Monday, November 4, 2013

::::::: ماہِ محرم اور ہم (مختصر) ::::::: Hijri1435 ::: We and Month of Muharam Briefed




::::::: ماہِ محرم اور ہم (مختصر) :::::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ    
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
ماہ محرم ہمارے اِسلامی  ہجری نظام  تاریخ کا پہلا مہینہ ہے ، اِن شاء اللہ میں اِس مضمون میں یہ بیان کروں گا   کہ  اِس مہینے  کی اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کیا فضیلت بیان فرمائی ہے ؟ اور اِس مہینے کی شرعی فضیلت کے علاوہ اس کی تاریخی أہمیت کیا ہے ؟؟ دس محرم کے روزے کی تاریخ اور فضیلت کیا ہے؟  
::::: محرم کے مہینے کی فضلیت :::::
    اللہ تبارک و تعالیٰ نےاِرشاد  فرمایا (((((  اِنَّ عِدَّۃُ الشُّھُورِعِندَ اللَّہِ اَثنا عَشَرَ شَھراً فِیِ کِتَابِ اللَّہِ یَومَ خَلَق َ السَّمَوَاتِ وَ الاَرض َ مِنھَا اَربعَۃَ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ القَیِّمُ فَلا تَظلِمُوا فَیھِنَّ اَنفُسَکُم وَقَاتِلوُا المُشرِکِینَ کآفَۃً کمَا یقَاتِلُونَکُم کآفَۃً وَ اعلمُوا اَنَّ اللَّہَ مَعَ المُتَقِینَ :::بِلا شک جِس دِن اللہ نے زمین اور آسمان بنائے اُس دِن سے اللہ کے پاس اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے جِن میں چار حُرمت والے ہیں اور یہ درست دِین ہے لہذا تُم لوگ اِن مہینوں میں اپنے آپ پر ظُلم نہ کرو اور شرک کرنے والوں سے پوری طرح سے لڑائی کرو جِس طرح وہ لوگ تُم لوگوں کے ساتھ پوری طرح سے لڑائی کرتے ہیں ، اور جان رکھو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے)))))سورت توبہ(9)/آیت 36 ۔
    اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( الزَّمَانُ قَد استَدَارَ کَہَیئَتِہِ یوم خَلَقَ اللَّہ ُ السَّماواتِ وَالاَرضَ السَّنَۃُ اثنَا عَشَرَ شَہرًا مِنہا اَربَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَاثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ ذُو القَعدَۃِ وَذُو الحِجَّۃِ وَالمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الذی بین جُمَادَی وَشَعبَانَ :::سال اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُس دِن تھا جب اللہ نے زمنیں اور آسمان بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میںسے چار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے)))))صحیح البُخاری /حدیث 3025/کتاب بدا الخلق /باب2 ، صحیح مُسلم /حدیث 1679/کتاب القسامۃ و المحاربین و القصاص و الدِیّات /باب9،
یعنی محرم اُن مہینوں میں سے ہے جِس میں اللہ کی طرف سے لڑائی اور قتال وغیرہ سے منع کیا گیا ہے ، اِس کے عِلاوہ محرم کے مہینے میں روزے رکھنے کی ایک فضیلت ملتی ہے جو مندرجہ ذیل ہے،
::::: محرم کے روزوں کی فضلیت :::::
    اَبو ہُریرہ رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےاِرشاد  فرمایا (((((اَفضَلُ الصِّیَامِ بَعدَ رَمَضَانَ شَہرُ اللَّہِ المُحَرَّمُ وَاَفضَلُ الصَّلَاۃِ بَعدَ الفَرِیضَۃِ صَلَاۃُ اللَّیلِ:::رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت والے روزے محرم کے روزوے ہیں ، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت ولی نمازقیام الیل(رات میں پڑہی جانے والی نفلی نماز)ہے)))))صحیح مُسلم /حدیث 1163 /کتاب الصیام /باب38۔
یہ معاملہ تو پورے مہینے کے روزوں کا ہے ، اور خاص طور پر عاشوراء یعنی دس محرم کے روزے کی الگ سے فضیلت بیان ہوئی ہے ، جِس کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے آئے گا ،
دس محرم کے روزے کی فضیلت بیان کرنے سے پہلے مُناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً دس محرم کے روزے کی تاریخ اور سبب بھی ذِکر کرتا چلوں، تا کہ پڑہنے والے اِن شاء اللہ یہ سمجھ جائیں کہ دس محرم کی فضیلت یا اِس دِن روزہ رکھنے کے اجروثواب  کا  نواسہء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ، حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت جس کے واقع ہونے کی تاریخ دس محرم  بتائی جاتی ہے ، اُس شہادت سے دس محرم کے روزے کا کوئی تعلق نہیں ہے ،
:::::دس محرم کا روزہ :::::
    دس محرم ہماری اِسلامی تاریخ کا وہ دِن جِس کے متعلق بہت زیادہ جھوٹ پھیلائے گئے ،
 ایسے جھوٹ جِن کو گھڑنے والے بلا شک و شبہ مُنافق تھے اور ہیں ، جنہوں نے اپنے نفاق کو خاص پردوں میں چُھپانے کے لیے اور اُمتِ مُسلّمہ کو فنتے اور فساد کا شکار کرنے کے لیےیہ سب جھوٹ گھڑے ، پھیلائے اور مسلسل پھیلائے جا رہے ہیں ، افسوس اُن کی کاروائیوں کا نہیں ، کیونکہ یہ سب کُچھ اُنہوں نے تو کرنا ہی تھا افسوس اپنے اُن کلمہ گو بھائی بہنوں پر ہے جو اِن مُنافقین کی کہانیوں اور مَن گھڑت قصوں کو قُرآن اور حدیث کی طرح سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اور جِس طرح اُنہیں قُرآن اور حدیث پر عمل کرنا اور اُس کی تبلیغ کرنا چاہیے تھی اُس طرح اِن خُرافات کی تبلیغ کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ قُرآن اور حدیث سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ ایسی خُرافات کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں ، قُرآن کریم اور صحیح احادیث شریفہ  کی باطل تاویلات کی جاتی ہیں ، اور بسا اوقات تو معاذ اللہ اِنکار ہی  کر دِیا جاتا ہے ،
ماضی میں وہ سب  جھوٹی باتیں  اور قصے گھڑنے اور پھیلانے سے کہیں زیادہ افسوس ناک اور شرمناک معاملہ اب  ہم حال میں دیکھتے اور سنتے ہیں کہ اُن جھوٹی باتوں اور قصوں کو مکھی پر مکھی مارنے والی روایت پوری کرتے ہوئے پھیلایاجاتا ہے ، اور بڑھا چڑھا کر پھیلایا جاتا ہے ، مزید جھوٹ کا بِھگار(تڑکہ)لگا لگا کر پھیلایا جاتا ہے ، حبء آل رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے نام پر پھیلایا جاتا ہے ، حبء اھل بیت کے نام پر پھیلایا جاتا ہے ، حبء علی کے نام پر پھیلایا جاتا ہے ، اور اِسی قِسم کے کئی عنوانات دے دے کر پھیلایا جاتا ہے کہ جِن عنوانات کے ذریعے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ، فاطمہ رضی اللہ عنہا  کے خاوند ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے  داماد أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ اور علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بیٹوں  رضی اللہ عنہما سے محبت کرنے والے مُسلمانوں کی محبت کو اِستعمال کر کے اُن مُسلمانوں کو  گمراہ کیا جا سکے ،
اِن سب عظیم المرتبہ شخصیات سے محبت مطلوب و مقصود ہے ، لیکن فرزانگی کے ساتھ نہ کہ دیوانگی کے ساتھ ، جب یہ محبت عقل و خِرد سے دُور ہو تی ہے تو گمراہ کرنے والے کامیاب ہوتے ہیں ، اور جب تک محبت کرنے والے اپنے محبوب سے منسوب کسی بھی بات کو دیوانوں کی طرح ماننے کی بجائے ، اپنے محبوب  کی ذات کی پاکیزگی برقرار رکھنے کے لیے اُس سے منسوب کی جانے والی باتوں اور کاموں کی چھان پھٹک کرتے ہیں ، وہ لوگ باذن اللہ گمراہ نہیں ہو پاتے ، اور اُن کی محبت بھی برقرار رہتی ہے ،  
اِ س وقت  میرا موضوع اِن نیک  ہستیوں سے محبت ، اُس محبت میں دُرُست منھج ،یا اِن عزت مآب شخصیات کے بارے میں پھیلائی جانےو الی جھوٹی کہانیوں پر بات کرنا نہیں ، جھوٹے سچے واقعات کی تحقیق نہیں ،( اس کے بارے میں  ایک تفصیلی مضمون میں بات چیت کی جا چکی ہے )لہذا یہاں اِس مضمون میں  صِرف اور صِرف سچی خبر کے مطابق دس محرم کے دِن کی شرعی حیثیت اور حقیقت اور اِس دِن کے روزے کی وجہ کے متعلق بات کرنا مقصود ہے ،
 اُوپر بیان کردہ آیت کی روشنی میں ہمیں محرم کے مہینے کی فضلیت اللہ تعالیٰ کے فرمان کے ذریعے معلوم ہوئی ، آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے اِس ماہ یا اِس کے کِسی خاص دِن کےبارے میں ہمیں کیا بتایا ، اور  سیکھایا گیا ہے ،
::::: عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ""" جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے پوچھا کہ (((((مَا ھَذا؟:::یہ کیا ہے؟)))))،
 تو اُنہیں بتایا گیا کہ """یہ اچھا دِن ہے ،(کیونکہ) اِس دِن اللہ  تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن (فرعون )سے نجات دِی تھی تو اُنہوں نے روزہ رکھا تھا """، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((فَانَا احقُ بِمُوسیٰ مِنکُم  :::میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے )))))  اور (((((رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم دِیا )))))""" صحیح البُخاری /حدیث2004/کتاب الصوم/باب69 ۔
    اِس حدیث شریف میں دس محرم کے روزے کا سبب ظاہر ہونے کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم غیب کے معاملات میں  سے سب کا ہی  علم نہیں رکھتے تھے، اور یہ حدیث شریف  اِس موضوع کے بہت سے دلائل میں سے ایک ہے ، (علم غیب کے بارے میں کچھ مقامات پر کافی بات چیت ہو چکی ہے لہذا اُسے یہاں دہرا کر میں اِس  مضمون کے موضوع کو پراگندہ نہیں کرنا چاہتا )
ابو موسی رضی اللہ عنہ ُ      کا کہنا ہے کہ """دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((((تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو )))))"""صحیح البُخاری /حدیث 2005/کتاب الصوم/باب69۔
[[[علمء غیب ، کے بارے میں ایک مضمون کافی عرصہ پہلے نشر کیا جا چکا ہے ، اور اس کے بارے میں مختلف فورمز میں گفتگو بھی ہو چکی ہے ]]]
:::::دس محرم کا روزہ رمضان کے روزوں سے پہلے بھی تھا ، لیکن فرض نہیں تھا :::::
::::: اِیمان والوں کی والدہ عائشہ ، عبداللہ ابنِ عُمر، عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہم سے روایات ہیں کہ """""  اِس دس محرم کا روزہ اہلِ جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے اور((((( رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بھی رکھا کرتے تھے اور اِسکا حُکم بھی دِیا کرتے تھے اور اِسکی ترغیب دِیا کرتے تھے ، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہمیں نہ تو یہ روزہ رکھنے کا حُکم فرمایا ، نہ ہی  اِس کی ترغیب دِی اور نہ ہی اِس سے منع فرمایا))))) """"" صحیح مُسلم /کتاب الصیام /باب صوم یوم عاشوراء ،
::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کاتب وحی ، اِیمان والوں کے ماموں جان ، امیر المؤمنین معاویہ بن ابی سفیان  رضی اللہ عنہما  و أرضاھُما کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ(((((ہذا یَومُ عَاشُورَاء َ ولَم یَکتُب اللہ عَلَیکُم صِیَامَہُ وانا صَائِمٌ فَمَن شَاء َ فَلیَصُم وَمَن شَاء َ فَلیُفطِر ::: یہ دس محرم کا دِن ہے اور اللہ نے تُم لوگوں پر اِس کا روزہ فرض نہیں کِیا ، اور میں روزے میں ہوں تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار کرے)))))صحیح البُخاری حدیث 2003/کتاب الصوم/باب69،صحیح مُسلم حدیث 1129/کتاب الصیام/باب19 ۔
::::::: دس محرم کے روزے کی فضلیت اور أجر :::::::
:::::    عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہےمیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھاکہ(((((نہ تو وہ(صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم) کِسی بھی اور دِن کے(نفلی)روزے کواِس دس محرم کے روزے کے عِلاوہ، زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کِسی اور مہینے کو اِس مہینے سے زیادہ(فضیلت والاجانتے تھے ) )))))یعنی رمضان کے مہینے کو۔  صحیح البُخاری /حدیث 2006/کتاب الصوم/باب29۔
:::::  ابو قتادہ رضی اللہ عنہ ُ ایک لمبی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ """"" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے عاشوراء (دس محرم)کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو  انہوں نے اِرشاد فرمایا(((((اَحتَسِبُ علی اللَّہِ اَن یُکَفِّرُ السَّنَۃَ المَاضِیَۃَ :::میں اللہ سے یہ اُمید رکھتا ہوں کہ(یہ عاشوراء کا روزہ )پچھلے ایک سال کے گُناہ معاف کروا دے گا )))))صحیح مُسلم حدیث 1162/کتاب الصیام/باب36، صحیح ابن حبان /حدیث3236 ۔
محرم کے مہینے اور خاص طور پر دس محرم کی صِرف  یہ ہی فضلیت ہمیں قُرآن اور حدیث میں ملتی ہے ، اِس کے عِلاوہ اور کُچھ نہیں ۔
جی اس مہینے میں ایک انتہائی دلدوز واقعہ پیش آ چکا ہے جسے مسلمانوں میں ایک بہت بڑے تفرقے کا سبب بنا لیا گیا ، قطع نظر اس کے کہ تاریخ میں اس واقعہ کے متعلق کیا کیا  سچ اور جھوٹ لکھا پڑ اہے ،اِس حقیقت سے اِنکار نہیں کیا جا سکتا کہ ساٹھ ہجری کے اِسی مہینے محرم میں نواسہ ء رسول ، جنت کے نوجوانوں کے سردار  حُسین بن علی  رضی اللہ عنہما  اور اُن کے خاندان کے کُچھ افراد  رحمہم اللہ  کی شہادت کا المناک  واقعہ رونما ہوا،  جو کسی بھی طور محرم کے لیے کوئی فضیلت نہیں بنتا ،
اس واقعہ میں ہمیں حق کے لیے جدوجہد کرنے کا بہترین عملی سبق بھی ملتا ہے اور اُمت مسلّمہ میں غداروں اور منافقین کی کاروائیوں کی خبر اور اُن کے انداز کی پہچان بھی ملتی ہے ،
 اُن منافقوں کی پھیلائی ہوئی جھوٹی خبروں  کی وجہ سے  یہ پریشان کُن واقعہ پیش آیا اور پھر اُنہی ، اور اُن جیسی دوسری جھوٹی خبروں اور باتوں کی وجہ سے آج تک اُمت کے افراد نہ صِرف ایک دُوجے کے دست و گریباں رہتے ہیں ، بلکہ کئی تو معاذ اللہ کفر و شرک تک جا پہنچتے ہیں ، اور کئی معاذ اللہ اُس کا شِکار ہو جاتے ہیں ، اِس واقعے کے بارے میں حقیقی خبریں جاننے کے لیےاِس واقعہ کی تحقیق پر مشتمل کتاب کا مطالعہ بہت سے ایسے حقائق ظاہر کرتا ہے جن کہ طرف مذھبی قصہ گو لوگ توجہ کرنے ہی نہیں دیتے ،
اِن حقائق کو مختصر طور پر ایک الگ مضمون میں ذِکر کیا جا چکا ہے ،  
اِس کے ساتھ یہ بھی اچھی طرح سے سمجھنے کی بات ہے کہ محرم کے مہینے میں ، یا کسی بھی اور مہینے میں  انسانی زندگی  کے معمولات میں پائے جانے والے کسی بھی اچھے اور  نیک کام کی ابتداء کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ، مثلاً کچھ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اِس مہینے میں شادی بیاہ ، نئی رشتہ داری ، گھر ، زمین ، گاڑی کی خریداری وغیرہ اور کاروبار یا تجارت وغیرہ کا کوئی نیا سلسلہ شروع نہیں کرنا چاہیے ، یہ سب خیالات محض غلط خیالیاں ہیں ، کسی بھی مُسلمان کے لیے اُس کے اللہ ، اور اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے ، لہذا  اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے ، اِس مہینے میں بھی کوئی بھی کام کیا جا سکتا ہے ،نہ ہی حسین رضی اللہ عنہ ُ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت ، یا کسی بھی اور کی کسی بھی قِسم کی موت کے سبب اُس  کی موت والے دِن یا اُس کی موت والے مہینے میں کسی جائز کام سے رُکنے کی کوئی تعلیم دی گئی ہے ۔
:::::: ایک أہم مسئلے کے بارے میں وضاحت  ::::::
::::: دس محرم کا روزہ اکیلا نہ رکھا جانا افضل ہے  :::::
دس محرم کے دِن کا اکیلا روزہ رکھنے سے کہیں زیادہ افضل یہ ہے کہ اُس سے پہلے والے دِن یعنی نو محرم کا  روزہ بھی رکھا جائے ،
 کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کو دس محرم کا روزہ رکھنے کا فرمایا تو کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ """ یہودی اِس دِن کی تعظیم کرتے ہیں (یعنی تو بھلا کیا ہم اُن کی موافقت کریں ) """ ،
تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لأَصُومَنَّ التَّاسِعَ  :::اگر میں اگلے سال تک (دُنیا میں زندہ )باقی رہا تو میں ضرور نو (محرم ) کا روزہ (بھی )رکھوں گا)))))صحیح مُسلم /حدیث /2723 کتاب الصیام/باب20،
فقہا ء کرام کے اقوال و مباحث میں سے دُرُست ترین بات یہ ہی سامنے آتی ہے کہ اور یہ کہ ، دس محرم کا اکیلا روزہ رکھنا مکروہ نہیں لیکن چونکہ دس محرم  کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی مخالفت کرنا بھی مطلوب ہے ، لہذا اِس کی تکمیل کے لیے دس محرم کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ بھی ملایا جا سکتا ہے ،
لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نو محرم کو اختیار فرمایا اور اُس دِن کا روزہ رکھنے کا مصمم اِرادہ ظاہر فرمایا ، لہذا افضل وہی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اختیار فرمایا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے نو محرم کے دِن کو اختیار فرمانے میں ایک بڑی حِکمت یہ سُجھائی دیتی ہے کہ اس طرح بھی ہمیں نیکی کے کام میں تاخیر نہیں کرنے کی تعلیم و تربیت  عطاء فرمائی ہے ،
لہذا افضل یہی ہے کہ دس محرم کے روزے کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی ملایا جائے ،
اور یہ بات بھی خوب اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے کہ ہفتے کے دِن صِرف اور صِرف فرض روزہ ہی رکھا جا سکتا ہے ، اس موضوع کی مکمل تحقیق و تفصیل  میری کتاب""" ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا حکم""" میں موجود ہے ،
 کچھ لوگ اِس غلط فہمی کا شِکار ہوتے ہیں کہ یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر کافروں نے جو کام اب کرنا چھوڑ دیے ہیں ، اُن کاموں سے متعلقہ حکموں کی اب وہ حیثیت نہیں رہی ،
اور  اِسلامی کاموں سے منع رکھنے کے لیے ایک باطل فلسفہ یہ بھی رکھتے ہیں کہ اب جو کام یہودی اور عیسائی اور دیگر کافر بھی کرتے ہیں وہ کام مسلمانوں کو نہیں کرنا چاہیے ، مثلاً داڑھی رکھنا ، وغیرہ ،
ایسے لوگوں کے باطل فلسفوں اور اندھیری عقلوں کی ایسی ٹھوکروں کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ دِین کے احکام وہی ہیں جو اللہ اور اس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے دیے گئے ، اور وہ احکام قیامت تک کے لیے ہیں ، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ، اور نہ ہی اللہ کی طرف سے کسی پر کسی بھی طور کوئی وحی نازل ہونے والی ہے کہ وہ کوئی نیا حکم پا لے ، یا کسی سابقہ حکم کو مسنوخ کہہ سکے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، اور ہر کلمہ گو کو خصوصاً اور ہر ایک انسان کو عموماً حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اللہ کے سامنے حاضر ہونے کی توفیق عطاء فرمائے ، والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 01/Muharam/1429 ہجری/// 10/01/2008۔
تاریخ تجدید : 10/ZulHaj/1434 ہجری/// 15/10/2013۔
 اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہ محرم سے منسوب کر کے پھیلائی جانی والی کہانیوں کے بارے میں  کچھ تفصیل جاننے کے لیے ، درج مضمون کا مطالعہ اِن شاء اللہ مفید ہو گا :::
""" ماہِ محرم اور ہم، کہانیاں اور حقیقت """

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔