Monday, November 27, 2017

::: خادم حسین رضوی کا اندازء کلام ، حمایت اور اُس کا جواب :::

::: خادم حسین رضوی کا  اندازء کلام  ، حمایت اور اُس کا  جواب  :::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ     
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
پچھلے کچھ دِنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت، تعظیم اور نبوت کے تحفظ کے نام پر اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تعلیمات کے خِلاف کئی لوگوں کے جان، مال اور عِزتوں میں تصرف کرنے والی ایک اور شخصیت  ’’’ خادم حسین رضوی صاحب  ‘‘‘کا ظہور  بڑی شد و مد سے ہوا ہے ، حتیٰ کہ  اُن صاحب کے بارے میں خوابی بشارتوں  کے قصے سنائے جا رہے ہیں ،
محبت ء رسول کے دعوی ٰ دار اِن صاحب کے کلام میں کِسی کو گالی دینا معمولی سا  کام ہے ، اور حسبء معمول اِن کو بھی ایسے عقیدت مند اور مرید میسر ہیں جو اپنے ’’’ پیر و مُرشد‘‘‘ کے ہر عمل کو جائز قرار دینے کی ’’’ سعادت‘‘‘ پانے میں مشغول رہتے ہیں ،
خادم حُسین رضوی صاحب کے کِسی ایسے عقیدت مند نے بھی ایسی ایک کوشش کرتے ہوئے قران ، حدیث اور صحابہ  رضی اللہ عنہم کے افعال میں  کچھ دلائل پیش کر کے اپنے ’’’ حضرت‘‘‘ کی گالی گلوچ  اور بد ز ُبانی کو جائز بنانے کی کوشش کی ،
ایک بھائی نے مجھے اُن مرید صاحب کا لکھا ہوا اِرسال کیا ، اور اُس کی حقیقت حال کے اظہار کی خواہش بھی ،
جب میں نے اُسے پڑھا تو احساس ہوا کہ مرید صاحب کی اِس کوشش کی حقیقت  کا حال زیادہ سے زیادہ  مُسلمانوں تک پہنچایا جانا چاہیے ، لہذا  اِسے  برقی میڈیا کے مختلف مُقامات پر پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں   ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکھا گیا ہے کہ :::
اکثر ناواقف لوگ خادم حسین رضوی مدظلہ العالی کے متعلق کہتے ہیں ،،
کہ وہ گالیاں دیتے ہیں اور سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں. کیا کبھی یہ بھی سوچا اور غور کیا کہ وہ سخت لہجہ کن کیلئے اپناتے ہیں؟ جو کہتے ہیں کہ گستاخوں اور منافقوں کیلئے بھی سخت لہجہ استعمال نہیں کرنا چاہیئے تو میرا ان سے سوال ہے کہ اس معاملے میں صرف رضوی پر ہی تنقید کیوں؟
ان کے بارے میں بھی بتائیں کہ یہ سب کیا ہے؟
1. اللہ نے قرآن میں گستاخِ رسول ولید بن مغیرہ کیلئے 10 برائیاں بیان کی اور آخر میں دسویں بات یہ کی کہ "اس کی اصل میں خطا ہے"
(سورۃ قلم)
میں نے اعلیٰ حضرت کا ادب والا ترجمہ کیا ورنہ وہ لوگ خود اس کا معنیٰ سمجھ سکتے ہیں.
اب مجھے بتائیں کہ کیا اللہ کو بھی وہ لوگ اخلاق سکھائیں گے؟ کیا اللہ پر بھی گالیاں دینے کا فتویٰ لگائیں گے؟
::: جواب :::
اللہ جلّ و عُلا خالق و مالک ہے ، اپنی مخلوق میں سے جِس کا جِس انداز میں چاہے ذِکر فرمائے ، اللہ تعالیٰ  کے اقوال و اعمال اللہ پاک کے اُس کی مخلوق کو دیے جانے والے  احکام پر عمل میں سے استثناء مہیا  نہیں  کرتے ، اللہ جلّ جلالہُ کے اقوال و اعمال اُس کے لیے خاص ہیں ، مخلوق کو اپنے رب کے احکام کی تعمیل کرنی ہے ، نہ کہ تعمیل میں کوتاہی  اور اپنی نافرمانی کے لیے رب سُبحانہ ُ و تعالیٰ  کے ذاتی افعال و اقوال کو دلیل بنا کر  اپنی کوتاہی اور نافرمانی   کو دُرُست دِکھانے کی کوششیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2. ابوجہل کا اصل نام کچھ اور تھا اس کا نام بدل کر ابو جہل یعنی جاہلوں کا باپ کس نے رکھا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے. کیا اب حضور کو بھی اخلاق سکھائیں گے جو خود اخلاق کے پیکر بن کے دنیا سے ظاہری وصال فرما کے تشریف لے گئے!
::: جواب :::
پہلی بات تو یہ کہ عربی لُغت و اسلوب ء کلام کے مُطابق ’’’ ابو جہل ‘‘‘    کا  ترجمہ ، معنی   ٰ یا مفہوم کچھ بھی ’’’ جاہلوں کا باپ ‘‘‘ نہیں بنتا ،  بلکہ ’’’ جہالت والا ، جاھل ، شدید جاھل ‘‘‘ بنتا ہے ،
جیسا کہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ’’’ ابا تراب ‘‘‘ کہا ،  تو کیا معاذ اللہ اِس کا ترجمہ یا معنی و مفہوم  ’’’ مٹی کا باپ ‘‘‘ ہے ،
جی نہیں ، اور ہر گز نہیں ، بلکہ ’’’ مٹی والا‘‘‘ ہے ،
ہمارے  نبی اکرم محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کائنات میں سب سے بڑھ کر بہترین اخلاق اور کِردار والے تھے ، ابو جہل کو ابو جہل یعنی جہالت والا اُس کے حق سے اِنکار اور عداوت کی بنا پر قرار دِیا ، یہ کوئی گالی نہیں ، اُس شخص میں پائی جانے والی ایک صِفت کا اظہار ہے ، جو حق ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ابو جہل کو یہ لقب دینا ، اُن کے کِسی اُمتی کے لیے کِسی کو گالیاں دینے کی کوئی دلیل نہیں ،
زیاد سے زیادہ اِس سے یہ دلیل لی جا سکتی ہے کہ آپ بھی حق کے کِسی منکر اور دُشمن کو جہالت والا، جہالت زدہ کہہ لیجیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3. حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کہا "اپنے لات (بُت) کی شرمگاہ چُوس.
(بخاری)
بتائیں یہ کیا ہے؟ کیا اب حضرت ابوبکر کو بھی اخلاق سکھانے پڑیں گے جو افضل البشر بعد الانبیاء ہیں؟
::: جواب :::
افسوس کہ واقعہ کو اُس کے سیاق و سباق کے بغیر ذِکر کر کے اپنے مطلب کی بات کی دلیل بنانے کی کوشش کی گئی ،
اِس واقعے پر منکران و معترضینء حدیث بھی شور مچاتے ہیں ، الحمد للہ اُس کا تفصیلی جواب ایک الگ مضمون کی صورت میں موجود ہے ،
یہاں صِرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ’’’ أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  نے کِسی مُسلمان کے ساتھ ، حتیٰ کہ کِسی کافر کے ساتھ بھی کبھی اس قِسم کے اِلفاظ اِستعمال کرتے ہوئے بات نہ کی نہ قبل از اِسلام اور نہ اِسلام قُبُول کرنے کے بعد ،  جو اِس بات کا ایک ناقابل رد ثبوت ہے کہ اِس ایک موقع پر ، صِرف ایک ہی دفعہ ، اِس قِسم کے شدید  اِلفاظ خاص سبب کی وجہ سے اِستعمال کیے گئے ، اور خاص حِکمت کی وجہ سے اِستعمال کیے گئے ‘‘‘،
اِس واقعہ میں بھی کِسی کی گالی گلوچ اور بد ز ُبانی کی عادت کو جائز قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
4. جنگِ بدر کے بعد ایک شخص مکہ سے مدینہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے آیا، حضور مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے اور حضرت عمر صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت مسجد کے باہر کھڑے بدر کی نعمتوں کا ذکر کررہے تھے، وہ شخص جیسے ہی اندر جانے لگا حضرت عمر نے دیکھ کر فرمایا پکڑو پکڑو اس کتے کو.
(البدایہ والنہایہ)
بتائیں یہ کیا ہے؟ اب کیا حضرت عمر کو بھی اخلاق سکھانے پڑیں گے جن کے بارے میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "عمر کی زبان سے حق جاری ہوتا ہے" اور فرمایا ہے کہ "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا"؟
::: جواب :::
قطع انظر اِس کے کہ یہ واقعہ صحیح ثابت شدہ ہے یا نہیں ، اور قابل حُجت ہے کہ نہیں ،  اِس واقعہ میں بھی کِسی کی گالی گلوچ اور بد ز  ُبانی کی عادت کو  جائز بنانے کی کوشش کی کوئی دلیل نہیں ،
یہ واقعہ عمیر بن وھب رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں ہے جب وہ مسلمان نہ ہوئے تھے ، اور جس اِرادے سے وہاں  آئے تھے اُس کو بھانپتے ہوئےعمر رضی اللہ عنہ ُ نے اُن کے بارے میں اپنے ساتھیوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’’ هذا الكلب عدو الله عمير بن وهب ما جاء إلا لشر::: یہ کتا ، اللہ کا دُشمن عمیر بن وھب ہے ، یہ شر کے لیے ہی آیا ہے  ‘‘‘ ،
اُس وقت عمیر بن وھب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو قتل کرنے کے اِرادے سے آئے تھے ، کافر تھے ، اُن کے اُس بد ارادے کی وجہ سے اللہ سے دُشمنی کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ ُ نے یہ الفاظ ادا کیے ،
کیا کبھی کِسی اور کو ، اور خاص طور پر کِسی کلمہ گو کو ایسے الفاظ کہے ؟؟؟
قطعا نہیں ، تو پھر کِسی کی عادی  گالی گلوچ ،ا ور بد ز ُبانی کو جائز قرار دینے کے لیے اِس ایک اکلوتے واقعے کو دلیل بنانے کی کوشش چہ معنی دارد ؟ ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  
5. حضرت ابوبکر کے بیٹے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ مروان کو لعنتی کا بیٹا کہا.
(تاریخ الخلفاء)
بتائیں یہ کیا ہے؟ اب کیا حضرت ابوبکر کے بیٹے کو بھی اخلاق سکھانے پڑیں گے؟
::: جواب :::
ایک دفعہ پھر نامکمل بات ، عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہما نے  مروان کو براہ راست اور خود ’’’ لعنتی کا بیٹا ‘‘‘نہیں کہا ، بلکہ ، یہ  جب مروان نے عبدالرحمن پر والدین کا گستاخ ہونے کوا لزام لگایا تو اُسے اُس کی  اوقات یاد دلواتے ہوئے کہا کہ ’’’ ألست ابن اللعين الذي لعن أباك النبي صلى الله عليه وسلم؟::: کیا تم  وہی لعنتی کے بیٹے نہیں ہو  جس کے باپ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی تھی ؟ ‘‘‘،
اس واقعے میں صاف پتہ چل رہا ہے کہ عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ نے کِسی کو کوئی گالی نہیں دی، بلکہ جو کچھ انہوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سنا تھا اُس کے مُطابق مروان کو یاد دلایا کہ وہ کِسی دوسرے پر کوئی الزام تراشی  کرنے سے پہلے یہ یاد  رکھے کہ اُس کے باپ پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے لعنت کی تھی ،
اِس واقعے میں کِسی مُسلمان کے لیے ایسی کوئی دلیل نہیں جس کو بنیاد بنا کر وہ  دُوسروں کو گالی گلوچ کرنے کو جائز قرار دے  ۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر میں لکھا گیا :::
بتائیں یہ سب کیا ہے اور یہ کیا کیا کہا ان ہستیوں نے؟ کیا اب صحابہ کو بھی اخلاق سکھائیں گے وہ لوگ؟ کیا ان کو اخلاق و آداب نہیں تھے معلوم؟ ادھر کیا فتویٰ ہے تنقید کرنے اور نرم لہجہ استعمال کرنے کا مشورہ دینے والوں کا؟
فقط ایک ہی بات!
جب حضور کی بات آئے تو نرم لہجہ نہیں اپنایا جاسکتا.
::: جواب :::
اِن سب سوالات کے  جوابات گذر چکے ،  سوائے آخر بات کے ، کہ ’’’ جب حضور کی بات آئے تو نرم لہجہ نہیں اپنایا جاسکتا ‘‘‘ ،
تو اِس کا جواب یہ ہے کہ ، سخت لہجہ گالی گلوچ اور غیر اخلاقی اِلفاظ کے بغیر بھی اپنایا جا سکتا ہے ، لہجے کی سختی کچھ اور ہے اور بد ز ُبانی کچھ اور ،
رسول الله صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم   نے تو اِرشاد  فرمایا ہے کہ  (((لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلاَ اللَّعَّانِ وَلاَ الْفَاحِشِ وَلاَ الْبَذِىءِ::: إِیمان والا نه تو طعنےدینے والا هو تا هے اور نه هی لعنت کرنے والا ، اور نه هی بدکلامی  کرنے والا ،اور نه هی بے حیائی کی باتیں کرنے والا)))سُنن الترمذی/کتاب البر والصلۃ    / باب 48 کتاب مَا جَاءَ فِى اللَّعْنَةِ ،  
اور یہ بھی بتایا ہے کہ  (((مَا شَىْءٌ أَثْقَلُ فِى مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَيَبْغَضُ الْفَاحِشَ الْبَذِىءَ::: قیامت والے دِن  اِیمان والے کے ترازو میں خوش اِخلاقی سے بڑھ کر وزنی کوئی اور چیز نہ ہو گی، اور بے شک اللہ بد کلامی  کرنے والے اور بے حیائی والی بات کرنے والے سے نفرت کرتا ہے))) سُنن الترمذی/کتاب البر والصلۃ    / باب 62 مَا جَاءَ فِى حُسْنِ الْخُلُقِ،  
میرے محترم ، کلمہ گو بھائیوں ، بہنوں ، اچھی طرح سے سمجھ لیجیے ، اور پھر اِسے یاد رکھیےکہ   جِس کا اخلاق تباہ ہے ، گالی گلوچ اور بد ز ُبانی کرنے والا ہے ، وہ مذکورہ بالا حدیث شریف کے مُطابق اللہ کی نفرت پانے والا ہے ، اللہ کا ولی یا مُقرب نہیں ہو سکتا ، 
دِلوں کے حال اللہ ہی جانتا ہے ، لیکن ظاہر کے احوال باطن کی خبر بھی دیتے ہیں ،
محبتء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دِل میں ہو تو ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت ظاہر نہیں ہوتی،
پس بہن ، اپنے لیے راہنما ، خصوصاً دِینی راہنما اختیار کرتے ہوئے اِس بات بھی خیال رکھیں کہ وہ شخصیت نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات پر کِس قدر عمل پیرا ہے ، قصوں ،کہانیوں ، خوابوں اور جذباتی نعروں کی دُھند میں اپنی دُنیا اور آخرت کے نقصان والی راہ نہ اپنائیں ،
اپنی محبت ء رسول  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ، اپنی اطاعت ء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی کسوٹی پر جانچیے، ختم نبوت کا تحفظ کرتے کرتے کِسی اور کوئی نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا پرتَو (اوتار) نہ ماننے لگیے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر پانے اور خیر پھیلانے والوں میں سے بنائے ،
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و  برکاتہ ،
طلب گارء دعاء ،
آپ کا بھائی ،
عادِل سُہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 07/03/1439ہجری، بمُطابق، 25/11/2017عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درج ذیل ربط پر ملا حظات اور تبصرہ جات بھی موجود ہیں ، اور مزید  کی سہولت بھی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, November 16, 2017

::: کیا کوئی جمعہ کالا بھی ہوتا ہے؟ یا، ہو سکتا ہے ؟ :::


::: کیا کوئی جمعہ کالا بھی ہوتا ہے؟ یا، ہو سکتا ہے ؟  :::

بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔

شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور(لیکن اُس شخص نے)اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
ہمارے مُسلم مُعاشرے میں عموماً اور ہمارے پاکستانی مُعاشرے میں خصوصاً   کِسی معاملے کِسی سوچ و فِکر کی حقیقت جانے بغیر ، اُس کے منفی اثرات کی طرف توجہ کیے بغیر ہم لوگ بس مغرب کی نقالی  کی ہی فِکر رکھتے ہیں ،
خواہ اُس نقالی میں ہم اپنے اللہ اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تکذیب کے ہی مرتکب ہوتے رہیں ،
ایسی حرکات میں سے ایک ’’’ کالا جمعہ : Black Friday‘‘‘ منانا بھی ہے ،
قطع نظر اِس کے کہ اِس کی شروعات کا سبب کیا رہا ؟ اور قطع نظر اِس کے کہ کِسی جمعہ کو کالا قرار دینے  ، یا کہنے کا سبب کیا رہا ؟
ہمارے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم مُسلمانوں کے لیے جمعہ ایک انتہائی مُبارک دِن قرار دِیا گیا ہے ، اور قرار دینے والے اللہ عزّ و جلّ ، اور اُسی کی وحی کے مُطابق اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہیں ،
اور ہم اغیار کی نقالی میں اِس مُبارک دِن کو کالا ماننے ، اور کہنے کو تیار ہیں ،
میرے مُسلمان بھائی ، بہنو، جمعہ کے دِن کی فضیلت میں بہت سی صحیح ثابت شدہ خبریں عطاء کی گئی ہیں ،  مگر افسوس کہ ہم اُن سے بے خبر ہیں ، اور اگر خبر دار ہوتے ہوئے بھی جمعہ کو کالا ماننے اور کہنے سے گریزاں نہیں تو یہ بے خبر ی سے کہیں زیادہ افسوس ناک ہے ،
آیے مختصر طور پر جمعہ کی فضیلت اور برکت کی خبریں پڑھتے ہیں :
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے جمعے کے دِن  کے ایک حصے کو  خصوصی طور پر عِبادت کے لیے  مخصوص قرار دیتے ہوئے ، اِس دِن کو باقی دِنوں پرافضلیت دیتے ہوئے، اور اِیمان والوں کو پکارتے ہوئے  اِرشاد فرمایا ہے کہ (((يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ :::  اے اِیمان لے آنے والو، جب تمہیں جمعے کے دِن میں نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذِکر کی طرف جلدی کیا کرو، اور خرید و فروخت چھوڑ دِیا کرو، اگر تم (حقیقت ) جانتے ہو تو سمجھ جاؤ  کہ یہ ہی  تم لوگوں کے لیے خیر والا ہے )) )سُورت الجمعہ (62)/آیت 9،
اور جمعے کے دِن کے بارے میں  اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان شریف سے درج ذیل خبریں ادا کروائی ہیں :
::: (1) :::   (((خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ فِى يَوْمِ الْجُمُعَةِ::: جِن دِنوں پر سورج طلوع ہوتا ہے اُن میں سب سے بڑھ کر خیر والا دِن جمعے کا دِن ہے ، اِسی دِن آدم (علیہ السلام) کی تخلیق فرمائی گئی، اور اِسی دِن اُنہیں جنّت میں داخل کیا گیا، اور اِسی دِن اُنہیں جنّت سے نکالا گیا ، اور قیامت جمعے کے عِلاوہ کِسی اور دِن قائم نہ ہو گی))) صحیح مُسلم /حدیث /2014کتاب الجمعہ /باب 6 فَضْلِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ ،
::: (2) :::   (((  فِيهِ سَاعَةٌ لاَ يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ ، وَهْوَ قَائِمٌ يُصَلِّى ، يَسْأَلُ اللَّهَ تَعَالَى شَيْئًا إِلاَّ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ  ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ يُقَلِّلُهَا :::  اُس( یعنی  جمعہ  کے دِن ) میں ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ اگر اُس میں کوئی مُسلمان  دل جمعی کے ساتھ ، اللہ  تعالیٰ سے  کِسی چیز کا سوال کرے تو اُسے  وہ چیز ضرور دی جاتی ہے ، اور(وقت کی مقدار کے تھوڑے سے ہونے کا) اپنے ہاتھ مُبارک سے اِشارہ فرمایا  ))) صحیح بخاری /حدیث /935کتاب الدعوات /باب 37 فِى السَّاعَةِ الَّتِى فِى يَوْمِ الْجُمُعَةِ ، صحیح مُسلم /حدیث /2006کتاب الجمعہ /باب 5 فِى السَّاعَةِ الَّتِى فِى يَوْمِ الْجُمُعَةِ،
::: (3) :::   (((مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوْ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ إِلاَّ وَقَاهُ اللَّهُ فِتْنَةَ الْقَبْرِ::: جو مُسلمان بھی جمعے کے دِن یا جمعہ کی  رات میں مرتا ہے تو اللہ اُسے قبر کے فتنے   سے محفوظ کر دیتا ہے ))) سُنن الترمذی /حدیث /1095کتاب الجنائز /باب 73 مَا جَاءَ فِيمَنْ مَاتَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، امام البانی رحمہُ اللہ نے ’حَسن‘ قرار دِیا ،
اے اِیمان والو، اپنے رب اللہ جلّ و عُلا ، اور اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے جمعے کی فضیلت اور برکت کے بارے میں  دی گئی اِن خبروں کے بعد بھی  کیا کوئی جمعہ کالا بھی ہوتا  ہے ؟  
یا کالا ہو سکتا ہے ؟
میرے تاجر بھائیوں کو سیلز لگانے کے لیے جمعہ کو کالا  کہنے  کی تو حاجت نہیں ، بلکہ اُسے سفید کہیے ، روشن کہیے ، اپنی دُنیا اور آخرت کے لحاظ سے اُسے اپنے اور دُوسروں کے لیے سُفید اور روشن بنایے، یقین جانیے کہ کچھ مشکل نہیں ،
اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ ہمیں اُس کی ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت گذاری کی ہمت عطاء فرمائے اور اُس اطاعت گذاری پر فخر سے جینے اور مرنے کی جرأت بھی ،
والسلام علیکم،  طلبگارء دُعاء ،
 آپ کا بھائی،  عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 26/02/1439ہجری، بمُطابق، 15/11/2017عیسوئی ۔  
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔