Tuesday, August 20, 2013

:::::::رکوع میں شامل ہونے کی صُورت میں رکعت ملنے کا مسئلہ :::::::

:::::::رکوع میں شامل ہونے کی صُورت میں رکعت ملنے کا مسئلہ :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم ، والصَّلاۃُ و السَّلامُ علیٰ رسولہِ الکریم ، أما بعد :::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، نماز سے متعلق ایک اور سوال اور اس کا جواب پیش خدمت ہے، پڑھیے اور پڑھایے،اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کے لیے خیر کا سبب بنائے ،
::::: سوال:::::  ہمارے بھائیوں میں اکثر اس بات پر بحث ہوتی دکھائی اور سنائی دیتی ہے کہ کیا کسی نماز میں رکوع کی حالت میں شامل ہونے کے صورت میں وہ رکعت مل جاتی ہے جس کے رکوع میں شامل ہوا گیا ؟؟؟
اس مسئلے میں بات کرتے ہوئے اکثر بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ رکوع میں شامل ہونے والا سُورت فاتحہ نہیں پڑھتا اس لیے اُسے  رکعت نہیں ملتی!!!
::::: جواب   ::::: اِس سوال کے جواب میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ"""جو شخص کسی نماز کی جماعت میں امام صاحب کے ساتھ رکوع میں شامل ہوتا ہے تو اُسے وہ رکعت مل جاتی ہے جس رکعت کا وہ رکوع ہوتا ہے """،   
میں ،اِن شاء اللہ ، اِس مضمون میں سُورت  فاتحہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کروں گا کیونکہ اس کے بارے میں ایک الگ سوال جواب کی صُورت میں تفصیل مہیا کی جا چکی ہے ، جس کا مطالعہ درج ذیل لنک پر کیا جا سکتا ہے :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں، مذکورہ بالا سوال کے جواب کی تفصیل میں اپنی بات کا آغاز کرتے ہوں کہتا ہوں کہ سب سے پہلے اِس نکتے پر غور فرمایے کہ جس رسول کریم  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سورت فاتحہ کے بغیر نماز کے نامکمل ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے ، انہی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ (((((إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلاَ تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاَةَ :::اگر تُم لوگ نماز کی طرف آؤ اور ہم سجدے کی حالت میں ہوں (اور تم لوگ اس میں شامل ہو)تو اس(سجدے)کو کچھ شُمار مت کرو ، اور جس کِسی نے رکعت(یعنی رکوع) پا لیا تو یقیناً اُس نے نماز پا لی)))))
سُنن ابی داؤد /حدیث/893کتاب  الصلاۃ   /باب فِى الرَّجُلِ يُدْرِكُ الإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ
اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے اس حدیث کو"حسن" قرار دِیا ، دیکھیے صحیح سُنن ابی داؤد/حدیث832، اور تفصیلی تخریج کے لیے دیکھیے الاِرواء الغلیل /حدیث 496،
مذکورہ بالا حدیث شریف کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ ہیں ،
اس  کے علاوہ ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ ُ سے بہت ہی واضح الفاظ میں یہ روایت مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إِذَا جِئْتُمْ وَالإِمَامُ رَاكِعٌ فَارْكَعُوا ، وَإِنْ سَاجِدًا فَاسْجُدُوا ، وَلاَ تَعْتَدُّوا بِالسُّجُودِ إِذَا لَمْ يَكُنْ مَعَهُ الرُّكُوعُ :::اگر تم لوگ(نماز کے لیے) آؤ اور اِمام رکوع کی حالت میں ہو تو رکوع(میں شمولیت)کر لو ، اور اگر سجدے کی حالت میں ہو تو سجدہ(میں شمولیت) کر لو ،اور سجدوں (میں شامل ہونے)کو شُمار مت کرو جب تک کہ اُس (سجدے)کے ساتھ رکوع نہ ہو )))))سُنن البیھقی الکبریٰ /حدیث/893کتاب  الصلاۃ   /باب إِدْرَاكِ الإِمَامَ فِى الرُّكُوعِ
اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے اس حدیث کو"صحیح" قرار دِیا ، دیکھیے  سابقہ حوالے کے مطابق صحیح سُنن ابی داؤد،اور الاِرواء الغلیل /حدیث 496،
ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم لوگ اپنے دعوے کے مطابق ، اپنے مسلک """اہل سنت ، والجماعت """کے مطابق ہم اس قولی سُنّت مبارکہ کو "الجماعت "یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے قول اور فعل  کے مطابق سمجھیں  ،اور کسی ضد کے بغیر، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول اور فعل کے مطابق  اسکو سمجھ لیں اور اپنا لیں ،
اسی منھج ، اور اسی مسلک کے مطابق امام الالبانی رحمہُ اللہ نےإِرواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل /حدیث رقم 496، کے ضمن میں  اس مسئلے کو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے قول اور عمل کے مطابق سمجھانے کے لیے ذِکر کیا ہے کہ :::
""""" اِس حدیث کو تقویت پہنچانے والے امور میں سے صحابہ(رضی اللہ عنہم) اجمعین کا اِس کے مطابق  عمل بھی ہے ، (ذیل میں صحابہ کے قول اور فعل ذِکر کیے جا رہے ہیں)
:::(1):::  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ  کا فرمان ہے کہ(((((مَن لَم يُدرك الإمام راكعاً لَم يُدرك تلك الركعة:::جِس نے اِمام کو رکوع کی حالت میں نہیں پایا (یعنی رکوع کی حالت میں اِمام کے ساتھ شامل نہ ہوا) اُس نے رکعت نہیں پائی)))))سنن البیھقی ، اور اس کی سند صحیح ہے ، 

اور ابن ابی شیبہ نے "مصنف" میں ، اور (امام ) الطحاوی ، (امام)الطبرانی ، اور (امام)البیھقی نے  روایت کیا ہے کہ :::
زید بن  وھب رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """ خرجتُ مع عبد الله مِن داره إلى المسجد ، فلما توسطنا المسجد ركع الإمام ، فكبر عبد الله ثم ركع ، وركعتُ معه ، ثم مشينا راكعين حتى انتهينا إلى الصَّفِ حتى رفع القوم رءوسهم ، قال: فلما قضى الإمام الصلاة قمتُ وأنا أرى أنى لم أُدرك ، فأخذ بيدى عبد الله ،فأجلسنى وقال: إنك قد أدركتَ.
قلت: وسنده صحيح. وله فى الطبرانى طرق أخرى.
ترجمہ ::: میں عبداللہ (ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ) کے ساتھ اُن کے گھر سے مسجد کی طرف ( نماز کے لیے) نکلا، جب ہم مسجد کے درمیان میں پہنچے تو اِمام رکوع میں داخل ہو گیا ، تو عبداللہ(ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ)نے تکبیر کہی اور رکوع میں داخل ہو گئے ، اور میں بھی اُن کے ساتھ رکوع میں داخل ہو گیا ، پھر ہم دونوں رکوع کی ہی حالت میں چلتے ہوئے صف میں جا ملے ، یہاں تک کہ نمازیوں نے (رکوع میں سے) اپنے سر اُٹھائے ،پھر جب اِمام نے سلام پھیرا تو میں کھڑا ہو گیا کیونکہ میں یہ سمجھ رہا تھا کہ مجھے رکعت نہیں ملی ، تو عبداللہ(ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ) نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے بٹھا دِیا اور فرمایا ((((( تُم رکعت پا چکے ہو )))))
میں ( الالبانی) کہتا ہوں کہ اس کی سند صحیح ہے ، اور اس روایت کی(اِمام) طبرانی (رحمہُ اللہ) کے پاس دیگراسناد بھی ہیں"""""۔ 
:::(2):::  عبداللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہما )کا فرمان ہے کہ (((((إذا جئت والإمام راكع ، فوضعت يديك على ركبتيك قبل أن يرفع فقد أدركت :::اگر تم (نماز کے لیے) آؤ اور اِمام رکوع میں ہو ،اور تم اِمام کے (سر) اُٹھانے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لو تو یقینا تُم نے (رکعت) پا لی )))))
(امام) ابن ابی شیبہ(رحمہُ اللہ) نےبسند ، ابن جریج عن نافع عنہ ُ  (رحمہم اللہ )روایت کیا ،
اور اسی طرح (امام)البیھقی(رحمہُ اللہ) نے بھی ، لیکن انہوں نے ابن جریج کے ساتھ مالک کو بھی ملا کر ذِکر کیا ، اور ان کی روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :
(((((من أدرك الإمام راكعاً ، فركع قبل أن يرفع الإمام رأسه ، فقد أدرك تلك الركعة :::جس نے اِمام کو رکوع کی حالت میں پایا ، اور اِمام کے سر اُٹھانے سے پہلے رکوع کر لیا تو یقیناً  اُ س نے وہ رکعت پا لی ))))) میں (الالبانی)کہتا ہوں کہ اس کی سند صحیح ہے ،
:::(3):::  زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ ُ  فرمایا کرتے تھے (((((مَن أدرك الركعة قبل أن يرفع الإمام رأسه فقد أدرك الركعة :::جس نے اِمام کے سر اٹھانے سے پہلے رکعت پا لی تو یقیناً اُس نے رکعت پا لی)))))
اسے (امام)البھیقی (رحمہُ اللہ )نے(اِمام) مالک کے ذریعے روایت کیا ہے ،اور (یہ بھی کہ اِمام)مالک (رحمہُ اللہ) تک یہ خبر پہنچی ہے کہ عبداللہ ابن عمُر (رضی اللہ عنہما)، اور زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ ُ) یہ ہی کہا کرتے تھے،
اور (امام )الطحاوی(رحمہُ اللہ) نے، خارجہ بن زید بن ثابت رحمہُ اللہ کے ذریعے  روایت کیا ہے :::
"""أن زيد بن ثابت كان يركع على عتبة المسجد ووجهه إلى القبلة ، ثم يمشى معترضاً على شقه الأيمن ،ثم يعتد بها إن وصل إلى الصف أو لم يصل:::کہ زید بن ثابت (کسی وقت، جب کہ امام رکوع میں ہوتا) تو مسجد کی دہلیز سے ہی رکوع میں داخل ہو جاتے اورپھر اپنی سیدھی جانب (ترچھے سے)چلتے (تا کہ صف میں جا ملیں )اور اس (رکعت )کو (مل جانے والی رکعتوں میں )گنتے ، خواہ (امام کے سر اٹھانے سے پہلے )صف میں مل چکتے یا نہ مل سکے ہوتے"""
میں(الالبانی)کہتا ہوں کہ اس کی سند بہترین ہے ، یہ روایت (امام) الطحاوی(رحمہُ اللہ) اور (امام)البھیقی (رحمہُ اللہ )نے روایت کی ہے ،
:::(4):::  عبداللہ ابن زبیر (رضی اللہ عنہما)
عثمان ابن الاسود (رحمہُ اللہ) کا کہنا  ہے کہ """"" دخلت أنا وعمرو بن تميم المسجد ، فركع الإمام فركعت أنا وهو ومشينا راكعين ، حتى دخلنا الصف ، فلما قضينا الصلاة ، قال لى عمرو: الذى صنعت آنفاً ممن سمعته، قلت: من مجاهد ، قال: قد رأيت ابن الزبير فعله::: میں اور عَمرو بن تمیم مسجد میں داخل ہوئے تو اِمام رکوع میں داخل ہو گیا ، تو میں  اور عَمرو نے بھی رکوع میں داخل ہو گئے ، اور اسی حالت میں چلتے ہوئے صف میں داخل ہو گئے ، جب نماز سے فارغ ہوئے تو عِمر نے مجھ سے کہا " جو کچھ تم نے ابھی کیا ہے کس  سے سنا ہے؟
میں نے(جواباً) کہا ، مجاھد (رحمہُ اللہ)سے(سنا) ، انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے (عبداللہ )ابن زبیر (رضی اللہ عنہما) کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا"""""
یہ روایت (امام)ابن ابی شیبہ (رحمہُ اللہ)نے روایت کی اور اس کے سارے راوی قابل اعتماد ہیں ، سوائے عَمرو بن تمیم کے کہ ، اس کے بارے میں ابن ابی حاتم نے کچھ تبصرہ نہیں کیا ، اور (امام) ابن حبان(رحمہُ اللہ)نے اسے "با اعتماد"کہا ، اور (امام)بخاری(رحمہُ اللہ)نے کہا "اس کی حدیث میں کچھ شک سا ہوتا ہے"، (یعنی بطور گواہی کے یہ روایت قابل قبول ہے، کیونکہ کسی راوی کے بارے میں کوئی واضح جرح نہیں ہے  بلکہ  صرف کچھ شک کا اندیشہ ظاہر ہوا ہے، جس کے ساتھ ساتھ توثیق بھی نظر آتی ہے)
:::(5):::  ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ ،
ابی بکر بن عبدالرحمٰن بن الحارث بن ھشام کے ذریعے روایت ہے کہ:::
""""" أن أبا بكر الصديق وزيد بن ثابت دخلا المسجد والإمام راكع فركعا ، ثم دبا وهما راكعان حتى لحقا بالصف::: ابو بکر الصدیق (رضی اللہ عنہ ُ )اور زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ ُ )مسجد میں داخل ہوئے اور اِمام رکوع کی حالت میں تھا ، تو وہ دونوں رکوع کی حالت میں (داخل ہو کر) چلتے ہوئے صف میں جا ملے"""""
(امام) البھیقی نے اس روایت کا اخراج کیا ہے ، اور اس کی سند "حسن" ہے،
لیکن ابا بکر بن عبدالرحمٰن نے ابابکر الصدیق (رضی اللہ عنہ ُ  کے زمانے)کو نہیں پایا ، لہذا یہ (روایت)ابو بکر بن عبدالرحمٰن  کے حوالے سے ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ  کے بارے میں  منقطع ہے ،
جی صِرف یہ احتما ل ہے کہ ابو بکر بن عبدالرحمٰن نے یہ بات زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ ُ ) سے سنی ہو،
اور یہ معاملہ زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ ُ)سے صحیح طور پر ثابت شدہ ہے ، کیونکہ(زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں) کچھ دیگر اسناد کے ذریعے  یہ بات منقول ہے  ، جیسا کہ ابھی کچھ دیر پہلے (اُس ثابت شدہ بات ) کا ذِکر کیا گیا ہے ، 
تو (ان سب روایات اور باتوں کا) خُلاصہ یہ ہوا کہ یہ (رکوع ملنے کی صورت میں رکعت مل جانے والی) حدیث(صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں اِن مذکورہ بالا براہ راست اور)مرسل گواہ(روایات) اور آثار کی موجودگی میں """ حسن """ہے ، اور مسئلے کی دلیل بننے کے قابل ہے ، واللہ أعلم ۔
:::::: فائدہ ::::::
یہ مذکورہ بالا صحیح (ثابت شدہ ) آثار درج ذیل معاملات کی دلیل ہیں کہ :::
::: (1) :::  رکوع ملنے کی صُورت میں رکعت مل جاتی ہے ، اور اسی فائدے کے بیان کے لیے ہم نے یہ مذکورہ بالا آثار یہاں ذِکر کیے ہیں ۔
::: (2) :::  صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع میں شامل ہونے کا جواز ، جو کہ ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے ، کہ ایک دفعہ ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ نماز کے لیے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رکوع میں تھے ، تو ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ صف میں شامل ہو نے سے پہلے ہی رکوع میں داخل ہو گئے اور پھر اسی حالت میں چلتے ہوئے صف میں جا ملے ،
تو جب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اِرشاد فرمایا (((((أَيُّكُمُ الَّذِى رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ ثُمَّ مَشَى إِلَى الصَّفِّ::: تم میں کون ہے جو صف (میں شامل ہونے)کے بغیر  رکوع میں گیا اور پھر صف کی طرف چلا )))))، تو میں نے عرض کیا"""میں تھا """،
تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ::: اللہ (نیکی کے لیے)تمہارے لالچ کو بڑھائے لیکن تم دوبارہ ایسا مت کرنا)))))سُنن ابی داؤد /حدیث/684کتاب الصلاۃ /باب103 باب الرَّجُلِ يَرْكَعُ دُونَ الصَّفِّ،
اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سوال کے ذِکر کے بغیر صحیح البخاری /حدیث/783کتاب الآذان/باب114 باب إِذَا رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ،"""""۔ امام الالبانی رحمہُ اللہ کی بات ختم ہوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کی اس مذکورہ بالا حدیث کو بھی کسی طور یہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ رکوع میں شامل ہونے کی صورت میں رکعت نہیں ملتی ، لیکن حدیث شریف کے الفاظ اور دیگر صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ میں ملنے والی تعلیمات اور احکام اس کی تائید نہیں کرتے ،
ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کے واقعہ پر  مبنی اِس مذکورہ بالا حدیث مبارک میں بھی یہ دلیل ہے کہ رکوع پانے والے کو رکعت مل جاتی ہے ، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کو رکعت لوٹانے کا حکم بھی فرماتے ،
اس حدیث شریف کی شرح اور مسئلے کی کچھ مزید تفصیل جاننے کے لیے دیکھیے ، السلسلۃ الاحادیث الصحیحہ /حدیث رقم229 اور230، اور تمام المنۃ  فی تعلیق علی فقہ السنۃ /صفحہ 285،
اِن شاء اللہ یہ مذکورہ بالا معلومات یہ مسئلہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اگر کوئی شخص جماعت کی نماز میں امام صاحب کے ساتھ رکوع کی حالت میں ملتا ہے تو اُسے وہ رکعت مل جاتی ہے جس رکعت کا وہ رکوع ہو ،
 رہا معاملہ سورت الفاتحہ کے پڑھنے کا تو اس کے بارے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے ان شا ء اللہ کہ جس طرح جہری نمازوں میں امام صاحب کی قرأت کو مقتدیوں کے لیے کافی قرار دِیا گیا ہے ، اسی طرح رکوع  میں شامل ہونے کی صُورت میں امام صاحب کی قرأت ہی مقتدی کی رکعت کے لیے کفایت کرنے والی ہوگی ،
سورت فاتحہ کی قرأت کے بارے میں کچھ وضاحت ایک الگ  مضمون میں مہیا کی جا چکی ہے ، جس کا ربط مضمون کے آغاز میں لکھا جا چکا ہے ، 
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حق جاننے ، پہنچانے ، ماننے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں بنائے ۔
ان معلومات کے ساتھ ساتھ میں کچھ علماء کرام رحمہم اللہ و حفظھم کے فتاویٰ جات کا بھی ذِکر کر دوں تا کہ ہمارے وہ بھائی جو دوسروں کو  تو مقلد ہونے کا طعنے کا دیتے ہیں لیکن خود بھی کافی حد تک اُسی قسم کی تقلید میں ملوث ہوتے ہیں ، اُن بھائیوں کو اِن شاء اللہ کچھ تسلی ہو جائے ،
::::::: (1) ::::::: علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہُ اللہ کا فتویٰ ::::::
سوال  : إذا دخلت في الصلاة قبيل الركوع بقليل ، فهل أشرع في قراءة الفاتحة أو أقرأ دعاء الاستفتاح، وإذا ركع الإمام قبل إتمام الفاتحة فماذا أفعل؟
جواب  : قراءة الاستفتاح سنة وقراءة الفاتحة فرض على المأموم على الصحيح من أقوال أهل العلم ،فإذا خشيت أن تفوت الفاتحة فابدأ بها ، ومتى ركع الإمام قبل أن تكملها فاركع معه ويسقط عنك باقيها ؛ لقول النبي - صلى الله عليه وسلم ((((( إنما جعل الإمام ليؤتم به فلا تختلفوا عليه فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا ))))))  الحديث متفق عليه .
مجموع فتاوى العلامة عبد العزيز بن باز رحمه الله/ المجلد الحادی عشر/ کتاب الصلاۃ القسم الثانی / ارکان الصلاۃ / الفاتحة أهم من دعاء الاستفتاح
ترجمہ :::
سوال ::: اگر میں رکوع سے تھوڑی سی دیر پہلےنماز میں داخل  ہوں ، تو کیا میں سورت فاتحہ کی قرأت  سے شروع کروں یا نماز کی ابتداء کرنے والی  دعاء پڑھنے سے شروع کروں، اور اگر امام (میری )سورت فاتحہ کی قرأت  پوری ہونے سے پہلے ہی رکوع میں چلا جائے تو میں کیا کروں ؟
جواب ::: علماء کے صحیح اقوال کے مطابق ، نماز کا ابتداء کرنے والی دعاء سُنّت ہے ، اور سورت فاتحہ پڑھنا مقتدی (اور امام دونوں) پر فرض  ہے(یہ بات امام صاحب رحمہُ اللہ ، اپنے مسلک کے عُلماء کے اقوال کے مطابق فرما رہے ہیں )،
اور اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ تم فاتحہ نہیں پڑھ سکو گے تو تم (تکبیر تحریمہ کے فوراً بعداپنی نماز کا) آغاز اسی سے کرو، اور تمہاری سورت فاتحہ پوری پڑھنے سے پہلے جس وقت بھی امام رکوع کرے تو بھی اُس کے ساتھ ہی رکوع کرو ، سورت فاتحہ میں سے رہ جانے والی قرأت تمہارے ذمے سے نکل جائے گی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (((((یقیناً اِمام کو تو اِس لیے بنایا گیا ہے کہ ، اُس کے ذریعے سے (اُس  کی اقتداء میں رہتے ہوئے ،نماز کی)تکمیل  کی جائے،لہذا تم لوگ اس کے خلاف کچھ نہ کرو ، پس جب و تکبیر کہے تو تم لوگ بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم لوگ بھی رکوع کہو ))))) 
سبحان اللہ ، دیکھیے کہ علامہ صاحب رحمہُ اللہ  و جزاہُ احسن الجزاء ، نے کس قدر صفائی سے بیان فرمایا ہے کہ اگر پوری سورت فاتحہ  پڑھنے سے پہلے ہی امام کی اقتداء میں رکوع  میں داخل ہونا پڑے تو سورت فاتحہ  کی قرأت کی تکمیل کے بغیر ہی رکعت پوری ہے ،
 کیونکہ علامہ صاحب رحمہُ اللہ نے بھی اس رکعت کو لوٹانے کا کوئی ذِکر نہیں کیا، اور جس حدیث شریف سے دلیل لی ہے ، وہی حدیث شریف جہری اور سری رکعتوں میں سورت فاتحہ  کے مسئلے کو واضح کرنے کے لیے ہمارے دلائل میں بھی اِسی مفہوم کے مطابق شامل ہے ،
اور علامہ صاحب رحمہُ اللہ کا رکعت کو نہ لوٹانے کا فتویٰ نہ دینا ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ والی اُس حدیث کے مطابق بھی ہے جس کا ہم نے ابھی کچھ دیر پہلے ذِکر کیا ، وللہ الحمد ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ اُس شخص کا معاملہ جس نے سورت فاتحہ میں سے کچھ بھی قرأت نہ کیا ہو    
::::::: (2) ::::::: فتاوی الاسلام ، سوال و جواب میں سے :::::
سؤال رقم    74922۔ تسقط الفاتحة عن المأموم في موضعين ؟
سوال  :    إذا دخلت المسجد والإمام راكع وركعت معه ، فهل تحسب لي الركعة ؟ مع أني لم أقرأ الفاتحة ۔وإذا دخلت معه قبل الركوع ثم كبر ولم أتمكن من قراءة الفاتحة ، فماذا أفعل ؟ هل أركع معه ولا أكمل الفاتحة ، أو أكمل الفاتحة ثم أركع ؟
جواب  :  الحمد لله سبق في جواب السؤال ( 10995 )، أن قراءة الفاتحة ركن في الصلاة في حق كل مصلٍّ : الإمام والمأموم والمنفرد ، في الصلاة الجهرية والسرية .
والدليل على ذلك ما رواه البخاري (756) عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ) .
انظر : "المجموع" (3/283- 285) .
ولا تسقط الفاتحة عن المأموم إلا في موضعين :
الأول : إذا أدرك الإمام راكعاً ، فإنه يركع معه ، وتحسب له الركعة وإن كان لم يقرأ الفاتحة،
ويدل على ذلك:حديث أبي بكرة رضي الله عنه أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِعٌ فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ ،فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : ( زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلا تَعُدْ ) رواه البخاري (783) .
ووجه الدلالة : أنه لو لم يكن إدراك الركوع مجزئاً لإدراك الركعة مع الإمام لأمره النبي صلى الله عليه وسلم بقضاء تلك الركعة التي لم يدرك القراءة فيها , ولم ينقل عنه ذلك , فدل على أن من أدرك الركوع فقد أدرك الركعة .انظر : "سلسلة الأحاديث الصحيحة" (230) .
الموضع الثاني الذي تسقط فيه الفاتحة عن المأموم :
إذا دخل مع الإمام في الصلاة قبيل الركوع ولم يتمكن من إتمام الفاتحة ، فإنه يركع معه ولا يتم الفاتحة ، وتحسب له هذه الركعة .
ترجمہ :::
سوال رقم 74922: عنوان : (نماز با جماعت میں )سُورت فاتحہ پڑھنا  دو صُورتوں میں مقتدی کی ذمہ داری  نہیں رہتی ؟
سوال : اگر میں مسجد میں داخل ہوں اور امام رکوع کی حالت میں ہو اور میں بھی اسُ کے ساتھ رکوع میں داخل ہوجاؤں ، تو کیا میرے لیے یہ رکعت شمار کی جائے گی ؟ جبکہ میں نے سُورت فاتحہ نہیں پڑھی ؟
اور اگر میں امام کے ساتھ  رکوع سے پہلےنماز میں شامل ہوں اور امام تکبیر کہہ کر رکوع میں داخل ہو جائے ، اور میں نے ابھی تک سُورت فاتحہ نہ پڑھی ہو، تو میں کیا کروں ؟ کیا میں سُورت فاتحہ کی قرأت پوری کیے بغیر ہی امام کے  ساتھ رکوع میں داخل ہوجاؤں ؟ یا سُورت فاتحہ کی قرأت پوری کر کے پھر رکوع کروں؟
جواب : الحمد للہ سوال رقم  10995 کے جواب میں یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ سُورت فاتحہ پڑھنا نماز کا رکن ہے ، (اور )ہر نمازی کے لیے (ہے)خواہ امام ہو یا مقتدی ، جہری نماز اور سِری نماز دونوں میں ہی [[[یہ آخری بات مسئلے سے متعلق میسر صحیح ثابت شدہ احادیث اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں درست نہیں، تفصیل پر مشتمل  مضمون کا ربط جس کا ربط مضمون کے آغاز میں لکھا جا چکا ہے]]]
اور اس کی دلیل(امام) بخاری (رحمہُ اللہ ) کی، عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ُ کے ذریعے  روایت کردہ یہ حدیث ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ ((((( جِس نے فاتحہ الکتاب (یعنی سُورت فاتحہ) نہیں پڑھی اُس کی نماز نہیں ہوتی)))))
حدیث رقم (756)، (اور مزید کے لیے )دیکھیے :"المجموع"(3/283- 285)،
اور سُورت فاتحہ کا پڑھنا متقدی کے ذمہ میں سے سوائے دو صُورتوں کے نہیں نکلتا ،
::: پہلی صُورت ::: اگر متقدی اِمام کو رکوع کی حالت میں پائے ، تو مقتدی اِمام کے ساتھ رکوع میں داخل ہو گا ، اور اُس کے لیے رکعت شمار کی جائے گی ، خواہ اُس نے سُورت فاتحہ نہ ہی پڑھی ہو ۔
اور اس کی دلیل ، ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کی حدیث ہے کہ (اُنہوں نے بتایا کہ)وہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس پہنچے تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رکوع کی حالت میں تھے ، تو ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ بھی صف میں ملنے سے پہلے ہی (دُور سے ہی )رکوع میں داخل ہوگئے ، اور پھر انہوں نے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنے اِس کام کے کے بارے میں بتایا تو ، رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ::: اللہ (نیکی کے لیے)تمہارے لالچ کو بڑھائے لیکن تم دوبارہ ایسا مت کرنا))))) بخاری نے روایت کیا (783
اِس حدیث میں سے دلیل : اگر رکوع کو پا لینا ، امام کے ساتھ رکعت پالینے کے لیے کافی نہ ہوتا تو  تو یقیناً نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی  آلہ وسلم ، ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ کو اُس رکعت کی قضاء کا حکم دیتے جس میں ابہ بکرہ رضی اللہ عنہ ُ قرأت نہ کر پائے تھے (اورجس کے رکوع میں ابی بکرہ رضی اللہ عنہ ُ شامل ہوئے تھے)اور ایسا( کوئی حکم دینا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں نقل نہیں ہوا ، پس یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جِس نے رکوع پایا اُسے رکعت مل گئی ، مزید تفصیل کے لیے دیکھیے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" (230)،
::: پہلی صُورت ::: جس میں سُورت فاتحہ کی قرأت مقتدی کے ذمے نہیں رہتی ہے ، یہ کہ اگر مقتدی امام کے ساتھ رکوع سے پہلےنماز میں شامل ہوا ، اور سُورت فاتحہ کی قرأت مکمل  نہ کر سکا (اور اس سے پہلے ہی امام صاحب رکوع میں چلے گئے ) تو مقتدی اِمام کے ساتھ ہی  رکوع میں داخل ہو گا اور سُورت فاتحہ کی قرأت کی تکمیل نہیں کرے گا ، اور مقتدی کے لیے وہ رکعت پوری شمار کی جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِن شاء اللہ مذکورہ بالا معلومات اور عُلماء کے فتوے کسی بھی منصف مزاج مسلمان کے یہ سمجھنے کے لیے کافی ہوں گے کہ"""جو شخص کسی نماز کی جماعت میں امام صاحب کے ساتھ رکوع میں شامل ہوتا ہے تو اُسے وہ رکعت مل جاتی ہے جس رکعت کا وہ رکوع ہوتا ہے """،   
:::یاد دہانی ::: امام کے پیچھے جہری اور سری رکعتوںمیں سورت فاتحہ ، یا کسی بھی اور سُورت شریفہ کی قرأت کرنے کے حکم کی تفصیل پر مشتمل  مضمون کا ربط جس کا ربط مضمون کے آغاز میں لکھا جا چکا ہے ،
اگر کوئی بھائی کسی قِسم کی بحث وغیرہ کا خواہاں ہو تو اس سے پیشگی گذارش ہے کہ دونوں مضامین کا تسلی ، غور اور تحمل سے مطالعہ کیجیے ، اور اُن میں دیے گئے حوالہ جات میں موجود مزید وضاحتی مواد کا بھی ، اور اگر اس کے بعد اُن کے پاس کوئی نئی دلیل ہو جس کے بارے میں اُس مواد میں بات نہ ہو تو ، اُس نئی دلیل کے ساتھ اپنی بات سامنے لائیں ، اِن شاء اللہ ،دُرست دلائل ،سلف الصالح اور  بعد کے علماء کرام (حفظہم اللہ و رحمہم )کے اقوال و افعال کی روشنی میں  اس کا بھی مطالعہ  کیا جائے گا ۔
اللہ جلّ و عُلا ہم سب کو ضد سے بچنے ، اور  حق جاننے ، پہنچانے ،ماننے  اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے پیش ہونے  والوں  میں سے بنائے ، والسلام علیکم۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :::


4 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ شیخ عادل , بڑی معتدل دلیل کیساتھ بات واضح کی. اللہ ہم سب کی اصلح فرماے. عامر شیخ مکة مکرمة

Unknown نے لکھا ہے کہ

ماشاءاللہ

Unknown نے لکھا ہے کہ

زادك الله حرصا ولا تعد کا يہ ما حصل ہے کہ رکوع سے رکعت کى عادت نہ بنائيں سورۂ فاتحہ سے رکعت حاصل کرنے کو ترجيح دى جائے

Adil Suhail Zaffar عادل سھیل ظفر نے لکھا ہے کہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
جزاکما اللہ خیرا بھائیو
جی ہاں رکوع می شامل ہو کر رکعت پانے کو عادت نہیں بنایا جانا چاہیے ، لیکن یہ سمجھ لیا جانا چاہیے کہ اگر کوئی رکوع میں شامل ہو تو اُسے وہ رکعت مل جاتی ہے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔