Saturday, November 16, 2013

::::::: شہادت ، شہید ، تعریف اور اِقسام ::::::: Martyrdom,Martyr,description and types in Islam

::::::: شہادت ، شہید ، تعریف اور اِقسام :::::::
اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ و مِن ھَمزِہِ و نَفخہِ و نَفثِہِ
و الصّلاۃ و السَّلامُ عَلیَ خیرَ خَلقِہ ِ و عبدہِ و رَسولہِ محمد الذی لا نبیَّ ولا رسولَ بعدہُ
ہم مُسلمانوں پر ٹوٹنے والی مصیبتوں میں سے ایک بہت بڑی مُصیبت دِین کے معاملات میں اپنے خیالات کی بنا پر فتوے چھوڑنا اور رتبے بانٹنا  بھی ہے ، اِس مُصیبت کے شِکار ہمیں جا بے جا ، مختلف طرح سے مرنے والوں کو شہادت کے درجوں پر فائز کرنے یا شہادت کے قابل نہ ہونے والے قرار دتے ہوئے نظر آتے ہیں ، جبکہ شاید ہی اُن میں کوئی ایسا ہو جو یہ جانتا ہو کہ اِسلام میں شہادت کیا ہے ؟؟؟ اور کس کے بارے میں یہ اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اِن شاء اللہ شہید ہے ؟؟؟
محترم بھائیو، بہنو ، اور قارئین کرام ، آیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ آخری شریعت ، آخری دِین میں اللہ کی طرف سے ہم تک پہنچائی گئی تعلیمات  کے مطابق اِن شاء اللہ یہ سمجھتے ہیں کہ اِسلام میں شہادت کیا ہے اور کس کے بارے میں شہادت کے درجے پر فائز ہونے کی اُمید کی جا سکتی ہے۔
:::شہید کا لغوی معنی ہے ::: گواہ ، کِسی کام کا مشاہدہ کرنے والا۔
::: اور شریعت اِسلامی  میں اِسکا مفہوم ہے ::: اللہ تعالی کے دِین کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان قُربان کرنے والا ، میدانِ جِہاد میں لڑتے ہوئے یا جِہاد کی راہ میں گامزن یا دِین کی دعوت و تبلیغ میں، اور جِس موت کو شہادت کی موت قرار دِیا گیا ہے اُن میں سے کوئی موت پانے والا،
::: شہادت کی اِقسام (قِسمیں) :::
::: (1)  ::: شہیدءِ المعرکہ ::: یعنی اللہ کے لیے نیک نیتی سے میدانِ جِہاد میں کافروں ، مُشرکوں کے ساتھ لڑتے ہوئے قتل ہونے والا ،
:::  (2) ::: فی حُکم الشہید، شہادت کی موت کا درجہ پانے والا::: یعنی میدان جِہاد کے عِلاوہ ایسی موت پانے والا جسے شہادت کی موت قرار دِیا گیا ،
اپنے آخری رسول مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابقہ اُمتوں کے شہیدوں کی طرح اُمتِ مُحمدیہ الصلاۃُ و السلام علی نبیھا ، میں درجہِ شہادت پانے والوں کو صِرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہونے والوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اِس درجہ پر فائزفرمایا ہے ،
:::::: دلائل :::::::
::::::: (1) ::::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( ما تَعُدُّونَ الشَّہِیدَ فِیکُمْ؟ ::: تُم لوگ اپنے(مرنے والوں ) میں سے کِسے شہیدسمجھتے ہو ؟)))))
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا""" یا رَسُولَ اللَّہِ من قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ::: اے اللہ کے رسول جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا جاتا ہے (ہم اُسے شہید سمجھتے ہیں
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( انَّ شُہَدَاء َ اُمَّتِی اذًا لَقَلِیلٌ ::: اگر ایسا ہو تو پھر تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے ))))) ،
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کِیا """فَمَنْ ہُمْ یا رَسُولَ اللَّہِ؟:::اے اللہ کے رسول تو پھر شہید(اور)کون ہیں؟ """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَن قُتِلَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی سَبِیلِ اللَّہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی الطَّاعُونِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ مَاتَ فی الْبَطْنِ فَہُوَ شَہِیدٌ ::: (1) جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے،اور(2) جو اللہ کی راہ میں نکلا (اور  کسی معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا ، یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے لیے نکلا اور اُس دوران )مر گیا وہ بھی شہید ہے ، اور (3) اور جو طاعون (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے، اور(4) جو پیٹ (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہید ہے)))))،
قال بن مِقْسَمٍ اَشْہَدُ علی اَبِیکَ فی ہذا الحدیث اَنَّہُ قال ::: عبید اللہ ابن مقسم نے یہ سُن کر سہیل کو جو اپنے والد سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ  کے ذریعے روایت کر رہے تھے ، کہا ، میں اِس حدیث کی روایت میں تمہارے والد کی (اِس بات کی درستگی)پرگواہ ہوں اور اِس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا(((((وَالْغَرِیق ُ شَہِیدٌ ::: (5) ڈوب کر مرنے والا بھی شہید ہے)))))،
::::::: (2) ::::::: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ  سے دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((الشُّہَدَاء ُ خَمْسَۃٌ الْمَطْعُونُ وَالْمَبْطُونُ وَالْغَرِق ُ وَصَاحِبُ الْہَدْمِ وَالشَّہِیدُ فی سَبِیلِ اللَّہِ عز وجل ::: شہید پانچ ہیں(1) مطعون، اور(2)پیٹ کی بیماری سے مرنے والا،  اور(3) ڈوب کر مرنے والا ،  اور(4) ملبے میں دب کر مرنے والا،  اور(5) اللہ کی راہ میں شہید ہونے والا))))) صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ /باب 51بیان الشُّھداء ،
::::: ایک وضاحت اور شرح :::::
امام ابن حَجر العسقلانی رحمہ اللہ نے ، فتح الباری / کتاب الطب / با ب مایذکر فی الطاعون ، میں''' المطعون '''کے بہت سے معنی مختلف عُلماء کی شرح کے حوالے سے ذِکر کیے ہیں ،
 جِس کا خلاصہ یہ ہے کہ ''' المطعون''' طاعون کے مریض کو بھی کہا جا سکتا ہے ، کِسی تیز دھار آلے سے زخمی ہونے والے کو بھی اور جِنّات کے حملے سے اندرونی طور پر زخمی ہونے والے کو بھی کہا جا سکتا ہے '''،
اس لیے میں ترجمے میں """ مطعون """ہی لکھ  رہا ہوں،
:::::::جابر بن عُتیک رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (((((الشَّہَادَۃُ سَبْعٌ سِوَی الْقَتْلِ فی سَبِیلِ اللَّہِ الْمَطْعُونُ شَہِیدٌ وَالْغَرِق ُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَہِیدٌ وَالْمَبْطُونُ شَہِیدٌ وَصَاحِبُ الْحَرِیقِ شَہِیدٌ وَالَّذِی یَمُوتُ تَحْتَ الْہَدْمِ شَہِیدٌ وَالْمَرْاَۃُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شہیدۃٌ ::: اللہ کی راہ میں قتل ہونے والوں کے عِلاوہ سات شہید ہیں (1) مطعون شہید ہے(2) اور ڈوبنے والا شہید ہے(3)ذات الجنب کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے اور (4)اورپیٹ کی بیماری سے مرنے والا ، اور(5)  جل کر مرنے والا شہید ہے، اور (6)ملبے کے نیچے دب کر مرنے والا شہید ہے ، اور (7)حمل کی حالت میں مرنے والی عورت شہیدہ ہے ))))) سُنن ابو داؤد حدیث 3111/ کتاب الخراج و الامارۃ و الفيء / اول کتاب الجنائز /باب 15 ، مؤطا مالک ، حدیث /کتاب الجنائز /باب 12، اِمام الالبانی رحمہ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے،بحوالہ احکام الجنائز صفحہ54،
::::::: (3) ::::::: راشد بن حبیش رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ  کی عیادت (بیمار پُرسی) کے لیے تشریف لائے تو اِرشاد  فرمایا(((((أَتَعلَمُونَ مَن الشَّھِیدُ مِن اُمتِی ::: کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ میری اُمت کے شہید کون کون ہیں ؟)))))،
عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ  نے عرض کیا """اے اللہ کے رسول (اللہ کی راہ میں مصیبت پر )صبر کرنے اور اجر و ثواب کا یقین رکھنے والا """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((انَّ شُہَدَاء َ امتی اذاً لَقَلِیلٌ الْقَتْلُ فی سَبِیلِ اللَّہِ عز وجل شَہَادَۃٌ وَالطَّاعُونُ شَہَادَۃٌ وَالْغَرَقُ شَہَادَۃٌ وَالْبَطْنُ شَہَادَۃٌ وَالنُّفَسَاء ُ یَجُرُّہَا وَلَدُہَا بِسُرَرِہِ إلی الْجَنَّۃِ والحَرق ُ و السِّلُّ ::: اِس طرح تو میری اُمت کے شہید بہت کم ہوں گے(1)اللہ عز وجل کی راہ میں قتل ہونا شہادت ہے اور(2)طاعون (کی موت ) اورشہادت ہے اور (3) ڈوبنا (یعنی پانی میں ڈوبنے سے موت واقع ہونا ) شہادت ہے اور(4) پیٹ (کی بیماری) شہادت ہے اور (5) ولادت کے بعد نفاس کی حالت میں مرنے والی کو اُسکی وہ اولاد (جِس کی ولادت ہوئی اور اِس ولادت کی وجہ سے وہ مر گئی) اپنی کٹی ہوئی ناف سے جنّت میں کھینچ لے جاتی ہے ، اور(6)جلنا (یعنی جلنے کی وجہ سے موت ہونا)اور(7)سل (یعنی سل کی بیماری کی وجہ سے موت ہونا شہادت ہے) )))))مُسند احمد / حدیث راشد بن حبیش رضی اللہ عنہ ُ ، مُسند الطیالیسی، حدیث 586 ، اِمام الالبانی رحمہ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے ، بحوالہ احکام الجنائز صفحہ54،
''' سل ''' کی بھی مختلف شرح ملتی ہیں ، جنکا حاصل یہ ہے کہ ''' سل''' پھیپھڑوں کی بیماری ہے ۔
::::::: (4) ::::::: عبداللہ ابن عَمر (عمرو)رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ ::: جِسے اُس کے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے)))))صحیح البخاری حدیث 2348 /کتاب المظالم /باب 34 ، صحیح مُسلم حدیث 141/کتاب الاِیمان/باب 62 ،
::::::: (5) ::::::: سعید بن زید رضی اللہ عنہ ُ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَن قُتِلَ دُونَ مَالِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ اَھلِہِ او دُونَ دَمِہِ او دُونَ دِینِہِ فَہُوَ شَہِیدٌ ::: (1) جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور(2) جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور(3) جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا وہ شہید ہے اور(4)اپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا ہو شہید ہے)))))سنن النسائی،حدیث 4106/کتاب تحریم الدم /باب24 ، سنن ابو داؤد حدیث4772 /کتاب السُنّہ کا آخری باب ، اِمام الالبانی  رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، صحیح الترغیب الترھیب ، حدیث1411 ، احکام الجنائز و بدعھا ،
اِن مندرجہ بالا صحیح احادیث میں ہمیں اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بتا یا کہ شہادت کی موت کون کون سی ہے ،اگر ہم اِن احادیث میں بیان کی گئی اموات کو ایک جگہ اکٹھا بیان کریں تو مندرجہ ذیل بنتی ہیں:::
::::::: (1) ::::::: اللہ کی راہ میں قتل کیا جانے والا ، یعنی شہیدِ معرکہ ، اور مسلمانوں کے یقینی اجماع کے مطابق یہ افضل ترین شہادت ہے ،
::::::: (2) ::::::: اللہ کی راہ میں مرنے والا ، یعنی جو اللہ کی راہ میں نکلا اور موت واقع ہو گئی ، ، مثلاً غازی ، مہاجر ، وغیرہ ، سورت النساء(4)/ آیت 100 ،
::::::: (3) :::::::  مطعون ، طاعون کی بیماری سے مرنے والا ،
 ::::::: (4) ::::::: پیٹ کی بیماری سے مرنے والا،
 ::::::: (5) ::::::: ڈوب کر مرنے والا،
 ::::::: (6) ::::::: ملبے میں دب کر مرنے والا ،
::::::: (7) :::::::  ذات الجنب سے مرنے والا ،(ذات الجنب وہ بیماری جِس میں عموماً پیٹ کے پُھلاؤ ، اپھراؤ کی وجہ سے ، یا  کبھی کسی اور سبب سے پسلیوں کی اندرونی اطراف میں ورم (سوجن)ہو جاتی ہے جو موت کا سبب بنتی ہے )،
::::::: (8) :::::::  آگ سے جل کر مرنے والا ،
 ::::::: (9) ::::::: حمل کی وجہ سے مرنے والی ایسی عورت جس کے پیٹ میں بچہ بن چکا ہو،
::::::: (10) :::::::  ولادت کے بعد ولادت کی تکلیف سے مرنے والی عورت،
::::::: (11) :::::::  پھیپھڑوں کی بیماری (سل) کی وجہ سے مرنے والا ،
::::::: (12) :::::::  جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا ،
::::::: (13) :::::::  جو اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا ،
::::::: (14) :::::::  جو اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کِیا گیا،
::::::: (15) :::::::  جواپنے دِین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا گیا ،
اِن کے عِلاوہ کِسی بھی اور طرح سے مرنے والے کے لیے اللہ اوراُس کے خلیل محمد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی ایسی خبر نہیں ملتی کہ اُسے شہیدسمجھا جائے ،
 جی ہاں سمجھے جانے کی بات اِس لیے کہہ رہا ہوں کہ کون اللہ کی راہ میں مارا جاتا ہے اور اللہ کے ہاں کیا درجہ پاتا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے ،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ((((( اللہ اَعلَمُ بِمَنْ یُجَاہِدُ فی سَبِیلِہِ وَاللَّہُ اَعلَمُ بِمَنْ یُکْلَمُ فی سَبِیلِہِ::: اللہ ہی (یہ حقیقت ) جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ میں جِہاد کرتا ہے اور اللہ ہی (یہ حقیقت) جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے)))))صحیح البخاری / کتاب الجِہھاد و السیر/ بَاب لَا یقول فُلَانٌ شَہِیدٌ باب کِسی کوشہید نہ کہا جائے،
::::: ایک حقیقت  ::::: أمیر المؤمنین فی الحدیث ، اِمام مُحمد البخاری رحمۃُ اللہ علیہ نے اِس حدیث سے یہ مسئلہ اخذ کیا کہ کِسی کو شہید نہیں کہا جائے گا ، یہ اِمام البخاری رحمہُ اللہ  کی فقہ کی گہرائی اور درستگی کی مثالوں میں ایک مثال ہے ،
جی ہاں ،  صحیح البخاری کے ہر باب کا عنوان إِمام صاحب رحمہُ اللہ کی فقہ کا ثبوت ہے ، او ر یہی معاملہ دیگر محدثین کا بھی ہے ،
 اور اُن لوگوں کی بات کا جواب ہے جو عام لوگوں کو دھوکہ دیتے ہوئےیہ کہتے ہیں کہ """ محدث اور فقیہہ کی مثال پنساری اور حکیم جیسی ہے """،
یعنی محدث کو پنساری اور فقیہہ کو حکیم کہتے ہیں ، تا کہ لوگ اُن کو حکیم یا حکیموں کا شاگرد سمجھ کر اُن کی یا اُن کے استادوں کی فقہ کو دَوا سمجھ کر قُبُول کرتے رہیں ، جبکہ حقیقت بالکل اُلٹ ہے ،
 محدثین رحمہم اللہ  ایسے حاذق حکیم ہیں جو ہر جڑی بُوٹی کو اُس کے خواص اور نتائج کے مطابق ، بیماری اور علاج کے نام کا ذِکر کر کے الگ الگ جگہ پر رکھ دیتے ہیں ، اب اگر کوئی اُن کے مَطب (دَوا خانے)میں جائے تو اپنی بیماری کے مطابق اپنے لیے دوا چُن سکتا ہے ،
 اور وہ لوگ جو حدیث کو فقہ سے الگ رکھتے ہیں اور صِرف فقہ کے نام پر دوائیاں دیتے ہیں ، وہ اپنے پاس آنے والے مریضوں کو کہاں پہنچا رہے ہیں یہ صاف نظر آتا ہے ،
 بس کچھ ایسا ہی معاملہ شہادت اور شہید والے معاملے کا بھی ہو رہا ہے کہ ایسے نام نہاد فقہا ، عُلماء حرام موت مرنے والوں کو بھی شہید ہونے کا مژدہ سناتے ہیں ، اور تو اور جنہیں دِین کے بنیادی علوم کی بھی خبر نہیں ہوتی وہ بھی شہادت کے درجے بانٹتے دکھائی دیتے ہیں ، جو لوگ اپنی زندگیاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانی میں‌ہی نہیں بلکہ اُن کی نافرمانی کو نافذ کرنے میں گذارتے ہیں اور اسی حالت میں مرتے ہیں ، مارے جاتے ہیں انہیں بھی شہید قرار دیا جاتا ہے ، اور دوسری طرف اُن لوگوں کو بھی شہادت کے درجے نہ ملنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے جن کے بارے میں شہادت ملنے کی اُمید کیے جانے کے اسباب میسر ہوتے ہیں ،و لاحول و لا قوۃ الا باللہ،
ابھی بیان کی گئی ، حدیث شریف کے مطابق ، کِسی کو حتی کہ میدانِ جِہاد میں مارے جانے والے کو بھی شہید نہیں کہا جا سکتا ، جی ہاں اگر بظاہر کِسی کی موت شہادت والی اموات میں سے کوئی نظر آتی ہو تو """ شہید ان شاء اللہ """کہا جائے گا ،
اور وہ جِن کی موت اِن شہادت والی اموات کے علاوہ ہوتی ہے اُن کے لیے تو """ شہید اِن شاء اللہ""" کہنے کی بھی گنجائش نہیں،
 اگر کِسی کا خاتمہ اِیمان پر ہوا ہو اور وہ اللہ کے سامنے اِس حال میں پہنچے کہ اللہ اُس پر راضی ہو (اللہ ہم سب کو، اور ہمارے اہل خانہ و خاندان اور دوست و احباب سب کو اُن میں سے بنائے )تو اللہ تعالیٰ جیسا چاہے گا  کرے گا ، اپنے اُس بندے کو جو درجہ بھی چاہے گا عطاء فرمائے گا ،
 کِسی کی موت کو دیکھ کر زیادہ سے زیادہ اُس موت پر مرنے والے کے بارے میں جو خبر اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے دی گئی، اُس  خبر کی بنیاد پر یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ اِسکے ساتھ اُس خبر کے مُطابق معاملہ ہوگا،
جو لوگ کِسی خوش فہمی کا شکار ہو کر اپنی جان برباد کرتے ہیں ، خُود کُش حملے کرتے ہوئے یا کِسی بھی طور خود کو قتل کرتے ہیں اُنکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فیصلہ ہے(((((مَن قَتَلَ نَفْسَہُ بِحَدِیدَۃٍ فَحَدِیدَتُہُ فی یَدِہِ یَتَوَجَّاُ بہا فی بَطْنِہِ فی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فیہا اَبَدًا وَمَنْ شَرِبَ سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَہُوَ یَتَحَسَّاہُ فی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فیہا اَبَدًا وَمَنْ تَرَدَّی من جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَہُ فَہُوَ یَتَرَدَّی فی نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فیہا اَبَدًا ::: جِس نے خود کو کِسی لوہے (کی چیز کی مار) سے قتل کِیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہے گا کبھی وہاں سے نہیں نکلے گا اور وہی لوہے کی چیز اُس کے ہاتھ میں ہو گی جسے وہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا ، اور جِس نے زہر پی کر خُود کو قتل کِیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہے گا کبھی وہاں سے نہیں نکلے گا اور وہاں وہی زہر منہ بھر بھر کر پیے گا ، اور جِس نے خود کو کِسی پہاڑ سے گرا کر قتل کِیا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہے گا کبھی وہاں سے نہیں نکلے گا اور وہاں اُسی طرح اونچائی سے گرتا رہے گا))))) صحیح مسلم / کتاب الاِیمان /باب 47 ،
اللہ تعالی ہر ایک مسلمان پر خاص کرم فرماتے ہوئے اُس کا خاتمہ اِیمان پر فرمائے ،
جِہاد اور اصلاح کے نام پر اپنی جان لینا اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مسلمانوں یا ایسے غیر مسلموں کی جان لینا جو اِسلام یا مسلمانوں کے خِلاف کِسی کاروائی میں شامل نہیں ہوتے ، یقینا بڑے گناہوں میں سے ہے ،
(((((مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا :::جِس کسی نے کسی ایک جان کو بھی کسی جان کے بدلے کے عِلاوہ قتل کیا ، یا زمین میں فساد کرتے ہوئے قتل کیا تو گویا اُس نے سارے ہی انسانوں کو قتل کیا )))))سُورت المائدہ (5)/آیت 32،
اپنے آپ کو مارنے کے ساتھ ساتھ  کسی شرعی حق کے بغیر کسی دوسرے کو قتل کرنے والوں کو ، اور یوں ہی راہ جاتے قتل ہوجانے والوں کو شہید کہنا ، سوائے جہالت یا جان بوجھ کر غلط فہمی پھیلانے کے علاوہ کوئی تیسری وجہ نہیں رکھتا ، اور دوسری وجہ پہلی سے زیادہ خطرناک ہے ،
کِسی نے خوب کہا ہے :::
اِن کُنتَ لا تَدرِی فَتِلکَ المُصِیبۃ ::: و ان کُنتَ تِدرِی فالمُصِیبَۃُ اَعظم
اگر تُم جانتے نہیں تو یہ مصیبت ہے ::: اور اگر تُم جانتے ہو تو یہ اُس سے بڑی مُصیبت ہے
(کہ جانتے بوجھتے ہوئے غلطی پر قائم ہو اور اُس کو پھیلاتےبھی  ہو)
اِس مضمون میں خود کُش حملوں ، مسلمان  کے خون کی حُرمت ، اور کسی بھی دوسرے انسان کے قتل کے بارے میں بات کرنا مقصود نہیں ، لہذا اِن کی تفصیلات میں داخل ہوئے بغیر ان کا اجمالی ذکر کیا گیا ہے  ،
اور جِہاد کے موضوع پر ایک الگ  مضمون نشر کر چکا ہوں ،  اُس کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے الوداعی خطبہ حج میں سے مسلمان کے مسلمان پر حقوق والے ارشاد کو مکمل اور کچھ تفصیل سے بیان کیا ہے ، یہاں اضافۃً صرف یہ کہتا ہوں کہ خود کُش حملے کرنے والے صِرف خود کو اور دوسرے انسانوں کو قتل کرنے کا جرم ہی نہیں کرتے بلکہ کِسی کے مال اور بسا اوقات عِزت پر بھی حملہ آور ہونے یا اُسے نقصان پہنچانے کا گناہ بھی کماتے ہیں اور اِسی حالتِ گناہ میں مرتے ہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین کے مُطابق ایسی حالت میں مرنے والے کے شہید ہونے کی اُمید بھی نہیں رکھی جا سکتی ، چہ جائیکہ اُسکی شہادت کا فتوی یا سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے،
اور کچھ ایسا ہی معاملہ اُن لوگوں کا ہے جو کسی مناسب شرعی سبب کے بغیر محض شک و شبہے کی بنیاد پر یا اپنے حکام کی رضا مندی کے لیے کسی مُسلمان یا کسی دوسرے انسان کو قتل کرتے ہیں ، اور یا کبھی اِس قِسم کی کاروائی کرتے ہوئے خود مارے جاتے ہیں ،
 اِس موضوع کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے""" جِہاد ، شہادت ،اِصلاح یا فَساد""" تینوں معاملات کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں،
الحمد للہ ، """جہاد ، تعریف اور اِقسام """الگ مضمون  کی صُورت میں نشر کیا جا چکا ہے ،
جہاد ، اور شہادت کو دُرُست طور پر سمجھ لینے سے یہ بھی سمجھ آ جاتا ہے کہ کونسے کام شرعی طور پر اِصلاحی مانے جا سکتے ہیں ، اور کون سے کام فساد ،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، پہنچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اسی پر عمل  پیرا رہتے ہوئے ، اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ۔
والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ، طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت :21/06/1428 ہجری ، 07/July/2007،
تاریخ تجدید :12/01/1435 ہجری ، 16/November/2013،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موضوع سے متعلق کچھ اچھے سوال و جواب پاک نیٹ پر میسر ہیں ، اِن شاء اللہ اُن کا مطالعہ مزید فائدے کا سبب ہو سکتا ہے ، لنک درج ذیل ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے :

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔