Monday, January 7, 2019

::: اللہ کی رحمت کی کیفیت اور وُسعت کا کچھ اندازہ کیجیے :::


:::   قُران و سُنّت کے سایے میں  ::: اللہ کی رحمت کی کیفیت اور  وُسعت کا کچھ اندازہ کیجیے   :::
بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و لا أصدق مِنہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جِس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جِس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جِس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جِسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی اَمانت مکمل طو رپر  دی،
السلامُ علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے اپنا یہ پیغام ادا کروایا :::
(((((( قُل لِمَن مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرضِ قُل لِلَّهِ كَتَبَ عَلَى نَفسِهِ الرَّحمَةَ لَيَجمَعَنَّكُم إِلَى يَومِ القِيَامَةِ لا رَيبَ فِيهِ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنفُسَهُم فَهُم لا يُؤمِنُونَ ::: ( اے محمد ) فرمایے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ کس کی ملکیت ہے (اور جواباً خود ہی یہ بھی ) فرما دیجیے کہ اللہ کی ہے ،(لیکن ہر ایک چیز کا مالک ہونے کے باوجود) اللہ نے اپنے آپ پر رحمت فرض کر رکھی ہے اُس میں کوئی شک نہیں (کہ) اللہ ضرور تُم سب کو قیامت والے دِن کی طرف اکٹھا فرمائے گا (لیکن) جنہوں نے اپنی جانوں کا نُقصان کر لیا ہے وہ اِیمان لانے والے نہیں))))) [1]
پس اللہ سبحانہُ و تعالیٰ بغیر کِسی شک و شبہے کے ، بغیر کِسی شریک اور بغیر کِسی  تنازعہ کے ہر ایک چیز کا اکیلا مالک ہے ، لیکن اِس کے باوجود یہ اللہ تعالیٰ  کا اپنی مخلوق پر کرم ہے ، مہربانی ہے ، عنایت ہے ، عطاء ہے ،  کہ اُس نے اپنے آپ پر رحمت فرض کر لی ، اور خود اپنی ہی مشئیت اور اِرداے سے کر لی ، کِسی کے کہنے سُننے پر نہیں ، اور نہ ہی کِسی اور نے اُس پر یہ فرض کیا نہ ہی کوئی ایسا تھا جو اللہ پاک  پر کچھ فرض کر سکتا اور  نہ ہی کوئی ایسا ہے اور نہ ہی کبھی بھی کوئی ایسا ہو سکتا ہے ،
 یہ سب اللہ جلّ و عُلا  کی عظیم تر بزرگی والی لا شریک ربوبیت ہے اور اُس کا اپنی مخلوق پر رحم  ہے ،شفقت ہے کہ اُس نے اپنی مخلوق کے ساتھ اپنے رویے کے لیے یہ قانون بنا لیا کہ وہ اُس کے ساتھ رحم والا مُعاملہ ہی فرمائے گا ، دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ،
:::::::   لہذا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی اصل بنیاد ہے ، بنیادی قانون ہے جِس کے مُطابق وہ اپنی مخلوق کے مُعاملات نمٹاتا ہے ، حتیٰ کہ جب وہ اپنی مخلوق میں سے کِسی کو کِسی مُصیبت ، کِسی پریشانی ، کِسی غم ، کِسی بیماری وغیرہ میں مبتلا کرتا ہے تو وہ بھی اُس کی رحمت ہی ہوتی ہے  ،
وہ یوں کہ اِس طرح اللہ تعالیٰ  کچھ ایسے لوگ تیار کرتا ہے جو اُس کی طرف سے دیے گئے اِمتحانات میں پورے اُتر کر اُس کی اَمانت کا بوجھ اُٹھانے کے قابل ہوتے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو دُنیا اور آخرت کی عزت اور بُلندی عطاء فرماتا ہے ،
:::::::    اِس مُعاملے کو دُوسرے پہلووں سے دیکھیے تو اللہ تعالیٰ  کی رحمت کے مزید جلوے دکھائی دیتے ہیں کہ ،
:::::::   اللہ پاک  اپنی مخلوق میں سے جب کِسی کو کِسی طور آزماتا ہے تو اُس میں ایک حِکمت یہ بھی ہوتی ہے کہ مخلوق کی صفوں میں اچھے اور برے کی تمیز ہو جائے ، تابع فرمان اور نا فرمان الگ الگ نظر آ جائیں ، ہدایت یافتہ اور گمراہ کی پہچان ہو جائے ،
:::::::   اِس طرح اللہ تعالیٰ یہ ظاہر فرماتا ہے کہ کون اُس کے رسول کریم محمد  صلی اللہ علیہ و علی و آلہ وسلم کی تابع فرمانی کرتا ہے اور کون بہانے بازیاں کرتے ہوئے نافرمانی کی راہ کی طرف پلٹ جاتا ہے ،
:::::::    اور اِس طرح اللہ  تعالیٰ اُنہیں ھلاک کرتا ہے جو اللہ  تعالیٰ کی واضح نشانیوں اور احکام سے رُو گردانی کرتے ہیں اور اُنہیں بچاتا ہے جو اللہ تعالیٰ  کی واضح نشانیوں کو پہچانتے ہیں ، مانتے ہیں  اور اللہ پاک  کے  احکام کے پابند رہتے ہیں ،
:::::::  اللہ  الرحیم الرحمن کی رحمت ازل سے ہے اور ابد تک رہنے والی ہے ، اِس کا مشاھدہ ہمیں صدیوں سے ہر ایک نسل کے ہر ایک عمر کے لوگوں میں ہوتا ہے ،  پس کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہوتا جِس میں اللہ عزّ و جلّ   کی رحمت اللہ کے بندوں میں مُیسر نہ ہوتی ہو ،
ہم نے یہاں اللہ  سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے دُکھ تکلیف وغیرہ میں اُس کی رحمت کا ذِکر اِس لیے کیا کہ یہ ایسا مُعاملہ ہے جِس میں اکثر لوگ دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں ، شیطانوں کے وساوس میں پھنس جاتے ہیں ، اور اِس طرح کہ لوگوں کا ظاہر و باطن دِل و آنکھیں سب ہی دھوکے اور وساوس کا شکار ہو جاتے ہیں ،
لہذا ہمیں اللہ پاک کی رحمت کی موجودگی کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے اور کِسی دھوکے یا وسوسے کا شکار ہونے کے بجائے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی ہر وقت  موجود اور مُیسر رہنے والی رحمت میں سے کوئی ایک رحمت بھرا  لمحہ ایسا بھی ہوتا ہے  جو اِیمان والے دِل کے لیے اللہ کی خاص رحمتوں کے دروازے کھولنے والا ہوتا ہے ، پس جِس کِسی کو یہ خاص رحمت مُیسر ہو جائے تو وہ اللہ عزّ و جلّ  کو پہچان جاتا ہے ، اللہ پاک  سے اُس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے وہ تعلق جو اللہ تعالیٰ  کو مطلوب اور محبوب ہے ، اور وہ دِل اور صاحبءِ دِل اللہ تعالیٰ  کے بارے میں ، اللہ تعالیٰ  کی طرف اور اللہ  تعالیٰ سے مکمل ترین طور پر مطمئن ہو جاتے ہیں ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت کی وُسعت کو سمجھنا اور پھر اُس کی کیفیت کو کوئی اِنسان محسوس تو کر سکتا ہے لیکن اُسے بیان کرنا کِسی اِنسان کے بس کا کام ہی نہیں ، کیونکہ وہ سب کچھ کِسی اِنسان کے بیان میں آ ہی نہیں سکتا ،
اُس کو سمجھنے کے لیے ہمیں اِنسانوں کے خالق کی وحی کا ذریعہ ہی اپنانا ہو گا کیونکہ وہ اپنی مخلوق کے بارے میں خود مخلوق سے زیادہ جانتا ہے ((((( ألا یَعلمُ مَن خَلق و ھُوَ اللَطِیفُ الخَبِیر ::: کیا وہ نہیں جانتا جِس نے تخلیق فرمایا اور وہ ہلکا (یعنی بہت باریکی سے  اندر تک کی ) خوب خبر  رکھنے والا ہے ))))) [2]
اللہ تعالیٰ نے اپنے اُس  فرمان مُبار ک میں جِس سے ہم نے اپنی بات کا آغاز کیا ، اُس فرمان مُبارک  میں یہ تو بتایا کہ اُس نے اپنے آپ پر رحمت کو فرض کر لیا ہے ، اور پھر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر وحی فرما کر اُن کی ز ُبان مُبارک سے ہمیں اِس کی خبر دِلوائی ، جی وحی کے ذریعے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ کی طرف سے کی گئی وحی کے مُطابق بات فرماتے تھے اپنی طرف سے کچھ نہ فرماتے تھے ، اِس کی گواہی خود اللہ تعالیٰ نے دِی اور اِرشاد فرمایا ((((( و ما یَنطقُ عَن الھَوایٰ o  اِن ھُوَ اِلّا وحیٌ یُوحیٰ ::: اور (محمد ) اپنی طرف سے بات نہیں کرتے o ان کی بات تو صرف وحی ہے جو (ان کی طرف) کی جاتی ہے ))))) [3]
اور وحی کے مُطابق کلام فرمانے والے اللہ  تعالیٰ کے رسول  کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں اللہ تعالیٰ  کی رحمت کی وُسعت اور کیفیت کے بارے میں کیا سمجھایا، توجہ سے  مُلاحظہ فرمایے :::
:::::  خلیفہ دوئم بلا فصل أمیر المؤمنین عُمر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ """ ایک دفعہ کچھ قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سامنے لائے گئے تو اُن میں ایک ایسی عورت بھی تھی ( جو اپنے بچے کو دُودھ پلانے کے لیے بے تاب تھی اور اُس کی حالت کچھ ایسی تھی کہ جیسے ) اُس کی چھاتیوں سے دُودھ نکل ہی جانے والا تھا اور وہ قیدیوں میں (اپنا) بچہ ڈھونڈھ رہی تھی جو اُسے مل گیا تو اُس نے فوراً اُسے  پکڑ کر اپنے پیٹ کے ساتھ چمٹا لیا اور اُسے دُودھ پلانے لگی ( یہ منظر دیکھ کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہم لوگوں سے اِرشاد  فرمایا ((((( أَتُرَونَ هَذهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا في النَّارِ ::: کیا تُم لوگ یہ خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی ؟ ))))) ،
ہم سب نے عرض کیا """ لَا وَهِيَ تَقدِرُ على أَن لَا تَطرَحَهُ ::: جی نہیں باوجود اِس کے کہ یہ عورت ایسا کرنے کی طاقت رکھتی ہے ( پھر بھی  یہ عورت ایسا نہیں کرے گی ) """،
 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( ا للَّهُ أَرحَمُ بِعِبَادِهِ من هذه بِوَلَدِهَا ::: یہ عورت اپنے بچے پر جِس قدر رحم کرتی ہے اللہ تو اپنے بندوں کے ساتھ اِس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ))))) [4]
:::::  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((جَعَلَ الله الرَّحمَةَ مِائَةَ جُزءٍ فَأَمسَكَ عِندَهُ تِسعَةً وَتِسعِينَ وَأَنزَلَ في الأرض جُزءًا وَاحِدًا فَمِن ذلك الجُزءِ تَتَرَاحَمُ الخَلَائِقُ حتى تَرفَعَ الفُرسُ حَافِرَهَا عن وَلَدِهَا خَشيَةَ أَن تُصِيبَهُ ::: اللہ تعالیٰ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور اُن میں سے ننانوے حصے اپنے پاس روک لیے اور زمین میں ایک حصہ نازل فرمایا پس اُسی ایک حصے میں سے تمام تر مخلوق ایک دُوسرے پر رحم کرتی ہے یہاں تک ایک گھوڑی اپنے ناخن تک اپنے بچے سے دُور رکھتی ہے کہ کہیں وہ ناخن اُس بچے کو تکلیف نہ دیں ))))) [5]
اِن دو مذکورہ بالا احادیث مُبارکہ میں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی رحمت کو سمجھنے کے لیے اللہ پاک  کی مخلوق میں سے اُس ہستی کی رحمت کا ذِکر ہے جِسے بلا نزاع دُنیا کی ہر قوم سب سے زیادہ رحیم مانتی ہے حتیٰ کہ جانوروں میں بھی اور وہ ہستی ہے """ ماں """ ،
ماں کی اپنی اولاد کے لیے رحمت کی مثال دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ سمجھایا ہے ماں کی رحمت اللہ ارحم الراحمین کی رحمت کے سامنے ایک فیصد بھی نہیں کیونکہ اللہ نے اپنی رحمت میں سے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے ہیں اور صرف ایک حصہ اپنی تمام تر مخلوق میں بانٹا ہے ، اور اللہ کی مخلوق میں اربوں کھربوں مائیں ہیں ، اِس حساب کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ  الرحمن الرحیم کی رحمت کی وُسعت کا اندازہ کرنا بھی اِنسانی عقل کی حُدود سے خارج ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ  تعالیٰ کی طرف سے وحی ہونے پر ہی اللہ کی رحمت کی وُسعت کا یہ مذکورہ بالا بیان فرمایا ، مزید یہ خوشخبری بھی دی کہ ((((( لَمَّا خَلَقَ الله الخَلقَ كَتَبَ في كِتَابِهِ وهو يَكتُبُ على نَفسِهِ وهو وَضعٌ عِندَهُ على العَرشِ إِنَّ رَحمَتِي تَغلِبُ غَضَبِي ::: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق تخلیق فرمائی تو اپنی کتاب میں لکھا اور وہ اپنے آپ پر لکھا رہا تھا کہ میری رحمت میرے غصے پر غالب رہے گی اور وہ کتاب اللہ کے پاس عرش کے اوپر رکھی ہے ))))) [6]
یہ حدیث مُبارک ہمارے رواں موضوع کے علاوہ اس بات کے ڈھیروں دلائل میں سے ایک ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اپنےعرش کے اوپر ہے ،[7]
اِن مذکورہ بالا احادیث مُبارکہ میں ہمیں اللہ  تعالیٰ کی رحمت کی وُسعت اور اللہ تعالیٰ کے غُصے پر اللہ الرحمن الرحیم  کی رحمت  کے غالب ہونے کی خوشخبریاں دی گئی ہیں ، بس اِس رحمت کو حاصل کرنے کے لیے ہمارا کام صِرف اتنا سا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ  کی ناراضگی والے ہر کام سے بچتے رہیں اور اللہ کی رحمت کو پہچانیں اور اُس رحمت  کو حاصل کرنے کے ہر موقعے سے بھر پُور فائدہ اٹھائیں (((((رَحمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ المُحسِنِين  :::  اللہ کی رحمت احسان والوں کے قریب ہے )))))[8] ،
اور اُس کی رحمت سے ہر گز مایوس نہ ہوں ،
((((( وَمَن يَقنَطُ مِن رَّحمَةِ رَبِّهِ إِلاَّ الضَّآلُّونَ  :::  اور اللہ کی رحمت سے سوائے گمراہ لوگوں کے کوئی اور مایوس نہیں ہوتا ))))) [9]
اور اللہ  عزّ وجلّ کی رحمت کے حصول کی کوشش میں اُس کی اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تابع فرمانی پر قائم رہیں نہ کہ یہ سوچ کرکہ """ اللہ تو غفور و رحیم ہے """ اللہ تعالیٰ  کی اور اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی والے کام کریں ،
جِس طرح اللہ کی رحمت حاصل ہونے کا یقین  ہونا لازم ہے اُسی طرح اللہ تعالیٰ  کی طرف سے گرفت ہونے اور عذاب مل سکنے کا خوف ہونا بھی لازم ہے ،
اِیمان کی صفات میں ، اِیمان والوں کے صفات میں ان دونوں کیفیات ساتھ ساتھ ہونا اِیمان کی درستگی اور تکمیل کا جُز ہیں ،
اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے ((((( إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ::: بے شک آپ کا رب بہت ہی تیزی سے سزا دینے والا ہے اور بے شک وہ مغفرت اور رحم کرنے والا ہے ))))) [10]،
غور فرمایے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مغفرت اور رحمت کی خوش خبری سنانے سے پہلے اپنے عذاب کی خبر دی ہے ، کہ اُس کی مغفرت اور رحمت کی خبروں پر ہی مگن نہ رہا جائے اُس کے عذاب کی خبروں پر ہوشیار بھی رہا جائے ،
اور فرمایا ((((( وَالَّذِينَ هُم مِّن عَذَابِ رَبِّهِم مُّشفِقُونَ  o   إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِم غَيرُ مَأمُونٍ   :::  اور (اِیمان والے وہ ہیں ) جو اُن کے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں o    بے شک اُن کے رب کے عذاب سے محفوظ رہنے کا مُعاملہ یقینی نہیں)))))[11]،
اس مُعاملے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھی اپنی قران بیان کرنے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ، اللہ کی وحی کے مُطابق مختلف مواقع پر مختلف انداز و الفاظ میں واضح فرمایا ، یہاں میں صرف ایک حدیث مُبارک نقل کرتا ہوں ، جو اللہ جلّ جلالہُ  اور رسول اللہ محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ پر اِیمان رکھنے والوں کے لیے کافی ہے ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ   کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو  یہ اِرشاد  فرماتے ہوئے سُنا کہ ((((( إنَّ الله خَلَقَ الرَّحْمَةَ يَوْمَ خَلَقَها مِائَةَ رَحْمَةٍ فأمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعاً وتِسْعِينَ رَحْمَةً وأرْسَلَ في خَلْقِهِ كُلِّهِمْ رَحْمَةً واحِدَةً فَلَوْ يَعْلَمُ الكافِرُ بِكُلِّ الّذِي عِنْدَ الله مِنَ الرَّحْمَةِ لَمْ يَيْأسْ مِنَ الجَنَّةِ ولَوْ يَعْلَمُ المُؤْمِنُ بِكُلِّ الَّذِي عِنَدَ الله مِنَ العَذَابِ لَمْ يَأْمَنْ مِنَ النَّارِ ::: اللہ نے جِس دِن رحمت تخلیق فرمائی تو ایک سو رحمت تخلیق فرمائی اور اپنے پاس ننانوے رحمت روک لِیں اور ایک (رحمت) اپنی تمام تر مخلوق میں بھیجی پس اللہ کے پاس جو رحمت ہے اگر کافر وہ ساری کی ساری رحمت جان لے تو کبھی اللہ کی جنّت (کے حصول) سے مایوس نہ ہو اور اللہ کے پاس کتنا عذاب ہے اگر اِیمان والا وہ سارے کا سارا عذاب جان لے تو جان لے تو کبھی اللہ کی جہنم سے خود کو محفوط نہ سمجھے  ))))) [12]،
پس اللہ کی رحمت کی وُسعت کے ساتھ ساتھ اُس کے عذاب کو بھی یاد رکھنا چاہیے تا کہ خوش فہمی کی لڑکھڑاہٹ میں ہمارے قدم کہیں اللہ کے عذاب والی راہوں پر گامزن نہ ہوں [13]،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو محسنین میں سے بنائے اور ہر گمراہی سے محفوظ رکھے ۔

آخر میں یہ گذارش کرنا چاہتا ہوں اگر کِسی کو کوئی علمی اعتراض ہو تو کِسی علمی حجت کے ساتھ اس کا اظہار کرے ، خود ساختہ  فلسفوں اور لا علمی کی بنا پر موضوع کو خراب نہ کرے ،

و السلام علیکم،طلب گارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 05/01/1431 ہجری ، بمُطابق ، 22/12/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید : 02/12/1438 ہجری ، بمُطابق ، 24/08/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


[1]   سُورت الانعام(6) /آیت 12،
[2]   سُورت المُلک(67) / آیت 14،
[3]   سُورت النجم(53)  /آیات 3 ، 4 ،
[4]   صحیح البخاری /حدیث5653 /کتاب الادب / باب18 ، صحیح مُسلم /حدیث2754 /کتاب التوبہ /باب 4 ، (مذکورہ بالا الفاظ صحیح البخاری کی روایت کے ہیں ، صحیح مُسلم کی روایت میں " ا للَّهُ  " کی جگہ " لَلَّہُ " ہے )،
[5]   صحیح البخاری /حدیث 5654 /کتاب الادب /باب19،صحیح مُسلم/ حدیث2752 /کتاب التوبہ /باب 4 ،(مذکورہ بالا الفاظ صحیح البخاری کی روایت کے ہیں ، صحیح مُسلم کی روایت میں " الفرس " کی جگہ " الدابۃ " ہے )،
[6]   متفقٌ علیہ ، صحیح البخاری/حدیث6969 /کتاب التوحید/باب 15 ، صحیح مُسلم/حدیث2751 /کتاب / باب4 ،
[7]     الحمد للہ ،  اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی ذات پاک سے متعلق اِسلامی عقیدے کے اِس أہم ترین موضوع کو  کتاب """اللہ کہاں ہے ؟   ::: http://bit.ly/1IxNUWR   """ میں قران کریم ، احادیث شریفہ ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اُمت کے اِماموں کے اقوال کے دلائل کے ساتھ واضح طور پر پیش کر چکا ہوں ۔
[8]   سُورت الاعراف(7)  /آیت 56 ،
[9]   سُورت الحَجر (15) / آیت 56 ،   
[10]   سُورت الأعراف(7)  / آیت 167 ،
[11]   سُورت المعارج (70) /آیات 27،28،
[12]   صحیح البُخاری /حدیث 6104 / کتاب الرقاق / باب 19 ،
[13]   اِس موضوع کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے درج ذیل کا مضمون کا مطالعہ ضرور فرمایے:::
 """ ::: اللہ سے ڈرو بھی اور اُس کی رحمت کی اُمید بھی رکھو:::  http://bit.ly/2udM39y  """،