::::::: سُنّت مُبارکہ کے باغ میں سے :::::::
::::::: کیا آپ ان صفات اور
حالات سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں؟ :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و
الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا
رَسولاً ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ و لَن یَکُون
بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ
إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی
رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ اللہ کی طرف سے نہ تواُن کے ساتھ کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی
معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی
رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ کی
بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح
سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
أنس
ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کو بہت زیادہ یہ دُعا کرتے ہوئے سنا
کرتا تھا کہ (((((اللَّهُمَّ
إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ وَالحَزَنِ، وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ، وَالبُخْلِ
وَالجُبْنِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ ::: اے اللہ میں آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں ، فِکر اور غم سے ، اور عاجزی اور سُستی
سے ، اور کنجوسی اور بُزدلی سے ، اور قرض کی شدت اورغلبے سے ، اور لوگوں کے (مجھ
پر )غالب ہو جانے سے)))))صحیح البخاری
/حدیث6002/کتاب الدعوات/باب35 ،
ایک
اور روایت میں یہ الفاظ ہیں (((((اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَمِّ
وَالحَزَنِ وَالعَجْزِ وَالكَسَلِ وَالبُخْلِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ
الرِّجَالِ:::
اے اللہ میں آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں ، فِکر اور غم سے ، اور عاجزی اور سُستی سے ،
اور کنجوسی سے ، اور قرض کی شدت اور غلبے سے ، اور لوگوں کے (مجھ پر )غالب ہو جانے
سے ))))) سنن الترمذی /حدیث 3484،3499 /کتاب الدعوات عن الرسول صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ و سلم /باب 71، امام الالبانی نے صحیح قرار دیا ،
اس
کے علاوہ یہ دُعا دیگر صحابہ سے مختلف کتب میں کچھ دوسرے الفاظ سے مروی ہے ، ان سب روایات کے الفاظ ایک دوسرے
کی تشریح کرنے والے ہیں ، اور کچھ الفاظ مزید کچھ کیفیات اور حالات کے ذکر کرنے
والے ہیں ،
احادیث مبارکہ میں اپنی بدعقلی کی وجہ سے نقص نکالنے والے لوگوں کے لیے ان روایات میں ایک سبق یہ بھی
ہے کہ الفاظ کے اِس فرق کا سبب نہ تو کسی کے حاٖفظے کا اختلاط یا کمزور ہونا ہے ، اور نہ ہی کسی کی کوئی کوتاہی ہے ، نہ ہی کسی کی کوئی غلطی
ہے ، اور نہ ہی کسی کا ذاتی تصرف ہے ،اور نہ ہی یہ لفظی اختلاف کسی معنوی اختلاف
کا کوئی پہلو لیے ہوئے ہے
بلکہ یہ سب ہی الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کے ہی فرمان ہیں معنی اور مفہوم میں سب ہی الفاظ ایک دوسرے کے
مترادف ہیں ، اور جیسا کہ أنس ابن مالک نے بتایا ہے کہ """ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ
وسلم کو کثرت سے یہ دُعا کرتے ہوئے سنا کرتا تھا """ ،
لہذا
اگر کسی کو ان الفاظ کے مختلف ہونے کی وجہ سے کچھ مشکل ہو تو حدیث مبارک پر کوئی
اعتراض صادر کرنے سے پہلے تمام تر روایات میں موجود الفاظ کے معانی اور مفاہیم
لغات اور شروح الحدیث میں پڑھ لے ،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ہر فرمان مبارک عِلم و عرفان کے خزانے لیے
ہوتا ہے ، اس دُعا میں بھی ہمیں ہماری زندگی میں واقع ہو جانے والے کچھ ایسے کاموں
کی خوفناکی کی طرف متوجہ کروایا گیا ہے جن کی طرف عام طور پر کچھ توجہ نہیں کی
جاتی اور جنہیں کسی خاص پریشانی کا سبب نہیں سمجھا جاتا ،
قطع
نظر اس کے کہ یہ کام خود سے کیے جائیں یا کسی سبب سے ہماری زندگی میں واقع ہو
جائیں ، اِن کے نتائج اِسی خوفناکی پر محمول ہوتے ہیں جس سے محفوظ رہنے کے لیے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی پناہ طلب فرمائی ،
آج
ہم اپنی اپنی زندگی میں طرح طرح کی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں ، جن کا کوئی مادی
سبب طبی تحقیقات میں بھی ظاہر نہیں ہو پاتا ، اور بالآخر ڈاکٹرز اُس بیماری کو
"""نفسیاتی دباؤ """ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ،
اور عموماً ہوتا بھی ایسا ہی ہے ، (((الحمد للہ ، نفسیاتی
دباؤ کے اسباب اور اس کے علاج کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون پہلے نشر کر چکا ہوں جو
درج ذیل ربط پر مُیسر ہے : http://bit.ly/18DqZbl )))
ایسے
نامعلوم اسباب میں سے اِنسان کے اندر داخل ہو چکی ایسی فِکریں ،خوف اور غم بھی
ہوتے ہیں جن سے چاہنے کے باوجود بھی اِنسان نجات حاصل نہیں کر سکتا ، کوئی مادی سبب یا ذریعہ انہیں اِنسان کے نفس سے خارج نہیں کر سکتا ، طرح طرح
کی دوائیاں اور ماہرینء نفسیات کے ساتھ مجلسیں کرنے کے باوجود وہ فِکریں ، خوف اورغم
وغیرہ زائل نہیں ہوتے صرف وقتی طور پر احساس اور شعور کے تصرف سے کہیں دُور ہو جاتے ہیں ، لیکن اِنسان کی ذات پر
ظاہری اور باطنی طور پر اثر پذیر ہوتی ہی رہتے ہیں ، صِرف اللہ ہی اُن سے نجات دے
سکتا ہے،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی اِس دُعا میں فِکروں اور غموں سے اللہ کی پناہ طلب فرماتے ہوئے ہمیں یہ مذکورہ
بالا حقائق سمجھائے اور ہمارے عقیدے کی اصلاح فرمائی ،
اِس
کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس دُعا میں جن جن چیزوں سے
اللہ کی پناہ طلب فرمائی ہے مختصر طور پر ان کے خوفناک نتائج کا جائزہ بھی لیتے
چلیے ،
::::: العَجْزِ ُ
، الكَسَلُ ::: عاجزی ، سُستی :::::
عاجزی اور سُستی ، عاجزی یعنی ایسی
کمزوری جس کی وجہ سے انسان کوئی کام چاہنے کے باوجود نہ کر سکے اور، سُستی بھی
عاجزی کی ایک کمزور سی کیفیت ہے کہ انسان کسی کام کو کرنے کی طاقت تو رکھتا ہے
عاجز نہیں لیکن محض اپنی سُستی کی وجہ سے اسے نہیں کر پاتا ، اگر یہ عاجزی خیر کے کاموں میں ہو اور اللہ کی
اطاعت والے کاموں میں ہو تو آخرت کی تباہی کا سبب ہو جاتی ، پس رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایسی ہی عاجزی اور سُستی سے اللہ کی پناہ طلب فرما کر ہمیں
یہ سبق دیا کہ خیر کے ہر کام کے لیے ہر
مطلوبہ قوت اور چستی اللہ کی ہی
طرف سے مل سکتی ہےلہذا ایسے کاموں سے روکنے والی عاجزی اور سُستی سے ہمیں ہمیشہ
خبردار رہتے ہوئے اللہ کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے ۔
::::: البُخْلُ
، الجُبْنُ::: کنجوسی ، بُزدلی :::::
کنجوسی اور بُزدلی بھی ایسی مذموم صفات ہیں جن کا وجود کسی طور خیر کے
کاموں میں شامل نہیں ہونے دیتا ، کبھی تو انسان پیسے کی محبت میں خیر سے رُکا رہتا
ہے اور کبھی جسم و جان پر کوئی مصیبت آنے
کے ڈر سے یا اِن کے ختم ہوجانے کے ڈر سے ، اور یہ روک تھام صرف دُنیا میں ہی
رسوائی کا سبب نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی راہ میں اِسی کے دیے ہوئے جان و مال کو خرچ
نہ کرنا آخرت میں نقصان کےاسباب میں سے
بھی ہے،اِسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِن صفات سے بھی اللہ
کی پناہ طلب فرمائی کہ یہ صفات بھی دُنیا اور آخرت میں عزت اور خیر کے حصول میں ممانعت کے اسباب میں سے ہیں ۔
::::: ضَلَعِ الدَّيْن ::: قرض کی شدت اور غلبہ :::::
یہ
بھی ایک ایسی حالت ہے کہ جس پر وارد ہو جائے اسے اکثر خیر کے کاموں سے روکے رکھتی
ہے اور معاشرتی ذلت کا سبب بھی بنتی ہے ،
اور ایسی حالت میں مرجانے والے کے لیے آخرت کے ثواب سے بھی دُور رکھنے اور
اُس میں کسی نقصان کا سبب بھی بن سکتی ہے یہاں تک کہ صاحبء حق اپنا حق معاف کر دے،
اِس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس حالت سے بھی اللہ کی پناہ
طلب فرمائی کہ یہ بھی دُنیا اور آخرت میں
عزت اور خیر کے حصول میں ممانعت کے اسباب
میں سے ہے ۔
::::: غَلَبَةِ الرِّجَال ، قَهْرِ الرِّجَال ::: لوگوں کا غلبہ:::::
لوگوں کا غلبہ ، یعنی اُن کا کسی شخصیت پر غالب آجانا بہت وسیع مفہوم
رکھتا ہے ، اس کا معنی صرف یہ نہیں کہ کوئی کسی پر جسمانی طور پر غالب آجائے ،
بلکہ اس میں نفسیاتی غلبہ ، معاشرتی غلبہ ، معاشی غلبہ قسم کے تمام حالات شامل
ہوجاتے ہیں ، اور لوگوں کا کسی کی جان مال عزت کو حاصل کرنے کے ارادے سے اِس پر
نظر رکھنا جو کہ اُس شخص کو خوف اور پریشانی میں مبتلا رکھے بھی اس کے مفہوم میں
شامل ہے ، اور یہ سب ہی کیفیات ایسی ہیں جو کسی انسان کو عموماً خیر کے کاموں سے
روکے رکھتی ہیں کہ اس کی ساری توجہ اسی پر مرکوز رہتی ہے کہ وہ کسی طرح اُن حالات
سے نجات حاصل کر سکے جن کی وجہ سے وہ
لوگوں کے سامنے مغلوب ہے ، اور ایسے میں عموماًشیطان اُس مغلوب الحال شخص کو صراط
مستقیم پر سے أغوا کر لیتا ہے اور ایسی راہوں پر لیے چلتا ہے جو اُسے دُنیا
اور آخرت کی تباہی میں داخل کرنے والی ہوتی ہیں ،
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس حالت سے اللہ کی پناہ طلب فرما کر ہمارے
عقیدے کی اصلاح فرماتے ہوئے یہ سمجھایا ہے کہ جیسے بھی خراب سے خراب تر حالات ہوں
ان کو درست کرنے والا صرف اللہ ہی ہے ، ان سے نجات دینے والا ، اور ان سے محفوظ
کرنے اور رکھنے والا صرف اللہ ہی ہے ،وہ ہی ایسے حالات سے نجات اور تحفظ کے أسباب
بناتا ہے اور مہیا فرماتا ہے ،
لہذا ہمیں اپنا تعلق اللہ کی ذات
سے مضبوط رکھنا چاہیے اوراُسی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اُس سے دُعاکرتے ہوئے
اُسی کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے اپنے حالات کو سدھارنے کی کوشش کرنا چاہیے ،
نہ کہ اس کی نافرمانی کے ذریعے کہ ایسا کرنا ہمیں اللہ سے دُور کر دے گا، جو کسی
بھی طور کسی اچھے نتیجے کا سبب نہیں بن سکتا ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ہمیں اور ہمارے ہر کلمہ گو بھائی بہن کو ہر شّر اور
ہر شّریر سے محفوظ رکھے ۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و
برکاتہ،
طلب گارء دُعاء ،
آپ کا بھائی،عادل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 08/01/1432 ہجری، 14/12/2010 عیسوئی۔
تاریخ تحدیث و تجدید: 26/09/1440ہجری،31/05/2019 عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے:
No comments:
Post a Comment