Sunday, August 4, 2013

realaity and effect of movement of stars in Islam_V2_08_2013__ستارے سیارے اور ان کی چال



موضوعات

بِسمِ  اللَّہِ  الرَّحمٰنِ  الرَّحِیم
وَالصَّلاہُ و السَّلامُ علیٰ خَلِیلِہِ مُحمد، وعَلیٰ آلہِ وَ أصحابہِ وَ أزواجہِ أجمعین ، وَ مَن تَبِعَھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یَومِ الدِینِ ، أما بعدُ ،
ستارے اور سیارے اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں ، اللہ کا فرمان ہے﴿ اَلا یَعلمُ مَن خَلَقَ و ھُوَ اللَطِیفُ الخَبیر ::: کیا جِس نے تخلیق کی ہے (وہ اپنی مخلوق کے بارے میں )نہیں جانتا اور(جبکہ) وہ (خالق) باریک بین اور مکمل خبر رکھنے والا بھی ہے سُورت المُلک(67)/ آیت 14،
آئیےدیکھتےہیں اکیلے،لاشریک خالق نے اپنی اِس مخلوق کے بارے میں کیا بتا یا ہے،اِس مخلوق کے کیا خواص ہیں اوریہ مخلوق کیا کرسکتی ہےاورکیا نہیں،اور اِس مخلوق کوبنانےکی کیا حکمت ہے ؟

::: ستاروں ، سیاروں کی تخلیق کی حکمتیں :::

::::: (1) رات کے اندھیرے میں راستے جاننا  :::::

﴿ وَبِالنَّجمِ ھُم یَہتَدُونَ :::اوروہ(انسان)ستاروں کےذریعے راستہ پاتے ہیںسورت النحل(16)/ آیت 16 ،
﴿ وَھُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النُّجُومَ لِتَہتَدُواْ بِہَا فِی ظُلُمَاتِ البَرِّ وَالبَحرِ ::: اور وہ(اللہ) ہی ہے جِس نے تُم لوگوں کےلیے ستاروں کو بنایا تا کہ تُم اُنکے ذریعے خشکی اور پانی کے اندھیروں میں(راستوں)کی ہدایت پا سکوسورت الانعام(6) / آیت97،

::::: (2)  سالوں (دِنوں وغیرہ) کی گنتی اور حِساب سیکھنا :::::

اور فرمایا ﴿ ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمسَ ضِیَآء ً وَالقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّہُ ذالِکَ اِلاَّ بِالحَقِّ یُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَومٍ یَعلَمُونَ::: وہ(اللہ) ہی ہے جِس نے سورج کو چمک دار اور چاند کو روشن بنایا اور چاند کی مزلیں مُقرر کِیں تا کہ تُم لوگ سالوں کی گنتی اور حِساب سیکھ سکوسورت یُونُس(10)/ آیت 5،

::::: (3) دِن کی روشنی میں اللہ کا فضل (عِلم ، معاش وغیرہ ) کی تلاش کرنے کی سہولت :::::

سورج اور چاند کو روشنی اور گرمی اور ٹھنڈک دی گئی ، اور خالق نے دونوں کو یہ صِفات اِنسانوں کی سہولت کے لیے دِیں،
﴿ وَجَعَلنَا اللَّیلَ وَالنَّہَارَ آیَتَینِ فَمَحَونَآ آیَۃَ اللَّیلِ وَجَعَلنَآ آیَۃَ النَّہَارِ مُبصِرَۃً لِتَبتَغُوا فَضلاً مِّن رَّبِّکُم وَلِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالحِسَابَ وَکُلَّ شَیءٍ فَصَّلنَاہُ تَفصِیلاً::: اور ہم نے رات اور دِن کو دو نشانیاں بنایا ، پھر ہم نے رات کو بے روشنی کر دِیا اور دِن کو روشن واضح بنایا اِس لیے کہ تُم لوگ اپنے رب کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اِس لیے کہ تُم لوگ سالوں کی گنتی اور حِساب سیکھ سکو اور ہر ہر چیز کو ہم نے بہت اچھی طرح تفصیل سے بیان کر دِیا ہےسورت الاِسراء(بنی اِسرائیل17) / آیت 12،

::::: (4) ::::: دُنیا کے آسمان کی سجاوٹ اور شیطانوں کے لیے مار :::::

﴿ فَقَضَاھُنَّ سَبعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَومَینِ وَاَوحَی فِی کُلِّ سَمَآء ٍ اَمرَھَا وَزَیَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفظاً ذَلِکَ تَقدِیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ::: پس اللہ نے دو دِن میں سات آسمان بنا دئیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں(یعنی ستاروں سے )سے زینت دی اور(اُن کے ذریعے) نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غالب اور دانا کی ہےسورت فصلت(41)/آیت12،
﴿ وَلَقَد زَ یَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلنَاہَا رُجُوماً لِّلشَّیَاطِینِ وَاَعتَدنَا لَہُم عَذَابَ السَّعِیرِ:::بے شک ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے ) سے سجایا اور انہیں شیطانوں کے لیے مار بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا جلانے والا عذاب تیار کر دیاسورت المُلک(67)/ آیت 5،
﴿اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنیَا بِزِینَۃٍ الکَوَاکِبِ  Oوَحِفظاً مِّن کُلِّ شَیطَانٍ مَّاردٍ O  لَا یَسَّمَّعُونَ اِلَی المَلَاِ الاَعلَی وَیُقذَفُونَ مِن کُلِّ جَانِبٍ O دُحُوراً وَلَہُم عَذَابٌ وَاصِبٌ O اِلَّا مَن خَطِفَ الخَطفَۃَ فَاَتبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ::: ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروںکی زینت سے آراستہ کیا  Oاور(ستاروں کے ذریعے) حفاظت کی ہر سر کش شیطان سے O (اب وہ شیاطین)عالم بالا کے فرشتوں کی باتوں کو سننے کے لیے کان بھی نہیں لگا سکتے بلکہ ہر طرف سے اُنہیں مارا جاتا ہے O اُنہیں بھگانے کے لیے اور اُن کے لیے دائمی عذاب ہے O مگر جو کوئی (اللہ کی مشیت سے) ایک آدھ بات اُچک کر بھاگتا ہے تو فوراً ہی اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہےسورت الصافات(37)/ آیات 6 تا 10،
﴿وَحَفِظنَاھَا مِن کُلِّ شَیطَانٍ رَّجِیم O اِلاَّ مَنِ استَرَقَ السَّمعَ فَاَتبَعَہُ شِہَابٌ مُّبِینٌ :::اور ہم نے آسمان کو ہر دُھتکارے ہوئے شیطان سے اِسے محفوظ  O کِیا ہاں کبھی کوئی چوری چوری کچھ سننے کی کوشش کرتا ہےتو اُسکے پیچھے کُھلا(واضح طور پر)دھکتا ہواشعلہ لگ جاتا ہےسورت الحِجر(15)/ آیات17،18 ،
اِن آخری تین آیات شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی کہ کبھی آسمانوں کی طرف جانے والے شیاطین وہاں کے فرشتوں کی کوئی بات سن پاتے ہیں ، اِس خبر سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ یہ نجومی لوگ ستاروں کی چالوں یا زائچوں یا دیگر ایسے """ شیطانی عُلُوم"""کے نام پر اپنے اِن دوست شیطانوں کی لائی ہوئی خبر ہی لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور جب وہ خبر سچی ہو جاتی ہے تو وہی شیاطین اُن لوگوں کے دِلوں میں اپنی طرف سے پھیلائے ہوئے اِن عُلوم کی سچائی اور قدر و منزلت بڑھاتے ہیں ، اور اُنہیں اللہ کی راہ سے دُور ہی دُور لیے جاتے ہیں ، میں نے جو کچھ عُلوم کو نام لیے بغیر"""شیطانی عُلُوم"""تو اِس پر کِسی پڑہنے والےکو غُصہ کرنے سے پہلے یہ مضمون اور اِس موضوع """شیطانی عُلُوم"""سے متعلق دیگر مضامین کا مطالعہ کر لینا چاہیے ، پھر بھی اگر کوئی شک یا غُصہ رہے تو میں ہر سوال کے جواب کے لیے حاضر ہوں، اِن شاء اللہ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مُبارک کی روشنی میں اور سلف الصالح کے فہم کے مُطابق جواب حاضر کِیا جائے گا۔

::::: (5) سب کے سب ستارے سیارے اللہ کے حُکم کے پابند ہیں :::::

﴿ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَOادعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعًا وَخُفیَۃً اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ المُعتَدِینَ:::بے شک تُم سب کا رب اللہ ہے جِس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ دِن میں بنایا اور پھر عرش پر استوا فرمایا ، دِن کو رات سے اِس طرح چُھپا دیتا ہے کہ رات دِن کو بہت تیزی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اللہ کے حُکم کے پابند ہیں کیا اللہ کے لیے ہی نہیں تخلیق کرنا اور(پھر اپنی مخلوق کا ) اِنتظام کرنا بزرگی والا ہے اللہ جو سب جہانوں کو پالنے والا ہے O (لہذا) تُم لوگ اپنے رب کو عاجزی ( و اِنکساری ) اور آہستگی ( چیخ چیخ کر نہیں بلکہ ادب کے ساتھ) پُکارو ( اور یاد رکھو ) کہ بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاسورت الأعراف(7) / آیت 54،55،
اِن ستاروں کا ذِکر فرمانے کے بعد اگلی آیت مُبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے صِرف اُسی سے ہی دُعا کرنا کا حُکم دِیا ہے جو اِس بات پر اِنکار ہے کہ یہ ستارے کِسی کا کوئی فائدہ یا نقصان کر سکتے ہیں ، اور دُعا کا ادب بھی سیکھایا ہے کہ عاجزی اور آہستگی سے دُعا کی جائے اور پھر یہ فرما کر کہ اللہ حُدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا یہ سمجھایا ہے کہ ستاروں سیاروں وغیرہ سے خیر و شر کی توقع رکھنا اللہ کی حُدود سے خارج ہونا ہے ۔

::::: (6) ستاروں سیاروں میں سب سے اہم اور مرکزی سورج بھی خُود کچھ نہیں کر سکتا:::::

﴿ لاَ الشَّمسُ یَنبَغِی لَہَآ اَن تدرِکَ القَمَرَ وَلاَ اللَّیلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسبَحُونَ ::: نہ ہی سورج کی یہ جُرات ہے کہ وہ (اللہ کی مُقرر کردہ حُدُود سے نکل کر)چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دِن سے آگے نکل سکتی ہے،اور یہ سب کے سب آسمان میں تیرتے پِھر رہے ہیںسُورت یاسین(36) /آیت 40،

::::: (7) ستاروں سیاروں میں دوسرا اہم اور مرکزی چاند بھی اپنی مرضی سے اپنی چال تک بھی نہیں بدل سکتا :::::

﴿ وَالقَمَرَ قَدَّرنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالعُرجُونِ القَدِیمِ ::: اور ہم نے چاند کی منزلیں طے کر دِیں یہاں تک کہ وہ ( ہماری مُقرر کردہ منزلوں پر پابند رہتے ہوئے) کھجور کی خشک ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے سُورت یاسین(36)/آیت 39،
آیت نمبر 40 کا ذِکر اس لیے پہلے کیا گیا ہے کہ اُس میں پہلے بڑے سیارے سُورج کا ذِکر ہے،
یہاں تک ذِکر کیے گئے ، اللہ تعالیٰ کے فرامین سے بڑی وضاحت سے پتہ چل جاتا ہے کہ ستاروں سیاروں کو بنانے کی کیا حکمتیں ہیں،اِن میں کہیں اِشارۃً بھی ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ اللہ کی یہ مخلوق کِسی بھی دوسری مخلوق اور خاص طور پر اِنسان پر کِسی قِسم کو کوئی اثر رکھتا ہے یا کوئی فائدہ یا نقصان دے سکتا ہے ، بلکہ خودد اُن کی بے بسی اور اپنے خالق و مالک کے أحکام کا پابند ہونے کی خبر ہے ۔
یہ بات تو تھی اِن ستاروں سیاروں کی ذات کے اثر پذیر ہونے کی اب آیے دیکھتے ہیں کہ اِن کی چال اور منزلیں جنہیں بُرج بھی کہا جاتا ہے ، اُن کے بارے میں خالق و مالک اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ، اِس بات کو سمجھنے کے لیے ابھی ابھی ذِکر کی گئی آیات میں سے حکمت ٢ اور حِکمت ٧ میں ذِکر کی گئی آیات کو بھی ذہن میں رکھیے اور مزید یہ ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿ تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآء ِ بُرُوجاً وَجَعَلَ فِیہَا سِرَاجاً وَقَمَراً مُّنِیراً:::بزرگی ہے اللہ کی جِس نے آسمان میں بُرج بنائے اور آسمان میں چراغ(سورج)بنایا اور چمکتا ہوا چاند بنایاسُورت الفُرقان(25) / آیت61،
اور اَرشاد فرمایا ہے﴿وَلَقَد جَعَلنَا فِی السَّمَاء ِ بُرُوجاً وَزَیَّنَّاھَا لِلنَّاظِرِینَ:::اور یقینا ہم نے آسمان میں بُرج بنائے اور آسمان کو دیکھنے والوں کے لیے سجایاسُورت الحِجر(15)/آیت16،
اور فرمان پاک ہے﴿وَالسَّمَاء ذَاتِ البُرُوجِ:::اور قَسم ہے آسمان کی جو بُرجوں والا ہے سورت البُروج(85)،پہلی آیت،

::::: بروجاً اور بُرُوج  کی تفیسر صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے :::::

اللہ تعالیٰ کے فرامین میں"""بُروجاً اور بُروج"""کی تفسیر میں صحابہ اور تابعین کے دو قول پائے جاتے ہیں:::
::::: (1) ::::: بُروج سے مُراد بہت بڑے ستارے ہیں جو دیگر ستاروں کی نسبت بہت واضح ہوتے ہیں ،
::::: (2) ::::: بُرج بلند اور کھلے محل کو کہا جاتا ہے ،
لہذا""" بُرُوج """سے مُراد آسمان کی حفاظت کرنے والے فرشتوں کی رہائش گاہیں ہیں ،
لُغوی اعتبار سے کِسی بھی اونچی، صاف واضح طور پر نظر آنے والے چیز کو بُرج کہا جاتا ہے ،اِسی لیے کِسی چیز کے کھلے اظہار کو"""التبرُّج"""کہا جاتا ہے ،
اونچی عمارتوں ، مِناروں یا مِنار نُما عِمارتوں کو""" بُرج""" اِسی بنیاد پر کہا جاتا ہے ،
مندرجہ بالا دونوں قول اپنی اپنی جگہ درست ہیں ،کیونکہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿وَلَقَد زَ یَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلنَاہَا رُجُوماً لِّلشَّیَاطِینِ وَاََعتَدنَا لَہُم عَذَابَ السَّعِیرِ:::بیشک ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے ) سے سجایا اور انہیں شیطانوں کے لیے مار بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا جلانے والا عذاب تیار کر دیاسورت المُلک(67)/ آیت5،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب میں اور غیر عرب میں ستاروں اور اُن کی چالوں کا عِلم موجود تھا یعنی"""عِلمِ نُجُوم"""اور ستاروں کی چال کو جاننے کے لیے اِس عِلم سے متعلق لوگوں نے کچھ بُرج تصور کر کے اُن کو نام بھی دے رکھے تھے جو آج تک اِستعمال ہو رہے ہیں ، یہ نام ، حمل ،ثور ،جوزاء ،سرطان ،اسد ،سنبلۃ ،میزان ،عقرب ، قوس ،جدی ،دلو ،حوت ہیں ،
قطع نظر اِس کے کہ بُرجوں کے یہ نام کہاں سے اور کیسے آئے ؟ کِسی بھی مُسلمان کے لیے اتنا ہی بہت کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں بُرج بنانے کا ذِکر فرمایا لیکن اُن بُرُوج (بُرجوں) کا ستاروں کی چال کے ساتھ متعلق ہونے کا کوئی ذِکر فرمایا نہ ہی بُروج ،ستاروں سیاروں ، اور اُن کی منزلوں ، کا اِنسانی زندگی یا کِسی بھی اور مخلوق پر اثر انداز ہونے کا ذِکر فرمایا نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایسی کوئی خبر ملتی ہے ، جی ہاں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو خبر ملتی ہے وہ اِس عقیدے اور خیال کی نفی کرتی ہے کہ ستارے سیارے بُروج ، ستاروں کی چالیں یہ سب کِسی بھی اور پر کوئی اثر رکھتی ہیں یا کوئی نفع و نقصان پہنچاسکتی ہیں ، یا اِنسانی شخصیات ، اُن کا مِزاج ، اُن کی صلاحیات اِن بُروج کے مُطابق ہوتی ہیں، یہ سب خیالات شیطان کی وحی ہیں جو وہ اپنے دوستوں کی طرف کی اور اُس وقت سے اب تک اُس کے پیروکار جِن اور انسان ، اِن خیالات کو پھیلائے جا رہے ہیں اور لوگوں کا اِیمان لوٹ رہے ہیں ،

::::: اِسلام سے پہلے عِلمءِ نَجوم کا استعمال :::::

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے عرب میں اور غیر عرب میں ستاروں اور اُن کی چالوں کا عِلم موجود تھا یعنی """عِلمءِنجوم"""اور لوگ اِسے تین طرح سے استعمال کرتے تھے:::

::::: (1) ::::: تاریخ کا حساب رکھنے کے لیے:::

اللہ تعالیٰ کے وہ فرامین جِن کا ذِکر اِس مضمون کے آغازمیں کِیا گیا ہے ، کے مُطابق یہ کام تو یقینا جائز بلکہ مطلوب ہے،

::::: (2) :::::موسم کا اندازہ کرنے کے لیے:::

عِلمءِ نُجوم کو موسم کا اندازہ کرنے والوں میں سے کچھ ایسے تھے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ موسم میں تغیرات یہ ستارے خود کرتے ہیں،،،،، جبکہ یہ عقیدہ یا خیال سراسر شرک ہے ،
جیسا کہ ، اللہ کے آخری رسول اور خلیل محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان روایت فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا کہ﴿ هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟:::کیا تُم لوگ جانتے ہو کہ تُمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا """ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ :::اللہ اور اس کا رسول زیادہ(اور بہتر)جانتے ہیں""""،
تو اِرشاد فرمایا ﴿ قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِى مُؤْمِنٌ بِى وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِى كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِى مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ::: (اللہ نے )فرمایا ہے کہ  میرے بندوں میں سےکچھ مجھ پر اِیمان والے ہوتے ہیں اور کچھ کافر ، پس جو تو یہ کہتا ہے کہ ہم پر اللہ کے فضل اور رحمت کی وجہ سے بارش ہوئی تو وہ مجھ پر اِیمان رکھنے والا، اور ستارے(کی قدرت یا قوت کا صلاحیت) کا کفر(انکار) کرنے والا ہے ،اور جو کوئی یہ کہتا ہے کہ فُلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی تو وہ میرا کفر کرنے والا (یعنی میری قوت، قدرت اور صلاحیات کا انکار کرنےوالا)ہے اور ستارے پر اِیمان رکھنے والا ہے صحیح مُسلم/حدیث/240کتاب الاِیمان/باب34،مؤطا مالک/حدیث/455کتاب الاستسقاء/باب3،سُنن ابو داؤد/حدیث/3908کتاب الطب/باب22،
اور عِلمءِ نُجوم کو موسم کا اندازہ کرنے والوں میں سے کچھ ایسے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ ستارے خود نہیں کرتے بلکہ اِن کی چالوں اور مختلف بُرجوں میں پہنچنے کی وجہ سے آسمان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جو موسم کو بدل دیتی ہیں ، اور اِس سوچ کے پیش نظر وہ ستاروں سیاروں کی چالوں کا حِساب رکھتے تھے ، گو کہ یہ بات کوئی یقینی نہیں لیکن چونکہ یہ شرکیہ سوچ نہیں اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مُخالفت میں داخل ہوئے بغیر اِنسانوں کے فائدے والا کوئی اندازہ قائم ہو سکتا ہے ، لہذا اِس میں کوئی حرج نہیں،

::::: (3) ::::: آنے والے وقت کی خبریں بنانے اور پھیلانے کا کام :::

کچھ لوگ ایسے بھی تھے(اور اب بھی ہیں ) جو شیطان کی وحی پر عمل کرتے ہوئے اِن ستاروں سیاروں اُن کی چالوں اور بُرجوں کے حساب اور زائچے بنا بنا کر آنے والے وقت کی خبریں بناتے اور لوگوں کو وہ سب باطل عقائد سِکھاتے جِن کا ذِکر پچھلے پیرا گراف میں کیا گیا ہے ، اور جب اُن کی خبریں سچی نہ ہوتِیں تو کہتے ہم تو اندازہ کرتے ہیں جو کبھی نادرست بھی ہو ہی جاتا ہے ، اورآج کے مسلمانوں میں بھی ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں """عِلمءِنجوم،ستاروں کی چال کا عِلم ہے ہم اندازہ کرتے ہیں اگر کبھی وہ غلط ہو جائے تو جیسے اللہ کا حُکم""" ،
کوئی اِن سے پوچھے تو """ جب اللہ کے حُکم سے ہی ہونا ہے جو ہونا ہے تو پھر اِن کاموں میں کیوں سر کھپاتے ہو جو اللہ کے حُکم کے خِلاف ہیں؟ """،
اُن لوگوں سے پہلے"""عِلمءِ نجوم """والوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو ستاروں سیاروں کو اتنا زیادہ طاقتور اور بارسوخ مانتے تھے اور اپنے اِرد گِرد والوں کو بھی یہ ہی سِکھاتے تھے یہاں تک کہ واضح طور پر اُنکی بدنی عِبادت کرتے تھے ،
جِیسا کہ اِبراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں اور ملکہ سبا کے واقعہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ، اور آج کے مسلمانوں میں بھی ایسے پائے جاتے ہیں جو اُن کے خیال کے مُطابق ستاروں کی خاص چالوں اور بُرجوں کی خاص حرکات یا بُرجوں کے خاص اوقات میں خاص عمل ادا کرتے ہیں اور نام صدقہ و خیرات کا دیتے ہیں ، اِنا لِلِّہِ و اِنَّا اِلیہِ راجِعُون،
اِس بات میں کسی بھی صحیح عقیدے والے مسلمان کے پاس کوئی شک نہیں ہوتا کہ ، اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حُدُود میں رہتے ہوئے حاصل کیا جانے والا عِلم"""رحمانی عُلوم"""میں شُمار ہوتا ہے ، اور اُن حدود میں رہتے ہوئے اُس پر عمل اللہ کے ہاں مُقبُول ہوتا ہے ، اِن شاء اللہ ،
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حُدُود سے باہر ہو کر حاصل کیا جانا والا عِلم"""شیطانی عُلوم"""میں سے ہوتا ہے اور اُس پر عمل اللہ کی ناراضگی اور عذاب کا سبب ہوتا ہے ،

:::::: حاصل ء کلام ::::::

اب تک جو آیات بیان کی گئی وہ سب اِس بات کی واضح دلیل ہیں کہ وہ"""عِلمءِ نجوم """جو"""ستاروں سیاروں کی چال"""، اور، یا ، """بُرجوں"""اور، یا ، """منزلوں"""وغیرہ کو بُنیاد بنا کر اللہ کی اِن مخلوقات کو وہ کُچھ بنا کر پیش کرتا ہے جو وہ نہیں ہیں اور اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے اُن کو اللہ کا شریک بناتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قران کریم کا ، اور اللہ کی نازل کردہ ساری ہی وحی مُبارکہ کا کُفر یعنی اِنکار کرواتا ہے ، عقیدے میں بھی اللہ کی وحی کا اِنکار ، اور عملی طور پر بھی اللہ کی وحی کا اِنکار ، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ،
 یہ بات میری ذاتی سوچ یا سمجھ کی بنا پر نہیں کہی جا رہی بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ ہے ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿مَن اَتَی عَرَّافاً اَو کَاہِناً فَصَدَّقَہ ُ فِیمَا یَقُولُ فَقَد کَفَرَ بِمَا اُنزلَِ عَلیَ مُحمَدٍ::: جو کِسی (غیب کی خبر بتانے )کے دعویٰ دار یا نجومی کے پاس گیا ، اور اُس کی کہی ہوئی بات کو دُرُست مانا ، تو اُس دُرُست ماننے والے نے جو کچھ مُحمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل کِیا گیا اُس کا کفر کیاالمستدرک الحاکم / حدیث 15، اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے،صحیح الترغیب و الترھیب 3047،
اور مزید اِرشاد فرمایا ہے﴿  لَیسَ مِنَا مَن سَحرَ ( اَو سُحِرَ لَہ ُ) اَو تَکہَّنَ اَو تُکھِّنَ لَہ ُ اَو تَطیَرَ اَو تُطِیِرَ لَہُ:::   جِس نے جادُو کِیا (یا جِس کے لیے جادُو کِیا گیا ) یا جِس نے (کِسی بھی ذریعے سے ) غیب جاننے کی کوشش کی یا جِس کے لیے یہ کوشش کی گئی ، یا جِس نے (کِسی بھی ذریعے سے ) شگون لیا یا جِس کے لیے شگون لیا گیا ، وہ ( اِن سب کاموں سے کوئی بھی کام کرنے والا ) ہم میں سے نہیںسلسلہ الصحیحۃ / حدیث 2650 ،
اِس حدیث کی شرح میری کتاب""" وہ ہم میں سے نہیں/سولہواں کام 16"""میں مل سکتی ہے ، وہاں کاہن ، عرّاف ، طیرہ وغیرہ کی تعریف اور فرق بیان کیا گیا ہے ،کتاب درج ذیل ربط کے ذریعے مُسیر ہے:
مزید وضاحت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی اِس روایت میں ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا﴿مَن اَقتَبَسَ عِلمَاً مِن النُّجُومِ اَقتَبَسَ شُعبَۃً مِن السَّحرِ ز َادَ مَا ز َادَ:::جِس نے عِلمِ نُجُوم میں سے کوئی حصہ لیا ( سیکھا یا سوال کر کے کچھ جانا ) تو اُس نے جادُو کا حصہ لیا اور جتنا (علمِ نُجُوم میں سے) زیادہ کرے گا اُتنا ہی ( جادُو کے کُفرکا گناہ اُس پر ) زیادہ ہو گاسنن ابن ماجہ / حدیث 3905 / کتاب الطب /باب 22 باب فی النجوم ، سنن البیہیقی الکُبریٰ ، حدیث 16285 / کتاب القسامہ / باب 21 ما جا فی کراہیۃ اقتباس علم النجوم ، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نےصحیح قرار دِیا ، سلسلہ الصحیحہ 793،
اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی ہی  وضاحت کے ساتھ """عِلمءِنجوم"""کو جادُو قرار دِیا ہے ، اوریہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ  جادُو کو اللہ تعالیٰ نے کُفر قرار دِیا ہے ،
اِس روایت کے عِلاوہ دو اور روایات"""المشکاۃ المصابیح / کتاب الطب و الرقی / باب 2 الکہانہ"""میں ہیں جو اِس مندرجہ بالا روایت سے کہیں زیادہ سخت الفاظ والی ہیں ، لیکن فی الحال مجھے اُن کی صحت کا پتہ نہیں لگ سکا اِس لیے اُنہیں ذِکر نہیں کر رہا ہوں ،
اُن میں سے ایک روایت کو اِمام شمس الدین محمد الذہبی نے اِسی مندرجہ بالا حدیث کو نقل کرنے کے بعد ، چوتھے بلا فصل خلیفہ ، أمیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے الفاظ کے طور پر نقل کرتے ہوئے لکھا کہ:::
""" أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  نے فرمایا:::""" کاہن(نجومی،دست شناس،زائچے بنانے والا،فال نکالنے والا وغیرہ)جادُوگر ہے،اور جادُوگر کافر ہے"""، """،الکبائرللذہبی / الکبیرۃ 46،
اللہ تعالیٰ کے فرامین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن ارشادات سے صاف طور پر یہ طے پاتا ہے کہ،
جائز""" عِلمءِ نجوم""" تاریخ کا حِساب رکھنے اور سالوں کی گنتی کرنے تک محدود ہے ،
اِس کے عِلاوہ جو کچھ بھی """ عِلمءِ نجوم""" یا """مخفی عُلوم""" کے طور پر کِسی بھی ڈھنگ میں جو کچھ سیکھا سیکھایا ، پڑھا پڑھایا ، کِیا کروایا جاتا ہے سب کچھ"""جادُو""" کے ز ُمرے میں آتا ہے ، اور"""جادُو""" حرام ہے ، اور جادُو گر کافر ہے جِسے قتل کرنے کا حُکم دِیا گیا ہے ،
خاص طور پر ابھی ذِکرکی گئی دو احادیث شریفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہانت(علمِ نُجوم ، ہاتھ دیکھنے دِکھانے ، قیافہ شناسی اور اِس جیسے دیگر عُلوم) کو اور شُگون لینے کو جادُو قرار دِیا ہے،
جادُو کی تفصیل"""جادُو،جادُوگر،اِن کی پہچان،اِقسام،اُن کاشرعی حُکم،عِلاج""" مضمون میں زیرِ تیاری ہے، اِن شاء اللہ تکمیل کے بعد کسی وقت اِس کو بھی نشر کروں گا ،
اِس کے عِلاوہ معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کردہ ایک حدیث شریف جِس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا ذِکر فرماتے ہیں ، بہت ہی فائدوں اور احکامات والی حدیث ہے ، اُس میں بھی شگون ، زائچے ، کہانت وغیرہ کے بارے میں بھی بڑی وضاحت ہے ، طوالت کے ڈر سے اُسے یہاں نقل نہیں کر رہا ہوں ،
وہ حدیث شریف اور اس کی کچھ شرح ’’’ حدیث الجاریہ ، ایک حدیث میں 11 گیارہ مسائل کا بیان ‘‘‘ درج ذیل ربط پر ’’’ http://bit.ly/1JnIxta  ‘‘‘ پر موجود ہے ،
گو کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے بعد کِسی بھی مسلمان کو کِسی اور دلیل یا حُجت کی حاجت نہیں ہوتی ، لیکن کُچھ دِلوں اور دماغوں پر منطق کا رنگ زیادہ چڑھا ہوتا ہے ایسے لوگوں کے لیے صرف اتنا ہی عرض کرتا ہوں کہ اپنے اِرد گِرد پھیلے ہوئے اَن گِنت ایسے نجومیوں ، قیافہ شناسوں ، دست شناسوں یعنی ہاتھ کی لیکریں دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والوں ، فالیں نکال نکال کر مستقبل کا حال بتانے والوں ، ستاروں ، سیاروں ، اور برجوں کی چالوں کے فلسفے بیان کرنے والوں ، علم الاعداد کے نام پر اعداد کے زإئچے بنا بنا کر قیاس آرائیوں کرنے والوں اور اِسی قبیل کے دیگر لوگوں کے ذاتی حال ملاحظہ فرمائیے ، من پسند شادیاں کروانے والے ، خاوندوں کو بیویوں کا اور بیویوں کو خاوندوں کا محبوب بنانے والوں کی اپنی ازدواجی زندگی کا حال کیا ہوتا ہے ؟؟؟
(عِلم الاعداد ، کے موضوع پر ایک مضمون الگ سے نشر کر چکا ہوں ، اُس کا مطالعہ بھی اِن شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ، وہ مضمون اِس  ربط پر موجود ہے : http://bit.ly/YeqMbi  )
لوگوں کو مستقبل کے خبریں دے کر اُنہیں ہدایات دینے والے ، رزق اور اولاد میں برکت کے وظیفے اور چارٹس وغیرہ بیچنے والے خود معاشی اور معاشرتی طور پر کِس حال میں رہتے ہیں ؟؟؟
کیوں اُن کے ستارے اور اُن کے بُرج اُن کی زندگیاں نہیں بدل پاتے ؟؟؟
کیوں وہ اپنے ستاروں اور بُرجُوں کے عُروج کے وقت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے ؟؟؟
کیوں ان کے علم الاعداد کے زإئچے انہیں نقصانات سے بچا نہیں پاتے ؟؟؟
کیوں ان کے علم الاعداد کے زإئچے انہیں نقصانات سے بچا نہیں پاتے ؟؟؟
اور وہ لوگ جُوں کے تُوں ہی زندگی بسر کرتے کرتے آخر کار مر ہی جاتے ہیں ،
﴿  فاعتبروا یا اَولیٰ الاَبصار:::پس عبرت حاصل کرو اے عقل والو
جو لوگ حقیقت جانے بغیر ، یا حق بات سامنے آنے کے بعد بھی پھر کِسی فلسفے ، منطق وغیرہ کا شِکار ہو کر اِس قِسم کے"""مخفی عُلوم"""جو درحقیقت """شیطانی عُلوم"""ہیں،اور انہیں اولیإء اورصالحین رحمہم اللہ سے بلا ثبوت و دلیل منسوب کیا جاتا ہے،جو لوگ ان"""شیطانی عُلوم""" کے دھوکے میں آ کر اِن پر عمل پیرا ہوتے ہیں ، یا اِن کی تشہیر اور نشر کا سبب بنتے ہیں ، وہ بے چارے یقینا یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ اِس کا انجام کیا ہے ،
﴿ وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّہُم وَلاَ یَنفَعُہُم وَلَقَد عَلِمُوا لَمَنِ اشتَرَاہُ مَا لَہُ فِی الآخِرَۃِ مِن خَلاَقٍ وَلَبِئسَ مَا شَرَوا بِہِ اََنفُسَہُم لَو کَانُوا یَعلَمُونَ O وَلَو اََنَّہُم آمَنُوا واتَّقَوا لَمَثُوبَۃٌ مِّن عِندِ اللَّہِ خَیْرٌ لَّو کَانُوا یَعلَمُونَ::: اور لوگ وہ کُچھ سیکھتے ہیں جو اُن کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان دیتا ہے اوریہ بھی جانتے ہیں کہ جو کوئی اِس (عِلم) کو خریدے(سیکھے) گا اُسکے لیے آخرت میں کوئی خیر نہیں اور کیا ہی بُرا ہے وہ(آخرت کا وہ اجر) جِس کے بدلے اِنہوں نے اپنی جانیں بیچ دی ہیں اگر یہ جانتے ہوتے O اور اگر وہ اِیمان لاتے(یعنی واقعتا اللہ کی بات پر یقین و اِیمان رکھنے والے ہوتے اور اللہ(کی نافرمانی اور عذاب)سے بچتے تو یقینا اللہ کی طرف سے اُن کو بہترین خیر والا اجر ملتا اگر یہ جانتے ہوتےسورت البقرہ(2)/آیت 101، 102 ،
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو فرشتوں ، ہاروت اور ماروت کا قصہ بیان فرماتے ہوئے بتایا ہے کہ جِن لوگوں نے اُن فرشتوں سے جادُو سیکھا اُن کے لیے آخرت کی خیر میں کوئی حصہ نہیں ، بلکہ شدید عذاب ہے ، دُنیا کا حاصل کرنے کے لیے آخرت کا عذاب خرید لیا ، اور اپنی جانوں کے عوض خرید لیا کہ اب آخرت میں اُن کی جانیں صِرف عذاب ہی بھگتیں گی ، اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کو دُنیا اور آخرت کے ہر عذاب اور رسوائی سے محفوظ رکھے،
ہمارے جو مُسلمان بھائی بہن اِن عُلوم کی کِسی بھی قِسم کی تشہیر یا اشاعت کا باعث بنتے ہیں اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو فرمان سناتا چلوں کہ ﴿مَن دَلَّ علی خَیرٍ فَلَہُ مِثلُ اََجرِ فَاعِلِہ::: جِس نے خیرکا راستہ بتایا تو راستہ بتانے والے کو اُس خیر پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملتا ہےصحیح مُسلم / حدیث 1893 / کتاب الاِمارۃ / باب 38 ،
﴿ کُلُّ بَنِی آدم خَطاءٌ وخَیرُ الخَطائِینَ التَّوَّابُونُ:::آدم(علیہ السلام )کی ساری اولاد خطاء کرنے والی ہے اور سب سے اچھے خطاء کار وہ ہیں جو توبہ کر لیتے ہیںمستدرک الحاکم /حدیث 7617، حدیث کا درجہ صحت حسن ہے ، بحوالہ صحیح الجامع الصغیر/حدیث 1415،
ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم خیر پر عمل کرنے والے ،اُسکی راہ بتانے والے ہوں برائی اور گناہ کی نہیں ، اگر اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے ہمیں کوئی جھجھک نہیں تو اللہ اِس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ ہم اُسکی تابع فرمانی کرتے ہوئے کِسی شرم کا شکار نہ ہوں، اور اللہ کی طرف توبہ کریں ، حق بات کو قُبُول کریں اور اُس پر عمل کریں اُسکی تشہیر و اشاعت کریں۔
اپنی بات کا اختتام اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان پر کرتا ہوں ﴿  وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لَا لِمُؤمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسوُلَہُ اَمراً اَن یَکُونَ لَھُم الخِیرَۃُ مَن اَمرِھِم وَ مَن یَعصِ اللَّہَ وَ رَسُولَہُ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلاً مُبِیناً:::اور جب اللہ اور اُسکا رَسُول کوئی فیصلہ کر دیں تو کِسی ایمان والے اور کِسی ایمان والی عورت کے لیئے( اللہ اور اُس کے رَسُول کے فیصلے کے عِلاوہ) کوئی اختیار باقی رہتا ہے ، اور جِس نے اللہ اور اُس کے رَسُول کی نا فرمانی کی تو یقینا کُھلی گُمراہی میں جا پڑاسُورت الاَحزاب(33)/آیت 36 ۔
والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ۔
طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخء کتابت : 23-09-1429 ہجری ، بمُطابق،   23/09/2008عیسوئی ۔
نظرءثانی بتاریخ: 26-09-1434 ہجری ، بمُطابق،  03/08/2013عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا نسخہ درج ذیل لنک پر میسر ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔