::::: کُفر
کیا ہے ؟تعریف و اقسام ، کِسی کلمہ گو کی تکفیر
:::::
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع
َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ
آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ
الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
میں
شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جُنون،اور
اُس کے دِیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اَشعار سے، سب کچھ
سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے
والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ
ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور(لیکن
اُس شخص نے)اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی
کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و
برکاتہُ ،
اِس مضمون میں اِن شاء
اللہ ، عنوان میں مذکور مسائل و معاملات
کے بارے میں بنیادی اور أہم معلومات مہیا کروں گا، لیکن اختصار کے ساتھ،
::: کُفر کا
لُغوی معانی اور مفہوم :::
::: (1)
::: کِسی چیز کو ڈھانپنا، کِسی چیز کو
چُھپانا، اِسی معنی ٰ اور مفہوم کی بِناء پر کاشت کار (کِسان ،
کھیتی باڑی کرنے والے)کو "کافر" کہا گیا ،
جیسا کہ اللہ عزّ و جلّ نے
اِرشاد فرمایا (((كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ::: اِس کی مثال (کسی بیجی گئی فصل پر ہونے والی )بارش کے جیسی
ہے کہ( جب بارش ہوتی ہے تو اُس بارش کی
وجہ سے اُگنے والی بوٹیوں (نباتات) کی وجہ سے زمین ڈھکی جاتی ہے تو )اُس بارش کی
وجہ سے ہونے والی بوٹیاں(نباتات)کاشت کاروں کو بھلی لگتی ہیں (اور وہ لوگ اُنہیں
دیکھ کر خوش ہوتے ہیں)))) سُورت الحدید(57)/ آیت20،
::: (2)
::: کِسی چیز کو جاننے کے بعد اُس کو نہ ماننا، اُس
کو رَد کرنا، اُس کا اِنکار کرنا (کُفر الجحود)،
جیسا کہ اللہ تبارک
وتعالیٰ نے اِرشاد فرمایا (((فَلَمَّا جَآءَهُم مَّاعَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ
عَلَى الْكَافِرِينَ ::: اور جب اُن لوگوں کے پاس وہ کچھ آیا جس
کے بارے میں وہ جانتے تھے (کہ یہ حق ہے)
تو اُن لوگوں نے اُس کا اِنکار کیا (اُسے نہیں اپنایا) لہذا (حق کو جاننے کے بعد
بھی اُس کا اِنکار کرنے والے اِن ) کافروں
پر اللہ کی لعنت ہے))) سُورت
البقرہ(2)/ آیت89،
::: (3)
::: کِسی معاملے ، کِسی شخص سے برأت کا اظہار ،
بری الذمہ ہونے کا دعویٰ ،
جیسا کہ اللہ جلّ جلالہُ
نے قیامت کے احوال کے ذِکر میں اِرشاد
فرمایا (((ثُمَ
يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا
وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَالَكُمْ مِّن نَّاصِرِينَ::: پھر
قیامت والے دِن تُم ایک دُوسرے کا اِنکار کرو گے ، اور ایک دُوسرے پر لعنت کرو گے،
اور تم سب کا ہی ٹھکانا جہنم ہے اور تم
لوگوں کا کوئی مددگار نہ ہو گا))) سُورت البقرہ(2)/ آیت89،
::: کُفر کا
اِسلامی اصطلاحی معنی : :::
اِسلامی اصطلاحات کے
مُطابق ، ہر وہ قول اور فعل جو إِیمان کے خلاف ہو ، کُفر ہے،
خواہ وہ قلبی ، یا ، ز ُبانی طور پر اِنکار کرنے اور جُھٹلانے کے ساتھ ہو، یعنی
اعتقادی کُفر ہو،
یا اِنکار کیے بغیر اور
جُھٹلائے بغیر، یعنی عملی کُفر، یعنی کِسی
کُفریہ کام کو کیا جانا ہو،
کِسی شک کی وجہ سے ہو،
یا تکبر ، أنا پرستی، آباء پرستی، شخصیت
پرستی، یا کِسی بھی اور سبب سے ہو،
پس کِسی اِنسان کا
کِسی بھی ایسی کِسی چیز، قول اور فعل پر اِیمان
نہ لانا ، جِس چیز ، قول، اور فعل پر اللہ تعالیٰ نے اِیمان لانے کا حکم دِیا ہو، کُفر
ہے، بشرطیکہ اُس پر اِیمان لانے کا حکم اُس شخص تک پہنچا ہو، پھر خواہ وہ شخص دِلی
طو رپر اُس پر اِیمان نہ لائے(یہ اعتقادی کُفر ہے)،
اور ، یا، حق کو جاننے کے
بعد بھی اُس کو قُبول نہ کرے، اُس کا قولی یا عملی طو ر پر اِنکار کرے، (کُفر الجحود، یہ بھی اعتقادی کُفر ہے)
یا صِرف ز ُبانی طور پر
اِیمان نہ لائے، لیکن قرائن سے پتہ چلتا ہو کہ وہ دِل میں حق قُبول کر چکا ہے،
لیکن کِسی سبب سے اُس کا اظہار و اقرار نہیں کرتا(یہ
ظاہری کُفر ہے، جو عملی کُفر میں شُمار ہوتا ہے )،
یا تینوں ہی معاملات ہوں ،
یا کوئی بھی ایسا کام کرے
، جِس کے بارے میں قران کریم یا صحیح ثابت شُدہ حدیث شریف میں یہ خبر آئی ہو کہ یہ
کام اِیمان کے خِلاف ہے اور یہ کام کرنے والا اِیمان والوں کی گنتی میں سے خارج ہو
جاتا ہے،
اور وہ
کام کرنے والا اِس حق کو جانتا ہو ، اور دِل میں اِس کا اعتراف کرتا ہو، لیکن اپنی ضِد ، عناد ، بغض ، تکبر، وغیرہ کی
وجہ سے اُس کے مُطابق عمل نہ کرے ، اِس کی
کچھ تفصیل اِن شاء اللہ آگے پیش کرتا ہوں،
پس اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ ، جہاں کہیں اِیمان
یا کُفر میں سے کوئی ایک بھی مکمل ، پُورے
کا پُورا موجود ہو گا ، وہاں دُوسرا نہیں
ہو گا، اور جہاں کہیں دونوں میں سے کوئی ایک جزوی طور پر ہو گا تو اُسی کی نسبت سے
دُوسرا بھی جزوی طور پر موجود ہو گا، دونوں
میں سے کِسی ایک کا مکمل اثبات نہ ہو گا ، اور نہ ہی مکمل نفی ، اور اِسی کے مُطابق کِسی کے مکمل اِیمان والا، کمزور یا نامکمل ایمان والا
، یا بغیر اِیمان والا ہونے کے بارے میں اندازہ کیا جائے گا ۔
::: کُفر کی دو
بنیادی اِقسام :::
::: ::: (1) ::::: الکُفر الأکبر ، کُفرء اکبر ( اعتقاد ، قول اور فعل تینوں ہی
اِس میں کچھ نہ کچھ حصہ پاتے ہیں) :::::
یہ وہ کُفر ہے ، جِس کا
مُرتکب اِسلام سے خارج سمجھا جاتا ہے،
:::
::: (2) ::::: الکُفر الأصغر (کُفر دُونَ کُفر ) ، کُفرء
اصغر (کُفر جو حقیقی کُفر نہیں ) :::::
یہ وہ کُفر ہے جِس کا
مرتکب اِسلام سے خارج نہیں سمجھا جاتا،
::: ::: (1) :::::
الکُفر الاکبر ، کُفرء اکبر کی
اقسام :::::
::: (1-1) ::: کُفر التکذیب ::: اِنکار
کرنے پر مبنی ، جُھٹلانے والا کُفر :::
یہ وہ کُفر ہے جِس میں کوئی اِنسان ، اللہ عزّ و جلّ کے کِسی
قول کو ماننے سے اِنکار کرتا ہے، یا اُس کو غلط کہتا ہے،
::: دلیل ::: اللہ عزّ و جلّ کا فرمان مُبارک (((وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى
اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ
مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ ::: اور اُس سے بڑھ کر
(اپنی ہی جان پر)ظُلم کرنے والا اور کوئی نہیں ، جو ، اللہ سے جھوٹی بات منسوب
کرتا ہے، یا اُس کے پاس (اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے )حق کے پہنچ جانے
پر ، اُس حق کو جُھٹلاتا ہے، کیا(
یہ کُفر کرنے والے) کافروں کا ٹِھکانا جہنم نہیں ہے )))سُورت العنکبوت (29)/آیت68،
::: (1-2) ::: كُفر
الإباء والإستكبار مع التصديق (کُفر الجحود) ::: حق جاننے کے باوجود ، تکبر اور نافرمانی کی
بِناء پر کیے جانا والا کُفر :::
یہ وہ کُفر ہے جِس میں اِنسان حق بات کو مانتا تو ہے، لیکن
کِسی تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تابع فرمانی کرنےسے انکار کرتا ہے ، اور اللہ
تعالیٰ کی تابع فرمانی کی بجائے اللہ کی نا فرمانی کرتا ہے،
:::
دلیل ::: اللہ عزّ و جلّ کا فرمان
مُبارک (((وَإِذْ
قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى
وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ::: اور جب ہم نے
فرشتوں سے کہا کہ ، آدم کو سجدہ کرو، تو
سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے، اُس نے حکم ماننے سے اِنکار کیا ، اور
تکبر کیا اور کافروں میں سے ہوگیا ))) سُورت البقرہ
(2)/آیت34،
:::
دلیل ::: اللہ پاک کا فرمان مُبارک (((فَلَمَّا
جَاءَتْهُمْ آيَاتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُبِينٌ O وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا
وَعُلُوًّا فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ::: اور
جب اُن لوگوں کے پاس ہماری واضح نشانیاں
آئِیں (تو )کہنے لگے یہ تو کُھلا
جادُو ہے O اور (حق جاننے کے بعد بھی اپنی ) ضِد
(ہٹ دھرمی ، نا انصافی) اور تکبر کی وجہ سے
ہماری اُن آیات کا
اِنکار کیا ، جبکہ اُن کے دِل اُن آیات کے حق ہونے کا یقین پا
چکے تھے، پس آپ دیکھیے کہ فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا ہے ))) سُورت
النمل (27)/آیات13،14،
::: (1-3) ::: كُفر
الشک (کُفر الظن )::: کِسی شک ، گُمان
یا خود فہمی کی وجہ سے کیا جانے والا
کُفر :::
یہ وہ کُفر ہے جِس میں اِنسان کِسی شک، کِسی گُمان ، کِسی خود فہمی وغیرہ کی
بِناء پر حق بات کو نہ مانے ،
:::
دلیل ::: اللہ عزّ و جلّ کا فرمان
مُبارک (((وَدَخَلَ
جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هَذِهِ
أَبَدًا (35) وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِنْ رُدِدْتُ إِلَى رَبِّي
لَأَجِدَنَّ خَيْرًا مِنْهَا مُنْقَلَبًا (36) قَالَ لَهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ
يُحَاوِرُهُ أَكَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ
ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا (37) لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ
بِرَبِّي أَحَدًا::: اور وہ ( حق کے بارے میں بد گمانیوں کی
وجہ سے ) اپنی جان پر ظُلم کرنے والا بنا ہوااپنے باغ میں داخل ہوا تو کہا ، میرا
خیال ہے کہ یہ کبھی بھی خراب (یا برباد
)نہ ہو گا O
اور میرا خیال ہے کہ قیامت کبھی قائم نہ ہو گی، اور اگر میں اپنے رب کی طرف پلٹایا
بھی گیا تو مجھے اِس سے بھی زیادہ شاندار جگہ پاؤں گا O
اُس کے ساتھی نے جو اُس نے بات چیت کر رہا تھا، اُسے کہا، کیا تُم (اُس) اللہ
سے کُفر کر رہے ، جِس نے (پہلے تو )تمہیں
مٹی سے تخلیق کیا، اور پھر نُطقہ بنایا،
اور پھر ایک ٹھیک ٹھاک مکمل مَرد بنایا
O لیکن (میں ایسا نہیں کرتا، کیونکہ ) وہ اللہ ہی میرا رب ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کِسی کو شریک نہیں
کرتا))) سُورت الکھف
(18)/آیات35تا 38،
::: (1-4) ::: كُفر
الإستھزاء باللَّہ، و آیاتہ، و رسولہ ، و بالدِین اللَّہ ::: اللہ تبارک و
تعالیٰ کا ، اللہ تعالیٰ کی آیات کا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ،
اللہ کے دِین کا ، دِین کے کِسی بھی حکم اور معاملے کا مذاق اُڑانے کا کُفر :::
:::
دلیل ::: اللہ عزّ و جلّ کا فرمان
مُبارک (((وَلَئِنْ
سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ
وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ O لَا تَعْتَذِرُوا
قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ::: اور اگر آپ اِن سے (اِن کی گفتگو کے بارے میں )پوچھیے ، تو
یہ لوگ یہی کہیں گے کہ، ہم تو صِرف دل لگی اور ہنسی مذاق کر رہے تھے، فرمایے (اے
محمد) کیا تُم لوگ اللہ سے،اور اُس کی آیات سے، اور اُس کے رسول سے ہنسی مذاق کر رہے تھے O اب کوئی عُذر (بہانے ، تاویلات وغیرہ ) مت پیش کرو
، اِیمان لانے کے بعد تم لوگ (یہ ہنسی
مذاق کر کے) یقینی طور پر کُفر کر چکے ہو)))سُورت التوبہ (9)/آیات 65،66،
اِس آیت کریمہ میں یہ بھی
سمجھا دِیا گیا ہے کہ اللہ عزّ و جلّ، اُس کے کلام پاک، اُس کے رسول کریم
محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا مذاق
اُڑانا، اور اُن میں سے کِسی کے بارے میں بھی کوئی بھی ایسی بات کرنا جو اُن کے
شایان شان نہ ہو، گو کہ بظاہر عملی کُفر ہے ، لیکن دِلوں کے حال جاننے والے
اللہ العلیم بما فی الصُدور، نے ایسا کرنے
والوں کا کوئی عُذر قبول کرنے سے اِنکار فرما کر اُن کے اِس عمل کو کُفر ہی قرار
دِیا ہے،
پس یہ اعمال ، اور اِس
جیسے دیگر اعمال جن میں اللہ تعالیٰ کی، اُس کی آیات کی ، اُس کے رسول کریم محمد
صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ، یا اُن میں سے کِسی ایک کی بھی توہین کا کوئی
پہلو بھی ہو ، ایسے تمام اعمال کُفر اعتقادی کے مظہر مانے جائیں گے، اور ایسا کرنے
والے کو کافر سمجھا جائے گا، کوئی عُذر قابل قبول نہیں ہو گا،
اگر کِسی دِین دار مُسلمان کا مذاق اُڑایا جائے ،
تو اِس معاملے کو دو پہلوؤں سے دیکھا جاتا ہے،
::: (1) ::: دِین کے احکام اور شعائر
کا مذاق اُڑانے کے لیے اُس شخص کو مذاق کا نشانہ بنا گیا ہو، تو یہ مذکورہ بالا """استھزا ء بالدِین """
کے حکم میں آئے گا ، اور ایسا کرنے والا کافر قرار دِیا جائے گا ،
::: (2) ::: اگر
کِسی شخص کو شخصی طور پر اُس پر ظاہر ہونے
والے دِینی اعمال کے ذریعے مذاق کا نشانہ بنایا جائےتو یہ """فِسق
""" ہے، اِس کا فاعل گناہ گار تو یقینی ہے، لیکن کافر قرار نہیں
پائے گا ۔
::: (1-5) ::: كُفر
الإِعراض ::: حق سے منہ ُ پھیرنے ، اُسے قبول کرنے سے باز رہنے، اور
اُس قابل توجہ نہ سمجھنے کی وجہ سے کیا جانے والا کُفر :::
"""الإِعراض """ کے مفہوم میں وہ تینوں
کیفیات آتی ہیں ، جن کا ذِکر اوپر والی دو سطروں میں کیا گیا ہے، پس کُفر الاِعراض کِسی حق کو جان کر بھی اُس سے رُو گردانی کرنا،
اور اُس حق کو قُبول کرنے سے رُکے رہنا، اور اُس حق سے لا پروائی کرنا ، اور اُسے قابل توجہ نہ سمجھنا ہے
،
:::
دلیل ::: اللہ عزّ و جلّ کا فرمان
مُبارک (((وَالَّذِينَ
كَفَرُوا عَمَّا أُنْذِرُوا مُعْرِضُونَ::: اور کافروں کو
جِس چیز سے ڈرایا جاتا ہے اُس سے منہ ُ پھیر لیتے ہیں ))) سُورت
الاحقاف (46)/آیت3،
::: کُفر الاِعراض کو پھر
مزید دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے :::
::: (1-5-1) ::: كُفر
الإِعراض کی پہلی قِسم :::
اس پہلی قِسم میں کچھ تفصیل شامل ہوتی ہے ، جِسے سمجھنے کے
لیے اِس کو مزید کچھ اِقسام میں تقسیم کیا
جاتا ہے،
::: (1) ::: اللہ تعالیٰ کی بات سُننے ، اور اللہ کے دِین کی باتیں سُننے سے اِعراض :::
یہ کہ جب کِسی کو اللہ
تبارک و تعالٰی کی ، یا دِین سے متعلق کوئی بات سُنائی جائے تو وہ منہ ُ پھیرے، بے
زاری کا اظہار کرے،
::: (2) :::
دِین کا عِلم حاصِل کرنے سے اِعراض :::
کوئی مُسلمان استطاعت اور ضرورت ہونے باوجود دِین کے بنیادی احکام کا عِلم حاصل نہ کرے، اور جو کچھ عِلم حاصل کر
لے تو پھر اُس پر بالکل کوئی عمل ہی نہ کرے، اور اُسے یہ فِکر ہی نہ ہو کہ اُس نے
دِین میں کیا سیکھا ہے اور کیا چھوڑا ہے، اور جو سیکھا ہے وہ ٹھیک سے بھی سیکھا ہے
یا کچھ بھی ملا تو اُسے اپنا لیا ،
جبکہ ہر مُسلمان پر فرض ہے
کہ وہ اپنی استطاعت کے مُطابق چھان پھٹک کر ، دِین کے بنیادی احکام ،اور خود کو پیش آنے والے
مسائل کے بارے میں دِینی احکام کا عِلم
حاصل کرے، اور اُن کے مُطابق عمل کرے ،
::: (3) ::: دِینی
احکام پر ، اور حاصِل کردہ دِینی عِلم پر عمل کرنے سے اِعراض :::
جِسے اِسلام سے منسوب ہونے کے باوجو، یہ پرواہ ہی نہ ہو کہ وہ کیا کچھ حرام
کرتا ہے، اور دِین کے احکام میں سے کیا
کچھ کِسی جائز شرعی عُذر کے بغیر چھوڑتا ہے،
اور دِین کے فرائض و واجبات میں سے کن پر عمل کرتا ہے اور کن پر نہیں،
اِس کفیت کو
"کُفر الاستخفاف ، یعنی، (دِین کے
کاموں اور معاملات کو ) ہلکا ، حقیر، اور غیر ضرروی وغیر ہ سمجھنے کا کُفر "
خیال رہے کہ، اچھائی
اور خیر والے ایسے کام جو کہ سب ہی اِنسان
کرتے ہیں، اور اُن کاموں کو اِسلام میں
بھی نیکی قرار دِیا گیا ہے ، ایسے کام کرنے سے کوئی "کُفر الاِعراض " سے محفوظ نہیں ہو جاتا، جیسا کہ کِسی غریب کی مدد کرنا، مریض کی
تیمار داری کرنا، راستے میں سے تکلیف دہ چیز ہٹانا وغیرہ،
بلکہ کوئی مُسلمان "کُفر الاِعراض " سے
اُس وقت محفوظ ہوتا ہے جب وہ اللہ پر
اِیمان رکھتے ہوئے ، اور اُسی کی رضا کے حصول کی نیت سے ، شریعت اِسلامیہ میں
فرض قرار دیے کام کرتا ہو، جیسا کہ نماز
پڑھنا، زکوۃ دینا، حج کرنا، اللہ کی راہ میں جِہاد کرنا، اور اِسی طرح کے وہ سب کام جو فرض قرار دیے گئے،
اور منع کیے گئے کاموں سے باز رہتا ہو، جیسا
کہ بے حیائی، بے پردگی، شراب خوری، زِنا، کِسی کی جان ، مال عِزت میں تصرف، اور
اِسی طرح کے دیگر کام جِنہیں کرنے سے منع کیا گیا ہو،
::: (4) ::: اللہ عزّ و جلّ کے احکام پر بالکلیہ ہی عمل کرنے سے اِعراض :::
یعنی ، اللہ تبارک و
تعالیٰ کے احکام کو جاننے کے بعد ، اُن
میں سے کِسی ایک پر بھی ، کبھی بھی عمل نہ کرنا، مثلاً کوئی مُسلمان ، نماز، روزہ
، حج ، زکوۃ ، جِہاد، کے بارے میں ،اور دیگر معاملات میں شریعتءِ اِسلامیہ کے احکام
جانتا ہو، لیکن اُن میں کِسی پر بھی کبھی
بھی عمل نہ کرتا ہو،
::: (5) ::: اللہ
کے احکام کو نافذ کرنے سے اِعراض :::
یعنی، اللہ تعالیٰ کے
احکام ، اُس کی نازل کردہ شریعت کو جاننے
کے بعد بھی ، لوگوں کے
بنائے ہوئے (وضعی ) قوانین کو اللہ کی شریعت کے احکام سے بہتر سمجھتا ہو ،
اور اِسی وجہ سے اللہ کی شریعت پر عمل کرنے اور اُس کا نفاذ کرنے میں مددگاری کرنے
کی بجائے لوگوں کے بنائے قوانین کو نافذ کرنے اور کروانے کی کوشش کرتا ہو،
اور
اُس شخص کے بارے میں یہ یقین ہو جائے ، ثابت ہو جائے کہ وہ اِنسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کو اللہ اور اُس
کے رسول کریم کے بنائے ہوئے قوانین یعنی
اِسلامی شریعت سے بہتر سمجھتا ہے تو اُس شخص کو مُسلمان نہیں مانا جا ئے گا،
رہا
معاملہ ، کِسی ایسے شخص کا جو اللہ کی نازل کردہ
شریعت کو ہی بہتر افضل و اعلیٰ
مانتا ہو، سمجھتا ہو ، لیکن کِسی قِسم کے
فلسفے، منطق، نظریے وغیرہ سے متاثر ہو کر ،
اُس کے نفاذ کی کوشش نہ کرتا ہو، تو ایسے شخص کو اُمتء اِسلامیہ سے خارج
نہیں سمجھا جائے گا ۔
::: (1-5-2) ::: كُفر
الإِعراض کی دُوسری قِسم :::
کوئی مُسلمان اللہ کے
احکام میں سے ، اللہ کی شریعت میں مقرر کردہ فرائض و واجبات میں سے کچھ پر عمل کرے
اور کچھ پر نہ کرے ، ایسا کُفر
الاِعراض اِسلام سے خارج کرنے کا سبب نہیں
ہوتا۔
::: (1-6) ::: كُفر
النِفاق ::: مُنافقت پر مبنی
کُفر :::
یعنی، بظاہر خود کو مُسلمان ظاہر کرنا، ز ُبان سے اِیمان کا اظہار
کرنا ، اور اِسلام کے مُطابق زندگی بسر کرتے ہوئے دِکھائی دینا، لیکن دِل نہ تو
کوئی اِیمان ہو، اور نہ ہی اِسلام ،
::: دلیل ::: اللہ سُبحانہ
ُو تعالیٰ کا فرمان مُبارک ((( وَمِنَ النَّاسِ
مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَO يُخَادِعُونَ اللَّهَ
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَOفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ
اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ::: اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں ، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم
اللہ پر اور قیامت کے دِن پر اِیمان لائے،
اور (درحقیقت ) وہ لوگ اِیمان والے نہیں O (یہ لوگ
اپنے گُمان میں) اللہ کو ، اور
اِیمان لانے والوں کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن (حقیقت میں) یہ لوگ خود اپنے آپ کو ہی دھوکہ دیتے ہیں ، مگر اِس کا احساس نہیں
رکھتے O اِن لوگوں کے دِلوں میں بیماری ہے، پس (اِن کی
منافقت کی وجہ سے) اللہ اِن کی بیماری کو بڑھا
تا ہے، اور اِن کے (حق کو )
جُھٹلانے کی وجہ سے اِن لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے ))) سُورت البقرہ(2) /آیات 8تا10،
:::
::: (2) ::::: الکُفر الأصغر (کُفر دُونَ کُفر ) ، کُفرء
اصغر (کُفر جو حقیقی کُفر نہیں ) :::::
ایسے کام جنہیں قران اور
صحیح ثابت شُدہ احادیث شریفہ میں """کُفر """ کہا
گیا ، لیکن اُن کاموں کو کرنے والے کو کافر نہیں کہا گیا ، مثلاً
:::
:::
::: (1) ::::: (((وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا
قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ
مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ
وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ::: اور اللہ تعالیٰ
اُس بستی (والوں)کی مثال دیتا ہے جو امن کی حالت میں تھی اور اطمینان میں تھی
اُسکو اُس کا رزق ہر طرف سے بہت وافر ملتا تھا تو اُس بستی (والوں)نے اللہ کی
نعمتوں کا کُفر کیا تو اللہ نے اُن کے کاموں کی وجہ سے انہیں بھوک اور خوف کے لباس
کا ذائقہ چکھا دیا )))سُورت النحل(16)/آیت 112 ،
::: :::
(2) :::::
((( مَن اَتَی
عَرَّافاً اَو کَاھِناً فَصَدَّقَہ ُ فِیمَا یَقُولُ فَقَد کُفر بِمَا اُنزلَِ
عَلیَ مُحمَدٍ:::
جو کِسی (غیب کی خبر بتانے )کے دعویٰ دار یا
نجومی کے پاس گیا ، اور اُس کی کہی ہوئی بات کو دُرُست مانا ، تو اُس دُرُست ماننے
والے نے جو کچھ مُحمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل کِیا گیا اُس کا کُفر کیا)))المستدرک
الحاکم / حدیث 15، اور اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا حدیث صحیح ہے،صحیح الترغیب
و الترھیب 3047،
:::
::: (3) ::::: ((( مَن حَلَفَ بِغَیرِ
اللَّہِ فَقَدكَفَرَ أَوْ أَشرَکَ:::جِس نے اللہ کے
عِلاوہ کِسی اور کی قسم اُٹھائی تو اُس نے(اللہ کےساتھ) کُفر کیا ، یا ، شرک کیا )))سُنن الترمذی/حدیث/1535کتاب النذور الایمان/باب8،مُسند
أحمد/حدیث329،المُستدرک الحاکم/ حدیث168، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نےصحیح قرار
دِیا/ الإرواء الغلیل / حدیث2561۔
::: :::
(4) :::::
((( سباب المُسلم فُسُوقٌ و
قِتاله ُ کُفر ::: مُسلمان کو
گالی دینا فِسق هے اور اُس سے جھگڑا کرنا کُفر هے ))) مُتفقٌ علیہ، صحیح البخاری/حدیث48 /کتاب
الایمان /باب36، صحیح مُسلم/حدیث230 /کتاب الایمان /باب30،
اِسی حدیث کا
ذِکر کرنے کے بعد إِمام ابن القیم رحمہُ اللہ نے لکھاکہ
""" ففرق بين قتاله وسبابه وجعل احدهما فسوقا لا يكفر به والآخر كفر
ومعلوم أنه و إنما أراد الكفر العلمي لا الاعتقادي وهذا الكفر
لا يخرجه من الدائرة الأسلامية والملة بالكلية كما لا يخرج الزاني والسارق والشارب
من الملة وإن زال عنه اسم الإيمان ، وهذا
التفصيل هو قول الصحابة الذين هم اعلم الأمة بكتاب الله وبالاسلام والكفر
ولوازمهما فلا تتلقى هذه المسائل إلا عنهم :::
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی
آلہ وسلم نے کِسی مُسلمان سے لڑائی کرنے ،
اور اُسے گالی دینے میں فرق فرمایا ہے،
اور دونوں کاموں میں سے ایک کو فسق قرار دِیا ہے، جس کی وجہ سے وہ کام کرنے
والے کو کافر قرار نہیں دیا جاتا، اور
دُوسرے کام کو کُفر فرمایا ہے، اور یہ( اچھی طرح سے) سمجھ میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے
(یہ فرق ظاہر فرما کر ، مسلمان سے لڑائی کرنے کو ) عملی کُفر
مُراد لیا ہے، نہ کہ اعتقادی کُفر،
اور یہ (سمجھایا ہے کہ
)عملی کُفر ، عمل کرنے والے کو دائرہ اِسلام سے ہی خارج کرنے کا سبب نہیں ہوتا،
جیسا کہ ، زِنا کرنے والا،
اور چوری کرنے والا، اور شراب پینے والا (یہ کُفریہ عمل کرنے کی وجہ سے) مِلت سے
خارج نہیں ہوتا، خواہ اُس کی شخصیت کے
ساتھ (مکمل) صاحبءِ اِیمان ہونے کی نسبت باقی نہ رہی ہو ، (پھر بھی وہ مُسلمان ہی
سمجھا جائے گا)، یہ تفصیل صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے قول کے مطابق ہے، جو کہ اللہ
کی کتاب کو، اِسلام کو ، اور کُفر اور اُس سے متعلقہ مسائل کو ساری اُمت میں سے سب
سے زیادہ سمجھنے والے تھے، لہذا ایسے مسائل سوائے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے
کِسی بھی اور سے نہیں سمجھے جا نے
چاہیے """ الصلاۃ و حکم تارکھا /فصل نوعي الکُفر،
::: :::
(5) ::::: ((( لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِى كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ
بَعْضٍ:::
میرے بعد کُفر کرنے والے نہ ہو جانا، کہ ایک
دُوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو )))مُتفقٌ علیہ، صحیح البخاری /حدیث6868 /کتاب الدیات
/باب2،صحیح مُسلم/حدیث232 /کتاب الایمان /باب31،
:::
::: (6) ::::: (((وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ
الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا
عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ
اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ
اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ O إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ
وَٱتَّقُوا ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ::: اور اگر مُسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے
درمیان صُلح کرا دو ، اور اگر اُن میں سے ایک گروہ دُوسرے گروہ پر ظلم کرے تو اُس ظُلم و زیادتی کرنے والے گروہ سے لڑائی کرو، یہاں تک کہ وہ الله کے
حکم کی طرف رُجوع کرلے ، اور پھر اگر وہ رُجوع کرلے تو اُن دونوں میں اِنصاف کے
ساتھ صُلح کراو دو اوراِنصاف کرو بے شک
الله انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے O یقیناً اِیمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہذا تُم لوگ
اپنے بھائیوں کے درمیان اِصلاح کرواؤ، اور الل (کی ناراضگی اور عذاب )سے بچو
، تا کہ تُم لوگوں پر رحم کیا جائے)))
سُورت الحُجرات (49)/آیات 9 ،10،
سُورت الحُجرات کی مذکورہ
بالا دو آیات شریفہ سے پہلے نقل کردہ حدیث
شریف میں مُسلمانوں میں سے ایک دُوسرے سے لڑنے والوں کو کافر کہا گیا، اور اِس آیت
شریفہ میں اُنہیں مسلمانوں میں ہی شُمار رکھا گیا، جو اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ
ایسا کُفر ہے جِس کا عامل کافر نہیں ہو جاتا ،
اُمت سے خارج نہیں ہو جاتا ،
اِسے ہی کُفر أصغر ، کُفر
دُونَ کُفر کہا جاتا ہے ،
:::
::: (7) :::::
(((إِذا قَالَ الرَّجُلُ لِأخِیهِ '' یا کافِر '' فَقَد باءَ بِها
أحدهُما فَإِن کَانَ کَما قَالَ وَ إِلا رجعَت عَلِیهِ ::: اگر کوئی اپنے (مُسلمان )بھائی کو کافر کهتا هے تو (یه بات
)دونوں میں سی کِسی ایک پر ضرور سچی هو جاتی هے اگر تو وه جِسے(کافر)کہا گیا هے
ویسا نهیں ہےتو وہ بات کہنے والے پر پوری هو جاتی هے)))صحیح البُخاری/حدیث2014/ کتاب الأدب /باب 73 ، صحیح مُسلم /حدیث 60،
شیخ الاسلام حقاً ، إِمام ابن تیمیہ رحمہُ اللہ
نے اِس حدیث شریف کا ذِکر کرتے ہوئے کہا """ فَقَدْ سَمَّاهُ أَخَاهُ حِينَ الْقَوْلِ ؛ وَقَدْ
أَخْبَرَ أَنَّ أَحَدَهُمَا بَاءَ بِهَا فَلَوْ خَرَجَ أَحَدُهُمَا عَنْ
الْإِسْلَامِ بِالْكُلِّيَّةِ لَمْ يَكُنْ أَخَاهُ بَلْ فِيهِ كُفْرٌ::: رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلی آلہ وسلم نے کِسی مُسلمان کو کافر کہنے والے مُسلمان کو ، یہ بات کہتے
ہوئے اُس مُسلمان کا بھائی کہا ہے، اور یہ خبر بھی کی ہے کہ کافر ہونے کی بات اُن
دونوں میں سے کِسی ایک پر واقع ہوہی جائے گی ،پس اگر اُن دونوں میں سے کوئی ایک
بھی بالکلیہ اِسلام سے خارج ہوتا ہو ، تو پھر
وہ دُوسرے مُسلمان کا بھائی تو ہوا، بلکہ اُس میں تو کُفر واقع ہو گیا """
مجموع الفتاویٰ /الایمان/کتاب الایمان الکبیر/فصل ھل یجتمع
فی العبد ایمان و نفاق ؟ بیان الأقوال فی ذلک ،
اِس طرح کی اور مثالیں بھی میسر ہیں ، اُمید
ہے کہ اِن شاء اللہ یہاں زیر مطالعے مسئلے کو سمجھنے کے لیے اتنی کافی ہیں ،
:::
::: (2) ::::: کُفر
اکبر، اور ، کُفرء اصغر میں فرق کیسے سمجھا جاتا ہے ؟ :::::
مذکورہ بالا آیات اور
احادیث شریفہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جِسے قران کریم یا صحیح ثابت شُدہ احادیث شریفہ میں کُفر کہا
گیا ہو، وہ کام کرنے والا مُسلمان، محض وہ
کام کے کرنے کی وجہ سے کافر نہیں ہو جاتا ، اُمت سے خارج نہیں ہو جاتا ،
بلکہ سیاق و سباق کے
مُطابق یہ سمجھنا چاہیے کہ اُس کُفر سے مُراد کُفر اکبر ہے ، یا کُفر أصغر ،
پس یہیں سے کُفر اعتقادی ،
اور کُفر عملی کا فرق بھی نمایاں ہو جاتا ہے،
اور اإسی کے مُطابق کِسی کلمہ گو کے بارے میں یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے
کہ وہ مُسلمانوں میں شُمار ہو گا کہ اُمت سے خارج۔
::::::: کلمہ گو کی تکفیر ::::::::
ہماری اپنے دِین کے قواعد
و ضوابط سے لا علمی کی وجہ سے،اور دِین کو اپنی سوچ، عقل ، فِکر، محدود مطالعے،
مختلف فلسفوں ، اور منطقوں وغیرہ کے مُطابق سمجھنے کی وجہ سے ، ہم مُسلمانوں پر ایک مُصیبت یہ بھی ٹوٹی پڑی ہے
کہ ہم کِسی بھی کلمہ گو کو کِسی کُفریہ ، شرکیہ یا بِدعت والے عمل کا شِکار دیکھتے
ہیں تو اُسے کافر، مُشرک، بدعتی وغیرہ قرار دینے میں کوئی تاخیر و تردد نہیں کرتے،
جبکہ یہ انتہائی غلط ہے،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے
عِلاوہ کوئی بھی کِسی کے دِل کے احوال نہیں جانتا، پس کِسی کلمہ گو کِسی کُفریہ ، شرکیہ یا بِدعت والے عمل میں
ملوث دیکھ کر ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ
فُلاں شخص فُلاں کُفریہ ، یا ، شرکیہ یا
بِدعت والا عمل کرتا ہے، اُس کا فلاں کام کُفر ہے، فلاں کام شرک ہے، فلاں کام بدعت
ہے ، لیکن اُس شخص کو اُس وقت تک کافر، یا مُشرک یا بدعتی نہیں کہہ سکتے جب تک کہ
ہمیں اُس کے بارے میں یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ شخص اپنے اُس کُفریہ ، شرکیہ اور
بدعتی عمل کی حقیقت جان چکا ہے ، اور پھر بھی اُس کا عامل ہے ،
پس ، ہمیں کِسی کلمہ گو کو
کِسی کُفریہ ، شرکیہ یا بدعت والے عمل میں
ملوث دیکھ کر اُس پر کافر، مُشرک یا بدعتی ہونے کا فتویٰ داغنے سے پہلے اُس کے دِل
کی حالت جاننا لازم ہے، اور اُس پر اُس کے اِن اعمال کے بارے میں اتمام حجت کرنا
لازم ہے،
کُفر اصغر کے باب میں ذِکر
کردہ چوتھی حدیث کی شرح میں إِمام ابن القیم رحمہُ اللہ کا جو قول نقل کیا گیا ہے
وہ بڑی وضاحت سے یہ سمجھاتا ہے کہ """کُفر عملی اور کُفر
اعتقادی ، د و الگ الگ معاملات ہیں ، لہذا اِس فرق کو بہت ہی اچھی طرح سے سمجھنا چاہیے، اور اِس فرق کا مکمل
طور پر لحاظ رکھتے ہوئے کِسی کلمہ گو کے کِسی کُفریہ ، شرکیہ یا بدعتی عمل کی
بِناء پر اُس پر کافر ، مُشرک کا بدعتی ہونے کا حُکم صادر کرنے میں انتہا ء درجے
کی احتیاط کرنا چاہیے """
إِمام صاحب رحمہُ اللہ نے
جو کچھ """ الصلاۃ و حکم تارکھا /فصل نوعي الکُفر """میں کہا ہے ، وہ سب کچھ بہت
توجہ، تحمل اور تدبر سے پڑھے اور سمجھے جانے کی ضرورت ہے،
میں طوالت کے ڈر سے اُسے
یہاں نقل نہیں کر رہا ، لیکن تمام قارئین کرام سے خصوصی گذارش کرتا ہوں کہ اُس کا
مطالعہ ضرور فرمائیں ۔
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ
ہم سب کو اُس کے دِین کے ہر ایک معاملے کو اُس کے ، اور اُس کے خلیل محمد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود میں رہ کر ، اور اُس کے چُنیدہ پاکیزہ بندوں صحابہ رضی
اللہ عنہم اجمعین کے فہم کے مُطابق سمجھنے
اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء
فرمائے۔
والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 19/12/1437ہجری، بمُطابق،20/09/2016عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل
ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔