محترم قارئین غور فرمایے  کہ  اللہ تبارک وتعالیٰ خود یہ بتا رہا ہے کہ اُس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور سنتا بھی ہے اور  دیکھتا بھی ہے ،یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اُس کی ایسی صِفات کا ذِکر بھی کر رہا ہے جو نام کی مشابہت کے ساتھ اُس کی مخلوق میں بھی ہیں ، اور اس بات کی وضاحت اپنی صِفات کے ذِکر سے پہلے فرما دی ہے کہ اُس کے جیسی کوئی چیز نہیں ہے ، یعنی صِفات میں ناموں کی مُشابہت صِفات کی کیفیت کی مُشابہت کی دلیل ہر گِز نہیں ،
 اِس کے عِلاوہ بھی  اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے رب کے بارے میں جِس جِس صفت کا ذِکر کیا ہے  فلسفہ زدہ ذہنوں نے آیت کے صِرف ایک حصے کو اپنی منطق کے مطابق سمجھ کر اُن  سب صفات کا اِنکار کر دِیا اور اُلٹی سیدھی باطل  تأویلیں کیں ، اِن کو اور اِن کے پیرو  کاروں کو اُمت کے اِماموں نے """معطلۃ """  یعنی """ اللہ کی صِفات کو ختم  کرنے والی جماعت """ کا نام دِیا ، 
اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کا اِنکار یا تأویل کرنے والے یہ سوچ لیتے کہ اللہ  تعالیٰ اِس آیت میں پہلے یہ بتا رہا کہ اُس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور پھر یہ بتایا کہ  وہ سنتا بھی اور دیکھتا بھی ہے ، تو اِس کا معنیٰ یقینا ًیہ ہے کہ اُس کا سننا اور دیکھنا  کِسی مخلوق کے جیسا نہیں ، اِسی طرح اُس کا ہنسنا ، ناراض ہونا ، خوش ہونا ، نیچے  اُترنا ، اُس کا چہرہ ، اُس کے ہاتھ ، اُس کی پنڈلی ، اُس کا پاؤں ، سب جو کچھ اُس  نے اپنے بارے میں بتایا ہے یا اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بتایا ہے حق  ہے اور اُسکی شان کے مطابق ہے یہ ہی مفہوم ہے اللہ کے فرمان مبارک ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں، اور وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہےکا ،
یہ ہی ہے  وہ مفہوم جو ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات میں ملتا  ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اور اُمت کے اِماموں رحمہم اللہ و حفظہم  کی تعلیمات میں ملتا ہے ، 
مزید اور مکرر وضاحت کے لیے کہتا ہوں :::
ذرا عقل سے سوچا جائے تو صاف سمجھ میں آتا ہے کہ غصہ ، محبت ، ہنسنا ،  سننا ، دیکھنا ، وغیرہ یہ تمام صفات خالق نے اپنی مخلوق میں بھی رکھی ہیں ، اور کِسی  ایک مخلوق  کی صفت کی کیفیت دوسری مخلوق سے نہیں ملتی ،حتیٰ کہ ایک ہی جِنس کی مخلوق کے دو افراد کی ایک ہی صِفت کی کیفیت مختلف ہوتی ہے ،
 میرا غصہ ، مُحبت ، ہنسنا ، سُننا ، دیکھنا ،  وغیرہ ، آپ کے غُصے ، مُحبت ، ہنسنے ، سُننے ، دیکھنے وغیرہ جیسا نہیں ، اور آپکی یہ صِفات میری صِفات جیسی نہیں ،
اور اِسی طرح ہر  ایک اِنسان میں فرق ہے حتیٰ کہ حیوانات میں بھی یہ فرق موجود ہے ، یہ تو بات  ہوئی کِسی ایک مخلوق کا دوسری مخلوق سے موازنہ کرنے کی ، اب اگر ایک شخص کی ایک  ہی صفت کو دو مختلف حالتوں میں، دو مخلتف نسبتوں سے  دیکھا جائے تو وہ بھی ایک جیسی نظر نہیں آتی جیسا  کہ ماں سے مُحبت اور بیوی سے مُحبت ایک جیسی نہیں ،بیوی سے مُحبت اور بیٹی اور بہن سے مُحبت ایک جیسی نہیں ہوتی ،
لہذا یہ بات ہر أچھی عقل قبول کرتی ہے کہ ، کوئی سی دو مخلوق میں کِسی ایک  صِفت کے ہم نام ہونے کی وجہ سے اُن دوصِفات کا صِفات والی شخصیات  کا جزوی یا کُلّی طور پر ایک دُوسرے جیسا ہونا یا مشابہہ ہونا  کسی بھی طور واقع  نہیں ہو تا ،
 اِنسانوں اور حیوانات کی بہت سی صِفات کے نام ایک ہی  جیسے ہیں ، جیسا کہ دیکھنا ، سننا ، چلنا ، بھاگنا ، کھانا ، مُحبت ، غصہ ، غیرت اور بے غیرتی  وغیرہ ، 
لیکن کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ اِنسانوں اور حیوانات میں یہ صفات ایک  جیسی ہیں لہذا وہ ایک دوسرے کے مشابہہ ہو گئے ، اور پھر اِس مشابہت کو دور  کرنے کے لیے کوئی بھی اِن دونوں مخلوقات میں سے کِسی کی کِسی صفت کا اِنکار  نہیں کرتا ،
جب یہ معاملہ مخلوق کا ہے تو خالق کا معاملہ اُس کی شان کے مطابق ہے اور  ویسا ہی ہے جیسا کہ اُس نے اُوپر ذِکر کی گئی آیت میں بتایا ہے ،
تو یہ بات بڑی وضاحت سے سمجھ میں آتی ہے کہ دو مختلف چیزوں کا نام ایک جیسا ہونے سے اُن چیزوں کا ایک جیسا ہونا ہر گِز ضروری نہیں ہوتا ، اور دو مختلف صِفات دو مختلف چیزیں ہی ہیں جو ہر صاحبِ صِفت کے مطابق مختلف کیفیت کی حامل ہو جاتی ہیں گو کہ نام ایک ہی جیسا ہوتا ہے ، پس یہ ہی مفہوم ہے اللہ پاک کے فرمان﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ:::اللہ کےجیسی کوئی چیز نہیں، اور وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہےکا ،
لہذا اللہ تعالیٰ کی تمام صِفات جو اُس نے خود اور جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بتائی ہیں اُن پر بلا چُوں و چَراں اِیمان لانا فرض  ہے اور اُن کی کِسی طور کوئی باطل تأویل کرنا ، یا  تعطیل کرنا کفر  تک لے جانے کے اسباب میں سےہے ،
جیسا کہ کوئی یہ کہے اللہ کے ہاتھ سے مُراد اُس کی قدرت ہے ، یا اللہ کی پنڈلی سے مُراد اُسکی زبردستی ہے ، وغیرہ ، وغیرہ ،
اس قِسم کی باطل تاویلات اکثر کتابوں، بلکہ عام کتابوں میں تو کیا تفسیر اور شرح کی کتابوں میں لکھی ہوئی دِکھائی دیتی ہیں ،ولا حَولَ و لا قُوۃَ  اِلا باللَّہ و اِلیہِ اشتکی وھُوَ المُستعان  ۔ 
اُمید ہے کہ ہمارے زیر بحث موضوع پر اتنی بات اِن شاء اللہ کافی ہو گی ،  لکھنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن بات کو مختصر رکھنے کی غرض سے یہیں رُکتا ہوں ، اللہ  تعالیٰ ہم سب کے اور تمام مُسلمانوں کےدِلوں میں سے ضِد اور تعصب دُور کرے اور حق جاننے ، اُس کے قبول کر کے ہمیشہ اُس پر عمل کرنے،اور اُس کو نشر کرنے کی توفیق عطاء  فرمائے ۔   """،
والسلامُ علیکم ورحمۃ  ُ   اللہ و برکاتہُ  ،
 طلب گارء دُعا ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 13/04/1436ہجری، بمُطابق، 02/02/2015عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment