Tuesday, April 2, 2013

::: پتھروں (ہیرے، موتی، عقیق ، زُمرد وغیرہ ) کے اثرات :::



:::پتھروں(ہیرے ، موتی ، عقیق ، ز ُمرد وغیرہ )کے اثرات:::

بسم اللہ ، و الحَمدُ للہ ، الذی أرسل رَسولہُ محمد بالھُدیٰ ، و أنطقہُ بالوحی یُوحیٰ ، و أشھد لَہُ أنّہ لا ینطِقُ عن الھویٰ ، و أخبرنا أنّہُ مَن کذّب و تولیٰ فلا یُطیع ُرسولہُ فسوف یُدخِلہُ النَّار التلظیٰ

تمام اور خالص تعریف اللہ ہی کا حق ہے ، جِس نے اپنے رسول  محمد کو ہدایت کے ساتھ بھیجا ،  اور اُنہیں اپنی وحی کے مُطابق کلام کروایا ، اور اُن  کے بارے میں گواہی دہی کہ وہ اپنی خواہش کے مُطابق بات نہیں کرتے ، اور ہمیں  یہ خبر دی کہ جو کوئی بھی اللہ کی بات کو جُھٹلائے گا اور اُس سے رُوگردانی کرے گا ،  اُس کے  رسول محمد کی اطاعت نہیں کرے گا اللہ ایسے ہر شخص کو  بڑھکتی ہوئی آگ میں داخل کرے گا ۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،

ہم مُسلمانوں میں پائے جانے والے بہت سےعقائد ایسے ہیں جِن کے ٹھیک ہونے کا اِسلامی تعلیمات میں کوئی صحیح ثابت شُدہ ثبوت نہیں ملتا ، یعنی نہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب میں اُن عقائد کی درستگی کی کوئی دلیل ملتی ہے اور نہ ہی اللہ کے  خلیل اور  اللہ کے آخری رسول اور نبی  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی یا تقریری سُنّت میں سے ، اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال میں ،

بس ، لوگوں کی خُود ساختہ مَن گھڑت روایات ہیں ، اور باتیں ہیں ، جِنہیں رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے منسُوب کیا گیا ، اور اِسی طرح کے  کچھ بے ثبوت قصے کہانیاں ، خواب ، اور تخیلات ہیں ، جِنہیں مُختلف بزرگوں سے منسُوب کیا گیا ،

ایسے ہی خُود ساختہ ، مَن گھڑت عقائد میں کچھ خاص پتھروں کے بارے میں اِس قسم کے عقیدے بھی پائے جاتے  ہیں کہ وہ پتھر اِنسان کے لیے رُوحانی یا مادی  فائدہ یا نقصان پہچانے کی قُدرت یا صلاحیت رکھتے ہیں ،  مُختلف پتھروں کے بارے میں اِس قسم کے عقائد بھی خُود ساختہ اور مَن گھڑت ہی ہیں کہ اگر اُنہیں پہنا جایا تو وہ پتھر اِنسان کو کوئی فائدہ پہنچاتے ہیں ، یا مُختلف قسم کی تکلیفوں ، بیماریوں اور پریشانیوں وغیرہ سے بچاتے ہیں ،

اِن خلافء اِسلام عقائد کو کچھ مضبوط بنانے کے لیے ، اور اِن کی گمراہی کو دُرُست دِکھانے کے لیے اِن پتھروں  کے اثرات کو ستاروں  سیاروں کے اثرات اور اُن کی چالوں سے بھی جوڑا جاتا ہے ، جو کہ گمراہی پر گمراہی کے مِصداق ہے ، ستاروں اور سیاروں کی چال اور اثرات کی حقیقت ایک الگ مضمون میں بیان کر چکا ہوں ، اِن شاء اللہ اُس کا مُطالعہ بھی مفید رہے گا ، اُس کا ربط درج ذیل ہے :

http://bit.ly/100fNM7

کچھ لوگ اِن پتھروں ، اور زیورات کے لیے اِستعمال ہونے والی مُختلف دھاتوں کے بارے میں کچھ ایسی غیر حقیقی باتیں بھی مانتے ہیں کہ یہ مُختلف دھاتیں اور پتھر  اِنسانی جِسم پر اچھے اثرات مُرتب کرتے ہیں  ، اور مُختلف قسم کی بیماریاں ختم کرتے ہیں ، اور اِنسانی جِسم میں فائدہ مند مواد بناتے اور بڑھاتے ہیں،

اگر ایسا ہی ہوتا ، تو ہمارے اِس موجودہ دور کی ترقی یافتہ میڈیکل ، اور میڈیسن سائنس کے ماہرین طرح طرح کی جڑی بوٹیوں اور جِسم کے اندر داخل کیے جانے والے مُختلف مواد کی دوائیاں بنانے میں جان کھپانے کی بجائے اِن پتھروں اور دھاتوں کے ذریعے علاج کرتے ہوئے نظر آتے ، کیونکہ جِسم کے اندر داخل کیے جانے والی ادویات کے جانبی نقصانات (Side effects)ایک ناقابل تردید حقیقت ہیں ، جو اکثر اوقات وقتی طور پر ملنے والے آرام کے بعد پہلی بیماری سے زیادہ اور بڑی بیماری کا سبب بنتے ہیں ، لہذا  اُن سب جانبی نقصانات سے بچے رہنے کے لیے یہ پتھر اور دھاتیں اچھی رہتیں کہ یہ نہ تو جِسم میں داخل ہوتیں اور نہ ہی جانبی نقصانات ہوتے ،

اگر یہ کہا جائے کہ یہ پتھر اور دھاتیں بہت قیمتی ہوتی ہیں ، صرف مالدار لوگ ہی اِستعمال کر سکتے ہیں ، تو بھی اِن کے ذریعے علاج کے عملی نمونے تو ملنے ہی چاہیے تھے ، اور مالدار لوگ سفید بستروں پر سسکتے  ہوئے ، دُوسروں  کے محتاج بنے ہوئے ، بہت زیادہ مال ہوتے ہوئے بھی اللہ کی کئی نعمتوں کو اِستعمال نہ کرنے کی حالت ، میں دکھائی نہیں دینا چاہیے تھے ،

اگر  کوئی اِن پتھروں یا دھاتوں کو کِسی طرح کھنچ تان کر سائنسی تحقیقات کی روشنی میں رکھ کر اپنی بد عقیدگی کی دُرُستگی کی کوئی دلیل بنا بھی لے تو بھی وہ کوئی یقینی محقق بات نہیں کیونکہ،

 پہلی بات تو یہ کہ سائنس کی تحقیقات کو قرار نہیں ، یہ بدلتی رہتی ہیں ،

 اور دُوسری بات یہ کہ سائنسی عُلوم، اور دُنیاوی عُلوم میں سے کوئی بھی  عِلم عقائد اپنانے کی دلیل نہیں،

اور تیسری بات یہ کہ ،  اگر سائنسی اور طبی عُلوم کی معلومات کے حد تک ہی اِن کے بارے میں معلوم کیا جائے ، عقائد میں شامل نہ کیا جائے تو بھی ، اِن پتھروں اور زیورات کے لیے اِستعمال ہونے والی دھاتوں کے بارے میں سائنسی طور پر بھی کوئی یقینی ثابت شُدہ بات ایسی نہیں ملتی جو اِن چیزوں کو اِنسانی جِسم پر کِسی قسم کے اچھے یا بُرے اثرات مُرتب کرنے والے ثابت کر سکے ، اور عملی طور پر بھی ،

اور بالفرض محال اگر مل بھی جائے تو بھی  مُسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اِس کی تصدیق اللہ تبارک وتعالیٰ  اور اُس کےآخری نبی و  رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عطاء کردہ خبروں اور تعلیمات کی کسوٹیوں پر کرنا لازم ہے ، کیونکہ معاملہ اُن پتھروں اور دھاتوں کی مادی تاثیر پر مشتمل باتوں تک ہی محدود نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ دیگر ادویات یا طاقت پہنچانے والی خوراک کی طرح یہ بھی اثر رکھتے ہیں ، بلکہ معاملہ رُوحانی  تاثیر کا ہے ، اور اللہ  تعالیٰ کی مُقرر کردہ تقدیروں پر اثر انداز ہونے کا ہے ،   

لہذا  ہم اِن شاء اللہ ، آج کی اِس مجلس میں ،  اللہ تعالیٰ  کی کتاب قران کریم اور اللہ کے رسول  کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کی کسوٹی پرپرکھ کر اُن عقائد اورخبروں کی حقیقت جانیں گے  ، 

میں اِس مضمون کو اِس کے موضوع"""پتھروں(ہیرے ، موتی ، عقیق ، ز ُمرد وغیرہ )کے اثرات""" سے ہی متعلق رکھتے ہوئے اِسے مختصر رکھنا چاہتا ہوں،اِن شاء اللہ ،  اس لیےصِرف بنیادی معلومات بیان کرنے پر ہی اکتفاء کروں گا ،

::::: سب سے پہلے ہم اللہ جلّ و عَلا کے کلام ، اُس کی کتاب کریم ، قران حکیم میں دیکھتے ہیں کہ کیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب شریف میں اِن پتھروں ، یا  کِسی قسم کے پتھر کے بارے میں ایسی کوئی خبر دی ہے کہ وہ اِنسان کی زندگی پر کِسی قسم کا کوئی اثر رکھتا ہے ؟؟؟

اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنی کتاب قران مجید میں صرف چار مقامات پر ایسے پتھروں میں سے کچھ کا ذِکر فرمایا ہے جِن پتھروں کو نفع یا نقصان دینے والے ، یا نقصان سے بچانے والے سمجھا جا تا ہے ،

اور وہ مقامات درج ذیل ہیں :::

(((((كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ ::: گویا کہ وہ (حوریں)یاقوت اور مونگے ہیں)))))سُورت الرحمٰن (55)/آیت 22،

(((((يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَالْمَرْجَانُ::: اُن دونوں(سُمندورں ) میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں )))))سُورت الرحمٰن (55)/آیت 58،

(((((كَأَمْثَالِ الْلُؤْلُؤِ الْمَكْنُونِ::: (وہ حوریں )چُھپے ہوئے موتی کی طرح(ہیں))))))سُورت الواقعہ(56)/آیت 23،

(((((وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤاً مَنْثُوراً::: اور ان (جِنتیوں)کے اِر گِرد ہمیشہ(ایک ہی عمر میں ) رہنے والے چھوٹی عمر کے لڑکے رہا کریں گے ، اگر آپ اُن(لڑکوں) کو دیکھیں تو بکھرے ہوئے موتی سمجھیں )))))سُورت الاِنسان(76)/آیت 19،

ان سب ہی آیات مُبارکہ میں جِن پتھروں کا ذِکر فرمایا گیا ہے اُن میں کِسی  کے بارے میں ایسی کوئی خبر نہیں بیان فرمائی گئی کہ یہ پتھر اِنسان کی دُنیاوی زندگی میں ، یا اُخروی زندگی میں اسے کوئی رُوحانی یا مادی فائدہ یا نقصان پہنچانے کی قدرت یا صلاحیت رکھتے ہیں ، بلکہ صِرف آخرت میں اہل جِنت کو دِی جانے والی نعمتوں کے بارے میں کچھ اندازہ کرنے کے لیے اُن پتھروں کو تشبیہ ، یعنی ، مثال کے طور پر ذِکر فرمایا گیا ہے ،

ان آیات شریفہ میں کہیں بھی ، اِشارۃً بھی ایسا کوئی ذِکر نہیں جِس کی بنا پر اِن پتھروں کو اِنسانی زندگی میں رُوحانی یا مادی طور پر کِسی بھی  قِسم کا اثر رکھنے والا سمجھا جائے ، اور نہ ہی اللہ  تعالیٰ کے مُقرر کردہ مُفسر اور شارح ءقران محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ، اور نہ ہی اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے شاگردوں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے ، اور نہ ہی اُمت کے أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے  اِن آیات شریفہ کی کوئی  ایسی تفسیر بیان ہوئی ہے جِس کی بنا  پر اِن آیات مُبارکہ میں مذکور پتھروں یا اِن جیسے دُوسرے پتھروں یا کِسی بھی اور پتھر کے بارے میں یہ سمجھا جا سکے کہ وہ اِنسانی زندگی میں کِسی تاثیر کے حامل ہوتے ہیں ،  لہذا اِس قِسم کے عقائد کی دُرُستگی کے لیے اللہ تعالیٰ  کی کتاب قران مجید میں سے بھی کوئی دلیل مُیسر نہیں ہو پاتی ،

::::: قران کریم کے بعد ، اللہ کے دِین کے احکام ، معاملات اور اللہ کی رضا کے مُطابق عقائد کا دُوسرا ذریعہ اور دُوسری کسوٹی اللہ سُبحانہ ُ وتعالٰی کے رسول کریم  محمد صلی اللہ  علیہ وعلی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی یا تقریری سُنّت مُبارکہ ہے ، جب ہم سُنّت شریفہ کا مُطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہاں بھی کوئی ایسی صحیح ثابت شُدہ خبر نہیں ملتی جو کچھ خاص پتھروں کو یا کِسی بھی پتھر کو اِنسان کی زندگی میں کِسی بھی قسم کے اثر والا بتاتی ہو ،

ایسی روایات جِن میں کِسی پتھر کے بارے میں کوئی ایسی خبر ہے کہ وہ پتھر اِنسان کو کِسی قسم کا فائدہ دیتا ہے ، یا کِسی قسم کے نقصان سے بچاتا ہے ، وہ ساری ہی روایات خُود ساختہ ، مَن گھڑت اور جھوٹی ہیں ، جِن کی حقیقت صدیوں پہلے حدیث شریف کی تحقیق کرنے والے اِماموں رحمہم اللہ جمعیاً نے واضح کر دی ہے ، مثال کے طور پر چند ایک روایات کا ذِکر کرتا ہوں ،

""""" تختموا بالعقيق فإنه مبارك :::عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کیونکہ وہ مُبارک ہے """""

إِمام العقیلی رحمہُ اللہ نے اِس روایت کو ذِکر کرنے کے بعد کہا"""اِس روایت کو ابن الجوزی نے "الموضوعات " میں ذِکر کیا ہے اور اِس موضوع کے بارے میں (ملنے والی ساری ہی روایات  میں سے)کچھ بھی ثابت نہیں ہوتا"""

::: (1) ::: """""تختموا بالعقيق فإنه ينفي الفقر :::عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق غربت دور کرتا ہے """""

::: (2) ::: """"" تختموا بالعقيق فإنه أنجح للأمر واليمنى أحق بالزينة::: عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق کاموں میں کامیابی والا ہوتا ہے اور دائیں ہاتھ سجاوٹ کا زیادہ حقدار ہے"""""

::: (3) ::: """"" من تختم بالعقيق ونقش عليه: وما توفيقي إلا بالله وفقه الله لكل خير وأحبه الملكان الموكلان به ::: جِس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اور اس پر یہ نقش کیا کہ :اور مجھے توفیق دینےو الا اللہ ہی ہے :تو اللہ اس کے لیے ہر خیر مہیا کر دیتا ہے اور دونوں مُقرر فرشتے اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں """""

::: (4) ::: """"" من تختم بالعقيق ، لم يقض له إلا بالتي هي أحسن:::جِس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کے لیے صِرف وہی  فیصلہ کیا جاتا ہے جو بہترین ہوتا ہے"""""

::: (5) ::: """""تختموا بالزمرد فإنه يسر لا عسر فيه ::: زمرد کی انگوٹھی پہنا کرو کہ زمرد آسانیوں والا ہے اور اس میں کوئی تنگی نہیں """""

::: (6) ::: """""تختموا بالزبرجد فإنه يسر لا عسر فيه ::: زبرجد کی انگوٹھی پہنا کرو کہ زبرجد آسانیوں والا ہے اور اس میں کوئی تنگی نہیں """""

::: (7) ::: """"" تختموا بالزمرد فإنه ينفي الفقر:::عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق غربت دور کرتا ہے"""""

اور اِسی قِسم کی دُوسری روایات جِن میں اِن پتھروں کے بارے میں نفع پہنچانے یا نُقصان دُور کرنے والے ہونے کی خبریں ہیں ، کوئی ایک روایت بھی سچی نہیں ، کوئی ایک روایت بھی حدیث کے طور پر تو کیا اُن بزرگوں سے بھی ثابت نہیں جِن سے یہ منسُوب کی جاتی ہیں،

جیسا کہ اہل تشیع اور صوفیاء حضرات اپنے اپنے اماموں ، اور سلسلوں کے بزرگوں سے اِس قِسم کی خبریں منسُوب کیے ہوئے ہیں ،

اور اگر کِسی طور یہ خبریں اُن اِماموں یا  بزرگوں (رحمہم اللہ )سے ثابت بھی ہو جائیں تو بھی یہ خبریں مَردُود ہیں کیونکہ اللہ  جلّ جلالہُ اور اُس کے آخری نبی  و  رسول پاک محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اِن خبروں کی کوئی تصدیق مُیسر نہیں ، بلکہ یہ خبریں اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین کے خِلاف ہیں ،

 کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ (((((مَا يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ::: اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے (اُس کی ) رحمت میں سے جو کچھ عطاء کرتا ہے ، تو اللہ کے بعد  اُس رحمت کو روکنے والا کوئی نہیں، اور جِس کو اللہ روک لے اُسے ( اللہ کے بعد ، مخلوق کی طرف)بھیجنے والا کوئی نہیں ، اور اللہ زبردست ہے حِکمت والا ہے)))))سُورت  الفاطر(35)/آیت2،

اور اِرشاد رفرمایا ہے (((((وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ:::اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو سختی میں ڈال دے تو اُس سختی کو دُور کرنے والا  سوائے اللہ کے کوئی بھی نہیں ،اور اگر اللہ آپ کو خیر دینا چاہے تو اللہ کے فضل کو دُور کرنے والا کوئی بھی نہیں ، اللہ اپنے بندوں میں سےجِسے چاہے  اپنا فضل عطاء فرماتا ہے  اور اللہ بخشنے والا ، رحم کرنے والا ہے)))))سُورت  یُونُس(10)/آیت107،

اللہ جلّ جلالہُ کے اِن فرامین کے بعد کِسی پتھر یا دھات یا کِسی بھی اور مخلوق کو کِسی دُوسری مخلوق کے لیے  کِسی مادی ذریعے یا سبب کے بغیر ہی کِسی طور کوئی نفع پہنچانے یا کِسی نُقصان سے بچانے والا سمجھنا سوائے گمراہی اور تباہی کے کچھ اور نہیں ،

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اور ہر ایک مُسلمان کو وہ عقائد اپنانے اور وہ عمل کرنے کی ہمت دے جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے آخری رسول و نبی محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی موافقت پاتے ہوں ، وہ عقائد و اعمال  جِن پر اللہ راضی ہوتا ہے ، اور اللہ پاک ہم سب کو اور ہمارے سب کو  ہر گمراہی اور شر سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔

طلب گارء دُعاء آپ کا بھائی ،

عادِل سُہیل ظفر۔

تاریخ کتابت : 04/02.1432 ہجری، بمُطابق، 08/01/2011عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتابی برقی نُسخہ (PDF) :    http://bit.ly/2iS36VG

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب :       https://youtu.be/n9j3Ixu9SrY

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔