صفحات

Tuesday, April 14, 2020

::: قُران کو بغیر وضوء کے، جنابت ، حیض اور نفاس کی حالت میں چُھونا اور پڑھنا:::


::: قُران کو بغیر وضوء کے، جنابت ، حیض اور نفاس کی حالت میں  چُھونا اور پڑھنا:::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جُنون،اور اُس کے دِیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اَشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور(لیکن اُس شخص نے)اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
:::::  سوال  :::::  قُران کو بغیر وضوء کے جنابت ، حیض  اور نفاس کی حالت میں چُھونے ، یا پڑہنے کا کیا حُکم ہے ؟ :::::
::::: جواب :::::
قران کریم کو بغیر وضوء پڑھنا  بھی جائز ہے، اور چُھونا بھی جائز ہے، سوائے حالت جنابت کے،
جنابت کی حالت میں نہ تو قران کریم کو چُھوا جا سکتا ہے اور نہ  ہی اُس کی تلاوت کی جا سکتی ہے ، حالت جنابت میں قران کریم   کو چُھونے ،  اور اُس کی تلاوت کرنے  کے ناجائز ہونے کے بارے میں جمہور عُلماء کا اتفاق بیان کیا جاتا ہے،
کچھ عُلماء نے اس سے بھی  اختلاف کیا ہے،  لیکن ، دونوں  طرف کے عُلماء کرام رحمہم اللہ کے اقوال پڑھنے سمجھنے کے بعد زیادہ مُناسب یہی معلوم ہوتا  ہے کہ حالتء جنابت میں نہ ہی قران پاک کو چُھوا جائے ، اور نہ  قران کریم کی تلاوت نہ کی جائے،
رہا مسئلہ ،  بلا وضوء قران کریم کو چھونے کا تو اِس  کے بارے میں دُرُست یہی ہے کہ اگر کوئی  مُسلمان صِرف بغیر وضوء ہو، تو وہ قران کو چُھو سکتا ہے، اور پڑھ سکتا ہے ، لیکن جنابت کی حالت میں نہیں ،
حیض اور نفاس کی حالت میں قران کریم ، یعنی مصحف کو براہ راست ننگے ہاتھوں سے چُھونا جائز نہیں ، بغیر چھوئے دیکھ کر یا ز ُبانی قرأت کرنا جائز ہے ،   کیونکہ اِس سے ممانعت کی کوئی دلیل میسر نہیں ،
حالتء حیض میں قران خوانی سے منع کرنے والے اصحاب  درج ذیل روایت کو دلیل بناتے ہیں :
((( لاَ تَقْرَإِ الْحَائِضُ وَلاَ الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ:::  حیض والی عورت اور  جو کوئی حالتء جنابت میں ہو ، وہ لوگ قران نہیں پڑھ سکتے )))
اِلفاظ اور اُن کی ترتیب  کے کچھ فرق کے ساتھ یہ روایت، سُنن کی کُتب میں  درج ذیل حوالہ جات پر موجود ہے  :
(1) سُنن الترمذی /حدیث 131 / کتاب الطھارۃ / باب 98  مَا جَاءَ فِى الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ أَنَّهُمَا لاَ يَقْرَآنِ الْقُرْآنَ،
(2)  سُنن ابن ماجہ /حدیث 639 / کتاب الطھارۃو سُننھا / باب 105   مَا جَاءَ فِى قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ، مَا جَاءَ فِى قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ،
(3)     سُنن الدار قُطنی / حدیث 428 / کتاب الطھارۃ /  باب فِى النَّهْىِ لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ،
(4)  سُنن الکبریٰ للبیھقی  / حدیث 428 / کتاب الطھارۃ /  باب 99  ذِكْرِ الْحَدِيثِ الَّذِى وَرَدَ فِى نَهْىِ الْحَائِضِ عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَفِيهِ نَظَرٌ ،
اِس کی تمام اسناد میں  إسماعیل بن عیاش نامی راوی ہے ، اِس راوی اور اِس کی اِس روایت کے بارے میں امیر المؤمنین فی الحدیث محمد بن إسماعیل البخاری رحمہُ اللہ  کا  یہ  قول إمام الترمذی رحمہُ اللہ اور إمام  البیھقی رحمہُ اللہ نے ذِکر کیا ہے کہ:::
 ’’’   إِنَّمَا رَوَى هَذَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ وَلاَ أَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ غَيْرِهِ ، وَإِسْمَاعِيلُ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ عَنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِرَاقِ ::: یہ روایت إسماعیل بن عیاش نے موسی بن عُقبہ کے ذریعے بیان کی ہے اور میں اِس روایت کو اِس کے عِلاوہ کِسی اور کے حوالے سے نہیں جانتا ، اور  اگر اِس  إسماعیل (بن عیاش)  کی روایت حجاز اور عراق کے راویوں کے ذریعے ہوں تو یہ ( رزوی    إسماعیل بن عیاش) منکر الحدیث ہے( یعنی اِس کی روایات منکر ، ناقابلء قبول ، ناقابل حُجت  ہوتی ہیں ) ‘‘‘
اور اِ س کے بعد إمام  البیھقی رحمہُ اللہ نے دو دیگر روایات کا ذِکر کر کے یہ بتایا ہے کہ وہ دونوں بھی صحیح نہیں ہیں ،
پس یہ معاملہ بہت واضح ہے کہ یہ روایت کِسی طور قابل حُجت نہیں ، اِسے کِسی شرعی مسئلے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا،
اِس روایت کے بارے میں یہ حکم صدیوں پہلے گذر چکے أئمہ کرام نے دِیا ہے ، ہمارے ہاں پائی جانے والی  مسلکی تقسیم  سے صدیوں پہلے کے أئمہ رحمہم اللہ نے ، لہذا کوئی اِسے کِسی مسلک یا کِسی مسلک کے کِسی عالم یا إمام کے کھاتے میں ڈال کر اپنی غلط بیانی کو دُرست کرنے کی کوشش نہ کرے،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب  کو حق کے خِلاف ہر ضِد اور تعصب سے دُور رہ کر حق جاننے ، ماننے اور اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
و السلام علیکم ،
طلب گارء دُعاء ، آپ کا بھائی ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 03-02-2013  عیسوئی ، الموافق ، 22-03-1434ہجری ،
تاریخ تجدید و تحدیث : رہ کر حق م حق ماننے ، الے اصحاب  درج ذیل روایت کو دلیل بناتے ہیں :
 13-04-2020 عیسوئی ، الموافق ، 20-08-1441 ہجری ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے:

No comments:

Post a Comment