Tuesday, December 31, 2013

:::::: شُحَّ ، یعنی خیر کے کاموں کے لیے کنجوسی اور برائی والا لالچ ہلاکت کا سبب ہے::::::

:::::: شُحَّ ، یعنی  خیر کے کاموں کے لیے کنجوسی اور برائی والا لالچ  ہلاکت کا سبب ہے::::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
اللہ جلّ جلالہُ کا اِرشاد پاک ہے ﴿ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ :::اور جو کوئی اُس کے نفس کی کنجوسی اور لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ خیر (اورکامیابی) پانے والے ہیں سُورت الحَشر (59)/آیت 9،سُورت التغابن (64)/آیت 16،
إِمام ابن کثیر رحمہُ اللہ نے اِس آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھا """ مَنْ سَلِمَ مِنَ الشُحَّ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ::: یعنی جو کوئی بھی( اُس کے نفس  کی) کنجوسی اور لالچ سے محفوظ رہا وہ خیر پا گیا اور کامیاب ہو گیا """،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس فرمان میں دِین ، دُنیا اور آخرت کی خیر اور کامیابی کی خبر ہے ، لیکن اُن لوگوں کے لیے جو اپنے نفوس ، اپنی جانوں میں پائے جانے والے برے  لالچ سے، اور نیکی اور خیر میں کنجوسی سے محفوظ رہے ،
عام طور پر اُردُو  تراجم میں لفظ """شُحَّ """ کا  ترجمہ """ لالچ """ ہی کیا جاتا ہے ، لیکن میں ترجمے میں کنجوسی اور لالچ استعمال کر رہا ہوں کیونکہ اِس صفت کا دُرُست اور مکمل مفہوم یہی بنتا ہے ، اس مذموم اور بری صِفت کے بارے میں کچھ جاننے سے پہلے مناسب محسوس ہوتا ہے کہ  لفظ """ شُحَّ""" کے لغوی مفہوم کے بارے میں کچھ معلومات کا مطالعہ کر لیا جائے تا کہ اِن شاء اللہ جب کبھی بھی ہم اِس  لفظ کو سنیں یا  پڑھیں تو ہمیں اِس کا مفہوم یاد ہو اور ہم اِس سے متعلق بات چیت کو اچھے اور دُرُست طور پر سمجھ سکیں ، اِن شاء اللہ ،
إِمام النووی رحمہُ اللہ نے اِس حدیث شریف کی شرح میں لفظ """ شُحَّ """ کی مختلف لغوی معانی اور مفاہیم کو بیان کرتے ہوئے لکھا کہ """ قَالَ الْقَاضِي يُحْتَمَلُ أَنَّ هَذَا الْهَلَاكَ هُوَ الهلاك الذي أخبر عنهم بِهِ فِي الدُّنْيَا بِأَنَّهُمْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ وَيُحْتَمَلُ أَنَّهُ هَلَاكُ الْآخِرَةِ وَهَذَا الثَّانِي أَظْهَرُ وَيُحْتَمَلُ أَنَّهُ أَهْلَكَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ جَمَاعَةُ الشُحَّ أَشَدُّ الْبُخْلِ وَأَبْلَغُ فِي الْمَنْعِ مِنَ الْبُخْلِ وَقِيلَ هُوَ الْبُخْلُ مَعَ الْحِرْصِ وَقِيلَ الْبُخْلُ فِي أَفْرَادِ الْأُمُورِ وَالشُحَّ عَامٌّ وَقِيلَ الْبُخْلُ فِي أَفْرَادِ الْأُمُورِ وَالشُحَّ بِالْمَالِ وَالْمَعْرُوفِ وقيل الشح الحِرص علىٰ ماليس عِنْدَهُ وَالْبُخْلُ بِمَا عِنْدَهُ :::قاضی(عیاض رحمہُ اللہ ) کا کہنا ہے کہ اس (حدیث شریف )سے یہ مُراد بھی لی جا سکتی ہے کہ یہ ھلاکت دُنیا کی وہی ھلاکت ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے(اِس حدیث شریف میں )خبر فرمائی ہے کہ اُن لوگوں نے اپنے خُون بہائے ، اور یہ مُراد بھی لی جا سکتی ہے کہ آخرت کی ھلاکت کی خبر دی گئی ہے ، اور یہ دوسری بات زیادہ واضح  ہے ،اور یہ بھی مُراد لی جا سکتی ہے کہ "شُحَّ"نے انہیں دُنیا اور آخرت دونوں میں ہی ھلاکت میں مبتلا کر دِیا ، (عُلماء کی ) جماعت کا کہنا ہے کہ """ شُحَّ """کنجوسی کی سب سے زیادہ سخت حالت ہوتی ہے اور (کسی بھی )کنجوسی سے بڑھ کر روکنے والی ہوتی ہے ، اور کہا گیا کہ """ شُحَّ """وہ کنجوسی ہے جو لالچ کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے ،  اور کہا گیا کہ کنجوسی کاموں  کو الگ الگ کرنے کی صُورت میں ہوتی ہے ، اور """ شُحَّ"""عام ہے (یعنی اِس میں سب شامل ہے)، اور کہا گیا کنجوسی کاموں  کو الگ الگ کرنے کی صُورت میں ہوتی ہے ، اور """ شُحَّ"""مال ، اور معروف کاموں میں ہوتا ہے ، اور کہا گیا کہ """ شُحَّ""" اُس چیز کے بارے میں لالچ ہے جو لالچ کرنے والے کے پاس نہیں ہوتی ، اور کنجوسی اُس چیز کو خرچ کرنے یا استعمال کرنے میں ہوتی ہے جو چیز کنجوس کے پاس ہوتی ہے """،
اور إِمام ابن القیم رحمہُ اللہ نے اپنی معروف کتاب """ الرُوح """ میں لکھا کہ """ وأما الشح فهو خلق ذميم يتولد من سوء الظن وضعف النفس ويمده وعد الشيطان حتى يصير هلعا والهلع شدة الحرص على الشيء والشره به فتولد عنه المنع لبذله والجزع لفقده كما قال تعالى إن الإنسان خلق هلوعا إذا مسه الشر جزوعا وإذا مسه الخير منوعا ::: اور """ شُحَّ """ ایک بُری خصلت ہے جو کہ (بد نیتی اور )برے گمان اور نفس کی کمزوری  کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے ،اور شیطان کے وعدے اُس کو تقویت دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ھلع بن جاتی ہے اور ھلع کسی چیز کو پا کر اُس کے ذریعے شر والے کام کرنے کا لالچ ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے اُس چیز کو (خیر کے کاموںمیں ) استعمال کرنے سے رُکنا اور اُس چیز کے کھو جانے پر شدید دُکھی ہونے، گھبرانے اور شور شرابا کرنے  کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں ، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ﴿ إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا O إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا O وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا ::: بے شک اِنسان کو کم حوصلہ بنایا گیا ہے O کہ اگر اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو گھبراتا اور چیختا ہے Oاور جب اُسے خوش حالی ملتی ہے تو کنجوسی پر اتر آتا ہےسُورت المعارج (70)/آیات19 تا 21 """، المسألة الحادية والعشرون وهي هل النفس واحدة أم ثلاث فقد وقع في/فصل وأما الفرق بين الاقتصاد والشح أن الاقتصاد خلق محمود يتولد من،
اِن مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتاہے کہ لغوی طور پر اور قران کریم  اور صحیح ثابت شدہ  سُنت مُبارکہ  کی روشنی میں لفظ """ شُحَّ""" کا مفہوم صِرف لالچ ہی نہیں بنتا ، بلکہ برائی پر مبنی لالچ اور خیر کے کاموں میں اپنے وسائل خرچ کرنے میں کنجوسی کو """ شُحَّ """ کہا جاتا ہے ،
لہذا اِس دُرُست مفہوم  کے مطابق ہی ہمیں اللہ اور اسکے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں مذکور " شُحَّ" کو سمجھنا چاہیے ،
اللہ جلّ و عُلا کے دو  فرامین مُبارکہ کا ذِکر ہو چکا ہے ، اب ہم اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین شریفہ میں سے """ شُحَّ """کے بارے میں جانتے ہیں ،  
ہمارے محبوب ، خلیل اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وعلی آلہ وسلم ، جو کہ ساری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے اور جنہوں نے نہ صِرف مُسلمانوں کو بلکہ ساری ہی  انسانیت کو  أمن ،مُحبت ، اِک دُوجے کی عِزت ،جان ،مال اور ہر ایک چیز میں بلا حق تصرف کرنے سے رکے رہنے کی تعلیم دی اور ایسا کرنے کے خوفناک انجام سے بھی آگاہ فرمایا ،
اُن سراپاء رحمت محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم   کی تعلیمات میں ہمیں اِس خوفناک بیماری ، یعنی نفس کے لالچ کے نتائج اور انجام کے بارے میں  اُن کا یہ اِرشاد شریف بھی ملتا ہے کہ ﴿ اتَّقُوا الظُّلْمَ فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاتَّقُوا الشُحَّ فَإِنَّ الشُحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ ::: ظلم سے بچو کہ ظُلم قیامت والے دِن اندھیرے بن جائے گا ، اور شُحَّ سے بچو کیونکہ اُس  نے تُم سے پہلے والوں کو ھلاک کر دِیا تھا ، کہ(شُحَّ نے ) اُنہیں اُن کے خون بہانے اور محرم رشتے حلال کرنے پر لگا دِیا صحیح مُسلم /حدیث/6741کتاب البر والصلة والآدب /باب15،
اور اِس بری صِفت یعنی""" شُحَّ """کے بارے میں یہ بھی بتایا ہے کہ ﴿شَرُّ مَا فِى رَجُلٍ شُحَّ هَالِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ ::: کِسی اِنسان میں سب سے بُری چیز گھبرانے اور چیخنے چلانے تک لے جانے والا شُحَّ اور دِل ودماغ  کو (اِیمان ،سوچ و عقل ،قوت فیصلہ وغیرہ سے) خالی کر دینے والی بُزدِلی ہےسُنن ابو داؤد /حدیث /2513کتاب  الجھاد/باب 22، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
محترم قارئین ، یاد رکھیے ، کہ ، نیکی اور خیر کے کاموں میں اپنے وسائل استعمال  کرنے میں کنجوسی کرنا ، اور برائی پر مبنی لالچ  ایسی بری بیماریاں ہیں ،  جو کسی انسان کو انسانیت کے گھٹیا ترین درجے پر بھی نہیں رہنے دیتیں ، اور وہ اِنسانیت کے رُوپ میں وہ کچھ کرتا ہے کہ جِس پر حیوان بھی شرمندگی محسوس کرنے لگیں ،
عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لالچ اور کنجوسی لازم و ملزوم ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہی ہوتے ہیں ، لیکن یہ صرف برائی کے معاملات میں ہی دُرست ہے ، کیونکہ نیکی اوراچھائی کمانے  کا لالچ رکھنے والا ، نیکی کمانے  کے لیے اپنے مال و متاع اور دیگر وسائل میں سے کچھ بھی خرچ کرنے میں کنجوس نہیں ہوتا ،
جبکہ برائی کا لالچ رکھنے والا اچھائی کی راہ میں توخرچ کرتا ہی نہیں ، اور برائی کی راہ میں بھی صِرف اور صِرف اسی صُورت میں خرچ کرتا ہے جب اُس خرچ سے کہیں زیادہ مادی فائدہ حاصل ہونے کا یقین رکھتا ہو ،
لہذا یہ بھی سمجھ لینے والی بات ہے کہ خیر ، نیکی ، اور بھلائی کا لالچ محمود ،  مطلوب و مقصود ہے ، اور اِس لالچ کے ساتھ کوئی کنجوسی نہیں ہوتی ،
شر ، گناہ،اور بدی کا لالچ مذموم ، غیر مطلوب و غیر مقصود ہے ، اور اِس کے ساتھ ساتھ نیکی اور بھلائی کے لیے اپنے وسائل استعمال کرنے میں کنجوسی لازم موجود رہتی ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں خیر ، نیکی اور بھلائی کا لالچ رکھنے، اور اس کی تکمیل کے لیے اپنے وسائل استعمال کرنے والوں میں سے بنائے اور ، شر ، گناہ اور بدی کے لالچ سے اور برائی میں اپنے وسائل استعمال کرنے سے بچنے والوں میں سے بنائے ۔ والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت  ::: 17/02/1435ہجری ،بمطابق،21/12/2013 عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Friday, December 6, 2013

::::::: زیادہ قمسیں اُٹھانے کا شرعی حکم ، اور قسموں کی اقسام :::::::


::::::: زیادہ قمسیں اُٹھانے کا شرعی حکم  ، اور قسموں کی اقسام  :::::::
بِسّمِ اللَّہِ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبیَّ بَعدہُ ، و أَشھَدُ أَن لا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ و أَشھَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہّ وَ رَسُولُہُ
شروع اللہ کے نام سے اور اللہ کی رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور اِس کے بعد یہ گذارشات پیش خدمت ہیں کہ :::
عموماًٍ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات بے بات قسم اٹھاتے ہیں ، اور اُنہیں اِس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ، جبکہ قسم اُٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ،  کوئی معمولی مسئلہ نہیں ،
قَسمیں اُٹھانے کے متعلق  یہ چند درج ذیل أہم مسائل مُسلمان کو اچھی طرح سمجھ کر ہمیشہ یاد رکھنے چاہِیں ،
::::::: پہلا مسئلہ :::::::کسی مُسلمان کو قَسم اُٹھانے کا عادی نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ صِرف بوقت ضرورت اور شرعی معاملات  اور احکام کے مطابق ہی قسم اٹھانا چاہیے ، کیونکہ قسم کوئی ایسی بے وقعت یا بے کار چیز نہیں جسے یُوں ہی بلا وجہ اِستعمال کیا جائے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد ہے ﴿وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ:::اور اپنی قسموں کی حفاظت کروسُورت المائدہ(5)/آیت 89،
اللہ تبارک  و تعالیٰ کا یہ حُکم دو مفاہیم پر مُشتمل ہے ، پس اِس میں دو حُکم ملتے ہیں ،
::: (1) ::: کوئی مُسلمان جب ارادۃً  کوئی قَسم اُٹھا لے تو اُسے پورا کرنا اُس پر فرض ہوتا ہے ،
::: (2) ::: مُسلمان کو قسم اُٹھانے کی کثرت نہیں کرنا چاہیے ، خواہ وہ قسم اُٹھانے میں حق بجانب ہی کیوں نہ ہو ، پھر بھی قسم اُٹھانے سے پرہیز ہی کرے ، لہذا یہ طریقہ دُرست نہیں جو لوگوں نے اپنا رکھا ہے کہ بات بے بات، حق و ناحق قسمیں اٹھاتے رہتے ہیں ،اِس کے بعد یہ بات سمجھ لیجیے کہ قسم دو قِسم کی ہوتی ہے ،
::::::: (1) قَسم کی پہلی قِسم ::::::: """بے اِرادہ قسم """  یعنی ایسی قسم جو عادتاً بول چال میں شامل ہو ، اُٹھانے والے کی ز ُبان سے ادا تو ہوتی ہو لیکن اُس کے دِل میں وہ قسم اُٹھانے کا کو ئی اِرداہ نہ ہوتا ہو ، ایسے لوگوں کی پہچان اُن کے ساتھ رہنے والوں اور معاملات کرنے والوں کو اچھی طرح سے ہوجاتی ہے ، 
ایسی قسم کو """ یَمین اللَّغُو ::: بے اِرداہ قسم """کہا جاتا ہے ، جس کے بارے میں، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے سورت المائدہ کی مذکورہ بالا آیت مُبارکہ میں بھی  ذِکر فرمایا اور اس آیت شریفہ میں بھی اِرشاد فرمایا ہے ﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ:::اللہ تُم لوگوں پر تُمہاری عادتاً اُٹھائی ہوئی قسموں کے بارے میں گرفت نہیں کرے  گاسُورت البقرہ(2)/آیت 225،
اس قِسم کو ہم مزید دو اَقسام میں تقسیم پاتے ہیں :::
::: (1) ::: جیسا کہ اگر کسی کا حال دریافت کیا جائے تو وہ کہے """ اللہ کی قسم میں خیریت سے ہوں """،
 یا  کسی سوال کے جواب میں، یا کسی چیز کے بارے میں کوئی شخص ہاں ، یا نہیں کہتے ہوئے یُوں کہے  کہ""" اللہ کی قسم ہاں"""،
یا کہے کہ """ اللہ  کی قَسم نہیں """،یا اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ ، فُلاں کہاں ہے ؟ تو وہ جواب میں کہے """واللہ وہ تو جا چکا ہے """، وغیرہ ،  
یہ ایسی قسمیں ہیں جو انسان کی ز ُبان پر عادتاً وارد ہوتی ہیں اُس کے دِل میں اِن قسموں کو اٹھانے کا کوئی اِرداہ نہیں ہوتا ،
ایسی قسمیں خواہ جتنی بھی اُٹھائی جاتی رہیں اُن پر کوئی گرفت نہیں ہوتی ،لیکن اِس کے باوجودقسم اُٹھانے کی کثرت سے، عادت بنالینے سے باز رہنا ہی بہتر ہے جیساکہ پہلے بیان کیا گیا ہے ،
::: (2) ::: ایسی قسم جو کوئی شخص اپنے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست پر اعتماد کرتے ہوئے اٹھائے کہ وہ رشتہ دار یا دوست اُس کی قسم ضرور پوری کرے گا اور اُس کو جھوٹا نہ ہونے دے گا ، ایسی قسم  در حقیقت اُس رشتہ دار یا دوست کی شخصیت یا اُس کے کسی  کام سے متعلق ہوتی ہے ،
مثلا ً کوئی اپنے بیٹے کے بارے میں کہے کہ """ اللہ کی قسم میرا بیٹا ضرور نماز کی پابندی کرے گا """،
 یا اپنی بیٹی کے بارے میں کہے کہ """اللہ کی قسم میری بیٹی بے پردگی نہیں کرے گی """،
 یا  اپنی بیوی کے بارے میں کہے کہ """ اللہ کی قسم میری بیوی ہر گِز وہاں نہیں جائے گی """،
 یا اپنے کسی دوست کے بارے میں کہے """اللہ کی قسم میرا دوست فُلاں کام کرے گا """ وغیرہ ،
ایسی قسمیں بھی """بے اِرادہ   قسم """ میں شامل ہوتی ہیں ، وہ اِس لحاظ سے کہ اِن کو پُورا کرنا قسم اُٹھانے والے کے اپنے اِرادے سے خارج ہوتا ہے ، اِن قسموں کے پورا نہ ہونے کی صورت میں بھی قسم اُٹھانے والے پر کوئی کفارہ نہیں ہوتا اور نہ  ہی اُس پر کوئی کفارہ ہوتا ہے جس کے بارے میں قسم اُٹھائی گئی ہو ،
اور اسی طرح وہ قسمیں  ہیں جو اِنسان اپنے ہی بارے میں کسی کام کرنے یا نہ کرنے کے لیے اُٹھائے لیکن دِلی اِرادے کے بغیر ہی ہو،
اس کی دلیل خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین  ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ  کا یہ واقعہ ہے کہ """ ایک دفعہ اُن کے گھر کچھ مہمان آئے ، رات کے کھانے کا وقت قریب تھا اور کھانا پیش کیے جانے والا تھا کہ ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ    کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے رات کے کھانے کے لیے بلاوا آ یا ،
خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےحُکم کی تعمیل میں ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قُرب کی خوشی میں جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے بیٹے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ ُ سے اِرشاد فرمایا کہ"""مہمانوں کو کھانا کھلا دینا """،
جب ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ کھانا مہمانوں کے سامنے  رکھا ہے لیکن اُنہوں نے اُس میں سے کچھ کھایا ہی  نہیں ،
 ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ ُ کو ڈانٹا کہ""" تُم نے مہمانوں کی ضیافت کیوں نہیں کی ؟"""
عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """ ابا جان ، اِس میں میرا کوئی قصور نہیں ، آپ اپنے مہمانوں سے ہی پوچھ لیجیے کہ میں نے تو انہیں کھانا پیش کیا ، اور کھا لینے کی درخواست کرتا رہا ،  لیکن اِنہوں نےآپ کے بغیر کھانے سے اِنکار کر دیا"""،
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ نے مہمانوں سے پوچھا کہ """ آپ لوگوں نے ہمارا پیش کردہ کھانا کیوں نہیں قُبُول  کیا ؟ میں تو اللہ کی قسم آج رات میں اِسے نہیں کھاؤں گا """،
 مہمانوں نے بھی قسم اٹھاتے ہوئے کہا """اللہ کی قسم جب تک آپ نہ کھائیں گے ہم بھی نہیں کھائیں گے"""،
خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ کہا """ میں نے آج رات کے شر سے زیادہ شر نہیں دیکھا ، آپ لوگوں نے ہمارا پیش کردہ کھانا قبول نہیں  کیا ، پس جو پہلی (قسم)ہے وہ شیطان کی طرف سے (بہکاوا)تھی ، آیے اپنے کھانےکی طرف تشریف لایے """،
پھر ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ نے اُس کھانے میں سے کھایا تو مہمانوں نے بھی کھایا،
جب صُبحُ ہوئی تو ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور(واقعہ بیان کر کے) عرض کی """ اے اللہ کے رسول ، اُن لوگوں نے اپنی قسم سچی کر لی اور میں نے اپنی قسم کے خِلاف کر دیا """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿بَلْ أَنْتَ أَبَرُّهُمْ وَأَخْيَرُهُمْ:::بلکہ تُم اُن سب میں سے زیادہ (قسم )پوری کرنے والے اور خیر والے  ہو ،
خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ  کا کہنا ہے کہ """اور مجھے کفارہ ادا کرنے کا حکم  نہیں فرمایا گیا """۔ صحیح مُسلم /حدیث5487/کتاب الأشربہ/باب32،
توجہ سے سمجھیے محترم قارئین ، کہ اگر اِس طرح کی قسم کو """با اِرداہ قسم """سمجھا جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اِس کا کفار ہ ادا کرنے کا حُکم فرماتے ،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے """با اِرادہ قسم """کے پورے نہ کرنے کی صورت میں اُس کا کفارہ ادا کرنے کے بارے میں ایک اصول مقرر فرما یا ﴿مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَلْيَأْتِ الَّذِى هُوَ خَيْرٌ وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ:::جِس نے نیت کے ساتھ قسم اُٹھائی پھر دیکھا کہ کسی اور کام(یا چیز ) میں  اُس قسم والے کام سے زیادہ خیر ہے تو وہ خیر والا کام کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرےصحیح مُسلم/حدیث4362/کتاب الاَیمان/باب3،سُنن ابن ماجہ/حدیث2186/کتاب الکفارات/باب7،سُنن الترمذی /حدیث1615/ کتاب النذور و الاَیمان/باب6،
اور خود اپنی ذات شریف کے بارے میں اِرشاد فرمایا ﴿لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتُ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا ، إِلاَّ أَتَيْتُ الَّذِى هُوَ خَيْرٌ ، وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِى:::میں اپنی اُٹھائی ہوئی کسی با ارداہ قسم سے زیادہ خیر  کسی دوسرے کام میں دیکھتا ہوں تو زیادہ خیر والا کام کرتا ہوں ، اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرتا ہوںصحیح البخاری /حدیث6621/کتاب  الاَیمان والنذور / پہلاباب،صحیح مُسلم /حدیث 4352/کتاب الاَیمان/باب3،
::::::: ایک اضافی فائدہ ::::::: اِن احادیث مُبارکہ میں یہ مسئلہ بھی ملا کہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے لیے جو قسم دِل کے اِرادے کے ساتھ اُٹھائی گئی ہو اور پھر اُس قسم کے خِلاف کسی دوسرے کام میں خیر نظر آئے تو اُس قسم کو چھوڑ کر وہ خیر والا کام کرنا ، اور اُس قسم کا کفارہ ادا کرنا واجب ہے ، اِس حُکم پر تعمیل کرنے کی مُشقت یعنی کُفارہ ادا کرنے کی مُشقت یہ سبق سکھاتی ہے کہ حتی الامکان قسم اُٹھانے سے باز ہی رہا جانا چاہیے  ، 
::::::: (2) قَسم کی دوسری قِسم::::::: """با اِرادہ قسم """:::::::
 یعنی ایسی قسم جو دِل کے اِرادے کے ساتھ  ز ُبان پر آتی ہو ، اُٹھانے والا اُس قسم کو پورا کرنے کا مکمل اِرادہ رکھتا ہو ، اور قسم اُٹھا کر جو کچھ کہہ رہا اُس کی حقیقت ، اور قسم اُٹھانے کی حقیقت جانتا ہو ،  یہ وہ قسم ہوتی ہے جِس کے پورے نہ کیےجانے پر قسم اُٹھانے والے کو کفارہ ادا کرنا ہوتا ہے  ، یا جس کے جھوٹے ہونے کی صورت میں قسم اُٹھانے والا گناہ گار ہوتا ہے ،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ  فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ  ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ::: اللہ تُم لوگوں کی بےاِرادہ قسموں کے سبب  تُم لوگوں پر پکڑ نہیں کرے گا ، لیکن جو قسمیں تُم لوگ جان بوجھ کر سوچ سمجھ کر اُٹھاتے ہو(اور اُن کے خلاف کرتے ہو)اُن قسموں کے سبب گرفت کرے گا ، (اور جو قسم تم لوگ پوری نہ کرو )اُس کا کُفارہ دس غریبوں کو درمیانے معیار کا ایسا  کھانا کِھلانا ہے جو تُم لوگ اپنے گھر والوں کو کِھلاتے ہو، یا اُن دس غریبوں کو لباس دیناہے ، یا ایک غُلام آزاد کرنا ہے ، اور جس کو (اِن میں سے کوئی بھی کام کرنا )مُیسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے ، یہ تُم لوگوں کی قسموں کا کُفارہ ہے (اُس صُورت میں )جب تُم لوگ قسم اُٹھا لو (اور اسے پورا نہ کرو)، اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ، اسی طرح اللہ تُم لوگوں کے لیے اُس کی آیات کوکھول کھول کر واضح  کرتا ہے تا کہ تُم لوگ شُکر ادا کرو سُورت المائدہ(5)/آیت 89،
پس یہ بات بالکل واضح ہے کہ قسم بلا اِرداہ ہو یا با اِرداہ ، اِس کی کثرت سے پرہیز کرنا چاہیے ، تا کہ قسموں کی حفاظت کرنے کے الہی حُکم پر عمل ہو ،
اگر مُسلمان کو کہیں کسی معاملے  میں قسم اٹھانا ہی پڑے تو اُسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھانا جائز نہیں ، لہذا صِرف اور صِرف اللہ کی قسم ہی اٹھائی جانی چاہیے ،
قُران کی قسم ، رسول کی قسم ، کعبہ کی قسم ، میرے بچوں کی قسم ، میرے ماں باپ کی قسم ، آپ کی قسم ، یہ سب قسمیں ، غرضیکہ اللہ کے علاوہ کسی کی بھی قسم باطل ہے ، ایسی قسم اُٹھانا شِرک ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حُکم ہے ﴿مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ ::: جِس نے اللہ کے عِلاوہ کسی بھی اور کی قسم اُٹھائی تو یقیناً اُس نے شِرک کیاصحیح ابن حبان/حدیث4358/کتاب الاَیمان کی حدیث رقم 30/باب ذِكرالزَجر عن أن يحلف المرء بشيء سِوى الله جل وعلا،سُنن ابو داود/حدیث3253/کتاب الاَیمان و النُذور/باب5،سُنن الترمذی/کتاب النذور و الاَیمان/باب ما جاء في كراهية الحلف بغير الله،، اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
[[[الحمد للہ ،اس موضوع کی تفصیل میری زیر تیاری کتاب """وہ ہم میں سے نہیں """ کی ساتویں حدیث شریف  کے ضمن میں شامل ہے ]]]
قارئین کرام ، یاد رکھیے ، اور خُوب اچھی طرح سے یاد رکھیے ، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی بھی اور کی قسم اٹھانا تو جائز ہی نہیں ، اور  اللہ پاک کی قسم اُٹھانے میں بھی بہت ہی زیادہ احتیاط لازم ہے کہ وہ قسم ہر لحاظ سے سچی ہو ، بالکل نیک اِرادے پر مبنی ہو ،  اور نیکی کے کاموں اور باتوں کے بارے میں ہو،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ O لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ::: اللہ (کے نام کو) اپنی ایسی قسموں میں استعمال نہ کرو ، جِن قسموں کے ذریعے تُم لوگ ، دوسرے لوگوں میں نیکی ، تقوے اور خیر والے کاموں سے رُک جاؤ، اور(یاد رکھو کہ ) اللہ خُوب سُننے والا اور بہت عِلم رکھنے والا ہے O اللہ تُم لوگوں پر تُمہاری بے اِرادہ عادتاً اُٹھائی ہوئی قسموں کے بارے میں گرفت نہیں کرے  گا، اور(یاد رکھوکہ)اللہ بہت بخشش والا اور بُردبار ہے سُورت البقرہ(2)/آیات224،225،
::: حاصلء کلام :::بلا ضرورت قسم اٹھانے سے گریز کیا جانا چاہیے ، اللہ کے علاوہ کسی بھی اور کی قسم نہیں اٹھانی چاہیے ، اور اللہ کی قسم بھی صرف  سچی اورنیکی کے کاموں کے لیے اُٹھائی جانی چاہیے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، ہر قاری اور سامع کو یہ سب باتیں سمجھنے ، ماننے ، اپنانے اور اِن پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،
و السلا م ُعلیکم طلبگارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :4/06(Jamadi AlThani)/1433 ہجری ،،،بمطابق  24/04/2012 عیسوئی۔
تاریخ نظر ثانی :2/02(Safar)/1435 ہجری ،،،بمطابق  06/12/2013 عیسوئی۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔