شوال رمضان کے بعد آنے والا مہینہ ہے ، اِس ماہ یعنی مہینے کی فضلیتوں میں سے ایک تو یہ ہے کہ اِس کی پہلی رات میں روزوں میں ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ ادا کیا جاتا ہے، جسے زکوۃ الفِطر ، فِطرانہ کہا جاتا ہے، الحمد للہ اِس کے بارے میں تفصیلی بیان ہو چکا ہے،
شوال کی دُوسری فضیلت یہ ہے کہ اِسکا پہلا دِن عید الفطر کا ہوتا ہے اور تیسری فضلیت یہ ہے کہ رمضان کے روزے پورے کرنے کے بعد اگر شوال میں چھ روزے رکھے جائیں تو پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے ،
جی ہاں صرف دس روزے رکھیے اور پورے سال کے روزوں کا ثواب حاصل کیجیے اِن شا اللہ،
سُنیے، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا﴿ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ::: جِس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اُن کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ سال کے روزے ہوئے﴾صحیح مُسلم/حدیث /2815کتاب الصیام/باب39، سُنن ابو داؤد /حدیث/1787کتاب الصیام/باب33، سُنن الترمذی /حدیث/764کتاب الصوم/باب53، سُنن ابنِ ماجہ /حدیث/2435کتاب الصوم/باب59، سُنن الدارمی/ حدیث /1808ومِن کتاب الصوم/باب44،إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
یعنی گویا کہ اُس نے پورے سال کے روزے رکھے ، جیسا کہ ثوبان رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِرشاد نے فرمایا﴿ صِيَامُ شَهْرٍ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ ، وَسِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَهُنَّ بِشَهْرَيْنِ فَذَلِكَ تَمَامُ سَنَةٍ::: ایک ماہ (یعنی رمضان ) کے روزے دس ماہ کے برابر ہیں اور اُن کے بعد چھ دِن دو ماہ کے برابر ہیں ، اِس طرح ایک سال پورا ہوا﴾سُنن الدارمی/ حدیث /1809ومِن کتاب الصوم/باب44،
اور سُنن ابو داؤد میں یہ الفاظ ہیں﴿ مَنْ صَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ كَانَ تَمَامَ السَّنَةِ::: جِس نے فِطر (یعنی عید الفِطر ) کے بعد چھ دِن روزے رکھے اُس کا ایک سال پورا ہوا ﴾سُنن ابو داؤد /حدیث /1786کتاب الصیام/باب33،
سب سے پہلے والی حدیث میں لفظ الدھر کا میں نے ترجمہ سال کیا ہے،
ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ الدھر کا معنی تو زمانہ ، اور وقت ہوتا ہے تو پھر سال کیوں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ دیگر احادیث کی روشنی میں پہلی حدیث میں لفظ الدھر کا معنی مقرر ہوا ہے ، جو کہ سال ہے ، نہ کہ زمانہ،
یُوں بھی ’’’ صیام الدھر ‘‘‘ کا مفہوم ، ہمیشہ تسلسل کے ساتھ روزے رکھنا ہے، کوئی بھی ناغہ کیے بغیر ،
اور یہ ایسا کام ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے منع فرمایا ہے،
جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے نے اِرشاد فرمایا ﴿ لا صَام مَن صَام الدَّھر ::: اُس نے کوئی روزہ نہیں رکھا جو ہمیشہ روزے رکھے ﴾صحیح البخاری / حدیث 1979 / کتاب الصوم /با ب صوم داؤد علیہ السلام ،
پس یہ سمجھ رکھنا چاہیے کہ ہمیشہ تسلسل سے روزے رکھنا ممنوع ہے، اور یہ جو لوگ ایسے بزرگوں کے قصے اور حکایات سناتے ہیں جو ہمیشہ ہی روزے میں رہتے تھے، یا ، چالیس چالیس سال روزے میں رہے ، تو یہ کوئی بزرگی نہیں، بلکہ رسول اللہ کی نافرمانی ہے ، جو کسی بھی طور کسی بزرگی کا سبب نہیں ہو سکتی ،
چلیے واپس اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں ،
یہ تو آپ سب ہی سمجھتے ہوں گے اِن شاء اللہ کہ روزہ ، روزہ ہی ہوتا ہے، رمضا ن کا فرض روزہ ہو یا کوئی نفلی روزہ، اُس کی ادائیگی کا انداز و کیفیات ایک ہی جیسی ہیں،
رمضان کے فرض روزے کی ہی طرح کسی بھی نفلی روزے میں اُن تمام کاموں سے باز ہی رہنا ہے جن کاموں سے رمضان کے فرض روزے میں باز رہا جاتا ہے،
ایسا نہیں ہے کہ نفلی روزے میں کوئی پابندی کم ہو جاتی ہے، جی ، نفلی روزے کے احکام میں کچھ نرمی اور سہولیات ایسی ضرور ہیں جو فرض روزے کے احکام میں نہیں ہیں،
مثلاً ، نفلی روزہ رکھنے کے لیے ، روزہ رکھنے والے دِن سے پہلے والی رات سے ہی روزے کی نیت کرنا ضروری نہیں ، بلکہ دِن میں بھی کسی بھی وقت کوئی شخص نفلی روزے کی نیت کر کے روزہ رکھ سکتا ہے، بشرطیکہ اس نے فجر کی اذان کے بعد سے کچھ کھایا پیا نہ ہو،
اور یہ بھی سہولت ہے کہ اگر کسی نے اپنا نفلی روزہ افطار سے پہلے ہی کھول دیا ، یا کسی وجہ سے اُس کا روزہ توٹ گیا تو اُس پر اُس روزے کی کوئی قضاء نہیں ،
شوال کے اِن چھ روزوں کے بارے میں عُلماء کا کہنا ہے کہ یہ روزے شوال کے دِنوں میں کبھی بھی رکھے جا سکتے ہیں ، یعنی آغاز درمیان یا آخر میں ، اِن کا اکٹھا رکھا جانا ضروری نہیں ہے ،
::::: نفلی روزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا حُکم :::::
نفلی روزوں کے معاملے میں ایک بہت ہی اہم بات جو ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ حُکم ہے ﴿لاتصوموا یومَ السبت اِلَّا فیمَا افتُرض َ علیکُم فاِن لم یَجِدَ أحدکُم اِلَّا عُودَ عِنَبٍ أو لَحَاءَ شجرۃٍ فَلیَمُصّہُ::: ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو ، سوائے فرض روزے کے ، اگر تُم سے کِسی کو انگور کی چھال یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اسی کو چُوس لو ﴾،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن الفاظ مُبارکہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہفتے کے دِن کے روزے کی ممانعت کِس قدر شدید ہے کہ اگر درخت کی چھال یا جڑ چُوس کر ہی افطار کرنا پڑے تو بھی حالتِ افطار میں رہنا چاہیے ، روزہ نہیں رکھنا چاہیے ، سوائے فرض یعنی رمضان کے روزں کے ۔ یعنی ، ہفتے کے دِن صرف وہی روزہ رکھاجا سکتا ہے جو کہ رمضان میں آئے، رمضان کے عِلاوہ ہفتے کے دِن کوئی بھی روزہ ہفتے کے دِن رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِس شدید سخت حکم کی نافرمانی ہے، جو کہ حکم کی شدت کے مُطابق ہی شدید ہو گی ،
یہ ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے کی ممانعت والی حدیث عبداللہ بن بُسر ، الصَّمَّاءُ بنت بُسر ، بُسر بن أبی بُسر المازنی ، اور ابی اُمامہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے مُندرجہ ذیل کتابوں میں روایت کی گئی ہے ،
صحیح ابن خزیمہ/ حدیث 2164 ، مُستدرک الحاکم/1592 ، اِمام الحاکم نے کہا کہ یہ حدیث بُخاری کی شرط کے مُطابق صحیح ہے ، سُنن ابو داؤد/حدیث 2418 ، سُنن ابن ماجہ/حدیث 1766 ، سُنن الترمذی/حدیث 744 ، مُسند احمد 6/ 368 ، سُنن الدارمی/حدیث1749 ، سُنن البیہقی/4/302 ، مُسند عبد بن حمید/حدیث507 ، اِمام ابو نعیم رحمہُ اللہ نے """حِلیۃ ُ الأولیاء """ میں ، اِمام خطیب بُغدادی رحمہُ اللہ نے """ تاریخ """ میں اِمام الضَّیاء المقدسی رحمہُ اللہ نے """ الأحادیث المُختارۃ """ میں ، اِمام الدَّولابی رحمہُ اللہ نے """ الکُنی"""میں ، اِمام ابنِ عساکر رحمہُ اللہ نے اپنی """ تاریخ """ میں، اِمام عبدلارحمن بن عَمرو جو کہ اپنی کُنیت ابو ز ُرعۃ الدمشقی سے معروف ہیں ، رحمہُ اللہ نے اپنی """ تاریخ """ میں ، اِمام ابن الأثیر رحمہُ اللہ نے """ أُسد الغابہ فی معرفۃِ الصحابہ """ میں ، اِمام البغوی رحمہُ اللہ نے """ شرح السُنّۃ """میں روایت کیا ،
اور اِس کے عِلاوہ بھی یہ حدیث بہت سی دیگر کتابوں میں مُختلف اسناد کے ساتھ موجود ہے،
امام البانی رحمہُ اللہ علیہ کے شاگردء رشید شیخ علی بن حسن رحمہ ُ اللہ نے اپنی کتاب """ زَہر الرَّوض فی حُکم صِیام یَوم السَّبت فی غیر الفَرض """ میں اِس کی مُکمل تحقیق اور تخریج کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حُکم کو ٹالنے یا بدلنے یا خاص اور عام کرنے کی کوئی دلیل نہیں ، تفصیلات جاننے کے خواہش مند اِس کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ،
الحمد للہ ، اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ توفیق سے میں نے کچھ مُفید اضافوں کے ساتھ اِس کتاب کا ترجمہ کیا ہے جو تقریباً مکمل ہونے والا ہے ، اِن شاء اللہ تکمیل کے بعد اِس کی اشاعت و نشر کا انتظام کیا جائے گا ۔
::::::: بھائیوں ، بہنوں ، مندرجہ بالا صحیح حدیث کی روشنی میں ، اور اِس کے موافقت نہ کرنے والی تمام تر احادیث کی تحقیق کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی بھی نفلی روزہ ہفتے کے دِن رکھنا جائز نہیں ، آپ صاحبان شوال کے روزے رکھتے ہوئے اور کوئی بھی نفلی روزہ رکھتے ہوئے اِس بات کو کبھی نہ بھولیے گا اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے مُسلمان بھائی بہنوں کو بھی بتائیے تا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی نافرمانی کا شکار نہ ہوں ۔
اور اگر کوئی بہت فضلیت والا نفلی روزہ ہفتے والے دِن آ جائے اور ذہن میں یہ اشکال آ جائے کہ اتنی فضلیت والا روزہ چھوڑ کر تو بہت اجر و ثواب سے محروم رہیں گے ، تو اِس اشکال ، اِس تردد کے عِلاج کے لیے اپنے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان مُبارک ذہن میں بٹھا لیجیے کہ ﴿ إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئًا لِلَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - إِلَّا أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَا هُوَ خَيْرٌ لَكَ مِنْهُ ::: کوئی بھی اِیسی چیز نہیں جو تم اللہ کے لیے چھوڑو سوائے اِس کے کہ اللہ تمہارے لیے اُس چیز کو اُس چیز سے زیادہ خیر والی چیز سے بدل دے ﴾ مُسند احمد / حدیث 23074 / تتمۃ مُسند الأنصار / پہلا باب ،
اور دُوسری روایت کے اِلفاظ یہ ہیں کہ ﴿ إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئًا اتِّقَاءَ اللَّهِ - عَزَّ وَجَلَّ - إِلَّا أَعْطَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهُ:::کوئی بھی اِیسی چیز نہیں جو تم اللہ عزّ و جلّ کے ڈر سے چھوڑو سوائے اِس کے کہ اللہ تُم اُس چیز سے زیادہ خیر والی چیز عطاء نہ کرے ﴾،مُسند احمد / حدیث 20738 / مُسند البصریین / حدیث الأعرابی ،اِمام ابو بکر الھیثیمی رحمہُ اللہ نے مجمع الزوائد میں کہا کہ اِن دونوں روایات کے راوی صحیح (البخاری) والے ہیں، یعنی ، یہ دونوں روایات صحیح ہیں،
تو واضح ہوا کہ اگر ہم کوئی بھی چیز کی رضا کے لیے چھوڑیں گے تو اللہ تعالیٰ یقیناً اُس سے زیادہ خیر والی چیز عطاء فرماتا ہے، لہذا اگر ہم کوئی بھی فضیلت والا نفلی روزہ جو کہ ہفتے کے دِن میں آ جائے ، اللہ کے لیے چھوڑ دیں کہ ہم اُس کے آخری نبی اور رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت کر رہے ہیں ، تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہم اُس چھوڑی جانی والی فضیلت اور اجر سے زیادہ خیر عطاء فرمائے گا ،
کوشش کیجیے کہ سوموار اور جمعرات کے دِن اختیار کیجیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نفلی روزے رکھنے کے لیے اِن دو دِنوں کو فوقیت دیا کرتے تھے ،
والسلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
طلبگارِ دُعا ،
آپکا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 07/10/1421ہجری،بمُطابق،02/01/2001عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث : 01/10/1436ہجری،بمُطابق،17/07/2015،
تاریخ تجدید و تحدیث الثانی: 01/10/1442ہجری،بمُطابق،13/05/2021۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
5 comments:
جزاک اللہ خیراً
جزاكم الله خيرا
السلام علیکم و رحمتہ اللّہ و براکاتہ والمغفرہ ، ماشاءاللہ بہت عمدہ اور معلوماتی مضمون ھے اللّٰہ پاک آپ سب کو ھمیشہ اپنی حفظ و امان میں صحت و تندرستی کے ساتھ لمبی عمریں عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین یا اکرمل اکرمین ۔
Assalamualaikum , Masha Allah , jajak Allah ,fid deen or dunya .
Jazak Allah .
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔