Monday, May 23, 2016

::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (5) :::"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """

::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ  (5) :::::
"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """
بِسم اللَّہ ،و السَّلام علی مَن اتبع الھُدیٰ و سلک علی مسلک النبی الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و قد خاب من یشقاق الرسول بعد ان تبین لہُ الھُدیٰ ، و اتبع ھواء نفسہ فوقع فی ضلالا بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
گذشتہ سے پیوستہ ہوئے کہتا ہوں کہ اعتراض کرنے والے نے  اپنی جہالت یا اللہ تبارک و تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دُشمنی کے غُبار میں سوائے کلام اللہ ،صحیح احادیث کے  اپنی طرف سے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ خرافات سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے ، الحمد للہ سابقہ چار حصوں میں قران کریم ، صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ اور اسلامی علوم کے قوانین و قواعد کے دلائل کے ساتھ اعتراضی کی کاروائیوں کی حقیقت ظاہر ہو چکی ہے ،
اب اِس پانچویں حصے میں کچھ مزید ملاحظہ فرمایے :
اعتراضی نے اپنے اعتراضات کی تائید میں ، اور کتوں کی وکالت میں اللہ کے کلام پاک میں معنوی تحریف جاری رکھتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ"""""قران کریم میں  اصحابَ کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ چند انقلابی ذہنیت کے حامل نوجوان اپنے زمانہ کے جاگیر داروں ، بادشاہ اور ظالم سرمایہ داروں سے کچھ عرصہ کے لیے  Walk out کر کے ایک پوشیدہ غار میں جا کر رہائش رکھ بیٹھے تھے تو ان کے ساتھ ان کا ایک کتا بھی تھا ۔ اس کتے کی حفاظتی تدابیر کی تعریف قرآن نے ان الفاظ میں کی ہے :
وَكَلْبُهُمْبَاسِطٌذِرَاعَيْهِبِالْوَصِيدِ(سورہ کہف۔آیت18)
یعنی ان کاکتا بھی ان کی حفاظت کے لیے اپنے بازو پھیلائے ہوئے غار کے منہ پر بیٹھا رہتا تھا ۔ اور یہ انداز ایسا ہوتا تھا کہ جو انقلابی پیچھے سوئے ہوتے تھے ، تو کتا سامنے Attention بیٹھا ہوتا تھا ۔اور قرآن پھر فرماتا ہے کہ:
لَوِاطَّلَعْتَعَلَيْهِمْلَوَلَّيْتَمِنْهُمْ(سورہ کہف۔آیت18)
اگر اسے اس انداز میں کوئی دیکھتا تو ڈر کے مارے بھاگ ہی کھڑا ہوتا
المختصر کتا شکار وغیرہ کے علاوہ انسانوں کی فوجی،دفاعی اور انوسٹی گیشن ضروریات کے لیے ایک بہت ہی مفید جانور ہے۔ """""،
قارئین کرام ،،،،، اس منقولہ بالا اقتباس میں اعتراضی نے سوائے اللہ کے کلام کے جو کچھ بھی لکھا ہے سراسر جھوٹ ہے ،اور اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ پر جھوٹ ہے ،ترجمہ بھی بالکل غلط طور پر اس انداز میں کیا گیا ہے جو اس خائن شخص  کی حمایت کرنے والا ہو سکے ، یہ سب کاروائیاں اعتراض کرنے والے کی بددیانتی کا ایک اور منہُ بولتا ثبوت ہے ، 
قارئین کرام ۔ اعتراضی کی منقولہ بالا خرافاتی باتوں کا جواب پیش کرنے سے پہلے یاد کرواتا چلوں کہ  یہ شخص قران کریم کو اللہ کا کلام نہیں بلکہ کوئی  ایسی مخلوق سمجھتا ہے جسے اللہ نے بات کرنے کی صلاحیت دی ہو ، اور اس کا ایسا سمجھنا بھی اس شخص کی""" خِلافء  قران،قران فہمی """ کے بہت سے دلائل میں سے ایک ہے ،
محترم قارئین ، اللہ جل ّ و علا نے سُورت کہف میں جن اصحاب کہف کا ذِکر کیا وہ یقینا جوان عمر کے تھے ، لیکن اعتراضی نے انہیں جس طرح کے انقلابی بناکر دکھانے کی کوشش کی ہے  وہ لوگ ویسے تو نہ تھے ، 
پڑنے والوں کو متاثر کرنے کے لیے ، """ زمانے کے جاگیرداروں ، بادشاہ ،  سرمایہ داروں کے خلاف انقلاب """ جیسے الفاظ لکھ کر جو انقلابی صفات اعتراضی نے لکھی ہیں ، یہ تو قران کریم میں مذکور نہیں ہیں ، کیا انقلابی کو کسی ایرانی نے بھاڑہ  دے کر یہ صِفات  اس سے لکھوائی ہیں!!!؟؟؟
یا اس پر وحی نازل ہوئی ہے!!!؟؟؟
آیے سُورت کہف میں اس واقعہ کے اُتنے حصے کامطالعہ کرتے ہیں جسے جھوٹے اور خائن  اعتراضی نے اپنی"""خِلافء قران ، قرانی فہمی """اور """رسول دُشمنی """کو ہی درست دکھانے کے لیے  اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے لیے استعمال کر ڈالا ہے،اور اس کا انجام اللہ تعالیٰ نے اسی سُورت الکہف میں اسی اصحابء کہف کے واقعے میں بھی ذِکر فرما رکھا ہے ، لیکن اس اعتراضی کو اس کی بھی سمجھ نہیں آئی ،،،یا سمجھ کر بھی نا سمجھ بن گیا ، ،، یا وہ اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا !!!؟؟؟
اور نہ ہی اسے اصحاب ء کہف کے اس واقعے کے بیان میں سے یہ سمجھ آیا کہ اِس واقعہ میں اس کے اوراس کے ہم مسلکوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اور بھی کچھ خبریں عطا کر رکھی ہیں ، ان شااللہ ابھی ہم ان سب کا مطالعہ کرتے ہیں ،
محترم قارئین ، بغور مطالعہ کیجیے گا کہ  اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ،  اور اس بد دیانت اعتراضی نے کس طرح اللہ کے کلام کے معنی کو تبدیل کرکے ، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے دُشمنی کی تپش نکالنے کی گندی اور بدبودار کوشش کی ہے ،
سُورت الکہف میں اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اصحابء کہف کا واقعہ اِس طرح بیان فرمایا:::
(((((نَحْنُنَقُصُّعَلَيْكَنَبَأَهُمْبِالْحَقِّإِنَّهُمْفِتْيَةٌآمَنُوابِرَبِّهِمْوَزِدْنَاهُمْهُدًىOوَرَبَطْنَاعَلَىقُلُوبِهِمْإِذْقَامُوافَقَالُوارَبُّنَارَبُّالسَّمَاوَاتِوَالْأَرْضِلَنْنَدْعُوَمِنْدُونِهِإِلَهًالَقَدْقُلْنَاإِذًاشَطَطًاOهَؤُلَاءِقَوْمُنَااتَّخَذُوامِنْدُونِهِآلِهَةًلَوْلَايَأْتُونَعَلَيْهِمْبِسُلْطَانٍبَيِّنٍفَمَنْأَظْلَمُمِمَّنِافْتَرَىعَلَىاللَّهِكَذِبًاO وَإِذِاعْتَزَلْتُمُوهُمْوَمَايَعْبُدُونَإِلَّااللَّهَفَأْوُواإِلَىالْكَهْفِيَنْشُرْلَكُمْرَبُّكُمْمِنْرَحْمَتِهِوَيُهَيِّئْلَكُمْمِنْأَمْرِكُمْمِرْفَقًاOوَتَرَىالشَّمْسَإِذَاطَلَعَتْتَزَاوَرُعَنْكَهْفِهِمْذَاتَالْيَمِينِوَإِذَاغَرَبَتْتَقْرِضُهُمْذَاتَالشِّمَالِوَهُمْفِيفَجْوَةٍمِنْهُذَلِكَمِنْآيَاتِاللَّهِمَنْيَهْدِاللَّهُفَهُوَالْمُهْتَدِوَمَنْيُضْلِلْفَلَنْتَجِدَلَهُوَلِيًّامُرْشِدًاOوَتَحْسَبُهُمْأَيْقَاظًاوَهُمْرُقُودٌوَنُقَلِّبُهُمْذَاتَالْيَمِينِوَذَاتَالشِّمَالِوَكَلْبُهُمْبَاسِطٌذِرَاعَيْهِبِالْوَصِيدِلَوِاطَّلَعْتَعَلَيْهِمْلَوَلَّيْتَمِنْهُمْفِرَارًاوَلَمُلِئْتَمِنْهُمْرُعْبًا:::ہم (اے محمد)آپ پر اُن لوگوں کا واقعہ حق کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، وہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے رب پر اِیمان لائے اور ہم نے انہیں ہدایت میں بڑھاوا عطاء فرمایا Oاور ہم نے اُن کے دِلوں کو مضبوط کیا ، جب وہ لوگ(کفر اور شرک کے خِلاف)کھڑے ہو گے اور انہوں نے کہا ، ہمارا رب تو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ، ہم اُس کے علاوہ کسی بھی اور کو معبود (کے طور پر )نہیں پُکاریں گے ،(اور) اگر ہم نے ایسا کیا تو یقیناً ہم بہت بری بات کہیں  گے Oیہ جو ہماری قوم ہے انہوں نے  تو اس(آسمانوں اور زمین کے  رب )کے  علاوہ  اور معبود اپنا رکھے ہیں،یہ (ہماری قوم کے )لوگ(اپنے اُن جھوٹے خود ساختہ )معبودوں( کے حق ہونے) کی کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے ؟ پس (اپنی جان پر )اُس سے بڑا ظلم کرنے والا اور  کون ہے  جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے O اور اب جبکہ تم نے ان (کافروں اور مشرکوں) سے، اور جس جس کی بھی یہ اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہیں (ان سب سے) کنارہ کشی کر لی ہے تو غار میں چل کر پناہ لے لو ، تم لوگوں کا رب  اُس کی رحمت کو تم لوگوں کے لیے وسیع کر دے گا ، اور تُم لوگوں کے کام کے لیے آسانی مہیا فرما دے گا O اور اگر آپ ان لوگوں کو غار میں دیکھتے(تو  آپ کو یہ منظر آتا )کہ جب سورج نکلتا تھا  تو ان کے غار  سے ( دھوپ ڈالے بغیر )دائیں طرف چلا جاتا تھا، اور جب غروب ہوتا تھا تو اُن(لوگوں پر شعاعیں ڈالنے)سےبچ  کر بائیں طرف نکل جاتا تھا ، اور وہ لوگ غار کے اندر ایک کھلی جگہ میں پڑے ہوئے ہیں ، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے ، اور جسے اللہ گمراہ کر دے آپ اُس کے لیے کوئی بھی (ہدایت کا)راستہ دکھانے والا مددگار نہیں پا سکتے O اور آپ انہیں (دیکھ کر)جاگتا ہوئے سمجھتے ، لیکن وہ سو رہے ہیں ،اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹیں پلٹاتے ہیں ، اور انکا کتا اپنی دونوں کلائیاں بچھائے ہوئے (غار کے)دھانے پر(سویا ہوا)تھا ، اگر آپ انہیں جھانک کر دیکھ لیتے تو اُن سے فرار ہو جاتے ، اور ان (کےمنظر )سے خوف زدہ ہوجاتے)))))
:::::::قارئین کرام ، اللہ جلّ جلالہُ کے اس مذکورہ بالا کلام میں بڑی ہی وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصحابء کہف""" زمانے کے جاگیرداروں ، بادشاہ ،  سرمایہ داروں کے خلاف انقلاب """برپا کرنے والے انقالبی نہیں تھے ، بلکہ اپنی ساری ہی قوم کے شِرک اور کفر کے خِلاف اللہ کی توحید پر ایمان لانے والے تھے ، اور اپنی قوم کے سامنے مادی طور پر کمزور تھے لہذا اپنا ایمان بچاتے ہوئے اور اپنی قوم کے شر سے بچنے کے لیے کسی غار میں جا کر پناہ گزیں ہوئے ،اُن کا انقلاب ان کی اپنی ذاتوں تک محدود تھا ، """ زمانے کے جاگیرداروں ، بادشاہ ،  سرمایہ داروں کے خلاف"""نہیں ،
:::::::محترم قارئین، جس طرح کتے کی فطری عادات میں سے ہے کہ وہ مشقت، پیاس ، یا تکلیف وغیرہ  میں ہو یا آرام کی حالت میں،عموماً اپنی  زبان لٹکائے رکھتا ہے ، جسے بنیاد بنا کر اعتراضی نے بہت سے خرافات لکھ ماری تھیں ، (جن کی اصلیت پچھلے حصے میں واضح ہو چکی ہے)اِسی طرح کتے کی فطری عادات میں سے ہے کہ جب وہ بیٹھتا ہے تو اپنی دونوں کلائیاں بچھا کر بیٹھتا ہے ، خواہ وہ کسی کی چوکیداری کرنے بیٹھا ہو یا یُوں ہی بیٹھا ہو ،اور عموماً اسی انداز میں سویا بھی رہتا ہے ، یہ سب کچھ آج بھی مشاہدے سے ثابت ہے ، 
:::::::قارئین کرام ، اِن شاء اللہ آپ صاحبان کو یاد ہو گا کہ اعتراضی نے ایک صحیح ثابت شدہ حدیث شریف میں پیاسے کتے کے کنویں کے اِرد گِرد زبان لٹکائے ہوئے چکر لگانے کے ذِکر کے لیے فرمائے گئے لفظ """ یلھث """ کو کتے کی فطری عادت کہہ کر محدثین کرام رحمہم اللہ  پر جھوٹے الزامات لگائے تھے ، الحمد للہ اعتراضی کی اُن ساری خرافات کا بطلان ثابت ہو چکا ، اور  سبحان اللہ، قربان جاؤں اللہ کی قدرت پر جس نے  چند ہی صفحات کے بعد اعتراضی کے عمل میں  وہ کچھ ظاہر کروا دِیا جس کا جھوٹاالزام اُس نے محدثین کرام رحمہم اللہ نے پرلگایا تھا ،   ، 
کہ کتے کے بیٹھنے کے فطری انداز کو صِرف اور صِرف اپنی تخلیلاتی دُھند میں بنائے ہوئے انقلابیوں کی حفاظت کرنے والا Attention چوکیدار بنا دِکھانے کی کوشش میں اللہ کے کلام پاک  کو اپنی""" خِلافء قران ، قران فہمی """ کی سیاہی سے داغدار کرنے کی بھر پور کوشش کی ، جی ہاں دیکھیے ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو یہ ہی فرمایا ہے کہ (((((وَكَلْبُهُمْبَاسِطٌذِرَاعَيْهِبِالْوَصِيدِ:::اور ان کا کتا اپنی دونوں کلائیاں بچھائے ہوئے (غار کے)دھانے پر(سویا ہوا)تھا))))) جس میں سے کسی بھی طور صِرف یہ معنی اور مفہوم  نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ کتا Attention چوکیدار بنے ہوئے اصحابء کہف کی حفاظت کرتا  رہا ، جیسا کہ بد دیانت اعتراضی نے  لکھا :::
"""""قران کریم میں  اصحابَ کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ چند انقلابی ذہنیت کے حامل نوجوان اپنے زمانہ کے جاگیر داروں ، بادشاہ اور ظالم سرمایہ داروں سے کچھ عرصہ کے لیے  Walk out کر کے ایک پوشیدہ غار میں جا کر رہائش رکھ بیٹھے تھے تو ان کے ساتھ ان کا ایک کتا بھی تھا ۔ اس کتے کی حفاظتی تدابیر کی تعریف قرآن نے ان الفاظ میں کی ہے :
وَكَلْبُهُمْبَاسِطٌذِرَاعَيْهِبِالْوَصِيدِ(سورہ کہف۔آیت18)
یعنی ان کاکتا بھی ان کی حفاظت کے لیے اپنے بازو پھیلائے ہوئے غار کے منہ پر بیٹھا رہتا تھا ۔ اور یہ انداز ایسا ہوتا تھا کہ جو انقلابی پیچھے سوئے ہوتے تھے ، تو کتا سامنے Attention بیٹھا ہوتا تھا ۔"""""،
ان شاء اللہ سب ہی قارئین آسانی سے یہ سمجھ چکے ہوں گے کہ(((((وَكَلْبُهُمْبَاسِطٌذِرَاعَيْهِبِالْوَصِيدِ)))))  وہ ترجمہ اور مفہوم کسی بھی طور نہیں بنتا جو جھوٹی باتیں اور الزامات گھڑنے والے  اعتراضی نے بنا ڈالا ،
جی ہاں ، محترم قارئین ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان شریف (((((وَكَلْبُهُمْبَاسِطٌذِرَاعَيْهِبِالْوَصِيدِ))))) کا معنی اور مفہوم وہی بنتا ہے جو میں نےترجمہ میں  بیان کیا ہے  کہ (((((اور ان کا کتا اپنی دونوں کلائیاں بچھائے ہوئے (غار کے)دھانے پر(سویا ہوا)تھا)))))،
اور یہ مفہوم اس لیے کہ اللہ جل ّو علا کی طرف سے ایسی کوئی خبر نہیں دی گئی کہ اصحابء کہف کا کتا تین سو نوسال تک جاگ کر ان کی چوکیداری کرتا رہا ، بلکہ سیاق و سباق اور تسلسل کلام کےمطابق یہ ہی سمجھ آتا ہے کہ وہ کتا بھی غار کے دھانے پر اپنی دو نوں کلائیاں بچھائے ہوئے سو رہا تھا ،
:::::::اعتراض کرنے والا قران کریم میں سے ہی کوئی ایسی خبر دکھائے جس سے وہ کچھ ثابت ہو سکے جو کچھ اس نے لکھا ورنہ بلا شک و شبہ اُس نے وہی کچھ کیا ہے جِس کا جھوٹا الزام وہ محدثین کرام رحمہم اللہ پر لگاتا ہے ، اور یقیناً اس نے اپنی ہوائے نفس ، اور اپنے مرشدوں کی گمراہی کی اتباع کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے ،
قارئین کرام ، چلتے چلتے یُوں ہی قران فہمی کے دعوے داروں سے سورت الکہف کی انہی آیات مبارکہ کے بارے میں دو سوال کرتا چلوں ، جس کا جواب یقیناٍ ً وہ نہیں دے سکتے اِن شاء اللہ ،
::::::: اعتراض کرنے والا ، یا اُس کا کوئی بھی ہم مسلک یہ بتائے، اور صِرف قران کریم میں سے بتائے ، کسی روایت کے بل بوتے پر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کریم((((وَتَحْسَبُهُمْأَيْقَاظًاوَهُمْرُقُودٌ:::اور آپ انہیں (دیکھ کر)جاگتا ہوئے سمجھتے ، لیکن وہ سو رہے ہیں ،اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹیں پلٹاتے ہیں))))) میں جو کیفیت ذِکر فرمائی گئی ہے اس کی تشریح تو کردیں کہ اصحابء کہف کی ایسی کونسی حالت تھی کہ جس کی بنا پر انہیں دیکھنے والا انہیں سوئے ہوئے ہونے کے باجود جاگا ہوا سمجھتا ؟؟؟؟؟
:::::::اور دوسرا سوال یہ کہ اللہ جلّ و عزّ کے فرمان شریف (((وَنُقَلِّبُهُمْذَاتَالْيَمِينِوَذَاتَالشِّمَالِ::: اور ہم انہیں دائیں اور بائیں کروٹیں پلٹاتے ہیں ))))) کے بارے میں بھی کچھ بتائیں کہ کیا اللہ تعالیٰ ان کی کروٹیں کس طرح پلٹاتے تھے ؟؟؟؟؟ اور کب کب پلٹاتے تھے؟؟؟؟؟
کب کب چلیے قارئین کرام ، اب اعتراضی کی طرف سے اللہ سُبحانہ  ُ وتعالیٰ کے کلام پاک میں کی گئی اگلی معنوی تحریف کے طرف ، اس کی منقولہ بالا خرافات کے اختتام میں  لکھتا ہے :::
"""""اور قرآن پھر فرماتا ہے کہ:
لَوِاطَّلَعْتَعَلَيْهِمْلَوَلَّيْتَمِنْهُمْ(سورہ کہف۔آیت18)
اگر اسے اس انداز میں کوئی دیکھتا تو ڈر کے مارے بھاگ ہی کھڑا ہوتا
المختصر کتا شکار وغیرہ کے علاوہ انسانوں کی فوجی،دفاعی اور انوسٹی گیشن ضروریات کے لیے ایک بہت ہی مفید جانور ہے۔ """""،
محترم قارئین،ایک دفعہ پھر یاد کرواتا چلوں کہ  یہ شخص قران کریم کو اللہ کا کلام نہیں بلکہ کوئی  ایسی مخلوق سمجھتا ہے جسے اللہ نے بات کرنے کی صلاحیت دی ہو ، اور اس کا ایسا سمجھنا بھی اس شخص کی""" خِلافء  قران،قران فہمی """ کے بہت سے دلائل میں سے ایک ہے ،
::::::: اس کے بعد آپ اس اعتراضی کا لکھا ہوا ترجمہ دیکھیے ، اور اس کا موازنہ کسی بھی ترجمے کے ساتھ کیجیے ، آپ کو بالکل وضاحت سے سمجھ آجائے گا کہ اس نے کس قدر بد دیانتی اور خیانت سے کام لے کر اپنی گمراہی کو اللہ کے کلام کی آڑ میں چھپانے کی گندی گناہ آلود کوشش کرتے ہوئے اللہ کے کلام کی معنی تحریف کی ہے ،
:::::::اعتراض کرنے والے نے  آیت شریفہ کایہ حصہ لکھا ہے کہ(((((لَوِاطَّلَعْتَعَلَيْهِمْلَوَلَّيْتَمِنْهُمْ)))))اور اس حصے میں"""عَلَيْهِمْ """ اور """ مِنْهُمْ """ میں """هُم """ جمع مذکر غائب کی ضمیر ہے ، یعنی یہ کسی ایک کا ذِکر نہیں ، یقینی  طور پر دو سے زیادہ کا ذِکر ہے ، اور اس خائن اعتراضی نے ترجمے میں صِرف اکیلے  کتے کا ذِکر کیا ،
اس آیت مبارکہ کے اگلے حصے میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسی انداز اور تسلسل میں جمع کی ضمیر استعمال فرماتے ہوئے (((((فِرَارًاوَلَمُلِئْتَمِنْهُمْرُعْبًا)))))سب کا ہی ذِکر کیا ہے ، اور سیاق و سباق کی رُو سے جمع کی ضمیر اصحاب ء کہف کا ذِکر لیے ہوئے ہے ،
اعتراضی کسی طور قران کریم میں سے اس کا ہی ثبوت پیش نہیں کر سکتا کہ جمع کی اِس ضمیر میں کتے کا ذِکر بھی شامل ہے ، لیکن اس نے اس ضمیر کو  اکیلے کتے کا ہی  ذِکر بنا ڈالا ،   
محترم قارئین، آپ نے دیکھ لیا ، اور ان شاء اللہ سمجھ بھی لیا ہو گا کہ اعتراض کرنے نے کس طرح کتوں سے محبت کرنے والوں  کو خوش کرنے کے لیے کتوں کی وکالت کرتے ہوئے اللہ جلّ و عزّ کے کلام پاک کی معنوی تحریف کی ہے ،اور نام لیتا ہے قران کریم کی اتباع کا ،
میں نے کچھ دیر پہلے کہا تھا کہ""" اِس واقعہ میں اس کے اوراس کے ہم مسلکوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اور بھی کچھ خبریں عطا کر رکھی ہیں ، ان شااللہ ابھی ہم ان سب کا مطالعہ کرتے ہیں """، اور وہ خبر یں یہ ہے کہ (((((فَمَنْأَظْلَمُمِمَّنِافْتَرَىعَلَىاللَّهِكَذِبًا:::پس (اپنی جان پر )اُس سے بڑا ظلم کرنے والا اور  کون ہے  جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے)))))، اور ،
(((((مَنْيَهْدِاللَّهُفَهُوَالْمُهْتَدِوَمَنْيُضْلِلْفَلَنْتَجِدَلَهُوَلِيًّامُرْشِدًا:::جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہوتا ہے ، اور جسے اللہ گمراہ کر دے آپ اُس کے لیے کوئی بھی (ہدایت کا)راستہ دکھانے والا مددگار نہیں پا سکتے)))))
اورایک دوسرے مقام پر  اللہ جلّ و علا نے  ایسے لوگوں کا یہ انجام بھی ذِکر فرمایا ہے 
(((((فَمَنْأَظْلَمُمِمَّنِافْتَرَىعَلَىاللَّهِكَذِبًالِيُضِلَّالنَّاسَبِغَيْرِعِلْمٍإِنَّاللَّهَلَايَهْدِيالْقَوْمَالظَّالِمِينَ:::پس (اپنی جان پر )اُس سے بڑا ظلم کرنے والا اور  کون ہے  جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے تا کہ لوگوں کو گمراہ کرے اور وہ کوئی عِلم نہیں رکھتا (یعنی اپنی جہالت اور نفس کی پُوجا میں حق جانے بغیر اللہ پر جھوٹ باندھ کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے)، یقینا ً اللہ ظلم کرنے والوں  کو ہدایت نہیں دیتا)))))سُورت الانعام (6)/آیت144،
اللہ جل ّ جلالہُ پر جھوٹ باندھنے والے کے خوفناک تباہ کن انجام کی بہت سی خبریں اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی قران کریم میں دی ہیں ، جو شاید اعتراض کرنے والوں کو نظر نہیں آتیں ، اور وہ اپنی خرافات کو درست دکھانے کے لیے اللہ جلّ ثناوہُ پر جھوٹ باندھتے رہتے ہیں ،
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو توفیق دے کہ یہ لوگ اپنے ان افکار و افعال سے توبہ کر لیں اور اپنے کیے ہوئے ان گناہوں کے ازالے کے لیے کام کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعتراض کرنے والاچور مچائے شور کے مصداق، اپنی دبدیانتی اور اللہ کے دین سے دُشمنی کی طرف سے دوسروں کی توجہ ہٹانے کے لیے اُمت کے اماموں کے بارے میں تو کہتا ہے:::
"""""یہ جو زیرک اور چالاک و ہوشیار ایرانی اسورہ کے کرائے پہ رکھے گئے اماموں اور راویوں Anti-dog  روایات مل بیٹھ کر ٹیم ورک کے طور پہ تیار کی ہیں، ان کا مقصد ہی امت مسلمہ کو ان مفت کے محافظوں اور سراغ رسانوں شکاریوں سے محروم کرنا تھا ۔ اس لیے اس قسم کی روایات تیار کی گئیں جن کے پیچھے دفاعی امور اور فوجی معاملات میں مسلمانوں کو بے دست و پا کرنا تھا ۔"""""
قارئین کرام ۔۔۔۔ صحیح ثابت شدہ احادیث میں تو حفاظت ، چوکیداری اور شکار کے لیے ہی کتا پالنے کی اجازت ہے ، ان احادیث میں ایک دو کا ذِکر  تو یہ اعتراضی خود بھی کر چکا ہے ، تو کیا چند صفحات لکھنے میں ہی یہ بھول گیا کہ پیچھے کیا لکھ آیا ہے !!!؟؟؟
یا جان بوجھ کر اور  صِرف اور صِر ف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دُشمنی کی جلن میں پڑھنے والوں کو غچہ دینے کی کوشش کر گیا ہے !!!؟؟؟
بہر حال  اس کی ان منقولہ باتوں کا سبب  جو کچھ بھی رہا ہو ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی اپنی ہی باتوں کی تردید اس کی اپنی ہی باتوں سے کروا کر اس شخص کی حقیقت دِکھا دی ہے ،
قارئین کرام ، کوئی اس سے پوچھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  کے مبارک دور سے لے کر  عُمر بن عبدالعزیز رحمہُ اللہ کے دور تک مسلمانوں نے جو لگ بھگ پچاس لاکھ مربع میل کے علاقے پر اسلامی ریاست قائم کر دی تھی ، وہ کیا کتوں کی مدد سے کی گئی تھی ؟؟؟
مسلمانوں کی فوجوں میں ، چھاونیوں میں ، گھروں میں بازاروں میں کتنے حفاظتی کتے پائے جاتے تھے ،
اور جب مسلمانوں انحطاط کا شکار ہونا شروع ہوئے اور ہنوز ہو رہے ہیں ، تو کیا یہ کتوں کی کمی سے ہے ؟؟؟
فی الوقت  جو قومیں دفاعی اور فوجی امور میں مسلمانوں پر حاوی دکھائی دیتی ہیں ، کیا ان کے دفاعی معاملات کتے چلاتے ہیں ؟؟؟ یا ان کی فوجیں کتوں پر مشتمل ہیں ؟؟؟ خود کو اس وقت کی سپر پاور کہلانے والی فوج کی جائز و ناجائز معرکہ آرائیوں میں کتنے کتے شامل ہوتے ہیں ؟؟؟ کتوں کے وکیل صاحب کوئی اعداد و شمار پیش کر سکتے ہیں ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتوں کی وکالت کرتے ہوئے  اعتراضی نے ، اللہ سُبحانہ و تعالیٰ پر ، اور اس کی ایک صِفت ، اُس کے کلام پر جو کہ اُس کی کتاب قران کریم کی صُورت میں ہے ، اُس پر مزید جھوٹ باندھتے ہوئے لکھا :::
"""""کیا بات ہے قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب کی ! کہتا ہے کہ :
تُعَلِّمُونَهُنَّمِمَّاعَلَّمَكُمُاللَّهُ(سورہ المائدہ أآیت4)
جو بھی علم اللہ نے تمہیں انسانی معاملات کی بہتری اور مسائل کے حل کے لیے دیا ہے، اس میں سے ان کتوں کو بھی سکھاؤ ۔ انہیں بھی ویسے ہی تربیت یافتہ جانور بنا کر ان سے فائدہ اٹھاو ۔  """""
اور پھر اپنی طرف سے اللہ کے کلام کی آڑ میں اللہ پر باندھے ہوئے اس جھوٹ کی تائید کے لیے ایک شاعر کی بات لکھ ماری ہے ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ بات تو اس کا دِل جلا کر رکھ دیتی ہے، 
محترم قارئین ، اعتراضی کے منقولہ بالا ترجمے کو دیکھیے کہ اس نے کس قدر بد دیانتی سے کام لیتے ہوئے، اللہ جلّ و عزّ کے کلام پاک کو اپنی گمراہ سوچ و فِکر کا حمایتی دِکھانے کے لیے اُس کلام کریم میں  اپنی ہی طرف سے کی ہوئی معنوی تحریف پر اصرار کرتے ہوئے شِکار کرنے والے جانوروں""" الجوارح """ کو صِرف کتوں تک محدود کر دِیا ،
""" الجوارح """ کا معنی اور مفہوم کچھ ہی دیر پہلے  واضح کر چکا ہوں ،
اس بد دیانت اعتراضی کے مَن کی جلن صرف اتنے ہی جھوٹ بنانے پر کم نہیں ہوئی لہذا اللہ تعالیٰ کی طرف یہ جھوٹ بھی  منسوب کر دیا  کہ"""""جو بھی علم اللہ نے تمہیں انسانی معاملات کی بہتری اور مسائل کے حل کے لیے دیا ہے، اس میں سے ان کتوں کو بھی سکھاؤ ۔ انہیں بھی ویسے ہی تربیت یافتہ جانور بنا کر ان سے فائدہ اٹھاو ۔  """""،
جبکہ  اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام پاک (((((تُعَلِّمُونَهُنَّمِمَّاعَلَّمَكُمُاللَّهُ )))))ایک مسلسل کلام کے تسلسل میں ہے جس کے مطابق اس کا یہ معنی ہے کہ (((((تُم لوگ اُن (الجوارح )کو اُس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تُم لوگوں کو سکھایا )))))، اور بڑا ہی صاف اور واضح ہے کہ شکار کرنے والے جانوروں کو شِکار کرنا  سکھانے کی بات فرمائی گئی ہے ،صِرف کتوں کو  انسانی معاملات کی بہتری اور مسائل کے حل کے لیے سیکھےہوئے علوم سکھانے کا نہیں ،
اعتراضی نے کتوں کی وکالت میں یا محبت میں صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا ، بلکہ اپنے اس منقولہ بالا جملے میں  اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے ، اللہ کی طرف سے انسانوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ کتوں کو بھی اسی طرح تربیت یافتہ بناؤ جس طرح اللہ نے تم لوگوں کو علم دیا ہے ،  
اعتراضی نے اپنی """ خلافء قران ، قران فہمی """کے مطابق کتوں کو دفاعی اور فوجی معاملات کی ضرورت تو بنا ہی ڈالا تھا ، اب اسے چاہیے کہ اپنی اس منقولہ بالا خرافات کے مطابق چند ایک کتے معاشیات دان  بنا کر دکھائے ، چند ایک ریاضی دان ،چند ایک کیمیا ء دان، چند ایک جغرافیاء دان بنا کر دِکھائے،چند ایک کو طبیب  بنا لے ، اور چند ایک مؤنث کو خواتین کے خصوصی معاملات کے لیے طیببات بنا دے ، آخر ادھر بھی دونوں جنسوں کو ایک جیسا رکھنا ہو گا ،
چند ایک کو معمار بنا دکھائے ، چند ایک کو مختلف گاڑیوں کے ڈرائیور ،
چند ایک کو وکیل بنا دے ، چند ایک کو اپنے معاملات نمٹانے کے لیے جج اور قاضی بنا لے ،
 چند ایک کو  مکینکل انجنئیرنگ کرو اڈالے ، چند ایک کو الیکٹریکل ،چند ایک کو سافٹ وئیر ڈائزینر بنا ڈالے ، چند ایک کو ہارڈوئیر، چلتے چلتے چند ایک کو سسکو کوالیفائیڈ بھی کروا دے ، اور اپنی خرافات """""جو بھی علم اللہ نے تمہیں انسانی معاملات کی بہتری اور مسائل کے حل کے لیے دیا ہے، اس میں سے ان کتوں کو بھی سکھاؤ ۔ انہیں بھی ویسے ہی تربیت یافتہ جانور بنا کر ان سے فائدہ اٹھاو ۔  """"" پر عمل پیرا ہو اور اس کا خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکے ۔      
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین ، اِن شا ء اللہ آپ صاحبان پر اعتراض کرنے والے کے اعتراضات کا باطل ہونا مزید واضح ہو چکا ہو گا ، اِن شاء اللہ ، اگلی فرصت میں اس  کے اعتراضات اور خرافات کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے چَھٹا فائر ہو گا ، اور اِن شاء اللہ اس کے اعتراضات اور خرافات کی آخری رمق نکلنے  تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
و السلام علی من اتبع الھُدیٰ و سلک علی مسلک النبی الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و قد خاب من یشقاق الرسول بعد ان تبین لہُ الھُدیٰ ، و اتبع ھواء نفسہ فوقع فی ضلالا بعیدا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :


Sunday, May 22, 2016

:::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ (4) ::::: """صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """

::::: کچھ مخصوص جانوروں کے قتل کے حکم والی حدیث شریفہ پر اعتراض کا علمی جائزہ  (4) :::::
"""صحیح سُنّت شریفہ کے انکاریوں کے اعتراضات کی ٹارگٹ کلنگ """
بِسم اللَّہ ،و السَّلام علی مَن اتبع الھُدیٰ و سلک علی مسلک النبی الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و قد خاب من یشقاق الرسول بعد ان تبین لہُ الھُدیٰ ، و اتبع ھواء نفسہ فوقع فی ضلالا بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُسکے لیے ہدایت واضح کر دی گئی ، اور اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
الحمد للہ ، جس نے مجھے  سابقہ حصے میں  کہی ہوئی میری بات پوری کرنے  کی توفیق عطاء فرمائی ، اور میں آج بتاریخ 10 مارچ 2013 کی رات میں دوبارہ اس مختصر کتاب  کی تکمیل کے لیے،صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ پر اعتراض کرنے والوں میں سے  ایک شخص کے اعتراضات میں سے ایک اور اعتراض کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے  حاضر ہو سکا ،
اعتراض کرنے والے نے اپنے اعتراضات کو تقویت پہنچانے کی کوشش میں، پہلے مطالعہ کی جا چکی احادیث مبارکہ کے علاوہ  ایک اور صحیح ثابت شدہ حدیث شریف پر بھی محض اپنی ناقص اور جہالت زدہ عقل ، یا اللہ کے دِین کے دوسرے مصدر ، یعنی صحیح ثابت شدہ سُنّت مبارکہ سے دُشمنی  کی بنا پر اعتراضات وارد کیے ، اور لکھا :::
"""""ابو  ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک فاحشہ عورت کا گزر ایک پیاسے کتے کے قریب سے ہوا جو کنویں کےکنارے بیٹھا ہانپ رہا تھا ۔ قریب تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے مرجاتا۔اس عورت نے کیا کیا کہ اپنا موزہ اپنے دوپٹے میں باندھ کر اس کی مدد سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا ۔اس نیکی کی بدولت اس کے بدکاری کے پیشے کے تما م گناہ معاف کر دئے گئے۔
قارئین سوچنے کی بات ہے کہ یہ واقعہ آخر کسی مقام اور کس زمانے کا ہے ؟ اور رسول اللہ ﷺ کو یہ واقعہ کس نے سنایا ؟ اگر وحی نازل ہوئی تو وہ قران میں کیوں موجود نہیں؟ اور اگر کسی اور ہستی نے سنایا تو اسے کیسے علم ہوا کہ فاحشہ  عورت کے سات گناہ معاف کر دئے گئے۔۔۔؟؟؟ یا للعجب !""""' ،
اور اس کے علاوہ بھی اسی قسم کی بد عقلی والی قلا بازیاں لگائی ہیں ، جو اس کے اعتراض نامے میں دیکھی جا سکتی ہیں ،میں اِن شاء اللہ یہاں  اُن سب کی حقیقت واضح کرتا ہوں ،
سب سے پہلے تو آپ یہ ہی دیکھیے کہ اعتراض کرنے والے  کی جہا لت یا اندھے تعصب کی انتہا ء ہے کہ اُس نے ایک حدیث شریف کے کسی ایسے  ترجمے کو استعمال یا ہے ہے جِس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ،  اور پھر  اِسی ترجمے کو لے کر اُس پر اعتراضات وارد کرتے ہوئے، اور پھر اپنے اعتراضات کو درست دکھانے کی کوشش میں اللہ جل ّو علا کے کلام پاک کو اپنے مذموم مقصد کے لیے بے جا استعمال کرتے ہوئے ، اور پھر ایسے مسلمانوں پر جو کہ بلا شک و شبہ اس اعتراض کرنے والے سے کہیں زیادہ سچے ، پکے ایمان والے ، صالح اورمتقی تھے ، ایسے مسلمانوں پر جھوٹے خود ساختہ الزامات لاگاتے ہوئے اپنے گناہوں میں اضافہ ہی اضافہ ہی کیا ،
صحیح بخاری شریف کی جس حدیث شریف کا اس نے یہ مذکورہ بالا ترجمہ نقل کیا ہے وہ حدیث  درج ذیل ہے :::
(((((غُفِرَلاِمْرَأَةٍمُومِسَةٍمَرَّتْبِكَلْبٍعَلَىرَأْسِرَكِىٍّيَلْهَثُ،قَالَكَادَيَقْتُلُهُالْعَطَشُ،فَنَزَعَتْخُفَّهَا،فَأَوْثَقَتْهُبِخِمَارِهَا،فَنَزَعَتْلَهُمِنَالْمَاءِ،فَغُفِرَلَهَابِذَلِكَ :::ایک زانیہ عورت کی بخشش کر دی گئی ، (وہ عورت )ایک کتے کے پاس سے گذری جو ایک کنویں کے پاس (پیاس کے مارے ) ہانپ رہا تھا ،قریب تھا کہ پیاس اُس کتے کو مار ہی دیتی ،تو اُس عورت نے اپنا (چمڑے کی جُراب نُما )جُوتا اُتار اور اُس جُوتے کو اپنی چادر کے ساتھ باندھا ، اور (اُس جُوتے میں کنویں میں سے )اُس کتے کے لیے پانی نکالا، تو (اِس کام کی وجہ سے) اُس عورت کی بخشش کر دی گئی)))))صحیح بخاری شریف /حدیث/3321کتاب بدء الخلق /آخری باب،
اعتراض کرنے والا اگر واقعتاً کچھ حق جاننے کا طلبگار ہوتا تو کم از کم اسی صحیح بخاری شریف کا تو مطالعہ کرتا ،  تو اُس کے لیے منقولہ بالا اعتراضات  میں سے  کم از کم پہلے اعتراض کی تو کوئی گنجائش نہ رہتی ،
لہذا جِس طرح سابقہ تحقیق میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہوا کہ یہ شخص یا تو جاھل ہے اور یا پھر جان بوجھ کر رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کے خِلاف کام کرتا ہے قارئین کرام ، یہ واقعہ اِسی صحیح بخاری شریف میں، ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے  ہی  ایک اور جگہ بھی مذکور ہے اور اعتراض کرنے والے منقولہ بالا اعتراضات کا منہ ُ توڑنے والا ہے ، ملاحظہ فرمایے ،
(((((بَيْنَمَاكَلْبٌيُطِيفُبِرَكِيَّةٍكَادَيَقْتُلُهُالْعَطَشُ،إِذْرَأَتْهُبَغِىٌّمِنْبَغَايَابَنِىإِسْرَائِيلَ،فَنَزَعَتْمُوقَهَافَسَقَتْهُ،فَغُفِرَلَهَابِهِ::: ایک دفعہ ایک کتا ایک کنویں کے اِر دگِرد گھوم رہا تھا ، قریب تھا کہ پیاس اُس کتے کو مار ہی دیتی ، کہ اُسے بنی اِسرائیل کی بدکار عورتوں میں سے ایک بدکار عورت نے دیکھا ، تو اپنا (چمڑے کی جُراب نُما )جُوتا اُتار کر اُس کُتے کو پانی پلایا ، تو (اِس کام کی وجہ سے)اُس عورت کی بخشش کر دی گئی)))))صحیح بخاری شریف /حدیث/3467کتاب  الأنبیاء/آخری باب،
دیکھ لیجیے قارئین کرام ، یہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ بنی اِسرائیل کا ہے ، لہذا اعتراض کرنے والے کے درج ذیل اعتراضات سوائے دیوانے کی بَڑ کے اور کچھ نہیں کہ:::
"""""قارئین سوچنے کی بات ہے کہ یہ واقعہ آخر کسی مقام اور کس زمانے کا ہے """""،
""""" جغرافیائی اعتبار سے اگر تو یہ واقعہ سر زمین حجاز کا ہے تو یہ تو ٹھہرا پتھریلا علاقہ ۔ اس میں واقعہ کنوؤں سے سب واقف ہیں ۔ ان میں پانی کی سطح اتنی نیچے ہوتی ہے کہ اگر دوپٹے میں جوتا یا موزہ جراب وغیرہ باندھ کر پانی نکالنے کی کوشش بھی کی جائے تو پانی کی سطح تک اس کا پہنچنا ہی محال ہے ۔ ایسی ہر کو شش ناکام رہتی ہے ۔ اور پھر دوپٹہ بھی ایک  فاحشہ عورت کو ہو جو ہوتا ہے برائے نام ہے ۔ آخر ایک فاحشہ عورت لمبا چوڑا دوپٹا پہنے بھی کیوں ؟ وہ بھی شدیدگرمی میں ۔
فرض کیجیے کہ وہ عورت کسی لمبی چادر میں لپٹی ہوئی بھی تھی تو اس کی لمبائی تو زیادہ سے زیادہ آٹھ یا نو فُٹ ہی ہو سکتی ہے۔ تو جس خطہِ زمین کے کنوؤں کا پانی آٹ نو فٹ کے فاصلہ پہ ہو، ایسے علاقہ میں کتوں کا پیاس کی شدت سے موت کے کنارے پہنچ جانا ایرانی راویوں اور محدثین کا جھوٹ ہی ہو سکتا ہے ، حقیقت نہیں ۔ ہر ایرا غیر اایسے جھوٹ بنا بھی نہیں سکتا ۔ """""،   
یہ سب منقولہ بالا باتیں اعتراض کرنے والی کی اپنی ذاتی سوچوں پر مبنی ہیں ، جن کی تصدیق کے کے لیے کوئی علمی دلیل میسر نہیں ،بلکہ اِس شخص نے اپنے ارد گرد کے حالات ، واقعات اور معاملات کو ہی صدیوں پہلے  کےواقعہ کو سمجھنے کا ذریعہ بنایا ہے ، 
گو کہ میری طرف سے نقل کردہ دوسری روایت کے ذریعے ان سب ہی اعتراضات کا دم نکل جاتا ہے ، پھر بھی مزید تاکید کے لیے ، اور اعتراض کرنے والی کی بد عقلی اور گمراہ سمجھ کو مزید نمایاں کرنے کے لیے اس کے اعتراضات کے کچھ عقلی  اور منطقی جوابات بھی دیتا ہوں ، اِن شاء اللہ ،
قارئین کرام ،سب سے پہلے تو اس اعتراض کرنے والے کی  جہالت یا حق کے خِلاف تعصب تو اس بات سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سر زمین حجاز کو پتھریلا علاقہ قرار دے رہا ہے ، اللہ ہی جانے اعتراض کرنے والا کس بنیاد پر حجاز کو صِرف پتھریلا علاقہ قرار دے رہا ہے ، جب کہ حجاز میں پتھریلے ، ریتلے اور ملے جلے پہاڑ ، ریگستان اورسرسبز و شاداب نخلستان سب ہی پائے جاتے تھے اور پائے جاتے ہیں ، اِن مختلف قِسم کے علاقوں میں سے آبادی صِرف اور صِرف وہیں ہوتی تھی جہاں پانی آسانی سے دستیاب ہوتا رہا ، حجاز کے ایسے علاقوں میں آج بھی ایسے کنوؤں موجود ہیں جن میں پانی کی سطح کافی قریب ہے ،
میں یہ سب معلومات اس لیے مہیا نہیں کر رہا ہوں کہ حدیث شریف میں بیان کردہ یہ  واقعہ حجاز کے علاقے کا ہی ہے، جی نہیں ، اس واقعے کے وقوع کا جغرافیائی محل و وقوع ہمارے لیے نا معلوم ہے ، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ واقعہ بنی اِسرائیل کا ہے ،  
اورقبل از اسلام حجاز کے  آباد علاقوں میں سے بنی اِسرائیل(یعنی یہودیوں )میں سے کچھ مدینہ المنورہ اور خیبر  وغیرہ کے علاقوں میں آباد تھے ، اب اگر اس واقعہ کو حجاز سے ہی متعلق مانا جائے تو بھی یہ کسی پتھریلے علاقے کا واقعہ نہیں ہے ، کیونکہ اُس وقت بھی انسان صِرف ایسی ہی جگہوں پر رہائش رکھتے تھے جہاں پانی کے حصول میں زیادہ مشقت نہ کرنی پڑے ، 
محترم قارئین ، یہ بات تو تقریباً ہر کوئی جانتا ہے کہ  مختلف زمانوں  میں بنی اِسرائیل موجودہ شام ، اُردن، فلسطین ،عراق ،مصر ، مدینہ المنورہ، خیبر ، نجران اور یمن اور سعودیہ کے  کے کچھ سرحدی  علاقوں میں آباد  رہے ہیں ،اور اِن علاقوں میں سے اکثر مقامات ، خاص طور پر جہاں انسانوں کی آبادیاں تھیں اور ہیں وہ مقامات ، و علاقے سر سبز و شاداب تھے ، اور ہیں ، ان علاقوں میں پائے جانے والے کنوؤں کا پانی قریب ہی ہوا کرتا تھا ،ا ور اب تک ہے ،  اب اس اعتراض کرنے والے کو ان تاریخی اور علمی حقائق کی خبر نہیں یا اس نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلانے کی کوشش کی ہے ، اللہ ہی اس کا حساب لے گا ،
اعتراض کرنے والے کو اپنے تجربے اور علم کے مطابق  فاحشہ عورتوں کے دوپٹوں کا سائز اور انداز کو بھی اپنی خرافات کی ایک دلیل بنا یا ہے ،اسے چونکہ یہ پتہ ہی نہیں ، یا اُس نے جان بوجھ کر دوسری حدیث شریف سے نظریں چُرا ئی ہیں ،بہر حال جو بھی سبب رہا ہو ، چونکہ یہ واقع صدیوں پرانا ہے ، اور  یہ بات تاریخی طور پر معروف ہے کہ اس وقت فاحشہ یا نیک عورتوں کے لباس میں ایسا کچھ نمایاں فرق نہ ہوتا تھا جیسا کہ اب ہے ،
مجھے  اس سے کچھ لینا دینا نہیں کہ اعتراضی کو فاحشہ عورتوں کے دوپٹوں کے سائز اور انداز کی اتنی خبر گیری کیوں ہے ؟؟؟ میں  صِرف یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ واقعہ بنی اِسرائیل کا ہے جن کی اکثریت ایسے علاقوں میں آباد تھی جو نہ صرف سر سبز وشاداب تھے ، بلکہ کافی زیادہ ٹھنڈک والے تھے اور ہیں ،
اعتراض کرنے والے نے اِس واقعہ کو حجاز سے متعلق خیال کر کے حدیث شریف سے دُشمنی پر مبنی اپنے باطن کا  غبار نکالا ہے ، اور جو کچھ جھوٹ اور الزام لکھ سکا لکھ مارے ،
یا حدیث شریف ، اور محدثین کرام رحمہم اللہ پر الزام تراشی کرنے کے لیے خیانت کرتے ہوئے اس واقعہ کو حجاز سے متعلق بنانے کی کوشش کی ہے ، 
اب اگر میں یہ کہوں کہ یہ واقعہ  شام ، فلسطین یا  اُردن وغیرہ میں سے کسی ایسے علاقے کا ہے جو سرسبز اور ٹھنڈے موسم والا تھا ، پس اسی لیے اُس فاحشہ عورت نےنود س فُٹ ، تقریبا تین چار گز  لمبی چادر لیپٹ رکھی ہو گی ،تو اس بات کو رد کرنے کی بھی اعتراضی کے پاس کو ئی علمی دلیل نہ ہو گی اِن شاء اللہ ، 
رہا معاملہ کسی علاقے کے کنوؤں میں  پانی کی سطح (لیول)قریب  ہونے کی وجہ سے اُس علاقے کے کُتوں ( یا اسی قسم کے دوسرے جانوروں ) کا پیاس کی شدت میں مبتلا ہونے کا تو یہ قطعا غیر عقلی اور غیر حقیقی نہیں کیونکہ کتے یا اسی قسم کے چوپائے کنوؤں میں اتر کر پانی نہیں پی سکتے ،اعتراض کرنے والے کے تخیلاتی دیس میں شاید پی ہو سکتے ہوں ،لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا تھا ،ا ورنہ ہوتا ہے ، ایسے جانوروں کو پانی پلایا جاتا تھا ، اورپلایا  جاتا ہے ، یا ایسے جانور صِرف ایسے جگہوں سے پانی پی سکتے ہیں جہاں اُن کے منہ ُ پانی تک پہنچ سکیں ، 
پس ، الحمد للہ ، ثابت ہوا کہ اعتراض کرنے والی کی وہ سب باتیں جو اُوپر نقل کی گئی وہ سب ہی باتیں اعتراض کرنے والے کے بنائے ہوئے جھوٹ ہیں ، حقیقت نہیں ، ہر ایرا غیرا ایسے جھوٹ بنا بھی نہیں سکتا ، ایسے جھوٹ وہی بناتے ہیں جن کی عقلیں راہ حق سے بھٹک چکی ہوتی ہیں اور اپنے تخیلات کو ہی حق بنانے کی کوشش میں مشغول کر دی گئی ہوتی ہیں ،
قارئین کرام ، یہ سب کچھ میں نے صِرف اعتراض کرنے والے کی بدعقلی اور اُس کی سمجھ کے گمراہ معیار کو نمایاں کرنے کے لیے لکھی ہیں ، جیسا کہ میں نے ان باتوں کے آغاز میں کہا تھا کہ """گو کہ میری طرف سے نقل کردہ دوسری روایت کے ذریعے ان سب ہی اعتراضات کا دم نکل جاتا ہے ، پھر بھی مزید تاکید کے لیے ، اور اعتراض کرنے والی کی بد عقلی اور گمراہ سمجھ کو مزید نمایاں کرنے کے لیے اس کے اعتراضات کے کچھ عقلی  اور منطقی جوابات بھی دیتا ہوں """۔
اعتراضی نے یہ بھی لکھا مارا کہ :::
"""""اور رسول اللہ ﷺ کو یہ واقعہ کس نے سنایا ؟ اگر وحی نازل ہوئی تو وہ قران میں کیوں موجود نہیں؟ اور اگر کسی اور ہستی نے سنایا تو اسے کیسے علم ہوا کہ فاحشہ  عورت کے سات گناہ معاف کر دئے گئے۔۔۔؟؟؟ یا للعجب !""""' اس کی یہ منقولہ باتوں پر واقعتا یا للعجب کہنا چاہیے ، کوئی اس سے پوچھے کہ اللہ کے دین کے بیسیوں معاملات اور احکام ایسے ہیں جن کے بغیر اللہ کی ذات و صِفات ، حلال و حرام ، عبادات کی کیفیات اور طریقے سیکھے نہیں جا سکتے ،اور یہ معاملات اور احکام اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ذِکر نہیں فرمائے ، بلکہ اپنے مقرر کردہ مفسر اور شارح قران ، اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان پاک اور عمل شریف کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچائے ہیں ،  اور وہ سب کچھ اللہ کی وحی کے مطابق ہی ہے ، وہ وحی جسے قران کریم میں اللہ کے کلام کے طو رپر شامل نہیں فرمایا گیا ،
اعتراض کرنے والے کے ہم مسلکوں کو جب اس قسم کے معاملات اور احکام کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ ان کے بھی منکر ہوجاتے ہیں ، یا ایسی بے ڈھنگی تاویلات کرنے لگتے ہیں جنہیں ایک عام فہم رکھنے والا شخص بھی قبول نہیں کرتا ،
اس کے بعد فاحشہ عورت کی مغفرت والی خبر پر مشتمل صحیح ثابت شدہ حدیث شریف کا انکار کرنے والے کی طرف سے ، اُس کی خود ساختہ سوچوں کی دلیل کے طور پر پیش کی گئی آیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں ، اور اِن شاء اللہ دیکھتے اور سمجھتے ہیں کہ اُس شخص نے اِن آیات شریفہ کو بھی اپنے مذموم مقصد کے لیے اُن کی جگہ سے ہٹا کر کہیں اور """فِٹ """کرنے کی کوشش کی ہے ،
پس اس صحیح ثابت شدہ حدیث شریف پر اعتراض رکتے ہوئے ، اللہ کے کلام پاک کو اُس کے مقام سے ہٹا کر اپنی خرافاتی عقل کے کرشموں کی دلیل بنانے کی کوشش میں لکھتا ہے :::
""""" پھر اس روایت میں بیان کردہ بخشش کا فلسفہ قران کریم کے جزا و سزا کے قانون کے یکسر منافی ہے۔قران کریم تو بتلاتا ہے کہ انسان کی نیکیوں اور برائیوں کا الگ الگ وزن کیا جائیگا اور جو ذرہ بھر بھی کوئی عمل کرے گا ، وہ اس کا بدلہ پائے گا ۔
فَأَمَّامَنْثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَفِيعِيشَةٍرَاضِيَةٍ (7) وَأَمَّامَنْخَفَّتْمَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُهَاوِيَةٌ(سورہ القارعہ)یعنی جس کی نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہوا ، اس کے مزے ہی مزے ، اور جس کی نیکیاں کم پڑ گئیں اور پلڑہ ہلکا ہو گیا ، وہ ذلت کی گہرائیوں میں پھنس گیا ۔یعنی نیکی و بدی کے میزان میںPlus,Minusکے بعد ہی جزا و سزا کا دارومدار ہو گا۔"""""
محترم قارئین ، اعتراض کرنے والے کی مذکورہ بالا خرافات کی حقیقت یہ ہے کہ :::
اعتراضی کی قران فہمی اس قدر گمراہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام قران کریم کو ، معاذ اللہ جزا و سزا کا قانون بنانے والا سمجھتا ہے ، جب کہ مخلوق  کی جزا و سزا کے قوانین بنانے والا صِرف اور صِرف اکیلا اور لا شریک خالق اللہ تعالی ہے ، اور قران کریم اللہ کی مخلوقات میں سے بھی نہیں کہ یہ تاویل کی جائے کہ اللہ نے اس مخلوق کو یہ سزا و جزا کے قانون بنانے کی صلاحیت دی ، 
اعتراض کرنے والا  قران کریم کواللہ کی صفات میں سے ایک صِفت ، یعنی اللہ کا کلام  نہیں سمجھتا ، بلکہ کوئی ایسی مخلوق سمجھتا ہے جو خود سے کچھ بتا سکتی ہے ، جبکہ حق یہی ہے کہ قران کریم اللہ کا کلام ہے اور اس میں جو کچھ بتا گیا ہے وہ سب ہی کچھ بتانے والا اللہ جلّ و علا ہے ،
الحمد للہ ، اللہ جلّ و علا کی کرم فرمائی ہے کہ وہ  ایک عرصہ سے  مجھ جیسے بندے سے ، اللہ کے دِین کے دوسرے بنیادی مصدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی اور عملی سُنّت مبارکہ پر، اللہ کی کتاب قران کریم کو آڑ بنا کر  اعتراض کرنے والوں کی""" خِلافء قران ، قران فہمی """کو واضح کروانے کی کوششوں میں حصہ ڈالنے کا کام لے رہا ہے ، کافی عرصے پہلے قران کریم کی آیات مبارکہ کی معنوی تحریف کرتے ہوئے انہیں اپنی"""خِلاف قران ، قران فہمی """کی تائید میں اِستعمال کرنے والوں میں سے ایک اور شخص کی باطل تاویلات کے جواب میں کچھ معلومات ایک ویب سائٹ  پر نشر کی تھیں ، وہی معلومات چند ایک الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یہاں اس نام نہاد قرانی قوت کے اعتراض کے جواب میں بھی  پیش کرتا ہوں :::،
""""" لوگوں کو اپنی جہالت جسے وہ قران فہمی تصور کرتے ہیں ، کے زعم میں صرف دوسروں پر الزام تراشی کرنا آتا ہے ، اور اس الزام تراشی کی زد میں مخلوق تو کیا خالق بھی آ جائے تو بھی ان کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی ، اور وہ ڈھاک کے تین پات ہی پکارے چلے جاتے ہیں ،
صحیح ثابت شدہ احادیث مبارکہ پر اعتراض کرنے والے اور ان کے پیروکار جان رکھیں کہ  اللہ تبارک و تعالیٰ کسی کا پابند نہیں جس کے لیے جو چاہے کر سکتا ہے اور کرتا ہے ، جی اس انسانوں کے جنت میں داخل ہونے کا ایک عام طریقہ یہی بیان فرمایا ہے کہ  قیامت کے دن حساب ہونے کے بعد لوگ اپنے اپنے آخری ٹھکانے میں جا بسیں گے ،
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نہ تو کسی کا پابند ہے اور نہ ہی کسی کو جواب دہ ، پس وہ جب جو چاہتا ہے کرتا ہے ، جسے چاہے وہ قیامت سے پہلے جنت میں داخل فرما دے اور جسے چاہے جہنم میں ،
ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے واقعے والی حدیث پر جو اعتراض یہاں  ذکر کیا گیا ہے بظاہر تو بڑا مضبوط ہے لیکن اس کی حقیقت بھی سنت مبارکہ کے بارے میں شکوک پھیلانے والوں ،  سنت مبارکہ کا انکار کرنے والوں ، سنت مبارکہ کا مذاق اڑانے والوں ، سنت مبارکہ کی توھین کرنے والوں ، کی طرف سے وارد ہونے والے تمام تر اعتراضات کی طرح دو میں سے ایک سبب رکھتی ہے ، ان کی جہالت یا دین محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ان کی دشمنی ،
سنت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اپنی ترجموں کی محتاج قران فہمی اور ادھر ادھر سے مختلف زبانوں میں احادیث کے ترجمے اور مترجمین کی خود ساختہ ترتیب دیکھ دیکھ اعتراض کرنے والوں کو شاید پتہ نہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے """ سورت یٰس """ میں ایک بستی کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے وہاں یکے بعد دیگرے تین نبی بھیجے ، لوگوں نے ان کا انکار کیا ، مذاق اڑایا ، توہین کی ، لیکن ایک شخص نے اپنی قوم کو نصیحت کی کہ رسولوں کی تابع فرمانی کرو ، اور اپنی قوم کو بتایا کہ میرے پاس کوئی سبب نہیں کہ میں اپنے خالق اور رب کی عبادت نہ کروں جس کی طرف تم سب نے واپس پلٹنا ہے ، اور رسولوں کی تابع فرمانی نہ کروں ، اور اپنے ایمان کا اعلان کیا ، اس کی قوم نے اسے مار ڈالا ، جب وہ اللہ کے سامنے پہنچا تو اللہ کی طرف سے (((((قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ::: کہا گیا جنت میں داخل ہو جاؤ ، اس نے کہا کاش میری قوم کے لوگ جان لیتے{26} بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ:::  جو میرے رب نے میری بخشش کی ہے اور جو میرے رب نے مجھے عِزت والوں میں سے بنا دیا ہے ))))))
صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ میں اپنی فلسفہ زدہ نام نہاد عقل کے بل بوتے پر  دیکھیں اور غور سے دیکھیں کہ اللہ تبارک  وتعالیٰ نے اس مؤمن کو قیامت سے پہلے ہی جنت میں داخل فرما دیا اور ہمیں اس کی خبر اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے ہم تک پہنچائی ،
پس اللہ جو چاہے جیسے چاہے جب چاہے کرتا ہے (((((إِنَّ اللہَ یَفعَلُ مَا یُرید ::: بے شک اللہ جو ارادہ فرماتا ہے وہ (پورا) کرتا ہے)))))
اور انتہائی تیزی سے اور مکمل ترین طور پر کرتا ہے ((((( إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ:::بے شک آپ کا رب قوت اور پھرتی سے اپنے ارادے پورے کر کے رہنے والا ہے ))))) سورت هود /آیت 107، 
اور یہ اسی کی شان ہے اسی کا حق ہے اور صرف وہی ہے جس سے اس کے کسی کام کے بارے میں پوچھا نہیں جا سکتا کہ تم نے ایسا کیوں کیا یا کہا ،،،،،،،،،،،،،،
(((((لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ::: اللہ جو کچھ کرتا ہے اس کو پوچھا نہیں جائے گا اور(بلکہ ) لوگوں سے (اُن کے کاموں کے بارے میں)پوچھا جائے گا )))))سورت الأنبياء / آیت 23 ، 
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ سنت مبارکہ کو """ صرف زیر ناف مسائل کا حل """ کہنے والوں کو میرا یہ جواب سمجھنے کی توفیق عطا فرما دے گا ،
اللہ تعالیٰ کی شان رحیمی کی بنا پر امید کرتا ہوں کہ وہ سنت مبارکہ کی توھین کرنے والے اور میری یہ باتیں پڑھنے والے ہر قاری کو توہین کرنے والے  کے اس مذکورہ بالا اعتراض کی حقیقت دکھا دے گا ،
اللہ کرے کہ  اپنی قران فہمی کے زعم میں مبتلا لوگ اب کہیں اللہ تعالیٰ سے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کرنے لگیں  کہ آپ نے ماعز بن مالک کو قیامت سے پہلے جنت میں داخل کیوں کر دیا ، اور اگر کر ہی دیا تھا تو اس کی خبر کیوں کی یہ تو آپ کے اپنے ہی فرامین کی خلاف ورزی ہے ، و لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔
خیال رہے کہ میں نے کسی شخص کا نام نہیں لیا ،،،،، اور سنت مبارکہ کی توہین کرنے والے کے اعتراض کا جواب اللہ کے کلام پاک میں سے پیش کیا ہے ۔ و للہ الحمد المِنۃ۔"""""
قارئین کرام ، آپ سب سے گذارش ہے کہ درج ذیل لنک پر موجود تھریڈ کا بھی ضرور مطالعہ کیجیے ، اللہ کے دِین کی دشمنی میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر  ملوث لوگوں کی سوچ و فکر اور صحیح ثابت شدہ احادیث شریفہ پر قران کریم کی آڑ میں کیے گئے اعتراضات و انکار کی حقیقت سمجھنے میں اِن شاء اللہ ضرور کافی مدد ملے گی ،
شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری ہےhttp://bit.ly/WPmLCR
اس کے بعد  اعتراض کرنے والے  اعتراض """""پھر اس روایت میں بیان کردہ بخشش کا فلسفہ قران کریم کے جزا و سزا کے قانون کے یکسر منافی ہے۔قران کریم تو بتلاتا ہے کہ انسان کی نیکیوں اور برائیوں کا الگ الگ وزن کیا جائیگا اور جو ذرہ بھر بھی کوئی عمل کرے گا ، وہ اس کا بدلہ پائے گا ۔
فَأَمَّامَنْثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ (6) فَهُوَفِيعِيشَةٍرَاضِيَةٍ (7) وَأَمَّامَنْخَفَّتْمَوَازِينُهُ (8) فَأُمُّهُهَاوِيَةٌ(سورہ القارعہ)یعنی جس کی نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہوا ، اس کے مزے ہی مزے ، اور جس کی نیکیاں کم پڑ گئیں اور پلڑہ ہلکا ہو گیا ، وہ ذلت کی گہرائیوں میں پھنس گیا ۔یعنی نیکی و بدی کے میزان میںPlus,Minusکے بعد ہی جزا و سزا کا دارومدار ہو گا۔"""""
کی حقیقت  اللہ  جلّ و عزّ کےاِن  فرامین مبارکہ کی روشنی میں بھی سمجھتے چلیے کہ(((((مَنْجَاءَبِالْحَسَنَةِفَلَهُعَشْرُأَمْثَالِهَاوَمَنْجَاءَبِالسَّيِّئَةِفَلَايُجْزَىإِلَّامِثْلَهَاوَهُمْلَايُظْلَمُونَ::: جو کوئی ایک نیک لے کر آئے گا تو اُس کے لیے اُس نیکی کے برابر دس (نیکیوں کے ثواب )ہیں ، اور جو کوئی ایک گناہ لے کر آئے گا تو اُسے صرف اُس ایک گناہ کے مطابق  ہی بدلہ دیا جائے گا ، اور اُن (لوگوں )پر ظلم نہ کیا  جائے گا ))))))سُورت الانعام(6)/آیت160 ،
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے  ایک نیکی کے بدلے صِرف دس نیکیوں کا بدلہ تک بڑھاوا دینے تک ہی معاملہ قید نہر کرھا بلکہ اُس بڑھاوے کو لا محدود فرماتے ہوئے یہ خوشخبری بھی عطاء فرمائی ہے کہ (((((مَنْجَاءَبِالْحَسَنَةِفَلَهُخَيْرٌمِنْهَا وَهُمْمِنْفَزَعٍيَوْمَئِذٍآمِنُونَ::: جو کوئی ایک نیکی لے کر آئے گا تو اُس کے لیے اُس نیکی سے بڑھ کر خیر ہے، اور وہ لوگ (یعنی نیکیاں کرنے والے)قیامت والے دِن کی خوفناکی سے محفوظ ہوں گے))))) سُورت النمل (27)/آیت89 ،
یعنی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے ایک نیکی کے بدلے میں لا محدود ، بے شمار ثواب عطاء  کیا جانا حق ہے ، پس اللہ تعالیٰ جس کو چاہے اس کی کسی کی ایک ہی نیکی کے بدلے میں اسے اتنا ثواب دے سکتا ہے ، اور دیتا ہے ، اور دے گا کہ  جو اس بندے کے سارے ہی گناہوں پر بھاری ہو جائے ، اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے  قارئین کرام ، کہ اعتراض کرنے  والا قران کریم سے بھی جاھل ہے یا جان بوجھ کر صِرف ان ہی آیات شریفہ کا ذِکر کرتا ہے جنہیں وہ کسی طور اپنی خرافاتی باتوں کی تائید میں استعمال کر سکتا ہو،
اس کے علاوہ اعتراضی نے اپنی باطل باتوں کی تائید میں یہ فلسفہ بھی جھاڑا ہے کہ """""اس  روایت میں امام بخاری نے ایک پیشہ ور فاحشہ عورت کے گناہ بخشوا دیے ۔ وہ بھی یوم المیزان سے ہزاروںلاکھوں برس پہلے ۔ چھوٹے چھوٹے کاموں پہ بڑے بڑے گناہوں معاف ہوجانے کے واقعات پر مبنی روایات ہماری ایرانی کتب ِ روایات میں عام ہیں ۔ یہ مسلم معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی عام کرنے کے لیے مردوںاور عورتوں کو نجات و بخشش کے جعلی گر بتائے جا رہے ہیں ، بلکہ سرٹیفیکیٹ دئے جا رہے ہیں کہ زندگی بھر جو مرضی کرتے پھرو ، زنا کرو، چوری کرو، ڈاکے ڈالو، دوسروں کے حقوق غصب کرو، غرض کہ ہر طرح کی بدکاری میں مشغول رہو اور ساتھ ہی کسی مناسب موقع کی تلاش میں رہو ، کوئی پیاسا کتا  ڈھونڈو اور اسے پانی پلا دو تو تمہارے سب گناہ ، بدکاریاں ایک دم Ctrl Aاور پھر Deleteکر دی جائیں گی ۔ اور تم جنتی ہو جاؤ گے """""،
قارئین کرام ، قیامت سے ہزاروں برس پہلے ہی کسی کو جنت میں داخل کر دیے جانے کا ثبوت اللہ کے کلام میں سے ہی پیش کر چکا ہوں ، لہذا یہ مذکورہ بالا اعتراض بھی قران کریم کی آیت کے دلیل سے مردُود ہوا ،
رہا معاملہ چھوٹے چھوٹے کاموں کے بدلے میں بڑے بڑے گناہ معاف ہونے کی اُن خبروں کا جو صحیح احادیث شریفہ میں ہیں ، تو وہ سب ہی صحیح احادیث شریفہ  ابھی ابھی ذِکر کردہ دو آیات شریفہ کے عین مطابق ہیں ، کہ اللہ جس کے چاہے ایک نیکی کے بدلے میں بے شمار و بے حساب ثواب دیتا ہے ، اور اللہ جلّ و علا کے اِس فرمان کے عین مطابق ہیں کہ (((((وَأَقِمِالصَّلَاةَطَرَفَيِالنَّهَارِوَزُلَفًامِنَاللَّيْلِإِنَّالْحَسَنَاتِيُذْهِبْنَالسَّيِّئَاتِذَلِكَذِكْرَىلِلذَّاكِرِينَ ::: اور دِن کے دونوں کناروں کے وقت میں اور رات کا کچھ وقت گزر جانے کے بعد والے وقت میں نماز پڑھا کیجیے ، یقیناًٍٍ نیکیاں ، گناہوں کو مٹا دیتی ہیں، یہ نصحیت حاصل کرنےو الوں کے لیے نصیحت ہے)))))سُورت  ھُود(11)/آیت 114،
پس اللہ تبارک و تعالیٰ بلا شک و شبہ اس پر قادر ہے کہ وہ  جس  بھی اِیمان والے بندے کے لیے چاہے اُس بندے کی نیکیوں کو سبب بنا کر اُس بندے کے گناہوں کو مٹا دے ،
کیا اعتراض کرنے والے کو قران پاک میں ہی یہ آیت شریفہ دکھائی نہیں دیتی ، یا اس سے  بھی جان بوجھ کر صَرفء نظر کرتا ہے کہ (((((قُلْيَاعِبَادِيَالَّذِينَأَسْرَفُواعَلَىأَنْفُسِهِمْلَاتَقْنَطُوامِنْرَحْمَةِاللَّهِإِنَّاللَّهَيَغْفِرُالذُّنُوبَجَمِيعًاإِنَّهُهُوَالْغَفُورُالرَّحِيمُ::: (اے رسول میری طرف سے ) فرما دیجیے کہ (گناہ کر کے) اپنی جانوں پر زیادتی  کرنے والے میرے بندو ،اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو، یقیناً اللہ سارے کے سارے گناہ بخشتا ہے ، بے شک اللہ بہت زیادہ بخشش کرنے والا (اور)بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے)))))سُورت الزُمر (39)/آیت53،
اعتراض کرنے والے کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرت بھی کمپیوٹر  کی طرح کمانڈز کی محتاج لگتی ہے ، اسے اپنی خود ساختہ ، ہوائے نفس کی ماری ہوئی """خِلافءقران ،قران فہمی """ کے زعم میں اللہ القوی القدیر کا یہ فرمان یاد نہیں رہا (((((إِنَّمَاقَوْلُنَالِشَيْءٍإِذَاأَرَدْنَاهُأَنْنَقُولَلَهُكُنْفَيَكُونُ ::: جب ہم کسی چیز کے لیے اِردہ فرمالیں تو اُس چیز کے لیے ہمارا فرمان اتنا ہی ہوتا ہے کہ ، ہو جا ، پس وہ ہوجاتی ہے)))))سُورت النحل (16)/آیت40،
پس اگر اللہ تعالیٰ کسی کے گناہ معاف فرمانے کا اردہ فرماتا ہے تو صرف اس کے کہنے پر ہی وہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، یہ صِرف اور صِرف اور صِرف  اللہ تبارک و تعالیٰ  کی مرضی ہے جس کے جتنے گناہ چاہے معاف فرما دے ، اور وہ کسی کام کی تکمیل کے لیے مخلوق کی طرح ایک دسرے کی طرف سے  کسی قسم کی کمانڈز کی ایگزیکیوشن کا پابند نہیں ، بلکہ ہر ایک چیز اُس کی کمانڈ""" کُن """ پر ایگزیکیوٹ ہونے کی پابند ہے ، اور یہ اس کی بے عیب حکمت اور مشیئت کے مطابق وہی جانتا ہے کہ اُس نے اپنے """ کُن """ کی ایگزیکیوشن  کے لیے کیا کیا  ایکٹیویٹ کر رکھا ہے ،
اللہ جلّ و عزّ کی ذات پاک کے افعال مبارکہ کو مادی چیزوں ، اور معایر اور مختلف آلات کی حرکات کے مطابق سجھ کر بے تکے اعتراض کرنے والے ، اور  اُس کے ہم خیال ذرا سوچیں کہ (((((أَهُمْيَقْسِمُونَرَحْمَتَرَبِّكَ:::کیاوہ لوگ آپ کے رب  کی رحمت تقسیم کرتے ہیں)))))سُورت الزُخرُف(43) / آیت32۔
اللہ ہی جانے اعتراض کرنے والے کو ایرانیوں سے اتنا لگاؤ کیوں ہے کہ وہ بالکل ہی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بار بار احادیث مبارکہ کی ساری ہی کتابوں کو ، اور سارے ہی محدثین کو بلا استثناء ایرانی کہتا ہے ، اور اس کی کوئی دلیل نہیں بتاتا ، اور اِن شاء اللہ کبھی بتا بھی نہیں سکے گا ، کیونکہ یہ بھی اُس کی جہالت یا تعصب پر مبنی تخیلات میں سے ایک خیال ہی ہے ،
الحمد للہ ،یہاں تک اعتراض  کرنے والے سارے اعتراضات کا بطلان ثابت ہوا، اس کی طرف سے کیے گئے دوسرے اعتراضات کا بھی حال کچھ مختلف نہیں ،
قران کریم کی آیات شریفہ کو اپنی ہوائے نفس سے پھوٹنے والے خیالات کی تائید میں استعمال کرتے ہوئے اعتراض کرنے والے نے یہ بھی لکھ مارا کہ :::
"""""قارئین قران کریم ہی سے ثابت ہے کہ زبان باہر نکال کر ہانپتے رہنا کتے کی فطرت ہے ۔ پیاس ہو یا نہ ہو ۔ یہ جانور کسی مشقت اور بوجھ اٹھائے بغیر بھی بیٹھا بیٹھا خوامخواہ ہانپتا رہتا ہے ، ملاحظہ فرمایے :
فَمَثَلُهُكَمَثَلِالْكَلْبِإِنْتَحْمِلْعَلَيْهِيَلْهَثْأَوْتَتْرُكْهُيَلْهَثْ
                     (سورہ الاعراف۔آیت176)
اسکی مثال اس کتے کی سی ہوگئی کہ اگر اسے دوڑائیں ، مسقت کروائیں ، تب بھی وہ ہانپتا اور زبان لٹکاتا ہے ،اوراگر یونہی فارغ چھوڑ دو تب بھی ہانپتا اور زبان لٹکائے رکھتا ہے۔
حدیث ساز راویوں نے کتے کے لیے"یلھث"استعمال کر کے کتے کی فطری جبلت کی غلط ترجمانی کی ہے ۔ درج بالا آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہانپنا کتے کی فطری عادت ہے جسے حدیث کی روایوں اور محدثین کی کاریگری نے اپنی لاعلمی اور جہالت کی بنا پہ بوجہ پیاس ظاہر کیا ہے۔"""""،
قارئین کرام ، اعتراض کرنے والے کی جہالت یا سُنّت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عناد بار بار ظاہر ہو رہا ہے ، محدثین کو لا علم اور جاھل کہنے والے کا اپنا مبلغ علم شاید کچھ ترجموں کی ورق گردانی سے زیادہ نہیں ، اوپر نقل کیے گئے اس کے الفاظ میں لکھا ہوا ترجمہ بھی درست نہیں ، کیونکہ اس آیت شریفہ میں کتے کو دوڑانے یا مشقت میں ڈالنے کا ذِکر نہیں ہے ، اور نہ ہی اُس کے ہانپنے کا ذِکر ہے ،  بلکہ اُس پر حملہ کرنے یا نہ کرنے کا ذِکر ہے ، کیونکہ عام طور پر  کتوں کو بار برادری ، یعنی بوجھ اٹھانے کے لیے اِستعمال نہیں کیا جاتا تھا ، اور نہ ہی کیا جاتا ہے ،
 اور یوں بھی اللہ تعالی کا یہ فرمان سابقہ امتوں میں سے ایک شخص کے بارے میں لہذا اس سیاق کی روشنی میں ، یہاں کتے کابہر حال  زبان نکالے رکھنا اس شخص کے واقعے کے مطابق ہدایت قبول نہ کرنا ہے ،  لیکن اس اعتراضی شخص نے اپنی ہوائے نفس کی اتباع میں اللہ کے اس کلام کو بھی کہیں سے کہیں ذِکر  کر ڈالا ،
ذرا یہ اعتراضی شخص بتائے تو ، اور صِرف قران کریم میں سے ہی بتائے کہ کتے کے زبان لٹکائے رکھنے کی عادت کے بیان والی اس آیت شریفہ میں جس شخص کا واقعہ ہے ، وہ شخص کون تھا ؟؟؟ اور اُس کا واقعہ کیا تھا ؟؟؟صِرف قران کریم میں سے اس آیت کی تفسیر بتائے ؟؟؟
قارئین کرام ، لغت میں""" لھث، یلھث ، الھاثا """سے مُراد کتے کا زبان لٹکانا ہے ، اوراِسی آیت کریمہ سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ کتے کا زبان لٹکانا  کسی سبب سے ہو یا بلا سبب اسے عربی میں """ لھث، یلھث ، الھاثا """ ہی کہا جاتا ہے ،
پس جہالت محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں نہ تھی بلکہ اِس اعتراض کرنے والے کے ہاں ہے ،اور یہ اللہ جلّ جلالہُ کے کلام پاک کی معنوی تحریف کر کے اسے  اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا گناہ کما رہا ہے ۔
اس کے بعد اعتراض کرنے والا اپنی جہالت یا تعصب کے مزید مظاہرے کے طور پر لکھتا ہے :::
"""""آگے ایک روایت ہے جس میں رسول ﷺ کی جانب یہ حکم منسوب کیا جا رہا ہے کہ جس نے بھی کتا پالا ، اس کے عمل سے روازنہ ایک قیراط کم ہوتا جائے گا ۔سوائے کھیتی اور مویشیوں کے محافظ کتوں کے ۔"""""،
محترم قارئین ، اعتراض کرنے والا کا یہ منقولہ بالا کلام بھی (سوائے اللہ کے کلام کے) اس شخص کی جہالت یا جھوٹ اور بددیانتی پر ہی مشتمل ہے ، اور اللہ جلّ و علا کے کلام میں سے جوکچھ ذِکر کیا ہے اسے بھی اپنی بد دیانتی کی حمایت بنانے کے لیے ہی غلط طور پر استعمال کرنے کی بد حرکت کی ہے ،
سب سے پہلے تو اس نے کسی حدیث شریف کا مجھول سے انداز میں نا مکمل ذِکر کیا ہے ، صِرف اتنا سا ذِکر جس سے یہ شخص اپنی حدیث دشمنی کی کاروائی کر سکے ،
قارئین کرام ، اس بد دیانت شخص نے صحیح بخاری شریف کی  جس حدیث شریف کا مجھول انداز میں ذِکر کیا ہے وہ حدیث شریف درج ذیل ہے:::
(((((مَنْأَمْسَكَكَلْبًافَإِنَّهُيَنْقُصُكُلَّيَوْمٍمِنْعَمَلِهِقِيرَاطٌ،إِلاَّكَلْبَحَرْثٍأَوْمَاشِيَةٍ :::جس نے کھیتی باڑی ،یا مویشیوں( کی حفاظت کرنے والےکتے) کے علاوہ کتا پالا تو اس کے(نیک ) عمل میں روزانہ ایک قیراط کے برابر کمی ہوگی)))))صحیح بخاری /حدیث/2322کتاب المزارعۃ /باب3،
صحیح بخاری شریف کے اسی مقام پر ، اور اس حدیث شریف سے بالکل بعد، سُفیان بن ابی زھیر  رضی اللہ عنہ ُ سے مروی  یہ حدیث شریف بھی موجود ہےکہ(((((مَنِاقْتَنَىكَلْبًالاَيُغْنِىعَنْهُزَرْعًاوَلاَضَرْعًا،نَقَصَكُلَّيَوْمٍمِنْعَمَلِهِقِيرَاطٌ:::جس نے ایسا کتا پالا جو اُس کے لیے کھیتی باڑی(کی حفاظت ) نہ کرنے والا ہو ، اور نہ ہی مویشیوں (کی حفاظت)کرنے والا ہو ، تو پالنے والے کے(نیک )عمل میں روزانہ ایک قیراط کے برابر کمی ہوگی)))))صحیح بخاری / حدیث/2323کتاب المزارعۃ /باب3،
اور اسی صحیح بخاری شریف میں عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی یہ حدیث پاک بھی موجود ہے کہ(((((مَنِاقْتَنَىكَلْبًاإِلاَّكَلْبٌضَارٍلِصَيْدٍأَوْكَلْبَمَاشِيَةٍ،فَإِنَّهُيَنْقُصُمِنْأَجْرِهِكُلَّيَوْمٍقِيرَاطَانِ::: جس نے شکار کے لیے سِکھائے(سِدھائے)ہوئے، یا مویشیوں( کی حفاظت کرنے والے)کتے کے علاوہ کتا ، تو پالنے والے کے(نیک ) عمل میں روزانہ دو قیراط کے برابر کمی ہوگی)))))صحیح بخاری / حدیث/5481کتاب الذبائح/باب6،
دیکھ لیجیے ، محترم قارئین، اسی صحیح بخاری شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے شکار کے لیے سکھائے ہوئے کتے رکھنے کی بھی اجازت منقول ہے ،
الحمد للہ ، ایک دفعہ پھر واضح ہو گیا کہ محدثین کرام رحمہم اللہ قران کریم  میں اللہ تبارک و تعالیٰ کیطرف سے نازل کردہ  تعلیمات سے بے خبر نہ تھے ، بلکہ اعتراض کرنے اس بیماری کا شکار ہے ، اللہ اُسے شِفاء عطاء فرمائے،
اور اللہ تعالیٰ اعتراض کرنے والے کو ہدایت دے ، اور اسے یہ توفیق دے کہ وہ کسی بھی معاملے میں بات کرنے سے پہلے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی کسی بھی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ پر کوئی اعتراض  کرنے سے پہلے اس میں مذکور مسئلے یا معاملے کے بارے میں مکمل مطالعہ کرے ، اور اللہ کے کلام پاک کو اپنی ذاتی آراء کی بھینٹ چڑھانے کے گناہ سے بچنے کی کوشش کرے ۔
اللہ جلّ جلالہ کے کلام پاک کو اپنی جہالت کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے اس شخص نے لکھا ہے :::
""""" لگتا  یوں ہے یہ ایرانی امام اور ان کے راویوں کی ٹیم قران کریم کی تعلیمات سے یکسر بے خبر تھی ورنہ انہیں قران کریم میں کتے کے متعلق درج ذیل احکامات نظر آجاتے جہاں شکار وغیرہ کے لیے کتوں کو تعلیم و تربیت دینے کا ذِکر ہے ، ملاحظہ فرمایے :
وَمَاعَلَّمْتُمْمِنَالْجَوَارِحِمُكَلِّبِينَتُعَلِّمُونَهُنَّمِمَّاعَلَّمَكُمُاللَّهُ
                     (سورہ المائدہ۔آیت4)
اور جو تم شکاری جانوروں ، شکاری کتوں کو تعلیم دیتے ہو ئے سکھاؤ۔ تم اس علم کی رو سے انہیں سکھاتے ہو جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔
(کلب ہر چیز پھاڑ دینے والے درندے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ، لیکن خصوصی طور پہ یہ لفظ کے کے لیے مخصوص ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی آیت 176میں اصحابِ کہف کے ساتھی کتے کے لیے کلب کا لفظ استعما ل ہوا ہے )"""""،
لگتا نہیں ، بلکہ ہے ہی ایسا کہ اعتراض کرنے والا جہالت کی اتھاہ گہرائیوں کے گھپ اندھیروں میں جا پڑا ہے جہاں اسےامیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہُ اللہ و رفع درجاتہ ُ اور دیگر محدثین اور ان کے راوی صاحبان  صرف ایرانی ہی سنائے پڑھائے جاتے ہیں ، یا اسے ایرانیوں سے کوئی ایسا ذاتی تجربہ حاصل ہوا ہے کہ اسے اپنے ناپسندیدہ ہر کام کے ذمہ دار ایرانی ہی سوجھتے ہیں ،
اور نہ ہی ان لوگوں کو یہ سمجھ آتا ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ ،مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کی کوشش کرنے والے نہیں ، بلکہ وہ لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے والوں میں سے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو الگ الگ کر رکھنا چاہتے ہیں ، قران کریم کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ کے مطابق سمجھنے کی روش ختم کر کے اپنی ہوائے نفس کے مطابق سمجھنے کی روش رائج کرنا چاہتے ہیں  تا کہاُس روش کو اپنانے والا  مسلمان بے چارہ یہ سمجھتا رہے کہ وہ قران کریم کی اتباع کر رہا ہے اور درحقیقت وہ اُس کی مخالفت کر رہا ہو، جیسا کہ یہ لوگ نماز پڑھنے کے منکر ہو چکے ہیں ، مر د و عورت کے اختلاط کے داعی ہیں ، عورت کے پردے کو بوسیدہ عورتوں کی تجارت کہتے ہیں ، زکوۃ کی ادائیگی کے نصاب اپنی خواہشات کے مطابق بناتے ہیں ، اور ، اور ، اور ،،،،،
محترم قارئین ، آپ یہ دیکھیے کہ اعتراضی کے  اس منقولہ بالا کلام میں بھی اس شخص نے سوائے اپنی جہالت یا اللہ کے دِین سے دُشمنی کے کچھ اور پیش نہیں کیا ،
آیت شریفہ کا ترجمہ سراسر غلط کیا ہے ، اور کتوں کا ذِکر صِرف کتوں کی وکالت کرتے ہوئے  اپنی خرافات کی تائید کے لیے داخل کیا ہے ،یہ کاروائی اِس شخص کی بد دیانتی اور اللہ کے دِین کے دوسرے مصدر سّنّت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے دُشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے ، جو کہ در حقیقت صاحب سُنّت محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے دُشمنی ہے ، جس کا لا محالہ نتیجہ  اللہ تبارک و تعالی سے دُشمنی ہے ،
مذکورہ بالا  آیت شریفہ کے ذکر کردہ حصہ لازمی طور پر اس کے پہلے والے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے ہی صحیح مفہوم مہیا کرتا ہے ، پوری آیت مبارکہ درج ذیل ہے :::
(((((يَسْأَلُونَكَمَاذَاأُحِلَّلَهُمْقُلْأُحِلَّلَكُمُالطَّيِّبَاتُوَمَاعَلَّمْتُمْمِنَالْجَوَارِحِمُكَلِّبِينَتُعَلِّمُونَهُنَّمِمَّاعَلَّمَكُمُاللَّهُفَكُلُوامِمَّاأَمْسَكْنَعَلَيْكُمْوَاذْكُرُوااسْمَاللَّهِعَلَيْهِوَاتَّقُوااللَّهَإِنَّاللَّهَسَرِيعُالْحِسَابِ ::: (اے محمد) لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ اُن کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے ؟آپ فرمایے ، تُم لوگوں کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں ، اور جو تمہارے سکھائے ہوئے شکاری جانور  جنہیں تم اُس میں سے سکھاتے ہو جو تمہیں اللہ نے سکھایا (وہ جانور جو شکار کرتے ہیں وہ شکار حلال کیا گیا)، لہذا وہ جانور جو کچھ تمہارے لیے پکڑ لیں اُس میں سے کھاؤ اور(جانور چھوڑنے سے پہلے)اُس پر اللہ کانام لو اور اللہ (کی نافرمانی اور عذاب)سے بچو ، بے شک اللہ بہت ہی تیزی سے حساب کرنے والا ہے)))))سُورت المائدہ(5)/آیت 4،   
محترم قارئین، اس آیت کریمہ میں  وہ نہیں کہا گیا جو کچھ اعتراض کرنے والے نے اپنی بد دیانتی چھپانے کیے ترجمہ کیا  کہ """"" وَمَاعَلَّمْتُمْمِنَالْجَوَارِحِمُكَلِّبِينَتُعَلِّمُونَهُنَّمِمَّاعَلَّمَكُمُاللَّهُ
اور جو تم شکاری جانوروں ، شکاری کتوں کو تعلیم دیتے ہو ئے سکھاؤ۔ تم اس علم کی رو سے انہیں سکھاتے ہو جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے۔"""""،
بلکہ اس آیت کریمہ میں کھانے کے لیے حلا ل  کی گئی چیزوں کے ذِکر کے ساتھ ، شکار کے لیے سکھائے ہوئے  جانوروں کے ذریعے شکار کیے ہوئے جانوروں کو کھانا حلال کیے جانے کا ذِکر ہے ، کیونکہ """ وَمَاعَلَّمْتُمْمِنَالْجَوَارِحِ""" معطوف ہے  """ أُحِلَّلَكُمُالطَّيِّبَاتُ """ پر ،
لیکن  اعتراض کرنے والے نے صرف کتوں کی وکالت میں اللہ کے کلام کو کچھ کا کچھ بنا ڈالا ، اور اللہ جلّ جلالہُ کے اس کلام پاک میں تحریف کرتے ہوئے خصوصی طور پر کتوں کا ذِکر بھی شامل کر دِیا ،
جبکہ""" الجوارح  """ جانوروں اور پرندوں میں سے شکار کرنے والے ایسے  سب ہی جانوروں کا کہا جاتا ہے  جو شِکار کو زخمی کر تے ہوئے شِکار کرتے ہیں ، جیسا کہ شیر ، چیتا ، بھیڑیا ، کتا ، وغیرہ ، اور عُقاب ، باز ، شاھین ، وغیرہ ،  اور """ الجوارح  """کمائی کرنے والے کو کہتے ہیں ، جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کے لیے کمائی کرے ، اس لیے انسان کے کچھ اعضاء کو بھی """ جوارح  """ کہا جاتا ہے ،
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں """ الجوارح  """ میں یہ دونوں ہی مفہوم پائے  جاتے ہیں ،
""" مکلِّبین """، """ مکلِّب """ کی جمع ہے، اور """ مکلِّب """(ل کے نیچے زیر کے ساتھ)جانوروں کوشِکار کی  تربیت  دینے والے کو کہا جاتا ہے ،
انسان سے تربیت پا کر اُس تربیت کے مطابق شِکار کرنے والے جانور صِرف کتے ہی نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی اب تک یہ معاملہ صِرف کتوں تک محدود ہے ، انسان دیگر جانوروں کوشکار کرنے کے لیے دیگر جانوروں کو بھی استعمال کرتا چلا آرہا ہے ، جن میں چوپایے بھی ہیں اور مختلف پرندے بھی جیسا کہ عُقاب ، باز، شاھین وغیرہ ، شِکار کرنے کے لیے تربیت پائے ہوئے سب ہی جانور اِس آیت کریمہ میں مذکور """ الجوارح """ کہا جاتا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِن سب ہی  جانوروں کے ذریعے شکار کیے ہوئے جانوروں کے حلال ہونے کا حکم فرمایا ہے ، جو سارےہی انسانی معاشرے میں قیامت تک شِکار کے لیے  اِستعمال ہونے والے جانوروں کے لیے ہے ، صِرف کسی ایک معاشرے یا کسی خاص وقت تک کے لیے محدود نہیں ، 
اگر ایسا سمجھا جائے تو دوسرے جانوروں کے ذریعے کیا ہوا شِکار تو حرام ہو گیا!!!
کیا اعتراض  کرنے والا یہ فتویٰ دے سکتا ہے کہ کتے کے علاوہ کسی بھی اور جانور کے ذریعے کیا گیا شکار کھانا حرام ہے؟؟؟
قارئین کرام"""مکلِّبین"""سے مُرادصِرف کتوں کو تربیت دینے والے ہی  نہیں ہیں ، بلکہ شِکار کرنے والے پالتو جانوروں کو  شِکار کی تربیت دینے والوں کا ذِکر ہے ،
 چونکہ اس کام کے لیے قدیم سے ہی عام طور پر کتوں کو استعمال کیا جاتا تھا ، اس لیے شکاری جانوروں کو شکار کی تربیت دینے والوں کا یہ نام لفظ """ کلب"""سے مشتق ہو کر معروف ہو گیا ،
پس یہ بات تفسیر ، حدیث اور لغت سے ثابت شدہ ہے کہ آیت کریمہ میں استعمال کردہ لفظ """مکلِّبین""" کا معنی یا مفہوم کتے نہیں ، بلکہ شِکار کرنے والے جانوروں کو تربیت دینے والے لوگ ہیں ، اور وہ تربیت بھی صِرف کتوں کی تربیت نہیں ہے ،
ملاحظہ کیجیے قارئین کرام کہ اعتراض کرنے والے نےاپنی خود ساختہ""" خِلافء قران ، قران فہمی""" کے زعم میں  اللہ کے کلام کے معنی اور مفہوم کو بالکل ہی بدل کر رکھ دِیا اور پھر اپنی کی ہوئی اس معنوی تحریف کی تائید کے لیے  یہ بھی لکھ مارا کہ :::
"""""(کلب ہر چیز پھاڑ دینے والے درندے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے ، لیکن خصوصی طور پہ یہ لفظ کتے کے لیے مخصوص ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی آیت 176میں اصحابِ کہف کے ساتھی کتے کے لیے کلب کا لفظ استعما ل ہوا ہے )"""""،
اِن شاء اللہ ،یہاں تک کی معلومات سے یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ چکی ہو گی کہ اعتراض کرنے والا یا تو جاھل مطلق ہے اور یا پھر جان بوجھ کر اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیھ ثابت شدہ سُنّت شریفہ ، جو کہ اللہ کے دِین کی دوسری بنیاد ہے ، کے خِلاف کام کرتا ہے ،
اِن شاء اللہ ، اگلی فرصت میں اس شخص کے باقی شدہ اعتراضات اور خرافات کا علمی جائزہ پیش کروں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   
الحمد للہ ، یہاں تک اعتراض کرنے والے کی طرف نقل کردہ پہلی اور چوتھی ، اور پھر دوسری حدیث ، اور پھر تیسری حدیث شریف، اور پھر الگ سے ذِکر کردہ ایک اور حدیث شریف  پر کیے گئے اعتراضات کی ٹارگٹ کِلنگ مکمل ہوئی ،اِن شاء اللہ یہ مذکورہ بالا معلومات ، اعتراض کرنے والے کی طرف سے کیے گئے تمام اعتراضات کی حقیقت واضح کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کا سبب ہوں گی ، و للہ الحمد والمنۃ ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد اِن شاء اللہ اگلی فرصت میں  ہم اس اعتراض کرنے والے کے مضمون میں لکھی گئی دیگر جاہلانہ باتوں کی طرف چلیں گے ۔
و السلام علی من اتبع الھُدیٰ و سلک علی مسلک النبی الھدیٰ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، و قد خاب من یشقاق الرسول بعد ان تبین لہُ الھُدیٰ ، و اتبع ھواء نفسہ فوقع فی ضلالا بعیدا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔