Friday, December 6, 2013

::::::: زیادہ قمسیں اُٹھانے کا شرعی حکم ، اور قسموں کی اقسام :::::::


::::::: زیادہ قمسیں اُٹھانے کا شرعی حکم  ، اور قسموں کی اقسام  :::::::
بِسّمِ اللَّہِ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبیَّ بَعدہُ ، و أَشھَدُ أَن لا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ و أَشھَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبدُہّ وَ رَسُولُہُ
شروع اللہ کے نام سے اور اللہ کی رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی ہو اُس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اور اِس کے بعد یہ گذارشات پیش خدمت ہیں کہ :::
عموماًٍ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات بے بات قسم اٹھاتے ہیں ، اور اُنہیں اِس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ، جبکہ قسم اُٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ،  کوئی معمولی مسئلہ نہیں ،
قَسمیں اُٹھانے کے متعلق  یہ چند درج ذیل أہم مسائل مُسلمان کو اچھی طرح سمجھ کر ہمیشہ یاد رکھنے چاہِیں ،
::::::: پہلا مسئلہ :::::::کسی مُسلمان کو قَسم اُٹھانے کا عادی نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ صِرف بوقت ضرورت اور شرعی معاملات  اور احکام کے مطابق ہی قسم اٹھانا چاہیے ، کیونکہ قسم کوئی ایسی بے وقعت یا بے کار چیز نہیں جسے یُوں ہی بلا وجہ اِستعمال کیا جائے ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد ہے ﴿وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ:::اور اپنی قسموں کی حفاظت کروسُورت المائدہ(5)/آیت 89،
اللہ تبارک  و تعالیٰ کا یہ حُکم دو مفاہیم پر مُشتمل ہے ، پس اِس میں دو حُکم ملتے ہیں ،
::: (1) ::: کوئی مُسلمان جب ارادۃً  کوئی قَسم اُٹھا لے تو اُسے پورا کرنا اُس پر فرض ہوتا ہے ،
::: (2) ::: مُسلمان کو قسم اُٹھانے کی کثرت نہیں کرنا چاہیے ، خواہ وہ قسم اُٹھانے میں حق بجانب ہی کیوں نہ ہو ، پھر بھی قسم اُٹھانے سے پرہیز ہی کرے ، لہذا یہ طریقہ دُرست نہیں جو لوگوں نے اپنا رکھا ہے کہ بات بے بات، حق و ناحق قسمیں اٹھاتے رہتے ہیں ،اِس کے بعد یہ بات سمجھ لیجیے کہ قسم دو قِسم کی ہوتی ہے ،
::::::: (1) قَسم کی پہلی قِسم ::::::: """بے اِرادہ قسم """  یعنی ایسی قسم جو عادتاً بول چال میں شامل ہو ، اُٹھانے والے کی ز ُبان سے ادا تو ہوتی ہو لیکن اُس کے دِل میں وہ قسم اُٹھانے کا کو ئی اِرداہ نہ ہوتا ہو ، ایسے لوگوں کی پہچان اُن کے ساتھ رہنے والوں اور معاملات کرنے والوں کو اچھی طرح سے ہوجاتی ہے ، 
ایسی قسم کو """ یَمین اللَّغُو ::: بے اِرداہ قسم """کہا جاتا ہے ، جس کے بارے میں، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے سورت المائدہ کی مذکورہ بالا آیت مُبارکہ میں بھی  ذِکر فرمایا اور اس آیت شریفہ میں بھی اِرشاد فرمایا ہے ﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ:::اللہ تُم لوگوں پر تُمہاری عادتاً اُٹھائی ہوئی قسموں کے بارے میں گرفت نہیں کرے  گاسُورت البقرہ(2)/آیت 225،
اس قِسم کو ہم مزید دو اَقسام میں تقسیم پاتے ہیں :::
::: (1) ::: جیسا کہ اگر کسی کا حال دریافت کیا جائے تو وہ کہے """ اللہ کی قسم میں خیریت سے ہوں """،
 یا  کسی سوال کے جواب میں، یا کسی چیز کے بارے میں کوئی شخص ہاں ، یا نہیں کہتے ہوئے یُوں کہے  کہ""" اللہ کی قسم ہاں"""،
یا کہے کہ """ اللہ  کی قَسم نہیں """،یا اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ ، فُلاں کہاں ہے ؟ تو وہ جواب میں کہے """واللہ وہ تو جا چکا ہے """، وغیرہ ،  
یہ ایسی قسمیں ہیں جو انسان کی ز ُبان پر عادتاً وارد ہوتی ہیں اُس کے دِل میں اِن قسموں کو اٹھانے کا کوئی اِرداہ نہیں ہوتا ،
ایسی قسمیں خواہ جتنی بھی اُٹھائی جاتی رہیں اُن پر کوئی گرفت نہیں ہوتی ،لیکن اِس کے باوجودقسم اُٹھانے کی کثرت سے، عادت بنالینے سے باز رہنا ہی بہتر ہے جیساکہ پہلے بیان کیا گیا ہے ،
::: (2) ::: ایسی قسم جو کوئی شخص اپنے کسی قریبی رشتہ دار یا دوست پر اعتماد کرتے ہوئے اٹھائے کہ وہ رشتہ دار یا دوست اُس کی قسم ضرور پوری کرے گا اور اُس کو جھوٹا نہ ہونے دے گا ، ایسی قسم  در حقیقت اُس رشتہ دار یا دوست کی شخصیت یا اُس کے کسی  کام سے متعلق ہوتی ہے ،
مثلا ً کوئی اپنے بیٹے کے بارے میں کہے کہ """ اللہ کی قسم میرا بیٹا ضرور نماز کی پابندی کرے گا """،
 یا اپنی بیٹی کے بارے میں کہے کہ """اللہ کی قسم میری بیٹی بے پردگی نہیں کرے گی """،
 یا  اپنی بیوی کے بارے میں کہے کہ """ اللہ کی قسم میری بیوی ہر گِز وہاں نہیں جائے گی """،
 یا اپنے کسی دوست کے بارے میں کہے """اللہ کی قسم میرا دوست فُلاں کام کرے گا """ وغیرہ ،
ایسی قسمیں بھی """بے اِرادہ   قسم """ میں شامل ہوتی ہیں ، وہ اِس لحاظ سے کہ اِن کو پُورا کرنا قسم اُٹھانے والے کے اپنے اِرادے سے خارج ہوتا ہے ، اِن قسموں کے پورا نہ ہونے کی صورت میں بھی قسم اُٹھانے والے پر کوئی کفارہ نہیں ہوتا اور نہ  ہی اُس پر کوئی کفارہ ہوتا ہے جس کے بارے میں قسم اُٹھائی گئی ہو ،
اور اسی طرح وہ قسمیں  ہیں جو اِنسان اپنے ہی بارے میں کسی کام کرنے یا نہ کرنے کے لیے اُٹھائے لیکن دِلی اِرادے کے بغیر ہی ہو،
اس کی دلیل خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین  ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ  کا یہ واقعہ ہے کہ """ ایک دفعہ اُن کے گھر کچھ مہمان آئے ، رات کے کھانے کا وقت قریب تھا اور کھانا پیش کیے جانے والا تھا کہ ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ    کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے رات کے کھانے کے لیے بلاوا آ یا ،
خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کےحُکم کی تعمیل میں ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قُرب کی خوشی میں جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے بیٹے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ ُ سے اِرشاد فرمایا کہ"""مہمانوں کو کھانا کھلا دینا """،
جب ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ کھانا مہمانوں کے سامنے  رکھا ہے لیکن اُنہوں نے اُس میں سے کچھ کھایا ہی  نہیں ،
 ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ نے اپنے بیٹے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ ُ کو ڈانٹا کہ""" تُم نے مہمانوں کی ضیافت کیوں نہیں کی ؟"""
عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ ُ نے عرض کیا """ ابا جان ، اِس میں میرا کوئی قصور نہیں ، آپ اپنے مہمانوں سے ہی پوچھ لیجیے کہ میں نے تو انہیں کھانا پیش کیا ، اور کھا لینے کی درخواست کرتا رہا ،  لیکن اِنہوں نےآپ کے بغیر کھانے سے اِنکار کر دیا"""،
ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہ ُ نے مہمانوں سے پوچھا کہ """ آپ لوگوں نے ہمارا پیش کردہ کھانا کیوں نہیں قُبُول  کیا ؟ میں تو اللہ کی قسم آج رات میں اِسے نہیں کھاؤں گا """،
 مہمانوں نے بھی قسم اٹھاتے ہوئے کہا """اللہ کی قسم جب تک آپ نہ کھائیں گے ہم بھی نہیں کھائیں گے"""،
خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق  رضی اللہ عنہ ُ کہا """ میں نے آج رات کے شر سے زیادہ شر نہیں دیکھا ، آپ لوگوں نے ہمارا پیش کردہ کھانا قبول نہیں  کیا ، پس جو پہلی (قسم)ہے وہ شیطان کی طرف سے (بہکاوا)تھی ، آیے اپنے کھانےکی طرف تشریف لایے """،
پھر ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ نے اُس کھانے میں سے کھایا تو مہمانوں نے بھی کھایا،
جب صُبحُ ہوئی تو ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُرسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور(واقعہ بیان کر کے) عرض کی """ اے اللہ کے رسول ، اُن لوگوں نے اپنی قسم سچی کر لی اور میں نے اپنی قسم کے خِلاف کر دیا """،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿بَلْ أَنْتَ أَبَرُّهُمْ وَأَخْيَرُهُمْ:::بلکہ تُم اُن سب میں سے زیادہ (قسم )پوری کرنے والے اور خیر والے  ہو ،
خلیفہ أول بلا فصل أمیر المؤمنین ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ُ  و أرضاہ ُ  کا کہنا ہے کہ """اور مجھے کفارہ ادا کرنے کا حکم  نہیں فرمایا گیا """۔ صحیح مُسلم /حدیث5487/کتاب الأشربہ/باب32،
توجہ سے سمجھیے محترم قارئین ، کہ اگر اِس طرح کی قسم کو """با اِرداہ قسم """سمجھا جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اِس کا کفار ہ ادا کرنے کا حُکم فرماتے ،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے """با اِرادہ قسم """کے پورے نہ کرنے کی صورت میں اُس کا کفارہ ادا کرنے کے بارے میں ایک اصول مقرر فرما یا ﴿مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَلْيَأْتِ الَّذِى هُوَ خَيْرٌ وَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِينِهِ:::جِس نے نیت کے ساتھ قسم اُٹھائی پھر دیکھا کہ کسی اور کام(یا چیز ) میں  اُس قسم والے کام سے زیادہ خیر ہے تو وہ خیر والا کام کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرےصحیح مُسلم/حدیث4362/کتاب الاَیمان/باب3،سُنن ابن ماجہ/حدیث2186/کتاب الکفارات/باب7،سُنن الترمذی /حدیث1615/ کتاب النذور و الاَیمان/باب6،
اور خود اپنی ذات شریف کے بارے میں اِرشاد فرمایا ﴿لاَ أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتُ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا ، إِلاَّ أَتَيْتُ الَّذِى هُوَ خَيْرٌ ، وَكَفَّرْتُ عَنْ يَمِينِى:::میں اپنی اُٹھائی ہوئی کسی با ارداہ قسم سے زیادہ خیر  کسی دوسرے کام میں دیکھتا ہوں تو زیادہ خیر والا کام کرتا ہوں ، اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرتا ہوںصحیح البخاری /حدیث6621/کتاب  الاَیمان والنذور / پہلاباب،صحیح مُسلم /حدیث 4352/کتاب الاَیمان/باب3،
::::::: ایک اضافی فائدہ ::::::: اِن احادیث مُبارکہ میں یہ مسئلہ بھی ملا کہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے لیے جو قسم دِل کے اِرادے کے ساتھ اُٹھائی گئی ہو اور پھر اُس قسم کے خِلاف کسی دوسرے کام میں خیر نظر آئے تو اُس قسم کو چھوڑ کر وہ خیر والا کام کرنا ، اور اُس قسم کا کفارہ ادا کرنا واجب ہے ، اِس حُکم پر تعمیل کرنے کی مُشقت یعنی کُفارہ ادا کرنے کی مُشقت یہ سبق سکھاتی ہے کہ حتی الامکان قسم اُٹھانے سے باز ہی رہا جانا چاہیے  ، 
::::::: (2) قَسم کی دوسری قِسم::::::: """با اِرادہ قسم """:::::::
 یعنی ایسی قسم جو دِل کے اِرادے کے ساتھ  ز ُبان پر آتی ہو ، اُٹھانے والا اُس قسم کو پورا کرنے کا مکمل اِرادہ رکھتا ہو ، اور قسم اُٹھا کر جو کچھ کہہ رہا اُس کی حقیقت ، اور قسم اُٹھانے کی حقیقت جانتا ہو ،  یہ وہ قسم ہوتی ہے جِس کے پورے نہ کیےجانے پر قسم اُٹھانے والے کو کفارہ ادا کرنا ہوتا ہے  ، یا جس کے جھوٹے ہونے کی صورت میں قسم اُٹھانے والا گناہ گار ہوتا ہے ،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ  فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ  ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ::: اللہ تُم لوگوں کی بےاِرادہ قسموں کے سبب  تُم لوگوں پر پکڑ نہیں کرے گا ، لیکن جو قسمیں تُم لوگ جان بوجھ کر سوچ سمجھ کر اُٹھاتے ہو(اور اُن کے خلاف کرتے ہو)اُن قسموں کے سبب گرفت کرے گا ، (اور جو قسم تم لوگ پوری نہ کرو )اُس کا کُفارہ دس غریبوں کو درمیانے معیار کا ایسا  کھانا کِھلانا ہے جو تُم لوگ اپنے گھر والوں کو کِھلاتے ہو، یا اُن دس غریبوں کو لباس دیناہے ، یا ایک غُلام آزاد کرنا ہے ، اور جس کو (اِن میں سے کوئی بھی کام کرنا )مُیسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے ، یہ تُم لوگوں کی قسموں کا کُفارہ ہے (اُس صُورت میں )جب تُم لوگ قسم اُٹھا لو (اور اسے پورا نہ کرو)، اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ، اسی طرح اللہ تُم لوگوں کے لیے اُس کی آیات کوکھول کھول کر واضح  کرتا ہے تا کہ تُم لوگ شُکر ادا کرو سُورت المائدہ(5)/آیت 89،
پس یہ بات بالکل واضح ہے کہ قسم بلا اِرداہ ہو یا با اِرداہ ، اِس کی کثرت سے پرہیز کرنا چاہیے ، تا کہ قسموں کی حفاظت کرنے کے الہی حُکم پر عمل ہو ،
اگر مُسلمان کو کہیں کسی معاملے  میں قسم اٹھانا ہی پڑے تو اُسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھانا جائز نہیں ، لہذا صِرف اور صِرف اللہ کی قسم ہی اٹھائی جانی چاہیے ،
قُران کی قسم ، رسول کی قسم ، کعبہ کی قسم ، میرے بچوں کی قسم ، میرے ماں باپ کی قسم ، آپ کی قسم ، یہ سب قسمیں ، غرضیکہ اللہ کے علاوہ کسی کی بھی قسم باطل ہے ، ایسی قسم اُٹھانا شِرک ہے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حُکم ہے ﴿مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ ::: جِس نے اللہ کے عِلاوہ کسی بھی اور کی قسم اُٹھائی تو یقیناً اُس نے شِرک کیاصحیح ابن حبان/حدیث4358/کتاب الاَیمان کی حدیث رقم 30/باب ذِكرالزَجر عن أن يحلف المرء بشيء سِوى الله جل وعلا،سُنن ابو داود/حدیث3253/کتاب الاَیمان و النُذور/باب5،سُنن الترمذی/کتاب النذور و الاَیمان/باب ما جاء في كراهية الحلف بغير الله،، اِمام الالبانی رحمہ ُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
[[[الحمد للہ ،اس موضوع کی تفصیل میری زیر تیاری کتاب """وہ ہم میں سے نہیں """ کی ساتویں حدیث شریف  کے ضمن میں شامل ہے ]]]
قارئین کرام ، یاد رکھیے ، اور خُوب اچھی طرح سے یاد رکھیے ، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی بھی اور کی قسم اٹھانا تو جائز ہی نہیں ، اور  اللہ پاک کی قسم اُٹھانے میں بھی بہت ہی زیادہ احتیاط لازم ہے کہ وہ قسم ہر لحاظ سے سچی ہو ، بالکل نیک اِرادے پر مبنی ہو ،  اور نیکی کے کاموں اور باتوں کے بارے میں ہو،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ O لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ::: اللہ (کے نام کو) اپنی ایسی قسموں میں استعمال نہ کرو ، جِن قسموں کے ذریعے تُم لوگ ، دوسرے لوگوں میں نیکی ، تقوے اور خیر والے کاموں سے رُک جاؤ، اور(یاد رکھو کہ ) اللہ خُوب سُننے والا اور بہت عِلم رکھنے والا ہے O اللہ تُم لوگوں پر تُمہاری بے اِرادہ عادتاً اُٹھائی ہوئی قسموں کے بارے میں گرفت نہیں کرے  گا، اور(یاد رکھوکہ)اللہ بہت بخشش والا اور بُردبار ہے سُورت البقرہ(2)/آیات224،225،
::: حاصلء کلام :::بلا ضرورت قسم اٹھانے سے گریز کیا جانا چاہیے ، اللہ کے علاوہ کسی بھی اور کی قسم نہیں اٹھانی چاہیے ، اور اللہ کی قسم بھی صرف  سچی اورنیکی کے کاموں کے لیے اُٹھائی جانی چاہیے ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، ہر قاری اور سامع کو یہ سب باتیں سمجھنے ، ماننے ، اپنانے اور اِن پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ،
و السلا م ُعلیکم طلبگارء دُعاء ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت :4/06(Jamadi AlThani)/1433 ہجری ،،،بمطابق  24/04/2012 عیسوئی۔
تاریخ نظر ثانی :2/02(Safar)/1435 ہجری ،،،بمطابق  06/12/2013 عیسوئی۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔