صفحات

Saturday, October 25, 2014

::::::: ماہ محرم اور ہم ، کہانیاں اور حقیقت :::::::We and month of muharam, stories and facts


::::::: ماہ محرم اور ہم ، کہانیاں اور حقیقت (تفصیلی)  :::::::

أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 

و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأزواجِہِ أُمھات المؤمنین الطاھرات، وَأصحابہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::

میں اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں جو سب کچھ سنتا ہے ، سب ہی کچھ جانتا ہے ، دُھتکارے ہوئے شیطان سے،اور اُس کے طرف سے ڈالے جانے والے جُنون اور بے عقلی سے ، اُس کی طرف سے ڈالے گئے تکبر سے ، اور اُس کی طرف سے  بنائے اور پھیلائے گئے (کلام اور)شعروں سے ،

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جوآخرت میں بھی  بڑا ہی رحم کرنے والا اور دُنیا میں بھی بڑا رحم کرنےو الا ہے ،

اورقیامت تک اللہ کی رحمتیں ہوں اور سلامتی ہو،  اللہ کے بزرگی والے رسول محمد پر ، اور اُن کی آل پر ، اور اُن کی  پاکیزہ و مقدس بیویوں پر جو کہ اِیمان والوں کی مائیں ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ پر ، اور اُن سب پر جنہوں نے نیک نیتی اور دُرُست راہ پر رہتے ہوئے اللہ کی رضا کے لیے اِن سب کی پیروی کی، اِس کے بعد :::  

::::: محرم کے مہینے کی فضلیت :::::

اللہ تبارک و تعالیٰ نےاِرشاد فرمایا :::

(((((اِنَّ عِدَّۃُ الشُّھُورِعِندَ اللَّہِ أثنا عَشَرَ شَھراً فِیِ کِتَابِ اللَّہِ یَومَ خَلَق َ السَّمَوَاتِ وَ الأرض َ مِنھَا أربعَۃَ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ القَیِّمُ فَلا تَظلِمُوا فَیھِنَّ أنفُسَکُم وَقَاتِلوُا المُشرِکِینَ  کآفَۃً  کمَا یقَاتِلُونَکُم کآفَۃً وَ اعلمُوا أنَّ اللَّہَ مَعَ المُتَقِینَ:::بِلا شک جِس دِن اللہ نے زمین اور آسمان بنائے اُس دِن سے اللہ کے پاس اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے جِن میں چار حُرمت والے ہیں اور یہ درست دِین ہے لہذا تُم لوگ اِن مہینوں میں اپنے آپ پر ظُلم نہ کرو اور شرک کرنے والوں سے پوری طرح سے لڑائی کرو جِس طرح وہ لوگ تُم لوگوں کے ساتھ پوری طرح سے لڑائی کرتے ہیں،اور جان رکھو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے)))))سورت توبہ(9)/آیت 36 ۔  

اور اپنے خلیل  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم  کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبر ادا کروائی کہ (((((الزَّمَانُ قَد استَدَارَ کَھَیئَتِہِ یوم خَلَقَ اللَّہ ُ السَّماواتِ وَالأَرضَ السَّنَۃُ اثنَا عَشَرَ شَہرًا منھَا أَربَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَاثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ ذُو القَعدَۃِ وَذُو الحِجَّۃِ وَالمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الذی بین جُمَادَی وَشَعبَانَ:::سال اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُس دِن تھا جب اللہ نے زمنیں اور آسمان بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میں سے چار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے)))))صحیح البُخاری /حدیث 3025/کتاب بدا الخلق /باب2 ، صحیح مُسلم /حدیث 1679/کتاب القسامۃ و المحاربین و القصاص و الدِیّات /باب9،

یعنی محرم اُن مہینوں میں سے ہے جِس میں اللہ کی طرف سے لڑائی اور قتال وغیرہ سے منع کیا گیا ہے ، اِس کے عِلاوہ محرم کے مہینے میں روزے رکھنے کی ایک فضیلت ملتی ہے جو مندرجہ ذیل ہے۔ 

:::::: محرم کے روزوں کی فضلیت :::::

أبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے فرمایا (((((أَفضَلُ الصِّیَامِ بَعدَ رَمَضَانَ شَہرُ اللَّہِ المُحَرَّمُ وَأَفضَلُ الصَّلَاۃِ بَعدَ الفَرِیضَۃِ صَلَاۃُ اللَّیلِ::: رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت والے روزے محرم کے روزوے ہیں ، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت ولی نمازقیام الیل (رات میں پرہی جانے والی نفلی نماز) ہے)))))صحیح مُسلم /حدیث 1163 /کتاب الصیام /باب38۔

یہ معاملہ تو پورے مہینے کے روزوں کا ہے ، اور خاص طور پر عاشوراء یعنی دس محرم کے روزے کی الگ سے فضیلت بیان ہوئی ہے ، جِس کا ابھی ذِکر کرتا ہوں ، اِن شاء اللہ ، لیکن اُس سے پہلے مُناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً دس محرم کے روزے کی تاریخ اور سبب بھی ذِکر کرتا چلوں،

دس محرم کا روزہ

دس محرم ہماری اسلامی تاریخ کا وہ دِن جِس کے متعلق سب سے زیادہ جھوٹ پھیلائے گئے ، ایسے جھوٹ جِن کو گھڑنے  والے بلا شک و شبہ مُنافق تھے اور ہیں ، جنہوں نے اپنے نفاق کو خاص پردوں میں چُھپانے کے لیے اور اُمتِ مُسلّمہ کو فنتے اور  فساد کا شکار کرنے کے لیے یہ سب جھوٹ گھڑے ، پھیلائے اور مسلسل پھیلائے جا رہے ہیں ، افسوس اُن کی کاروائیوں کا نہیں ،  کیونکہ یہ سب کُچھ اُنہوں نے تو کرنا ہی تھا أفسوس اپنے اُن کلمہ گو بھائی بہنوں پر ہے جو اِن مُنافقین کی کہانیوں اور من گھڑت  قصوں کو قُرآن اور حدیث کی طرح سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اور جِس طرح اُنہیں قُرآن اور حدیث پر عمل کرنا اور اُس کی  تبلیغ کرنا چاہیے تھی اُس طرح اِن خُرافات کی تبلیغ کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ قُرآن اور حدیث سے بھی  زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ ایسی خُرافات کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں ، قُرآن کی باطل تأویلات کی جاتی ہیں  اور صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ کا انکار کر دِیا جاتا  ہے ،اور پھر بھی خود کو""" سُنّت اور الجماعت کے تابع فرمان """سمجھتے ہیں  اور اپنے آپ کو """ اہل سُنت و الجماعت """کہتے ہیں ، میرا موضوع اِس وقت یہ نہیں ، کہ کس کا اختیار کردہ لقب اسکی حقیقت کے مطابق ہے ، اورکِس کانہیں،

اِس مضمون میں تو دس  محرم کے دِن کی حقیقت اور اِس دِن کے روزے کی وجہ کے متعلق بات کرنا مقصود ہے ، لہذا  اِن شاءَ اللہ آنے والے صفحات میں دس محرم کے بارے کُچھ بات چیت ہو گی،

 اوپر بیان کردہ آیت کی روشنی میں ہمیں محرم کے مہینے کی فضلیت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے  ذریعے معلوم ہوئی ،

 آیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی طرف سے اِس ماہ یا اِس کے کِسی خاص دِن کےبارے میں ہمیں کیا بتایا ، سیکھایا گیا ہے ۔ 

::::::: عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ """ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس  محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے  دریافت فرمایا کہ (((((مَا ھَذا؟ :::یہ کیا ہے؟))))) تو اُنہیں بتایا گیا کہ """یہ دِن نیک ہے ،  اِس دِن اللہ نے بنی أسرائیل کو اُن کے دشمن (فرعون )سے نجات دِی تھی تو اُنہوں نے روزہ رکھا تھا"""،

 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نےاِرشاد فرمایا (((((فَأنَا أحقُ بِمُوسیٰ مِنکُم  :::میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے ))))) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم فرمایا )))))"""،  صحیح البُخاری /حدیث2004/کتاب الصوم/باب69 ۔ 

اِس حدیث شریف میں دس محرم کے روزے کا سبب ظاہر ہونے کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم غیب کے معاملات میں سب کا ہی  علم نہیں رکھتے تھے ، اور یہ حدیث شریف  اِس موضوع کے بہت سے دلائل میں سے ایک ہے ، (علم غیب کے بارے میں کچھ مقامات پر کافی بات چیت ہو چکی ہے لہذا اُسے یہاں دہرا کر میں اِس  مضمون کے موضوع کو پراگندہ نہیں کرنا چاہتا )

(أبو موسی رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ""" دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی  اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَصُومُوهُ أَنْتُمْ:::تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو)))))صحیح البُخاری /حدیث 2005/کتاب الصوم/باب69، 

دس محرم کا روزہ رمضان کے روزوں سے پہلے بھی تھا ، لیکن فرض نہیں تھا

اِیمان والوں کی والدہ محترمہ ، امی جان عائشہ ، عبداللہ ابنِ عُمر، عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہم سے روایات ہیں کہ (((((اِس دس محرم کا روزہ اہلِ جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے اور رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم بھی رکھا کرتے تھے اور اِسکا حُکم بھی فرمایا کرتے تھے اور اِس کی ترغیب دِیا کرتے تھے ، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے ہمیں نہ اِس کا حُکم دِیا ، نہ اِس کی ترغیب دِی اور نہ ہی اِس سے منع کیا ))))) صحیح مُسلم /کتاب الصیام /باب صوم یوم عاشوراء

اِیمان واے کے ماموں جان ، کاتب وحی ، اور چھٹے خلیفہ بلا فصل امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ(((((ھذا یَومُ عَاشُورَاء َ ولم یَکتُب اللَّہُ عَلَیکُم صِیَامَہُ وأنا صَائِمٌ فَمَن شَاء َ فَلیَصُم وَمَن شَاء َ فَلیُفطِر:::یہ دس محرم کا دِن ہے اور اللہ نے تُم لوگوں پر اِس کا روزہ فرض نہیں کِیا ، اور میں روزے میں ہوں تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار کرے)))))صحیح البُخاری حدیث 2003/کتاب الصوم/باب69، صحیح مُسلم حدیث 1129/کتاب الصیام/باب19۔

دس محرم کے روزے کی فضلیت اور أجر و ثواب

:::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے(((((میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کو دیکھاکہ نہ تو وہ(صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم)کِسی بھی اور دِن کے (نفلی)روزے کواِس دس محرم کے روزے کے عِلاوہ، زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کِسی اور مہینے کو اِس مہینے سے زیادہ (فضیلت والاجانتے تھے )یعنی رمضان کے مہینے کو))))) صحیح البُخاری /حدیث 2006/کتاب الصوم/باب69۔ 

::::::: ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ ایک لمبی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ """""رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے عاشوراء (دس محرم)کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو  انہوں نے اِرشاد فرمایا(((((اَحتَسِبُ علی اللَّہِ اَن یُکَفِّرُ السَّنَۃَ المَاضِیَۃَ :::میں اللہ سے یہ اُمید رکھتا ہوں کہ(یہ عاشوراء کا روزہ )پچھلے ایک سال کے گُناہ معاف کروا دے گا )))))صحیح مُسلم حدیث 1162/کتاب الصیام/باب36، صحیح ابن حبان /حدیث3236 ۔

(((مضمون کے آخر میں دس محرم کے روزے سے متعلق ایک أہم مسئلے کا بیان ہے )))

محرم کے مہینے اور خاص طور پر دس محرم کی صِرف  یہ ہی فضلیت ہمیں قُرآن اور حدیث میں ملتی ہے ، اِس کے عِلاوہ اور کُچھ نہیں ۔

جی ہاں ، اِس دِن ، یعنی دس محرم کے بارے میں  عام مشہور تاریخی کہانیوں کے مُطابق ساٹھ ہجری کے محرم کے مہینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے محبوب نواسے  حُسین رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے خاندان کے کُچھ اَفراد کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا،

 اِس  دردناک حادثے کی تمام تر ذمہ داری اُن منافقوں پر آتی ہے جو اُس وقت اپنے آپ کو  چوتھے بلا فصل خلیفہ أمیر المومنین  علی رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کی محترمہ بیوی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی  فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اُن علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کی اولاد رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور پھر اُن کی اولاد رحمہم اللہ کے ہمدردو مددگار یعنی شعیہ  ظاہر کرتے تھے ،

  اُس حادثے کے ذمہ دار لوگوں نے، حسین رضی اللہ عنہ ُ  اور اُن کے قافلے کے کچھ دیگر لوگوں رحمہم اللہ کو قتل کرنے والوں نے اور اُن کے ہم خیالوں نے اپنی ان کالی کرتوتوں کو چھپانے کے لیے ، اُس واقعے  کی اصلیت کو بدل کر دِکھانے کے لیے جھوٹ بنانے اور پھیلانے شروع کر دیے ،

اُس منافق ٹولے کے وا ویلے سے مُتاثر ہونے والے مُسلمان آج بھی خیر اور نیکی ، سمجھ کر ، علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور اُن کی اولاد سے محبت اور عقیدت سمجھ کر دو کام بڑے تسلسل اور شدّ و مد کے ساتھ کر رہے ہیں :::

::: ( 1 ) ::: مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا ،

::: ( 2 ) ::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے بلا فصل چَھٹے خلیفہ،اِیمان والوں کے مامون جان  ، کاتبِ وحی ، معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہما ، مُغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ُ ، معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے بیٹے ساتویں خلیفہ یزید (اللہ اُس کی بخشش فرمائے) و علی آلہ  پر لعن و طعن کرنا ،

چونکیے نہیں ، اگر یزید کے نام ساتھ کوئی دُعائیہ کلمات لکھے یا کہہے جائیں کیونکہ ایسا کرنا غلط نہیں ، یقین نہ آئے تو اگلے صفحات ملاحظہ فرمایے ،،،لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ سے حق جاننے کی دُعا ء کرتے ہوئے ، واقعتاً  حق جاننے اور پہچاننے کا حوصلہ رکھتے ہوئے ، قصے کہانیوں کا غبار دِل و دِماغ سے اتار کر ، مطالعہ کیجیے گا ، اپنے دِل و دماغ کو سمجھا لیجیے کہ آرام اور سکون سے بات کو پڑہا جائے ، اور کِسی ضد یا تعصب کو بُنیاد بنا کر نہیں بلکہ سچی دلیل کو بنیاد بنا کر بات کو سمجھا جائے ،اللہ نے چاہا تو حق کے بارے میں  بہت کچھ واضح ہو جائے گا ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے اور اُس کو سمجھنےاور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،     

جی ہاں ، اگر آپ شہادتِ حُسین رضی اللہ عنہ ُ سے وابستہ کیے گے ، جھوٹے قصوں کے بارے میں مُختصراً کُچھ جاننا چاہتے ہیں تو آنے والے صفحات کا مطالعہ کیجیے ، اور اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے یا پہلے سے سُنے ہوئے قصوں کی وجہ سے پسند نہ آئے تو بلا تردد اُس کا اظہار کیجیے ، اِن شاءَ  اللہ حق آپ پر واضح ہو جائے گا ،

  نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  حُسین ابن علی رضی اللہ عنھُما کی شہادت

حُسین رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے خاندان کے کُچھ افراد کی شہادت کا واقعہ تقریباً ہر مُسلمان جانتا ہے ، اِس واقعہ کے بارے میں اور اِس کے سیاق و سباق میں جو کُچھ بیان کیا جاتا ہے اُس میں انتہائی مُبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ، اور مسلسل لیا جارہا ہے ،

محترم قارئین ، ماضی میں وہ سب  جھوٹی باتیں  اور قصے گھڑنے اور پھیلانے سے کہیں زیادہ افسوس ناک اور شرمناک معاملہ اب  ہم حال میں دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اُن جھوٹی باتوں اور قصوں کو مکھی پر مکھی مارنے والی روایت پوری کرتے ہوئے پھیلایاجاتا ہے ، اور بڑھا چڑھا کر پھیلایا جاتا ہے ، مزید جھوٹ کا بِھگار(تڑکہ)لگا لگا کر پھیلایا جاتا ہے ، حبء آل رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام پر پھیلایا جاتا ہے ، حبء اھل بیت کے نام پر پھیلایا جاتا ہے ، حُبء علی کے نام پر پھیلایا جاتا ہے ، اور اِسی قِسم کے کئی عنوانات دے دے کر پھیلایا جاتا ہے کہ جِن عنوانات کے ذریعے اللہ کےآخری رسول اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ، فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے خاوند ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے  داماد أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ اور علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بیٹوں  رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے والے مُسلمانوں کی محبت کو اِستعمال کر کے اُن مُسلمانوں کو  گمراہ کیا جا سکے ،

اِن سب عظیم المرتبہ شخصیات سے محبت مطلوب و مقصود ہے ، لیکن فرزانگی کے ساتھ نہ کہ دیوانگی کے ساتھ ، جب یہ محبت عقل و خِرد سے دُور ہو تی ہے تو گمراہ کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں ، اور جب تک محبت کرنے والے اپنے محبوب سے منسوب کسی بھی بات کو دیوانوں کی طرح ماننے کی بجائے ، اپنے محبوب  کی ذات کی پاکیزگی برقرار رکھنے کے لیے اُس سے منسوب کی جانے والی باتوں اور کاموں کی چھان پھٹک کرتے ہیں ، وہ لوگ باذن اللہ گمراہ نہیں ہو پاتے ، اور اُن کی محبت بھی برقرار رہتی ہے ، 

لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ اُن معزز و بزرگ شخصیات سے محبت کے نام پر ، حسین رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے قافلے کے لوگوں کی شہادت کے واقعہ کو سُنانا ایک پیشہ بنا لیا گیا ہے ، جو جتنا زیادہ بڑھا چڑھا کر سُناتا بتاتا ہے ، اور لوگوں کو رُلاتا ہے وہ اُتنا ہی زیادہ بڑا عالِم و ذاکر مانا جاتا ہے اور اپنی اِس فنکاری کی اُتنی ہی زیادہ قیمت وصول کرتا ہے ، اِس بات سے شاید ہی کوئی اِنکار کر سکے کیونکہ یہ ایسا معروف معاملہ ہے جو تقریباً مخالف و موافق ہر کِسی کے مشاہدہ میں ہے ، بہر حال ہر کوئی اپنی کمائی کا بدلہ پائے گا ، اور اللہ کے ہاں اُس کی کوئی مکاری اوربہانہ کام نہ آئے گا ،

قارئین کرام ،  آیے ذرا دیکھیں کہ عام طور پر کیا کیا کہا سُنا جاتا ہے ، اور اُسکی کیا حقیقت ہے ؟؟؟

اِس مُقام سے آگے چلنے سے پہلے ایک دفعہ پھر وہی گذارش کرتا ہوں کہ"""""اللہ تبارک وتعالیٰ سے حق جاننے کی دُعا ء کرتے ہوئے ، واقعتاً  حق جاننے اور پہچاننے کا حوصلہ رکھتے ہوئے ، قصے کہانیوں کا غبار دِل و دِماغ سے اتار کر ، مطالعہ کیجیے گا ، اپنے دِل و دماغ کو سمجھا لیجیے کہ آرام اور سکون سے بات کو پڑہا جائے ، اور کِسی ضد یا تعصب کو بُنیاد بنا کر نہیں بلکہ سچی دلیل کو بنیاد بنا کر بات کو سمجھا جائے ،اللہ نے چاہا تو حق کے بارے میں  بہت کچھ واضح ہو جائے گا ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے اور اُس کو سمجھنےاور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے"""""،

کہا جاتا ہے کہ دس محرم ساٹھ ہجری کو حُسین رضی اللہ عنہ ُ کو اور اُن کے اہلِ خانہ و خاندان کو کربلا کے مقام پر شہید کر  دِیا گیا تھا ، اوراِس طرح قصہ گوئی کی جاتی ہے گویا کہ بیان کرنے والا شخص سب مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہے ، یہ سب  قصے اور کہانیاں ایک ہی جڑ کی شاخیں ہیں ،

جی ہاں اس  واقعہ کربلا کی ساری داستانیں ایک ہی شخص کی پھیلائی ہوئی خود ساختہ باتوں پر مبنی ہیں ، اِن داستانوں کی کوئی اور بنیاد تاریخ میں میسر نہیں ہوتی ،

اس واقعہ کی قصہ گوئی سب سے پہلے"""ابو مخنف لوط بن یحيٰ"""نے کی  ،

 جو کہ  اِمام شمس الدین الذہبی رحمہ ُ اللہ کے کہنے مطابق 170 ہجری میں مرا تھا ،

 ذرا غور فرمایے ،محترم قارئین ، تھوڑی سی توجہ درکار ہے ، زیادہ غور و فِکر کی ضرورت نہیں ،

دیکھیے کہ  حُسین رضی اللہ عنہ ُ کی شہادت کا واقعہ ساٹھ ہجری میں پیش آیا  اور اِس واقعہ کا پہلا راوی اِس واقعہ کے ایک سو دس سال بعد مرا ہے ، واقعہ کے وقت اُس کی عمر کم از کم سولہ سترہ سال تو ہونی  چاہیے ، اور یوں اِس دروغ گو کی عمر مرنے کے وقت ایک سو پچیس سال تو ہونی ہی چاہیے تھی جو کہ یقینا اتنی نہیں تھی کیونکہ کہیں کوئی اِشارہ بھی اِس کی طویل عمری کے بارے میں نہیں ملتا ، دوسرا قصہ گو """محمد بن السائب الکلبی """،

اور تیسرا قصہ گو اِس کا بیٹا"""ہشام بن محمد بن السائب الکلبی""" ہیں ،

اِمام الذہبی رحمہُ اللہ  ، اِمام ابنِ حبان رحمہُ اللہ ، اِمام السیوطی رحمہُ اللہ، اِمام ابنِ تیمیہ رحمہُ اللہ  اور دیگر أئمہ کرام  رحمہم اللہ نے اِن کو دونوں باپ بیٹے کو  جھوٹا اور متعصب شعیہ قرار دِیا ہے ،

یہاں یہ بات بہت اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے کہ اُس زمانے میں جِسے شعیہ کہا جاتا تھا اُس شعیہ میں  اور آج کے شعیہ میں بہت فرق ہے ،

 کتبِ حدیث و تاریخ میں اُس وقت عام طورپر شعیہ اُن لوگوں کو کہا جاتا تھا جو علی رضی اللہ عنہ ُ کو دیگرتمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ فضیلت والا جانتے تھے لیکن کِسی بھی دُوسرے  صحابی رضی اللہ عنہ ُ    کو کافر یا مُرتد کہنا  تو دُور ٹھہرا بُرا  بھی نہیں کہتے تھے ،

 بہت کم ایسے تھے جو چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ اُنہوں نے  أمیر المؤمنین علی اور جگر گوشہء رسول فاطمہ رضی اللہ عنہما کی حقوق تلفی کی تھی ، ایسا کہنے والوں کو """غالی شعیہ""" کہا اور لکھا گیا ،

بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے کہ عِلم""" اسماء الرجال """میں """جرح و تعدیل"""میں اِستعمال ہونے والی اصطلاحات کے کیا مفاہیم مقرر ہیں ، ہم اپنے رواں موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہتے ہیں ،   کہ ،

 جِس واقعہ کے راوی ، یعنی روایت کرنے والے ، واقعہ سُنانے والے ، واقعہ کے حاضر نہیں ہوتے لیکن حاضر کی طرح واقعہ بیان کرتے ہیں اور یہ بھی نہیں بتاتے کہ اُنہوں نے یہ سب کُچھ کہا ں سے لیا ہے تو اُن کے بیان کو کہانی کہا جاسکتا ہے ،قصہ کہا جا سکتا ہے ، اَفسانہ کہا جا سکتا ہے ، واقعہ نہیں ،

 اِن واقعات کی کہانیاں سب سے پہلے اِمام أبو جعفر محمد بن جریر الطبری نے اپنی تاریخ میں بغیر کِسی تحقیق اور سند کے لکِھیں ، اور پھر بعد میں آنے والوں نے مکھی پر مکھی مارنے کی رسم پوری کی ، خاص طور پر ، واقدی ، مسعودی اور یعقوبی وغیرہ کی لکھی ہوئی تاریخ نے اِس واقعے کی قصہ گوئی میں مزید رنگ بھرے ،

::::: کچھ أہم نکات جو اِس واقعہ کی کہانیوں اور قصوں کے جھوٹ کو واضح کرتے ہیں  :::::

::::::: حُسین رضی اللہ عنہ ُ کے شہادت والے دس محرم کو جمعہ کا دِن بیان کیا جاتا ہے ، جب کہ حُسین رضی اللہ عنہ ُ کی مدینہ سے  روانگی ، مکہ میں آمد پھر مکہ سے روانگی کی تاریخوں کا تفصیلی اور گہرا مطالعہ کرنے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ بات درست نہیں ، دو میں سے ایک بات چھوڑنی پڑے گی یا دس محرم کی تاریخ یا جمعہ کا دِن ، لیجیے یہ کہانی تو أبتدا سے ہی غلط ہو گئی آگے کیا ہو گا ؟؟؟

آیے دیکھتے ہیں ،،،،،

::::::: جِس جگہ کو کربلا کا نام دِیا گیا ، اور کہا گیا کہ یہاں حسین رضی اللہ عنہ ُ کا پانی بند کر دِیا گیا اُس جگہ سے آج بھی کچھ گہرائی تک کھدائی کے بعد پانی میسر ہو جاتا ہے ،

::::::: واقعہ کربلا کی کہانیوں اور قصوں میں ایک طرف تو پانی بند کیا جاتا ہے اور دوسری طرف بالٹیوں کی بالٹیاں پانی نورہ لگانے  یعنی جِسم سے بال صاف کرنے کے لیے دوا لگانے کے بعد  اُسے دھونے کے لیے اِستعمال کرتے ہوئے دِکھایا جاتا ہے ،

:::::::  کوئی غور نہیں  کرتا کہ ایک طرف تو بچے پیاس سے بلک بلک جان دے رہے اور دوسری طرف حُسین رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے ساتھی ایرانی  رواج کے مطابق جنگ کے لیے اپنے جِسموں سے بال صاف کرنے کے لیے اتنا پانی اِستعمال کر رہے ہیں ،

لیکن ،،،،، ہم تو بس سُن سُن کر سُن ہونے والے اور اُسی سُنسناہٹ میں سُنا ہوا سب کچھ مان لینے والوں میں سے ہیں مگر صِرف وہ باتیں جو اپنے مذہب و مسلک میں ملتی ہوں ، خواہ سچ ہوں یا جھوٹ ، کوئی ثبوت ملے یا نہ ملے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے مسلک  میں ہیں ،

::::::: کہا جاتا ہے کہ حُسین رضی اللہ عنہ ُ کے قافلے میں کوئی مرد زندہ نہیں بچا ، جب پوچھا جاتا ہے کہ پھر علی بن حُسین بن علی رحمۃ اللہ علیہ و علی آلہ  جنہیں زین العابدین کہا جاتا ہے وہ کیسے بچ گئے؟؟؟

 تو کہتے ہیں کہ وہ اُس وقت چھوٹے بچے تھے ، جب کہ  حقیقت یہ ہے کہ زین العابدین اُس وقت اٹھارہ سالہ جوان اور ایک بچے کے باپ تھے ،

اِن خود ساختہ جھوٹے قصے کہانیوں میں کبھی حُسین رضی اللہ عنہ ُ کے سر  شریف کو مدینہ میں دفن کیا جاتا ہے ، کبھی کوفہ میں کبھی عراق میں ، جب کہ اُنکا سر شریف  اُن کے بزرگی اور عِزت والے جِسم کےساتھ ہی ایک ہی جسد کی طرح ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا ، کیونکہ اُسے تن سے جُدا کیا ہی نہیں گیا ،

::::::: کہا جاتا ہے کہ یزید نے علی رضی اللہ عنہ ُ  کی اولاد (((جنہیں اُس منافق ٹولے نے اہلِ بیت اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم  کے طور پر مشہور کیا، تا کہ ،  اِن منافقوں کی دسیسہ اندازیوں پر اِن ناموں کی وجہ سے کوئی شک نہ ہو ، جبکہ اہل بیت میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقدس و پاکیزہ بیگمات ہماری ایمانی مائیں آتی ہیں ، اور آل میں وہ سب رشتہ دار جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر ایمان لا کر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کی، جی تو  أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کی الاود کے دُشمن اور اُن کے قاتل منافق ٹولے کی پھیلائی ہوئی خرافات میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یزید نے أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ  کی اولاد)))سے سخت دشمنی کی اور  اُنہیں ہر جگہ اور ہر وقت پریشانی اور مُصبیت کا شکار کرتا رہا ،

قارئین کرام ، میرے محترم بھائیو ، بہنو ،  کیا آپ نے کبھی یہ سُنا ہے کہ اِس واقعہ کے بعد بھی ، واقعہ سے  پہلے کی طرح بنو اُمیہ اور بنو علی رضی اللہ عنہ ُ کے آپس میں نکاح ہوتے رہے ،

اور اِس کی وجہ یہ تھی کہ  بنو علی رضی اللہ عنہ ُ یہ اچھی طرح جانتے  تھے کہ یہ جو کُچھ ہوا ہے اُس کا ذمہ دار یزید نہیں بلکہ کوفہ کے وہ منافق ہیں جو اپنے آپ کو شعیانِ علی (رضی اللہ عنہ ُ)اور محبانِ اہلِ بیت کہتے ہیں ،

جی ہاں ، محترم قارئین، اگر آل علی اِس حقیقت کو نہ جانتے ہوتے وہ علوی خاندان والے  اپنی بیٹیاں اُموی خاندان میں نہ بیاہتے ، کیونکہ وہ نہ تو ڈرپوک تھے اور نہ ہی بے  غیرت کہ جِنہوں نے اُن کے باپ یا دادا کا سر کاٹ کر اُس کی بے عزتی کی ہو اُن کے خاندان کی عورتوں کی بے حرمتی کی ہو ،  بچوں پر ظلم و ستم کیے ہوئے ، اُنہی لوگوں اور اُسی خاندان کو اپنی بیٹیاں دیں ،

آیے ، اب ہم اِن رشتہ داریوں کو ایک اور زوایہ ء فہم پر پرکھتے ہیں ، اور  وہ یہ کہ ،

 اگر علوی خاندان کو کوئی مجبوری تھی تو اُموی خاندان کو کیا مجبوری تھی کہ حُکمران ہوتے ہوئے ، اور اِن جھوٹی تاریخی کہانیوں کے مطابق ظالم ، فاسق و فاجر ، اور علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کی اولاد کے دُشمن حُکمران ہوتے ہوئے اپنی بیٹیاں محکوم علوی خاندان میں دیتے ،  

حسین رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے خاندان کے کچھ افراد کو قتل کرنے والے منافقوں نے ، اپنے جرائم چھپانے کے لیے ، اور مسلمانوں میں فساد اور تفرقہ بپا کرنے کے لیے جو کہ اُن کا اصل مقصد تھا ، اور جس مقصد کے لیے وہ لوگ حسین رضی اللہ عنہ ُ کو جھوٹے واقعات سنا کر اور جھوٹے خطوط دِکھا کر اپنی مدد کے نام پر کوفہ لے جانا چاہ رہے تھے ،

اِس مذموم مقصد کو پورا کرنے کے لیے اُن قاتلوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی محبت کی آڑ میں ، اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے عنوان کی آڑ میں ، مُسلمانوں کو قصے کہانیاں سُنا سُنا کر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور تابعین رحمہم اللہ و رفع درجاتہم کا کردار مجروح کیا ، اب تک کچھ ایسے لوگ ہماری صفوں میں ہیں جو اُن منافقین کی روش اپنائے ہوئے ہیں ، اورہمارے کلمہ گو بھائی بہنوں کی اکثریت اُن کے نعروں اور مذکورہ بالا دعوؤں سے متاثر ہو کر، لا شعوری اور نا دانستہ  طور پر  اُن کے اِس مذموم مقصد کی تکمیل میں مدد گار بنی ہوئی ہے  ،

جب تحقیق کرنے والے عُلماء اِنہیں میدان تحقیق میں اِن کہانیوں کی سچائی پرکھنے کے لیے بُلاتے ہیں تو پھر یہ کہیں دِکھائی نہیں دیتے ، یہ جگہ اِس موضوع پر لکھنے کے لیے قطعاً نا کافی ہے ، کیونکہ جو باتیں صدیوں سے پھیلائی جا رہی ہیں اور جو جھوٹ لکھنے میں ہزاروں صفحات کالے کیے جا چکے ہیں ، اور کیے جاتے ہیں، اُن کا جواب چند صفحات میں نہیں آ سکتا ،

 بہت سے لوگ اِن جھوٹی کہانیوں کا مکمل تحقیق کے ساتھ جواب دے چکے ہیں اور دیانت داری کا تقاضا ہے کہ جِس کا سہرا ہو اُسی کے سر باندھا جائے کِسی کی محنت کے بل بوتے پر اپنی ذات کو، یا جِس سے لگاؤ یا عقیدت ہو جائے اُن کو بڑا ظاہر نہ کیا جائے ، جیسا کہ کئی لوگ کرتے ہیں ، اور پھر مفسرِ قُرآن ، شیخ الحدیث ،مؤرخِ اِسلام، مفکر ءِ اِسلام ،عِلم کا دریا، صدی کا اِنسان ، مفکرِ اِسلام ، وغیرہ وغیرہ  کہلانے لگتے ہیں،اللہ تعالیٰ ہم سب کو رِیاء کاری سے بچائے ،

تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے خاندان کے قاتل یزید کے بھیجے ہوئے فوجی نہ تھے ، بلکہ وہی کوفی منافق تھے جو خود کو """شعیان علی ، شعیان اہل بیت ، شعیان آل رسول """وغیرہ کہتےہوئےحسین رضی اللہ عنہ ُ کو کوفہ لے جا رہے تھے ،

جب انہوں نے یہ دیکھا اور سُنا کہ حسین رضی اللہ عنہ ُ کوفہ جانے کا اِرداہ ترک کرنے کا فرما رہے ہیں ، اور  کسی سرحد پر جا کر اللہ کی راہ میں جِہاد کرنے کا اِرداہ ظاہر فرما رہے ہیں ،یا اپنے چچا زاد بھائی یزید کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا اِرداہ طاہر فرما رہے ہیں تو اُس منافق اور اصلی قاتل  ٹولے نے شب خون مارا اور حسین رضی اللہ عنہ ُ اور ان کے خاندان کے کچھ افراد کو قتل کر دِیا ، اور، اور، اور،

یہ مضمون پڑہنے والے تمام بھائی بہنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اور کُچھ نہیں تو کم از کم دو کتابوں کا مطالعہ ضرورکریں ، کسی جماعتی ، مسلکی ، مذہبی تعصب کے بغیر  تاریخ میں بیان کیے جانے والے ایک واقعہ کی تحقیق سمجھ کر پڑہیں ،

پہلی کتاب کا عنوان""" خلافتِ معاویہ و یزید"""ہے ، اور لکھنے والا کا نام"""محمود أحمد عباسی"""ہے،کتاب کےعنوان سے ڈریے نہیں اور نہ ہی پڑہنے سے پہلے اِس کے بارے میں اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کیجیے ، بہت سی کہانیاں اور قصے آپ  پڑہتے اور سنتے آئے ہوں گے ، کہانیوں کی کتاب سمجھ کر ہی اِس کو پڑہنا شروع کیجیے ، اور دیکھیے کہ کِس کہانی میں کتنا سچ ہے اور کِس میں کِتنا جھوٹ ۔ 

دوسری کتاب"""واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر"""ہے ، لکھنے والے ’’’ عتیق الرحمٰن سنبھلی ‘‘‘ ہیں۔

اِن دونوں مصنفین کے بہت سے معاملات اور باتوں سے میں اتفاق نہیں رکھتا ، احادیث شریفہ کے بارے میں اِن کا مذھب و مسلک بھی قابل قبول نہیں ، اور  ان کے انداز کلام اور انداز کتابت کو بھی کافی حد تک نا دُرست جانتا ہوں ، لیکن اِس شہادتء حسین رضی اللہ عنہ ُ کے واقعے کے بارے میں اِن کی پیش کردہ تحقیق سے اچھی کوئی اور تحقیق ہماری اُردُو میں میسر نہیں ، اِس لیے میں اپنے اُردُو پڑھنے والے بھائی بہنوں کو اِن کتابوں کے مطالعے کا مشورہ پیش کر رہا ہوں ،اور ساتھ ہی ساتھ یہ گذارش بھی کر رہا ہوں کہ اِن کتابوں کے لکھنے والوں کے منھج اور انداز کو کسی بھی بات کی دلیل نہ سمجھا جائے ، بلکہ صِرف ان کی طرف سے مہیا کردہ تاریخی معلومات سے استفادہ کرتے ہوئے حُسین رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ اور اُن کے قافلے والوں کی شہادت کے واقعے کی حقیقت کو سمجھا جائے۔  

آیے ، معزز قارئین ، اب آپ کو کاتب وحی ، اِیمان والوں کے ماموں جان ، عظیم المرتبہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چَھٹے  بلا فصل خلیفہ أمیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ اور اُن کے بیٹے ، ساتویں بلا فصل خلیفہ ، یزید کے بارے میں مختصراً کُچھ ایسی باتیں بتاوں جو شاید آپ کو پہلے معلوم نہ ہوں ، اور اِس کے علاوہ  کُچھ ایسی باتیں آپ کے سامنے لاؤں گا جو یقینا آپ کے عِلم میں نہیں ہوں گی ،

 تھوڑی دیر پہلے کہی ہوئی بات پھر دہراتا ہوں،،، کہ"""اللہ تبارک وتعالیٰ سے حق جاننے کی دُعا ء کرتے ہوئے ، واقعتاً  حق جاننے اور پہچاننے کا حوصلہ رکھتے ہوئے ، قصے کہانیوں کا غبار دِل و دِماغ سے اتار کر ، مطالعہ کیجیے گا ، اپنے دِل و دماغ کو سمجھا لیجیے کہ آرام اور سکون سے بات کو پڑہا جائے ، اور کِسی ضد یا تعصب کو بُنیاد بنا کر نہیں بلکہ سچی دلیل کو بنیاد بنا کر بات کو سمجھا جائے ،اللہ نے چاہا تو حق کے بارے میں  بہت کچھ واضح ہو جائے گا ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق پہچاننے اور اُس کو سمجھنےاور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے"""۔

   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے چَھٹے بلا فصل خلیفہ معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہ ُو أرضاہ ُ

اِیمان والوں کے ماموں جان، اللہ کی وحی لکھنے والوں میں  سے ایک ، معاویہ رضی اللہ عنہ ُ وأرضاہُ ایک بلند رُتبہ صحابی ہیں ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  سب کے سب ہی وہ ہیں جِن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اللہ جلّ و عُلا اُن لوگوں کے دِلوں کا تقویٰ کے لیے امتحان لےچکا (اور ان کی کامیابی کی بنا پر )اللہ تعالیٰ نے اُن  سب ہی سے  اپنے خوش ہونے کی خبر فرما ئی  ہے ،

 اور ایک دو نہیں ، بلکہ  کئی مقامات پر قُرآن کریم  میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  کی تعریف فرمائی ہے اور اُنہیں حقیقی اور سچے مؤمن قرار دِیا ہے،

(((صحابہ رضی اللہ  عنہم اجمعین و أرضاہم کی عظمت جاننے اور سمجھنے کے لیے درج ذیل مضمون کا مطالعہ ضرور فرمایے :

:::: صحابہ کیا تھے ؟؟؟ اُن کی شخصیات کے بارے میں بری صِفات ماننے والے کیا جُرم کرتے ہیں ؟؟؟ :::::

http://bit.ly/2d48QLo   )))

 اِنہی صحابہ رضی اللہ عنہم و أرضاہم  میں سے معاویہ رضی اللہ عنہ ُ بھی ہیں ، جِن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے دُعاء فرمائی ،  جیسا کہ عبدالرحمان بن ابی عُمیرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ :::

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے معاویہ کا ذِکر کِیا اور فرمایا (((((اللَّھُمَّ  اِجعَلہُ  ھَادیاً  مَھدیاً و اَھدِ بِہِ ::: اے اللہ اِسے ہدایت یافتہ اور ہدایت پھیلانے والا بنا اور اِس کے ذریعے ہدایت دے))))) سلسلہ الصحیحہ /حدیث 1069 ، سنن الترمذی /حدیث 3842 ، مُسند احمد /حدیث 17926،

 اِس کے عِلاوہ امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں بہت سی احادیث اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین اور اُمت کے بڑے بڑے اِماموں رحمہم اللہ کے بہت سے صحیح ثابت شدہ اقوال مُیسر ہیں، بات کو مختصر اور اپنے رواں موضوع تک محدود رکھنے کے لیے اُن کا ذِکر نہیں کر رہا ہوں ،

 تاریخ ،،،،، سچی تاریخ ، منافقوں کی گھڑی ہوئی کہانیاں نہیں ،،،،،

جی ہاں ، سچی تاریخ اِس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے  رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی یہ دُعا معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے حق میں قبول فرمائی ، اور معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کی زندگی کے ہر معاملے سے  یہ ثابت ہوا کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں  اور ہدایت پھیلانے والے ہیں ،

 یہ الگ بات ہے کہ منافقوں کی آہ و بکا کا شکار ہو کر ہمارے مؤرخین نے بغیر کِسی تحقیق کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور خاص طور پر معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں وہ کُچھ لکھ مارا جو کہ اللہ کے  فرامین  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے ارشادات کے بالکل خِلاف ہے ،

اِس سے بڑھ کر دُکھ والی بات یہ ہے کہ میرے مُسلمان بھائی بہن، ایسے لوگوں کی بات سنتے  ہیں ، اور سن کر مان بھی لیتے ہیں ، جو لوگ خود کو تو """مجددِ کامل"""کے طور پر پیش کرنے میں ہچکچاتے نہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو خائن اور دُنیا کے لالچی بتاتے ہیں ،

 أنبیا کو """جلدباز """اور """مطلق العنان ڈکٹیٹر شپ کے خواہش مند""" کہتے ہیں ،

 اور اُنکے پیرو کار اُنہیں"""صدی کا اِنسان """ اور """ مزاج شناس رسول """بنائے ہوئے  ہیں،

اور کوئی ایسا ہے جو خود کو ’’’ علمی کتابی مُسلمان ‘‘‘ کہتا ہے اور  اپنے عِلاوہ  ہر  کِسی کو غلط سُجھانے کی کوشش کرتا ہے خواہ وہ مُسلمانوں کے أئمہ  رحمہم اللہ میں سے ہو ، یا صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ، ولاحول ولا قوۃ الا باللہ،

 ایسے ہی لوگ  منافقوں کی کہانیاں اپنی اپنی ز ُبانی سُنا سُنا کر، دانستہ یا نا دانستہ ، حق کو چھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اور کر رہے ہیں ،  لیکن اللہ تعالیٰ کی بات ہی سچی ہے کہ وہ حق کو ظاہر کر کے ہی رہتا ہے خواہ مجرموں کو کتنی ہی تکلیف ہو ،

 لہذا ہر دور میں اللہ نے ایسے بندے پیدا کیے جنہوں نے منافقوں کے جھوٹ کے پول کھولے ،

جی  تو ، محترم قارئین ،  بات ہو رہی تھی أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کی فضلیت کی، جِس کے ثبوت میں  ایک حدیث   تو ابھی اوپر بیان کی گئی ہے اور دُوسری اب پیش خدمت ہے،

اُم حرام رضی اللہ عنہا سے روایت  ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( أَوَّلُ جَیشٍ من أُمَّتِی یَغزُونَ البَحرَ قد أَوجَبُوا  :::میری اُمت میں سے جو فوج سب سے پہلے سمندر میں جہاد کرے گی اُنہوں نے جنت واجب کر لی (یعنی ایسا کام کیا کہ اُن پر جنت واجب ہے) )))))،

 اُم حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا"""اے اللہ کے رسول (دُعا کیجیے ) میں اُن میں سے ہو جاؤں"""،

تو اِرشاد  فرمایا (((((أَنتِ فِیھِم :::تُم اُن میں سے ہو))))) ،

اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے مزید اِرشاد  فرمایا (((((أَوَّلُ جَیشٍ من أُمَّتِی یَغزُونَ مَدِینَۃَ قَیصَرَ مَغفُورٌ لَھُم :::میری اُمت میں سے جو فوج سب سے پہلے قیصر کے شہر(یعنی قُسطُنطُنیہ ) پر جہاد کرے گی اُن سب کی مغفرت ہو چکی)))))،

 اُم حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کِیا """اے اللہ کے رسول (دُعا کیجیے ) میں اُن میں سے ہو جاؤں"""،

تو اِرشاد  فرمایا (((((لَا::: نہیں (تُم اُن میں سے نہیں ہو گی))))))صحیح البُخاری /حدیث 2924 /کتاب الجھاد و السیر /باب 93،

××× کیا  اِن قصہ گو لوگوں کو کبھی یہ ہمت ہوتی ہے کہ وہ یہ سچ بھی بتائیں کہ مُسلمانوں میں سب سے پہلے بحری بیڑہ تیار کرنے والا اور سب سے پہلے سمندر میں جہاد کرنے والے لشکر کے سپہ سالار  ، أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ تھے  ،

یعنی   اللہ کے آخری نبی اور رسول  محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کےاِس مذکورہ بالا صحیح ثابت شدہ  فرمان مُبارک کے مطابق اُس جنتی لشکر کے سردار ہیں ، اور اِس لشکر میں أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کی اطاعت میں لڑنے والوں میں اِس حدیث کی راویہ اُمِ حرام رضی اللہ عنہا  اور اُنکے شوہر عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ  اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے ، 

××× یہ أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ ہی ہیں کہ  جِن کی خِلافت کے حق میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اپنی  دستبرداری کا اعلان کیا اور جِس سال میں یہ کام ہوا اُس سال کو تاریخ میں """عام الجماعۃ """  یعنی """ اتفاق ہو جانے والا سال """کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ 

××× یہ أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُہی ہیں کہ جِن کے بیس سالہ دورِ خِلافت میں کِسی منافق کو کوئی فتنہ پھیلانےبلکہ اُٹھانے تک کی جرأت نہیں ہوئی ۔

××× یہ أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ  ہی ہیں کہ جِن کے دورِ خِلافت میں ، دوسرے خلیفہء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم  عُمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ کے بعد اِسلامی مملکت کے اندر سب سے زیادہ أمن اور سکون اور معاشی اور معاشرتی ترقی ہونے کےساتھ ساتھ اِسلامی مملکت کی حدود میں بہت بڑا أضافہ ہوا ،

××× یہ مذکورہ بالا حقائق  أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے دورِ خِلافت کے چند کارنامے ہیں ، اُن کی خلافت میں اللہ کی طرف سے ملنے والی برکتوں میں سے چند ہیں ، ایسے واقعات ، اور ایسی برکت  جو منافق اور اُن کے نمائندے، یا لا علمی کی وجہ سے نادانستہ طور پر اُنکے ہاتھوں میں کھیلنے والے کبھی بیان نہیں کرتے ،

 بلکہ """خِلافت اور ملوکیت """کے نعرے لگا لگا کر أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ پر یہ اِلزام لگاتے ہیں کہ اُنہوں نے اِسلامی خِلافت کو خاندانی ملوکیت  یعنی بادشاہی میں بدل دِیا ،

 لیکن یہ کبھی نہیں بتاتے کہ اگر باپ کا اپنے بعد بیٹے کو جانشین مقرر کرنا ملوکیت ہے اور یہ ملوکیت غیر  اِسلامی ہے تو یہ کام اِسلام میں سب سے پہلے أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ نے تو نہیں کیا ،

 بلکہ أمیر المؤمنین علی رضی اللہ  عنہ ُ نے کیا اور اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ ُ کو اپنا جانشین مقرر کیا ،

أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ نے تو اپنے بھائی أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کی سُنّت پر عمل کیا تو یہ گُناہ کیسے ؟؟؟

 اور اگر معاذ اللہ ایسا کرنا گُناہ ہے تو پھر اُس گُناہ کا پہلا گُناہ گار کون ہوا؟؟؟

اِس طرح تو ، معاذ اللہ، یہ اِلزام أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ پر لگ جاتا ہے ، لیکن کون سوچتا ہے ،

ایسی حرکتوں سے یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ محض بغضء معاویہ میں گم ہو چکے لوگوں کی حبء علی کی حقیقت آشکار ہو جاتی ہے ،

ایسے لوگ  اپنے تعصب میں، یا اپنی گمراہ محبت اور عقیدت میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جِن سے محبت اور مددگاری کا دعویٰ کرتے ہیں اُن پر ہی اِلزام لگائے چلے جا رہے ہیں، کہ جِس بات کو ہم نے اپنا لیا اُس کو دُرست ثابت کرنے کے کچھ بھی کہتے ہیں ، اور کِسی پر کوئی بھی اِلزام لگاتے ہوئے ہمیں کچھ خیال نہیں آتا ،  اللہ ہم سب کو ہر غلطی اور تعصب سے محفوظ رکھے ،

×××   حیرت کی بات ہے  ناں ، قارئین کرام ، کہ  جِس کی خِلافت پر بیس سال تک کوئی اختلاف نہیں ہوا اُس کو خلیفہ یا أمیر المؤمنین  نہیں کہا جاتا بلکہ صرف """أمیر"""کہا جاتا ہے ،،،،،محترم قارئین ، کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے نام کے ساتھ صِرف لفظ"أمیر" کیوں اِستعمال کیا جاتا ہے ؟؟؟

منافقوں نے خِلافت کو أمارت میں بدلنے کا الزام أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے  سر لگایا ، اور ہمارے بے چارے """مفکرانِ اِسلام ، علماء عظام"""نے بغیر کِسی چھان پھٹک کے یہ لقب أمیر المؤمنین  معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے لیے قبول کر لیا ، اور مؤمنین کی اُس أمارت سے ہٹا ڈالا جو کہ خلافت ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کہلاتی تھی ،

میں سب قارئین سے درخواست کرتا ہوں کہ جو صاحبان عربی پڑھ سکتے ہیں وہ اِمام ابو الفداء إِسماعیل بن عُمر بنِ کثیر  رحمہ ُ اللہ کی """البدایہ و النہایہ"""، ،،،،اور اِمام احمد  بن علی بن حَجر العسقلانی رحمہ ُ اللہ کی """فتح الباری شرح صحیح البخاری """،

 اور اِمام یُوسُف بن عبداللہ  ابنِ عبدالبِر رحمہ ُ اللہ کی """ الاستيعاب في معرفة الأصحاب"""کا مطالعہ کریں ،

 اور اُردو پڑہنے والے  حضرات ، عبدالعَليّ فاروقی کی """سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ُ مظلوم صحابیِ رسول """،

 اور أبو ریحان ضیا الرحمٰن فاروقی کی"""سیدنامعاویہ بن أبی سُفیان """کا مطالعہ کریں ۔ 

    یزید بن معاویہ ،  جنّتی باپ کا جنّتی بیٹا ، جنّتی لشکر کا سالارِ اعلیٰ

xxx یزید بن معاویہ  کا نام دیکھ کر غُصہ مت کیجیے ،بس ذرا صبر ، تحمل اور تدبر کے ساتھ اگلے صفحات میں آنے والی معلومات کا مطالعہ فرمایے،اور،،، اللہ تعالیٰ  سے دُعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دِلوں سے باطل کو نکالے اور حق کو قبول کر کے اُس پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے ، اور پھر آگے لکھے ہوئے اِلفاظ کا اچھی طرح غور اور تدبر سے مطالعہ فرمایے اللہ نے چاہا تو حقائق سجھائی دیں گے ،

منافقین ، نام نہاد شعیان اور محبان اہل بیت اور اصلی  قاتلین حسین رضی اللہ عنہ ُ  ، نے اپنے جرائم کی پردہ داری کے لیے اور مسلمانوں میں فساد برپا کرنے اور رکھنے کے لیے ، یزید کے نا کردہ گناہوں کی فہرست اُن کے والد أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کی فہرست سے بھی لمبی  تیار کی ،

 یزید کو ، شرابی ، بدکار ، ظالم فاسق و فاجر کہا جاتا ہے ، جبکہ کہیں کوئی ایک بھی صحیح روایت ایسی نہیں ملتی جو یہ دعویٰ ثابت کر  سکے ، ایک سے بڑھ کر ایک جھوٹ یزید پر باندھا گیا،

 اور"""صدی کا اِنسان"""،""" مجدد ء ملت """، """ عِلمی کتابی مُسلمان """ وغیرہ وغیرہ  بن بیٹھنے والوں نے، اور اُن  جیسوں اور اُن کے ہمنوا   یزید پر مزید کرم فرمائی کرتے ہوئے سچی باتوں میں سے کانٹ چھانٹ کر کے اپنی مرضی کی عبارات نکال کر اور اُنہیں جوڑ کر نئے سے نئے قصے پیدا کرتے رہتے ہیں،،،

 آیے ، ذرا یزید   کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیے اور دیکھیے کہ  اللہ کا یہ بندہ نیک تھا کہ بدکار ؟؟؟ بہادر تھا کہ بزدل؟؟؟حُسین رضی اللہ عنہ ُ اور آلِ علی رضی اللہ عنہ ُ کی عزت کرنے والا تھا یا بے عزتی کرنے والا؟؟؟ 

EEE یزید ،  أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کا بیٹا تھا، ایک صحابی کا بیٹا ، اور ایسا بیٹا جِس نے اپنے  صحابی باپ سے ہی نہیں دیگر  صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین سے بھی اللہ کا سچا  دِین  سیکھا ، اور اللہ کے اُس سچے دِین اِسلام کے مطابق تربیت پائی،

جیسا کہ اِمام ابنِ حجر العسقلانی رحمہُ اللہ  نے """ ا لأصابہ """ میں ،

  اورإِمام  ابنِ سعد رحمہُ اللہ  نے """ طبقات """ میں ذِکر کیا کہ،

 یزید نے حجر بن حنظلہ الشیبانی اور عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہما سے علم حاصل  کیا،  اور عبدالمطلب بن ربیعہ نے    اِسی    یزید بن معاویہ کو اپنی موت کے وقت اپنے تمام معاملات کا وصی اور وارث بنایا ،

محترم و معزز مسلمان بھائیو ، بہنو ،

للہ انصاف اور حقیقت پسندی کے مطابق سوچیے ، اور فیصلہ کیجیے کہ ،،، ایک صحابی  رضی اللہ عنہ ُ  جِس کو اپنے معاملات کا وصی اور وارث بناتے ہیں اور کم از کم ایک سو بیس صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  جِس کی ولی عہدی اور خِلافت کے دور کو  پاتے ہیں اور قبول کرتے ہیں ، وہ تو بدکار، فاسق اور فاجر ،،، اور ،،،اور ، اور،

لیکن اللہ کی رضا کی سند پانے والے  صحابہ  رضی اللہ عنہم اجمعین کو کافر اور مرتد کہنے والے ، قُرآن کو شراب خور خُلفاء کی کتاب کہنے والے ، اپنے بد کار ظالم اور قاتل ساتھیوں کو محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے ساتھیوں سے اچھاکہنے والے ، اِمام اور حُجتُ الاِسلام ،

اور اگر ہم جیسا کوئی کِسی تاریخی کہانی کی سچائی بیان کرے ، یا اللہ کے کسی بندے کی وہ فضیلت بیان کرے جو قران یا صحیح سنّت میں میسر ہے تو ، وہ ناصبی ، فرقہ واریت پھیلانے والا ، سُبحان اللہ العظیم ، !!!!!!!!!یا حسرتَ عَلیٰ العِباد ،

یہ ہمارا کون سا اِسلام ہے ؟؟؟ کیسا مسلک ہے ؟؟؟ کیسا مذھب ہے ؟؟؟

أنتہائے حیرت سے گزرا جاتا ہوں قوم کی افسانہ پرستی پر :::::جھوٹ کو ہی سچ کرنا ہے صد افسوس اِس بہانہ پرستی پر

EEE أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے ذِکر میں ، میں نے اُمِ حرام بنت مِلحان رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ حدیث بیان کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے اِرشاد فرمایا  ((((( أَوَّلُ جَیشٍ من أُمَّتِی یَغزُونَ البَحرَ قد أَوجَبُوا  :::میری اُمت میں سے جو فوج سب سے پہلے سمندر میں جہاد کرے گی اُنہوں نے جنت واجب کر لی (یعنی ایسا کام کیا کہ اُن پر جنت واجب ہے) )))))، اُم حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا"""اے اللہ کے رسول (دُعا کیجیے ) میں اُن میں سے ہو جاؤں"""،تو اِرشاد  فرمایا (((((أَنتِ فِیھِم :::تُم اُن میں سے ہو))))) ،

اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے مزید اِرشاد  فرمایا (((((أَوَّلُ جَیشٍ من أُمَّتِی یَغزُونَ مَدِینَۃَ قَیصَرَ مَغفُورٌ لَھُم :::میری اُمت میں سے جو فوج سب سے پہلے قیصر کے شہر( یعنی قُسطُنطُنیہ ) پر جہاد کرے گی اُن سب کی مغفرت ہو چکی)))))، اُم حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کِیا """اے اللہ کے رسول (دُعا کیجیے ) میں اُن میں سے ہو جاؤں"""،

تو اِرشاد  فرمایا (((((لَا::: نہیں (تُم اُن میں سے نہیں ہو گی) ))))) صحیح البُخاری /حدیث 2924 /کتاب الجھاد و السیر /باب93۔

EEE اِس  مذکورہ بالا حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم نے دو گروہوں کے جنّتی ہونے کی بشارت دی ہے ، پہلے جنّتی گروہ کا سردار اللہ نے أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کو بنایا،

 اور دوسرے جنّتی گروہ کا سردار اِنکے بیٹے یزید کو بنایا ، یہ اللہ کا فضل ہے جو صِرف اُس نے اپنے اِیمان والے نیک بندوں کے لیے خاص کر رکھا ہے ،

حاسدوں کے حسد سے اور جھوٹی کہانیاں اور قصے فروخت کرنے والوں کے کہنے سے اللہ کی طرف سے عطاء کردہ رُتبوں میں کمی نہیں ہو سکتی ، ہاں جھوٹے ، متعصب،دِین کے نام پر دُنیا کمانے والے ،اچھائی کے بھیس میں برائی پھیلانے والے اور اِیمان نُما شکر میں لیپٹ کر کفر  و شرک، ضِد و تعصب  کا زہر  کھلانے والے لوگ اپنے لیے آخرت کی یقینی تباہی کما لیتے ہیں اور بسا اوقات دُنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اُنہیں دُوسروں کے لیے عِبرت کا نشان بنا دیتا ہے ۔

EEEرسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے مندرجہ بالا فرمان کے مُطابق اُن کی اُمت میں سے جِس فوج نے سب سے  پہلے قیصرِ رُوم کے شہر پر جِہاد کیا وہ ساری کی ساری فوج جنّتی ہے ، تاریخ چیخ چیخ کر اِس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اِس جنّتی فوج  کا سردار ایک صاحبِ اِیمان ، نیک اور انتہائی بہادر جوان تھا اور اُسکا نام یزید بن معاویہ بن ابی سُفیان بن حرب بن اُمیہ ہے ۔

EEEیزید کی سرداری میں لڑنے والوں میں بڑے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم شامل تھے ، حُسین بن علی بن ابی طالب ، عبداللہ بن عمر ، عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن زبیر ، اور أبو أیوب أنصاری رضی اللہ عنہم أجمعین کے نام صراحت کے ساتھ ملتے ہیں ، اِمام ابنِ کثیر  رحمہُ اللہ نے"""البدایہ و النہایہ """میں ،،،، اور،،،اِمام ابن حَجررحمہُ اللہ نے اپنی"""فتح الباری شرح صحیح البُخاری"""، میں ،،،اور،،، اِمام الذہبی رحمہُ اللہ نے """ المنتقیٰ"""میں یہ باتیں بیان کی ۔

EEEمیزبانِ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم ، أبو أیوب الأنصاری رضی اللہ عنہ ُ اِس جہاد میں شامل ہوئے جبکہ اُن کی عُمر  اسی سال سے زیادہ تھی ، اِس عُمر میں جہاد میں شامل ہونے کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی جنّت کی بشارت تھی ،

 اِس جہاد میں أبو أیوب ا لأنصاری رضی اللہ عنہ ُ کی موت واقع ہوئی ، اُنکی عیادت کے لیے اِس جنّتی لشکر کے جنّتی سردار یزید اُنکے پاس آئے تو اُنہوں نے یزید کو اپنا جنازہ پڑھانے کی وصیت کی اور یہ وصیت کی کہ """مسلمانوں کو میرا سلام کہنا ، اور پھر ایک حدیث شریف سنائی ، اور پھر فرمایا ، میری میّت کو جتنا بھی ہو سکے دُشمن کی زمین کے اندر لے جا کر دفن کرنا """،

 یزید نے اُن کی نمازِ جنازہ پڑہائی اور اُن کی میت کو قُسطُنطُنیہ کے قلعہ کی دیوار کے نیچے دفن کیا ، روم کے سربراہ نے دریافت کروایا کہ یہ کیا دفن کیا جا رہا ہے ؟

 تو یزید  نے جواب دِیا """یہاں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کے صحابی کی میّت دفن کی جا رہی ہے اور ہم ایسا ضرور کریں گے خواہ ہمیں اپنی گردنیں کٹوانی پڑیں"""،

قیصرِ روم نے جواب دِیا """ہم مسلمانوں کے جانے کے بعد یہ لاش نکلوا کر کتوں کے سامنے ڈال دیں گے"""،

یزید نے جو جواب دِیا وہ تاریخ میں محفوظ ہو گیا ، اور سُبحان اللہ کہ محفوظ بھی کچھ اِس طرح سے ہوا کہ مخالفین  کے ٹولے کو بھی اِس کا اعتراف کرنا پڑا ،

لہذا اُن کی ایک کتاب"""ناسخ التواریخ"""میں مصنف نے یزید کا جواب اِن اِلفاظ میں نقل کیا"""اے قُسطُنطُنیہ والوں ، یہ ہمارے نبی محمد کے بڑے صحابہ میں سے ہیں ، اور تم دیکھ رہے ہو کہ جہاں  ہم نے  اِنہیں دفن کیا ہے ، اگر تم لوگوں نے اِن کی کوئی بے حرمتی کرنے کی کوشش بھی کی تو اللہ کی قسم میں یقیناً اِسلامی سر زمین میں ہر  گرجا  منہدم کر دوں گا اور عرب کی سر زمین میں کبھی ناقوس کی آواز سنائی نہیں دے گی"""،

اللہُ اکبر ، یہ کِسی دُنیا پرست ، بدکار ، شرابی کی للکار نہیں ہو سکتی ، یہ ایک مؤمن کی للکار تھی جِس کی گونج آج بھی کافروں کے دِلوں کو دہلا دیتی ہے ، یہ للکار گویا کہ اللہ نے ایک کرامت بنا دِی کہ صدیاں گذر چُکِیں أبو أیوب ا لانصاری رضی اللہ عنہ ُ کی قبر آج بھی وہاں موجود ہے اور کبھی کِسی کو اُس قبر کی کوئی بے حرمتی کرنے  کی جُرأت نہیں ہوئی ۔

EEEیزید جِس پر ہر بُرائی کا الزام لگایا جاتا ہے ، اِنکی بیگمات میں سے ایک تو دوسرے خلیفہ بلا فصل  أمیر المؤمنین عمر  فاروقء اعظم رضی اللہ عنہ ُ کی پوتی تھیں،،،،، اور ایک جعفر طیار رضی اللہ عنہ ُ کی پوتی تھیں ، اِن ساری فضیلتوں کو پانے والے کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ وہ بدکار  نہیں تھا بلکہ  اللہ نے اُس پر رحمت فرمائی  تھی ، تو کچھ بے جا نہیں ،

سوچیے تو ،  ایک شرابی ، اور بدکار کے نکاح میں اِن بلند رُتبہ گھرانوں کی  عزت و عفت مآب بیٹیاں؟؟؟

 کوئی أنتہائی گِرا ہوا آدمی بھی اپنی بیٹی کے لیے ایسا رشتہ پسند نہیں کرتا تو دوسرے خلیفہ بلا فصل  أمیر المؤمنین عمر  فاروقء اعظم رضی اللہ عنہ ُاور جعفر طیار رضی اللہ عنہ ُ کے بیٹوں نے کیوں اپنی بیٹیاں یزید کو دے دیں ؟؟؟

 کیا معاذ اللہ وہ لوگ دُنیا کے لالچی تھے یا ڈرپوک تھے ؟؟؟

 ہر گِز نہیں ، ہر گِز نہیں ،اور ہر گِز ہر گِز  ہر گِز نہیں ، بلکہ  یہ لوگ سچ جانتے تھے یعنی ،،،   یزید غفر اللہ لہُ  کی نیک کرداری کو اچھی طرح جانتے تھے اِس لیے اُنہوں نے اپنی بیٹیاں یزید کے نکاح میں دِیں ۔ 

VVVٹھہریے ، رُکیے ، مجھ پر یا  کِسی بھی اور  پر ناصبی ہونے کا یا کوئی بھی اوراِلزام لگانے سے پہلے ، یزید  کا حالِ زندگی سچ سچ جاننے کے لیے  اُن کتابوں کا خوب اچھی طرح سے مطالعہ کر لیجیے جِن کا ذِکر کچھ دیر پہلے کیا جا چکا ہے ،

اور اُن کے ساتھ ساتھ ، عربی پڑہنے والے صاحبان ، اصلی شیخ الاسلام احمد ابن تیمیہ رحمہُ اللہ کی"""منہاج السُّنۃ """ کا بھی مطالعہ کریں ، او ر اُردو پڑہنے والے صاحبان ، محمد عظیم الدین صدیقی کی """حیات سیدنایزید"""کا مطالعہ کریں ،

 اللہ تعالیٰ ہمارے دِلوں اور دماغوں پر پڑے ہوئے باطل کے  پردے ہٹائے اور ہمیں توفیق عطاء فرمائے کہ ہم سچ کو سچ مانیں اور جھوٹ کو جھوٹ ۔سُبحانکَ اللَّھُم و بِحمدِکَ ، أشھدُ أن لا أِلہ أِلا أنت أستغفِرُکَ وَ أتوبُ أِلیک :::  اور اے ہمارے اللہ تیری ہی پاکیزگی ہے اور اور تیری ہی تعریف ہے ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ، میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں )))))۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:::::: ایک أہم مسئلے کے بارے میں وضاحت  ::::::

::::: دس محرم کا روزہ اکیلا نہ رکھا جانا افضل ہے  :::::

دس محرم کے دِن کا اکیلا روزہ رکھنے سے کہیں زیادہ افضل یہ ہے کہ اُس سے پہلے والے دِن یعنی نو محرم کا  روزہ بھی رکھا جائے ،

 کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کو دس محرم کا روزہ رکھنے کا فرمایا تو کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ """ یہودی اِس دِن کی تعظیم کرتے ہیں (یعنی تو بھلا کیا ہم اُن کی موافقت کریں ) """ ،

تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لأَصُومَنَّ التَّاسِعَ  :::اگر میں اگلے سال تک (دُنیا میں زندہ )باقی رہا تو میں ضرور نو (محرم )کا روزہ (بھی )رکھوں گا)))))صحیح مُسلم /حدیث /2723 کتاب الصیام/باب20،

فقہا ء کرام کے اقوال و مباحث میں سے دُرُست ترین بات یہ ہی سامنے آتی ہے کہ اور یہ کہ ، دس محرم کا اکیلا روزہ رکھنا مکروہ نہیں لیکن چونکہ دس محرم  کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی مخالفت کرنا بھی مطلوب ہے ، لہذا اِس کی تکمیل کے لیے دس محرم کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ بھی ملایا جا سکتا ہے ،

لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نو محرم کو اختیار فرمایا اور اُس دِن کا روزہ رکھنے کا مصمم اِرادہ ظاہر فرمایا ، لہذا افضل وہی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اختیار فرمایا ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے نو محرم کے دِن کو اختیار فرمانے میں ایک بڑی حِکمت یہ سُجھائی دیتی ہے کہ اس طرح بھی ہمیں نیکی کے کام میں تاخیر نہیں کرنے کی تعلیم و تربیت  عطاء فرمائی ہے ،

لہذا افضل یہی ہے کہ دس محرم کے روزے کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی ملایا جائے ،

اور یہ بات بھی خوب اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے کہ ہفتے کے دِن صِرف اور صِرف فرض روزہ ہی رکھا جا سکتا ہے ، اس موضوع کی مکمل تحقیق و تفصیل  میری کتاب""" ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا حکم""" میں موجود ہے ،

 کچھ لوگ اِس غلط فہمی کا شِکار ہوتے ہیں کہ یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر کافروں نے جو کام اب کرنا چھوڑ دیے ہیں ، اُن کاموں سے متعلقہ حکموں کی اب وہ حیثیت نہیں رہی ،

اور  اِسلامی کاموں سے منع رکھنے کے لیے ایک باطل فلسفہ یہ بھی رکھتے ہیں کہ اب جو کام یہودی اور عیسائی اور دیگر کافر بھی کرتے ہیں وہ کام مسلمانوں کو نہیں کرنا چاہیے ، مثلاً داڑھی رکھنا ، وغیرہ ،

ایسے لوگوں کے باطل فلسفوں اور اندھیری عقلوں کی ایسی ٹھوکروں کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ دِین کے احکام وہی ہیں جو اللہ اور اس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے دیے گئے ، اور وہ احکام قیامت تک کے لیے ہیں ، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ، اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کسی پر کسی بھی طور کوئی وحی نازل ہونے والی ہے کہ وہ کوئی نیا حکم پا لے ، یا کسی سابقہ حکم کو مسنوخ کہہ سکے ،

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، اور ہر کلمہ گو کو خصوصاً اور ہر ایک انسان کو عموماً حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔ طلب گارء دُعاء ، عادل سُہیل ظفر ۔

تاریخ کتابت : /01  محرم / 1429 ہجری ، بمُطابق ، 10/01/2008  عیسوئی ۔

تاریخ کتابت : /10  ذی الحج / 1434 ہجری ، بمُطابق ، 15/10/2013  عیسوئی ۔

تاریخ تجدید و تحدیث   ثانی :  /01  محرم / 1442 ہجری ، بمُطابق ، 20/08/2020 عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی کتابی نُسخہ  (PDF)  :  http://bit.ly/1eLnkLf

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:::  یوم ء عاشوراء ، دس محرم کا روزہ ، تاریخ اور فضیلت :::

http://bit.ly/2lAmYT0

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مختصر طور پر بعنوان ’’’ ماہ ِ محرم اور ہم (مختصر)‘‘‘ بھی مُیسر ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

:::  یوم ء عاشوراء ، دس محرم کا روزہ ، تاریخ اور فضیلت :::

http://bit.ly/2lAmYT0

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِس کے ساتھ ساتھ درج مضمون کا مطالعہ بھی ضرور فرمایے، اِن شاء اللہ خیر کا سبب ہو گا :::
"""صحابہ کیا تھے ؟؟؟ اُن کی شخصیات کے بارے میں بری صِفات ماننے والے کیا جُرم کرتے ہیں ؟؟؟  """

No comments:

Post a Comment