Thursday, March 30, 2017

::::::: کافروں سے مُشابہت کِس طرح پہچانی اور جانی جاتی ہے :::::::

:::::::  کافروں سے مُشابہت کِس طرح پہچانی اور جانی جاتی ہے  :::::::
بِسْمِ اللَّهِ و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد ،
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
مُشابہت کا لُغوی مفہوم ہے ، کِسی کے قول ، فعل، انداز ، لباس ، معاشرت   غرضیکہ کِسی بھی معاملے میں اُس کی نقالی کرنا ، اُس کے جیسا دِکھائی دینے کی کوشش کرنا ،
اور اِس کا اصطلاحی مفہوم ہے ، جان بوجھ کر ، اپنے عام معمولات میں قصداً  تبدیلی کرتے ہوئے کِسی کی کِسی بھی انداز میں نقالی کرنا ،
یہ بات تقریباً ہم سب ہی جانتے ہیں کہ ہمیں ہمارے اللہ عزّ و جلّ نے ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  کافروں کی مُشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ،
بہت سے دیگر معاملات کی طرح اِس معاملے میں بھی ہم اپنے درمیان افراط و تفریط والے رویے پاتے ہیں ، کہیں تو کوئی کِسی بھی معاملے ، کِسی بھی کام کو کافروں کی مُشابہت قرار دیتا ہے ، جبکہ یُونہی ہر وہ کام ، یا معاملہ جو کافروں میں موجود نظر آئے ، اُس کی مُشابہت کو کافروں سے مُشابہت نہیں کہاجا سکتا ،  
اور کہیں کوئی واقعتا کافروں کی مُشابہت والے معاملات کو بھی مُشابہت سے خارج قرار دیتا ہے، 
لہذا ، کِسی کام کو کافروں کے ہاں ہوتے دیکھ کر  اُس کام کو مسلمانوں کے لیے کافروں کی مُشابہت قرار دینا دُرست نہیں، ہر ایک کام  کی اصل کو جانچا جانا ضروری ہے ،   کِسی بھی مسئلے کو اچھے اور دُرست  طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اُس سے متعلق تمام تر نصوص، سلف  اور أئمہ و عُلماء کی تشریحات کا مطالعہ کیا جائے ، لیکن ،،،،،،،،،،،،،، قدر اللہ ماشاء و فعل،
افسوس اِس کِھنچ تان کا نہیں ہوتا ، بلکہ اِس بات کا ہوتا ہے کہ دونوں  ہی رویوں والے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ کفار سے مُشابہت کی پہچان کا کوئی قاعدہ قانون بھی ہے یا بس جو کچھ کافروں کے ہاں نظر آیا ، اگر کِسی مُسلمان کے ہاں بھی ویسا ہوا تو ہو گئی کافروں سے مُشابہت  ؟؟؟
عُلماء کرام نے  کافروں سے مُشابہت کے بارے میں جو باتیں قوانین کے طور پر ذِکر کی ہیں ، اگر اُنہیں ایک جملے میں جمع کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ (((أن يفعلَ المُسلم  فعلًا بتکلفٍ و عمداً ، لا يَفعَلهُ  الكفار اِلاّ لِکُفرِھِم ، ولا یَکونُ بِمُقتضىٰ الإنسانية، ولا يَكونُ التَّشبَهَ بِالكُفار إلاّ بِفعلٍ ما أختصوا بهِ مِن دِينهم أو عاداتهم:::  کافروں سے مُشابہت یہ ہے کہ کوئی مسلمان  اپنے اِرادے  ، کوشش کر کے ، کوئی ایسا کام کرے جو کافر  اپنے کفر کی وجہ سے  کرتے ہوں ،  پس کافروں سے مُشابہت صِرف اُسی کام میں ہوتی ہے جو کام اُن کے دِین اور اُن کی( کفریہ )عادات کی وجہ سے ہو    )))
پس واضح ہوا کہ ،   ہر  وہ  بات ، کام ، معاملہ ، حلیہ ، عاد ت، انداز ،  جو کافروں کے ہاں  اُن کے کِسی عقیدے  کی بِناء پر مروج ہوا ہو، اُس کی  مُشابہت اختیار کرنا حرام ہے ،   اور جو  کام محض انسانی ضرورت کی تکمیل کے لیے اپنایا گیا ہو ، وہی کام مسلمانوں کے معاشرے میں بھی  کیا جانے لگے تو وہ  کافروں کی مُشابہت نہیں ، مثلاً ،
سفر کی تکمیل کے لیے کوئی سواری اِستعمال کرنا، حیوانی سواریوں کی بجائے مشینی سواریاں اِستعمال کرنا کافروں کی طرف سے ہی آیا ، لیکن اُس میں کافروں کی کوئی مُشابہت نہیں ،
اور مختلف قسم کی مشینری  اور  ڈیوائسز  وغیرہ سب ہی کافروں کی ایجاد و اختراع ہیں ، اُن کی طرف سے ہی آئی ہیں ، اُن چیزوں کو اِستعمال کرنا کافروں کی مُشابہت نہیں ،  اُن چیزوں کو  حلال یا حرام کاموں کے لیے اِستعمال کرنا الگ مسئلہ ہے ، 
کھانے پینے کے مختلف انواع و اشکال کے برتن ، مثلاً چھری ،کانٹا، پلیٹ ، کِسی کافر قوم کے ہاں مروج مخصوص شکل کا کوئی برتن ، جو محض اُس قوم کے معاشرے میں افتاد طبع  کی وجہ سے ایک مخصوص شکل میں  رائج ہو گیا ، ایسے کِسی برتن کو اِستعمال کرنا کافروں سے مُشابہت نہیں ،
ایک ہی شخص کا دو یا تین  الفاظ پر مشتمل  نام رکھا جانا  ، محض ایک معاشرتی عادت ہے ، جیسا کہ ہندوستا ن میں ہندؤ رکھتے تھے ، اور رکھتے ہیں ، ایسے نام اختیار کرنے میں اُن کا کوئی دینی عقیدہ کارفرما نہیں ، اور نہ اِس عادت کے بارے میں  کوئی ایسی خبر ملتی ہے جِس کی وجہ سے اِس عادت کو کِسی طرح اُن کے دِین سے متعلق سمجھا جائے ، ہندوستانی معاشرے میں رہنے والے ، اور اُس معاشرے میں مُسلمان ہونے والے بھی اُسی طرح نام  رکھتے چلے آ رہے ہیں ، اِسے کافروں کی مُشابہت نہیں کہا جا سکتا ،
اِسی طرح کا معا ملہ  ہے شادی کے بعد بیوی کے نام کے ساتھ خاوند کا ،یا اُس کے خاندان کا نام لگا دِیے جانے کا ، کچھ کافر معاشروں کی عادت تھی اور  ہے ، جِس میں کِسی  دِینی عقیدے کا عمل دخل نہیں ،  جی معاشرتی خیالات کا کچھ ذِکر ملتاہے  کہ  ایسا اِس  لیے کیا جاتا ہے  کہ عورت شادی کے بعد اپنے شوہر کی ملکیت  ہو جاتی ہے ، لہذا اُس کے باپ کی بجائے اُس کے شوہر کانام لگا دیا جاتا ہے،
اور یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ شادی کے بعد عورت دُوسرے خاندان  کا فرد بن جاتی ہے لہذا اُس کے باپ کا نام ، باپ کے خاندان کا لاحقہ وغیرہ ہٹا کر شوہر کا نام ، یا شوہر کے  خاندان کا نام اُس کے نام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے،
اِس کے عِلاوہ  بھی  کچھ فسلفے ملتےہیں ، جن  میں کہیں بھی کِسی دینی عقیدے کا ذِکر نہیں ملتا،  بلکہ حسب ، نسب اور خاندان کی تبدیلی ہی اِس کا سبب ثابت ہوتی ہے،
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نام کی یہ  تبدیلی، جو عورت کے حسب ، نسب اور خاندان میں تبدیلی کا ،مظہر ہوتی ہے ، سب ہی کافر معاشروں میں ضروری نہیں سمجھی جاتی ، کئی کافر  معاشروں میں یہ  عورت کے اختیار پر چھوڑ  دِیا جاتا ہے ،
لہذا اِس  کام کو ہم کافروں کی مُشابہت میں شمار نہیں کر سکتے ،  لیکن یہ کام یقینا حرام ہے ، یعنی اپنا حسب و نسب تبدیل کرنا ، اِس کی تفصیل اِن شاء اللہ الگ موضوع کے طو رپر پیش کی جائے گی،
اب  آتے ہیں ، لباس کی طرف ، تن ڈھانپنا ، جسم کو موسم کی شدت سے محفوظ رکھنا، اِنسان کی ضرورت ہے ،
ہر معاشرے میں وہاں کے افراد نے اپنے لیے مختلف لباس اختیار کیے ، جو وقت کے ساتھ ساتھ شکلیں تبدیل کرتے ہیں ، اور اُن میں سے کچھ لباس ایسے ہوتے ہیں ، جو  کسی قوم کے لیے مخصوص ہو کر رہ جاتے ہیں ، اُن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، مثلاً ، مشترکہ ہندوستانی معاشرے میں ، عورتیں ساڑھی پہنا کرتی تھیں، اور اب بھی پہنتی ہیں ، مسلمان بھی اور کافر بھی ، اب اگر کوئی ساڑھی  پہننے کو، یا مغربی عورتوں کے لباس میں سے چوغے نما لباس (میکسی وغیرہ ) پہننے کو  علی الاطلاق کافروں کی مُشابہت قرار دے تو اُس کی بات مانے جانے کے قابل نہیں ، سوائے اُس انداز میں ساڑھی ، یا ، چوغہ  پہننے کے جو انداز کافر عورتوں کا مخصوص مذہبی انداز ہے ،
اِسی طرح کا معاملہ  مَردوں کا دھوتی، یا تہہ بند پہننے کا ہے ، پنڈتوں کی مخصوص انداز میں پہنی جانے والی دھوتی یا تہہ بند تو کافروں کی مُشابہت میں آئے گی ، ہر ایک دھوتی یا تہہ بند نہیں ،
اِسی طرح  مَردوں کے سر ڈھانپنے کا معاملہ ہے ، جِس کے لیے مختلف معاشروں میں  چادر ، رومال ، ٹوپی اور  پگڑی وغیرہ اِستعمال ہوتی ہیں  ،
مُسلمان بھی اِستعمال کرتے ہیں ، اورکافر بھی ، تو پھر کِس رومال ، ٹوپی یا پگڑی کو کافروں کی مُشابہت سمجھا جائے گا اور کس کو نہیں ،
صاف ، سیدھا اور واضح سا جواب ہے کہ ، یہودیوں کی ٹوپیوں کے ایک دو مخصوص انداز ہیں ، وہ اُنہی کی ہیں ، اگر کوئی مُسلمان پہنے  گا تو اُس کے پہننا کافروں سے مُشابہت  ہو گی ،
 ہندؤں اور سکھوں کے مخصوص انداز میں پہنی یا باندھی جانے والی پگڑی  کوئی مُسلمان پہنے گا تو اُس کا پہننا کافروں سے مُشابہت قرار پائے گی ،
اور اِس قِسم کی بہت سے مثالیں ذِکر کی  جاسکتی ہیں ،اُمید ہے کہ اِن شاء اللہ بات کو سمجھنے کے لیے اتنی ہی کافی رہیں گی،
  یاد رہے کہ لباس کے بارے میں  ، میری بات صِرف کافروں کی مُشابہت کے مسئلے کے مُطابق ہے ، اِسلامی لباس کی دیگر شرائط کے مُطابق نہیں ، اُن کا مسئلہ اپنی جگہ ہے ،  اور کِسی لباس یا عادت کا بذاتہ حرام ہونا الگ مسئلہ ہے ، اور صِرف کافروں کے ہاں مروج ہونا، یا کافروں کی طرف سے آنا کچھ اور ، یعنی ایسے کام ، یا چیزیں جِن کے حرام ہونے  کی خبر ، یا ، جن کی نسبت  کافروں سے  اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے بتائی گئی ہو ، اُنہیں اپنانا ، اُنہیں  اِستعمال  کرنا تو حرام ہی رہے گا ، خواہ ساری دُنیا کے مُسلمان اُنہیں اِستعمال کرنے لگیں،
تو حاصل کلام یہ ہوا ، کہ ، کِسی کام ، کِسی قول ، کِسی معاملے ، کِسی معاشرتی  عادت ، کِسی کپڑے، کِسی لباس  ، اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینےکے کِسی انداز ، کِسی چیز کے کِسی اِستعمال وغیرہ میں   کافروں سے مُشابہت صِرف اُسی وقت سمجھی جا سکتی ہے جب  یہ بات یقینی ہو جائے کہ وہ کام ، وہ قول ، وہ معاملہ ، وہ عادت ، وہ کپڑا، وہ لِباس ، اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے  کا وہ اندا ز، وہ چیز، اور اُس کا وہی اِستعمال کافروں کے ہاں کِسی انسانی ضرورت کے تحت نہیں پایا جاتا  تھا ، یا، پا یا جاتا ہے ،  بلکہ اُن کی کِسی کفریہ ، کِسی شرکیہ عقیدے ، کی وجہ سے پایا جاتا  تھا ، یا ، پایا جاتا ہے،
مثال کے طور پر ، جیسا کہ ،موجودہ نیک ٹائی ، جِس کی ابتداء کفریہ عقیدے کی وجہ سے ہوئی، اِسلام اور مُسلمانوں سے دُشمنی کے اظہار کے طو ر پر ہوئی ،    لہذا اِس پہننا ، باندھنا کافروں کی مُشابہت ہے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، اور ہمارے سب کلمہ گو بھائی بہنوں کو حق جاننے ، ماننے ، اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق عطاء فرمائے،
والسلام علیکم،طلب گارء دُعا ء آپ کا بھائی ، عادلِ سہیل ظفر ،
تاریخ کتابت : 26/07/1436ہجری، بمُطابق،15/05/2015عیسوئی ۔
تاریخ  نظر ثانی : 09/06/1438ہجری، بمُطابق،08/03/2017عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر موجود ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔