Sunday, July 26, 2015

::::::: حدیث الجاریہ ، ایک حدیث میں 11 گیارہ مسائل کا بیان :::::::

::::::: حدیث الجاریہ ، ایک حدیث میں 11 گیارہ مسائل کا بیان :::::::
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
    اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
میں یہاں جِس حدیث شریف کو پیش کر رہا ہوں ، اسے عام طور پر حدیث الجاریۃ  کہا جاتا ہے ،  اور یہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اعلیٰ ترین اخلاق کے بہترین نمونوں میں سے ایک ہے ،  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے سکھائے گئے نماز کے احکام میں سے ایک حُکم لیے ہوئے ہے ، اور  اسلامی عقائد  میں سے کئی أہم عقائد اور متعلقہ احکام لیے ہوئے ہے ،
اس حدیث میں موجود فوائد کی بنا پر میں  اکثر  جزوی طور پر یہ حدیث  ذکر کرتا رہتا ہوں  ،  اِن شاء اللہ آج اس حدیث کو ہم  مکمل طور پر  پڑھتے ہیں ،
معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ"""بَیْنَا أنا أُصَلِّی مع رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ من الْقَوْمِ فقلت یَرْحَمُکَ اللَّہ فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِأَبْصَارِھِمْ فقلت واثکل أُمِّیَاہْ ما شَأْنُکُمْ تَنْظُرُونَ إلی فَجَعَلُوا یَضْرِبُونَ بِأَیْدِیہِمْ علی أَفْخَاذِھِمْ فلما رَأَیْتُہُمْ یُصَمِّتُونَنِی لَکِنِّی سَکَتُّ فلما صلی رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم فَبِأَبِی ھُوَ وَأُمِّی ما رأیت مُعَلِّمًا قَبْلَہُ ولا بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیمًا منہ فَوَاللَّہِ ما کَہَرَنِی ولا ضَرَبَنِی ولا شَتَمَنِی ::: ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھ تھا کہ نمازیوں میں سے کسی کو چھینک آئی تو میں نے کہا """اللہ تُم پر رحم کرے"""تو لوگوں نے مجھے کن انکھیوں سے دیکھا ، تو میں نے کہا """میری ماں مجھے کھو دے تُم لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو """تو ان سب نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پرمارے ، تو میں جان گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش کروا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی نماز سے فاغ ہوئے ، تو میرے ماں باپ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر قربان ہوں میں نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے اور نہ ہی بعد میں اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرح بہترین تعلیم دینے والا اچھا استاد کوئی نہیں دیکھا ، انہوں نے نہ تو مجھے ڈانٹا نہ ہی مجھے مارا نہ مجھے برا کہا ،
 بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ﴿  إِنَّ ھَذہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فیہا شَیْء ٌ من کَلَامِ الناس إنما ھُوَ التَّسْبِیحُ وَالتَّکْبِیرُ وَقِرَاء َۃُ الْقُرْآنِ أو کما قال رسول اللَّہِ صلی اللَّہ علیہ وعلی آلہ وسلم ::: یہ نماز ہے اس میں انسانوں کی باتیں جائز نہیں ہیں یہ(نماز ) تو تسبیح ہے تکبیر ہے اور قران پڑھنا ہےیا جو  بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےفرمایا ،
 میں نے پھر عرض کیا"""یا رَسُولَ اللَّہِ إنی حَدِیثُ عَہْدٍ بِجَاھلِیَّۃٍ وقد جاء اللَّہُ بِالْإِسْلَامِ وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا یَأْتُونَ الْکُہَّانَ ::: یا رسول اللہ میں ابھی ابھی جاہلیت میں تھا ، اور اللہ ہمارے پاس اسلام لے کر آیا اور ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں """،
 تو ارشاد فرمایا﴿  فلا تَأْتِہِمْ :::تُم  اُن (کاہنوں )کے پاس مت جانا،
میں نے  پھر عرض کیا"""وَمِنَّا رِجَالٌ یَتَطَیَّرُونَ  :::ہم میں سے کچھ لوگ پرندوں کے ذریعے شگون لیتے ہیں"""(جیسا کہ کالا کوا دیکھ لیا تو واپس ہوگئے، پرندہ الٹے ہاتھ کو اُڑا تو کام چھوڑ دِیا، بلی راستہ کاٹ گئی تو واپس ہو لیے وغیرہ )،
 تو اِرشاد فرمایا﴿  قال ذَاکَ شَیْء ٌ یَجِدُونَہُ فی صُدُورِہِمْ فلا یَصُدَّنَّہُمْ ::: یہ ایسی چیز ہے جو وہ لوگ اپنے سینو ں میں پاتے ہیں لیکن یہ کام انہیں (اپنے کاموں ) سے روکے نہیں(یعنی شگون وغیرہ مت لیا کریں ورنہ  اس بد عقیدگی کی وجہ سے شگون بازی کرنے والے  لوگ اپنے کاموں سے رُک جاتے ہیں اور انہیں اپنے کاموں سے رکنا نہیں چاہیے ) ،
قال بن الصَّبَّاحِ  ﴿  فلا یَصُدَّنَّکُمْ  
ابن الصباح (اِمام مسلم رحمہُ اللہ کی طرف سے سند میں سب سے پہلے راوی رحمہ اللہ)کا کہنا ہے کہ﴿ یہ شگون بازی تمہیں (اپنے کاموں)سے مت روکے ،
(آگے پھر  معاویہ بن الحکم رضی اللہ کا کہنا ہے ) پھر میں نے مزید عرض کیا """ وَمِنَّا رِجَالٌ یَخُطُّونَ  :::ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں بناتے ہیں """(یعنی زائچہ بازی کرتے ہیں جو کاہنوں کے کاموں میں سے ہے)،
تو اِرشاد فرمایا﴿   کان نَبِیٌّ من الْأَنْبِیَاء ِ یَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّہُ فَذَاکَ  ::: نبیوں (علیھم السلام )میں سے ایک نبی خط کَشی کیا کرتے تھے پس اگر کسی کا خط اس نبی(علیہ السلام)کے خط کے موافق ہو جائے توٹھیک ہے
(یہ ایک ناممکن کام ہے ، تفصیل اِن شاء اللہ آگے بیان کرتا ہوں)
 پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے  اپنے ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ """ وَکَانَتْ لی جَارِیَۃٌ تَرْعَی غَنَمًا لی قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِیَّۃِ فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ یَوْمٍ فإذا الذِّئبُ قد ذَھَبَ بِشَاۃٍ مِن غَنَمِہَا وأنا رَجُلٌ مِن بنی آدَمَ آسَفُ کما یَأْسَفُونَ لَکِنِّی صَکَکْتُہَا صَکَّۃً فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللَّہ عَلیہ وعَلی آلہ وسلم فَعَظَّمَ ذلک عَلَیَّ قلت یا رَسُولَ اللَّہِ أَفَلَا أُعْتِقُہَا  ::: میرے ایک باندی ہے جو اُحد (پہاڑ)کے سامنے اور اِرد گِرد میری بکریاں چَرایا کرتی تھی ایک دِن میں نے دیکھا کہ اس کی (نگرانی میں میری )جو بکریاں تھیں اُن میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا ، میں آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی ہوں جس طرح باقی سب آدمی غمگین ہوتے ہیں میں بھی اسی طرح غمگین ہوتا ہوں ، لیکن میں نے (اس غم میں )اسے ایک تھپڑ مار دِیا ،
 تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس آیا کیونکہ اسے تھپڑ مارنا میرے لیے (دِل پر )بڑا (بوجھ)بن گیا تھا ، میں نے عرض کیا """اے اللہ کے رسول کیا میں اسے آزاد نہ کرو دوں ؟ """،
 تو اِرشاد فرمایا﴿  ائْتِنِی بہا  :::  اُس باندی کو میرے پاس لاؤ،
 فَأَتَیْتُہُ بہا ::: تو میں اس باندی کو لے کر (پھر دوبارہ )حاضر ہوا،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا﴿   أَیْنَ اللہ   ::: اللہ کہاں ہے ؟  
 قالت فی السَّمَاء ِ :::اس باندی نے جواباً عرض کیا """آسمان پر """،
پھر دریافت فرمایا﴿    مَن أنا  :::میں کون ہوں ؟
قالت أنت رسول اللَّہِ ::: اس  باندی نے جواباً عرض کیا """"""آپ اللہ کے رسول ہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مجھے حُکم فرمایا ﴿  أَعْتِقْہَا فَإِنَّہَا مُؤْمِنَۃٌ :::اِسے آزاد کرو دو یہ اِیمان والی ہےصحیح مسلم /حدیث 537 /کتاب المساجد و مواضح الصلاۃ / باب7 بَاب تَحْرِیمِ الْکَلَامِ فی الصَّلَاۃِ وَنَسْخِ ما کان من إباحۃ ۔
::::::: فقہ الحدیث   :::::::
]   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بڑھ کر شفیق اور بہترین تعلیم دینے والا کوئی نہیں ،
]   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم انتہائی کامیاب انداز میں ایک ہی بات میں ایک سے زیادہ باتوں کی تعلیم دیتے اوراسطرح کہ سننے والا خود اپنی عقل کو استعمال کر کے اپنی قوت فیصلہ کو استعمال کر کے اسی نتیجہ پر پہنچے جس کی تعلیم دی جا رہی ہے ، آج تعلیم دینے کے جدید اطوار میں یہ طریقہ بھی استعمال کیا جاتاہے ، اور افسوس کی اسے کفار کی عقلمندی اور ذہانت کا نتیجہ جانا جاتا ہے جبکہ یہ طریقہ انسان کو ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سکھایا ، لیکن ہم ان کے امتی ان کی تعلیم اور سُنّت سے علمی اور عملی طور پر اس قدر دور اور نا واقف ہیں کہ ان کے طریقوں کو غیروں کے پاس دیکھ کر غیروں کاسمجھ کر ان غیروں سے مرعوب ہو جاتے ہیں ، و اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون ، اسی طرح ایک اور طریقہ بھی ہے اور وہ یہ کہ  ،
]  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عِبادت تک میں واقع ہونے والی غلطی پر بھی سختی والا معاملہ نہ فرماتے تھے اور ہم بات بے بات ، حتیٰ کہ اپنے خود ساختہ افکار اور اپنی ذاتی آراء کے خلاف بات پر بھی بدزبانی ، طعن و تشنیع کرنے لگتے ہیں ، حتیٰ کہ کفر و شرک کے فتوے تک صادر فرمانے لگتے ہیں ، و اللہ المستعان ،
:::::کسی شاعر نے خوب کہا اور بہت ہی خوب کہا :::::
تیرے حُسنءِ خُلق کی اِک رَمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اِسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دَر و بام کو تو سَجا دِیا
]  نماز میں اللہ کی تسبیح ، تکبیر ( تحمید، تہلیل، اللہ کا ذکر وغیرہ)اور قران کی قرأت ہی کی جاسکتی ہے ، ایسی کوئی بات کرنا جائز نہیں جو عبادت کے زُمرے میں نہ آتی ہو ،
]    کاہنوں ، یعنی نجومیوں، دست شناسوں ،ستارہ شناسوں کے پاس جانا ممنوع ہے ، لیکن اس مطلب یہ نہیں کہ ان لوگوں کے پاس تو نہ جایا جائے لیکن ان کی باتوں تک رسائی حاصل کی جائے ، یہ سب کام ممنوع ہیں اور کبھی تو کفر تک لے جاتے ہیں ، اس موضوع کو کافی تفصیل سے """ستارے سیارے اور ان کی چال"""میں بیان کر چکا ہوں ،تفصیل کے لیے اُسکا مطالعہ کیا جا سکتا ہے ، اور اسی طرح """جادُو """سے متعلقہ مضامین کامطالعہ بھی ان شاء اللہ فائدہ مند ہو گا ،
]  شگون لینا جائز نہیں ہے ، شگون بازی کی بنا پر کسی کام سے رُک جانابھی ممنوع ہے ، کیونکہ یہ اللہ پر توکل اور اللہ کے قادر مطلق ہونے کے عقیدے کے خِلاف ہے ،
]   لکیریں وغیرہ بنا کر، جسے ہمارے ہاں عام طور پر زائچہ بنانا کہا جاتا ہے اور جس کے ذریعے مستقبل یا غائب ماضی کی خبر دینے کے دھوکے میں ایمان لوٹا جاتا ہے ، یہ زائچہ بازی بھی ناجائز ہے ، کرنا بھی اور کروانا بھی ،
]  یہ عِلم صرف ایک نبی علیہ السلام کو دیا گیا تھا اور کسی دوسرے کا اُس نبی کے اِس عِلم کے موافق ہونا نا ممکن ہے ،کیونکہ انبیاء علیہم السلام کو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تھی اور ان کو دیے جانے والے خصوصی علوم میں سے یہ ایک علم ایک نبی علیہ السلام کو دیا گیا تھا ،لہذا اس علم کا حصول جو صرف وحی کے ذریعے کسی نبی یا رسول  کو خاص طور پر دیا گیا ہو ،  کسی غیر نبی کے لیے نا ممکن ہے، اور یہی بات سمجھانے کے لیے یہاں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ اندازء بیان اختیار فرمایا ہے،
]  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عقیدے کا یہ سبق دیتے ہوئے ایک انتہائی منطقی انداز میں ، سوال کرنے والے اور سب سننے والوں کو اس زائچہ بازی کے جھوٹ ہونے کی تعلیم فرمائی ، یہ انداز تعلیم بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خصوصیات میں سے تھا ، اب ہم اپنے ہی رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت سے اس قدر لا عِلم ہیں کہ کسی اور سے اس طرح تعلیم دینے کی بات سنتے ہیں تو اسے دُنیا کا سب سے بڑا ذہین اور تجربہ کار معلم سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ، ایسے ہی امتیوں کی بدولت اس اُمت کے  رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی شان میں گستاخی کرنے والے دندناتے پھرتے ہیں ، و لا حول و لا قوۃ الا باللہ ،
]  صحابہ رضی اللہ عنہم کا اِیمان اور اللہ سے خوف اس قدر تھا کہ ذرا سی غلطی بھی ان کو پچھتاوا لگا دیتی اور فوراً اس کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ،
]   اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں ایک انتہائی أہم اور بنیادی عقیدے کی تعلیم ، جسے رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِیمان ہونے یا نہ ہونے کی ایک کسوٹی کے طور پر ظاہر فرمایا ، اور وہ عقیدہ ہے کہ"""اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اپنی تمام تر مخلوق سے بُلند، الگ اور جُدا آسمانوں  کے اوپر ہے ؟ """،
اس أہم موضوع پر میری ایک کتاب"""اللہ کہاں ہے ؟http://bit.ly/1IxNUWR"""الحمد للہ برقیاتی ذرائع نشر واشاعت پر نشر ہو چکی ہے ، ان شاء اللہ اس کتاب کا مطالعہ سے عقیدے کے اس بنیادی موضوع کو درست کرنے میں کافی مددگار ہو سکتا ہے ۔والسلام علیکم ۔
تاریخ کتابت :14/08/1430ہجری، بمُطابق،05/08/2009عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :08/10/1436ہجری، بُمطابق،24/07/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 کاہنوں ، نجومیوں ، اور ستارہ شناسوں کے بارے میں جاننے کے لیے """وہ ہم میں سے نہیں /سولہواں کام""" کا مطالعہ فرمایے:http://bit.ly/1JgaCOH
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستاروں سیاروں کے وجود اور اُن کی چالوں اور حرکات کا مخلوق پر کیا اثر ہوتا ہے ، اِس کی تفصیل جاننے کے لیے درج ذیل مضمون کا مطالعہ فرمایے """ستارے سیارے اور اُن کی چال """ :http://bit.ly/181q9Bn
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جادُو کے بارے میں جِس مضمون کا ذِکر کیا گیا ہے ، وہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
"""جادُو ، جادُوگر ،پہچان ،إِقسام اور شرعی حُکم اور عِلاج""" http://bit.ly/ZRsYH5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, July 25, 2015

::: آیے اپنے عقیدے کا جائزہ لیں : سوال رقم 4 اور اُس کا جواب ::: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و علی آلہ وسلم کی تبلیغ اور رسالت کی ذمہ داری کی تکمیل :::

::::::: آیے اپنے عقیدے کا جائزہ لیں ::::: سوال رقم 4 اور اُس کا جواب :::::
::::: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و علی آلہ وسلم کی تبلیغ اور رسالت کی ذمہ داری کی تکمیل :::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن  اَلحَمدَ  لِلِّہِ نَحمَدہٗ  وَ نَستَعِینہٗ  وَ  نَستَغفِرہٗ  وَ  نَعَوذ  بَاللَّہِ  مِن  شرورِ  أنفسِنَا  وَ مِن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا ، مَن  یَھدِ ہ  اللَّہُ   فَلا  مُضِلَّ  لَہ ُ وَ   مَن  یُضلِل ؛ فَلا  ھَاديَ  لَہ ُ، وَ أشھَد  أن لا  إِلٰہَ  إِلَّا  اللَّہ  وَحدَہ  لا  شَرِیکَ   لَہ ، وَ  أشھَد  أن  مُحمَداً   عَبدہٗ  وَ  رَسو لہٗ :::بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں  اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں۔
::::::: سوال :::::::
یہ تو ہم سب جانتے اور اِس پر اِیمان رکھتے ہیں کہ ہماری طرف بھیجے جانے والے رسول محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ و علی آلہ وسلم اللہ کے ا ٓ خری رسول تھے،کیا اُنہوں نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اللہ کے تمام تر پیغام و أحکام ہم تک پہنچا دئیے؟یا کوئی بات چھپا گئے؟یا کِسی کو خاص رکھتے ہوئے کوئی پیغام یا حُکم صِرف اُسے ہی بتایا؟اور ایک الگ شریعت اُس کے پاس چُھپا گئے؟یا کوئی عِلم یا کچھ عُلوم کے دُرُست اور فائدہ مند ہونے کے باوجود اُن کے بارے میں کچھ نہ بتائے بغیر تشریف لے گئے ؟     
::::::: جواب :::::::
اللہ کے آخری رسول محمدصلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کے حُکم پر عمل کرتے ہوئے اپنی ساری اُمت کواللہ کے تمام تر پیغام و أحکام  مکمل طور پر پہنچا دئیے اور سب کو ایک ہی جیسے پہنچا دیے،اِس میں کِسی کی کوئی خصوصیت نہیں،جیسا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بعض خاص پیغام و أحکام کچھ قریبی شخصیات کو دیے جو کِسی ا ور کو نہیں دیے گئے،
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی اُمت کے لیے خصوصاً اور اِنسانیت کے لیے عموماً ہر وہ بات واضح فرما دی جس میں اُن  سب کے لیے اللہ کی رضا کا حصول تھا ،  پس  ایسا کوئی  عِلم ، کوئی عقیدہ کوئی عمل جو اُس وقت تک اِنسانی اور بالخصوص عرب معاشرے میں موجود تھا ،اور اُسے پانا ، یا اُس  پر عمل پیرا ہونے میں خیر تھی  ، باقی نہ بچا کہ اُس کی خبر نہ کی گئی ، اور جن میں خیر نہیں اُن سے منع نہ کیا گیا ۔    
:::::: قُرآن کریم   سے دلیل :::::::
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ نے اِس بات کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا:::آج میں نے تم لوگوں کے لیے تمہارا دِین مکمل کر دِیا اور تُم لوگوں پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اِس بات پر راضی ہو گیا کہ اِسلام تمہارا دِین ہوسُورت المائدہ(5)/آیت3،
:::::: سُنّت شریفہ سے دلائل ::::::
::: دلیل (1) ::: أبو ذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ نے کہا""""" ﴿ترَکَنَا  رَسُولَ  اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم وَ مَا  طَائِرٌ یُقلِّبُ جَناحِیہِ فِی الھَواءِ إِلَّا و ھُوَ یَذکُرُ لَنَا مِنہ ُ عِلماً،  قال  ؛  فقال  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ﴿ مَا بَقِيَ شَيْءٌ يُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ، ويُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ، إِلَّا وَقَدْ بُيِّنَ لَكُمْ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں اِس حال میں چھوڑا کہ ہوا میں پر ہلاتے ہوئے کِسی پرندے کے پر  ہلانے میں بھی جو عِلم ہے وہ بھی ہمیں بتایا ، اور پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا﴿کوئی ایسی چیز نہیں بچ رہی،جو تم لوگوں کو جنّت کے قریب کرنے والی ہو اور دوزخ سے دور کرنے والی ہو، اور وہ تم لوگوں پرواضح نہ کر دی گئی ہو"""""
المعجم الکبیر للطبرانی/حدیث/1647کتاب الجیم/ میں سےباب24،شیخ علی بن حسن حفظہُ اللہ نے "عِلم اصول البدع/صفحہ19"میں کہا کہ اِس کی  سند صحیح ہے ۔ 
::: دلیل (2) ::: تمام صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین نے اِس بات کی گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے رب کے تمام پیغام و احکام اُن تک پہنچا دئیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے حج الوداع کے موقع پر صحابہ سے پوچھا ::: ﴿وَ أنتُم تُسألُونَ عَنِی فَمَا أنتُم قَائِلُونَ ؟::: تُم لوگوں سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا تو تُم لوگ کیا جواب دو گے؟
 قالُوا ؛نَشھَدُ إِنَکَ قَد بَلّغتَ رِساَلاتِ رَبِکَ و أدِیتَ ، و نَصَحَتَ لِاُمتکَ ، و قَضِیتَ اَلَّذِی عَلِیکَ::: سب نے کہا :::: ہم اِس بات کی گواہی دیں  گے کہ آپ نے اپنے رب کے پیغامات کی تبلیغ کر دی ، اور أدا ئیگی کر دی ، اوراپنی اُمت کو نصحیت کر دی ، اور جو آپ پر فرض تھا وہ آپ نے پورا کر دِیا،
﴿ فَقال بِأصبعِہِ السّبابَۃِ یَرفَعُھَا إِلیٰ السَّماءِ و یَنکَتُھَا إِلیٰ  النَّاسِ ، اللَّھُم فَأشھِد ، اللَّھُم فَأشھِد ، اللَّھُم فَأشھِد ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنی شہادت کی اُنگلی آسمان کی طرف اُٹھا ئی پھر لوگوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا،اے اللہ گواہ رہ،اے اللہ گواہ رہ،اے اللہ گواہ رہ صحیح مُسلم /حدیث/3009کتاب  الحج/باب19 حَجَّةِ النَّبِىِّصلی اللہ علیہ وسلم،
::: دلیل (3) ::: مسروق رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ """ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا ، يَا أُمَّتَاهْ هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ - صلى الله عليه وسلم - رَبَّهُ::: امی جان ، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ؟"""،
تو اُنہوں نے اِرشاد فرمایا """لَقَدْ قَفَّ شَعَرِى مِمَّا قُلْتَ ، أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ فَقَدْ كَذَبَ ، مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا - صلى الله عليه وسلم - رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ . ثُمَّ قَرَأَتْ ﴿ لاَ تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ، ﴿ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ مَا فِى غَدٍ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ ﴿ وَمَا تَدْرِى نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ كَتَمَ فَقَدْ كَذَبَ ثُمَّ قَرَأَتْ ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ الآيَةَ ، وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ - عَلَيْهِ السَّلاَمُ - فِى صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ:::تُم اِن تین معاملات(کے عِلم،ا ور اِن کی حقیقت)سے کہاں(غائب)ہو ،جو کوئی بھی تُمہیں اِن تین معاملات (موضوعات) کے بارے میں (وہ کچھ کہے جِس کا اظہار تمہارے سوال میں ہے)تو یقیناً اُس نے جھوٹ کہا ،
(1) جو کوئی تُم سے یہ کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے  رب کو دیکھا  تو یقیناً اُس نے جھوٹ کہا ،  اور پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی بات کی دلیل کے طور پر )یہ آیت(شریفہ)پڑھی  ﴿اور اللہ کو کوئی نگاہ (کوئی بصارت) نہیں دیکھ سکتی لیکن وہ سب کی نگاہیں دیکھتا ہے، اور وہ بہت باریک بین اور سب سے زیادہ خبر رکھنے والا ہے،
(اور یہ آیت مُبارکہ پڑھی کہ ) ﴿ اور کسی اِنسان کے لیے یہ (معاملہ)نہیں ہے کہ اللہ پردے کے بغیر ، یا وحی کے عِلاوہ (براہ راست ، بالمشافہ) اُس سے کوئی بات فرمائے،
اور(2)جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یہ جانتے تھے کہ  کل کیا ہو گا ، تو یقیناً اُس نے جھوٹ بولا ، اور پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی بات کی دلیل کے طور پر )یہ آیت(شریفہ) پڑھی  ﴿اور کوئی جان یہ نہیں جانتی کہ کل وہ کیا کمائے گی،
اور(3)جو کوئی تمہیں یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کچھ چُھپایا ، تو یقیناً اُس نے جھوٹ بولا ، اور پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی بات کی دلیل کے طور پر )یہ آیت(شریفہ) پڑھی﴿اے رسول جو کچھ آپ کے رب نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے اُس کی تبلیغ فرمایے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )نے جبریل (علیہ السلام کو اُن کی اصلی حالت میں)کو دو دفعہ دیکھا ہے """""صحیح البُخاری/حدیث/4855کتاب التفسیر /باب 53سورت النجم کی تفسیر، 
إِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا  کے اِن فرماین میں ہمارے لیے عقیدے کے بہت سے مسائل کے فیصلے بیان کیے گئے ہیں ،
میں یہاں صِرف اُسی موضوع کے بارے میں سنائے گئے فیصلے کی بات کروں گا جِس موضوع کا ہم یہاں مطالعہ کر رہے ہیں ، امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی یہ خیال کرے یا کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کے پیغامات یا احکامات میں سے، اُمت کے لیے خیر پہنچانے والے معاملات  کی خبر میں سے ،یا نقصان پہنچانے والے معاملات کی خبر میں سے  کچھ چھپایا ہے، تو بلا شک وہ شخص جھوٹا ہے ، کیونکہ ایسی بات کہہ کر وہ اللہ کے اِس فرمان ﴿اے رسول جو کچھ آپ کے رب نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے اُس کی تبلیغ فرمایےکی تکذیب کرتا ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر یہ اِلزام لگاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اپنے منصب رسالت کا حق ادا نہ کیا۔
اِن گواہیوں کے بعد بھی اگر کوئی دِین میں کِسی خفیہ پیغام رسانی ، ولایت، و وصیت و خلافتءِ خاصہ اور نئے نئے کاموں کو دُرُست جانتا ہو ، تو پھر کِس کی بات دُرُست مانی جائے؟؟؟
اللہ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی؟؟؟
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی ؟؟؟
یا قصے اور حکایات بیان کرنے والوں کی؟؟؟
بلا دلیل اور بلا حُجت باتیں کرنے والوں کی ؟؟؟
قُران و سُنّت کو مخصوص و محدود سوچ و فِکر، منطق و فسلفہ ، ذاتی آراء اور اھواء اور باطل تاویلات ، ظنی امکانیات (ایسا ہو سکتاہے تو ایسا کیوں نہیں ؟ ایسا ہوا تھا تو ایسا بھی تو ہوسکتاہے، اسیا نہیں ہوا تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا، وغیرہ )کی بِناء پر بیان کرنے والوں کی؟؟؟
قارئین کرام ، مجھے آپ سے اِن سوالات کے جوابات  درکار نہیں ہیں، یہ سوالات آپ کے لیے ہیں ، آپ اپنے آپ سے یہ سوالات کیجیے اور جوابات کے مُطابق میرے گذارشات سمجھیے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمارے سب کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں کو اُس کا او ر اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و علی آلہ وسلم کا سچا ، حقیقی عملی محب اور تابع فرمان بنائے ، اور اِسی حال  میں اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
 طلب گارء دُعا ،
 آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 23/03/1427ہجری، بمُطابق 21/04/2006عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 22/12/1435ہجری،بمُطابق،16/10/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ربط سے نازل کیا جاسکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔