Wednesday, March 1, 2017

::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے موت کا لفظ استعمال کرنا :::


::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے موت کا لفظ استعمال کرنا :::::::
بسم اللہ ، والصلاۃ و السلام علی خیر خلقہ و عبدہ و رسولہ محمد ، و علی اصحابہ و ازواجہ و آلہ اجمعین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
اِس حقیقت میں شک کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اللہ تبارک وتعالیٰ کی مخلوق میں سب سے زیادہ بلند ،اعلی اور ارفع رُتبے والے ہیں ،
اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت اِیمان کا لازم جز ہے ، اس کا بیان  """سیرت والے مضامین """ میں سے آٹھویں مضمون""" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلِہ وسلم سے مُحبت اور اُن کی تابع فرمانی"""میں ،
 اور """رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مدد کیجیے"""میں سے """تکمیل اِیمان کی شرط :::رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے محبت""" میں کیا جا چکا ہے،
الحمد للہ ، سیرت سے متعلق تمام مضامین درج ذیل ربط پر میسر ہیں :
جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت کرنا ، اِیمان کا ایک لازمی جُزء ہے ،  اِسی طرح اُس محبت میں اُسی محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ، اور اُن کے اور ہم سب کے اکیلے خالق اور مالک کی مقرر کردہ حُدُود سے تجاوز کرنا اِیمان کے منافی ہے ، گناہ ہے ،
جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے جس قدر زیادہ محبت ہو گی اُس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی موت کا ذِکر اُسی قدر غم ناک ہو گا،
لیکن محبت  کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ حقائق سے نظر چرائی جائے اور محبوب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات سے رُو گردانی کی جائے اور محبوب کی تابع فرمانی کرنے کی بجائے اپنی محبت کے زعم میں اُس کی نافرمانی کی جائے ،
اللہ جلّ شانہ ُ کے علاوہ جو کچھ بھی تھا ، اور ہے اور ہوگا وہ اللہ کی مخلوق ہے ، اُسی مخلوق میں سے اللہ کے تمام تر نبی اور رسول علیہم الصلاۃ و السلام  بھی تھے ، جب میں سے سب سے آخری اور سب سے افضل اعلی اور عظیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تھے ،
یہاں سے آگے چلنے سے پہلے اپنے آپ کو مضبوط کر لیجیے ، اور یہ جان رکھیے کہ  موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی مخلوق کو مفر نہیں ،
عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ ہر ایک نبی اور رسول علیہم السلام پر موت وارد ہوئی ، کسی کو اس سے مفر نہیں ، اور عیسیٰ علیہ السلام پر بھی موت وارد ہونا ہے ، کسی کو اس سے چھوٹ نہیں ،
رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں یہ کہنا کہ اُن پر موت وارد ہوئی ،یقیناً بڑا دُکھ ناک ہوتا ہے ، لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ،
 ہمارے اپنے خود ساختہ معیاروں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے لیے موت کا لفظ اِستعمال کرنا گوارا نہیں کرتے ، تو یہ ہماری ذاتی سوچ پر منحصر ہے ،
اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا  کہ ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ::: بےشک آپ کو بھی موت آنی ہے ، اور اِن سب کو بھی موت آنی ہےسُورت  الزُمر(39)/آیت 30،
آپ ترجمے کے الفاظ کچھ اور بھی کر لیجیے تو بھی اِس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر موت کے وارد ہونے کا اعلان فرمایا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر موت وارد ہونے کا ذکر کرنے کو گستاخی ، یا ، بے ادبی، یا نا مُناسب  سمجھنے والوں کے لیے  اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس مذ کورہ بالا فرمان کے بعد ، اب  میں اُن لوگوں کی باتیں پیش کرتا ہوں جن سے بڑھ کر رسول اللہ سلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے  قولی ،اور عملی ظاہری اور باطنی محبت کرنے والا کوئی بھی اور نہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے ،
:::::: (1) ::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے بلا فصل خلیفہ ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی وفات  کے موقع پر کیا فرمایا ؟؟؟ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی وفات کے بعد أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے حجرہ میں داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چہرہ مُبارک سے کپڑا ہٹایا تو فرمایا (((بِأَبِى أَنْتَ وَأُمِّى طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا ، وَالَّذِى نَفْسِى بِيَدِهِ لاَ يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا  :::میرے پاں باپ آپ پر قربان ہوں ، آپ زندہ حالت میں بھی پاکیزہ تھے اور میت ہو کر بھی پاکیزہ ہیں ، اُس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اللہ ہر گز بھی  آپ کو دو دفعہ موت نہیں دے گا)))صحیح البخاری /کتاب فضائل الصحابہ/باب5م،
 اور اِسی باب میں، اگلی حدیث میں ،  اس کے کچھ دیر کے بعد کا واقعہ بھی مذکور ہے کہ ، أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ نے لوگوں سے خطاب فرمایا اور کہا (((أَلاَ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا - صلى الله عليه وسلم - فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَىٌّ لاَ يَمُوتُ . وَقَالَ ﴿ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ وَقَالَ ﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِى اللَّهُ الشَّاكِرِينَ:::خبردار ، (یعنی سب اچھی طرح سے سمجھ لو)جو کوئی تو محمد کی عِبادت کرتا تھا تو وہ(جان لے)کہ یہ بات یقینی ہے کہ  محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر موت وارد ہو گئی ہے ، اور جو کوئی اللہ کی عِبادت کرتا تھا تو (وہ یہ جان رکھے)کہ اللہ زندہ ہے کبھی نہیں مرے گا ، اور پھریہ آیت پڑھی کہ﴿بےشک آپ کو بھی موت آنی ہے ، اور اِن سب کو بھی موت آنا ہےاور یہ آیت پڑھی کہ﴿اور محمد تو صِرف رسول ہیں ، اُن سے پہلے بھی رسول ہو گذرے ہیں ، کیا اگر محمد مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ اپنی ایڑیوں کے بل واپس پلٹ جاؤ گے ، (اور اگر ایسا کرو گے تو )اللہ کو کوئی چیزنقصان نہیں پہنچا سکتی ، اور اللہ جلد ہی شکر کرنے والوں کو جزاء دے گا)))،
:::::: (2) ::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبوب ترین زوجہ محترمہ ، اِیمان والوں کی امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا کہنا ہے کہ (((لَقَدْ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَمَا شَبِعَ مِنْ خُبْزٍ وَزَيْتٍ فِى يَوْمٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر موت وارد ہو گئی ،اور(اُن کی ساری زندگی اِس حال میں گذر گئی کہ)کبھی ایک ہی دِن میں دو دفعہ روٹی اور تیل نہیں کھایا)))صحیح مُسلم/کتاب الزُھد والرقاق/پہلا باب،
امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کے اِس مذکورہ بالا بیان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے محبت کے دعوے کرنے والے اُن لوگوں کے لیے بہت بڑا پیغام ہے جو خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ ٹھیک اِسی وقت اُن کے کتنے ہی مُسلمان بھائی اور بہنیں بھوکے پیاسے ہیں ، زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تڑپ رہے ہیں ، اور یہ اُن تک رسائی بھی رکھتے ہیں لیکن اپنی لذتیں ترک کرنا تو درکنار اُن میں کچھ کمی بھی نہیں کرتے اور دعویٰ ہوتا ہے محبت بلکہ بقول اُن کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ،
بیوی بچوں کی خواہشات پوری کرنے کے لیے اچھے اچھے ہوٹلوں میں کھاتے ہیں اور وہاں جاتے ہوئے اور وہاں سے آتے ہوئے کئی حقیقی طور پر محتاج دکھائی دیتے ہیں تو انہیں دھتکار دیتے ہیں ، اور دعویٰ کرتے ہیں محبت بلکہ بقول اُن کے عشقء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ،
جب کہ محبت اور عشق میں بہت فرق ہے اور یہ جذبہ اللہ اور اس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسوب کرنا قطعاً مناسب نہیں ، """ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر صلاۃ معنی مفہوم، صحیح اور ضعیف فضائل اور اعمال """ میں لکھا تھا کہ :::
 [لفظ عِشق کا اِستعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات مُبارک ، اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک کے لیے اِستعمال کرنا دُرُست نہیں، کیونکہ محبت اور عِشق ایک جذبے کے دو الگ الگ انداز ہیں ، ایک انداز پاکیزگی پر مشتمل ہے اور دُوسراانداز جسے عِشق کہا جاتا ہے ، وہ ہے جب محبت میں نفسانی خواہشات کی تکمیل کا لالچ یا مقصد بھی شامل ہو جائے ، لہذا یہ لفظ ، یہ جذبہ اللہ جلّ شانہ ُ کی ذات پاک کے لیے ، اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات پاک کے لیے اِستعمال کرنا قطعاً مُناسب نہیں ، جِسے اپنی محبت کا دعویٰ کرنا ہے تو محبت کا نام دے کر کرے ، عِشق کا نہیں]
اللہ ہی ہے جو ہمیں ہماری غلطیاں ماننے کی جرأت دے سکتا ہے اور اُن کی اصلاح کی ہمت بھی ،
:::::: (3) ::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چچا جان ، فضل رضی اللہ عنہ ُ بن عبدالمطلب  کا کہنا ہے کہ (((إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ،-- قَدْ مَاتَ وَإِنَّهُ لَبَشَرٌ ، وَإِنَّهُ يَأْسُنُ كَمَا يَأْسُنُ الْبَشَرُ أَىْ قَوْمِ ، فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ فَإِنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَهُ إِمَاتَتَيْنِ:::بے شک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر موت وارد ہو گئی ہے (وہ مر گئے ہیں)، اور وہ بھی بشر( اِنسان) تھے ، اور کسی بھی دوسرے بشر کی طرح  اُن میں بھی تبدیلی ہوتی تھی ، اے لوگو ، اٹھو اور اپنے ساتھی کو دفن کرو، بے شک وہ اللہ کے ہاں اتنے عزت والے ہیں کہ اللہ اُنہیں دو دفعہ موت نہیں دے گا)))سُنن الدارمی /حدیث83،
:::::: (4) ::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے فقیہ اور مفسر ء قران صحابی عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما  کا کہنا ہے ہے (((لَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ هَلُمَّ يَا فُلَانُ، فَلْنَطْلُبِ الْعِلْمَ، فَإِنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْيَاءٌ۔۔۔۔۔۔::: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر موت وارد ہو گئی ،تو میں نے انصار میں سے ایک شخص سے کہا ،آؤ اے فُلان ، آؤ عِلم طلب کریں ، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ تو زندہ ہیں۔۔۔۔۔۔)))مُستدرک الحاکم/حدیث /6294کتاب معرفۃ الصحابۃ/بابذِكْرُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، إِمام شمس الدین الذھبی نے کہا یہ روایت بخاری کی شرائط کے مطابق (صحیح )ہے،
:::::: (5) ::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک اور زوجہ محترمہ اِیمان والوں کی امی جان ام سلمہ رضی اللہ عنہا و أرضاھا کا کہنا ہے کہ (((مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- حَتَّى كَانَ أَكْثَرُ صَلاَتِهِ قَاعِدًا إِلاَّ الْفَرِيضَةَ وَكَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَيْهِ أَدْوَمَهُ وَإِنْ قَلَّ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا مرنے تک یہ معاملہ ہو چکا تھا کہ وہ سوائے فرض کے زیادہ تر نمازیں بیٹھ کر پڑھتے تھے ، اور اُن ہمیشگی کے ساتھ کیا جانا والا عمل زیادہ پسند تھا خواہ وہ تھوڑا ہی ہوتا)))سُنن  النسائی /حدیث/1654کتاب قيام الليل وتطوع النهار،/باب19صلاة القاعد في النافلة وذكر الاختلاف على أبي إسحاق في ذلك، إِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
اور بھی کئی روایات پیش کی جا سکتی ہیں ، لیکن اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ بات کو سمجھنے کے لیے اتنی ہی کافی ہوں گی ،
کہ حقیقت کو قبول کرنا ہی درستگی پر پہنچنے کا سبب بنتا ہے ، اپنی ذاتی آراء اور بلا دلیل افکار کو بنا پر حقائق کو انکار حق سے دُور لے جاتا ہے ،
چلتے چلتے یہ بھی سوال بھی ذہن میں لیتے جایے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی نے دوسرے سے یہ نہیں کہا کہ موت مت کہیے ، وصال کہیے ،  یا اسی قسم کے ایسے الفاظ استعمال کر لیجیے جو موت کا مفہوم دینے والے تو ہوں لیکن موت مت کہیے ،
اور ذرا یہ بھی سوچیے گا کہ لفظ """وصال""" کی حقیقت کیا ہے ؟؟؟
لُغوی طور پر بھی  اور عقیدے کے پس منظر میں بھی  ؟؟؟
اور جو کچھ سمجھ آئے مجھے بھی بتایے گا ،
پیشگی شکریہ ، اور جزاک اللہ خیراً،
والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت :27/10/1436ہجری،بمُطابق،12/08/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔