::: مُسلمان عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا :::
بِسمِ
اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا
رَسولاً ولا مَعصُوماً مِن اللَّہِ و لَن یَکُون
بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ الطَّاھِرات و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن
تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں
اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ جن کے ساتھ
اللہ کی طرف سے نہ تو کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور
اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی
ہو محمد رسول اللہ کی پاکیزہ بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن
کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
یہ مسئلہ تقریباً ہر مُسلمان کے علم میں ہے کہ ، ایک
مُسلمان عورت کا اکیلے، یا ، اپنے محرم کے
بغیر سفر کرنا جائز نہیں ، حرام ہے ،
یہ الگ بات ہے کہ کتنے مُسلمان اِس مسئلے کو عملی طور پر
قُبوُل کرتے ہیں اور کتنے نہیں کرتے ؟؟؟
اور یہ بھی ایک الگ مسئلہ ہے کہ کتنے مُسلمان عورت کے بغیر محرم کے سفر کے مسئلے میں باریکیاں تلاش کرتے ہوئے ، کچھ مختلف
واقعاتی ، یا محض خیالاتی امکانیات، اسباب
، اور وجوہات کی بِناء پر ، تاویلات کرتے
ہیں ، اور محرم کے ساتھ کو مشروط قرار
دیتے ہیں ،
اگر میں وہ سب کچھ یہاں پیش کرنے لگوں جو فقہاء رحمہم
اللہ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے تو شاید یہ مضمون بھی ایک کتاب کی سی صُورت اختیار
کر جائے ،
لہذا میں بات کو اِن شاء اللہ مختصر اور مُفید رکھنے کی
کوشش میں صِرف اہم نکات ذِکر کرتا ہوں ،
سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ کِسی مُسلمان عورت کو اُس
کے محرم کے بغیر سفر کرنے سے اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
نے منع فرمایا ہے ، اور رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے منع کیے گئے کام پر عمل کرنا حرام ہے ،
آیے ، پڑھتے اور سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم نے کِسی مُسلمان عورت کو بغیر
محرم کے سفر کرنے سے کس قدر شدت سے منع
فرمایا ہے ،
:::::: عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی
اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((لَا تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلَّا بِذِي
مَحْرَمٍ , وَلَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلاَّ بِذِي مَحرَمٍ ::: کوئی عورت ہر گز محرم کے بغیر سفر نہ کرے
، اور نہ ہی کوئی مرد کسی طور کسی بغیر محرم کے ساتھ والی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرے)))صحیح ابن حبان /حدیث /5562کتاب الحظر الإباحۃ /ذِكْرُ الْبَيَانِ بِأَنَّ الْمَرْأَةَ
زُجرت عَنْ أَنْ تَخْلُوَ بِغَيْرِ ذِي مَحْرَمٍ مِنَ الرِّجَالِ فِي السَّفَرِ
وَالْحَضَرِ مَعًا،إمام الالبانی
رحمہُ اللہ نے بھی صحیح قرار دِیا ،
:::::: صحیح مُسلم کی روایت کے اِلفاظ ہیں کہ (((لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ
إِلاَّ وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ وَلاَ تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلاَّ مَعَ ذِى
مَحْرَمٍ::: کوئی مرد کسی طور کسی بغیر محرم کے ساتھ والی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے ، اور نہ کوئی عورت محرم کے ساتھ کے بغیر
سفر کرے ))) صحیح مُسلم /حدیث /3336کتاب الحج /باب74 سَفَرِ الْمَرْأَةِ مَعَ مَحْرَمٍ إِلَى حَجٍّ وَغَيْرِهِ،
:::::: صحیح بخاری کی روایت میں اِس کی مزید وضاحت مل جاتی ہے
، اور خاص طور پر کِسی عورت کا حج اور
عمرے کے سفر کے لیے محرم کے بغیر جانے کے مسئلے کی وضاحت ہو جاتی ہے ،
کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد
فرمایا کہ (((لاَ يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ ، وَلاَ تُسَافِرَنَّ امْرَأَةٌ إِلاَّ
وَمَعَهَا مَحْرَمٌ::: کوئی مرد کسی (بغیر محرم کے ساتھ والی) عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرے، اور کوئی عورت
ہر گز محرم کے بغیر سفر نہ کرے )))
تو ایک صحابی نے عرض کی """ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، اكْتُتِبْتُ فِى غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا ،
وَخَرَجَتِ امْرَأَتِى حَاجَّةً:::
اے اللہ کے رسول ، میرا نام فُلاں فُلاں غزوے (یعنی جہادی مہم ) میں لکھا جا چکا
ہے ، اور میری بیوی حج کرنے گئی ہے """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاُس صحابی
کو حکم فرمایا (((اذْهَبْ
فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ::: جاؤ ، اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو ))) صحیح بخاری /حدیث /3006کتاب الجھاد/باب مَنِ اكْتُتِبَ فِى جَيْشٍ فَخَرَجَتِ امْرَأَتُهُ
حَاجَّةً ، وَكَانَ لَهُ عُذْرٌ ، هَلْ يُؤْذَنُ لَهُ،
حیرت ، بلکہ دُکھ زدہ حیرت ہوتی ہے کہ ، لوگ
عجیب و غریب قِسم کی تاویلات کرتے ہیں، اور عجیب و غریب فلسفے بیان کرتے ہیں ،
ایک فلسفہ یہ بھی پڑھنے میں آیا کہ ممانعت والی احادیث میں جو لفظ " إِلاَّ " اِستعمال ہوا ہے ، اُس میں تنہائی اور عورت کے
غیر محفوظ رہنے کی عِلت ہے ، لہذا جب عورت کِسی قافلے کے ساتھ ہو گی تو یہ عِلت
دُور ہوجائے گی، اور خاص طور پر آج کل کے ہوائی سفر کے دوران تو یہ عِلت رہتی ہی نہیں ،
یہ فلسفہ نہ تو لغت کی تائید
پاتا ہے ، اور نہ ہی احادیث شریفہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم و عمل کی
،
اِس مذکورہ بالا حدیث شریف
پر غور فرمایے ، قارئین
کرام ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ، جِہاد پر
جانے والے ایک مجاہد کو ، جِس کا نام جِہادی مہم میں شمولیت کے لیے لکھا جا چکا
تھا اور یُوں وہ جِہاد اُن پر واجب ہو چکا تھا ، اُنہیں وہ واجب جِہاد
ترک کر کے اُنکی بیوی کی ساتھ حج کے لیے جانے کا حکم فرمایا ،
یہ نہیں پوچھا کہ وہ اکیلی گئی ہے یا قافلے کے ساتھ ؟؟؟
اور نہ ہی یہ فرمایا کہ
اگر قافلے کے ساتھ ہے تو کوئی حرج نہیں، اور عورتیں بھی تو ہوں گی، قافلے
میں عورتوں کی حفاظت کے لیے مرد بھی ہوں گے ، لہذا تم اپنے جِہاد کے سفر پر جاؤ،
اور نہ ہی یہ
فرمایا کہ ، عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر
کرنے والے میرے حکم سے حج اور عمرے کا سفر مستثنی ٰ ہے ، لہذا کوئی بات نہیں ، لہذا کوئی حرج نہیں ، عورت حج
اور عمرے کے لیے بغیر محرم کے بھی جا سکتی ہے ،
اگر اِن میں سے کوئی بھی معاملہ عورت کے
لیے بغیر محرم کے سفر کرنے کا جواز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
ایک مجاھد کو سفرء جہاد سے روک کر اُس کی بیوی کے ساتھ حج پر جانے کا حکم نہ
فرماتے ،
پس ، واضح ہوا ، کہ محرم کے ساتھ سفر کرنے
کے حکم کا سبب صِرف یہی نہیں کہ عورت کی
حفاظت کا انتطام ہو،
جیسا کہ اب کچھ لوگ ہوائی سفر کو
محفوظ خیال کرتے ہیں کہ عورت کہیں بھی اکیلی نہیں ہو پاتی، ہر طرف لوگ موجود ہوتے
ہیں ، لہذا وہ محفوظ ہی ہوتی ہے ، اِس لیے ہوائی سفر میں محرم کی ضرور ت نہیں ، جبکہ یہ بات بھی واقع کے خِلاف ہے ،
اللہ تعالیٰ سب مُسلمانوں کی عِزتوں کو محفوظ رکھے ،
ہوائی سفر کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ سیکورٹی وغیرہ کے نام پر کِسی بھی مُسافر
کے ساتھ کہیں بھی کچھ بھی کیا جا سکتا ہے ، اور آس پاس والوں میں کوئی اُس کا مدد گار نہیں ہو پاتا ،
محترم قارئین ، اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں اِس فسفلے کی بھی تردید ہوتی ہے کہ عورت اگر قافلے میں ہو ، تو بغیر محرم کے بھی سفر کر
سکتی ہے ، خاص طور پر حج اور عمرے کا سفر ،
اور اِس بات کی بھی تردید ہوتی ہے ، کہ اگر قافلہ صِرف
با اعتماد عورتوں کا ہی ہو ، تو بھی سب عورتیں مل کر حج یا عمرے کے سفر پر جا
سکتی ہیں ،
جِس صحابی رضی اللہ
عنہ ُ کو جِہاد چھوڑ کر اُن کی بیوی کے ساتھ حج پر جانے کا حکم دِیا گیا ، بلا شک و ہ صحابیہ رضی اللہ
عنہا بھی ایک قافلے میں ہی جا رہی تھیں ، جِس میں عورتیں اور مرد سب ہی شامل تھے ،
اور قافلہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کا تھا ،
نبیوں اور رسولوں کے بعد سب سے زیادہ سچے پکے اِیمان والوں، اور صاف دِلوں
والوں کا قافلہ ، آج کے مُسلمانوں کا نہیں ، جن کی اکثریت حالت
احرام میں بھی ، منیٰ اور مزدلفہ میں بھی ، حدود حرم میں بھی ، اور تو اور حرم شریف میں بھی
اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانیوں سے باز نہیں آتے ، واللہ المستعان ،
محترم قارئین ، یہ بات بھی خُوب اچھی طرح سے سمجھنے کی
ہے کہ حج اُس پر فرض ہوتا ہے جِس کے پاس
سفر کے تمام وسائل اور ضروریات موجود ہوں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ
وسلم کے حکم کے مُطابق عورت کے ساتھ اُس کا کوئی محرم ہونا اُس کے لیے مطلوبہ وسائل میں مُقرر فرما دِیا گیا ہے ، تو جِس کِسی
کو وہ وسیلہ مُیسر نہیں ہوتا، اور وہ اپنے تئیں یا کِسی کے کہنے پر خُود کو اِس
حکم سے مستثنیٰ سمجھ کر سفر پر نکل پڑتی
ہے ،تو اُسے اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم کی نافرمانی پر مبنی سفر اختیار کر کے کونسی نیکی ملے گی ؟؟؟
میں یہ بھی کہوں گا کہ، مُسلمان عورت کا بغیر محرم کے
سفر کرنا صِرف اُس کی جسمانی اور مالی حفاظت کے لیے ہی نہیں ، کہ کِسی دُوسرے کے
ذریعے یہ حفاظت حاصل کر بھی لی جائے تو
بھی اُس کے اِیمان میں واقع ہونے والی کمی کے نقصان
کا کوئی ازالہ نہیں ہوپائے گا ، کیونکہ اُس کا وہ سفر جو وہ محرم کے بغیر کرے گی ،
اُس کے اِیمان میں نقص کا سبب ہو گا ، اور
یہ نُقصان کِسی اور کے ساتھ ہونے سے پورا ہونے والا نہیں ،
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ (((لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ
الآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ :::
جو عورت
اللہ ، اور آخرت کے دِن پر اِیمان پر رکھتی ہے اُس کے لیے حلال نہیں کہ وہ بغیر محرم کے ساتھ کے ، ایک دِن اور ایک رات سے
زیادہ سفر کرے ))) صحیح بخاری /حدیث /1088کتاب تقصیر الصلاۃ /باب4 فِى كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ ،صحیح مُسلم /حدیث /3331کتاب الحج/باب سَفَرِ
الْمَرْأَةِ مَعَ مَحْرَمٍ إِلَى حَجٍّ وَغَيْرِهِ،
یہ روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی ہے ، اِن دونوں مُقامات میں عبداللہ ابن عُمر رضی
اللہ عنہما کی روایت بھی ہے جِس میں تین دِن اور تین رات کی مُدت کا ذِکر ہے کہ
(((لاَ تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ ثَلاَثَةَ
أَيَّامٍ إِلاَّ مَعَ ذِى مَحْرَمٍ::: کوئی عورت محرم کے بغیر
تین دِن سے زیادہ سفر نہ کرے ))) ، صحیح بخاری،
اور صحیح مُسلم کی روایت کے اِلفاظ ہیں (((لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ
بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ ثَلاَثِ لَيَالٍ إِلاَّ
وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ::: جو عورت اللہ ، اور آخرت کے دِن پر اِیمان پر رکھتی ہے اُس
کے لیے حلال نہیں کہ وہ بغیر محرم کے ساتھ
کے ، تین دِن اور تین رات سے زیادہ
سفر کرے)))
اب اگر ہم زیادہ مُدت یعنی تین دِن والی روایت کو بھی
لیں تو بھی یہ بات تو اپنی جگہ ہی رہتی ہے کہ جو کوئی مُسلمان عورت تین دِن اور
تین رات سے زیادہ مُدت والا سفر ، محرم کے بغیر کرتی ہے اُس کا یہ عمل اُس کے
اِیمان میں کمزوری کا سبب ہوجاتا ہے ، کیونکہ جب وہ ایسا سفر کرے گی، اور اِس سفر
میں رہے گی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم کے طرف سے حرام کردہ ایک کام میں ملوث رہے گی ، اللہ اور یومء
آخرت پر اِیمان میں کمی اور نقص کی حالت
میں رہے گی،
::::::: عورت کو حج یا
عمرے کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنے کی اجازت
دینے والوں کے پاس تاویلات اور فلسفوں کے عِلاوہ جو سب سے زیادہ مضبوط دلیل
ملتی ہے وہ درج ذیل ہے :::
((( فَإِنْ
طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الْحِيرَةِ ،
حَتَّى تَطُوفَ بِالْكَعْبَةِ ، لاَ تَخَافُ أَحَدًا إِلاَّ اللَّهَ::: اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ حِیرہ سے اکیلی
عورت سفر کرے گی ، یہاں تک کہ کعبہ کا
طواف کرے گی، اور اُسے اللہ کے عِلاوہ کوئی ڈرانے والا نہ ہو گا))) صحیح
بخاری /حدیث /3595کتاب
المناقب /باب25 عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِى الإِسْلاَمِ،
محترم قارئین، اِس روایت
میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے دی گئی
پیش گوئیوں میں کچھ پیش گوئیاں ذِکر کی
گئی ہیں ، اور اُن میں سے ایک پیش گوئی یہ اُوپر ذِکر کی
گئی خبر ہے ،
یعنی ، یہ مُستقبل کی ایک خبر ہے ، جو اللہ تعالیٰ نے
اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و علی آلہ وسلم کو عطاء فرمائی اور اُنہوں نے اپنے ایک صحابی عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ُ کو عطاء
فرمائی، اِس میں کہیں کوئی ایسی بات نہیں
، کوئی ایسا ادنی ٰ سا اِشارہ بھی نہیں کہ
اِس کی بِناء پر ایک حرام کام کو حلال سمجھ لیا جائے ، یا ، اُس کام کے کِسی انداز کو حلال سمجھ لیا جائے ،
معاملہ ہے تو بہت واضح ، لیکن ،
اِس حدیث شریف کو دلیل بنانے والے صاحبان کا کہنا کچھ یُوں ہے کہ اِس میں عورت کے کعبہ کی طرف سفر کرنے کا ذِکر
ہے ، اور کعبہ کا طواف کرنے کا ذِکر ہے ، لہذا یہ پتہ چلا کہ اکیلی عورت حج یا
عمرے کا سفر کر سکتی ہے ،
قارئین کرام ، اُن
محترم و مکرم صاحبان کی بات کو آپ اِس
مثال کے ذریعے جانچیے ، کہ ، شراب خوری حرام ہے ، ناچ گانا کرنا، سُننا ، سُنانا
سب حرام ہے ، مَردوں کے لیے ریشم پہننا حرام ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی ز
ُبان مُبارک سے اللہ تعالیٰ نے یہ
خبر بھی کروائی ہے کہ ((((( لَیَکُونَنَّ مِن اُمَّتِی اَقوامٌ یَستَحَلُّونَ الحِرَ و
الحَرِیرَ و الخَمرَو المَعازِفَ:::ضرور میری اُمت
میں ایسے لوگ ہوں گے جو زِنا، ریشم (پہننے )اور شراب اور باجوں کو حلال کرنے کی کوشش
کریں گے ))))) صحیح البُخاری / حدیث5590/ کتاب الأشربہ /باب 6 ،
یہ بھی بالکل اُسی طرح کی پیش
گوئی جیسا کہ اکیلی عورت کے سفر کرنے والی ہے ، تو کیا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جب
اُمت کے کچھ لوگ شراب خوری، زِنا، ریشم پہننے ،
اور موسیقی کے آلات کا اِستعمال اور اُن کی تجارت وغیرہ کو حلال سمجھنے
لگیں ، یا کہنے لگیں تو یہ سب حلال
ہوجائیں گے ، جِس طرح اکیلی عورت کا سفر واقع ہوجانے سے سمجھا
جاتا ہے ؟؟؟
پس واضح ہو جاتا
ہے کہ کِسی ناجائز او رحرام کام کے واقع ہوجانے سے یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ وہ
حلال ہو گیا ،
کچھ فقہاء کرام رحمہم اللہ نے حج اور عمرے کے لیے سفر کو اِس طرح کے
خیالات کی بناء پر محرم کے بغیر بھی جائز قرار دِیا ہے ، اور کچھ دیگر حالات کو بھی جائز قرار دِیا ہے ، اُن کی مختلف بحثوں میں سے ، جو باتیں دُرُست لگتی ہیں
وہ درج ذیل ہیں :::
حج اور عمرے کے سفر کے لیے بھی محرم کا ساتھ ہونا ضروری
ہے ،
کوئی ایسا سفر جو مجبوری ہو، شرعی طور پر حالتء اضطرار
پر مبنی ہو ، مثلاً ، موت کے اندیشے والی
بیماری ، یا اپاہجی وغیرہ کے اندیشے والی بیماری
کے عِلاج کے لیے ، کافروں کے
علاقے سے نکلنے کے لیے ، دُشمن کے نرغے سے نکلنے کے لیے ، ایسے سفر کے لیے محرم کے
ساتھ کا انتظار نہیں کیا جانا چاہیے ، عورت اکیلے سفر کر سکتی ہے ، واللہ اعلم،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہمارے سب کو اُس کا دِین اُس
کی رضا کے مُطابق سمجھنے، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے
دربار میں حاضر ہونے والوں میں بنائے ،
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
طلب گارء دُعاء ،
آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت
: 05/06/1438ہجری،
بمُطابق،04/03/2017عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا
برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔