صفحات

Saturday, April 25, 2020

::: نماز میں (جسلہ ءتشھد میں)اُنگلی اُٹھانے یا حرکت دینے کا مسئلہ :::




:::  نماز میں (جسلہ ءتشھد میں)اُنگلی اُٹھانے یا حرکت دینے کا مسئلہ :::
بِسّم اللہِ و الحَمدُ  لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہ ُ  والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاءِ نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہ ::: اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف  اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جِس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جِس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جِس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی ۔
سوال 3: قعدہ  او ر تشہد میں انگشت شہادت کھڑے رکھنے ، یا مخصوص اوقات میں اُٹھانے،  یا ہلاتے رہنے کے مسئلے کی وضاحت درکار ہے ؟
::: جواب  ::: السلام علیکم ورحمۃ ُ اللہ و برکاتہ،
تشھد کے آغاز سے آخر تک، یعنی ، سلام پھیرنے تک ، شہادت کی اُنگلی کو اُٹھائے رکھنا، یا ، حرکت دیتے رہنا دونوں ہی سُنّت شریفہ سے ثابت ہیں،
::::::: وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتایا ﴿ ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى،  وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا ::: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تشریف فرما ہوگئے اور اپنی سیدہی ٹانگ مُبارک (زمین پر) بچھا دی ، اور اپنے اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی مُبارک اپنی اُلٹی ران مُبارک پر، اور گُھٹنے مبارک پر  رکھی، اور اپنی سیدہی کہنی مُبارک اپنی سیدہی ران مُبارک پررکھی ، پھر اپنی اُنگلیوں میں سے دو اُنگلیوں (چھوتی اُنگلی اور اس کے ساتھ والی اُنگلی) کو بند فرما لیا ، اور (بڑی اُنگلی اور انگوٹھے کا) دائرہ بنا لیا ، پھر اپنی (شہادت والی)اُنگلی مُبارک کو اٹھایا ، تو میں نے(یہ)دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُس (شہادت والی اُنگلی مُبارک)کو حرکت دے رہے ہیں (اوراُسی حرکت کے ساتھ)دُعا فرما رہے ہیںسُنن النسائی /حدیث1276 /کتاب السھو/باب34، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
یعنی اُسے حرکت دیتے ہوئے ہی دُعاء بھی فرما رہے ہیں ، اور یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ دُعاء تشھد کے آخر میں کی جاتی ہے، پس یہ ثابت ہوا کہ تشھد کے آغاز سے آخر تک اُنگلی کو حرکت دیا جانا سُنّت شریفہ کی عین مُطابق ہے ،
تشھد میں کسی مخصوص وقت یا کسی مخصوص لفظ کے ساتھ، جیسا کہ لوگ اللہ  تعالیٰ کے ماسواء کی الوہیت کے انکار ، اور اللہ عزّ و جلّ  کی واحدینت کے اقرار کے الفاظ کے ساتھ اُنگلی اٹھاتے ہیں ،
یعنی """لا الہَ اَلّا اللَّہ """ میں "لا" کہنے  پر ، اور پھر "اللہ" کہنے پر اُنگلی اٹھانا،
اور اِسی طرح "أشھدُ"کہتے ہوئے اُنگلی اٹھانا، اِن سب حرکات کی تو سُنّت شریفہ میں کوئی دلیل ہے ہی نہیں،
اور اِسی طرح سُنن ابو داؤد، اور سُنن الترمذی میں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ ُ کی وہ روایت جِس میں اِشارہ نہ کرنے کا ذِکر ہے،اِس روایت میں اِشارہ نہ کرنے والی بات کو إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے شاذ قرار دِیا ہے،
تٖفصیل کے لیے دیکھیے""" تمام المنة في التعليق على فقه السنة/و من صِفۃ الجلوس للتشھد"""،
ایسی کئی صحیح روایات منقول ہیں، جِن میں صِرف اِشارہ کرنے کا ذِکر ہے، حرکت کرنے کا نہیں ،
کچھ لوگ صِرف اُنہی روایات پر نظر کرتے ہوئے یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ صِرف اِشارہ کرنا ہی مقصود ہے،حرکت دینا اِشارے کی مخالفت ہے،جبکہ اُن صاحبان کا ایسا سمجھنا دُرُست نہیں، کیونکہ،  
صِرف اِشارے  والی روایات ایک عمل کا عمومی ذِکر لیے ہوئے ہیں ، اور حرکت دینے والی خبر اُس عمل کی کیفیت ہے،  اِن دونوں میں کوئی اِختلاف نہیں،
دیگر صحیح روایات اِس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ، اِشارہ کرنے کی  ایک کیفیت اُنگلی کو حرکت دینا ہے، اِشارہ  کرنے سے مُراد صِرف ساکت اِشارہ نہیں،
اُن میں سے ایک تو وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ ُ کی وہی روایت  ہے جو آغاز میں ذِکر کی گئی ہے،
اور دُوسری عبداللہ ابن عُمر رضی  اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ لَهِىَ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيدِ::: یقیناً  یہ شیطان پر لوہے سے زیادہ شدید ہےمُسند احمد،
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ  عنہ ُ نے پھر یہ بھی بتایا کہ یہ  فرمان شہادت والی اُنگلی کے بارے میں ہے،
پس یہ واضح ہوا کہ اِس اُنگلی کو حرکت دینا ہی مطلوب ہے، کیونکہ حرکت ہی تو شیطان کو  لوہے سے زیادہ شدید مار کا سبب ہو گی،
جیسا کہ إِمام احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ سے مروی ہے کہ اُنہیں تشھد میں اُنگلی کے اِشارے کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا """جی ہاں ، شدید طور پر """،
إِمام صاحب رحمہُ اللہ کی یہ بات اِشارے کی شرح ہے کہ اِشارہ متحرک ہو گا ، اور شدید حرکت والا ہونا چاہیے، ساکت اِشارہ نہیں،  
پس صِرف اِشارہ کرنے کو ہی دُرُست کہنا ، اور حرکت دینے کو نا دُرُست کہنا ، بذات خود نا دُرُست فعل ہے،
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """أصل صفۃ الصلاۃ النبی /التشھد الأول/تحریک الإِصبع فی التشھد/صفحۃ 838إِلیٰ 859""" نے اِس مسئلے کی بڑی اعلیٰ تحقیق پیش کی ہے،
  اور فرمایا ہے کہ """والحق، أنہ لا تفضیل بین الصفتین،بل کل منھما السُنّۃ ینبغی العمل بکل منھما أحیاناً:::حق یہ ہے کہ اِن دونوں کیفیات میں کوئی ایک دُوسری سےافضل نہیں ہے ، بلکہ دونوں ہی سُنّت ہیں، وقتا     ً فوقتا     ً  دونوں پر ہی عمل کیا جانا چاہیے"""۔
اُمید ہے کہ یہ معلومات اِن شاء اللہ اِس مسئلے کو واضح کرنے کا سبب ہو ں گی، اور بلا وجہ کی ضِد اور شِدت سے نجات کا بھی،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہمارے سب کو دِین ،دُنیا اور آخرت کی خیر عطاء فرمائے۔
والسلام علیکم ،طلبگارء دُعاء ، آپ کا بھائی عادِل سہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 07/11/1437ہجری،بمُطابق،10/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نُسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
https://bit.ly/2KDjF6P 

No comments:

Post a Comment