Friday, January 22, 2016

::::::: اپنے آپ کو اِیمان اور عقیدے کے بارے میں وسوسوں سے کیسے بچایا جائے ؟ :::::::



 ::::::: اپنے آپ کو اِیمان اور عقیدے کے بارے میں وسوسوں سے کیسے بچایا جائے ؟  :::::::


اِن اَلحَمدَ  لِلِّہِ نَحمَدُہٗ  وَ نَستَعِینُہٗ  وَ نَستَغفِرُہٗ  وَ نَعَوُذُ  بَاللَّہِ مِن  شُرُورِ  أنفُسِنَا  وَ مَن سِیَّئاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہ ُ فَلا مُضِلَّ  لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا  ھَاديَ  لَہ ُ   ،  وَ أشھَدُ  أن لا  إِلٰہَ  إِلَّا  اللَّہ  ُ  وَحدَہ ُ  لا شَرِیک   لَہ ُ ،  وَ  أشھَدْ  أنَّ مُحمَداً (صلَّی اللَّہ عَلِیہِ و عَلٰی آلِہِ وسلَّم) عَبدہٗ  وَ   رَسُولُہُ  ۔
﴿یَا أیّْھا الذَّینَ آمَنُوا  اتَّقُوا  اللَّہَ حَق َّ  تُقاتِہِ  وَ لا تَمُوتُنَّ  إِلَّا وَ أنتُم   مُسلِمُونَ
﴿يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبً 
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا O يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًاأما بعدُ ،
بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے،ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور  اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے،جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم)اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں : 
﴿اے اِیمان لے آنے والو اللہ سے بچو جیسا کہ اُس سے بچنے کا حق ہے اور مُسلمان ہونے کی حالت کے علاوہ مت مرناسُورت آل عمران(3)/آیت102،
﴿اے لوگوں اپنے رب سے بچو ، جِس نے تمہیں ایک جان سے تخلیق کیا،اور اُس ایک جان میں سے اُس کا جوڑا تخلیق کیا،اور اُن دونوں میں سے بہت سے مرد اور عورتیں کو تخلیق کیا،اور جِس(اللہ)کے نام پر مانگتے ہو(اُس)اللہ(کے غصے، اور عذاب)سے بچو ،اور رشتہ داری توڑنے سے بھی  بچو،بے شک اللہ تُم لوگوں پر نگہبان ہے سُورت النِساء(4)/آیت1،
﴿اے اِیمان لے آنےوالو اللہ(کے غصے، اور عذاب)سے بچو اور سیدھی سیدھی بات کیا کروO(اِس طرح )اللہ تعالیٰ تُمہارے کام سنوار دے گا  اور گناہ معاف فرما دے گا،اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی تابع فرمانی کرے گا تو اُس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لیسُورت الأحزاب(33)/آیات70،71،
اِس کے بعد(ہماری بات یہ ہے کہ):::
(یہ مندرجہ بالا اِلفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمودہ ہیں ، جِنہیں """خُطبۃُ الحاجۃ""" کہا جاتا ہے)
اوراب میں، عادِل سُہیل اپنی بات کا آغاز کرتا ہوں:::      
::::::: وسوسہ کا معنی   ٰ    :::::::
وسوسہ کی جمع ہے"""وساوس"""،اور وسوسہ ہر وہ خیال یا بات یا وہم و گُمان ہے جو شیطان اِنسان کے دِل و دِماغ میں ڈالتا ہے،
اِمام الراغب الاصفہانی رحمہُ اللہ تعالیٰ نے وسوسہ کا معنی   ٰ """گندہ خیال""" بتایا،
 اور اِمام البغوی رحمہُ اللہ  کا کہنا ہے"""ایسی خُفیہ بات جو بُرائی و گُمراہی کے لیے ہو"""،
اور"""ہر ایسا خیال یا بات یا وہم و گُمان جو نفس میں داخل یا واقع ہو اور جِس میں خیرو نیکی و اچھائی نہ ہو،سِوائے اِلہام کے کیونکہ اُس میں خیر ہوتی ہے اور وہ اِس لیے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور وساوس شیاطین کی طرف سے"""، 
اِمام ابن القیم رحمہُ اللہ تعالیٰ کا کہنا ہے"""نفس میں کوئی بات،خیال و گُمان وغیرہ ڈالنا ہی وسوسہ ہے یہ کام کبھی ایسی خُفیہ آواز میں بھی کیا جاتا ہے کہ جِسے وسوسہ ڈالا جا رہا ہو اُس کے عِلاہ کوئی دوسرا وہ آواز نہ سُن سکے اور کبھی بغیر آواز کے جیسا کہ شیطان بندوں کے نفس میں وسواس ڈالتا ہے"""،
وسوسہ کبھی کِسی شیطان جِنّ کا کام بھی ہو سکتاہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے﴿فَوَسوَسَ لَہُمَا الشَّیطَانُ لِیُبدِیَ لَہُمَا مَا وُورِیَ عَنہُمَا مِن سَوء َاتِہِمَا:::تو شیطان نے اُن دونوں(یعنی آدم و حوا علیہما السلام)کو وسوسہ ڈالا تا کہ اُن دونوں کی شرمگاہوں میں سے جو کچھ اُن سے چُھپا رکھا گیا تھا وہ اُن دونوں پر ظاہر ہو جائےسُورت الاعراف(7)/آیت20،
اللہ سُبحانہُ و تعالی نے وسوسہ ڈالنے والے کو"""وسواس"""نام دِیا اور بتایا کہ یہ شیطان ہی ہوتا ہے خواہ اِنسانوں میں سے ہو یا جِنّات میں سے﴿مِن شَرِّ الوَسوَاسِ الخَنَّاسِO الَّذِی یُوَسوِسُ فِی صُدُورِ النَّاسِ O مِنَ الجِنَّۃِ وَ النَّاسِ::: وسوسہ ڈالنے والے خناس کے شر سے Oجو لوگوں کے دِلوں میں وسوسہ ڈالتا ہےO (یہ وسواس خواہ)جِنّوں میں سے اور(خواہ)اِنسانوں میں سے(ہو)سُورت الناس(114)/آیات4،5،6،
کبھی کبھار وسوسہ اپنے ہی نفس کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ و عُلا نے اِرشاد فرمایا ﴿وَلَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ وَنَعلَمُ مَا تُوَسوِسُ بِہِ نَفسُہُ:::اور یقیناً ہم نے اِنسان کی تخلیق کی اور ہم وہ وسوسے جانتے ہیں جو اُس کا نفس اُسے ڈالتا ہےسُورت ق(50)/آیت16،
:::::: شیطان کی طرف سے اِیمان اور عقیدے کے بارے میں ڈالے جانے والے وسوسوں سے بچنے کے دو طریقے ہیں  :::::::

  ::: (۱) پہلا طریقہ ::: احتیاطی یا پرہیزی طریقہ ::: یعنی کِسی وسوسے کا شِکار ہونے سے بچنے کے لیے احتیاط اور پرہیز اختیار کرنا :::
 اور وہ یہ ہے کہ عقیدے اور اِیمان کے مسائل کا بڑی اچھی طرح سے چھان پھٹک کر قُران و صحیح سُنّت کے دلائل کے ذریعے عِلم حاصل کِیا جائے،اور اُس عِلم کو بڑی اچھی طرح سے مضبوطی کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھا جائے اور اُس پر عمل پیرا رہا جائے،کیونکہ اِس طرح عِلم حاصل کرنے اور اُسے ذہنی قلبی اور عملی طور پر یاد اور نافذ رکھنے والوں پر شیطان کو وسوسے ڈالنے کا موقع نہیں ملتا،
کیونکہ ،اللہ تعالیٰ کا یہ دُشمن جب کبھی بھی ایسے عِلم اور عمل والوں کو اِیمان و عقیدے کے کِسی معاملے میں وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے،اُن پر حملہ آور ہوتا ہے تو یہ لوگ اُس کے وسوسوں کو دُور کرتے ہوئے صحیح عِلم و اِیمان کی مدد سے اُس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں،اور اُسے ناکام ہو کر بھاگنا ہی پڑتا ہے،
یاد رکھیے کہ سلف الصالح رضی اللہ عنہم و رحمہم اللہ کے منھج اور فہم مُطابق قُران کریم اورصحیح ثابت شُدہ سُنّت شریفہ کا عِلم رکھنے والا ایک عالم شیطان پر بغیراِس صحیح عِلم کے عِبادات کرنے والے ہزار عبادت گُذاروں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے،
اور وہ اِس لیے کہ ایسا عالِم اللہ تعالیٰ کی ذات کو اُس کی صِفات اور اُس کی مخلوقات کے ذریعے پہچانتا اور مانتا ہے لہذاحتی الامکان اپنے رب کی تعظیم و قدر اُس کی شان کی مُطابق کرتا ہے،اور ہر حال میں اپنے واحد اور اکیلے مولا اللہ جلّ جلالہُ کے بارے میں اپنا گُمان واِیمان بہترین رکھتا ہے یہاں تک کہ اِسی بہترین اِیمان اور گُمان کی حالت میں  اُس سے جا مِلتا ہے،
::: (2) دوسرا طریقہ ::: اگر دِل و دِماغ میں کوئی وسوسہ ڈال ہی دِیا جائے تو عِلم رکھنے والا مُسلمان مندرجہ ذیل چھ ذریعے اِستعمال کر کے اللہ کی مدد اور توفیق سے اُسے دُور کر سکتا ہے:::
::: (1) پہلا ذریعہ ::: کوئی وسوسہ محسوس ہونے پر اُس میں مزید داخل ہونے سے گُریز کیا جائے بلکہ اُس سے متعلق ہر خیال اور ذریعے کو اللہ کی پناہ طلب کر تے ہوئے اپنے آپ سے دُور کر دِیا جائے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے﴿ وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیطَانِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللّہِ إِنَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌO إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوا إِذَا مَسَّہُم طَائِفٌ مِّنَ الشَّیطَانِ تَذَکَّرُوا فَإِذَا ھُم مُّبصِرُونَ::: اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ محسوس ہو تو اللہ کی پناہ طلب کیجیے ، بے شک اللہ ہی سب کچھ سننے والا اور سب ہی کچھ کا عِلم رکھتا ہے Oتقویٰ اختیار کرنے والوں کو جب شیطان کا کوئی گروہ(یا کوئی اکیلاشیطان)چُھوتا ہے تو وہ فوراً بھانپ جاتے ہیں، تو پھر وہ صاف دیکھنے لگتے ہیں (کہ اُن کے لیے بچاؤ کا راستہ کون ساہے)سُورت الاعراف(7)/آیت200،201،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعیلماتِ مُبارکہ میں بھی یہ ہی طریقہ ملتا ہے،جیسا کہ ابی ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا﴿یَأتِی الشَّیطَانُ أَحَدَکُم فیَقُول مَن خَلَقَ کَذَا مَن خَلَقَ کَذَا حَتی یَقُولَ مَن خَلَقَ رَبَّکَ فإذا بَلَغَہُ فَلیَستَعِذ بِاللَّہِ وَلیَنتَہِ:::شیطان تُم میں سے کِسی کے پاس آ کر کہتا ہے(یعنی اُس کے دِل و دِماغ میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ) فُلاں چیز کِس نے بنائی؟ فُلاں چیز کِس نے بنائی؟یہاں تک کہ یہ کہتا ہے کہ تُمہارے رب کو کِس نے بنایا ؟ اور اگر شیطان اُسے(یعنی جِس کو ایسے وسوسے ڈالے جا رہے ہوں)یہاں تک لے آئے تو وہ اللہ کی پناہ طلب کرے اور اِن وساوس کو ختم کرےصحیح البُخاری/ حدیث3102/کتاب بدء الخلق/باب11،صحیح مُسلم/حدیث134/کتاب الاِیمان/باب60،
لہذا لازم ہے کہ اپنے نفس کو وسوسوں کے خِلاف لڑنے کے لیے تیار رکھا جائے اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اللہ کے، اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  پر اِیمان لانے والوں کے،ازلی دُشمن سے جنگ کی جائے،
نہ کہ اُس کے ڈالے ہوئے وسواس کو عقل،منطق،فلسفہ،اورمادی عُلوم کے غِلاف چڑھا کر دُرُست مان لیا جائے،
اِس کام سے بھی زیادہ بُرا کام یہ ہے کہ ایسے وسواس کو مان کر پھر اُن کو دُرست ثابت کرنے کے لیے اللہ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صریح احکامات و ارشادات کی تاویلات کی جائیں اور اپنے ساتھ ساتھ دُوسروں کو بھی جہنم رسید کیا جائے،
کیونکہ اگر کوئی شیطان کے اِن وسوسوں کو تسلیم کر لیتا ہے تو لا محالہ مندرجہ ذیل تین بیماریوں کا شِکار ہو جاتا ہے،
:::(1) :::اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں شک کا شِکار ہونا ::: اور یہ کُفر و الحاد ہے ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿ إِنَّمَا المُؤمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَم یَرتَابُوا وَجَاھَدُوا بِأَموَالِہِم وَأَنفُسِہِم فِی سَبِیلِ اللَّہِ أُولَـئِکَ ھُمُ الصَّادِقُونَ ::: یقیناً اِیمان والے تو وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر اِیمان لائے اور پھر شک کا شِکار نہ ہوئے اور اپنے مال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جِہا دکِیا وہ ہی ہیں (اپنے اِیمان میں)سچےسورت الحُجرات(49)/آیت15،
::: (2) ::: اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے کاموں اور فیصلوں پر اعتراض،قولاً یا فعلاً :::
 مثلاً کِسی کو مالی یا بدنی یا مُعاشرتی طور پر اچھی حالت میں دیکھ کر یہ کہنا یا سوچنا کہ اِسے یہ کیوں ملا ہے؟اور اُس پر صبر نہ کرتے ہوئے اُس شخص کو نُقصان پہنچانے کی کوشش کرنا یا نُقصان پہنچانا وغیرہ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کے کام اور فیصلے پر اعتراض ہے اور یہ بھی کُفر کے ز ُمرے میں آتا ہے کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بارے میں فرما رکھا ہے کہ ﴿لَا یُسئَلُ عَمَّا یَفعَلُ:::اللہ جو کرتا ہے اُسکے بارے میں اُس سے پوچھا نہیں جا سکتا ،
اور یہ اِس لیے کہ ﴿إِنَّ اللَّہَ یَفعَلُ مَا یُریدُ:::یقینا اللہ جِس کام کا اِرادہ فرماتا ہے وہ ہی کرتا ہے اور﴿إِنَّ اللَّہَ یَفعَلُ مَا یَشآ ءُ::: یقینا اللہ جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے،
اور ایسا  اِس لیے کہ﴿ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ  لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ::: اور یہ ہی ہے  اللہ تم لوگوں کا سب ، اُسی کی بادشاہی ہے ، اور اُس کے عِلاوہ کوئی بھی سچا اور حقیقی معبود نہیں ،
::: (3) ::: اِن وسواس کا شِکار ہوتے ہوتے مُسلمان اپنے ہی بارے میں شک کا شِکار ہو جاتا ہے کہ وہ مُسلمان بھی رہا ہے کہ نہیں ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے عقیدے اور اِیمان کو قُران و صحیح سُنّت اور سلف الصالح کی تشریحات کی روشنی میں سمجھیں اور اُس پر عمل پیرا رہیں اور اُس کے دفاع میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں ،
::: (2) ::: دوسرا ذریعہ :::  اگر کِسی کو اِیمان و عقیدے کے بارے میں کوئی وسواس پیش آئیں تو اُن کے بارے میں براہ راست اور صاف اور کُھلے سوال نہ کرے، کیونکہ جب تک وہ وسوسے اُسکے دِل و دِماغ تک محدود و محصور ہیں اُس وقت تک وہ عافیت میں ہے اور جب وہ وسواس یا کوئی ایک وسوسہ ہی اُس کی ز ُبان پر آ گیا تو یقینا وہ مُصیبت زدہ ہو جائے گا،
اور اِس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان مُبارک ہے جو ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی رویات ہے کہ ﴿إِنَّ اللَّہَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِی عَمَّا وَسوَسَت أو حَدَّثَت بِہِ أَنفُسَہَا مَا لَم تَعمَل بِہِ أو تَکَلَّم::: میری اُمت کے نفوس میں جووسواس ہوں یا جو بات نفوس( تک ہی)ہو(اور)اُس پر عمل نہ کیا جائے اور نہ اُس کے بارے میںبات کی جائے ، اللہ نے اُن وساوس اور باتوں سے درگزر فرمایا ہےصحیح البُخاری/حدیث6278/کتاب الاِیمان/باب14،صحیح مُسلم حدیث127/کتاب الاِیمان/باب 58،مندرجہ بالا اِلفاظ صحیح البُخاری کی روایت کے ہیں ،
::: (3) ::: تِیسرا ذریعہ :::  جب کوئی مُسلمان اپنے دِل و دِماغ میں کوئی وسوسہ پائے تو کہے""" آمَنتُ بِاللَّہِ::: میں اللہ پر اِیمان لایا """
::: دلیل :::  ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا﴿لَا یَزَالُ النَّاسُ یَتَسَاء َلُونَ حتی یُقَالَ ھَذا خَلَقَ اللہ الخَلقَ فَمَن خَلَقَ اللَّہَ فَمَن وَجَدَ من ذلک شیئا فَلیَقُل آمَنتُ بِاللَّہِ::: (اللہ کے بارے میں ) لوگ ایک دوجے سے سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ یہ مخلوق تو اللہ نے بنائی ہے ، لیکن اللہ کو کِس نے بنایا ہے ؟ پس اگر کوئی شخص ایسی کوئی بات سُنے تو کہے ، میں اللہ پر اِیمان لایا(یعنی جو اللہ نے بتایا اُس پر اِیمان رکھتا ہوں اوراُس کے عِلاوہ کی کھوج نہیں کرتا) صحیح مُسلم/حدیث360/کتاب الاِیمان /باب62،
﴿آمنت ُ باللِّہِ ::: میں اللہ پر اِیمان لایاکہنے کی حِکمت :::
اِیمان بالغیب(غیب یعنی حواس خمسہ کی حُدود اور پہنچ سے باہر کی چیز یا بات) کا پہلا واجب اللہ تعالیٰ کی ذات پر اِیمان لانا اور رکھنا ہے،
اور اِسی پر، اِیمان کے باقی ارکان کا دارومدار ہے، پس اگر اِس میں شک واقع ہو گا تو باقی تمام ارکان میں یقینا شک واقع ہو گا اور تمام اعمال غارت ہو جائیں گے، پس جب بھی کِسی وسوسے کا احساس ہو اوراللہ پر اِیمان لانے کا ز ُبانی اقرار کِیا جائے تو نتیجے میں دِل و دِماغ میں پایا جانے والا اِیمان طاقتور ہو گا اور اللہ کے حُکم سے وسواس دُور ہو جائیں گے، 
رہا معاملہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کی ذات پاک کے وجود میں ہونے اور ایک اکیلا خالق ہونے اور اکیلے عِبادت کا حق دار ہونے،کا تو کثرت سے اِس کے عقلی اور نقلی دلائل مُیسر ہیں،لیکن اُن دلائل کی بنا پر اِیمان لانا مطلوب نہیں بلکہ اِیمان بالغیب ہے،اور یہ اِیمان بالغیب ہی مؤمن اور غیر مؤمن میں فرق کرتا ہے،لہذا اِیمان والے کو اللہ کی ذات کے بارے میں سوچنے کی کوئی حاجت نہیں اور نہ ہی اللہ کی صفات کی کیفیات کے بارے میں سوچنے یا سوال کرنے کی،اور اگرایسا  کرے گا تو اپنا اِیمان خراب یا ختم کر لے گا اور ساتھ ساتھ خود کو ایسی مُشقت میں ڈالے گا جِس کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں،ایسا کام کرنے کی کوشش کرے گا جو وہ ہر گِز کر نہیں سکتا﴿ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُم لا إِلَـہَ إِلاَّ ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیء ٍ فَاعبُدُوہُ وَھُوَ عَلَی کُلِّ شَیء ٍ وَکِیلٌO  لاَّ تُدرِکُہُ الأَبصَارُ وَھُوَ یُدرِکُ الأَبصَارَ وَھُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیرُ:::یہ ہے اللہ تُم سب کا رب اُس کے عِلاوہ کوئی بھی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہر ایک چیز کو تخلیق کرنے والا (وہی ہے) لہذا اُسی کی عِبادت کرو  اور وہ ہر چیز پر وکیل ہے Oاُسے کوئی بصارت (نظر ) نہیں جان سکتی اور وہ ہر نظر کو جانتا ہے اور وہ بہت لطیف اور انتہائی خبر گیر ہےسورت الانعام(6)/آیت102،103،
اور اللہ پاک نے فرمایا﴿لَیسَ کَمِثلِہِ شيئٌ و ھُوَ السِّمِیعُ البَصِیرُ::: اُس(اللہ)کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہےسُورت الشوریٰ(42)/آیت11،
::: (4) ::: چوتھا ذریعہ :::  اِمام ابن القیم رحمۃُ اللہ علیہ نے""" زاد المعاد"""میں فرمایا"""جِس کِسی کو اللہ کے بارے میں وسوسہ پیش آئے،یعنی اگراُس سے کہا جائے کہ،اللہ نے تو ساری مخلوق بنائی لیکن اللہ کو کِس نے بنایا ؟؟؟"""،
تو اُس کے لیے ہدایت یہ ہے کہ وہ کہے﴿ھُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیء ٍ عَلِیمٌ ::: وہ (اللہ)ہی سب سے پہلا ہے اور سب سے آخری ہے اور وہ ہی ظاہر ہے اور وہ ہی باطن (یعنی اندر)ہے اور وہ ہر ایک چیز کا سب سے زیادہ عِلم رکھتا ہےسُورت الحدید(57)/آیت3،
جیسا کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ نے ابو زمیل سماک بن الولید کو بتایا جب اُنہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ سے کہا""" میں اپنے سینے (دِل )میں کچھ پاتا ہوں ؟"""،
عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ نے دریافت فرمایا"""کیا کوئی شک ہوتا ہے ؟"""
کہا"""جی ہاں"""،
عبداللہ رضی اللہ عنہ ُ نے مُسکراتے ہوئے فرمایا"""یہ ایسا معاملہ جِس سے کوئی نہیں بچتا یہاں تک کہ اللہ نے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دلی جمعی کے لیے)یہ آیت نازل فرمائی ﴿فَإِن کُنتَ فِی شَکٍّ مِمَّا أَنزَلنَا إِلَیکَ فَاسأَل الَّذِینَ یقرؤون الکِتَابَ من قَبلِکَ::: (اے رسول)اگر آپ اُس کے بارے میں کوئی شک کریں جو ہم نے آپ کی طرف اُتارا ہے تو اُن سے پوچھ لیجیے جو (آپ) سے پہلے(والی) کتاب پڑہنے والے ہیں"""(سورت یونس(10)/آیت49)،
اور پھر فرمایا"""اگر تُم اپنے دِل میں کوئی وسوسہ پاؤ تو کہو﴿ھُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیء ٍ عَلِیمٌ ::: وہ (اللہ)ہی سب سے پہلا ہے اور سب سے آخری ہے اور وہ ہی ظاہر ہے اور وہ ہی باطن(یعنی اندر)ہے اور وہ ہر ایک چیز کا سب سے زیادہ عِلم رکھتا ہے"""سُنن ابو داؤد/حدیث5110/کتاب الادب/باب118فِى رَدِّ الْوَسْوَسَةِ،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے فرمایا کہ اِس کی سند حَسن ہے،
::: مذکورہ بالا آیت شریفہ  کی تشریح :::
اللہ کے ہی اول و آخر اور ظاہر و باطن ہونے کا معنی   ٰ و مفہوم وہ نہیں جو کچھ حضرات"""وحدۃ الوجود"""کی دلیل بنانے کے لیے نکالتے ہیں بلکہ اِس کا صحیح معنی   ٰ و مفہوم یہ ہے جو اِمام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرماتے ہوئے لکھا کہ :::
"""پس مسلسل وسوسے پانے کی صُورت میں یہ آیت کریمہ پڑہنے کا بتا کر عقل کی کاروائیوں کے باطل تسلسل کو ختم کرنے کی طرف راہنمائی فرمائی اور یہ(سمجھایا)کہ مخلوق کا سلسلہ اپنی ابتداء کی طرف سے جب ختم ہوتا ہے تو اُس سے پہلے کوئی مخلوق نہیں(بلکہ خالق ہے لہذا اللہ ہی اول ہے) اور یہ(سمجھایا)کہ اِسی طرح جب مخلوق کا سلسلہ انتہاء کی طرف ختم ہو گا تو اُس کے بعد کچھ نہ بچے گا(صرف خالق ہی ہوگا لہذا اللہ ہی آخر ہے)،
اور اِسی طرح اللہ کا ظاہر ہونا اُس کی بُلندی ہے کہ اُس سے بُلند کوئی نہیں(اور جو چیز جتنی بُلند ہو گی اُتنی ہی ظاہر ہو گی لہذا اللہ ہی ظاہر ہے)،
اور اِسی طرح اللہ کا باطن(یعنی اندر )ہونا اُس کا تمام مخلوق پرہر طرف سے اُس کا احاطہ ہے جِس سے باہر کوئی مخلوق نہیں ہو سکتی(لہذا اللہ ہی باطن ہے کہ وہ ہر مخلوق کے اندر تک ہر ایک ذرے ذرے کا احاطہ کیے ہوئے ہے)کیونکہ اگر اللہ سے پہلے کچھ اور ہوتا تو وہ اللہ(کی ذات وصِفات وافعال)پر اثر انداز ہوتا،بلکہ وہ ہی تخلیق کرنے والا رب ہوتا،اور یہ لازم ہے کہ(تخلیق کا)یہ سلسلہ کسی خالق پر جا کر رکے جو مخلوق نہ ہو،جو اپنے عِلاوہ ہر کِسی سے غنی ہو اور ہر کوئی اُس کے سامنے فقیر ہو،جو اپنے طور پر قائم ہو اور ہر چیز اُس کے ذریعے قائم ہو،جو خود بخود مُوجود ہو اور ہر ایک چیز اُس کے ذریعے مُوجود ہو،جوایسا قدیم ہو کہ اُس کا اول نہ ہو اور اُس کے عِلاوہ جو کچھ بھی ہے عدم کے بعد وجود میں آیا ہو،جو ذاتی طورپر ہمیشہ باقی رہنے والا ہو اور اُس کے عِلاوہ ہر چیز اُس کے ذریعے باقی رہ سکے،لہذا اللہ ہی اول ہے جِس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور وہ ہی آخر ہے کہ جِس کے بعد کوئی چیز نہ ہو گی اور وہ ہی ظاہر ہے کہ اُس سے بُلند کوئی چیز نہیں،اور وہ ہی باطن ہے کہ اُس کے نیچے (اندر)کوئی چیز نہیں"""،(زاد المعاد/جلد2/صفحہ462)
::: (5) ::: پانچواں ذریعہ ::: اللہ سے بکثرت اپنے دِل کے اِیمان پر ثابت رہنے کی دُعاء بلکہ دُعاء کے ذریعے التجاء کرنا ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بکثرت یہ دُعا فرمایا کرتے تھے، بلکہ اپنے سجدوں میں جس وقت بندے اپنے رب تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے یہ دُعا کثرت سے فرمایا کرتے تھے﴿یا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّت قَلبِی عَلٰی دِینِکَ:::اے دِلوں کو پلٹانے والے میرے دِل کو اپنے دِین پر ثابت کر دےمُسند احمد/حدیث6/مُسند أنس بن مالک رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم172،سُنن الترمذی/حدیث/2290کتاب القدر/باب7، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
::: (6) ::: چھٹا ذریعہ ::: اہل عِلم کی طرف رجوع :::
اگر کِسی کومندرجہ بالا تمام ذرائع اپنانے کی باوجود وسواس سے نجات نہ ملے اور اُس کا اپنے رب سے تعلق کمزور اور عقیدہ میلا ہوتا جائے تو بات پھیلائے بغیر صِرف اہلِ عِلم سے بات کرے ، اِنشاء اللہ وہ اُس کے لیے حسبِ حال و شخصیت کوئی اور راستہ تجویز کر کے اُس کو اِن وسواس سے نجات حاصل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے﴿وَإِذَا جَاء ھُم أَمرٌ مِّنَ الأَمنِ أَوِ الخَوفِ أَذَاعُوا بِہِ وَلَو رَدُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُولِی الأَمرِ مِنہُم لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَستَنبِطُونَہُ مِنہُم وَلَولاَ فَضلُ اللّہِ عَلَیکُم وَرَحمَتُہُ لاَتَّبَعتُمُ الشَّیطَانَ إِلاَّ قَلِیلاً:::اور اگر انہیں امن یا خوف میں سے کوئی معاملہ پیش آ جائے تو وہ اُسے مشہور کردیتے ہیں اور اگر وہ لوگ ایسے معاملے کو رسول اورمعاملات میں حُکم دے سکنے والے کے پاس لے جائیں تو یقینا اُن میں سے وہ لوگ جو معاملات جانچ کرحل نکال لینے والے ہیں اُس معاملے کو جان جائیں اور اگر اللہ کا فضل اور رحمت تُم لوگوں پر نہ ہو تو سِوائے چند ایک کے تُم لوگ یقینا شیطان کی پیروی کرنے لگوسُورت النساء(4)/آیت83،
وساوس کی بیماری کی صورت میں ، اللہ پر توکل کرتے ہوئے ، ہر کوئی اپنے حال و احوال کے مطابق مذکورہ بالا دواؤں میں سے کوئی سی بھی اختیار کرے،إِن شاء اللہ شفاء یاب ہو گا ۔
والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ۔
تاریخ کتابت :23/09/1429ہجری، بمُطابق،23/09/2008 عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :11/04/1437ہجری،بمُطابق،21/01/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔