Saturday, August 17, 2013

::: امام کے پیچھے سورت فاتحہ یا دیگر قرات (تلاوت) کا حکم::: Reciting Quran Behind Imam In Prayer


:::::::اِمام کے پیچھے قرأت کا حکم :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم ، والصَّلاۃُ و السَّلامُ علیٰ رسولہِ الکریم ، أما بعد :::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ، ایک بھائی کی طرف سے نماز کے متعلق چند سوالات بذریعہ ای میل موصول ہوئے جن کے جواب میں اللہ کی عطاء کردہ توفیق سے کچھ معلومات مہیا کر کے انہیں ارسال کی تھیں ، ان سوالات  اور جوابات کو الگ الگ مضمون  کی صُورت میں دوسرے بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں بھی پیش کر رہا ہوں ، اللہ تعالیٰ انہیں میرے ، اور پڑھنے والے میرے سب ہی مسلمان بھائیوں  اور بہنوں کے دِین دُنیا اور آخرت کی خیر اور آسانی والا بنائے ،
::::: سوال  :::::  امام کے پیچھے تلاوت(خاص طور پر سُورت فاتحہ تلاوت) کرنے یا نہ کرنے کی وضاحت مطلوب ہے۔ نیز سری و جہری نماز میں فرق پر بھی روشنی ڈالیے۔
::::: جواب ::::: آپ کے اِس سوال میں دو سوال ہیں ، جن میں دوسرے کے جواب میں گذارش ہے کہ :
پہلے یہ سمجھیے کہ سری نماز اُس نماز کو کہا جاتاہے جس میں امام بہت ہی ہلکی آواز میں قرأت کرتا ہے جو قرأت عموما مقتدی سن نہیں پاتے ، جیسا کہ ظہر ، اور عصر کی نماز ،
اور جہری نماز اُس نماز کو کہا جاتاہے جس میں امام صاحب بلند آواز میں قرأت کرتے ہیں جو تقریباً سب مقتدی سنتے ہیں،اور اگر کوئی برقیاتی صوتی نظام کام کر رہا ہو تو یقیناً سب ہی سنتے ہیں ،
رہا اِمام کے پیچھے تلاوت کرنے کا مسئلہ  تو اس میں بہت واضح حُکم ہے  کہ """ جب امام جہری قرأت کر رہا ہو تو مقتدی کوئی قرأت (تلاوت)نہیں کریں گے، یعنی نہ ہی سُورت فاتحہ اور نہ ہی قران کریم کی کوئی اور آیت مبارکہ کی تلاوت"""۔
یہ مذکورہ بالا حکم دو تین مختلف اوقات میں  فرمائے جانے والے مختلف احکام کی آخری اور حتمی صُورت ہے،
اِس کے دلائل درج ذیل ہیں :
:::::::  جابر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ ::: جِس کے لیے اِمام موجود ہو تو اُس اِمام کی قرأت ہی اُس کے لیے  قرأت ہوتی ہے)))))سُنن ابن ماجہ/حدیث/899کتاب الصلاۃ و السنۃ /باب13 إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا،مُسند احمد /حدیث/15019مُسند جابر بن عبداللہ میں سے حدیث رقم 44، حدیث کی صحت اور مکمل تخریج کے لیے امام الالبانی رحمہُ اللہ کی """ إِرواء الغلیل /حدیث 500 """ دیکھی جائے،
اس حدیث شریف میں بڑی وضاحت سے یہ سمجھا دِیا گیا ہے کہ جب اِمام قرأت کر رہا ہے تو اُس کی قرأت مقتدیوں کے لیے کافی ہے ، مقتدیوں کو قرأت کرنے کی کوئی حاجت نہیں ،
::::: ایک عجیب تاویل ::::: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ (((((قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ ::: اِمام کی قرأت ہی اُس کے لیے  قرأت ہوتی ہے))))) میں سے """ لَهُ """ کی ضمیر امام کی طرف ہی راجع ہے ، یعنی معنی یہ ہوا کہ """ امام کی قرأت امام کے لیے ہی قرأت ہے """
حیر ت کی بات ہے کہ ایسی بات کس طرح کہی جاتی ہے ، اگر اس حدیث کا یہی معنی ہو تو پھر یہ فرمانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟؟؟
 اِسی مفہوم کی نفی کرنے کے لیے تو یہ فرمایا گیا کہ(((((مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ ::: جِس کے لیے اِمام موجود ہو تو اُس اِمام کی قرأت ہی اُس کے لیے  قرأت ہوتی ہے))))) تا کہ مقتدی یہ جان لیں کہ امام کی قرأت صِرف امام کے لیے ہی نہیں ہوتی بلکہ مقتدیوں کے لیے بھی ہوتی ہے ، لہذا اِمام کی قرأت سننے کی صُورت میں مقتدیوں کو قرأت نہیں کرنا ،
اِس معنی اور مفہوم کی وضاحت ہمیں دیگر حدیث شریف میں  بھی ملتی ہے ، جِس کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے کروں گا ،    
::::::: وضاحت ::::::: یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکم تو سِری اور جہری دونوں ہی نمازوں(رکعتوں) کے لیے سمجھا جا سکتا ہے تو ، اِس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ دیگر احادیث شریفہ میں سے ہمیں یہ تخصیص ملتی ہے کہ یہ حکم جہری نمازوں(رکعتوں) کے لیے ہے ،
آیے اُن دیگر احادیث شریفہ کا مطالعہ کرتے ہیں :
::::::: عُبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ سے روایت ہے کہ """"" صَلَى بِنا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاةِ الصُّبحِ فثَقُلَت عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ فَلَمَّا اَنصرَفَ قال (((((إني لأراكُم تَقْرَءُونَ وَراءَ إِمَامِكُمْ ؟)))))،
قلنا""" أجل يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذًّا"""،
 قال(((((فَلَا  تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا)))))،
ترجمہ ::: """"" (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی ، تو (نماز کے دروان) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے قرأت فرمانا بوجھل ہوا، پس جب وہ (نماز  سے) فارغ ہوئے تو اِرشاد فرمایا (((((میں دیکھتا ہوں کہ  تُم لوگ اپنے اِمام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟)))))،
ہم سب نے جواباً عرض کیا""" یقیناً اے اللہ کے رسول ، (ہم لوگ) جلدی جلدی (اور دھیمی آواز میں) قرأت پوری  کرتے ہیں"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( ایسا مت کرو ، سوائے فاتحہ الکتاب کے ، (یعنی سُورت فاتحہ کے عِلاوہ کوئی قرأت نہیں کرو)کیونکہ جو کوئی فاتحہ نہیں پڑھے گا اس کی نماز نہیں)))))۔
الجزء قرأۃ خلف الاِمام للاِمام البخاری رحمہُ اللہ /حدیث 158،صحیح ابن حبان/حدیث1785،سُنن الترمذی /حدیث286 /کتاب الصلاۃ/باب 120مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ،سُنن ابو داؤد /حدیث 823،سُنن البیھقی الکبریٰ/حدیث 3032،/3033 کتاب الصلاۃ/باب268 باب مَنْ قَالَ يَقْرَأُ خَلْفَ الإِمَامِ فِيمَا يُجْهَرُ فِيهِ بِالْقِرَاءَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَفِيمَا يُسِرُّ فِيهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا،مُسند أحمد/حدیث21636، مُسند عبادہ ابن صامت میں  سے حدیث رقم22،،(امام الالبانی رحمہُ اللہ نے  اس روایت کے مختلف مصادر میں اس کے ضعیف ہونے کا حکم دِیا ہے ، اور صفۃ الصلاۃ ، صفحہ رقم 99 میں ، مُسند احمد اور سنن ابو داود کی روایت کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ امام الترمذی اور امام الدار قطنی رحمہما اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے،
صحیح ابن حبان کی روایت کے بارے میں  شیخ شعیب الارنؤوط  کا کہنا ہے کہ اس کی سند بہت مضبوط ہے کیونکہ ابن اسحاق نے سماعت کا صراحت سے ذِکر کیا ہے)،
یہ تو تھا پہلا مرحلہ جس میں سوائے سُورت الفاتحہ کے دیگر قرأت سے منع فرمایا گیا ،
اس کے بعد اگلا مرحلہ آتا ہے جِس میں ساری ہی قرأت سے منع فرمادِیا گیا، 
::::::: ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ سے روایت ہے کہ""""" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ فَقَالَ (((((هَلْ قَرَأَ مَعِي مِنْكُمْ أَحَدٌ آنِفًا )))))فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ((((( إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ))))) فَانْتَهَى النَّاسُ عَنْ الْقِرَاءَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَاءَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ ::: """"" (ایک دفعہ)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو اِرشاد فرمایا (((((کیا تُم لوگوں میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرأت کی ہے؟ )))))،
تو ایک آدمی نے عرض کیا""" جی ہاں ، میں نے اے اللہ کے رسول"""،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( میں بھی کہوں کہ کیا معاملہ ہے کہ قران(کی قرأت)میرے لیے مشکل ہو رہی ہے)))))،
تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے یہ سن کر لوگوں نے اُن نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ قرأت کرنا بند کر دی ، جِن نمازوں میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  جہری قرأت فرماتے تھے(یہ وضاحت ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ  کی طرف سے نہیں ، بلکہ اُن سے روایت کرنے والے اِمام الزُھری رحمہُ اللہ کی طرف سے ہے)"""""،
مؤطا مالک(بروایۃ یحی اللیثی)/حدیث286،کتاب الصلاۃ /باب 10 باب ترك القراءة خلف الإمام فيما جهر فيه،صحیح ابن حبان/حدیث 1851،
::: ملاحظہ :::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے  یہ مذکورہ بالا فرامین مبارکہ اس بات کے بہت سے دلائل میں سے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کُلّی طور پر غیب کا عِلم نہیں رکھتے تھے ورنہ اِن مذکورہ بالا اِرشادات کی ضرورت نہ تھی، فرما دیا جاتا کہ تم لوگوں نے ابھی میرے ساتھ قرأت کی ہے ، میرے ساتھ قرأت مت کیا کرو ،  
اس واقعے کی دیگر صحیح ثابت شدہ روایات  میں مزید تفصیل اور مزید واضح حُکم بیان ہوا ہے ، جیسا کہ :::
::::::: ابو ھُریرہ رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا:::یقیناً اِمام کو تو اِس لیے بنایا گیا ہے کہ ، اُس کے ذریعے سے (اُس  کی اقتداء میں رہتے ہوئے ،نماز کی)تکمیل  کی جائے، لہذا جب وہ تکبیر کہہ چکے  تو تُم لوگ تکبیر  کہو ، اور جب وہ قرأت کرے تو تُم لوگ بالکل خاموش ہو جاؤ)))))،
سُنن ابن ماجہ/حدیث/895کتاب الصلاۃ و السنۃ /باب13 إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا،سُنن الدارقطنی/حدیث/1257کتاب الصلاۃ/باب10،سُنن النسائی/حدیث/921کتاب صفۃ الصلاۃ/ باب30 تأويل قوله عز و جل {وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }،
إِمام مسلم رحمہُ اللہ نے اپنی صحیح مُسلم میں ، حدیث رقم 932کے ضمن میں اس حدیث کو صحیح قرار دِیا ہے ، لہذا کسی علمی دلیل کے بغیر کسی  کا اِس حدیث کے  بارے میں شک میں مبتلا ہونا یا اِسے صحیح قرار نہ دینا کوئی وزن نہیں رکھتا ،
اس کی مزید تفصیل کے لیے امام الالبانی رحمہُ اللہ کی """إِرواء الغلیل /حدیث 499 اور 500""" دیکھی جائیں،
اِن احادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ جہری نمازوں(رکعتوں) میں مقتدی کوئی قرأت نہیں کریں گے ، اور سِری نمازوں(رکعتوں) میں سورت الفاتحہ کی قرأت کرنا واجب ہے ۔ اور جمہور عُلماء کا اسی پر اتفاق ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  ، ہم لوگ کچھ باتوں کو شاید مسلکی ضد بنا لیتے ہیں ، جب کہ اپنے دعوے کے مطابق ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہر ایک سُنّت مبارکہ کو ، ہر ایک حکم شریف  کو، اور کسی ایک معاملے سے متعلق تمام پہلوؤں میں ملنے والی قولی اور فعلی سُنّت مُبارکہ کا مطالعہ کر کے ، اُسے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال کی مدد سے سمجھنا چاہیے ، نہ کہ بس کسی ایک حدیث شریف یا سُنّت مبارکہ کو لے کر باقی کی طرف سے صَرفءِ نظر کرتے چلنا چاہیے ،
غور فرمایے کہ اگر رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سُورت فاتحہ کے بارے میں اِرشاد فرمایا ہے کہ (((((لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:::جس نے فاتحہ الکتاب(سُورت فاتحہ)نہ پڑھی اس کی نماز نہیں)))))صحیح البخاری/ حدیث/756کتاب الأذان/باب95، 
تو بالکل ایسے ہی الفاظ ، اور بالکل ایسا ہی مفہوم رکھنے والے الفاظ میں کچھ اور کاموں کے بارے میں بھی اِرشاد فرمائے ہیں ،  مثلاً :::
(((((يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لاَ يُقِيمُ صُلْبَهُ فِى الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ  ::: اے مُسلمانوں کے گروہ ، جو کوئی رکوع اور سجدوں میں اپنی کمر کو مضبوطی اور اطمنیان  کی حالت میں نہیں رکھتا اس کی نماز نہیں ہوتی)))))سنن ابن ماجہ / حدیث/920کتاب اقامۃ الصلاۃ و السُنّۃ /باب16،  امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
:::::ہم تقریبا ً ہر نماز میں دیکھتے ہیں کہ ہمارے بہت سے بھائی رکوع اور سجود میں اپنی کمر  کو اتنی دیر سیدہا  نہیں رکھتے کہ وہ سکون پا جائے ،  اور نہ ہی کچھ اطمینان کا مظاہرہ کرتے ہیں ، لیکن  کتنی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم انہیں اس مسئلے کے بارے میں کچھ سمجھاتے ہوں ، شاید اس حدیث شریف میں (((((لاَ صَلاَةَ)))) کا حکم ہمیں یاد نہیں !!!؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(((((لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لاَ يُصِيبُ أَنْفَهُ مِنَ الأَرْضِ مَا يُصِيبُ الْجَبِينَ ::: جِس کے ناک نے زمین سے وہی کچھ نہیں لیا جو کچھ اس کی پیشانی نے لیا تو اُس کی نماز نہیں ہوتی)))))سنن الدارقطنی /حدیث/1335کتاب الصلاۃ /باب14 باب مَنْ أَدْرَكَ الإِمَامَ قَبْلَ إِقَامَةِ صُلْبِهِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاَةَ،امام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ، دیکھیے اصل  صفۃ الصلاۃ النبی/جلد دوم /صفحہ 733،الطبعۃ الاولیٰ /مکتبۃ المعارف ،
:::::ہم میں سے کتنے ایسے ہیں ، اور ہمارے اِرد گِرد ہمارے مسلمان بھائیوں بہنوں میں سے کتنے ایسے ہوتے ہیں جن کے ناک تو دُور کی بات پیشانیاں بھی ٹھیک سے زمین کے ساتھ نہیں لگتیں وہ لوگ صِرف پیشانی کے کنارے پر سجدہ کرتے ہیں ، لیکن کیا ہم اُنہیں اِسی شد و مد سےاِس حدیث شریف میں (((((لاَ صَلاَةَ)))) کا حکم سنا کر کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں !!!؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(((((إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ::: جب نماز (کی جماعت)کھڑی کر دی جائے تو پھر (اُس کے بعد)سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی )))))صحیح البخاری/حدیث/1678کتاب۔ صلاۃ المسافرین /باب9،
ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ ہمارے نمازی بھائیوں میں سے اکثر اور خاص طور پر حنفی بھائی فجر سے پہلے کی دو سنتیں اُس وقت بھی شروع کر دیتے ہیں کہ جب فرض نماز کھڑی کی جا چکی ہوتی ہے ،
ہم سے کتنے ایسے ہیں جو اپنے اُن بھائیوں کو اِس مذکورہ بالا حدیث شریف میں دیے گئے حکم (((((فَلاَ صَلاَةَ إِلاَّ الْمَكْتُوبَةُ)))))کے مطابق ان کی غلطی کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،،،،، لیکن (((((لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:::جس نے فاتحہ الکتاب(سُورت فاتحہ)نہ پڑھی اس کی نماز نہیں))))) کے مطابق بات اور بحث کرنا ہمیں ضرور یاد رہتا ہے !!!؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث مبارک (((((لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:::جس نے فاتحہ الکتاب(سُورت فاتحہ)نہ پڑھی اس کی نماز نہیں))))) کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بھی جاننا ہی چاہیے کہ کیا اِس حدیث شریف میں نماز کے بالکل ہی نہ ہونے ، یا اُس کے باطل ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے یا اس کا کچھ اور مفہوم بھی ملتا ہے ،
جب ہم یہ بات سمجھنے کی کوشش میں خلیل اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دیگر احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں  ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی یہ روایت بھی ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے اِرشاد فرمایا کہ (((((مَنْ صَلَّى صَلاَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِىَ خِدَاجٌ فَهِىَ خِدَاجٌ فَهِىَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ:::جِس نے نماز پڑھی اور اُس میں اُم القران(سُورت الفاتحہ )نہیں پڑھی تو (اُس کی)وہ نماز ناقص ہے ،(اُسکی)وہ نماز ناقص ہے ،(اُس کی)وہ نماز ناقص ہے ،نا مکمل ہے)))))سُنن ابو داؤد /حدیث/821کتاب الصلاۃ   /باب138 باب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِى صَلاَتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، سُنن ابن ماجہ/حدیث/838کتاب اقامۃ الصلاۃ و السُّنۃ فیھا /باب11 باب الْقِرَاءَةُ خَلف الاِمام ، اِمام الالبانی  رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا ،
اور صحیح مُسلم کی روایت ہے (((((مَنْ صَلَّى صَلاَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهْىَ خِدَاجٌ  ( ثَلاَثًا )- غَيْرُ تَمَامٍ::: جِس نے نماز پڑھی اور اُس میں اُم القران(سُورت الفاتحہ )نہیں پڑھی تو (اُس کی)وہ نماز ناقص ہے ،(تین دفعہ یہ  فرمایا)  ،نا مکمل ہے ))))) ، صحیح مُسلم  /حدیث/904کتاب الصلاۃ   /باب11 ،
جب ہم نے قواعد و قوانین میں یہ بات سیکھی ہے کہ کسی بھی ایک معاملے کو اس سے متعلق تمام نصوص کی روشنی میں ہی سمجھا جانا درست ہوتا ہے اِن شاء اللہ ، اور یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ کی بہترین تفسیر اور شرح کا سب سے پہلا ماخذ خود انہی کے اپنے اقوال ہوتے ہیں ، تو پھر ہمیں یہ ماننے میں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے کہ (((((لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:::جس نے فاتحہ الکتاب(سُورت فاتحہ)نہ پڑھی اس کی نماز نہیں))))) میں (((((لاَ صَلاَةَ)))))نماز کے بالکل ہی نہ ہونے کا مفہوم نہیں رکھتا ، بلکہ (((((مَنْ صَلَّى صَلاَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِىَ خِدَاجٌ فَهِىَ خِدَاجٌ فَهِىَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ))))) کے مطابق نماز کے ناقص اور نا مکمل ہونے کا مفہوم رکھتا ہے ،
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ہم صِرف سُورت فاتحہ کی قرأت کو ہی ایسا بڑا مسئلہ بناتے ہیں کہ ہماری بحثیں اور فتوے رکنے کا نام ہی نہیں لیتے ، اور ان دیگر کاموں کا کہیں شاذ و نادرہی ذِکر ہوتا ہے، جن کاموں کے ہونے یا نہ ہونے کی صُورت میں  ،بالکل سُورت فاتحہ کی قرأت نہ کرنے کی طرح نماز کے نہ ہونے کا حکم فرمایا گیا ہے !!!؟؟؟
یہ معلومات مہیا کرنے کا مقصد نہ تو کسی پر کوئی فتویٰ صادر کرنا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی زبردستی ہے ، ان سب معلومات کو جاننےکے بعد بھی اگر کوئی بھائی یا بہن سُورت فاتحہ کو  ہر ایک رکعت میں پڑھنا لازم سمجھتا ہے تو وہ اپنے اعمال کی تکمیل کی راہ اور انداز اختیار کرنے میں آزاد ہے ، و ما علینا الا البلاغ ،
:::یاد دہانی ::: اس موضوع سے کافی قریبی اور گہرا ربط رکھنے والے ایک اور مسئلے کے بارے میں ایک مضمون بعنوان :::رکوع میں شامل ہونے کی صُورت میں رکعت ملنے کا مسئلہ :::بھی نشر کیا جا چکا ہے ،
اگر کوئی بھائی کسی قِسم کی بحث وغیرہ کا خواہاں ہو تو اس سے پیشگی گذارش ہے کہ دونوں مضامین کا تسلی ، غور اور تحمل سے مطالعہ کیجیے ، اور اُن میں دیے گئے حوالہ جات میں موجود مزید وضاحتی مواد کا بھی ، اور اگر اس کے بعد اُن کے پاس کوئی نئی دلیل ہو جس کے بارے میں اُس مواد میں بات نہ ہو تو ، اُس نئی دلیل کے ساتھ اپنی بات سامنے لائیں ، اِن شاء اللہ ،دُرست دلائل ،سلف الصالح اور  بعد کے علماء کرام (حفظہم اللہ و رحمہم )کے اقوال و افعال کی روشنی میں  اس کا بھی مطالعہ  کیا جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: ایک اور اہم نکتہ :::
ابھی ابو ہریرہ رضی اللہ  عنہ ُ   کی جو روایت ذِکر کی گئی ہے کہ  (((((مَنْ صَلَّى صَلاَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِىَ خِدَاجٌ فَهِىَ خِدَاجٌ فَهِىَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ))))) اِس کے بعد ، یہ بھی مذکور ہے کہ ، ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ  سے پوچھا گیا کہ""" إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الإِمَامِ::: ہم اگر امام کے پیچھے ہوں تو ؟ """،
تو ، ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ نے فرمایا """اقْرَأْ بِهَا فِى نَفْسِكَ::: سورت فاتحہ اپنے اندر ہی پڑھو  """،
ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کے اِس قول کی بِناء پر کچھ صاحبان یہ کہتے ہیں ، کہ ، اگر اِمام جہری قرأت کر رہا ہوتو بھی سُورت فاتحہ  پڑھنی ہی ہے ، لیکن بالکل دھیمی سی آواز میں   ،
تو اِس  بات کے بارے میں گذارش ہے کہ ، یہ بات  دُرُست نہیں،  کیونکہ ، سوال کرنے والے نے جہری اور سری قرأت کے فر ق کے بغیر سوال کیا ہے ، اور ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ نے بھی ایسے کِسی فرق کے بغیر ہی جواب دِیا ہے ،  لہذا ،  اللہ عزّ و جلّ کے فرمان (((((وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ::: اور جب قران پڑھا جائے تو انتہائی خاموشی اور مکمل توجہ کے ساتھ اُسے سُنو ، تا کہ تُم لوگوں پر رحم کیا جائے )))،  اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس فرمان کے سبب نزول میں یہ بیان ہوا ہے کہ یہ آیت شریفہ نماز میں کی جانے والی قرأت کے بارے میں نازل ہوئی ، لیکن، اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام پاک کے اسلوب کے مُطابق اِس کا حکم عام ہے ، یعنی نماز اور نماز کے عِلاوہ کہیں بھی قران  پاک کی تلاوت کی جا رہی ہو تو اُسے مکمل توجہ اور خاموشی کے ساتھ سننا واجب ہے ،
لہذا اِس   شریفہ اور  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دیگر احکام کی روشنی میں ، جِن کا ذِکر پہلے کیا گیا ہے ، بڑی وضاحت   سے یہ سمجھ آتا ہے کہ ابو ہُریرہ رضی اللہ  عنہ ُ کا یہ قول سِری رکعتوں کے بارے میں ہے ، جب کہ امام صاحب اونچی آواز میں قران نہیں پڑھتے ، مقتدی کو بھی اُن میں دھیمی آواز میں قرأت کرنا ہو گی، کیونکہ اُن رکعتوں میں دھیمی آواز میں ہی قرأت کرنا سکھایا گیا ہے ،
اور یہ کہ،  اونچی آواز میں قرأت کرنا دُوسرے نمازیوں کی  نماز میں خلل کا سبب ہوتا ہے ، 
اور یہ کہ ، سِری رکعتوں میں امام صاحب کی قرأت چونکہ  مقتدی نہیں سنتے ، لہذا اُنہیں اپنی قرأت کرنا ہوتی ہے ، کیونکہ جن رکعتوں میں مقتدی امام صاحب کی قرأت سنتے ہیں ، اُن رکعتوں میں امام صاحب کی قرأت مقتدیوں کے لیے کفایت کرتی ہے ، جیسا کہ اُوپر ذِکر کی گئی احادیث شریفہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے ،
جِن عُلماء کرام نے مقتدی  کے لیے  سُورت الفاتحہ کو  بہر صُورت پڑھنے پر اصرار کیا، اُن کے ہاں پھر یہ معاملہ بھی ہوا کہ اُنہوں نے اِمام کے لیے یہ ضروری قرار دے دیا کہ وہ سُورت فاتحہ کی قرأت کے بعد اتنی دیر خاموشی اختیار کرے (سکتہ کرے ) کہ جتنی دیر میں مقتدی سُورت فاتحہ پڑھ لیں ،
لیکن ، افسوس  کہ اُن کے اِس طریقے کی سُنّت شریفہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے کوئی تائید مُیسر نہیں ہو پاتی،
پس ، ثابت ہوا ، کہ ہر ایک رکعت میں سُور ت فاتحہ پڑھنا مقتدی پر واجب نہیں ، اگر ایسا  ہوتا تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بھی یہ سکتہ اختیار فرماتے ،
اِمام البانی رحمہُ اللہ نے """اصل صفۃ الصلاۃ النبی /نسخ القراۃِ وراء َ الاِمام فی الجھریۃ """ میں    اِس سارے مسئلے کی بہت اعلیٰ تحقیق پیش کی ہے ، تفصیل کے طلب گار اُس کا مطالعہ فرمائیں ،
اِس کے عِلاوہ ، ابو ہُریرہ رضی اللہ  عنہ ُ کے اِس قول کو کچھ  صاحبان قلبی قرأت  کی دلیل بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ، یعنی ، ایسی قرأت کہ جس میں ز ُبان اور ہونٹ یا تو حرکت ہی نہیں کرتے ، یا حرکت کرتے ہیں تو بھی آواز اس قدر دھیمی ہوتی ہے کہ خود قرأت کرنے والا بھی اپنی آواز نہیں سُن پاتا ، بس اُس کے ذہن میں  وہ اِلفاظ گردش کر رہے ہوتے ہیں ، وہ اُنہیں محسوس کر رہا ہوتا ہے ، سُن نہیں رہا ہوتا ،
عُلماء کرام کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی قرأت کو ، قرأت نہیں کہا جا سکتا ، جس میں ہونٹ اور ز ُبان حرکت نہ کریں ، اور نماز میں قران کریم  کی قرأت ،اور قران کریم کے علاوہ  تکبیر، تسبیحات ، اور دیگر اذکار سب ہی اُسی وقت قرأت کیے گئے  یعنی پڑھے گئے سمجھے جا سکتے ہیں ، جب کہ پڑھنے والے  کی ز ُبان اور ہونٹ حرکت کریں ، اور وہ اپنی آواز خود سُن سکے ،  لہذا ، نماز میں قرأت ، اُسی صُورت میں قرأت سمجھی جائے گی جب کہ نمازی اپنی قرأت کو سُن پائے ، صِرف ز ُبان یا ہونٹوں کی خاموش حرکت قرأت نہیں سمجھی جاتی ۔  
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہر قِسم کی ضد اور پریشانی سے محفوظ رکھتے ہوئے حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں بنائے ، والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
طلب گارء دُعاء ،
آپ بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 10/10/1434ہجری، بمُطابق، 17/08/2013عیسوئی ۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :::
http://bit.ly/15TsP0n
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:::یاد دہانی ::: اس موضوع سے کافی قریبی اور گہرا ربط رکھنے والے ایک اور مسئلے کے بارے میں ایک مضمون بعنوان :::رکوع میں شامل ہونے کی صُورت میں رکعت ملنے کا مسئلہ :::بھی نشر کیا جا چکا ہے ،
اگر کوئی بھائی کسی قِسم کی بحث وغیرہ کا خواہاں ہو تو اس سے پیشگی گذارش ہے کہ دونوں مضامین کا تسلی ، غور اور تحمل سے مطالعہ کیجیے ، اور اُن میں دیے گئے حوالہ جات میں موجود مزید وضاحتی مواد کا بھی ، اور اگر اس کے بعد اُن کے پاس کوئی نئی دلیل ہو جس کے بارے میں اُس مواد میں بات نہ ہو تو ، اُس نئی دلیل کے ساتھ اپنی بات سامنے لائیں ، اِن شاء اللہ ،دُرست دلائل ،سلف الصالح اور  بعد کے علماء کرام (حفظہم اللہ و رحمہم )کے اقوال و افعال کی روشنی میں  اس کا بھی مطالعہ  کیا جائے گا ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ہر قِسم کی ضد اور پریشانی سے محفوظ رکھتے ہوئے حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں بنائے ، والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔