Thursday, May 5, 2016

::: اللہ کی خاطر مُحبت ، فائدے اور نِشانیاں :::

::::::: قُرآن و سُنّت کے باغ میں سے :::::::
::::::: اللہ کی خاطر مُحبت ، فائدے اور نِشانیاں :::::::
بِسمِ اللہ الرّحمٰن ِ الرَّحیم
و لہُ الحمدُ فی اُولیٰ و فی الآخرۃ ،  و افضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہ مُحمدٍ، الذَّی لا نَبیَّ و لا رسولَ  ولا  مَعصومَ بَعدہُ
شُروع اللہ کے نام سے جو دُنیا اور آخرت میں بہت ہی زیادہ رحم کرنے والا ہے
 اور دونوں جگہوں میں سچی اور حقیقی تعریف کا وہی مُستحق ہے،اور سب سے بہترین دُعائیں اور مکمل ترین سلامتی ہے اُس کے رسول محمد کے لیے، جِن کے بعد کو نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول اور نہ کوئی معصوم۔
اللہ کی خاطر مُحبت اِسلامی تعلیمات اور تربیت کے میٹھے رسیلے پھلوں میں سے ایک ایسا پھل تھا جِس نے اِسلامی  معاشرے کو ایسے خوش ذائقہ اورقوت آور نتائج مہیا کر رکھے تھے جِس کی مثال تاریخ اِنسانی میں  کسی بھی معاشرے میں نہ تھی ، اور نہ ہو سکی ،
اللہ کی خاطر مُحبت قران و سُنّت کے باغ میں سے ایک ایسا پھول تھا جِس کی خُوشبُو مُسلم معاشرے کے افراد کی رُوحوں کو مُعطر رکھتی تھی ، لیکن افسوس کہ آج کہیں کسی جگہ یہ پھل میسر نہیں رہا، کہیں کسی جگہ یہ پھول دستیاب نہیں رہا ،  
بلکہ یہ افسوس ناک حقیقت اپنا گھناؤنا چہرہ لیے ہر وقت خوفزہ کیے رکھتی ہے کہ اب تو کہیں کسی جگہ اِسلامی معاشرہ ہی موجود نہیں رہا تو اِس کی صِفات کہاں ملیں گی!!!؟؟؟
اور اِس سے بڑھ کر دُکھ انگیز  اور خوفناک معاملہ یہ ہے کہ اِسلامی معاشرے کی بعض خصوصیات اب کافروں کے معاشروں میں پائی جاتی ہیں ، اور ہم مُسلمان اپنی اُن خصوصیات کو اپنانے کی بجائے کافروں کی گندی عادات اپنانے میں اپنی قوتیں خرچ کرتے ہیں ، اور اگر کہیں کوئی اچھی صِفت اپنانے کی کوشش کرتا ہے تو بھی اپنی اِسلامی تعلیمات کے مُطابق نہیں ، اللہ اور اِس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کے لیے ، اِسلام اور مُسلمانوں کی سر بلندی کے لیے نہیں ، بلکہ کفار و مُشرکین سے مُتاثر ہو کر اپنانے کی کوشش ہوتی ہے ، اور بسا اوقات اِسے یہ بھی احساِس نہیں ہوتا ، بلکہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ اچھی صِفت یا عادت اُن لوگوں کی نہیں ، بلکہ ہماری اِسلامی تعلیمات میں سے ہے ، جیسا کہ سچ بولنا، معاملات میں حق تلفی اور دھوکہ دہی نہ کرنا وغیرہ ،
 آج ہماری اِسلامی تعلیمات کے ذریعے اِنسانیت کو دی گئی ، سکھائی گئی یہ صِفات ہم مُسلمانوں سے زیادہ کافروں میں نظر آتی ہیں ، اور ہمارے مُسلمان بھائی بہنیں  یہ صِفات کافروں سے مُتاثر ہو کر اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ، اگر اِنہی صِفات کا ذِکر یا انہیں اپنانے کی نصیحت کوئی دِیند ار شخص کرے تو اِسے طرح طرح کے القابات کے ساتھ رَد کر دیا جاتا ہے ،
اور میرے اُن مُسلمان بھائی بہنوں کو یہ بھی احساِس نہیں ہو پاتا کہ اگر یہ  اچھی صِفات  وہ اپنے دِین کی تعلیمات کی وجہ سے اپنائیں اور اپنے اللہ کی رضا کے لیے اپنائیں تو اُن کے لیے دُنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی خیر اور عِزت کا سبب ہوں گی ،
اورکافروں سے مُتاثر ہو کر اپنانے کی صُورت میں اِخلاص کے فُقدان اور نیت کی تبدیلی کی وجہ سے نیکی برباد گناہ لازم والا معاملہ ہوجاتا ہے ، اللہ ہم سب کوہر طرح کی  کوتاہیوں سے محفوظ رکھے ،
میری بات اللہ کی خاطر مُحبت کرنے کے بارے میں تھی ، اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اللہ کی خاطر مُحبت کیا ہے ؟؟؟
اِس کی صِفات کیا ہیں ؟ جن کی موجودگی میں اِس کی پہچان ہو تی ہے ؟؟؟
اِن شاء اللہ آج ہم اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اور اِس کے رسول کریم مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مُبارکہ میں اِن مذکورہ بالا سوالات کے جوابات کا مطالعہ کریں  گے ،
::: اجمالی جواب ::: اجمالی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کی خاطر مُحبت  وہ ہے  جِس میں کوئی مُحب کسی کو صِرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اپنا مَحبُوب رکھے اور پھر وہ مُحب اپنے مَحبُوب کو اللہ اور اِس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت کی طرف بلاتا رہے اور اِس میں اِس کا مددگار رہے ، اور نافرمانی سے روکتا رہے اور نافرمانی سے رُکے رہنے میں اِس کا مددگار  رہے ، اِسے کفار و مُشرکین اور اہل بدعت سے  محفوظ رہنے میں اِس کا مددگار رہے ،
عموما ً لفظ  مُحبت سُن کر اُن جذبات کا خیال آتا جو دو مُتضاد جنسوں میں ایک دُوسرے کے لیےپائی جانے والی رغبت کی وجہ سے ظاہر ہوتے ہیں ،  جبکہ مُحبت صِرف اُنہی جذبات کا نام نہیں بلکہ مُحبت اِنسانوں میں تو کیا، بعض جانوروں کے درمیان پائے جانے والے رشتوں اور تعلقات میں بھی  موجود ہوتی بھی ہے،
مُحبت اِنسانی جذبات میں سے بہت ہی زیادہ نازک ، لیکن اُتنا ہی مضبوط اور تُند و تیز جذبہ ہے ، اور اگر یہ جذبہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے تابع کر دِیا جائے تو اِس جذبے کی کیفیت کو اِلفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے ،لیکن اِس کے فوری اثرات میں یہ یقینی اثر ہے کہ  یہ جذبہ مُسلمانوں کے درمیان ایسے مضبوط اور بے لوث تعلقات کی بنیاد بن جاتا ہے جِس کی مثال کسی اور معاشرے میں نہیں ملتی ، اور جِن تعلقات  کے دُنیاوی اور اُخروی مثبت نتائج کی مثال بھی کسی اور عمل میں نہیں ملتی ،
اللہ کی خاطر مُحبت کی وجہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اُمت کو جو نعمتیں  عطاء فرماتا ہے، اور اِس مُحبت کے جو عظیم فائدے والے نتائج  دیتا ہے اُن سب کی بہت سی خبریں ہمیں دی گئی ہیں ، اور اُنہی خبروں میں اللہ کی خاطر ایک دُوسرے مُحبت کرنے والوں کی ، اوراُس مُحبت کی نِشانیاں بھی بتائی گئی ہیں ،
ان خبروں کا بغور مطالعہ ہمارے لیے اُن سوالات کے جوابات  مہیا کرنے والا ہے جو میں نے اپنی بات کے آغاز میں پیش کیے تھے، آئیے اُن خبروں میں سے کچھ کا مطالعہ کرتے ہیں :::
::::::: اللہ کی خاطر مُحبت کرنے کےفوائد  :::::::
:::::::تکمیل اِیمان کے اِسباب میں سے ہے :::::::
::::::: ابی اُمامہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبُغض لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اِستَكْمَلَ الإِيمَانَ::: جِس نے اللہ کی خاطر مُحبت کی ، اور اللہ کی خاطر نفرت کی، اور اللہ کی خاطرہی (کسی کو کچھ) دِیا ، اور اللہ ہی کی خاطر(کسی کو کچھ)دینے سے رُکا رہا ، تو یقیناً اِس نے اپنا اِیمان مکمل کر لیاسُنن ابو داؤد /حدیث 4683/کتاب السُنّۃ/باب16، اِمام الالبانی رحمہُ نے صحیح قرار دِیا ۔
::::: اِیمان کی مضبوطی کے اِسباب میں سے ہے :::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ابو ذر الغِفاری رضی اللہ عنہ ُ سے فرمایا ﴿ يَا أَبَا ذَرٍّ أَيُّ عُرَى الإِيمَانِ أَوْثَقُ؟:::اے ابو ذر کیا تُم جانتے ہو کہ اِیمان کی سب سے زیادہ مضبوط گرہ کونسی ہے؟،
ابو ذر رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """ اللہ اور اِس کے رسول ہی سب سے زیادہ عِلم رکھتے ہیں """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿ الْمُوَالاةُ فِي اللَّهِ ، وَ المُعَادَاةُ فِي الله ، وَالْحُبُّ فِي اللَّهِ ، وَالْبُغض فِي اللَّهِ::: اللہ کے لیے دوستی رکھنا ، اور اللہ کے لیے دُشمنی رکھنا ، اور اللہ کے لیے مُحبت کرنا ، اور اللہ کے نفرت کرناصحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ /حدیث2539۔
::::::: اللہ  سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی مُحبت پانے کے اِسباب میں سے ہے :::::::
مُعاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ  کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا کہ﴿ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَجَبَتْ مُحبتى لِلْمُتَحَابِّينَ فِىَّ وَالْمُتَجَالِسِينَ فِىَّ وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِىَّ وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِىَّ ::: اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمانا ہے کہ میرے لیے آپس میں مُحبت کرنے والوں، ایک دُوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والوں ، اور ایک دُوسرے کو جا کر ملنے والوں ، اور (ایک دُوسرے کی خیر کے لیے) اپنی قوتیں صرف کرنے والوں کے لیے میری مُحبت واجب ہوگئیصحیح ابن حبان /حدیث 575/کتاب  البِر و الاحسان /باب13 الصحبة والمجالسة ، مؤطا مالک/حدیث 1748/(کتاب)الشعر/باب5، مُسند أحمد/حدیث 22680/حدیث معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 47، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ /حدیث4331۔
::::: قیامت والے دِن بھی یہ مُحبتیں قائم رہیں گی:::::
﴿الأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ::: اِس دِن سب ہی دوست دُشمن دن جائیں گے سوائے تقویٰ والوں کے سُورت الزُخرف (43)/آیت67،
تقویٰ والوں کی دوستیاں صِرف اللہ کے لیے ہوتی ہیں ، کسی دُنیاوی مقصد کے لیے ، پس یہ لوگ جو ایک دُوسرے سے صِرف اللہ کے لیے مُحبت اور دوستی کرنے والے ہوں گے قیامت والے دِن بھی اُن کی دوستی برقرار رہے گی ، اور جو لوگ دُنیاوی مقاصد کے لیے ، اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے دوستیاں رکھنے والے ہوں گے وہ ایک دُوسرے کے دُشمن بن جائیں گے ۔
[[[ تقویٰ کے بارے میں جاننے کے لیے"""تقویٰ، تعریف ، مفہوم ، نتائج اور  ذرائع حُصول """ کا اِس ربط پر مُطالعہ فرمایے : http://bit.ly/1EbqpSS ]]]
::::::: انبیاء  اور  شھداء کے لیے بھی پسندیدہ درجہ حاصل ہونےکے اِسباب میں سے ہے :::::::
::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر الفارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ کا فرمان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  ﴿ إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لأُنَاِسا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ وَلاَ شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى::: بے شک اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے،جو انبیاء میں سے نہیں اور نہ ہی شہیدوں میں سے ہوں گےلیکن قیامت والے دِن اللہ کے پاِس اُن کے رُتبے کی أنبیاء اور شہداء بھی تعریف کریں گے
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا """ اے اللہ کے رسول ہمیں بتایے کہ وہ لوگ کون ہیں ؟"""،
تو اِرشاد فرمایا ﴿هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ وَلاَ أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لاَ يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاِس وَلاَ يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاِس::: وہ(صِرف )اللہ کی خاطر مُحبت کرنے والے لوگ ہوں گے ، (کیونکہ )اُن کے درمیان نہ تو (اِیمان کے عِلاوہ)کوئی رشتہ داری ہو گی اور نہ ہی کوئی مال لینے دینے کا معاملہ ، پس اللہ کی قَسم اُن کے چہرے روشنی ہی روشنی ہوں گے اور وہ روشنی پر ہوں گے ، جب (قیامت والے دِن) لوگ ڈر رہے ہوں گے اور غم زدہ ہوں گے  تو وہ نہیں ڈریں گے ، اور نہ ہی غم زدہ ہوں گے
اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ﴿ أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ   :::بے شک اللہ کے ولیوں (دوستوں)پر نہ کوئی ڈر ہو گا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گےسُنن ابو داؤد /حدیث3529/کتاب الاِجارۃ  /باب42،
اِس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ خبر کروائی کہ اللہ کی خاطر ، صِرف اللہ کی خاطر ایک دُوسرےسے مُحبت کرنے والے اِیمان والے اللہ کے اُن ولیوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں قیامت والے دِن کوئی خوف اور غم نہ ہوگا اور وہ اللہ کے ہاں ایسے بلند رتبے پائیں گے کہ جنہیں دیکھ کر انبیاء اور شہدا ءبھی رشک کریں گے ،
یعنی اللہ کے ولیوں کی نِشانیوں میں سے ایک نِشانی یہ بھی ہے کہ وہ صِرف اور صِرف اللہ کی خاطر ایک دُوسرے سے مُحبت کرتے ہیں ، اور جو لوگ خود کو أولیاء اللہ سمجھتے ہیں ، یا دُوسروں پر ایسا ظاہر کرتے ہیں ، یا لوگ اُنہیں أولیاء اللہ سمجھتے ہیں ، لیکن وہ  نام نہاد أولیاء اپنے دُوسرے اِیمان والے کلمہ گو بھائیوں بہنوں سے نفرت کرتے ہیں ، اُن کی عزت اور اِیمان پر حملہ آور ہوتے ہیں ، اور اپنے مُریدان کو اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں  سے نفرت کرنے والے اور اُن پر حملہ آور ہونے والا بناتے ہیں ، ایسے لوگ کسی بھی طور أولیاء اللہ نہیں ہو سکتے ،
 جی ہاں ، اللہ کے، اللہ کے دِین کے ، اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ، اور اللہ کے دِین کے حقیقی پیروکاروں کے دُشمن  ابلیس کے أولیاء ہو سکتے ہیں ، جِس کے بڑے اہداف میں سے ایک ہدف  """لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ """ کہنے اور ماننے والوں کے درمیان نفرتوں کو رواج دینا ہے ،  تو یاد رکھیے کہ أولیاء اللہ کی نِشانیوں میں سے ایک نِشانی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اِیمان والے بھائیوں اور بہنوں سے اللہ کی خاطر مُحبت رکھتے ہیں ، نفرت ، عدوات اور بُغض نہیں ، ان کی اِصلاح کے لیےکوشاں رہتے ہیں نہ کہ اُن کو ملت اِسلامیہ سے خارج قرار دینے کی کوششوں میں ، ایسی کوششوں میں رہنے والوں کے لیے شدید خطرہ ہے کہ اپنے ان اعمال اور ایسے جاھلانہ فتوؤں اور باتوں کی بنا پر خود ہی ملت سے خارج نہ ہوجائیں ،
بات ہو رہی تھی سچے أولیا اللہ کی پہچان کے بارے میں تو اِس موضوع کو فی الحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ایک ایسے شاگر د کا ایک قول سنا کر روکتا ہوں ، جنہیں اُمت  میں کتاب اللہ کے  سب سے بڑے عُلماء میں سے سب سے پہلا  مانا جاتا ہے اور حق مانا جاتا ہے ،توجہ سے پڑھیے ،
حَبر الاُمہ عبداللہ ابن عباِس رضی اللہ عنہما سے ایک بہت ہی بہترین بات منقول ہے کہ """"" مَنْ أَحَبَّ فِي اللَّهِ وَأَبُغض فِي اللَّهِ، وَوَالَى فِي اللَّهِ وَعَادَى فِي اللَّهِ ،  فَإِنَّمَا تُنَالُ وِلَايَةُ اللَّهِ بِذَلِكَ:::جِس نے اللہ  کی خاطر مُحبت کی اور اللہ کی خاطر  نفرت کی ، اور اللہ کی خاطر دوستی (اورقلبی تعلق داری) رکھی ، اور اللہ کی خاطر دُشمنی رکھی، تو یقینا ً وہ شخص اِن (صِفات)کے ذریعے اللہ کی ولایت کا درجہ پا جا ئے گا """""
اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کے حقیقی أولیاء کی پہچان عطاء فرمائے اور اُن کے ساتھیوں میں بنائے ، اور یقینا ً اللہ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ ہمیں اُن میں سے ہی بنا دے ، لیکن ہماری طرف سے اِخلاص اور اِتباع ءِسُنّت کے مُطابق محنت درکار ہے ،"""أولیاء اللہ """کی پہچان میں غلط فہمیوں کی بات کافی طوالت والی ہو سکتی ہے ، کچھ اِسی طرح کا معاملہ """ فنا فی اللہ """ کا بھی ہے ، اِن شاء اللہ ، کسی اور وقت میں اِن  موضوعات کے بارے میں ضروری معلومات مہیا کرنے کی کوشش کروں گا ۔
:::::::قیامت والے دِن اللہ کے عرش کا سایہ پانے کے اِسباب میں سے ہے :::::::
::::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا  ﴿ إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلاَلِى الْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ فِى ظِلِّى يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلِّى:::بے شک قیامت والے دِن اللہ کہے گا کہ میرے جلال کی وجہ (ایک دُوسرے سے) مُحبت کرنے والے (اِیمان والے)کہاں ہیں ؟ آج ، اِس دِن میں جب کہ میرے (عرش کے)سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ، میں انہیں اپنے (عرش)کے سایے میں جگہ دوں گاصحیح مُسلم/ حدیث6713/کتاب البر والصلۃ و الادب/باب12،
::::::: ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت کردہ سات قسم کے لوگوں کو عرش کے سایے میں جگہ ملنے والی حدیث شریف میں ہے کہ  ﴿سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِى ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّهُ الإِمَامُ الْعَادِلُ ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِى عِبَادَةِ رَبِّهِ ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِى الْمَسَاجِدِ ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِى اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّى أَخَافُ اللَّهَ . وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ :::جس دِن اللہ کے (عرش کے)سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اِس دِن اللہ سات لوگوں کو اپنے (عرش کے)سایے میں جگہ دے گا (1)انصاف کرنےوالا حُکمران ، اور (2)وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہوئے بڑا ہو، اور (3)وہ شخص جِس کا دِل مسجدوں میں ہی لگا رہے، اور (4)وہ دو شخص جو صِرف اللہ کے لیےمُحبت کرتے ہوں اِسی مُحبت میں وہ ملتے ہوں اور اِسی مُحبت میں وہ الگ ہوتے ہوں، اور (5)وہ شخص جِسے کسی رُتبے اور حُسن والی عورت نے (برائی کے لیے)دعوت دی ہو اور وہ شخص(اِس عورت کی دعوت ٹُھکراتے ہوئے)کہے میں اللہ سے ڈرتا ، اور (6)وہ شخص جو اِس قدر چُھپا کر صدقہ کرتا ہو کہ اِس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ ہو کہ اِس کے دائیں ہاتھ نے کیا صدقہ کیا ہے ، اور (7)وہ شخص جِس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اِس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئےمُتفقٌ علیہ، صحیح البخاری/حدیث660/کتاب الاذان /باب36، صحیح مُسلم/ حدیث2427/کتاب الزکاۃ   /باب31،
::::::: اللہ کی خاطر مُحبت کرنے والوں کی نِشانیاں :::::::
::::::: ایک دُوسرے کو نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے باز رہنے کی تلقین کرنا اور ان دونوں ہی کاموں کی تکمیل میں ایک دُوسرے کی مدد کرنا :::::::
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان ﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ:::اور اِیمان والے مرد اور اِیمان والی عورتیں ایک دُوسرے کے ساتھی ہیں (کہ ایک دُوسرے کو)نیکی کے کاموں کا حُکم کرتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں سُورت التوبہ (9)/آیت71 ،
اِیمان لانے والوں میں سے ،صِرف وہی لوگ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمان پر عمل پیرانظر آتے ہیں جو ایک دُوسرے سے اللہ کے لیے مُحبت کرتے ہیں ، ورنہ تو لاکھوں اِیمان والے ہیں ، أربوں مُسلمان ہیں ، کتنے ہیں جوایک دُوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے ہوں ؟ برائی اور گناہوں سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوں؟ جو ہیں ، جتنے ہیں ، وہ اِن شاء اللہ ، ایک دُوسرے اللہ کی خاطر مُحبت کرنے والوں میں ہو سکتے ہیں ۔     
:::ایک دُوسرے کے دُکھ درد کو بالکل اپنے دُکھ درد کی طرح محسوس کرنا ، اور ایک دُوسرے پر رحم و شفقت کرنا اور مددگار رہنا   :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین  :::﴿تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِى تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى:::اِیمان والوں کی مثال ایک دُوسرے سے مُحبت کرنے میں ، اور ایک دُوسرے پر صِرف اِیمان کی وجہ سے رحم کرنے میں ، اور ایک دُوسرے کے مددگار رہنے میں  اِس طرح ہے کہ جیسے کوئی ایک جِسم ہوتا ہے کہ جب اِس جِسم کا کوئی حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا ہی جِسم اِس تکلیف کی وجہ سے بخار اور بے خوابی کامیں مبتلا رہتا ہے صحیح البخاری/حدیث6011/کتاب الادب/باب27،صحیح مُسلم/حدیث6751/کتاب البِر والصلۃ ولآداب/ باب17، 
﴿الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا:::اِیمان والے ایک دُوسرے کے لیے چُنی ہوئی دیوار کی طرح ہوتے ہیں جو(اپنے  حصوں کو ) ایک دُوسرے کومضبوط کرتی ہے صحیح البخاری/ حدیث481/کتاب الصلاۃ / باب88،صحیح مُسلم/حدیث6750/کتاب البِر والصلۃ ولآداب/ باب17، 
:::::  ایک دُوسرے کو برائی سے روکنا اور ظلم سے بچانا   :::::
نبی اللہ صلی اللہ علی وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے ﴿ وَلْيَنْصُرِ الرَّجُلُ أَخَاهُ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا إِنْ كَانَ ظَالِمًا فَلْيَنْهَهُ فَإِنَّهُ لَهُ نَصْرٌ وَإِنْ كَانَ مَظْلُومًا فَلْيَنْصُرْهُ:::اور ضروری ہے کہ کوئی (مُسلمان)آدمی اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ بھائی ظُلم کرنے والوں میں سے ہو یا مظلوم ہو، اگر تو وہ ظلم کرنے والوں میں سے ہو تو اپنے اِس ظالم بھائی کو ظلم کرنے سے روکے،اور یہی اِس ظالم کی مدد ہے ، اور اگر وہ مظلوم ہو تو (ظُلم سے نجات حاصل کرنے میں)اِس کی مدد کرے صحیح مُسلم/حدیث6747 /کتاب البِر والصلۃ الآداب/ باب16،  
اِن شاء اللہ مذکورہ بالا کے ذریعے اُن تمام سوالات کے جوابات سمجھے جا چکے ہوں گے جو سوالات میں نے اپنی بات کے آغاز میں پیش کیے تھے ، لہذا ، میں اب اِس موضوع کو مزید دو باتیں سُنا کر روکتا ہوں ،
ایک تو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے مُسلمانوں کے درمیان اللہ کی خاطر مُحبت پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے ایک بہترین اور انتہائی اِسان طریقہ  بیان کرتا چلوں ،
:::::  مُسلمانوں کے درمیان اللہ کی خاطر مُحبت نشر کرنے  کا ایک نبوی طریقہ :::::
رسول  اللہ صلی اللہ علی وعلی آلہ وسلم کا فرمان مُبارک  ہے ﴿ لاَ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى شَىْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ:::تُم لوگ اِس وقت تک جنّت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک اِیمان نہ لاؤ ، اور اِس وقت اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک ایک دُوسرے سے مُحبت کرنے والے نہ بنو گے ،کیا میں تُم لوگوں کو ایسی چیز(کام) کے بارے میں نہ بتاوں کہ جس کو کرنے سے تُم ایک دُوسرے سے مُحبت کرنے لگو ، (وہ کام یہ ہے کہ)اپنے درمیان سلام (کرنے)کو پھیلاؤ صحیح مُسلم/حدیث203/ کتاب الاِیمان/باب24،
اور دُوسرا ، شیخ الاِسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شاندار قول بھی سناتا چلوں کہ """"" ولو كان كُل ما اختلفَ مُسلمانٌ فى شيءٍ تهاجرا لم يَبقَ بَين المُسلمين َ   عصمة ٌولا أخُوَة ::: اور اگر کوئی سے دو مُسلمان ہر اختلاف کی صُورت میں ایک دُوسرے سے قطع تعلقی کرنے لگیں تو مُسلمانوں کے درمیان نہ تو کوئی عزت داری رہے اور نہ ہی کوئی بھائی بندی """"" كتب ورسائل وفتاوى شيخ الاِسلام ابن تيميہ ،باب صلاۃ الجمعہ،
اللہ تبارک و تعالی ٰ ہم سب کو اور ہر ایک کلمہ گو ایک دُوسرے سے صرف اور صرف اللہ کے لیے مُحبت کی توفیق عطاء فرمائے اور ہمارے اختلافات کو ہماری مُحبت کے خاتمےکا سبب نہ بننے دے ، بلکہ اِسی مُحبت میں ایک دُوسرے کی اِصلاح کی نیک کوششوں کی ہمت دے ، والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت:26/05/1433ہجری، بمُطابق،18/04/2012،
تاریخ تجدید و تحدیث:24/07/1437ہجری،بمُطابق،01/05/2016۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔