Sunday, November 17, 2013

::::::: تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے ؟ ::::::: How to get Taqwa ::::

٦ ٦ ٦  قران وسُنّت کے باغ میں سے ٥ ٥ ٥
::::::: تقویٰ کیسے حاصل کیا جائے ؟ :::::::
بِسمِ اللَّہ ،و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلَی مُحمدٍ الذّی لَم یَکُن مَعہ ُ نبیاً و لا رَسولاً  ولا مَعصُوماً مِن اللہِ  و لَن یَکُون  بَعدہُ ، و علی َ أزواجہِ و ذُریتہِ و أصحابہِ و مَن تَبِعھُم بِإِحسانٍ إِلیٰ یِوم الدِین ،
شروع اللہ کے نام سے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہواُس محمد پر ، کہ اللہ کی طرف سے نہ تواُن کے  ساتھ کوئی نبی تھا ، نہ رسول تھا، نہ کوئی معصوم تھا ، اور اُن کے بعد بھی ہر گِز کوئی ایسا ہونے والا نہیں ، اوراللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد رسول اللہ  کی بیگمات پر، اور اُن کی اولاد پر ،اور اُن کے صحابہ پر ، اور جو کوئی بھی ٹھیک طرح سے ان سب کی پیروی کرے اُس پر ۔
تقویٰ  کے پھل  اور متقی لوگوں کے لیے اللہ کے ہاں پائے جانے والے درجات اور انعامات کے بارے میں پڑھ سُن کر  اکثر  ہمارے اذاہان میں یہ سوال آتا ہے کہ تقویٰ حاصل کرنے کے لیے ، اپنے آپ میں تقویٰ لانے کے لیے ، ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟؟؟
آیے ، آج اِس سوال کا جواب  پانے اورسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، اِن شاء اللہ ،
لیکن اِس سے پہلے اِن شاء اللہ یہ بہتر ہو گاکہ ہم مختصر طور پر تقویٰ کی تعریف جان لیں ،
چونکہ بہت سے مختلف الفاظ و انداز میں اِس صِفت کی تعریفات ملتی ہیں ، لہذا ہم بات کو مختصر رکھنےکے لیے اُن تعریفات میں سے صِرف  دُرُست ترین  تعریفات کا  مجموعی مفہوم ذِکر کر تے ہیں ،
[[[الحمد للہ """ تقویٰ """ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون بعنوان"""تقویٰ، تعریف،مفہوم،نتائج اور ذرائع حُصول""" مارچ 2009 میں نشر کیا جا چکا ہے، تفصیلات کے لیے اُس مضمون کا مطالعہ اِن شاء خیر والا ہو گا، بلاگ میں اُس مضمون کا ربط یہ ہے: http://bit.ly/1EbqpSS  ]]]
:::::تقویٰ کا مفہوم ::::: یہ ہے کہ اللہ کی محبت  میں ، اُس سے ثواب کا یقین رکھتے ہوئے ، اور اُس کی ناراضگی اور عذاب کا خوف رکھتے ہوئے، اپنی زندگی کے ہر ایک معاملے میں اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کی جائے ، اور گناہوں اور برائیوں کو ترک کیا جائے۔
ایسا کرنے کے لیےہر ایک مُسلمان کو اِسلام کے بنیادی عقائد اور احکام کا عِلم حاصل کرنا ضروری ہے ، کہ اِس کے بغیر وہ نہ تو اپنے رب اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی ذات و صِفات کو صحیح  طرح پہچان سکتا ہے ،اور نہ ہی اللہ جلّ و عُلا کی طرف سے فرض کیے گئے حلال و حرام کو ، خیال رہے کہ میں بنیادی عقائد اور احکام کا عِلم حاصل کرنے کی بات کر رہا ہوں ،کسی کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ باقاعدہ عِالم دِین بننے کی بات کی جا رہی ہے ، کہ یہ نہ تو ہر ایک پر فرض ہے اور نہ ہی ہر ایک کے بس میں ہے ،
لیکن بنیادی عقائد اور احکام ، اور پھر حسب ضرورت اور موقع درپیش آنے والے معاملات کے احکام جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے ، جی ہاں اللہ کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ فرض فرما رکھا ہے (((((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ:::علم طلب کرنا ہر ایک مسلمان پر فرض ہے)))))سُنن ابن ماجہ /حدیث 229 /المقدمہ/باب39، فَضْلِ الْعُلَمَاءِ وَالْحَثِّ عَلَى طَلَبِ الْعِلْمِ،
لہذا محترم قارئین ، جان رکھیے اور  اپنی استطاعت کے مطابق اپنے دِین اِسلام کے بنیادی عقائد اور احکام کا عِلم حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے رہیے ، کہ اِس کے بغیر تقویٰ  کا حصول ممکن نہیں ،
جی تقویٰ کے نام پر کچھ بھی اور مل جائے گا لیکن وہ تقویٰ جو اللہ کے ہاں محبوب ہے ، اور جس کی مضبوطی اور بلندی کے مُطابق ہی اللہ کا قُرب ، اور اُس  کے ہاں درجات کی بلندیاں ملتی ہیں ، وہ تقویٰ قران کریم ، صحیح ثابت شدہ سُنّت شریفہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے متفقہ اقوال و افعال  کی  کسوٹیوں پر پورا اترنے والے عقائد و احکام کا علم حاصل کیے بغیر نہیں مل سکتا ،
شرعی علم کے ذریعے ہی ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اور صِفات کی دُرُست پہچان ہو سکتی ہے اور ہمارے دِلوں ، دِماغوں اور رُوحوں تک میں اللہ کی محبت ،اللہ کی رضا اور خوشی حاصل کرنے کی تڑپ ، اللہ کی جنّت پانے کا شوق،  اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کا خوف ،  قبر اور جہنم کی سختیوں ، اور ان سب سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے ،  
اور یہ بھی یاد رکھیے کہ اپنے رب اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں جاننے کی، اور اللہ کے احکام و فرامین کو جاننے اور سمجھنے کی  جتنی زیادہ کوشش کریں گے اسی قدر ہم اللہ کی راہ کی طرف ہدایت پائیں گے (((((وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ :::اور جو لوگ ہمارے لیے جدو جہد کرتے ہیں ہم یقیناً انہیں ہمارے راستے کی ہدایت دیتے ہیں ، اور یقیناً اللہ نیک کام  کرنے والوں کے ساتھ ہے)))))سُورت العنکبوت(29)/آیت 69،
اور یہ بھی یاد رکھیے کہ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ دِین کے نام پر غلط باتوں اور قصے کہانیاں سن کر بھی سننے والے کے دِل میں ابھی ابھی ذِکر کیے گئے جذبات میں سے کچھ جذبات آ جاتے ہیں، اور وہ بے چارہ خود ساختہ اور غلط عقائد اور عبادات کا شکار ہو جاتا ہے ،
اسی لیے میں بار بار یہ کہتا رہتا ہوں کہ ہر ایک مسلمان کو ہمیشہ اپنی استطاعت کے مطابق ہر ممکن کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ  اللہ کے دِین سے منسوب ایک چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی اچھی طرح سے تصدیق کرنے کے بعد قبول یا رد کرے ، محض حسن ظن ، مسلک ، مذھب اور جماعت وغیرہ کی ضد اور تعصب کی بنا پر نہیں ،
::::: پہلا معنوی ذریعہ ، صبر :::::
شرعی عِلم حاصل کرنے سے ہی ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اپنے اندر تقویٰ لانے اور قائم رکھنے کے لیے جو معنوی ذرائع (طریقے ، کام وغیرہ) اختیار کیے جانے چاہیں اُن میں سے ایک  بنیادی اور أہم ذریعہ """ صبر """ ہے ،
[[[ الحمد للہ ، صبر اور اس کے نتائج کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون """ صبر ، انتہائی میٹھے اور لذید پھلوں والا کڑوا کام : http://bit.ly/193xP6q """کافی عرصہ پہلے ، تقریباً جون 2009 میں نشر کر چکا ہوں ،
 اور کچھ عرصہ پہلے """ صبر اور شکوہ  : http://bit.ly/15iXDZ6 """کے بارے میں بھی ایک مضمون نشر کیا جا چکا ہے ، وللہ الحمد ]]]
 لہذا اِن شاء اللہ ، یہاں صبر  کے بارے میں کچھ تفصیل بیان نہیں کروں گا ،  بلکہ اِختصار کے ساتھ أجمالی بات ہو گی ، جو اِس وقت زیر مطالعہ موضوع کی حد تک درکار ہے ،
صبر کو سمجھنے کے لیے ہم تین بنیادی اِقسام میں تقسیم کرتے ہیں ،
::::: پہلی قِسم ::::: اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی  کے لیے صبر :::::
یعنی مُسلمان اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی  کے لیے اپنی جانی ، مالی، ذہنی ، جسمانی  اور باطنی خواہشات ، لذتوں  اور  آرام و سکون کو چھوڑے ، اور اِس تابع فرمانی کی تکمیل کے لیے مطلوب سختیاں اپنائے ، جیسا سردی کے موسم میں فجر کی نماز کے لیے گرم گرم بستر چھوڑ کر ٹھنڈ میں مسجد جانا ،
اپنے غریب مستحق مسلمان بھائیوں بہنوں کے لیے ، اللہ کے دِین کی سر بلندی کے لیے ،اپنی خواہشات بلکہ بسا اوقات ضروریات کو بھی پس پشت ڈال کر اپنے مال اور وقت میں سے خرچ کرنا ، وغیرہ ،   
:::::دوسری  قِسم ::::: گناہوں سے خود کو بچانے کے لیے صبر :::::
یعنی مُسلمان  خواہش ، دعوت اور مواقع موجود ہونے کے باوجود اپنے آپ کو گناہوں سے دُور رکھنے ، اور بچانے کے لیے اپنے نفس کو صبر کر مجبور کرے ،  جیسا کہ گناہ  اللہ کے نبی یُوسُف علیہ السلام نے گناہ کی خوبصُورت دعوت اور آزاد موقع ہونے کے باوجود صبر کیا اور خود کو گناہ سے بچائے رکھا ،
::::: تیسری قِسم ::::: اللہ کی مقرر کردہ تقدیر اور اللہ کے فیصلوں پر  صبر :::::
یعنی مُسلمان ، اپنی جان ، مال ، عِزت ، عزیز رشتہ دار، اور جو کچھ بھی اُسے اللہ نے دِیا ہے اُس میں آنے والی مصیبتوں ، پریشانیوں اور کمیوں پر صبر کرے، اور ایسی کسی بھی صُورت میں  اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود سے خارج نہ ہو ،  اور کوئی خوشی ملنے کی صُورت میں بھی اسی طرح اپنے نفس اور اِرد گِرد سےانسانی اور جناتی شیاطین کے ڈالے ہوئے وسوسوں اور عادات کے خلاف صبر کرے اور خود کو اُن کا شِکار نہ ہونے دے ۔
::::: دوسرا معنوی ذریعہ،نفس کے خِلاف  مستقل جِہاد  :::::  
صبر کی مذکورہ بالا اِقسام پر عمل کرنے کے لیے ہمیں مستقل طور پر اپنے اپنے نفس اور اُس پر وارد ہونے والے شکوک و شبہات اور وسواس کے خِلاف جِہاد کرنا لازم ہے ،
کہ اُس کی طرف سے خواہ کچھ بھی کہا جاتا رہے ، ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت میں اُن کی تابع فرمانی ہی کرتے رہنا چاہیے ، اور اُن کی نافرمانی کی طرف مائل بھی نہیں ہونا چاہیے ،
یاد رکھیے ، کہ ، مجاھدہء نفس ، یعنی نفس کے خِلاف جِہاد کی دو بنیادیں ہیں :::
::::: پہلی بنیاد ::::: نفس کو دِین کی صحیح تعلیم اور تربیت ، اور خیر کے کاموں کی تعلیم اور تربیت ، اور دِین سے منسوب نا دُرست غیر ثابت شدہ کاموں کی معرفت  ، اور شر والے کاموں کی معرفت  حاصل کرنے پر لگائے رکھنا ،
::::: دوسری بنیاد ::::: اور اِس حاصل کردہ صحیح تعلیم و تربیت  کے مطابق صحیح اور غلط کو پہچانتے ہوئے، خیر اور شر کو پہچانتے ہوئے ، صحیح اور خیر والے کام کرنے پر ، اور غلط اور شر والے کاموں سے روکے رکھنے پر نفس کو لگائے رکھنا،
یہ طریقے اور یہ انداز میری یا کسی اور کی ذاتی سوچ و فِکر کا شاخسانہ نہیں ہیں ، بلکہ ہمارے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ (((((الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ ، وَخَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ :::اوپر والا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ ) نیچے والے ہاتھ (یعنی لینے والے ہاتھ)سے خیر والا ہے، اور (اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے)اُس سے آغاز کرو جو تمہاری ذمہ داری میں ہے ، اور سب سے زیادہ خیر والا صدقہ (اللہ کی راہ میں خرچہ)وہ ہے جو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کی تکمیل کے بعد ہو ،اور جو کوئی عِفت طلب کرتا ہے تو اللہ اُسے عِفت عطاء فرماتا ہے ،  اور جو کوئی (غیر اللہ سے) غنی رہنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اُس غِناء عطاء فرماتا ہے)))))صحیح البخاری /حدیث /1427کتاب الزکاۃ     /باب 18،
اور جب ایک دفعہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کچھ مالی مدد طلب کی تو انہوں نے کچھ عطاء فرمایا، انصار نے پھر طلب کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے پھر عطاء فرمایا ، یہاں تک کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس تھا وہ ختم  ہو گیا  ، تواِرشاد فرمایا (((((مَا يَكُونُ عِنْدِى مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ ، وَمَا أُعْطِىَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ  ::: میرے پاس  خیر (مال و متاع) میں سے جو کچھ ہوتا ہے میں تُم لوگوں سے  اُس میں سے کچھ بچا نہیں رکھتا، (اور یاد رکھو کہ)جو کوئی عِفت طلب کرتا ہے تو اللہ اُسے عِفت عطاء فرماتا ہے ،  اور جو کوئی (غیر اللہ سے)غنی رہنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اُس غِناء عطاء فرماتا ہے، اور جو کوئی صبر کی کوشش کرتا ہے تو اللہ اُسے صبر دیتا ہے ،اور (اللہ کی طرف سے )کسی کو  جو کچھ عطاء ہوتا ہے اُس میں صبر سے زیادہ خیر اور وسعت والی کوئی چیز  نہیں))))) صحیح البخاری /حدیث /1469کتاب الزکاۃ     /باب 50،صحیح مُسلم /حدیث /2471کتاب الزکاۃ     /باب 43،صحیح بخاری میں الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ کچھ دیگر مقامات پر بھی یہ حدیث شریف منقول ہے ،
اور ایک اور موقع پر یہ تعلیم عنایت فرمائی کہ (((((إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ ، وَ إِنَّما الحِلمُ بالتَّحلُّمِ ، ومَن يَتحرَّ الخيرَ يُعطَهُ، ومَن يتوقَّ الشَّرَ يُوقَهُ::: بے شک عِلم طلب کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے ، اور بُردباری ، کرنے سے ہی آتی ہے ، اور جو کوئی خیر حاصل کرنے کی محنت کرتا ہے اُسے خیر دی جاتی ہے ، اور جو کوئی شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اُسے شر سے بچایا جاتا ہے)))))سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ و شیء من فقہھا /حدیث رقم 342،
رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عطاء کردہ اِن مذکورہ بالا تعلیمات کی روشنی میں ہمیں بالکل صاف اور واضح طور پر یہ سمجھ آیا کہ، عِفت ، دِل و مال کی تونگری ،  علم اور بُردباری کوشش کر کے حاصل کی جانے والی  صِفات ہیں ، اور اسی طرح شر سے بچنے کے لیے بھی کوشش کرنا لازم ہے ، یُوں ہی بلا کوشش اِن میں کچھ حاصل نہیں ہوتا ،
اور یہ سب چیزیں تقویٰ کے حصول کے لیے ضروری ہیں ،  کہ غیر ثابت شدہ باتوں ،فلسفوں ، خود ساختہ سوچوں ، باطل تاویلات ، عقلی قلا بازیوں اور گھن چکریوں ، قصے کہانیوں ، منطق و فلسفہ وغیرہ سے بچ کر  اللہ کے دِین کا صحیح عِلم حاصل کیا جائے ،جاھلوں ، اور غلط کاروں کے ساتھ بُردباری کرتے ہوئے بُردباری سیکھی جائے ، ہر ایک معاملے میں اپنی عِزت کو محفوظ رکھتے ہوئے عِفت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی رہے  ،اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد طلب کرنے سے بچا جائے ،
یہ کام ، یہ ذرائع تقویٰ حاصل کرنے اور پھر اُسے قائم رکھنے اور بڑھانے میں مدد کرنے والے ہیں ، اور جو کوئی جِس قدر زیادہ جدو جہد کرے گا اُسی قدر زیادہ تقویٰ حاصل کر پائے گا (((((وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ:::اور جن لوگوں نےہدایت پائی ،اللہ انہیں اور زیادہ ہدایت دی ، اور اُن لوگوں کو اُن (کے حصے )کا تقویٰ دِیا)))))سُورت محمد(47)/آیت17،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ، ہمارے عزیز و أقارب اور ہمارے مسلمان بھائیوں بہنوں کو تقویٰ پانے والوں اور تقویٰ کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ، والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت :14.01.1435ہجری،بمُطابق،17/11/2013عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مضمون کے ساتھ درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی ضرور فرمایے ، اِن شاء اللہ مزید خیر ہو گی :

:::::::تقویٰ، تعریف ، مفہوم ، نتائج اور ذرائع حُصول ::::::: 

http://bit.ly/1EbqpSS

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔