٨ ٨ ٨ ماہِ شوال
اور ہم (
2 ) ٨ ٨
٨
۹۹۹ چاند رات ۹۹۹
شوال رمضان کے بعد آنے والا مہینہ
ہے ، اِس کی پہلی رات وہ ہوتی ہے جِس میں عید کا چاند دِکھائی دیتا ہے لہذا اِس کا
پہلا دِن عید الفطر ہوتا ہے ، شوال کی پہلی رات جِسے عام طور پر چاند رات کہا جاتا
ہے ، جِسے شاعروں نے ایک عشقیہ چیز بنا کر
رکھ دِیا ہے ، یہ رات رمضان کے ختم ہوتے ہی شروع ہوتی ہے ،
اِس رات میں جو کُچھ کیا جاتا ہے اُسے دیکھ کر
پتہ چلتا ہے کہ جو شیاطین رمضان میں باندھ دئیے گئے تھے وہ اپنی رہائی کا جشن کر
رہے ہیں ، گھر ،گلیاں ،کُوچے ، اور خاص طور پر بازار اِن کی کاروائیوں سے بھرے
ہوئے نظر آنے لگتے ہیں ، تقریباً ہر طرف موسیقی اور گانوں کی آوازیں بُلند ہونے
لگتی ہیں ، بے پردگی کے مُظاہرے عام ہو جاتے ہیں ، غیرت مند باپ ، بھائی ، بیٹے
، شوہر اپنے گھر کی عورتوں کو مہندی لگوانے اور چوڑیاں پہنانے لے جاتے ہیں اور بڑے
اطمینان سے اُن کے ہاتھوں کو غیر محرم مردوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں
،
؎ تھا غیرت نام جِس کا گئی وہ تیمور کے گھر سے ، اِنّا للہِ و اِنّا اِلیہِ راجِعُون ،
ہونا تو یہ چاہیے کہ نیا چاند دیکھ
کر اللہ کا شکر ادا کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگیوں میں ایک اور رمضان
گُزارنے کی مُہلت دِی ، اور ایک اور عید
مُیسر کی مگر اللہ کی نافرمانی کی جاتی ہے ، کافروں کی نقالی میں اُن کے جیسے کام
کیے جاتے ، جیسےکہ آتش بازی ، پٹاخے بازی، موسیقی کا شور ، رقص و سرود کا اہتمام
، وغیرہ ، اُن لوگوں نے کرسمس کارڈ بھیجنے شروع کیے تو ہم نے عید کارڈ بنا لیے ،
کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مُبارک یاد
نہیں کہ)))))مَن تَشبَھہ بِقَومٍ فَھُوَ مِنھُم ::: جِس نے جِس قوم کی نقالی کی وہ اُسی قوم میں سے ہے (((((سنن ابو داؤد / حدیث 2024 ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کا یہ فیصلہ عام ہے اور اِس میں سے کِسی چیز کو نکالنے کی کوئی گُنجائش نہیں
، لہذا لباس ، طرز رہائش ، عادات و اطوار ، رسم و رواج ، کِسی بھی معاملے میں
کافروں کی نقالی کرنا جائز نہیں ، اپنی بُرائی کو اچھائی بنانے کے لئیے اُسے
اچھائی سے تبدیل کرنا ہوتا ہے ، کوئی اچھا نام دینے سے وہ بُرائی اچھائی نہیں بنتی
، عید کارڈز ، کرسمس کارڈز کی ہی نقالی ہی تو کیونکہ اِن سے پہلے مُسلمانوں میں
کہیں اِس قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی ، نہ ہی عید کی دُعا ہیں اور نہ ہی
ہو سکتے ہیں ، عید کی دُعا یا عید کی
مُبارک باد کیا ہے ؟ اِن شاءَ اللہ اگلے مضمون """ عید کی مُبارک
باد """ میں اِس کا ذِکر کروں گا ،،،،،بات ہو رہی تھی ناجائز کاموں
کی،،کہ ایسے کاموں میں اتنی فضول خرچی کی جاتی ہے کہ شیطان کا دِل باغ باغ ہو جاتا
ہو گا ، اور کیوں نہیں ہو گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے)))))اِنَّ المبذِرِینَ کان أِخوان الشیاطین و کان
الشیطنُ لِربِّہِ کَفُوراً ::: فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان
اپنے رب کا بڑا ہی نا شکرا ہے(((((سورت ا لا سراء(بنی اسرائیل ) آیت 27 ،
لہذا اپنے بھائی بندوں کو اپنے
راستے پر چلتے ہوئے دیکھ وہ شیاطین خوش ہوتے ہوں گے مزید خوشی اُن بد بختوں
کو اُسوقت ہوتی ہو گی جب ایسے کاموں میں
پیسے خرچنے والوں کی اکژیت اپنے اِرد گِرد غریب مُسلمانوں کو نظر انداز کرتی ہے ،
کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ پیسہ غریب رشتہ
داروں یا دیگر غریب مُسلمانوں پر خرچ کیا جاتا کہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں اچھی
طرح شامل ہو سکتے ، ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اِن کاموں اور نئے کپڑوں کی
خریداری پر تو بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں ، گویا کہ یہ کام عید کے فرائض یا سنت میں
ہیں ، لیکن فطرانہ دینا یا تو یاد ہی نہیں رہتا یا پھر بالکل آخری وقت میں جان
چُھڑاتے ہوئے کِسی کو بھی دے دیا جاتا ہے ۔آئیے ذرا اپنے اپنے اعمال کا محاسبہ
کریں اور دیکھیں کہ رمضان میں ہم نے کیا کیا ہے ؟
اور ہمیں اُس کی برکتوں میں سے کیا مِلا ہے ؟
::::::: کیا رمضان میں ہم نے صِرف بھوک پیاس ہی کاٹی ہے ؟
::::::: کیا رمضان میں ہم نے اپنے نفس کو اللہ اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کی تربیت دِی ہے ؟
::::::: کیا رمضان میں کیے گئے ہمارے وہ کام جِنہیں ہم عِبادت
سمجھ کر کرتے رہے ہیں اللہ نے قُبُول کر لیے ہیں ؟
اگر تو ہم رمضان کو رُخصت کرتے اور
شوال کا استقبال کرتے ہوئے اُوپر بیان کی گئی یا اُن جیسی دیگر حرکات کا مُرتکب ہوتے ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم نے صِرف
بُھوک پیاس ہی کاٹی ہے ، ہم نے اپنی ز ُبان کی خواہشات کو تو وقتی طور پر روک لیا
تھا مگر اپنے نفس کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کی
تربیت نہیں دِی ، جو ٹوٹے پُھوٹے اعمال کیے گئے ہیں وہ قُبُول نہیں ہوئے ، کیونکہ
اگر وہ قُبُول ہوئے ہوتے تو پھر ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کی نافرمانی کرتے ہوئے نظر نہ آتے بلکہ اُن کی تابع فرمانی کرتے ہوئے
دِکھائی دیتے ،،،،، لیکن ،،،، ابھی وقت ہے)))))قُل یَا عِبادی الذَّینَ أَسرفُوا عَلیٰ أنفُسِھِم لا تقنطُوا مِن
رَحمۃِ اللَّہِ اِنَّ اللَّہَ یَغفِرُ الذُّنُوبَ جَمعِیاً اِنَّہ ُ ھُوَ الغَفُورُ الرَّحِیم O وَ اَنِیبُوا اِلیٰ ربِّکُم وِ اَسلِمُوا لَہُ قَبلَ أن یّاتِیَکُم العِذَابُ ثُمّ
لَا تُنصَرُونَ :::(اے رسول میری طرف سے )فرمایے اے
میرے وہ بندو ! جِنہوں نے(میری نافرمانی
کر کے )اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تُم اللہ کی رحمت سے نا اُمید نہ ہو جاؤ بے شک
اللہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے O اور اپنے رب کی
طرف جُھک جاؤ اور اُس کی مُکمل تابع فرمانی کرو اِس سے پہلے کہ تُمہارےپاس عذاب
آ جائے اور پھر تُمہاری کوئی مدد نہ کی جائے(((((سورت الزُمر / آیات53 ، 54 ،
اپنے ماحول اور معاشرے میں اور
جہاں کہیں ہمارے بھائی بہنیں آباد ہیں
وہاں اُن کی اکثریت کی چاند رات کی مشغولیات دیکھر کر تو یُوں لگتا ہے کہ وہ سب ہی
شیاطین جو رمضان میں قید تھے ، رمضان کے ختم ہوتے ہی اپنے پیروکاروں کو خُوب
استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے مُریدوں
کے ذریعے اپنی قید میں گذرے ہوئے وقت کی کسر نکالتے ہیں ،
آئیے اپنے رب کی طرف پلٹیں اور
اُس کی تابع فرمانی کرنا شروع کر دیں جو نافرمانی کر چکے ہیں اُس سے توبہ کر لیں
، اللہ تعالیٰ ہماری غلطیاں ، کوتاہیاں
اور گُناہ معاف فرمائے ، ہمارے نیک اعمال قُبُول فرمائے ، ہماری زندگیاں اللہ اور
اُس کےنبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں بسر ہوں اور اِسی پر ہمارے خاتمے ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و
برکاتہ،
طلبگارء دُعاء،آپکا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر۔02/01/2001
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط
پر میسر ہے :
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔