Monday, April 29, 2013

::: اللہ کی عطاء پر راضی ہونا ہی اصل تونگری (غِناءَ)، اورحقیقی سُکون ہے :::

بِسمِ اللہ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہ
::::::: اللہ کی عطاء پر راضی ہونا ہی اصل تونگری (غِناءَ)، اورحقیقی سُکون  ہے :::::::
نفیساتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پریشانیوں ،غموں، دِل و رُوح کی بے سُکونی اور نفسیاتی دباوؤں کے بڑے بنیادی اسباب میں سے أہم بنیادی سبب ، جو کہ سب سے زیادہ موجود ہوتا ہے ، اپنے پاس ہونے والے چیزوں پر راضی نہ ہونا ہوتا ہے ،
اور ہمارےنبی کریم مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صدیوں پہلے ہمیں سکھایا تھا کہ (((((وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ:::جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے حصہ مقرر کیا ہے اُس پر راضی رہو تو تونگر(غِنیِ) ترین لوگوں میں سے ہو جاؤ گے)))))سُنن الترمذی /حدیث2475/کتاب الزُھد/باب2، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "حَسن"قرار دیا،
 جو کہ کچھ ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اُس کا نہ ملنا کوئی انوکھی بات نہیں ، بلکہ ایسا ہونا ہماری زندگیوں کے معمولات میں سے ایک ہے ، لیکن ہم اس معمول کو معمول سمجھنے کی بجائے اسےحسرت اور دُکھ بنا لیتے ہیں اور پھر وہ حسرت اور دُکھ ہمارے اندر طرح طرح کی پریشانیاں ، غم ، اور نفسیاتی دباؤ پیدا کرنے کے سبب بنتے ہیں ، بلکہ بسا اوقات تو مادی طور پر جسمانی بیماریوں کا بھی سبب بن جاتے ہیں [اس کی تفصیل ""نفسیاتی دباؤ  Anxiety سے نجات کا طریقہ "" میں بیان کی جا چکی ہے ]،
اور  کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مل توجاتا ہےلیکن اُس کے ملنے کے نتیجے میں جو کچھ توقعات لگائے ہوتے ہیں وہ  پوری نہیں ہو پاتِیں ، پس اس صورت میں بھی ہم اپنی خواہش کے مطابق چیز ملنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتے ، سُکون نہیں پاتے ، بلکہ مزید  حسرتوں اور دُکھوں کو خود پر مسلط کر لیتے ہیں اور نتیجہ پہلی صُورت سے زیادہ منفی اور تکلیف دہ ہوجاتا ہے ،
اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ پاناچاہتے ہیں وہ مل بھی جاتا ہے ، اور اس کے ملنے کے نتیجے میں جو کچھ توقعات ہوتی ہیں وہ بھی پوری ہوتی ہیں ، لیکن ہمیں اُس چیز کے کھو جانے ، ختم ہوجانے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے اور اُس کے کھو جانے ، ختم ہوجانے کے بعد اُس کے بغیر ہو سکنے والی ممکنہ پریشانی کی سوچ ہمیں مذکورہ بالا دونوں حالتوں سے زیادہ حسرت زدہ کر کے خوف ، غم اور نفیساتی دکھوں کے حوالے کرتی ہے ،      
اِن تمام حالتوں کا ایک ہی سبب ہے ، اور وہ ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سےکی گئی تقسیمء رزق  پر ، اللہ کے فیصلہ کردہ رزق کے ملنے پر ، اللہ کے فیصلے کے مطابق رزق میں سے کچھ کم ہوجانے پر ، اللہ کی طرف سے مقرر کردہ دُنیا کے مال و اسباب میں سے ملنے والے حصے پر راضی نہ ہونا ،
جی ہاں ، جب کوئی شخص اپنے رب کے عطاء کردہ رزق پر راضی نہیں ہوتا ،تو اس کا مطلب یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ  اللہ کے فیصلوں کو درست نہیں مان رہا ، اللہ کی بے عیب حِکمت اور مکمل ترین انصاف اور شفقت والی تقسیم کو قبول نہیں کر رہا ، بلکہ اُس میں کمی اور نادرستگی ہونا مان رہا ہے ،
ایسی سوچ ایک گناہ ہے اور یہ بات یقینی ہے کہ گناہوں کا وجود نفسیاتی دکھوں اور امراض کا سبب ہوتا ہے ، اس کے بارے میں """ گُناہوں کے نفسیاتی اثرات """ میں بات کی جا چکی ہے ،   
اللہ کی شان میں گستاخی کے گناہ  پر محمول اس مذکور بالا اندازء فِکر  کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے جو کچھ دِیا ہوتا ہے اُس میں سے برکت اُٹھا لی جاتی ہے، اور نہ صرف برکت اٹھا لی جاتی ہے بلکہ قلبی اور رُوحانی  غربت اس پر مُسلط کر دی جاتی ہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد ہے (((((أَنَّ اللهَ يَبْتَلِي عَبْدَهُ بِمَا أَعْطَاهُ، فَمَنْ رَضِيَ بِمَا قَسَمَ اللهُ لَهُ، بَارَكَ اللهُ لَهُ فِيهِ، وَوَسَّعَهُ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ لَمْ يُبَارِكْ لَهُ  :::اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو جو کچھ عطاء کرتا ہے اُس کے ذریعے اپنے بندے کو آزماتا ہے ، پس جو اُس پر راضی ہو جاتا ہے جو اللہ نے اُس کے لیے حصہ  فرمایا تو اللہ اُس حصے میں اپنے اُس بندے کے لیے برکت دیتا ہے ، اور اُس میں وسعت دیتا ہے ، اور جو کوئی راضی نہیں ہوتا اُس کے لیے برکت نہیں دی جاتی ))))) مُسند احمد /حدیث20279/ حَديث رَجُلٍ مِن بَني سَلیم ، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ/حدیث1869 ،
یہ بات یقینی ہے کہ کسی چیز کا وجود یا کثرت قلبی اور روحانی سُکون کا باعث نہیں ہوتا جب تک اُس چیز میں اللہ کی طرف سے برکت نہ ہو ، اس حقیقت کا مُشاہدہ بغیر کسی تکلیف سے اپنے اِرد گِرد لوگوں کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے ، کہ ایسے لوگوں کی اکثریت جن کے پاس دُنیا کے مال و اسباب کی کثرت ہوتی ہے  اور وہ اس کثرت کے باوجود اُس پر راضی نہیں ہوتے جو کچھ اللہ نے انہیں دِیا لہذا وہ بے سکونی کی حالت میں رہتے ہیں ، اور بہت سے ایسے لوگ جن کے لیے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے اسباب حاصل کرنا بھی ایک عظیم مُشقت ہوتی ہے اُس پر راضی رہتے ہیں جو کچھ اُن کا رب انہیں دیتا ہے پس وہ پُر سُکون رہتے ہیں ،
اصل تونگری یہی ہے ، مالداری  یا دُنیا کے مال و اسباب کی کثرت کو تونگری سمجھا جانا دُرُست نہیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے (((((لَيسَ الْغِنَى عَن كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ:::مال و اسباب کی زیادتی سے تونگری(غِناءَ) نہیں بلکہ تونگری دل کا (ایسی چیزوں سے )لا پرواہ ہونا ہے))))) صحیح البخاری / حدیث  6446/کتاب الرقاق/باب15، صحیح مُسلم /حدیث  2467/کتاب الزکاۃ / باب41،
اور دِل کودُنیا کے متعلقات سے لا پرواہی  اس وقت تک نصیب نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے لیے اللہ کی عطاء پر راضی ہونا نہ سیکھ لے ، اور جب تک انسان اللہ کی عطاء پر راضی نہیں ہوتا اس دِل و رُوح سُکون نہیں پاسکتے،
اور دِل کی تونگری حاصل کرنے کے اسباب میں سے ایک أہم  سبب آخرت کی فِکر رکھنا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے (((((مَنْ كَانَتِ الآخِرَةُ هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ غِنَاهُ فِى قَلْبِهِ وَجَمَعَ لَهُ شَمْلَهُ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِىَ رَاغِمَةٌ وَمَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ جَعَلَ اللَّهُ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَفَرَّقَ عَلَيْهِ شَمْلَهَ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلاَّ مَا قُدِّرَ لَهُ::: جِس کو آخرت(کی خیر حاصل کرنے) کا غم ہو اللہ اُس شخص کی تونگری اُس شخص کے دِل میں بنا دیتا ہے ، اور اُس کے لیے اُس کی قوت جمع کر دیتا ہے اور دُنیا مجبور (و ماتحت )ہو کر اس کے پاس آتی رہتی ہے، اور جِس کو دُنیا(کے مال و اسباب حاصل کرنے) کا غم ہو اللہ تعالیٰ اس کی غُربت اُس کی دونوں آنکھوں کے سامنے بنا دیتا ہے (یعنی وہ ہر وقت خود کو غریب اور کمتری کی حالت میں دیکھتا ہے اور مزید کی ہوس میں رہتا ہے)اور اس کی قوت بکھیر دیتا ہے اور اُسے دُنیا میں صِرف وہی ملتا ہے جو اُس کے لیے مقرر کیا گیا ہے))))) سُنن الترمذی /حدیث2653/کتاب صفۃ القیامۃ/باب30، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ۔    
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس حدیث شریف میں بہت عظیم سبق ہے کہ جو شخص  اللہ کی عطاء پر راضی رہتا ہے اور اس میں اپنی آخرت کی خیر حاصل کرنے کی فِکر اور کوشش میں رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دِل کو دُنیا کے متعلقات سے غِنی کر دیتا ہے ، اور یہاں وہ سُکون ملنا شروع ہوتا ہے جِس کی تلاش میں آج انسانیت بھٹک رہی ہے ،
اور اس حدیث شریف میں یہ سبق بھی ملا کہ اللہ کی عطاء پر راضی نہ ہو کر اللہ  کی بے عیب حِکمت ، اللہ کے مکمل ترین انصاف ،وسیع ترین  رحمت اور شفقت پر الزام رکھنے والےحقیقت اور عاقبت سے  نا اندیش شخص ، اللہ کی عطاء کو ناکافی سمجھ کر اپنی دُنیا اور آخرت کا سُکون برباد کیے رکھتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ اُس شخص پر قلبی غربت مسلط کر دیتا ہے اور اُسے  اُس کی حالت کمتر اور غریبی والی دکھاتا رہتا ہے اور وہ   ہمیشہ  دُنیا کے غم میں ہی غم زدہ اور بے سُکون رہتا ہے ، اور پھر بھی اُسے وہی کچھ ملنا ہوتا ہے جو اللہ نے اُس کے لیے مقرر کیا ہے ،
پس جِس کے دِل میں  اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اِیمان ہوتا ہے اُس کے دِل میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات و صِفات  کی حقیقی معرفت ہوتی ہے ، اُس اِیمان اور معرفت کی موجودگی میں وہ اپنے رب کے اِن فرامین کو پڑھتا ہے کہ :::
(((((وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ::: اور تُم لوگوں کو جو کچھ مصیبت آتی ہے تو وہ تُم لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہوتی ہے ، اور اللہ (تو اپنی رحمت سے)بہت کچھ سے درگزر کرتا ہے)))))سُورت الشُوریٰ (42)/آیت30،
اور تو اور ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا :::
(((((مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ  :::آپ کو جو کچھ بھی اچھائی ملتی ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور جوآپ کو جو کچھ تکلیف ملتی ہے وہ آپ کی اپنی طرف سے ہے))))) سُورت النِساء (4) /آیت79،
پس جب سچے اِیمان والا ، اللہ کی ذات اور صِفات کی حقیقی معرفت رکھنے والا اللہ  اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِن مذکورہ بالا فرامین کو پڑھتا ہے تو  اُس کے رب کی مشیئت سے اُس کا دِل ہر اُس چیز پر راضی ہوتا ہے جو اُسے اُس کے رب نے عطاء کی ، اور اُس کا اِیمان اس معاملہ پر مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ اُس کا رب اُسے جو کچھ عطاء کرتا ہے اُس میں اس کے لیے خیر ہی ہے ، اور ہر وہ چیز جو اُس کے لیے دُکھ ، تکلیف ، پریشانی اور تنگی والی ہے  ،وہ اُس کی کسی نہ کسی بد عملی کا ہی نتیجہ ہے ،
لہذا وہ ایسی چیزوں کے ملنے پر خود کو کمزور نہیں ہونے دیتا ، نفسیاتی مریض نہیں بنتا ، بلکہ اپنے اعمال کا سختی سے محاسبہ کرتا ہے اور خود کو گناہوں سے دُور کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے ، اپنے اور اپنے رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے درمیان تعلق کو مضبوط اور خالص کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ اُس کے دِل کو حقیقی تونگری عطاء فرما دیتا ہے اور اُس کی زندگی میں خواہ کتنی ہی پریشانیاں اور تنگیاں ہوں اُس کا نفس ،  دِل اور رُوح اپنے رب کی عطاء پر راضی اور مطمئن رہتے ہیں ، کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے :::
(((((مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ:::جو کچھ بھی مُصیبت آتی ہے وہ اللہ کے حکم سے ہی ہوتی ہے ، اور جو کوئی بھی اللہ پر اِیمان رکھتا ہے اللہ اُس کے دِل کو ہدایت (سُکون) دیتا ہے اور اللہ ہر ایک چیز کا بہت اچھی طرح سے عِلم رکھتا ہے))))) سُورت التغابن (64) /آیت 11،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اس قابل بنائے کہ ہم اُس کی عطاء پر راضی رہیں ، والسلام علیکم۔
مضمون کا برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے۔

::: محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیشہ ہمیشہ اعلیٰ ترین عِزت اور قدر کے مستحق ہیں :::



::: محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیشہ ہمیشہ اعلیٰ ترین عِزت اور قدر کے حق دار  ہیں   :::

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ                

بِسمِ اللہ ، و الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لَم یَکُن مَعہُ  نَبِيًّا وَ لا رَسولً وَ لا مَعصُومً و لَن یَکونَ بَعدَہُ  أحدً إلیٰ أبد الأبد ،  وَ عَلیٰ آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین،

شروع اللہ کے نام سے ، خالص اور حقیقی تعریف اکیلے اللہ کے لیے ہی ہے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد پر جِنکے ساتھ نہ کوئی نبی تھا، نہ کوئی رسول ، اور نہ کوئی معصوم ، اور نہ ہی اُن کے بعد  ابد الابد تک کوئی اور ایسا ہوسکتا ہے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وسلم ، و فداہُ نفسی و رُوحی ،  کی آل پر ، اور مقدس بیگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کی ٹھیک طرح سے مکمل پیروی کریں اُن سب پر ،

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،

اِنسان جب سے اپنی  تاریخ جانتا ہے تب ہی سے اِس تاریخ میں قیادت اور سیادت کی اعلی ترین حِکمت اور قوموں کی اصلاح کرتے ہوئے خیر اور فلاح کے ساتھ سربراہی کرنے  میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے جیسی کوئی دُوسری شخصیت نہیں ملتی ،

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اتنے کم عرصے میں قوموں کی زندگیوں کے دھاروں کے رُخ بدل ڈالے ، اور تاریخ کی راہیں بدل ڈالیں کہ جِس کم عرصے میں کسی ایک قوم میں بھی کوئی مستقل اور مضبوط تبدیلی نہیں ہو پاتی ،  اور اُنہوں نے تو قوموں کی قومیں بدل ڈالیں ،

محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تحریک کی یہ بے مثال اور اعلیٰ ترین کامیابی بھی اِس بات کی ایک دلیل ہے کہ وہ اللہ کے نبی اور رسول تھے ، اور اُنہیں کائنات کے اکیلے خالق و مالک ، مدبر و رزاق ، اللہ جلّ جلالہُ کی مدد میسر تھی ،

کہ وہ خود تو پڑھ لکھ نہ سکتے تھے لیکن ساری ہی دُنیا کو عِلم سے بھر دِیا ، اور حِکمت کے ایسے دَرس دِیے جِن تک کبھی کسی دُوسرے اِنسان کی رسائی نہ ہو سکی تھی ، اور نہ ہی ہو سکتی تھی ، اور بنی نوع اِنسان کی عقلوں کے لیے دُرست ترین ہدایت مہیا کردِی کہ جِس کے بغیر کوئی بھی شخص کبھی بھی حق تک نہیں پہنچ سکتا ،

لہذا   محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیشہ ہمیشہ اعلیٰ ترین عِزت اور قدر کے حق دار   ہیں

اے اُمت محمد ،،،،، تُمہارے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  جو پیغام لے کر آئے تھے وہ پیغام کِسی یا کچھ لوگوں کے لیے خُفیہ احکام یا باطنی شریعت وغیرہ پر مُشتمل نہ تھا، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی آخری شریعت پر مُشتمل تھا جو سارے ہی اِنسانوں کے لیے بھیجی گئی ، اللہ کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےدُنیا سے رُخصت ہونے سے پہلے اپنا یہ فریضہ بہترین اور مکمل ترین طور پر پورا فرمایا،  اُن صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد اُن صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت  پر اُن صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم کایہ حق ادا کرنا ایک مستقل قرض ہے  کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے ،

اور بالکل اُسی طرح قولی اور عملی طور پر پہنچایا جائے جِس طرح اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے پہنچایا ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے براہ راست  سیکھنے والے اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے شاگردوں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے پہنچایا ،

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک ایسے اِنسانی معاشرے میں تشریف لائے جو معاشرہ باطل معبودوں سے پُر تھا ، جن معبودوں نے اِنسانی معاشرے کی بنیادوں میں اپنی گمراہیوں کو شامل کر رکھا تھا ، اُن باطل معبودوں میں سے  تعصب، فرقہ واریت ،اورگروہ بندی  اِنسانی معاشرے میں سب سے زیادہ جانی ، مالی اور عزتوں پر ٹوٹنے والے فساد پھیلانے والے معبود تھے ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِنسانی معاشرے کو جوڑنے کے لیے ، اِنسان کو اِنسان کی قدر و عزت برقرار رکھنا سکھانے کے لیے ، اور بالخصوص مسلمانوں کے درمیان باہمی ربط اور تعلق کو مضبوط بنائے رکھنے کے لیے ان باطل معبودوں کو بھی نیست و نابود کیا ،

پس اِرشاد فرمایا ﴿مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً أَوْ يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ ::: جو کوئی اندھے (تعصب کے)جھنڈے تلے مارا گیا کہ کسی تعصب کی دعوت دیتا تھا یا کسی کسی تعصب کی مدد کرتا تھا تو وہ جہالت والا مقتول ہےصحیح مُسلم/حدیث/4898کتاب الامارۃ /باب13،

اور اسی تعلیم کو  مزید وضاحت کے ساتھ عطاء فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا ﴿مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ أَوْ يَدْعُو إِلَى عَصَبَةٍ أَوْ يَنْصُرُ عَصَبَةً فَقُتِلَ فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ وَمَنْ خَرَجَ عَلَى أُمَّتِى يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا وَلاَ يَتَحَاشَ مِنْ مُؤْمِنِهَا وَلاَ يَفِى لِذِى عَهْدٍ عَهْدَهُ فَلَيْسَ مِنِّى وَلَسْتُ مِنْهُ:::جو(اللہ اوراس کےرسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی)اطاعت سےنکل گیا اور (مسلمانوں کی خاص )جماعت(الجماعت) سے الگ ہو گیا ، اور پھر (اِسی حالت میں )مر گیا تو وہ جہالت (یعنی شِرک و کفر)کی موت مرا ، اور جو کسی تعصب کی خاطرلڑا،کہ(حق و باطل کی تمیز کے بغیر ہی اپنے تعصب کی وجہ سے) کسی جماعت(گروہ)کےلیےغصہ کیا (اور لڑا)یا(حق و باطل کی تمیز کے بغیر ہی اپنے تعصب کی وجہ سے)کسی جماعت(گروہ) کی(مدد) کی طرف بلایا ،یا (حق و باطل کی تمیز کے بغیر ہی اپنے تعصب کی وجہ سے)کسی جماعت (گروہ)کی مدد کی اور (ایسے کاموں میں) مارا گیا تو  وہ جاھلیت والا مقتول ہے ، اور جو میری اُمت کے خِلاف نکلا اور میری اُمت کے نیک اور بد سب ہی کو مارنے لگا ، اور میری اُمت میں سے اِیمان والوں کی پرواہ نہ کی، اورجس کے ساتھ کوئی عہد کیا ہو اُس کے عہد کو پورا نہ کیا تو وہ مجھ میں سے نہیں اور میں اُس میں سے نہیں۔ (یعنی میرا اور اُس کا نبی اور اُمتی والا کوئی تعلق نہیں)صحیح مُسلم/حدیث/4892کتاب الامارۃ /باب13،

رحمت ، شفقت ،اور اِنسانیت کے مُعلِّم  ، اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہ تعلیمات دیکھیے اور آج اُن قوموں اور اُن شخصیات کو دیکھیے جو اپنے طور اِنسانیت  کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ، کہ اِسی اِنسانیت اور حقوق ء اِنسان ، اور آزادی حقوق وغیرہ قِسم کے نعروں کے پردے میں اِنسانوں کی جان ، مال اور عزت لوٹنے میں کچھ بھی دیر نہیں کرتے ، رتّی برابر بھی نہیں ہچکچاتے ،اِسلام کے پہلے ادوار میں اِنسانوں کی  غلامی کے خلاف شور مچاتے ہیں اور عملی طور پر  ساری دُنیا کے اِنسانوں کو اپنا غلام بنانے کی کوشش میں ہی رہتے ہیں ،

جبکہ اِنسان کو اِنسان کی عِزت اور احترام کے سب سے اونچے اور مکمل درس دینے والے مُدرس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تو زر خرید غلاموں اور باندیوں کی بھی عَزت اور احترام کی تعلیمات دی ہیں جن میں یہ حکم بھی فرما رکھا ہے کہ ﴿لاَ يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ عَبْدِى وَأَمَتِى وَلاَ يَقُولَنَّ الْمَمْلُوكُ رَبِّى وَرَبَّتِى وَلْيَقُلِ الْمَالِكُ فَتَاىَ وَفَتَاتِى وَلْيَقُلِ الْمَمْلُوكُ سَيِّدِى وَسَيِّدَتِى فَإِنَّكُمُ الْمَمْلُوكُونَ وَالرَّبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ :::تُم لوگوں میں سے کوئی بھی( اپنے غُلام اور باندی کے لیے)یہ نہ کہے (کہ) میرا بندہ ، یا میری بندی ، اور نہ ہی  مملوک (زیر ملکیت، غلام یا باندی، اپنے مالک کے لیے )یہ کہیں کہ میرا رب ، یا میری ربہ، اور مالک یہ کہے کہ میرا غلام ، اور میری باندی ، اور مملوک یہ کہے کہ میرا سردار اور میری سردارنی ، کیونکہ یقیناً تُم سب لوگ مملوک ہو اور رب اللہ عزّ و جلّ ہےسنن ابو داؤد ، حدیث 4977، کتاب الادب ، باب 83، الادب المفرد ، للامام البخاری رحمہُ اللہ /حدیث 210/کتاب الخدم و الممالیک/باب 26، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے دونوں ہی روایات کو صحیح قرار دِیا ،

یہ  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی تھے جنہوں نے اِنسان کو  اِنسانیت کے احترام کی ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی  اور اُس کی ربُوبیت کی شان کی یہ تعلیم عطاء فرمائی کہ  کوئی اِنسان کسی دُوسرے اِنسان کو اپنا بندہ یا بندی تک بھی نہیں کہے خواہ وہ اُس کا زر خرید مملوک ہی ہو،،،

یہاں ایک غلطی کی طرف نشاندہی کرتا چلوں ، جو عموماً ہمارے پنجابی بولنے والے بھائی بہنوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ کِسی کے خاوند کو اُس کا بندہ کہتے ہیں ، فلانی دا بندہ ، ارے اللہ کے بندو ، وہ اللہ کا بندہ ہوتا ہے،

دیکھیے تو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تو زر خرید غلاموں اور باندیوں کو بھی اُن کے مالکوں کا بندہ یا بندی کہنے سے منع کیا ہے ، اور آپ خاوندوں کو بیویوں کا بندہ کہتے ہیں ،

اپنے نبی کریم کی تعلیم پر عمل کیجیے ، جنہوں نے اِنسان کی ، حتی ٰ کہ زر خرید غلام و باندی کی بھی اتنی تکریم کا سبق دِیا ہے جو تاریخء انسانی میں کِسی نے نہیں دِیا ،

لہذا   محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیشہ ہمیشہ اعلیٰ ترین عِزت اور قدر کے  حق دار  ہیں

اِنسانی تاریخ میں اِنسان تک آنے والےدِین اور اِنسانوں میں جاگنے والی سوچوں میں سے سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی لائی ہوئی اور دِی ہوئی تعلیمات کے علاوہ کوئی بھی تعلیم ایسی نہیں جومکمل طور پر  اِنسان کودُوسرے  اِنسان کی عِزت اور قدرکا حق ادا کرنے کا دَرس دینے والی  ہو،  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے ہی اِنسانوں کے اکیلے اور لا شریک خالق و مالک ، اللہ عزّ و جلّ نے یہ حکم بھیجا ﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا :::اور اللہ کی عبادت کرو اور اللہ کے ساتھ کوئی بھی چیز شریک مت کرو ، اور والدین کے ساتھ بہترین رویہ رکھو ، اور رشتہ داروں کے ساتھ ، اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوں کے ساتھ اور رشتہ داری والے پڑوسیوں کے ساتھ ، اور پہلو میں رہنے والے(اجنبی) پڑوسیوں کے ساتھ ، اور پہلو والے (کام کاج کے ساتھیوں وغیرہ) کے ساتھ ، اور مسافر کے ساتھ،اور جو(غلام ، لونڈیاں) تمہارے ہاتھوں کی ملکیت ہیں اُن کے ساتھ ، یقینا ً اللہ تکبر کرنے والے اور بڑائی پر اِترانے والے کو پسند نہیں کرتاسُورت النِساء(4)/آیت 36،

اور اپنے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے ہی یہ خبر ادا کروائی کہ ﴿إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ ، وَلاَ تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ :::تمہارے (غلام)خادم تُمہارے بھائی ہیں ، اللہ نے اُنہیں تُم  لوگوں کے ہاتھوں کے نیچے کر رکھا ہے (یعنی تمہاری ملکیت میں دے رکھا ہے)، پس جِس کی ملکیت میں اُس کا کوئی بھائی ہو تو اُسے بھی وہی کچھ کِھلائے جو کچھ وہ خود کھاتا ہے ، اور وہی کچھ پہنائے جو خود پہنتا ہے ، اور انہیں ایسے کام مت دو جو کام اُن لوگوں پر غالب ہو جائیں ، اور اگر تُم لوگ انہیں ایسے کام دو تو پھر (وہ کام پورے کرنے میں ) اُن کی مدد بھی کروصحیح البخاری /حدیث/30کتاب الاِیمان/باب22،کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح مُسلم/حدیث/4403,4405کتاب الاِیمان/باب10،

جو لوگ اِسلام میں غلامی کے بارے میں الزام تراشیاں کرتے ہیں ، یا تو اُنہیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی غلاموں اور باندیوں کے ساتھ شفقت کی اِن تعلیمات کا اتہ پتہ نہ ہوگا ، اور ، یا ، پھر وہ جان بُوجھ کر صِرف اِسلام دُشمنی میں الزام تراشی کرتے پھرتے ہیں ، اور ہمارے کئی مسلمان  بھی اُن کی باتوں میں آ کر اُن کی بولیاں بولتے لکھتے دِکھائی دیتے ہیں ،

وہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے ہوں کہ ، عِزت ، شفقت اور ہمدردی کی تعلیم و تربیت دینے والے  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہی یہ بھی سکھایا کہ ﴿إِذَا أَتَى أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ ، فَإِنْ لَمْ يُجْلِسْهُ مَعَهُ فَلْيُنَاوِلْهُ أُكْلَةً أَوْ أُكْلَتَيْنِ ، أَوْ لُقْمَةً أَوْ لُقْمَتَيْنِ ، فَإِنَّهُ وَلِىَ حَرَّهُ وَعِلاَجَهُ:::اگر تُم لوگوں میں سے کسی کا خادم اُس کے لیے کھانا لے کر آئے ، اور اگر مالک  اپنے خادم کو اپنے ساتھ (کھانے پر )نہ بٹھائے تو  بھی اُسے ایک یا دو لقمے ضرور دے دے ، کیونکہ اُس خادم نے کھانے (کی پکوائی میں آگ)کی گرمی اور  کھانے کی تیاری کی تکلیف برداشت کی ہوتی ہےصحیح البخاری /حدیث/5460کتاب الاِطعمہ/باب55،کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ صحیح مُسلم/حدیث/4407کتاب الاِیمان/باب10،

اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں کسی اِنسان کے دِلی احساسات اور اُس کے جذبات  کی تکریم کی ایسی تعلیم بنی نوع اِنسان کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے پہلے کسی نے دی ، پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اِنسانیت اور رحمت سکھانے آئے اور سکھا کر گئے ،

لہذا   محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمیشہ ہمیشہ اعلیٰ ترین عِزت اور قدر کے حق دار  ہیں

اے اُمت محمد ،،،،،تُم پر تُمہارے نبی محمد صلی اللہ  علیہ و علی آلہ وسلم کایہ حق ادا کرنا ایک مستقل قرض ہے  کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے ،

اور بالکل اُسی طرح قولی اور عملی طور پر پہنچایا جائے جِس طرح اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے پہنچایا ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے براہ راست  سیکھنے والے اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے شاگردوں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے پہنچایا ۔

:::::: لمحہ ء فِکر  ::::::  جو لوگ اپنی جہالت ، خود ساختوں سوچوں ، اور گمراہ عقلوں کی بنا پر اِسلام میں اِنسانوں کی غلامی کو اِنسانیت پر ظلم سمجھتے ہیں اور ایسی گمراہ سوچ کا پرچار کرتے ہیں ، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی کام کو حلا ل یا حرام کرنا اللہ جلّ  و عَلا کا حق ہے ، پس اللہ نے جِس کام اور چیز کو چاہا اپنے کلام قران کریم اور اپنے خلیل محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی حدیث شریف کے ذریعے میں حلال ، یا حرام قرار دِیا  اللہ نے اِنسان کے لیے اِنسان کی غُلامی کو حرام قرار نہیں دِیا ،  جو اس پر کسی بھی قسم کا اعتراض کرتا ہے وہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے کام پر اعتراض کا مرتکب ہو جاتا ہے ، ایسے لوگوں کو یہ بھی سیکھنا اور سمجھنا ہی چاہیے کہ اِنسانوں کی غلامی کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کے ذریعے غلاموں کو بھی دیگر اِنسانوں کی طرح اِنسانیت کی ہر عِزت کا حق دار قرار دیا اور انکے ساتھ  اسی عِزت والے معاملات کرنے کے احکامات دیے ۔

پس اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ اعتراضات کرنے سے پہلے اچھی طرح سے مطالعہ کریں ،  اللہ جلّ جلالہُ کی ذات پاک ،صِفات مبارکہ اور بہترین ناموں کا اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے مُطابق عِلم حاصل کریں ، اِسلامی علوم میں مقرر ، اور مقبول شدہ قواعد و ضوابط سیکھیں ، اپنی سوچوں ، فِکروں اور نفس کے وسوسوں کی پرکھ کی کسوٹی اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کاموں اور فرامین کو بنائیں ،،، نہ کہ اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کاموں اور فرامین کی پرکھ کی کسوٹی اپنی سوچوں ، فِکروں اور نفس کے وسوسوں کو ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں یہ  ہمت و جرأت عطاء فرمائے کہ ہم اُس کے آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عِزت ، شان ، قدر، اور نبوت کی حفاظت اور عظمت  کے لیے اپنی زندگیاں بسر کریں ،

کیونکہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے بعد اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی  ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ سب سے زیادہ عِزت اور قدر کے حق دار ہیں ، اور وہی رہیں گے ۔

 والسلام علیکم، طلبگارء دُعاء، عادِل سُہیل ظفر ۔

تاریخ کتابت :11/05/1434ہجری، بمُطابق،23/03/2013عیسوئی،

تاریخ تجدید و تحدیث :04/08/1437ہجری، بمُطابق،11/05/2016عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی کتابی نُسخہ  (PDF): http://bit.ly/154rERJ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوتی نُسخہ (آڈیو فائل ) :  https://archive.org/details/20200824_20200824_2003 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب :  https://youtu.be/pW61jufOWxk      

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔