Saturday, July 21, 2018

::: طِب کے اِستعمال کے لیے ربانی ہدایات :::


::: طِب کے اِستعمال کے لیے ربانی ہدایات :::
بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰن ِ الرِّحیم،  و الصِّلاۃُ و السِّلامُ علیٰ رِسولہِ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
قران کریم تمام تر  ظاہری اور باطنی ، قلبی ، روحانی ، جسمانی ، دُنیاوی اور اُخروی بیماریوں کا مکمل شِفاء والا علاج ہے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے  فرامین مبارکہ ہیں :::
﴿ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ::: اور ہم قران میں سے وہ کچھ نازل فرماتے ہیں جو اِیمان والوں کے لیے رحمت اور شِفاء ہے سُورت الاِسراء(بنی اِسرائیل 17)  / آیت 82،
﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ ::: اے لوگوں یقینا ً  تُم لوگوں کے پاس تُمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور  سینوں میں جو(کچھ  بھی بیماریاں )ہیں اُن سب کے لیے شِفاء ہے اور اِیمان والوں کے لیے رحمت ہے   سُورت یُونس(10) / آیت 57،
﴿ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ::: (اے محمد )فرمایے وہ(قُران تو)اِیمان لانے والوں کے لیے شِفاء اور ہدایت ہے سُورت فُصلت(41) /آیت 44،
اگر کوئی مریض  دُرست طریقے سے قُران کے ذریعے اپنا  علاج کرے ، اور صدق ، اِیمان اور قلبی قبولیت اور غیر متزلزل اعتقاد کے ساتھ اِس دواء کو  اِستعمال کرے تو بلا شک کوئی اور دواء اِس سے بڑھ کر اچھی اور مؤثر نہیں ہو سکتی ،
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بیماری اللہ  کے کلام کے سامنے مزاحمت کر سکے اور قائم رہ سکے ، وہ اللہ جو زمینوں اور آسمانوں کا خالق و مالک اور رب ہے ، اور یہ قُران اُس کا وہ کلام ہے جو اگر پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ پاش پاش ہو جاتے ، اگر زمین پر نازل کیا جاتا تو زمین  کٹ پھٹ کر رہ جاتی ،
پس قلبی ، روحانی یا  جسمانی  بیماریوں میں سے کوئی بیماری ایسی نہیں جس کے علاج کے بارے میں قران کریم میں راہنمائی نہ ہو ، اس بیماری کے اسباب کے بارے میں نشاندہی نہ ہو ، اور اس سے بچاؤ کے بارے میں ہدایت نہ ہو ،
لیکن یہ سب اسے سجھائی دیتا ہے جِسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اس مقدس ترین کتاب کا درست فہم عطاء فرمایا ہو ، اپنی اپنی عقل و سوچ ، لغت و ادب ، اور بے پر اڑنے والے فلسفوں کے مطابق اللہ کے کلام سجھنے کے دعویٰ داروں کو یہ فہم نصیب نہیں ہوتا ، اگر نصیب ہوا ہوتا تو  اُن کی قران فہمی اِسی قُران پاک  میں مذکور احکام کے مُطابق ہوتی ،  اِسی قُران کریم  میں مقرر کردہ حُدود میں ہوتی ، لیکن ،،،،، قدر اللَّہ ما شاء و فعل ، و اللَّہ المُستعان و علیہ التُکلان ::: اللہ نے جو چاہا مقرر فرمایا اور کِیا ، اور صِرف اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے اور صَرف اللہ ہی پر توکل ہے ،
تو جِسے اللہ نے اپنی کتاب مبارک کے دُرُست فہم سے دُور کر دیا اُسے اُس کتاب کے وہ فوائد کبھی حاصل نہیں ہو سکتے  جِن سے اُس کے دِین دُنیا اور آخرت سب ہی کامیابی اوراس کی زندگی کے اِن تینوں پہلوؤں اور مراحل میں پائی جانی والی  سب  ہی بیماریوں اور کمزوریوں کا علاج  میسر ہو سکے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قُران العظیم میں جسمانی امراض کی طِب کے بارے میں اِس طرف ہدایت فرمائی ہے کہ یہ تین طرح سے ہے ،
::::::: (1) صحت و جاں کی حفاظت ::::::: 
اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزوں کے احکام بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا﴿ ،،،،،، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ،،،،،، :::لہذا تُم لوگوں میں سے جو کوئی بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو(روزے چھوڑ  دے اور پھر )بعد میں  دوسرے دِنوں میں(چھوڑے ہوئے روزوں کے برابر )اتنی ہی گنتی میں(روزے رکھے) سُورت البقرہ(2) /آیت 184 ، اور آیت  185  میں  ابتدائی"""فَ """کی جگہ""" وَ """کے ساتھ یہی  ارشاد مکرر ہے ،
اس  اِرشاد میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے  سفر اور  بیماری کی حالت میں  وقتی طور پر فرض روزہ تک چھوڑ دینے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم دِیا ہے ، جِس  میں ایک بڑی واضح حِکمت  صحت و جاں کی حفاظت کرنا ہے ،
اور اِرشاد فرمایا ﴿ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ::: اور تُم لوگ خود کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کی طرف مت لے جاؤ   سُورت البقرہ(2) /آیت 195 ،
اس  مذکورہ بالا آیت  کریمہ  میں اِیمان والوں  کو  جسمانی ، رُوحانی ، دُنیاوی اور اُخروی ہر قِسم کی ہلاکت اور تباہی میں خود کو ڈالنے سے  منع کیا گیا ہے ،  جِس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ اپنی جان کی حفاظت کرنا ہی چاہیے ،
::::::: (2) نقصان دہ چیزوں سے  محفوظ  رکھنا  :::::::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے وضوء اور طہارت   کے احکام بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا :::
﴿ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا::: اور  اگرتُم  جنابت کی حالت میں ہو تو پاکیزگی اختیار کرو ، اور اگر تُم لوگ بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو ، یا تُم لوگوں میں سے کوئی رفع ءحاجت سے فارغ ہو کر آیا ہو، یا (جنسی ملاپ کی صورت میں)عورتوں کو ہاتھ لگایا ہو اور تُم لوگوں کو پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو سُورت المائدہ(5) /آیت 6 ،
اِس مذکورہ بالا آیت مُبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے بیمار کو جسے  اپنے جِسم پر پانی  اِستعمال کرنے سے بیماری یا تکلیف  میں اِضافہ ہونے یا کوئی اور تکلیف واقع ہونے کا اندیشہ ہو ، اُس کی صحت کی حفاظت کے لیے پانی اِستعمال نہ کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حکم فرمایا کہ  پاکیزگی اختیار کرنے کے لیے پانی  کی بجائے پاکیزہ مٹی استعمال کرو ، 
اس حکم میں  سے یہ حِکمت  بھی سمجھ میں  آتی ہے اور یہ تعلیم بھی ملتی ہے جِسم کے لیے خارجی اور داخلی طور پر جو کچھ بھی نقصان پہنچانے والی چیز ہو اپنے جِسم کو اُس سے بچانا چاہیے ،
::::::: (3) بیماری اور تکلیف کے اسباب  اور معاون مواد کو خارج کرنا  :::::::
حج کے احکام بیان فرماتے ہوئے اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے﴿ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ  فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ  فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ   ::: اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے مکمل کرو ، اور اگر تُم لوگوں کو کہیں روک دیا جائے تو(قربانی کے لیے جانوروں میں سے )جو کچھ میسر ہو اس میں سے قربانی کرو ، اور جب تک قربانی اپنی جگہ تک نہ پہنچ جائے اُس وقت تک اپنے سر مت منڈواؤ ، لیکن تُم لوگوں میں سے جو کوئی مریض ہو یا اُس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جِس کی وجہ سے اسے سر منڈوانا ضروری ہو یا بہتر ہو) تو وہ  (سر منڈوا لے لیکن) اُس کے فدیے کے طور پر روزہ رکھے یا صدقہ ادا کرے یا قربانی کرےسُورت البقرہ(2) /آیت 196،
اِس آیت مُبارکہ میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جس چیز  کی جِسم میں بیرونی یا اندرونی طور پر  مُوجودگی کسی  بیماری یا تکلیف کا سبب ہو ، یا بیماری یا تکلیف وغیرہ میں اِضافے کا سبب  ہو یا بیماری یا تکلیف وغیرہ کی شِفاء میں روکاٹ کا سبب ہو ، اُس چیز کو ختم کرنا ، اُسے جِسم پر سے ، یا جِسم میں سے خارج کرنا ، اس سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے ، خواہ اُس کے لیے کوئی محدود ترین وقت میں ادا کرنے والی خالص عِبادت کے بدلے میں فدیہ وغیرہ ہی  دینا پڑے ، لیکن اپنے جِسم اور صحت کی حفاظت کے لیے  ایسا کرنے کی بھی اجازت ہے۔
جن   چیزوں  کو  جِسم  میں یا جِسم پر ، اللہ  تعالیٰ کے مقرر کردہ فطری نظام کے خِلاف ، یا اُن چیزوں کے خراب اور فاسد ہو جانے کے باوجود  اُنہیں روکے رکھنا بیماریوں کا سبب بنتا ہے وہ درج ذیل ہیں :::
::: (1) فاسد خون ،
::: (2) پیشاب،
::: (3) پاخانہ،
::: (4) ہوا ،
::: (5)قے (اُلٹی)،
::: (6)چھینک، 
::: (7) مَنِی،
::: (8) نیند ،
::: (9) بھوک ،
::: (10) پیاس ،
اِن میں سے کسی بھی چیز کو بلا ضرورت اور غیر مناسب طور پر روکے رکھنا کسی نہ کسی مرض کا سبب بنتا ہے ، اللہ سبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں اس مذکورہ بالا حج اور عمرے کے احکام والی آیت مبارکہ میں  ان سب سے کم تر نقصان والی چیز کو خارج کرنے اور حالت احرام میں بھی اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تعلیم دی ہے ، یعنی سر میں پائی جانے والی گرمی یا سر کے اوپر پائی جانے والی کوئی نقصان دہ چیز  جس سے چھٹکارے کے لیے سر مونڈنا پڑے ،
یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک کے اسلوب میں سے ہے(نہ کہ یہی اسلوب ہے) کہ وہ کم تر چیز کا ذِکر فرما کر اعلیٰ کی طرف متوجہ کرتا ہے، پس اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہمیں طِب کے ان تین قوانین اور اِن سے  ماخوذ دیگر قواعد کی طرف ہدایت دی ہے (جس سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ  اِنسان کی خیر و بھلائی کے لیے طب ، یا کوئی بھی دُوسرا عِلم سیکھنا چاہیے اور اُس  میں اللہ تعا لیٰ نے جو خیر اور فوائد رکھے ہیں اُنہیں اپنے اور دُوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی جانی چاہیے ) ۔   
امام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ کی """ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد/فصل الطِب النبوی""" سے ماخوذ۔
تاریخ کتابت :  02/12/1432 ہجری، بمُطابق ،28/10/2011عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔