Saturday, March 11, 2017

::::::: سفر میں یا بغیر سفر کے ، نمازیں جمع کرنے کا حقیقی طریقہ :::::::


::::::: سفر  میں یا بغیر سفر کے ،  نمازیں جمع کرنے کا حقیقی طریقہ :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
حالات سفر میں ، یا اُس کے بغیر ہی ، یعنی اپنے ہی شہر اور بستی میں رہتے ہوئے دو نمازوں کو جمع کرنے کے بارے میں عموماً دو اصطلاحات کا ذِکر ملتا ہے،
::: (1) ::: جمع صُوری،
::: (2) ::: جمع حقیقی،
أھل سُنّت والجماعت میں مروج مذاھب میں سے صرف حنفی مذھب میں ہی، جمع صُوری کا ذِکر ہے، اُس کے عِلاوہ کسی اور مذھب و مسلک میں اِس کا وجود نہیں ہے،
أحناف کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جمع حقیقی صرف عرفات اور مزدلفہ میں کیا تھا،
جب کہ یہ بات دُرست نہیں ،
اِس کی وضاحت اِن شاء اللہ آگے کی جائے گی،
اِس مسئلے کو اچھی طرح سے سمجھنے سے پہلے ہم جمع صُوری اور جمع حقیقی کے بارے میں جانتے ہیں اِن شاء اللہ،  
::: جمع صُوری :::  یہ ہے کہ ، مثلاً ، اگر کوئی شخص ظہر اور عصر کو جمع کرنا چاہتا ہے تو وہ ظھر کا وقت داخل ہونے کے اُس کے آخر وقت تک انتظار کرے جب عصر کا وقت داخل ہونے کے بالکل قریب ہو تو ظہر پڑھ لے، اور جیسے ہی عصر کا وقت داخل ہو تو عصر پڑھ لے،
اِس جمع صُوری میں صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ دو نمازیں جمع تو کی ہی نہیں گئیں، بلکہ ہر ایک نماز کو اُس کے وقت میں ہی پڑھا گیا ہے، ایک کو اُس کے وقت کے بالکل آخری حصے میں جا کر پڑھا گیا، اور دوسری کو اُس کے وقت کے بالکل پہلے حصے میں،
اِس جمع صُوری کی کوئی دلیل ہمیں سُنّت شریفہ میں نہیں ملتی،
::: جمع حقیقی ::: جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کی مطابقت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص پہلی نماز کا وقت داخل ہوتے ہی، اذان کہے*1*، پھر ایک دفعہ اقامت کہہ کر وہ نماز ادا کرے، اور پھر دُوسری اقامت کہہ کر دُوسری نماز ادا کرے،
اِس کو جمع تقدیم کہا جاتا ہے،
اور جمع تاخیر یہ ہے کہ، کوئی شخص پہلی نماز کو دُوسری نماز کا وقت داخل ہونے تک متأخر کرے، اور جونہی دُوسری نماز کا وقت داخل ہو مذکورہ بالا طریقے پر ایک اذان کہہ کر اور باری باری دونوں نمازوں کے لیے اقامت کہہ کر بالترتیب دونوں نمازیں پڑھے،
اس طرح واقعتاً ایک نماز کے وقت میں دو نمازیں جمع ہوتی ہیں، اور یہی طریقہ رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ سے ثابت ہوتا ہے،
اور یہی وہ طریقہ ہے جس پر عمل کرنے سے نماز کو اُس کے وقت میں ہی ادا کرنے کی فِکر مندی سے آزادی ملتی ہے، جو کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دینے کی اصل حِکمت ہے،
جیسا کہ ، بڑی وضاحت کے ساتھ  عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ ُ  کی روایت میں ہے ، اِن شاء اللہ اِس کا ذِکر بھی آگے آئے گا ،
اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے عرفات اور مزدلفہ کے سفر کے عِلاوہ بھی نمازیں جمع فرما کر ادا فرمائی ہیں ، اور جمع حقیقی کی ہیں ، جمع صُوری نہیں ،
::::: (1) :::::: معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ ، کا کہنا ہے کہ ﴿ أَنَّ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- كَانَ فِى غَزْوَةِ تَبُوكَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَجْمَعَهَا إِلَى الْعَصْرِ فَيُصَلِّيهِمَا جَمِيعًا وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ زَيْغِ الشَّمْسِ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا ثُمَّ سَارَ وَكَانَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ أَخَّرَ الْمَغْرِبَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الْعِشَاءِ وَإِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ الْمَغْرِبِ عَجَّلَ الْعِشَاءَ فَصَلاَّهَا مَعَ الْمَغْرِبِ :::جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے سفر میں تھے تو اگر آغازءسفر (کا وقت) سُورج کے غروب ہونے کی طرف مائل ہونے (یعنی ظہر کا وقت داخل ہونے)سے پہلےہوتا تو ظہر میں تاخیر فرماتے،یہاں تک کہ اُسے عصر کا وقت ہوجاتا، تو پھر دونوں کو ملا کر ادا فرماتے، اور اگر سفر آغازءسفر (کا وقت) سُورج کے غروب ہونے کی طرف مائل ہونے (یعنی ظہر کا وقت داخل ہونے)کے بعد کا ہوتا تو ظہر اور عصر دونوں کو اکھٹا پڑھ لیتے، اور پھر سفر پر روانہ ہوتے، اگر آغازءسفر (کا وقت)مغرب سے پہلے کا ہوتا تومغرب  میں اتنی تاخیر فرماتے کہ اُسے عِشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے،اور اگر آغازءسفر (کا وقت)مغرب کے بعد کا ہوتا تو عِشاء کی ادائیگی میں جلدی فرماتے اور اُسے مغرب کے ساتھ ہی پڑھ لیتےسُنن ابو داؤد/حدیث/1222کتاب صلاۃ السفر /باب5 الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ،سُنن الترمذی/حدیث/556کتاب الصلاۃ /باب282 مَا جَاءَ فِى الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے  دونوں روایات کوصحیح قرار دِیا ہے،
::::: (2) :::::: أنس ابن مالک رضی  اللہ عنہ ُ ، کا کہنا ہے کہ﴿كَانَ النَّبِىُّ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ ، ثُمَّ يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا ، وَإِذَا زَاغَتْ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ ::: جب  کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سُورج کے ڈھلنے کے آغاز سے(یعنی ظہر کا وقت داخل ہونےسے )پہلےسفر پر روانہ ہوتے تو ظہر (کی ادائیگی )کو عصر کے وقت تک مؤخر فرما دیتے،پھر (عصر کا وقت داخل ہونے کے بعد، فوراً ہی)دونوں نمازوں کو جمع فرماتے،اور اگر (آغازء سفر کا وقت)سُورج ڈھلنے کے آغاز (یعنی ظہر کا وقت داخل ہونے)کے بعد کا ہوتا تو ظہر پڑھ کر (اپنی سواری پر)سوار ہوجاتےصحیح بُخاری/حدیث/1111کتاب تقصیر الصلاۃ /باب15 يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى الْعَصْرِ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ،
اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں لفظ """إِلیٰ """ کی وجہ سے جمع صُوری کی طرف مائل ہونے کا شبہ ہوتا ہے، لیکن اِس کی گنجائش نہیں رہتی، کیونکہ اِنہی أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ نے ایک اور روایت میں معاملہ بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ، جو  اِس معاملےکو  یقینی بناتا ہے کہ جمع صُوری درحقیقت ایک تخیلاتی صُورت ہی ہے،
حقیقت ، جمع حقیقی ہی ہے،
وہ دُوسری روایت درج ذیل ہے ،
::::: (3) :::::: ﴿إِذَا أَرَادَ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِى السَّفَرِ أَخَّرَ الظُّهْرَ حَتَّى يَدْخُلَ أَوَّلُ وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا::: اگر دورانء سفر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دو نمازوں کو جمع فرمانے کا اِرداہ فرماتے تو ظہر کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ عصر کا  اول وقت داخل ہوجاتا تو پھر دونوں نمازوں کو جمع فرماتےصحیح مُسلم/حدیث/1660کتاب صلاۃ المُسافرین/باب5جَوَازِ الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِى السَّفَرِ،
اِن دونوں مذکورہ بالا احادیث شریفہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سفر میں نماز جمع کرنا لازمی نہیں،
::::: (4) :::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما  کا کہنا ہے کہ ﴿رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِى السَّفَرِ يُؤَخِّرُ صَلاَةَ الْمَغْرِبِ ، حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْعِشَاءِ،
 قَالَ سَالِمٌ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ ، وَيُقِيمُ الْمَغْرِبَ فَيُصَلِّيهَا ثَلاَثًا ، ثُمَّ يُسَلِّمُ ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ الْعِشَاءَ ، فَيُصَلِّيهَا رَكْعَتَيْنِ ، ثُمَّ يُسَلِّمُ وَلاَ يُسَبِّحُ بَيْنَهَا بِرَكْعَةٍ،وَلاَ بَعْدَ الْعِشَاءِ بِسَجْدَةٍ حَتَّى يَقُومَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ:::میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اگر اُنہیں سفر کرنے میں تیزی کرنا ہوتی تو مغرب کی نماز میں تاخیر فرماتے یہاں تک کہ مغرب اور عِشاء کو جمع فرما لیتے،
سالم  کا کہنا ہے کہ ، عبداللہ(ابن عُمر رضی اللہ عنہما) کوئی بھی اگر سفر میں تیزی کرنا ہوتی تو ایسا ہی کرتے تھے،اور مغرب کی اقامت کہتے ، اور تین رکعت پڑھتے، پھر سلام پھیر دیتے، اور پھر بالکل تھوڑے سے وقفے سے عِشاء کی اقامت کہتے اور دو رکعت عِشاء پڑھتے، اور پھر سلام پھیر دیتے، اور اِن دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی(کوئی اورنماز) نہیں پڑھتے، اور نہ ہی عِشاء کے بعدکوئی سجدہ کرتے، یہاں تک کہ آدھی رات کے بعد(نفلی نماز کے لیے)کھڑے ہوتےصحیح بُخاری/حدیث/1109کتاب تقصیر الصلاۃ /باب14 هَلْ يُؤَذِّنُ أَوْ يُقِيمُ إِذَا جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ،
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما کے اِس فعل سے یہ بھی پتہ چلا کہ دورانء سفر جمع کرنے کی صُورت میں  جمع کی جانے والی نمازوں سے متعلقہ سُنّت چھوڑی جا سکتی ہے،اور یہ بھی کہ دو نمازیں جمع کرنے کی صُورت میں دونوں نمازوں کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی جائے گی،
 جی ، آدھی رات کے بعد نفلی نماز پڑھی جا سکتی ہے،  جو عِشاء کی نماز کے ساتھ متعلق سُنّت نماز نہیں ، بلکہ رات کی نماز کے طور پر الگ نفلی  نماز ہے،
اگر کوئی شخص ظہر اور عصر جمع تقدیم کی صُورت میں جمع کرنے سے پہلے ، ظہر سے پہلے والی  سُنّت نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے،
اور مغرب اور عِشاء جمع تقدیم کی صُورت میں مغرب سے پہلے دو نفل پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے ،
::::: (5) :::::: عبداللہ ابن عباس  رضی اللہ عنہ ُ ، کا کہنا ہے کہ ﴿صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ ، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ :::رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے مدینہ(المنورہ) میں سات اور آٹھ رکعت نمازیں پڑھی (آٹھ رکعت تو ہوئیں)ظہر اور عصر(جمع کرکے)، اور (سات رکعت ہوئیں)مغرب اور عِشاء جمع کر کےصحیح بُخاری/حدیث/543کتاب مواقیت الصلاۃ  /باب12 تَأْخِيرِ الظُّهْرِ إِلَى الْعَصْرِ،
اور یہی جمع حقیقی ہی وہ طریقہ ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  سفر  میں بھی ، اور سفر کے بغیر اور کسی خوف یا بارش وغیرہ کے عُذر کے بغیر بھی مدینہ المنورہ میں رہتے ہوئے عمل فرمایا ،
::::: (1) :::::عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ ﴿صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا بِالْمَدِينَةِ فِى غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ سَفَرٍ
 قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ فَسَأَلْتُ سَعِيدًا لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ كَمَا سَأَلْتَنِى فَقَالَ أَرَادَ أَنْ لاَ يُحْرِجَ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِهِ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ(المنورہ)میں(ہی)کِسی خوف اور سفر کے بغیر ہی ظہر اور عصر کو جمع کر کے پڑھا،
ابو زُبیر کا کہنا ہے کہ ،میں نے سعید سے پوچھا کہ ، ایسا کیوں کیا؟ ، تو سعید نے کہا ، میں نے بھی ابن عباس سے اِسی طرح (یہی )پوچھا تھا، جِس طرح تُم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو ابن عباس نے کہا تھا کہ """(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایسا اِس لیے کیا)تا کہ اُن (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کی اُمت میں سے کسی پر کوئی مُشقت نہ رہے"""صحیح مُسلم/حدیث3/166کتاب صلاۃ المُسافرین/باب6جَوَازِ الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِى الحَضرِ،
::::: (2) ::::: ایک اور روایت کے اِلفاظ درج ذیل ہیں ﴿جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ فِى غَيْرِ خَوْفٍ وَلاَ مَطَرٍ:::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ(المنورہ)میں(ہی)کِسی خوف اور بارش کے بغیر ہی ظہر اور عصر، اور مغرب اور عِشاء کو جمع فرمایا صحیح مُسلم/حدیث/1667کتاب صلاۃ المُسافرین/باب6جَوَازِ الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِى الحَضرِ،
اِ س مذکورہ بالا حدیث شریف سے یہ بھی بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ نماز جمع کرنے کا معاملہ صِرف سفر ، یا کسی عُذرجیسا کہ کوئی خوف ، یا،  بارش، یا، بیماری وغیرہ  تک ہی  محدود نہیں ہے ، بلکہ کسی بھی سبب سے اگر ظہر عصر مغرب اور عِشاء میں سے کسی نماز کو اُس وقت میں مُناسب طور پر ادا کرنے میں کوئی مُشقت کوئی سختی درپیش  ہوتی ہو تو دو نمازوں کو کسی ایک نماز کے وقت میں جمع (حقیقی)کیا جا سکتا ہے،
اور اِس کی حِکمت یہ بیان کی گئی کہ نمازی پر،نماز ادا کرسکنے کے بارے میں  کوئی حرج (مُشقت، سختی) نہ رہے،
جبکہ جمع صُوری کی صُورت میں وہ حرج (بمعنی مُشقت)برقرار رہتی ہے، بلکہ عام معمول سے زیادہ ہو جاتی ہے،
*1* اگر کوئی شخص نماز جمع کرنے کے وقت اکیلا ہے تو اذان اور اقامت  کہنا ا مستحب اور افضل ہے ،اور اگر دو یا دو سے زیادہ ہیں ،یعنی جماعت ہے تو پھر اذان اور اقامت کہنا لازم ہے ، اور اِسی طرح دونوں نمازوں کو جمع کرنے کی صُورت میں اقامت کہنے کا بھی یہی معاملہ ہے،
اِن کے دلائل درج ذیل ہیں :::
::::: (1) ::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دو سفر کرنے والے لوگوں کو حکم دِیا کہ﴿إِذَا أَنْتُمَا خَرَجْتُمَا فَأَذِّنَا ثُمَّ أَقِيمَا ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا:::جب تم دونوں (سفر پر )نکل پڑو (اور نماز کا وقت آ جائے)تواذان کہواور اقامت کہو اور پھر تم دونوں میں جو بڑا ہے وہ اِمامت کروائے   
اور اِنہی مالک بن حویریث رضی اللہ عنہ ُ  کو  حالت قیام کے لیے بھی یہی حکم فرمایا کہ﴿وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِى أُصَلِّى ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ::: اور اُسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم لوگوں میں سے کوئی اذان کہے اور جو تم لوگوں میں بڑا ہو وہ تم لوگوں کی اِمامت کروائے صحیح بُخاری/حدیث/1109کتاب الاذان/باب18 الأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً ، وَالإِقَامَةِ ،
::::: (2) ::::: اوپر ذِکر کردہ احادیث میں چوتھے نمبر پر بیان کی گئی حدیث ،
اُمید ہے کہ یہ معلومات دو نمازوں کو جمع کرنے کی حقیقی  کیفیت کی وضاحت سمجھنے کے لیے کافی ہوں گی،
نمازوں کو جمع کرنے کے متعلق کچھ اور مسائل بھی ہیں ، جنہیں میں قصداً یہاں ذِکر نہیں کر رہا ،
اللہ نے چاہا تو اُنہیں بعد میں شامل کر دیا جائےگا ، یا ، الگ مضمون کی صُورت میں پیش کر دِیا جائے گا،
"""حرج """ کی لغوی تشریح کے لیے لغت کی کتب میں سے دیکھیے"""لسان العرب"""،"""الصحاح فی اللغۃ"""، """المحیط فی اللغۃ """، میں مادہ """حرج"""،
اِس مسئلے میں مزید شرح و بسط کے لیے ملاحظہ فرمایے """شرح النووی علی صحیح مُسلم """،
 و السلام علیکم۔
 طلب گارء دُعاء ،
 عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 06/10/1437 ہجری ، بمطابق ، 11/07/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔