Monday, September 26, 2016

:::: صحابہ کیا تھے ؟؟؟ اُن کی شخصیات کے بارے میں بری صِفات ماننے والے کیا جُرم کرتے ہیں ؟؟؟ :::::


:::::       صحابہ  کیا  تھے ؟؟؟   اُن کی شخصیات کے بارے میں بری صِفات ماننے والے کیا جُرم کرتے ہیں ؟؟؟     :::::

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ                

و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::

السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اِیمان ، کِردار ، صِفات وشخصیات کے بارے میں کِسی بھی اور سے کوئی بھی گواہی لینے کی حاجت ہی نہیں ، کیونکہ تمام تر مخلوق کے اکیلے ، لا شریک خالق  اللہ العلیم ، الخبیر نے اُن کے بارے میں بہت سے گواہیاں خود دی ہیں ،

اور اللہ سے بڑھ کر سچ بولنے والا کوئی نہیں :::

(((وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ حَدِيثًۭا ::: اور اللہ سے بڑھ کر بھلا کِس کی بات سچی ہو سکتی ہے  ))) سُورت النِساء  (4) /آیت 87،

(((وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ قِیلًا::: اور اللہ سے بڑھ کر بھلا کون اپنی بات میں سچا ہو سکتا ہے  ))) سُورت النِساء  (4) /آیت 122،

اور خالق سے بڑھ کر اپنی مخلوق کو جاننے والا کوئی نہیں :::

(((أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ :::  بھلا وہ نہیں جانتا جِس نے سب کی تخلیق فرمائی ، اور وہ بہت ہی باریک بین ہے  اور مکمل ترین خبر رکھنے والا ہے))) سُورت المُلک  (67) /آیت 14،

اور   ازل سے ابد تک ہر ایک بات اُس کے عِلم میں ہے :::

(((عَـٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَـٰدَةِ ٱلْكَبِيرُ ٱلْمُتَعَالِ:::  اللہ غیب اور حاضر ( ہر چیز  اور معاملے) کا عِلم رکھتا ہے  وہ سب سے بڑا ہے ، اور بہر حال بالاتر ہے ))) سُورت الرعد  (13) /آیت 9،

(((  لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا  :::تا کہ تُم لوگ جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یقیناً اللہ نے ہر ایک چیز کو اپنے عِلم کے گھیرے میں لے  رکھا ہے   ))) سُورت الطلاق  (65) /آیت 12،

(((عَالِمِ الْغَيْبِ لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلا فِي الْأَرْضِ وَلا أَصْغَرُ مِن ذَلِكَ وَلا أَكْبَرُ إِلا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ:::  اللہ ہی غیب کا عِلم  رکھتا ہے، آسمانوں اور زمین مین کوئی ذرہ برابر چیز بھی اُس کے عِلم سے باہر نہیں ، اور نہ ہی کِسی ذرے سے چھوٹی کوئی چیز اور نہ ہی کوئی بڑی چیز ، سوائے اِس کہ اُس چیز کے بارے میں  واضح کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہوا ہے  ))) سُورت سباء  (34) /آیت 3،

اور اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبریں عطاء فرمائیں :::

(((إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ اكْتُبْ. فَقَالَ مَا أَكْتُبُ قَالَ اكْتُبِ الْقَدَرَ مَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الأَبَدِ  :::  اللہ نے سب سے پہلے قلم تخلیق فرمایا ، اور اُسے حکم دِیا کہ ، لکھو، قلم نے عرض کی ، کیا لکھوں ، اللہ نے فرمایا، جو کچھ پہلے تھا اور جو کچھ ابد تک ہونے والا ہے سب کچھ لکھو))) سُنن الترمذی /حدیث/2308کتاب القدر /باب17 ،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،

 (((قَدَّرَ اللَّهُ الْمَقَادِيرَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ  ::: اللہ نے آسمان اور زمین بنانے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی سب (مخلوق کے بارے میں سب ) کچھ لکھوا دِیا تھا  )))سُنن الترمذی /حدیث/2309کتاب القدر /باب18،صحیح ابن حبان /حدیث/6138کتاب التاریخ /باب2،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا۔

یہ مذکورہ بالا حدیث شریف ہمارے کچھ مُسلمان بھائی بہنوں میں پائے جانے اِس عقدیے کی نفی کرتی ہے کہ ، اللہ نے سب سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا نُور تخلیق فرمایا تھا،

ایسے کِسی  نُور کی، اُس کی  تخلیق کی کوئی بھی صحیح ثابت شُدہ خبر اللہ تعالیٰ یا اُس کے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی طرف سے نہیں ملتی،  بلکہ ، اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تو یہ خبر دی ہے جو آپ نے ابھی ابھی سُنی کہ  ((( :::  اللہ نے سب سے پہلے قلم تخلیق فرمایا)))،

تو ، بات  یہ ہو رہی تھی کہ ، اللہ تبارک و تعالی ازل سے ابد تک ہونے والے ہر کام کا مکمل اور یقینی علم رکھتا ہے ، لہذا اُس نے صحابہ رضی اللہ عنہم  پر راضی ہونے کی خوشخبریاں دِیں ، اُنہیں جنتی ہونے کی خوش خبریاں دِیں تو بلا شک و شبہ  وہ اُن سب کے بارے میں ابد تک کا یقینی علم رکھتا تھا ،   کہ میرے یہ سچے مؤمن بندے اسی کے مستحق ہیں ،

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں اللہ عزّ و جلّ کی گواہیاں :::

اُن گواہیوں سے پہلے ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے یہ فرامین  مُبارک پڑھتے چلیے ، اور اِنہیں  دِل و دِماغ میں بٹھا لیجیے  (((إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَن يَضِلُّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ::: بے شک (اے محمد )آپ کا رب سب سے زیادہ عِلم رکھتا ہے کہ کون اللہ کی راہ سے گمراہ ہے(اور گمراہ ہو گا)، اور کون ہدایت پایا ہوا ہے  ))) سُورت الانعام  (6) /آیت 117،

(((أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ::: کیا اللہ وہ کچھ نہیں جانتا جو کچھ  دُنیا والوں کے دِلوں میں  ہوتا ہے  ))) سُورت العنکبوت (29) /آیت 10،

اور اِس پر اِیمان رکھیے کہ اللہ جلّ و عُلا نے جِن کے ہدایت یافتہ ہونے کی گواہیاں دِی ہیں ، وہ یقینی طور پر جانتا تھا کہ وہ لوگ اُسی حال میں مریں گے ، اور اُسی حال میں اُس کے سامنے حاضر ہوں گے ،

پس خُوب اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ ،  بعد میں آنے والوں کی ہفویات کا کوئی اعتبار نہیں ،

جو کوئی بھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں کِسی ایک کے بارے میں بھی کوئی ایسی بات کہتا  یا لکھتا ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے کِسی فرمان کے خِلاف ہو ، اُس شخص  کا کہا اور لکھا سب ہی مَردُود ہے، خواہ اُس کے لیے وہ کوئی بھی عُذر پیش کرتا رہے، دُنیاوی زندگی میں  تو اُس  کا کوئی بھی عُذر اُسے اللہ  تعالیٰ کے فرامین کی تکذیب کے گناہ سے مبراء نہیں کر سکتا ،  آخرت کا معاملہ اللہ کے سُپرد ہے ، ایسے شخص کے ساتھ جو چاہے گا کرے گا ، 

اب پڑھتے ہیں ، اللہ العلیم کی  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اِیمان و کردار کے بارے میں تعریف ، اور گواہیاں ، 

(((مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَئَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ::: محمد اللہ کے رسول ہیں ، اور جو اُس کے ساتھ ہیں (اُن کی صِفات میں سے ہے کہ وہ)کافروں پر شدید ہیں ، اور ایک دُوسرے پر رحم کرتے ہیں، آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ اللہ کا فضل اور اللہ  کی رضا پانے کے لیے (اللہ کے سامنے) رُکُوع اور سجدے کرتے ہیں ، اُن کے چہروں  پر   سجدوں (کی کثرت سے ہونے والا نشان ) اُن کی پہچان ہے، اُن کی یہی نشانی تورات  میں (بھی بتائی گئی) ہے، اور انجیل میں  اُن کی مثال  یہ دی گئی ہے جیسا کہ کھیتی کی کوئی بوٹی اپنا سِرا نکالتی ہے، پھر اُسے مضبوط کیا ، اور پھر بڑی (اور موٹی )  ہو گئی ، پھر اپنے تنے پر قائم ہو گئی ، اور  کسان  کو خوش  کرتی ہے، تا کہ  اللہ (اِیمان والوں کی کھیتی کے پھلنے پھولنے سے )کافر وں کو جلائے، اللہ کا وعدہ ہے کہ اِن میں سے  جو اِیمان  لائے، اور نیک عمل کیے  تو اُن کے لیے بخشش ہے اور بہت عالی شان اجر ہے   ))) سُورت الفتح (48) /آیت 29،

ایک دُوسرے پر رحم کرنے والے ، اور اللہ کی رضا پانے  کے لیے اُس کے سامنے رکوع و سجود کرنے والے ،  کِن مؤمنین کی اللہ نے تعریف فرمائی ، ،،، کیا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین تھے؟؟؟ یا بعد میں آنے والے وہ لوگ جو اپنی ناقص اور چکرائی ہوئی عقل  کے مُطابق ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین   کو  تو  اپنے اِرد گِرد پائے جانے والے عام مُسلمان سمجھنے لگے، اور اپنے آپ کو ایسا برتر و اعلیٰ کہ  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں جاہلیت  و عصبیت  بھی دِکھائی دینے لگی،

(((وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ::: مہاجر اور انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے (اِسلام کی دعوت کے)بالکل آغاز آغاز میں ہی  اِسلام قبول کر لیا، اور (پھر ) وہ جو ، نیک نیتی اور نیکی کے ساتھ اِن (مہاجر و انصار صحابہ) کی پیروی کرتے ہیں ،  اللہ اُن سب سے راضی  ہو  گیا، اور وہ سب اللہ سے راضی ہو گئے ، اللہ نے اِن لوگوں کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں ، جِن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں، یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ اُن باغات میں رہیں گے ، یہ  بہت ہی بڑی  عالی شان کامیابی ہے   ))) سُورت التوبہ  (9) /آیت 100،

 (((هُوَ ٱلَّذِىٓ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِٱلْمُؤْمِنِينَ   O   وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ :::    (اے محمد )وہ  (اللہ ) ہی ہے  جِس نے اپنی مدد سے ، اور اِیمان والوں (کے ساتھ ) سے   آپ کو تقویت پہنچائی O اور اُن اِیمان والوں کے دِلوں میں ایک دُوسرے کے لیے اُلفت پیدا کی ، اگر آپ زمین میں موجود سب ہی کچھ خرچ کر دیتے تو بھی اُن کے دِلوں میں (ایک دُوسرے کے لیے ایسی ) اُلفت پیدا نہ کر سکتے تھے، لیکن اللہ نے اُن کے دِلوں میں یہ اُلفت پیدا کر دِی ، بے شک اللہ بہت زبردست اور  حِکمت والا ہے    ))) سُورت الانفال  (8) /آیات 62،63،

مہاجرین اور انصار دونوں کی تعریف فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا  (((وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ::: اور وہ لوگ جو اِیمان لائے، اور جِنہوں نے (اپنا سب کچھ چھوڑ کر )ہجرت کی، اور اللہ کی راہ میں جِہاد کِیا ، اور وہ لوگ جِنہوں نے (اِن مہاجرین  کو) پناہ دِی ، اور اِن کی مدد کی، یہ (سب)ہی  لوگ  یقینی اور حقیقی اِیمان والے ہیں ، اِن کے لیے (اللہ کی ) بخشش ہے، اور عِزت والا رزق ہے  ))) سُورت الانفال  (8) /آیت 74،

(((  لَكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأُولَئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ   O  أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ:::  لیکن رسول ، اور جو اُن کے ساتھ اِیمان لائے  اوراپنے  اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ جِہاد کیا،  اور یہی ہیں جِن کے لیے خیر ہی خیر ہے، اور یہی ہی لوگ کامیابی والے ہیں  O  اللہ نے اِن لوگوں کے لیے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں ، جِن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں، یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ اُن باغات میں رہیں گے ، یہ  بہت ہی بڑی کامیابی ہے   ))) سُورت التوبہ  (9) /آیات 88،89،

(((إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ::: بے شک جو لوگ رسول اللہ کے سامنے اپنی آوازیں بُلند نہیں کرتے ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دِلوں کو  اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اِن لوگوں کے لیے بڑی بخشش ہے اور عظیم ثواب ہے ))) سُورت  الحُجرات  (49) /آیت 3،

[[[ الحمد للہ ، تقویٰ کے بارے میں ایک  مُفصل مضمون الگ سے نشر کیا جا چکا ہے ، جو درج ذیل ربط پر میسر ہے :

تقویٰ ، تعریف، مفہوم ، اور ذرائع حُصُول  ::: http://bit.ly/1EbqpSS     ]]]

مہاجرین میں سے غریب صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن کے لیے خصوصی طور پر اِرشاد فرمایا (((لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ:::  (وہ مال   جو اللہ نے دِلوایا ہے ) اُن غریب مہاجرین کے لیے ہیں  جنہیں (حق قبول کرنے کی پاداش میں ) اُن کے گھروں اور اُن کے اموال سے نکال دِیا گیا (اور وہ غریب ہو گئے ،لیکن پھر بھی)  وہ  لوگ اللہ سے اُس کا فضل اور اُس کی رضا چاہتے ہیں ، اور اللہ اور اُس کے رسول کی مدد کرتے ہیں ، یہ ہی لوگ سچے (اِیمان  والے) ہیں ))) سُورت الحَشر   (59) /آیت 8،

اِس سے اگلی آیت شریفہ میں انصار کی تعریف میں  خصوصی طور پر اِرشاد فرمایا (((وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ :::  اور (وہ مال   جو اللہ نے دِلوایا ہے ) اُن لوگوں کے لیے بھی ہے  جو (مہاجرین سے ) پہلے ہی (یہاں مدینہ المنورہ میں ) گھر  اور اِیمان لیے موجود تھے ، جو اِن کی طرف ہجرت کر کے آتا ہے  اُس سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ اُن مہاجرین کو دیا جاتا ہے اُس کے بارے میں اپنے دِل میں کوئی خلش نہیں پاتے ، اور مہاجرین کو اپنے آپ  سے زیادہ أہمیت دیتے ہیں ،خواہ (یہ انصار)خودتنگی ، غربت اور محتاجی کی حالت میں ہوں ، اور جو کوئی اُس کے نفس کی کنجوسی اور لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ خیر (اورکامیابی) پانے والے ہیں ))) سُورت الحَشر   (59) /آیت 9،

[[[ الحمد للہ ، شُح  کے بارے میں بھی  ایک  مضمون الگ سے نشر کیا جا چکا ہے ، جو درج ذیل ربط پر میسر ہے :

شُح ، یعنی خیر کے کاموں کے لیے کنجوسی اور برائی والا لالچ ہلاکت کا سبب ہے   ::: http://bit.ly/1lxbFhO ]]]

 (((يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ :::  وہ لوگ جو نبی کے ساتھ اِیمان لائے ، قیامت والے دِن  اُن(کے اِیمان ) کی روشنی اُن  لوگوں کے (آگے اُن کے) دونوں ہاتھوں کے درمیان ، اور اُن کے دائیں طرف  چل رہی ہو گی ))) سُورت  التحریم(66) /آیت 8،

 اِن آیات شریفہ  کے عِلاوہ اور بھی بہت سی آیات مُبارکہ اور احادیث شریفہ ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے حقیقی  سچے اِیمان والے ہونے کی گواہی ہیں ،

پس ، مجھے اِس میں کوئی ادنیٰ سا بھی شک نہیں کہ  صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں تاریخ میں ایسی کوئی بھی روایت جو اللہ تعالیٰ کے کِسی فرمان کی مُطابقت نہ رکھتی ہو ، وہ روایت مَردُود ہے، خواہ اُس کا راوی کوئی بھی رہا ہو،

ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی شخصیات میں، اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کی مخالف صِفات دِکھانے والوں میں سے کِس نے وہ روایات کِس نیت سے ذِکر کیں ،  کیونکہ ہمارے اندر ، بالخصوص پاک و ہند کے  مُسلمانوں کے اندر شخصیت پرستی، آباء پرستی، گروہ  پرستی، جماعت پرستی ، اپنے علاقے ، اپنے قبیلے، اپنے خاندان کی نسبت وغیرہ قِسم کی صِفات ہڈیوں کے اندر تک سرایت شُدہ ہیں ، سِوائے چند لوگوں کے جو اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ، اور اُن کی مقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے کِسی سے نِسبت مقرر کرتے ہیں ، اور کِسی کی اِتباع کرتے ہیں،

لہذا ، اگر ہم کِسی شخص کے کہے ہوئے کو اُس کی شخصیت کی نِسبت سے  زیر کلام لاتے ہیں تو ، ہمیں اُس کے کہے ہوئی کی غلطی سُجھائی نہیں دیتی، بلکہ ہمارا ہدف اُس شخص کو ہی دُرُست ثابت کرنا ہی ہوجاتا ہے، خواہ اُس کے لیے ہم قران و صحیح حدیث کی نصوص کی  غلط تاویلات ہی کرتے رہیں ، اور ایسے لوگوں پر طعن و تشنیع ہی کرتے رہیں جن کے تقویٰ، اعتدال و انصاف پر صدیوں کی گواہیاں ہوں ،

افسوس ، صد ہا افسوس ، کہ مُسلمانوں کی صفوں میں ایسے بھی ہیں جو اِن سابقون الاولون میں سے  کِسی کو  تو  مُسلمانوں میں پھر سے جاھلیت داخل ہو جانے کا سبب کہتے ہیں ، اور  کِسی کو قبائلی اور خاندانی تعصب کی وجہ سے کِسی دُوسرے کی خِلافت  پر راضی نہ ہونے والا ، اور، اور، اور، ،،،،،،،

وہ لوگ یہ بھی نہیں جان پاتے کہ ، وہ اِس قِسم کی باتیں کہہ کر، لکھ کر، اللہ تبارک وتعالیٰ کے کئی فرامین مُبارکہ کے  اِنکار  کا مُرتکب ہوتے ہیں ،

معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ، کیا اللہ جلّ جلالہُ کو یہ عِلم نہ تھا کہ جنہیں وہ اپنی رضامندی کی سندیں عطاء فرما رہا ہے ، وہ لوگ مُستقبل قریب میں پھر قبل از اِسلا م والی جاھلیت والے عمل کرنے لگیں گے ؟؟؟

سوچیے، کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں اِس قِسم کی صِفات کو ماننا اللہ پاک کے کلام کی تکذیب نہیں تو اور کیا ہے ؟؟؟

اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے عِلم میں نقص کا اِلزام نہیں تو اور کیا ہے ؟؟؟

اب اگر کوئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں ایسی باتیں کہے ، لکھے جو اللہ عزّ و جلّ کے فرامین کے خِلاف ہو، اور کہے کہ میں نے تو صِرف تاریخی روایات کا ذِکر کیا ہے ، تو ایسا کہنا اُس کا اللہ کے مذکورہ بالا فرامین کی مخالفت پر مبنی تاریخی خرافات کو نشر کرنے کا عُذر نہیں بن سکتا،

جی اگر وہ کوئی ایسا جاھل ہو جسے اللہ تعالیٰ کے اِن فرامین کا عِلم نہ ہوتو ، اُس  کی جہالت اِسی صُورت میں عُذر مانی جا سکتی ہے  کہ جب اللہ تعالیٰ کے فرامین جاننے کے بعد وہ اپنی کہی ، لکھی ہوئی خِلاف قران روایات کی تاویلات کرنے کے بجائے، اور ٹوٹے پھوٹے عُذر پیش کرنے کی بجائے ، صراحتاً اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور اُس غلطی کا ہر ممکن ازالہ کرنے کی کوشش کرے،  

اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین جاننے کے بعد بھی اِن فرامین کو جھٹلانے والی تاریخ کا ہی پرچار کرتا ہے تو پھر  اُس کے اِیمان اور نِفاق کی پہچان بہت آسان ہے ،

اللہ عزّ و جل پر اِیمان رکھنے والے تو اپنے رب اللہ جلّ جلالہُ کے کلام پاک کے ہر ایک حرف پر کِسی شک و شبہے کے بغیر اِیمان رکھتے ہیں ، اور اُس کے خِلاف کِسی بات کو قبول نہیں کرتے ،

بلکہ اپنی  ہی آنکھوں سے دیکھے ہوئے ، اور اپنے ہی کانوں سے سنُے  ہوئے کو بھی اگر اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے کِسی فرمان کے مخالف پائیں تو اپنے دیکھے اور سنُے کو دھوکہ مانتے ہیں اور اللہ کے کلام کو حق ،

اپنی غلطیوں کی تاویلات ، اور اِدھر اُدھر کے عُذر پیش کرنے کی بجائے ، اِصلاح کرتے ہیں ، اور اپنے کیے ہوئے کے منفی اثرات سے اپنے اور دُوسروں کے بچاؤ کی کوشش کرتے ہیں ،

کچھ لوگ اپنی ، یا اپنی کسی پسندیدہ شخصیت کے طرف سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے خِلاف کہی  یا لکھی  ہوئی باتوں کو دُرُست دِکھانے کے لیے، اُس شخصیت کو ہی  دُرُست  سمجھانے کے لیے کہتے ہیں کہ، صحابہ میں اجتہادی اختلاف بھی تو، جس میں کوئی ٹھیک تھا  تو کوئی غلط،  تو پھر دیگر معاملات میں  بھی تو ایسا ہو سکتا ہے،

تو ایسے لوگوں کی  خدمت میں گذارش ہے کہ ، اپنی شخصیت زدہ ، جماعت  و گروہ کے کنویں میں بند عقل و  فہم سے باہر تشریف لایے اور یہ جان لیجیے کہ فقہی مسائل میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بھی اپنے اپنے عِلم کے مُطابق بات کی ہے، اور ایک دُوسرے کی بات مختلف ہونے کے باوجود کِسی نے بھی اپنے دُوسرے مُسلمان بھائی کے حق میں کوئی تقصیر نہیں کی،

وہ اختلاف دُنیا کے کِسی لالچ  کی بِناء پر نہیں تھے،شخصیات ، جماعتوں ، گروہوں وغیرہ کی نُصرت کے لیے نہیں تھے،

اِسی لیے نہ تو کوئی فقہ ابو  بکریہ بنی ، نہ کوئی فقہ عُمریہ، نہ کوئی فقہ عُثمانیہ،  نہ کوئی فقہ علویہ، اور نہ کسی اور صحابی رضی اللہ عنہ ُ کے نام پر کوئی مذھب دریافت ہوا،

بالکل اِسی طرح دُنیاوی معاملات میں رائے کا اختلاف ہوا، لیکن یہ ماننا کہ دُنیاوی کاموں میں ایک دُوسرے سے جیتنے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے دُوسرے عام دُنیا داروں والا رویہ اپنایا سراسر خِلاف قُران ہے، اور اللہ کے کلام کی تکذیب ہے جو کہ کُفریہ کاموں میں شامل ہوتی ہے،

پس ہر وہ شخص جو خود کو مُسلمان کہتا اور سمجھتاہے ، اُس کی عافیت اِسی میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں کوئی بھی ایسی بات کہنے ، لکھنے اور نشر کرنے سے باز رہے جو اللہ عزّ و جلّ کے کلام پاک میں سے کِسی ایک بھی حرف کے خِلاف ہو،  

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اللہ کے ہاں مُقام اور رُتبے کا یہ مختصر سا بیان پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اِس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جائے کہ اللہ کے رسولوں اور نبیوں کے بعد ، سب سے زیادہ پاکیزہ ہستیاں یہی تھے، اور اِن سے اللہ عزّ و جلّ کے نبیوں اور رسولوں کے بعد ہمارے لیے اِن سے اچھا آئیڈیل کوئی اور نہیں ہو سکتا،

اللہ تعالیٰ ہمیں ، یہ ہمت عطاء فرمائے کہ ہم اللہ کی رضامندی پانے والے ، اللہ کے اِن سچے اور حقیقی اولیا ء کو اپنا آئیڈیل بنا لیں ، اور اپنے قول اور اپنے فعل سے  اِن کے اُس مُقام کی حفاظت کریں جو اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِنہیں عطاء فرمایا ۔

اور قارئین کرام ،

صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے بارے میں کوئی  نا مُناسب ، کوئی غلط  رائے یا فیصلہ اپنانے سے پہلے ، اُن کی شخصیات پر  تنقید کرنے سے پہلے، اُن کی شخصیات کو اپنے  جیسا عام مُسلمان سمجھنے سے پہلے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِن فرامین پر غور فرما لیجیے :

(((تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ :::  وہ   اُمت (وہ لوگ) گذر چکے ، اُن کے لیے وہی کچھ ہے  جو کچھ اُنہوں نے کمایا (یعنی اُنہیں اُن  کے عمل کے مُطابق بدلہ ملے گا ) اور تُم لوگوں کے لیے وہی کچھ ہے جو کچھ تم لوگوں نے کمایا، اور تُم لوگوں سے اُن لوگوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا  ))) سورت البقرۃ /  پہلے پارے کی آخری آیت ،

لہذا ، یہ فرمان مُبارک اِرشاد فرمانے والے اللہ کی ہی  قسم   کہ اُس اللہ پاک نے ہمیں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے افعال کے بارے میں نہیں پوچھنا، لیکن ہمارے ہر ایک قول اور فعل کے بارے میں سوال ہونا ہی ہونا ہے ،  (((يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ  :::   اے اِیمان لے آنے والو، اللہ ( کی ناراضگی اور عذاب ) سے بچو، اور ضروری ہے کہ ہر جان یہ دیکھے کہ اُس نے (اپنے  ) کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے ، اور اللہ ( کی ناراضگی اور عذاب ) سے بچو ، (اور جان رکھو کہ) بے شک اللہ  تماہرے ہر ایک کام کے بارے میں مکمل ترین خبر رکھتا ہے    )))سُورت الحشر / آیت 18،

 اور (((إِنَّا أَنْذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ :::   ہم تم لوگوں کو قریب پہنچے ہوئے عذاب سے ڈرا رہے ہیں ، وہ دِن جب ہر شخص دیکھ لے گا کہ اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے لیے کیا آگے بھیجا تھا ))) سُورت النازعات کی آخری آیت ،

اللہ عزّ و جلّ ہمیں ہر شر کو پہچاننے کی ، اُس سے خود بھی بچنے کی اور دُوسروں کو  بھی بچانے کی توفیق عطاء فرمائے ، اور ہر ضِد اور تعصب سے بالا ہو کر حق ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کی رضا پا کر اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ،

والسلام علیکم۔

((( یہ مضمون میری زیر تیاری کتاب """مثالی شخصیات ، دی آئیڈیلز"""کے مقدمے میں سے اقتباس ہے،الحمد للہ اِس کتاب کے تین حصے شائع ہو چکے ہیں :  )))

https://bit.ly/2yfPeAL

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 مضمون کا برقی کتابی نُسخہ (PDF) :     

http://bit.ly/2dlMPt2

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوتی نُسخہ (آڈیو فائل ) :

https://archive.org/details/20200821_20200821_2032

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب :

https://youtu.be/5cWUuFDOlXg

محترمین، میرے چینل میں شمولیت اختیار فرما لیجیے، اور نئی ویڈیوز کی خبر پانے (یعنی نوٹیفیکیشن) میں شراکت بھی، جزاکم اللہ خیراً ، اور پیشگی شکریہ بھی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔