Saturday, April 25, 2020

::: نماز میں (جسلہ ءتشھد میں)اُنگلی اُٹھانے یا حرکت دینے کا مسئلہ :::




:::  نماز میں (جسلہ ءتشھد میں)اُنگلی اُٹھانے یا حرکت دینے کا مسئلہ :::
بِسّم اللہِ و الحَمدُ  لِلَّہِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلٰی مَن لا نَبی بَعدَہ ُ  والذی لَم یَتکلم مِن تِلقاءِ نَفسہِ و لَم یَکن کَلامُہ اِلَّا مِن وَحی رَبہ ::: اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف  اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جِس کے بعد کوئی نبی نہیں اور جِس نے نفس کی خواہش کے مطابق بات نہیں کی اور جِس کی بات سوائے اُس کے رب کی وحی کے اور کچھ نہ ہوتی تھی ۔
سوال 3: قعدہ  او ر تشہد میں انگشت شہادت کھڑے رکھنے ، یا مخصوص اوقات میں اُٹھانے،  یا ہلاتے رہنے کے مسئلے کی وضاحت درکار ہے ؟
::: جواب  ::: السلام علیکم ورحمۃ ُ اللہ و برکاتہ،
تشھد کے آغاز سے آخر تک، یعنی ، سلام پھیرنے تک ، شہادت کی اُنگلی کو اُٹھائے رکھنا، یا ، حرکت دیتے رہنا دونوں ہی سُنّت شریفہ سے ثابت ہیں،
::::::: وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے بتایا ﴿ ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ وَرُكْبَتِهِ الْيُسْرَى،  وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِهِ الأَيْمَنِ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا ::: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تشریف فرما ہوگئے اور اپنی سیدہی ٹانگ مُبارک (زمین پر) بچھا دی ، اور اپنے اُلٹے ہاتھ کی ہتھیلی مُبارک اپنی اُلٹی ران مُبارک پر، اور گُھٹنے مبارک پر  رکھی، اور اپنی سیدہی کہنی مُبارک اپنی سیدہی ران مُبارک پررکھی ، پھر اپنی اُنگلیوں میں سے دو اُنگلیوں (چھوتی اُنگلی اور اس کے ساتھ والی اُنگلی) کو بند فرما لیا ، اور (بڑی اُنگلی اور انگوٹھے کا) دائرہ بنا لیا ، پھر اپنی (شہادت والی)اُنگلی مُبارک کو اٹھایا ، تو میں نے(یہ)دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُس (شہادت والی اُنگلی مُبارک)کو حرکت دے رہے ہیں (اوراُسی حرکت کے ساتھ)دُعا فرما رہے ہیںسُنن النسائی /حدیث1276 /کتاب السھو/باب34، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
یعنی اُسے حرکت دیتے ہوئے ہی دُعاء بھی فرما رہے ہیں ، اور یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ دُعاء تشھد کے آخر میں کی جاتی ہے، پس یہ ثابت ہوا کہ تشھد کے آغاز سے آخر تک اُنگلی کو حرکت دیا جانا سُنّت شریفہ کی عین مُطابق ہے ،
تشھد میں کسی مخصوص وقت یا کسی مخصوص لفظ کے ساتھ، جیسا کہ لوگ اللہ  تعالیٰ کے ماسواء کی الوہیت کے انکار ، اور اللہ عزّ و جلّ  کی واحدینت کے اقرار کے الفاظ کے ساتھ اُنگلی اٹھاتے ہیں ،
یعنی """لا الہَ اَلّا اللَّہ """ میں "لا" کہنے  پر ، اور پھر "اللہ" کہنے پر اُنگلی اٹھانا،
اور اِسی طرح "أشھدُ"کہتے ہوئے اُنگلی اٹھانا، اِن سب حرکات کی تو سُنّت شریفہ میں کوئی دلیل ہے ہی نہیں،
اور اِسی طرح سُنن ابو داؤد، اور سُنن الترمذی میں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ ُ کی وہ روایت جِس میں اِشارہ نہ کرنے کا ذِکر ہے،اِس روایت میں اِشارہ نہ کرنے والی بات کو إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے شاذ قرار دِیا ہے،
تٖفصیل کے لیے دیکھیے""" تمام المنة في التعليق على فقه السنة/و من صِفۃ الجلوس للتشھد"""،
ایسی کئی صحیح روایات منقول ہیں، جِن میں صِرف اِشارہ کرنے کا ذِکر ہے، حرکت کرنے کا نہیں ،
کچھ لوگ صِرف اُنہی روایات پر نظر کرتے ہوئے یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ صِرف اِشارہ کرنا ہی مقصود ہے،حرکت دینا اِشارے کی مخالفت ہے،جبکہ اُن صاحبان کا ایسا سمجھنا دُرُست نہیں، کیونکہ،  
صِرف اِشارے  والی روایات ایک عمل کا عمومی ذِکر لیے ہوئے ہیں ، اور حرکت دینے والی خبر اُس عمل کی کیفیت ہے،  اِن دونوں میں کوئی اِختلاف نہیں،
دیگر صحیح روایات اِس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ، اِشارہ کرنے کی  ایک کیفیت اُنگلی کو حرکت دینا ہے، اِشارہ  کرنے سے مُراد صِرف ساکت اِشارہ نہیں،
اُن میں سے ایک تو وائل ابن حجر رضی اللہ عنہ ُ کی وہی روایت  ہے جو آغاز میں ذِکر کی گئی ہے،
اور دُوسری عبداللہ ابن عُمر رضی  اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ لَهِىَ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنَ الْحَدِيدِ::: یقیناً  یہ شیطان پر لوہے سے زیادہ شدید ہےمُسند احمد،
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ  عنہ ُ نے پھر یہ بھی بتایا کہ یہ  فرمان شہادت والی اُنگلی کے بارے میں ہے،
پس یہ واضح ہوا کہ اِس اُنگلی کو حرکت دینا ہی مطلوب ہے، کیونکہ حرکت ہی تو شیطان کو  لوہے سے زیادہ شدید مار کا سبب ہو گی،
جیسا کہ إِمام احمد ابن حنبل رحمہُ اللہ سے مروی ہے کہ اُنہیں تشھد میں اُنگلی کے اِشارے کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا """جی ہاں ، شدید طور پر """،
إِمام صاحب رحمہُ اللہ کی یہ بات اِشارے کی شرح ہے کہ اِشارہ متحرک ہو گا ، اور شدید حرکت والا ہونا چاہیے، ساکت اِشارہ نہیں،  
پس صِرف اِشارہ کرنے کو ہی دُرُست کہنا ، اور حرکت دینے کو نا دُرُست کہنا ، بذات خود نا دُرُست فعل ہے،
إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """أصل صفۃ الصلاۃ النبی /التشھد الأول/تحریک الإِصبع فی التشھد/صفحۃ 838إِلیٰ 859""" نے اِس مسئلے کی بڑی اعلیٰ تحقیق پیش کی ہے،
  اور فرمایا ہے کہ """والحق، أنہ لا تفضیل بین الصفتین،بل کل منھما السُنّۃ ینبغی العمل بکل منھما أحیاناً:::حق یہ ہے کہ اِن دونوں کیفیات میں کوئی ایک دُوسری سےافضل نہیں ہے ، بلکہ دونوں ہی سُنّت ہیں، وقتا     ً فوقتا     ً  دونوں پر ہی عمل کیا جانا چاہیے"""۔
اُمید ہے کہ یہ معلومات اِن شاء اللہ اِس مسئلے کو واضح کرنے کا سبب ہو ں گی، اور بلا وجہ کی ضِد اور شِدت سے نجات کا بھی،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہمارے سب کو دِین ،دُنیا اور آخرت کی خیر عطاء فرمائے۔
والسلام علیکم ،طلبگارء دُعاء ، آپ کا بھائی عادِل سہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 07/11/1437ہجری،بمُطابق،10/08/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نُسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
https://bit.ly/2KDjF6P 

Tuesday, April 14, 2020

::: قُران کو بغیر وضوء کے، جنابت ، حیض اور نفاس کی حالت میں چُھونا اور پڑھنا:::


::: قُران کو بغیر وضوء کے، جنابت ، حیض اور نفاس کی حالت میں  چُھونا اور پڑھنا:::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جُنون،اور اُس کے دِیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اَشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور(لیکن اُس شخص نے)اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
:::::  سوال  :::::  قُران کو بغیر وضوء کے جنابت ، حیض  اور نفاس کی حالت میں چُھونے ، یا پڑہنے کا کیا حُکم ہے ؟ :::::
::::: جواب :::::
قران کریم کو بغیر وضوء پڑھنا  بھی جائز ہے، اور چُھونا بھی جائز ہے، سوائے حالت جنابت کے،
جنابت کی حالت میں نہ تو قران کریم کو چُھوا جا سکتا ہے اور نہ  ہی اُس کی تلاوت کی جا سکتی ہے ، حالت جنابت میں قران کریم   کو چُھونے ،  اور اُس کی تلاوت کرنے  کے ناجائز ہونے کے بارے میں جمہور عُلماء کا اتفاق بیان کیا جاتا ہے،
کچھ عُلماء نے اس سے بھی  اختلاف کیا ہے،  لیکن ، دونوں  طرف کے عُلماء کرام رحمہم اللہ کے اقوال پڑھنے سمجھنے کے بعد زیادہ مُناسب یہی معلوم ہوتا  ہے کہ حالتء جنابت میں نہ ہی قران پاک کو چُھوا جائے ، اور نہ  قران کریم کی تلاوت نہ کی جائے،
رہا مسئلہ ،  بلا وضوء قران کریم کو چھونے کا تو اِس  کے بارے میں دُرُست یہی ہے کہ اگر کوئی  مُسلمان صِرف بغیر وضوء ہو، تو وہ قران کو چُھو سکتا ہے، اور پڑھ سکتا ہے ، لیکن جنابت کی حالت میں نہیں ،
حیض اور نفاس کی حالت میں قران کریم ، یعنی مصحف کو براہ راست ننگے ہاتھوں سے چُھونا جائز نہیں ، بغیر چھوئے دیکھ کر یا ز ُبانی قرأت کرنا جائز ہے ،   کیونکہ اِس سے ممانعت کی کوئی دلیل میسر نہیں ،
حالتء حیض میں قران خوانی سے منع کرنے والے اصحاب  درج ذیل روایت کو دلیل بناتے ہیں :
((( لاَ تَقْرَإِ الْحَائِضُ وَلاَ الْجُنُبُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ:::  حیض والی عورت اور  جو کوئی حالتء جنابت میں ہو ، وہ لوگ قران نہیں پڑھ سکتے )))
اِلفاظ اور اُن کی ترتیب  کے کچھ فرق کے ساتھ یہ روایت، سُنن کی کُتب میں  درج ذیل حوالہ جات پر موجود ہے  :
(1) سُنن الترمذی /حدیث 131 / کتاب الطھارۃ / باب 98  مَا جَاءَ فِى الْجُنُبِ وَالْحَائِضِ أَنَّهُمَا لاَ يَقْرَآنِ الْقُرْآنَ،
(2)  سُنن ابن ماجہ /حدیث 639 / کتاب الطھارۃو سُننھا / باب 105   مَا جَاءَ فِى قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ، مَا جَاءَ فِى قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ،
(3)     سُنن الدار قُطنی / حدیث 428 / کتاب الطھارۃ /  باب فِى النَّهْىِ لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ،
(4)  سُنن الکبریٰ للبیھقی  / حدیث 428 / کتاب الطھارۃ /  باب 99  ذِكْرِ الْحَدِيثِ الَّذِى وَرَدَ فِى نَهْىِ الْحَائِضِ عَنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَفِيهِ نَظَرٌ ،
اِس کی تمام اسناد میں  إسماعیل بن عیاش نامی راوی ہے ، اِس راوی اور اِس کی اِس روایت کے بارے میں امیر المؤمنین فی الحدیث محمد بن إسماعیل البخاری رحمہُ اللہ  کا  یہ  قول إمام الترمذی رحمہُ اللہ اور إمام  البیھقی رحمہُ اللہ نے ذِکر کیا ہے کہ:::
 ’’’   إِنَّمَا رَوَى هَذَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ وَلاَ أَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ غَيْرِهِ ، وَإِسْمَاعِيلُ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ عَنْ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْعِرَاقِ ::: یہ روایت إسماعیل بن عیاش نے موسی بن عُقبہ کے ذریعے بیان کی ہے اور میں اِس روایت کو اِس کے عِلاوہ کِسی اور کے حوالے سے نہیں جانتا ، اور  اگر اِس  إسماعیل (بن عیاش)  کی روایت حجاز اور عراق کے راویوں کے ذریعے ہوں تو یہ ( رزوی    إسماعیل بن عیاش) منکر الحدیث ہے( یعنی اِس کی روایات منکر ، ناقابلء قبول ، ناقابل حُجت  ہوتی ہیں ) ‘‘‘
اور اِ س کے بعد إمام  البیھقی رحمہُ اللہ نے دو دیگر روایات کا ذِکر کر کے یہ بتایا ہے کہ وہ دونوں بھی صحیح نہیں ہیں ،
پس یہ معاملہ بہت واضح ہے کہ یہ روایت کِسی طور قابل حُجت نہیں ، اِسے کِسی شرعی مسئلے کے لیے دلیل نہیں بنایا جا سکتا،
اِس روایت کے بارے میں یہ حکم صدیوں پہلے گذر چکے أئمہ کرام نے دِیا ہے ، ہمارے ہاں پائی جانے والی  مسلکی تقسیم  سے صدیوں پہلے کے أئمہ رحمہم اللہ نے ، لہذا کوئی اِسے کِسی مسلک یا کِسی مسلک کے کِسی عالم یا إمام کے کھاتے میں ڈال کر اپنی غلط بیانی کو دُرست کرنے کی کوشش نہ کرے،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب  کو حق کے خِلاف ہر ضِد اور تعصب سے دُور رہ کر حق جاننے ، ماننے اور اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
و السلام علیکم ،
طلب گارء دُعاء ، آپ کا بھائی ،
عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 03-02-2013  عیسوئی ، الموافق ، 22-03-1434ہجری ،
تاریخ تجدید و تحدیث : رہ کر حق م حق ماننے ، الے اصحاب  درج ذیل روایت کو دلیل بناتے ہیں :
 13-04-2020 عیسوئی ، الموافق ، 20-08-1441 ہجری ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے:

Thursday, April 2, 2020

:::اقامت نماز کے بعد کوئی دُوسری نماز پڑھنا جائز نہیں خواہ فجر سے پہلے والی دو سُنّت ہی ہوں :::

:::اقامت نماز کے بعد کوئی دُوسری نماز پڑھنا جائز نہیں خواہ فجر سے پہلے والی دو سُنّت  ہی ہوں :::
 

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق منہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ :::شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواھش کے مطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
کِسی بھی نماز کی اقامت ہوجانے کے بعد ، کوئی بھی دُوسری نماز شروع کرنا جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس سے منع فرمایا ہے ،
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ  :::  جب فرض نماز کھڑی  کر دی جائے (یعنی جب فرض نماز کی اقامت کہہ دی جائے) تو پھر سوائے (اُسی ) فرض نماز کے کوئی دُوسری نماز نہیں ہے )))[1]،
اِس حدیث شریف میں بڑی ہی وضاحت سے یہ فرما دِیا گیا ہے کہ جب کِسی فرض نماز کی اقامت ہو جائے تو پھر اُس فرض نماز کے عِلاوہ کوئی بھی دُوسری نماز  شروع کرنا جائز نہیں ،
ہمارے جو بھائی فجر سے پہلے والی دو سنتوں کو اِس ممانعت سے مُبراء سمجھتے ہیں ، اُن کے  پاس فلسفیانہ دلائل کے عِلاوہ ، روایات ء حدیث میں سے صِرف ایک دلیل ہے، جِس کو بنیاد بنا کر وہ فجر کی اقامت ہو جانے کے بعد بھی پہلے والی دو سُنّت شروع کرنا نہ صِرف جائز قرار دیتے ہیں ، بلکہ لوگوں کو سختی سے اِس پر  عمل کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں ،
فلسفیانہ دلائل کی تو دِینی معاملات میں کوئی وقعت ہی نہیں ، لہذا میں اُن دلائل کے بارے میں کوئی بات کرنے کی بجائے اُس اکلوتی روایتء حدیث کی طرف آتا ہوں جِسے فجر کی اقامت کے بعد بھی ، پہلے والی دو رکعت سُنّت شروع اور مکمل کرنے کی دلیل بنایا جاتا ہے ،
یہ روایت بھی ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے ہی مروی ہے  کہ (((إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ ، إِلاَّ رَكْعَتَىِ الصُّبْحِ::: جب فرض نماز کھڑی  کر دی جائے (یعنی جب فرض نماز کی اقامت کہہ دی جائے) تو پھر سوائے (اُسی ) فرض نماز کے کوئی دُوسری نماز نہیں ہے، سوائے فجر کی دو رکعت کے ))) [2]،
امام البیھقی رحمہُ اللہ نے اِس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود ہی یہ بھی بتا دِیا ہے کہ """ وَهَذِهِ الزِّيَادَةُ لَا أَصْلَ لَهَا وَحَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، وَعَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ ضَعِيفَانِ::: اور یہ زیادہ (یعنی سوائے فجر کی  دو رکعت  ) ایسی بات ہے جِس کی کوئی اصل ہی نہیں ہے ، اور حجاج بن نصیر، اور عباد بن کثیر دونوں (راوی) ضعیف ہیں  """،
اور میں کہتا ہوں کہ صِر ف یہ دونوں راوی ہی نہیں ، بلکہ جس سے عباد بن کثیر نے روایت کیا ہے یعنی ، اللیث بن  ابی سلیم بھی ضعیف ہے ،   اسے بھی محدثین نے  مضطرب الحدیث  اور  ضعیف الحدیث  قرار دِیا ہے ،
پس ، اِس ضعیف ، ناقابل حُجت  روایت کی بِناء پر پہلے والی صحیح حدیث شریف  میں سے کوئی استثناء  نہیں ملتا ، حدیث شریف میں دیا گیا حکم  جُوں کا تُوں برقرار ہے کہ  (((  جب فرض نماز کھڑی  کر دی جائے (یعنی جب فرض نماز کی اقامت کہہ دی جائے) تو پھر سوائے (اُسی ) فرض نماز کے کوئی دُوسری نماز نہیں ہے )))،
پس یہ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ جب کِسی بھی نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو پھر کوئی بھی دُوسری نماز شروع نہیں کی جائے گی، خواہ وہ فجر سے پہلے والی دو سنتیں ہی ہوں ،
جو شخص مسجد میں ایسے وقت میں داخل ہو کہ اقامت کہی جا چکی ہو ، یا کہی جا رہی ہو، تو اُسے فرض جماعت کے ساتھ شامل ہونا ہو گا ، فجر سے پہلے والی دو سنتیں وہ فرض کے فوراً بعد پڑھ سکتا ہے ، یا پھر سورج پوری طرح سے طُلوع ہونے کے بعد،
رہا معاملہ اُس شخص کا جِس نے اقامت کہے جانے سے پہلے کوئی نفل یا سُنّت نماز شروع کر رکھی ہو ، تو اُس کے بارے میں عُلماء کرام کے مختلف اقوال ہیں ،
جِن سب کے مختلف دلائل بھی ہیں ، اُن سب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایسے شخص کے لیے دُرست یہ لگتا  ہے کہ اگر وہ اپنی اِس شروع کردہ نماز کا حق ادا کرتے ہوئے اِسے مکمل کر کے ،  امام صاحب کے پہلے رکوع میں سے سر اُٹھانے سے پہلے ،  جماعت میں   شامل ہو سکتا ہو تو اپنی یہ نماز پوری کر ے اور پھر جماعت میں شامل ہو جائے ، اور اگر ایسا نہیں تو پھر اپنی یہ نماز چھوڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے ،
اِس طرح چھوڑے جانے والی نفلی نماز کی کوئی قضاء نہیں ہوتی، اور نہ ہی نما زسے نکلنے کے لیے سلام پھیرنے کی ضرورت ہوتی ہے ،
آخر میں ایک دفعہ پھر گوش گذار کرتا چلوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلے  کے مُطابق کسی بھی نماز کی اقامت کہے جانے کے بعد وہاں کوئی بھی دُوسری نماز شروع نہیں کیا جا سکتی، بلا شک یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی ہے، جو کِسی اجر و ثواب کا سبب تو ہر گِز ہر گِز نہیں ہو سکتی ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر قِسم کی ضِد سے محفوظ رہتے ہوئے حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہو کر اُس کی بخشش پانے والوں میں بنائے ۔ والسلام علیکم۔
طلب گارء دُعا، عادِل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 12/09/1438ہجری،بمُطابق،07/06/2017عیسوئی،
تاریخ تحدیث و تجدید : 09/08/1441ہجری ، بمُطابق،02/04/2020عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



[1]  صحیح مُسلم /حدیث /1678کتاب صلاۃ   المُسافرین /باب 9 كَرَاهَةِ الشُّرُوعِ فِى نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ ، سُنن ابو داؤد /حدیث /1268کتاب صلاۃ   التطوع /باب 5 إِذَا أَدْرَكَ الإِمَامَ وَلَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَىِ الْفَجْرِ ، سُنن ابن ماجہ  /حدیث /1151کتاب  إقامة الصَّلاة والسُّنة فيها/باب 103 ما جاء في إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ  ،سُنن الترمذی /حدیث /423کتاب صلاۃ   الصلاۃ    /باب 200 مَا جَاءَ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ  ،سُنن النسائی /حدیث /873/866کتاب الاِمامۃ    /باب 60 مَا يُكْرَهُ مِنَ الصَّلاَةِ عِنْدَ الإِقَامَةِ ، سُنن الدارمی، صحیح ابن حبان ، مُسند احمد،


[2]  سُنن البیھقی الکبریٰ /حدیث  /4226 كِتَابُ الصَّلَاةِ /جُمَّاعُ أَبْوَابِ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ، وَقِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ /باب كَرَاهِيَةِ الِاشْتِغَالِ بِهِمَا بَعْدَمَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ