Tuesday, July 21, 2015

:::قبروں پر مسح کرنے ، اور قبروں سے تبرک پانے کا عقیدہ رکھنے والوں کی ایک دلیل کا تحقیقی جائزہ ::::مروان بن الحکم ، اور ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُ کے مابین ہونے والے واقعے کی تحقیق و تخریج:::

:::::::قبروں پر مسح کرنے ، اور قبروں سے تبرک پانے کا عقیدہ رکھنے والوں کی ایک دلیل کا تحقیقی جائزہ  :::::::
:::::::مروان بن الحکم ، اور ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُ کے مابین ہونے والے واقعے کی تحقیق و تخریج:::::::
بِسّمِ اللَّہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ   و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمد ا ً  صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و مَن  أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ  عَلیٰ     مَسلکہِ  ، و قد خِسَرَ مَن أَبتداعَ و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ::: اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ  اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ہمارے کچھ کلمہ گو بھائی اور بہنیں اولیاء اور صالحین کی قبروں کا مسح کر کے ، یعنی اُن قبروں کو چُھو کر ، اُن پر ہاتھ یا جِسم کے کچھ حصے مس کر کے اُن قبروں والوں سے برکت پانےکا بے بنیاد عقیدہ رکھتے ہیں،جبکہ یہ عقیدہ بھی اُن کے ہاں پائےجانے والے بہت سے عقائد کی طرح اللہ کی کتاب قران  کریم  اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شُدہ سُنّت شریفہ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا،
 وہ صاحبان اِس کام اور عقیدے کو دُرست ثابت کرنے کے لیے غیر ثابت شُدہ دلائل پیش کرتے ہیں، اور غلط انداز میں اُن کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ عام قاری حوالہ جات کی کثرت دیکھ کر اُس واقعے کو صحیح سمجھنے لگے ،   
اِنہی دلائل میں سے ایک وہ واقعہ ہے جو مروان بن الحکم اور صحابی رسول ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُ کے مابین ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت اور قبر پر چہرہ رکھنے کے بارے میں ہونے والی ایک  گفتگو  پر مُشتمل ہے ،
یہاں اُس واقعے کی صحت اور دُرستگی کا بیان پیش کر  رہا ہوں ، اللہ تبارک وتعالیٰ ہر قاری کو یہ توفیق عطاء فرمائے کہ وہ اپنے مذھبی ، مسلکی اور شخصیاتی تعصب اور ضِد سے آزاد ہو کر اِس کو مطالعہ کرے اور حقیقت کو سمجھے ، مانے اور اپنائے ، گو کہ اپنے اختیار کردہ عقائد ، مذھب ومسلک اور شخصیات کی غلطی تسلیم کرنا اور اُس غلطی کو چھوڑ دینا بہت ہی عزم اور جرأت والا کام ہے ،  لیکن نا ممکن نہیں ، اللہ جسے چاہے اِس کی توفیق عطاء فرما سکتا ہے ، اللہ ہمیں اُن میں سے بنائے جنہیں یہ توفیق عطاء ہوتی ہے ،
یہ واقعہ حدیث شریف کی پانچ کتابوں میں منقول ہے ، اُن کے مکمل حوالہ جات بھی اِن شاء اللہ میں ذِکر کروں گا ،
پہلے ہم وہ روایت پڑھتے ہیں :::
(((أَقْبَلَ مَرْوَانُ يَوْماً فَوَجَدَ رَجُلاً وَاضِعاً وَجْهَهُ عَلَى الْقَبْرِ فَقَالَ أَتَدْرِى مَا تَصْنَعُ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ فَإِذَا هُوَ أَبُو أَيُّوبَ فَقَالَ نَعَمْ جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- وَلَمْ آتِ الْحَجَرَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- يَقُولُ ﴿  لاَ تَبْكُوا عَلَى الدِّينِ إِذَا وَلِيَهُ أَهْلُهُ وَلَكِنِ ابْكُوا عَلَيْهِ إِذَا وَلِيَهُ غَيْرُ أَهْلِهِ ::: ایک دِن مروان (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر کی طرف) آیا تو اُس نے ایک آدمی کو قبر پر اپنا چہرہ رکھے ہوئے دیکھا ،
تو مروان نے کہا ، کیا تُم جانتے ہو کہ تُم کیا کر رہے ہو؟
تو اُس آدمی نے مروان کی طرف توجہ کی، تو وہ (صحابی رسول)ابو ایوب (الانصاری)تھے ،
تو ابو ایوب الانصاری نے کہا ، ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)میں رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وعلی آلہ)کے پاس آیا ہوں ، کسی پتھر کے پاس نہیں ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ ﴿اگر دِین کے معاملات ایسے لوگوں کے سُپرد کر دیے جائیں جو (اِن معاملات کودُرُست طور پر  نمٹانےکی)قابلیت رکھتے ہوں تو دِین(کے نقصان )پر رؤ مت ، لیکن اگر دِین کے معاملات ایسے لوگوں کے سُپرد کر دیے جائیں جو (اُن معاملات کو دُرُست طور پر نمٹانے کی ) قابلیت نہیں رکھتے تو پھر دِین (کے نقصان) پر رؤ)))
یہ مذکور بالا الفاظ ، مُسند احمد  کی روایت کے ہیں ،
مکمل حوالہ جات: مُسند احمد /حدیث رقم /24302مُسند ابی ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث رقم 89،
:::::: اِس کے علاوہ یہ واقعہ الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ مستدرک الحاکم میں بھی ہے  ،
::::::المستدرک علی الصحیحن للحاکم /حدیث /8571کتاب الفتن والملاحم/باب9اما حدیث ابی عوانہ میں سے حدیث رقم 114،
::::::اورإِمام الطبرانی، سلیمان بن أحمد  رحمہُ اللہ(متوفی 360ہجری) کی معجم الکبیر ، اور معجم الاوسط میں اِس روایت کا صرف وہ حصہ بیان ہوا ہے جو حدیث کے طور پر منقول ہے ، اور اِن تینوں روایات میں """ وَلِيَهُ """کی جگہ """ وَلَّيْتُمُوهُ """منقول ہے ،
معجم الطبرانی کی روایات کے حوالہ جات درج ذیل ہیں :::
:::::: المعجم الکبیر /حدیث /3999باب الخاء/ الْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ میں سے پہلی روایت ،
:::::: المعجم الاوسط /حدیث /284باب الالِف/من اِسمہُ أحمد میں سے روایت رقم 284،اور ،
:::::: المعجم الاوسط /حدیث /9366باب الھاء/من اِسمہُ ھارون میں سے روایت رقم 37،
اب ہم اِن روایات کی اسناد کا جائزہ لیتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
مُسند أحمد کی روایت کی سند درج ذیل ہے :::
""" حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنِى أَبِى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِى صَالِحٍ قَالَ ،،،،،"""،
اور مُستدرک الحاکم کی سند درج ذیل ہے:::
"""حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ الدُّورِيُّ، ثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَرَ الْعَقَدِيُّ، ثَنَا كَثِيرُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، قَالَ،،،،،"""،
مُسند أحمداور مستدرک الحاکم کی اسناد میں دو راوی مشترک ہیں ، کثیر بن زید ، اور داؤد بن ابی صالح ، اور یہ دونوں ہی اِن اسناد کی آفت ہیں ،
کثیر بن زید ، کا پورا نام کثیر بن زید الاسلمی ، المدنی ، ابو محمد ، لکھا جاتا ہے ،
اِن کے بارے میں إِمام  شمس الدین محمد بن احمد الذھبی رحمہُ اللہ (متوفی 748ہجری)نے کہا :
""" قَالَ أحمد: مَا أرى بِهِ بأسا، وقال أَبُو زرعة: ليس بالقويّ،وقال النسائي: ضعيف::: (إِمام) احمد( ابن حنبل رحمہُ اللہ متوفی 241ہجری ، نے اِس راوی کے بارے میں )کہا کہ میں اِس میں کوئی حرج نہیں دیکھتا، اور (إِمام  عبید اللہ بن عبدالکریم )ابو ز ُرعہ(الرازی رحمہ ُ اللہ، متوفی264ہجری) نے کہا ، یہ (روایات بیان کرنے میں)مضبوط نہیں ،اور (إِمام أحمد بن شعیب)النِسائی( رحمہُ اللہ، متوفی 303ہجری)نے کہا ، (روایات بیان کرنے کے بارے میں )کمزور ہے """بحوالہ ، تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام/ترجمہ رقم /309حرف الکاف میں دُوسرا ترجمہ ،
یعنی دو إِماموں نے اِن کثیر بن زید کی روایات کو  ضعیف ، یعنی کمزور ، ناقابل اعتماد اور ناقابل حُجت قرار دِیا ،
اِسکے عِلاوہ إِمام المزی ، یوسف بن عبدالرحمن المزی رحمہُ اللہ (متوفی 742ہجری)نے اِس راوی کثیر بن زید کے بارے میں بتایا :
""" إِمام ابن معین کی طرف سے اس کے بارے میں مختلف آراء منقول ہیں کہ ، لیس بذاک ، لیس بالشیء ، صالح ، لیس بہ بأس ، ثقہ ، اِن بظاہر مختلف آراء کا مفہوم، دُوسرے إِماموں کی جرح و تعدیل کی روشنی میں یہ بنتا ہے کہ ، یہ کثیر بن زید ذاتی طور پر تو نیک، سچا اور با اعتماد ہے ، لیکن اس قدر مضبوط نہیں کہ اِس کی روایات کو(اکیلے کسی دوسری گواہ روایت کے بغیر ) قبول کیا جائے ،
اور (إِمام  عبید اللہ بن عبدالکریم )ابو ز ُرعہ(الرازی، رحمہ ُ اللہ ،متوفی264ہجری)نے کہا صدوق، فيه لين:::سچا تو ہے ، لیکن کمزور ہے ،
اور (إِمام)ابو حاتم (محمد بن إِدریس رحمہُ اللہ متوفی 277ہجری) نے کہا، صالح، ليس بالقوي، يكتب حديثه::: نیک (سچا)  تو ہے ، لیکن (اس قدر)مضبوط نہیں(کہ)اُس کی روایات لکھی جا سکیں"""بحوالہ تهذيب الكمال في أسماء الرجال /ترجمہ/4941باب الکاف/مَن اِسمہ کثیر میں سے ترجمہ رقم 8،
اِس طرح یہ بھی واضح ہو گیا کہ إِمام ابو زُرعہ  رحمہُ اللہ کی طرف سے جو تعدیل کے الفاظ منقول ہیں وہ درحقیقت جرح ہی ہیں ، اور اِس طرح یہ کثیر بن زید چار أئمہ رحمہم اللہ کی طرف سے ضعیف قرار دیا گیا راوی ہے ، لہذا اِس کی کوئی روایت قابل حُجت نہیں، سوائے اِس کے کسی صحیح روایت کے ذریعے اِس کو گواہی مسیر ہو ، اور ہمارے زیر مطالعہ روایت کے لیے ایسا کچھ مُیسر نہیں ،  جی اگر کوئی صحیح گواہ روایت ملتی ہو تو پھر اِن کثیر بن زید کی روایت کو حَسن کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے ۔
اِس کے بعد آتے ہیں ، داؤد بن ابی صالح  کی طرف ،
 اِس کے بارے میں إِمام  شمس الدین محمد بن احمد الذھبی رحمہُ اللہ (متوفی 748ہجری)نے کہا :
"""داود بن أبى صالح، حجازى.لا يعرف.له عن أبى أيوب الانصاري.روى عنه الوليد بن كثير فقط::: داود بن ابی صالح ، حجازی ہےمعروف نہیں ہے(یعنی اِس کے بارے میں کوئی اور معلومات میسر نہیں ہیں) اس کی ابو ایوب الانصاری (رضی اللہ عنہ ُ)سے روایت ہے ، اِس داؤد سے صِرف  الولید بن کثیر نے  ہی روایت کیا ہے"""بحوالہ میزان الاعتدال فی نقد الرجال /ترجمہ رقم 2617،2620،مَن اسمہ داؤد ،
پس یہاں تک یہ بالکل واضح ہو گیا کہ مُسند احمد  اور مُستدرک حاکم کی  یہ روایت ناقابل قبول ، اور ناقابل حُجت ہے ، کیونکہ اِس میں دو عیب پائے جاتے ہیں ، ایک تو ایک غیر معروف راوی اور دُوسرا ایک ضعیف ، کمزور راوی ۔
اس کے بعد ہم  إِمام الطبرانی رحمہُ اللہ کی معجم الکبیر ، اور معجم الاوسط کی روایات کی اسناد کی طرف چلتے ہیں :::
""" أَحْمَدُ بْنُ رِشْدِينَ الْمِصْرِيُّ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ بِشْرٍ، ثنا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ،،،،،"""المعجم الکبیر /حدیث /3999باب الخاء/ الْمُطَّلِبُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ حَنْطَبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ میں سے پہلی روایت ،
""" حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ رِشْدِينَ قَالَ: نا سُفْيَانُ بْنُ بَشِيرٍ الْكُوفِيُّ قَالَ: نا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،،،،،"""المعجم الاوسط /حدیث /284باب الالِف/من اِسمہُ أحمد میں سے روایت رقم 284،
""" حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سُلَيْمَانَ أَبُو ذَرٍّ، ثَنَا سُفْيَانُ بْنُ بِشْرٍ الْكُوفِيُّ، نَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبَ، قَالَ: قَالَ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ لِمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"""حدیث /9366باب الھاء/من اِسمہُ ھارون میں سے روایت رقم 37،
قارئین کرام ، آپ ملاحظہ فرما چکے ہوں کہ إِمام الطبرانی کی تینوں اسناد میں  وہی کثیر بن زیدہیں ، جن  کی روایات کی قبولیت کی تفصیل ابھی بیان کی گئ ہے ،
اِس کے علاوہ سب سے پہلی سند ، جو کہ معجم الکبیر کی روایت ہی ہے ، اور پھر دُوسری سند جو کہ معجم الاوسط کی دو میں سے ایک روایت کی ہے اُس میں احمد بن رشیدین  نامی راوی ہے ،
اِس کا حال بھی محدثین کرام رحمہم اللہ کی خبروں کے مطابق جان لیجیے :::
احمد بن رشیدین کے بارے میں إِمام أحمد  ابن عدی (متوفی 365ہجری )نے ، ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ اِسے إِما م النِسائی کی مجلس میں اِس کے جاننے والوں نے  اِس کے اپنے ہی اُستاد کے کہنے کے مطابق جھوٹا قرار دِیا( اور وہ اپنی سچائی ثابت نہیں کر سکا )، بحوالہ،الكامل في ضعفاء الرجال /ترجمہ رقم 42،
اور إِمام احمد بن علی ابن حجر العسقلانی (متوفی 852ہجری) رحمہُ اللہ نے کہا کہ """ابن عدی (رحمہُ اللہ)نے کہا کہ اِسے لوگوں نے جھوٹا قرار دِیا ہے ، اورمیں نے بھی  اِس کی روایات میں سے کئی ایک پر اِنکار کیا ہے (یعنی اُن کو مُنکر پایا ہے)""" بحوالہ ، لسان المیزان/ترجمہ/740مَن اسمہُ أحمد میں سے ترجمہ رقم 373، یہاں پر بھی اِس احمد بن رشیدین کو جھوٹے قرار دیےجانے کا واقعہ مذکور ہے ،
اِس طرح  یہ دونوں روایات ، یعنی معجم الکبیر کی روایت  ، اور معجم الاوسط کی دو میں پہلے ذِکر کردہ روایت اسناد میں دو دو عیب ، اور نقص ہونے کی وجہ سے ضعیف ، یعنی کمزور ، نا قابل حُجت ، اور ناقابل اعتماد قرار پاتی ہیں ،
اِس کے بعد رہ جاتی ہے معجم الاوسط کی دوسری روایت ،
اِس کی سند میں بھی دو  عیب ہیں ، ایک تو وہی کثیر بن زید ، اور دوسرا حاتم بن إِسماعیلرحمہُ اللہ کی طرف وھم کا امکان ،  
اِن حاتم بن إِسماعیل  رحمہ ُ اللہ کے بارے میں إِمام أحمد بن علی ابن حجر العسقلانی رحمہُ اللہ نے کہا کہ :::
""" صحيح ُالكتاب صدوقٌ يهم:::اِن کا لکھا ہو ا صحیح ہوتا تھا (لیکن ز ُبانی بتایا ہوا قابل اعتماد نہیں کیونکہ یہ )سچے تو تھے مگر اِنہیں(حافظے کی کمزوری کی وجہ سے  روایات یا اسناد بیان کرنے میں)وھم ہوتے تھے """بحوالہ لسان المیزان /ترجمہ رقم /994حرف الحاء المھملۃ  میں ترجمہ رقم 3،
اِسی وجہ سے إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے لکھا کہ :::
""" وحاتم بن إسماعيل من رجال الشيخين، لكن قال الحافظ:صحيح الكتاب، صدوق يهم.
قلت: فمن المحتمل أن يكون وهم في ذكره المطلب بن عبد الله مكان داود بن أبي صالح، ولكن السند إليه غير صحيح، فيمكن أن يكون الوهم من غيره، لأن سفيان بن بشير أو بشر، لم أعرفه، وليس هو الأنصاري المترجم في " ثقات ابن حبان " (6 / 403) وغيره، فإنه تابع تابعي، فهو متقدم على هذا، من طبقة شيخ شيخه (كثير بن زيد) ::: اور حاتم بن إِسماعیل (رحمہُ اللہ)شیخین (بخاری ومسلم رحمہما اللہ)کے راویوں میں سے ہیں ، لیکن حافظ(ابن حجر العقسلانی رحمہ ُ اللہ )نے کہا ہے کہ :
اِن کا لکھا ہو ا صحیح ہوتا تھا ،سچے تو تھے مگر اِنہیں وھم ہوتے تھے،
میں( الالبانی ) کہتا ہوں کہ اِس بات کا (قوی )امکان ہے کہ (معجم الطبرانی کی اسناد میں، اِن حاتم بن إِسماعیل رحمہُ اللہ کو )وھم ہوا ہو ، اور (کثیر بن زید سے اوپر) داؤد بن ابی صالح کی بجائے المُطلب بن عبداللہ کا ذِکر کر دیا گیا ہو،
لیکن یہ سند تو (إِمام الطبرانی سے لے کر اِن )حاتم بن اِسماعیل تک بھی صحیح نہیں ہے ،لہذا عین ممکن ہے کہ یہ وھم کسی اور رزوی کی طرف سے وارد ہوا ہو ، (اور میں ایسا اِس لیے کہہ رہا ہوں کہ ، اِس روایت کی دُوسری دو اسناد جو کہ مُسند أحمد اور مُستدرک حاکم میں ہیں ، اُن میں کثیر بن زید نے داؤد بن ابی صالح سے ہی روایت کیا ہے ، اور اِس لیے بھی) کوینکہ(اِن دونوں، یعنی إِمام الطبرانی اورحاتم بن  إِسماعیل رحمہما اللہ کے درمیان جِس سُفیان بن بشیر یا سُفیان بن بِشر  کا ذِکر ہے اُسے میں نہیں جانتا (اور نہ ہی تراجم الرجال میں اِس کا کوئی ذِکر ملتا ہے، خیال رہے کہ(معجم کی اِن اسناد میں مذکور)یہ ( سفیان بن بِشر )وہ انصاری نہیں ہیں ، جن کا ذِکر (تراجم کی کتابوں میں سے )"ثقات ابن حبان"اور دوسری کتابوں میں ملتا ہے ، کیونکہ وہ سُفیان بن بِشر الانصاری تو تبع تابعین میں سے ہیں ، لہذا یہ (سُفیان بن بِشر الانصاری، ، سُفیان بن بِشر الکوفی) کے اُستاد کے اُستاد (کثیر بن زید)سے پہلے والے طبقے میں ہیں ، (پس لازم ہے کہ اُن تک سند پہنچنے کے لیے ایک اور راوی بھی ہو ، جو کہ نہیں ہے ، اس طرح اِس سند میں انقطاع بھی محسوس ہوتا ہے ، اور یہ بھی معجم کی اسناد میں  بڑی صراحت سے سفیان بن بشیر ، یا بِشر کو کوفی ہی لکھا گیا ہے ، انصاری نہیں)"""بحوالہ ، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ /حدیث 373،
( جو کچھ قوسین میں لکھا گیا ہے وہ میری طرف سے تشریح ہے ، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ کے الفاظ نہیں  ہیں ، لہذا کوئی قاری اُنہیں إِمام صاحب رحمہُ اللہ سے منسوب نہ سمجھے )،
اور ، دونوں معجم کی تینوں روایات کی اسناد میں درج ذیل راوی مشترک ہیں ،
سُفیان بن بشیر ، یا بِشر الکوفی ، حاتم بن إِسماعیل ،اور کثیر بن زید،
اِن کی روایات کو قبول کرنے کے بارے میں أئمہ رحمہُ اللہ کے فیصلے ذِکر کر دیے گئے ،  
::::: حاصل مطالعہ ::::: یہ ہوا کہ  اِس ساری تحقیق کے بعد یہ نتیجہ بالکل واضح طور پر سامنے آیا کہ ،
یہ، ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُ کا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قبر شریف پر چہرہ رکھنے والا قصہ ثابت نہیں ہوتا ، اور نہ ہی اِس موضوع سے متعلق اُن کےا ور اور مروان بن الحکم کے درمیان کوئی  بات چیت پایہ ثبوت تک پہنچتی ہے ،
اور نہ ہی وہ بات جو کہ حدیث کے طور پر ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ُ سے مروی ہے ، حدیث ثابت ہو تی ہے ،
لہذا جو لوگ اِس کو دلیل بنا کر قبروں کا مسح کرنے کو جائز قرار  دیتے ہیں، اور قبروں سے تبرک پانے کا عقیدہ رکھتے ہیں  وہ بہت بڑی اور بُری غلط فہمی کا شِکار ہیں ،
اِس کام ، اور ایسے کسی عقیدے کے بارے میں اللہ پاک کی کتاب قران حکیم ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ سے ، اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے صحیح ثابت شُدہ اقوال و افعال میں سے کوئی دلیل میسر نہیں ، لہذا کسی شک اور شبہے کے بغیر یہ کام، اور ایسا عقیدہ دِین میں خود ساختہ ہیں ، اور اللہ کے ہاں مردُود ہیں ،
اگر میری یہ باتیں پڑھنے والوں میں سے میرے کسی بھائی یا بہن کے پاس شرعی طور پر مقبول کو ئی دلیل ہو ، تو مجھے ضرور آگاہ فرمائے ، اور اگر کوئی بھی سوال یا اشکال ہو تو ضرور سامنے لائے ،
لیکن اپنی کوئی بات یا دلیل پیش کرنے سے پہلے اُس کے بارے میں یہ ضرور سوچ لیا جائے کہ کیا یہ شرعی طور پر مقبول ہے یا نہیں ،لہذا ﴿ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ:::اگر تُم سچے ہو تواپنی واضح دلیل پیش کرو پر عمل فرماتے ہوئے برھان سامنے لایے تا کہ آپ کا اور ہمارا وقت ضائع نہ ہو، پیشگی شکریہ ، اور دُعا کہ جزاکم اللہ خیراً ،  
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،تاریخ کتابت :05/10/1436ہجری، بمُطابق،21/07/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے ساتھ درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی ضرور فرمایے، اِن شاء اللہ مزید فائدہ ہو گا :
::: برکت اور تبرک :::
http://bit.ly/1s4f9PB 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔