Friday, December 6, 2013

:::قُران و سُنّت کے باغ میں سے ::: مختصر اور مؤثر نصیحت زیادہ فائدہ مند ہے:::


:::قُران و سُنّت کے باغ میں سے ::: مختصر  اور مؤثر نصیحت زیادہ فائدہ مند ہے:::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمد ا ً  صَلی اللہ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّم و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ       عَلیٰ     مَسلکہِ  ::: اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
کہا جاتا ہے کہ نصیحت کرنے والا جَلّاد کی طرح ہوتا ہے ،
میں کہتا ہوں جَلّاد جتنا ماہر ہوتا ہے اُس کی لگائی ہوئی چوٹ جلد میں اتنی زیادہ ، گہری اور دیرپا درد چھوڑتی ہے ،
جی ہاں میں نے جَلّاد کے مارنے کے بارے میں اُس کی  مہارت اور عِلم کی بات کی ہے ، نہ کہ اُس کی ضرب کی قوت کی ،
 کیونکہ ایسا جَلّاد جو کسی تعصب یا غُصے کی بنا پر خوب قوت سے ضرب لگاتا ہے اُس کی ضرب پڑتے ہوئے تو یقیناً بہت شدید درد دے گی لیکن کچھ ہی عرصے بعدضرب  کھانے والاوہ دردبھول جائے گا ،
لیکن جو جَلّاد ضرب لگانے کے عِلم و فن میں ماہر ہو گا ، وہ قوت سے ضرب نہیں لگائے گا بلکہ وہ جانتا ہوگا کہ کونسی جگہ پر ہلکی سے ضرب بھی شدید اور دیرپا درد کا سبب ہو گی لہذا وہ اُسی جگہ ہلکی سے ضرب لگا کر بھی بہت قوی ضرب سے زیادہ اچھے نتائج حاصل کر لے گا ،
اِسی طرح نصیحت کرنے والا کا معاملہ ہے ،جی ہاں ،  اچھی با موقع اور درست طور پر نصیحت کرنے والا یہ جانتا ہے کہ """ نصیحت کا اصل فائدہ کثرت اور طوالتء کلام میں نہیں ، بلکہ بر موقع اور مثبت و مؤثر طریقے میں ہے """
پس اگر آپ کسی کو نصیحت کرنا چاہتے ہیں تو جس قدر ممکن ہو اچھے ، محبوب اور میٹھے اسلوب میں مختصر الفاظ و عبارات میں کیجیے ، نہ کہ جسے نصیحت کرنا چاہتے ہوں اسے درس دینا شروع کر دیجیے ، خاص طور پر جب کوئی ایسا معاملہ ہو جس میں کوئی اِختلاف نہ ہو صرف اُس پر عمل کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ ہوتا ہے  ،
مثلاً نماز پڑھنے کا معاملہ ، کوئی مسلمان اِس کے فرض ہونے سے اِنکارنہیں کرتا، اور جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ نام و نسب سے تو مُسلمان کہلا سکتا ہے ، شرعی احکام میں ، اور اللہ کے ہاں وہ مُسلمان نہیں ،
 جی تو ، نماز کی فرضیت ہر مُسلمان مانتا ہے ، لیکن پھر بھی ایسے کئی مُسلمان ہیں جو نماز کی فرضیت پر إِیمان رکھنے کے باوجود نماز نہیں پڑھتے ، اُنہیں زیادہ لمبے چوڑے سبق اور درس دینے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ چند مختصر سی باتوں کے ذریعے یاد دہانی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے  جو اُنہیں نماز نہ پڑھنے کے نقصانات اور پڑھنے کے فوائد سمجھانے میں مددگار ہو،  
اسی طرح ایسے کئی معاملات ہیں جن کے بارے میں مسلمان تو کیا غیر مسلم لیکن اچھے کردار والے بھی یہ مانتے ہیں کہ یہ کام اچھے نہیں ، مثلاً، شراب نوشی ،والدین کا احترام نہ کرنا ،لوگوں کے حقوق غصب کرنا ، وغیرہ ، تو ایسے معاملات میں قوت سے ضرب لگانا عموماً فائدہ مند نہیں ہوتا بلکہ وہ ضرب نقصان کا باعث ہو جاتی ہے ،    
 مجھے اپنے حبیب  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کے مطالعہ میں یہ سبق خوب اچھی طرح سے ملا کہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کی گئی  نصیحتیں ایک دو عبارات سے زیادہ طویل نہیں ، لیکن انداز و الفاظ ایسے ہیں جو روح کی گہرائیوں تک اُتر جاتے ہیں ، مثلا ً :::
::::::: علی رضی اللہ عنہ ُ کو نصیحت فرمائی (((((يا عَلِيُّ لَا تُتْبِعْ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فإن لكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لكَ الْآخِرَةُ ::: اے علی ایک کے پیچھے دوسری نظر نہ جانے پائے ، کیونکہ پہلی نظر تو تمہارے لیے تھی لیکن دوسری کے لیے تمہیں حق نہیں ))))) المستدرک الحاکم /حدیث 2788، سنن ابی داؤد/کتاب النکاح/باب44 ، مسند احمد/حدیث 23041،23143 و غیرھم ،
علم و عرفان اور عقائد کے خزانوں سے بھر پور نصیحت ایک مختصر سے جملے میں مکمل ہوئی ،
::::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو نصیحت فرمائی اور اِس قدر محبت آمیز لیکن گہرے اور مضبوط اثر والے انداز میں کہ اُن رضی اللہ عنہ ُ کے کندھوں کو اپنے دونوں مبارک و پاکیزہ ہاتھوں میں تھام کر فرمایا (((((كُنْ في الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أو عَابِرُ سَبِيلٍ:::دُنیا میں اس طرح رہو جیسے کہ تُم اجنبی ہو یا ایک راہ گذر مسافر ہو)))))صحیح البخاری/حدیث 6503/کتاب الرقاق/باب3،
دیکھیے ،غور فرمایے کہ مختصر سی لیکن  دِین ،دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کی ساری ہی خبر لیے ہوئے نصیحت تمام ہوئی،  
::::::: مُعاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ کو نصیحت فرمائی اوراِس طرح کہ  اپنے مقدس ہاتھوں میں اُن رضی اللہ عنہ ُ  کا ہاتھ تھام کر ،انتہائی نرم لیکن رُوح کی گہرائیوں میں  شدید ترین اثر کے ساتھ اتر جانے والے الفاظ میں فرمائی (((((يا مُعَاذُ والله إني لَأُحِبُّكَ والله إني لَأُحِبُّكَ ، فقال ، أُوصِيكَ يا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ في دُبُرِ كل صَلَاةٍ تَقُولُ اللهم أَعِنِّي على ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ::: اے مُعاذ اللہ کی قسم میں تم سے محبت کرتا ہوں ، اللہ کی قسم میں تم سے محبت کرتا ہوں،  اور تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہر نماز کے بعد یہ کہنا کبھی نہ چھوڑنا """ اے اللہ آپ کا ذِکر کرنے  اور آپ کا شُکر ادا کرنے اور بہترین طور پر آپ کی عبادت کرنے پر میری مدد فرمایے"""))))) سنن ابو داؤد/حدیث 1522 کتاب الصلاۃ /باب 362،سنن النسائی/حدیث 1303/کتاب السھو/باب 60،
مختصر سی نصیحت لیکن اس قدر مؤثر کہ دنیا اور آخرت سنور جائے اور جسے کی گئی وہ اُس کی صداقت پر یقین رکھنے والا ہو تو ساری زندگی اِس پر عمل پیرا رہے ، جیسا کہ خود معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ نے کیا ،
:::::::عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما کو نصیحت فرمائی (((((يا عُمَرُ إِنَّكَ رَجُلٌ قويٌّ لاَ تُزَاحِمْ عَلىَ الْحَجَرِ فَتُؤْذِىَ الضَّعِيفَ إن وَجَدْتَ خَلْوَةً فَاسْتَلِمْهُ وَإِلاَّ فَاسْتَقْبِلْهُ فَهَلِّلْ وَكَبِّرْ ::: اے عُمر آپ ایک طاقتور مرد ہیں حجرء اسود (کو چُھونے ) کے لیے زور آزمائی مت کیجیے گا کہ کہیں آپ کسی کمزور کو اذیت نہ دے دیں لیکن اگر آپ کو فراغت (سے موقع) ملے تو پھر حجرء اسود کو چُھو لیجیے اوراگرفراغت نہ ملے تو اس کی طرف رُخ کر کے تھلیل کہیے اور تکبیر کہیے ))))) مُسند احمد/حدیث /195مُسند عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما میں سے حدیث رقم 112، و غیرھما ، صححہ إِمام الالبانی رحمہُ اللہ(مناسک الحج و العمرہ)،
سُنّت مُبارکہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ و السلام میں ایسی مختصر اور یقینی ترین اور شدید ترین اثر والی نصیحتوں کی اور بھی بہت سے مثالیں میسر ہیں ،
پھر جب سُنّت شریفہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ و التسلیم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، تابعین ،تبع تابعین اور امت کے أئمہ کرام ، اور صالحین رحمہم اللہ و حفظہم  کے احوالء زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں  تو وہ لوگ  اِس سنت مبارکہ پر اتنی کثرت سے عمل پیرا نظر آتے ہیں کہ اگر اُن کا ذِکر ایک جگہ جمع کیا جائے تو بہت موٹی سی کتاب بن جائے ، مثال کے طور پر :::
::::::: ایک دفعہ ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ عرب کے مشہور اور محبوب شاعر فرزدق سے ملے تو اُسے نصیحت فرمائی کہ """ اے میرے بھتیجے ، میں دیکھتا ہوں کہ تُمہارے دونوں پاؤں بہت چھوٹے ہیں لہذا  تم جنّت میں اُن کے لیے جگہ ختم نہ کرو """ یعنی اپنے اشعار میں جو گناہ آلود باتیں تم کرتے ہواُن سے باز آ جاؤ اور اپنے لیے جہنم کی بجائے جنّت میں جگہ بناؤ ،
سبحان اللہ کتنی مختصر سی نصیحت ہے اور کس قدر بڑی بات ہے ،   
::::::: عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ ایک دفعہ ایک جگہ سے گذر رہے تھے کہ گانے بجانے کی آواز  آئی ، آواز والی طرف دیکھا تو  نوجوانوں کے ایک ٹولے کے درمیان ایک نوجوان کو ساز بجا بجا کر گاتے ہوئے پایا ،  اُن لوگوں کے قریب سے گذرتے ہوئے فرمایا """" ما أحسنَ هذا الصَّوت لَو كان بقراءةِ كتابِ الله ::: کیا ہی اچھی تھی یہ آواز اگر اللہ کی کتاب کی قرأت کے لیے ہوتی """،  اور اپنا سر منہ ُ  اپنی چادر میں لپیٹ کر وہاں سے چلے گئے ،
کتنی مختصر سی لیکن کس قدر جامع نصیحت فرمائی اور کس قدر پیارے اسلوب میں کہ براہ راست گناہ گار کو کچھ بھی نہیں کہا ،  لیکن دیکھیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے  اِس تھوڑے سے الفاظ والی نصیحت کا اثر کس قدر عظیم کر دِیا ،
عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کو آتے دیکھ کر تقریباً سب ہی لوگ اُس محفل سے دُور ہو گئے تھے ، گانے والے فنکار (آرٹسٹ ) کو یہ بات اچھی نہ لگی تھی ، اور اُس نے یہ بھی محسوس کیا تھا کہ جِس شخص کی وجہ سے اُس کے دوست اور پرستار اُس کی محفل سے دُور ہوئے تھے ، وہ شخص کچھ کہہ کر بھی گذرا ہے ، تو اُس گلوکار و فنکار نے اپنے دوستوں سے پوچھا اُس شخص نے کیا کہا ہے ؟
جو کچھ عبدا للہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ  نے فرمایا تھا دوستوں نے بتا دیا،،،گانے والے نے پوچھا ، یہ شخص  تھا کون ؟
لوگوں نے بتایا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے صحابی عبداللہ ابن مسعود ،
گلوکار و فنکار کے انندر کا سچا مُسلمان جاگ اُٹھا ، اُس نے اپنے ساز اِس قدر زور سے زمین پر پھینکے کہ ٹوٹ ہی گئے ، اور وہ دوڑتے ہوئے عبداللہ ابن مسعود کے پاس پہنچا اور اپنا رومال جو کہ گاتے ہوئے وہ فرط طرب میں لہرا کرتا تھا ، اپنے ہی گلے میں ڈال کر کس لیا ، اور رونے لگا ،
عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ نے اُس کا رومال کھولا اور خود بھی رونے لگے اور کہا """ میں اُس سے کیسے محبت نہ رکھوں جسے اللہ نے محبت کی """ اس کے بعد وہ گلوکار و فنکار دُنیائے طرب و شہرت کو چھوڑ کر  اپنے ناصح عبداللہ ابن مسعود  رضی اللہ عنہ ُ کا باقاعدہ اور مستقل  شاگردبن گیا ،  اور اُن سے احادیث روایات فرمائیں اور قران کریم کے علوم میں سے وافر حصہ پایا یہاں تک علوم ء قران کے إِماموں میں شمار ہوا، ،،،، آپ جانتے ہیں کہ وہ کون تھا ؟؟؟
جی اُن کا نام زاذان الکِندی  ہے ، إِمام زاذان ابو عُمر الکِندی  رحمہُ اللہ،  
اِن دو مذکورہ بالا واقعات میں ہمیں دو بڑے أہم سبق ملتے ہیں :::
::::: (1) ::::: نصیحت کرنے کے ایک اور انتہائی طاقتور اور پر اثر اسلوب کا سبق ،
اور وہ یہ کہ کسی کو نصیحت کرتے ہوئے ،ایسا انداز اپنانا چاہیے جو شیطان کو یہ موقع نہ دے کہ وہ اُس شخص کی معاشرتی حیثیت کو نصیحت قبول کرنے سے روکے رہنے کا سبب بنا دے ، یعنی نصیحت ایسے انداز میں نہ کی جائے جس میں کسی کو اُس کی بے عزتی یا توہین محسوس ہو ، اور خاص طور پر اگر آپ کے سامنے کوئی ایسی شخصیت ہو جو کسی بھی طور کوئی غیر معمولی معاشرتی حیثیت رکھتا ہو تو  اُسے نصیحت کرتے ہوئے اِس معاملے پر خصوصی توجہ رکھنا چاہیے ، کیونکہ اگر شیطان اُس شخص کو اُس کی عِزت و رُتبے وغیرہ کے چکر میں ڈال دے تو بسا اوقات  وہ شخص حق کا اِنکار کر کے ہمیشہ ہمیشہ نقصان پانے والوں میں سے ہو جاتا ہے ، 
اللہ جلّ و عُلا نے ہمیں یہ حقیقت اِن الفاظ میں سمجھائی ہے کہ (((((وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ ::: اور جب اُس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ ( کی نافرمانی اورعذاب)سے بچو تو اُس کی عِزت اُسے گناہ کے ساتھ تھام لیتی ہے ، پس اُس کے لیے جہنم کافی ہے جو کہ یقیناً بہت ہی برا ٹھکانہ ہے)))))سُورت البقرہ(2)/آیت 206،
اور إِمام الشافعی رحمہُ اللہ نے فرمایا ہے  """ تعمدني بنُصحكَ في انفرادي ..... وجَنبَني النَّصيحة في الجماعةِ
فإن النُّصحَ بينَ الناسِ نوعٌ ..... مِن التوبيخِ لا أرضىَ استماعه"""،  یعنی ، مجھے  علیحدگی میں اپنی نصیحت سے نوازو، اور لوگوں کے درمیان مجھے نصیحت کرنے سے دُور رہو ، کیونکہ لوگوں کے درمیان میں نصیحت کرنا ، ڈانٹ ہوتا ہے اور میں اُسے سُننا پسند نہیں کرتا، 
::::: (2) ::::: نصیحت ایسے انداز میں ہونی چاہیے جس میں جھگڑے  اور بحث کا عنصر نہ ہو ، کیونکہ بحث عموماً جھگڑے کا انداز لیے ہوتی ہے اور عموماً محض اپنی اپنی باتیں درست دِکھانے کے لیے ہوتی ہے نصیحت کے لیے نہیں ہوتی ، اور اگر کوئی شخص نصیحت کے لیے کر بھی رہا ہو تو اُس کا اثر نصیحت کی طرح نہیں ہو پاتا کیونکہ اُس کا اسلوب نصیحت کی طرح رہ نہیں پاتا ، بلکہ جھگڑا اور کٹ حجتی ہو جاتا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس کی خبر یوں فرمائی کہ (((((وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ  ::: اور وہ لوگ کہنے لگے کہ بھلا ہمارے معبود اچھے ہیں یا عیسیٰ ؟ اُن لوگوں نے عیسیٰ کی جو یہ مثال آپ کے لیے بیان کی ہے توصرف جھگڑا کرنے کے لیے (نہ کہ حق سمجھنے یا ماننے کے لیے ، لہذا)حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو ))))) سورت الزُخرف / آیت85،
یہی بات ہمیں اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جن کی ز ُبان مبارک وحی کے مطابق ہی کلام فرماتی تھی نے  اِسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں سمجھاتے ہوئےاِرشادفرمایا(((((ما ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هدي كَانُوا عليه إلا أُوتُوا الْجَدَلَ ثُمَّ تَلَا هذه الْآيَةَ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ::: کوئی قوم ہدایت ملنے کے بعد صرف جھگڑوں میں پڑنے سے ہی  گمراہ ہوتی ہے ، اور پھر اُنہوں نے یہ  آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ،  بلکہ وہ لوگ ہیں ہی جھگڑالو)))))سُنن ابن ماجہ /حدیث 48/باب 7، سنن الترمذی ، مُسند احمد /حدیث 22218 ،22311،حدیث صحیح ہے ، المشكاة المصابیح بتخریج الامام الالبانی /حدیث 180،
پس نصیحت کرنے والوں کو یہ معاملات اپنی نظر میں رکھنے چاہیے ، اُنہیں چاہیے کہ اگر وہ نصیحت کرنا چاہتے ہوں تو حتیٰ الامکان جھگڑے والی بحث سے گریز کریں ،
::::::: جھگڑے یا بات کو نہ ماننے کےعمومی اسباب میں سے یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسرے کو بولنے کا موقع ہی نہ دیا جائے ، اُس کی بات کاٹی جائے ، اُس کی بات کو شور کرتے ہوئے یا اپنی ہی بات کا تکرار کرتے ہوئے دبانے کی کوشش کی جائے ، تو اِس کا بہت منفی اثر مرتب ہوتا ہے جو نصیحت یا فائدہ مندبات کو بھی دوسرے کے لیے ناقابل قبول یا نفرت انگیز بنا دیتا ہے ، اور ایسا کرنے والے کی شخصیت اپنی خوبیوں کے باوجود پسندیدہ نہیں رہتی ، اور لوگ ایسے شخص کی بات سننے ، اُس سے بات کرنے سے گُریز کرتے ہیں ، جو کسی اور سے پہلے خُود اُس  شخص کے لیے ہی نُقصان کا باعث ہوتا ہے ، پس نصیحت کرنے والے کو ، اچھی بات سمجھانے کی کوشش کرنے والے کو اِس معاملے  کا بھی خُوب خیال رکھنا چاہیے کہ اگر واقعتا وہ نصیحت ہی کرنا چاہتا ہے ، کسی کو کوئی اچھی بات سمجھانا ہی چاہتا ہے تو صرف اپنی ہی سنا سنا کر دوسرے کی عزت ء نفس کو مجروح کرنے کی کوشش سے باز رہے ،
جی اگر وہ بحث برائے بحث یا اپنی ذات یا اپنے معاشرتی رتبےیا اپنے مذھب ومسلک جماعت و گروہ  وغیرہ کی تائید و نصرت کے لیے بات کرتا ہے تو پھر ایسی غیر اخلاقی حرکات کا سر زد ہونا سمجھی سمجھائی بات ہے ، لیکن پھر بھی ایسی حرکات  کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہر عقلء سلیم رکھنے والا ایسے شخص کی علمی کمزوری بھانپ لیتا ہے ، اور اُس کی بد اِخلاقی کو جان لیتا ہے ،   
::::::: چونکہ نفوس مختلف اِقسام کے ہیں ، اور عام طور پرنصیحت والی بات قبول کرنا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر دینی معاملات میں ، کیونکہ دین ہی ایسا بےچارہ ہو چکا ہے کہ ہر کوئی اُس سے متعلق اَحکام و معاملات اپنی اپنی سوچ و فکر اور  خواھشات کے مطابق سمجھنے میں خود کو آزاد سمجھتا ہے ،
:::::::بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے دیے گئےواضح  احکام کی موجودگی میں کی گئی نصیحت کی بات کو دِل سے ٹھیک ماننے کے باوجود کچھ لوگ کچھ ذاتی اَسباب کی بنا پر اُس کو نہیں مانتے ، گو کہ نصیحت کا نہیں بلکہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِرسال کردہ دلائل کا اِنکار کر دیتے ہیں ، کہ اُن کی بات درست ثابت ہو اور جو کچھ مد مقابل ہے غلط ثابت ہو ،
  اللہ جلُ جلالہ ُ  نے ایسے لوگوں  کوفسادی قرار دیا ہے اور اُن کے بُرے انجام کی خبر دیتے ہوئے  اِرشاد فرمایا (((((وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّاۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ::: اور بےانصافی اور غرور سے اُن(یعنی اللہ کی نشانیوں)کا اِنکار کیا لیکن اُن(اِنکار کرنے والوں) کے دِل اُن (نشانیوں)کو مان چکے تھے، سو دیکھ لو فساد کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا)))))سورت النمل /آیت14 ،
::::::: ابلیس اور اُس کے ساتھی عموماً ایسے ہی لوگوں کو استعمال کرتے ہوئے اُن کے دلوں میں  طرح طرح وسوسے ڈال کر سیدی سادھی واضح نصیحت پر بھی بحث شروع کروا دیتے ہیں ،
 لہذا  اگر نصیحت کے جواب میں ایسی بحث شروع ہو جائے جو جھگڑے کی صُورت اختیار کرنے لگے تو ایک اچھے ناصح  یعنی نصیحت کرنے والے ، اور داعی الی الحق  یعنی حق کی طرف دعوت دینے والے کو یہی چاہیے کہ وہ اپنی بات کو صحیح مقبول شرعی دلائل تک محدود رکھے اور برائی کا جواب برائی سے نہ دے ،
اِس کی بات اور بحث  اسلامی عِلمی اور اِخلاقی حدود سے خارج نہ ہونے پائے (((((ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ::: (اے رسول) آپ لوگوں کو اپنے رب کی راہ کی طرف حِکمت اور اچھے،دانش مندانہ،نرم  اورنصیحت آمیز بات کے ذریعے بلایے ، اور اُن سے(اسی)اچھے طریقے سے  مناظرہ کیجیے، یقیناً آپ کا رب اُسےجانتا ہے جو اُس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور اُسے بھی جانتا ہے جو ہدایت پر ہیں )))))سُورت النحل(16) /آیت 165،  
:::::::پس نصیحت کرنے والے کا ھدف نصیحت کرنا رہنا چاہیے ، نا کہ اپنی بات کی درستگی کے لیے جھگڑا ، اور اگر کبھی کوئی ضدی جاھل قسم کا شخص بحث کرنے لگے تو بھی نصیحت کرنے والے کو اُس کی ضد اور جہالت کو ذاتی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے ، بلکہ مقبول شرعی دلائل کے ساتھ اُس کا جواب دے کر اپنی نصیحت پیش کرتے رہنا چاہیے ، تا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی نصیحت کو  سبب بنا کر دوسروں کو  کسی جاھل کی جہالت، کسی دھوکے باز کی دھوکہ دہی ، کسی ضِدی کی ضِد ، کسی اَنا پرستی کی اَنانیت ، کسی باطل کو حق کی تلبیس کرنے والے کی تلبیس  وغیرہ سے محفوظ رکھے ،  
دو جلیل القدر ، عظیم المرتبہ صحابیوں رضی اللہ عنہما کے مذکورہ بالا دو واقعات ، اور اُن سے پہلے اُن کے استاد کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نصیحت کرنے کے انداز میں سے ملنے والے اَسباق پر مختصر سی بات کے بعد میں اُنہی کی روشنی میں ایک دو اور نکات پر کچھ عرض کرتے ہوئے اپنی یہ بات ختم کروں گا ، اور وہ نکات یہ ہیں کہ :::
::::::: کبھی یُوں بھی ہوتا ہے کہ جسے نصیحت کی جاتی ہے وہ شخص نصیحت قبول کرنے کے سلسلے میں کچھ بہانے ، کچھ عُذر پیش کرتا ہے ،جو کسی طور کچھ مضبوطی نہیں رکھتے، بلکہ حقیقت میں اِس بات کی دلیل ہوتے ہیں کہ وہ شخص دِل سے تو اُس نصیحت کو مان چکا ہے لیکن اُس پر عمل کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ رکھتا ہے ، جس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں ، اور عام عمومی سبب """ لوگ کیا کہیں گے؟ """ ہوتا ہے ،
پس ناصح یعنی نصیحت کرنے والے ، اور داعی الی الحق یعنی حق کی طرف دعوت دینے والے  کو یہ  بھی خیال رکھنا چاہیے ایسے عُذر پیش کرنے والے کی طرف سے مایوس نہ ہو ، اور نہ  ہی اُس پر سختی کرے بلکہ اُس کے بیان کردی اَسباب کو سمجھا جائے اور عُذر پیش کرنےوالےکو اُن اَسباب سے نجات حاصل کر کے نصیحت پر عمل کرنے میں مدد کی جائے ،
::::::: بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ جسے نصیحت کی جائے وہ جواب میں نامناسب اِلفاظ استعمال کرتا ہے ، ایسے الفاظ جو شرعی طور پربھی اور اِخلاقی طور پر بھی نا مُناسب ہوتے ہیں، تو ایسی صُورت میں ناصح کو چاہیے کہ وہ اُس شخص کو شدید یا اُسی طرح کے نا مناسب اِلفاظ میں جواب دینے کی بجائے اُس کی اُس بیماری کا بھی اچھے طریقے سے علاج کرنے کی کوشش کرے ، اور اپنی نصیحت میں مُستمر رہے ، اور اللہ سے دُعا بھی کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی کوششوں کو قبول کر ے ، اور اس کا نتیجہ دُنیا اور آخرت میں اس کا مثبت نتیجہ عطاء فرمائے۔
 و السلام علیکم۔طبگارء دُعا ء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 14/ZulQada(11)/14331،،،بمطابق 22/10/2010 عیسوئی ،
تاریخ نظر ثانی : 28/Muharam(01)/14335،،،بمطابق 02/12/2013 عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون  کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔