Tuesday, September 6, 2016

::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلِہ وسلم کی سیرت مُبارک ( مُختصراً ) 2 :::::


:::::  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلِہ وسلم کی سیرت مُبارک ( مُختصراً ) :::::

::::: (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِخلاق مُبارک کی چند جھلکیاں ، دیکھیے اور انہیں اپنایے :::::


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ           
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
::::::تحمل و بُردباری اور برداشت کرنا، اور قُدرت ہونے کے باوجود معاف کرنا ، اور سختیوں اور مظالم پر صبر کرنا ، اور اپنے پاس ہونے نہ ہونے کا احساس رکھے بغیردوسروں کو دینا ، شرم و حیاء ، اِنصاف و میانہ روی ، تواضع و اِنکسار ، بُہادری اور دلیری ، یہ ایسی صفات ہیں جِن سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات مُبارک کو مُزین فرمایا تھا ، ہر حلیم و بُردبار شخص کی زندگی میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی لڑکھڑاہٹ ، غلطی ، ٹھوکر مل ہی جاتی ہے ، اِنسانی تاریخ میں صرف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جِن کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی بلکہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر جتنے زیادہ ظُلم و ستم کیے گئے اُنہوں نے اُتنا ہی زیادہ تحمل وبُردباری کا مظاہرہ فرمایا ، جتنی زیادہ مُصبیتیں آئیں اُتنا ہی زیادہ صبر کا مظاہرہ فرمایا ، آئیے مختصر طور پر اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں سے اُن کی منذکورہ بالا صِفات کی دل آویز و اِیمان افروز جھلکیاں دیکھیں ، اور اِنہیں اپنی زندگیوں میں نافذ کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سچے پیروکار بنیں ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو جب کِسی دو کاموں میں ایک اختیار کرنے کا موقع دِیا جاتا تو وہ آسان کام کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ کام گُناہ نہ ہو ، اور اگر آسانی میں گُناہ ہوتا تو وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گُناہ سے سب سے زیادہ دُور رہتے تھے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کبھی کِسی سے اپنی ذات کے لیے انتقام نہیں لِیا لیکن اگر اللہ کی مقرر کردہ کِسی حُرمت کی پامالی کی گئی ہو تو اللہ کے لیے اُس کا انتقام لیتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہر کِسی سے بڑھ کرغُصے سے دُور رہتے اور جلد ی راضی ہو جاتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اتنا اور اس طرح عطاء فرماتے کہ فقر کا ڈر نہ رہتا ، عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ﴿ کانَ رَسُولَ اللَّہ اَجوَدَ الناس وکان اَجوَدُ ما یَکُونُ فی رَمَضَانَ حین یَلقَاہُ جِبرِیلُ وکان یَلقَاہُ فی کل لَیلَۃٍ من رَمَضَانَ فَیُدَارِسُہُ القُرآنَ فَلَرَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اَجوَدُ بِالخَیرِ من الرِّیحِ المُرسَلَۃِ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے زیادہ بڑھ کر سخاوت کرنے والے تھے اور رمضان میں جب اُنہیں جبریل( علیہ السلام) اُن (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم )سے مُلاقات  کرتے تھے اُس وقت وہ( صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) ہر دوسرے وقت سے زیادہ سخاوت فرمایا کرتے اور جبریل (علیہ السلام) ہر رات اُن ( صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )سے ملا کرتے تھے اور قُران سِکھایا کرتے تھے ، پس رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) خیر (کے کام کرنے )میں ہوا سے بھی زیادہ تیزی فرماتے،
 اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ""" جب کبھی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کچھ مانگا گیا تو اُنہوں نے کبھی نہ نہیں کی ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے زیادہ بُہادر تھے ، اُن کی سیرت مُبارک پرصِرف نظر کرنے والا بھی اُن کی شُجاعت و بُہادری سے نا واقف نہیں رہ سکتا ، اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرت مُبارک میں کئی ایسے مواقع ملتے ہیں کہ جب بڑے بڑے لڑاکے اور ماہر جنگجو اُن کا سامنا کرنے سے بھاگ اُٹھے ، لوگ خوف زدگی کی حالت میں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم انتہائی شُجاعت سے ثابت قدمی کے ساتھ مُشکل و خوف کا سامنا فرماتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اُسے دُور یا ختم فرما دِیا ، یہاں صِرف ایک مثال بیان کی جا تی ہے کہ جب جِہادِ حُنین کے موقع پر صحابہ دُشمن کے انتہائی ماہر تیر انداز دستے کے اچانک حملے کی وجہ سے دائیں بائیں ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم انتہائی شُجاعت سے اپنے سُفید خچر پر سوار دُشمن کی طرف بڑہتے رہے اور یہ فرماتے جاتے کہ ﴿ أنا النبی لَا کَذِب أنا بن عبد المُطَّلِب ::: میں نبی ہوں  اِس میں کوئی جھوٹ نہیں ، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں،
اور یہ بہادری و شجاعت اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی دائمی صِفت تھی جیسا کہ چوتھے بلا فصل خلیفہ  أمیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کافرمان ہے ﴿ إذا احمَرَّ البَأسُ ولَقی القَومُ القَومَ اتَّقَینَا بِرَسُولِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فَما یَکُونُ مِنَّا اَحَدٌ اَدنَی مِن القَومِ مِنہُ::: جب جنگ کی سختی سُرخ ہو جاتی اور دونوں گروہ ٹکرا جاتے تو ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے اور ہم میں سے سب سے زیادہ دُشمن کے قریب وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہوا کرتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے زیادہ شرم و حیاء والے تھے ، سب سے زیادہ اپنی نظر کی حفاظت کرنے والے تھے ، اور سب سے زیادہ اپنی نظر و زُبان سے بھی لوگوں کا احترام کرنے والے تھے ، أبو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ کا فرمان ہے ﴿  کان النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اَشَدَّ حَیَاء ً من العَذرَاء ِ فی خِدرِہَا فإذا رَاَی شیأا یَکرَہُہُ عَرَفنَاہُ فی وَجہِہِ ::: نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی چادر میں لپٹی ہوئی کِسی کنواری سے زیادہ حیاء والے تھے ، اور اگر وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کِسی چیز کو نا پسند کرتے تو ہم اُن کے چہرے (مُبارک)سے (اُن کی نا پسندیدگی ) جان لیتے
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے زیادہ اپنی نظر کی حفاظت کرنے والے تھے ، اور اپنی پلکوں کو جُھکائے رکھتے تھے ، اُن کی نظر مُبارک اُوپر اُٹھی رہنے سے کہیں زیادہ زمین کی طرف جُھکی رہتی تھی،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے زیادہ اپنی نظر و زُبان سے بھی لوگوں کا احترام کرنے والے تھے ،
کِسی کے چہرے پر نظرچپکائے نہیں رکھتے تھے ، کِسی کی غلطی جاننے پر اُس کا نام لے کر بات نہ فرماتے بلکہ یوں فرما کر کہ ﴿ کیا ہو گیا ہے لوگوں کو کہ ، یہ کہتے ہیں ، یا یہ کرتے ہیں ،،،، غلطی کی نشاندہی فرماتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے زیادہ انصاف کرنے والے ، عِفت والے ، باکِردار ، بات کے سچے اور پکے ، اور امانت دار تھے ، نبوت سے پہلے اہل مکہ اُنہیں ''' امانت دار ''' کے لقب سے جانتے تھے ، اور نبوت کے بعد بھی اِن صِفات کا اِقرار اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور اللہ کے دِین کے دُشمن بھی کرتے تھے ، علی رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ''''' ایک دِن ابو جھل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کہا ،ہم تُمہاری تکذیب نہیں کرتے لیکن جو تُم لے کر آئے ہو اُس کی تکذیب کرتے ہیں،
 تو اللہ تعالیٰ نے اُس (کی اِس بات کے جواب ) میں یہ آیت نازل فرمائی﴿ قَد نَعلَمُ إِنَّہُ لَیَحزُنُکَ الَّذِی یَقُولُونَ فَإِنَّہُم لاَ یُکَذِّبُونَکَ وَلَکِنَّ الظَّالِمِینَ بِآیَاتِ اللّہِ یَجحَدُونَ :::یقینا ہم جانتے ہیں کہ اُن کی یہ بات آپ کو دُکھی کرتی ہے ،لہذا (آپ دُکھی نہ ہوں ) کہ وہ لوگ آپ کو نہیں جُھٹلا رہے بلکہ وہ ظالم اللہ کی آیات کا اِنکار کر رہے ہیںسورت الانعام/آیت ٣٣ ،
::: جب ہرقل نے ابو سُفیان سے پوچھا کہ ''' کیا تُم لوگ مُحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اُس کی اِس (نبوت والی ) بات سے پہلے جُھوٹا کہتے تھے ؟'''
تو ابو سُفیان نے کہا ''' نہیں '''،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے بڑھ کر تواضع و اِنکساری والے تھے ، اور سب سے زیادہ غرور و تکبر سے دُور رہنے والے تھے ، اپنے لیے کھڑے ہونے سے منع فرمایا کرتے تھے جیسے کہ بادشاہوں کے لیے کھڑا ہوا جاتا ہے ، غریبوں کی عیادت کے لیے تشریف لے جایا کرتے ، اُن کو اپنے پاس بٹھاتے ، مُحبت اور توجہ سے ہر ایک بات سُنتے ، حتیٰ کہ زرخرید غُلاموں کی بات بھی قُبُول فرماتے اور اُنہیں اپنی محفل میں دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ہی بِٹھاتے ، اپنے سارے کام خود کر لینے میں کوئی عار محسوس نہ فرماتے ، اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے گھر میں اُس طرح کام کیا کرتے تھے جِس طرح تُم لوگ کرتے ہو ، وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا جوتا مُرمت فرماتے ، اپنا کپڑا سیتے ، اپنے برتن میں پانی بھرتے ، وہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اِنسانوں میں سے ایک اِنسان تھے اپنے کپڑوں کی صفائی کرتے اور اپنی بکری کا دُودھ نکالتے اور اپنے کام خود کرتے
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سب سے بڑھ وعدہ اور عہد پورا کرنے والے ، رشتہ داریوں کو جوڑے رکھنے اور نبھانے والے ، اور سب لوگوں کے لیے محبت ، رحم اور مہربانی کرنے والے تھے ، بہترین طور پر معاملات نبھانے والے اور ادب کرنے والے ، سب سے بڑھ کر خوش اِخلاق تھے ، اور بد اِخلاقی سے سب سے زیادہ دُور رہنے والے تھے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نہ بے حیائی کرنے والے تھے اور نہ ہی بے حیائی کی بات کرنے والے اور نہ ہی لعنت کرنے والے ، اور نہ ہی بازاروں میں گھومنے والے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کبھی بُرائی کا جواب بُرائی سے نہ دِیا بلکہ بُرا کرنے والے سے درگزر فرماتے اور معاف فرما دیتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کبھی اپنے خادموں ، یا خادمات کو دانٹا نہیں اور نہ مارا ، اور نہ ہی اپنے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں خود کو اُن پر فوقیت دی ، اور نہ کبھی اُن کو کِسی کام کے نہ کرنے کا سبب پوچھا اور نہ ہی کِسی کام کے کرنے کی وجہ دریافت فرمائی ، بلکہ کبھی کِسی کے کام پر اُف تک بھی نہ کہا ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم غُلاموں ، خادموں ، غریبوں کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے اُن پر نماز جنازہ پڑہاتے ، اُن کے دفن میں شامل ہوتے ، کبھی کِسی غریب کو اُس کی غُربت یا کِسی (معاشی ، معاشرتی درجہ بندی کی وجہ سے )کمزور کو اُس کی کمزوری کی عجہ سے حقیر جانا ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور خود کو کبھی ایک حکمران یا پیر و مُرشد کی حیثیت میں نہ رکھتے ، اِس کی کئی مثالیں اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُبارک و پاکیزہ زندگی میں ملتی ہیں ، جیسا کہ مسجدِ قُباء اور مسجدِ نبوی بناتے ہوئے ، جِہاد خندق کے لیے خندق کھودتے ہوئے ، اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ مل کر کام کیا ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم لوگوں کو اپنے پیچھے نہ چلنے دیتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے صحابہ کی خبرر کھتے ، اُن کے حال احوال معلوم کرتے رہتے ، اگر کوئی نظر نہ آتا تو اُس کے بارے میں دریافت فرماتے ، اچھی بات کو اچھا قرار دیتے اور غلط کو غلط ، کبھی حق دار کے حق سے غافل نہ ہوتے اور نہ ہی اُسے دوسرے کے پاس جانے دیتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مجلسوں میں اپنے لیے جگہیں مخصوص نہ فرماتے ، اور نہ ہی کوئی بلند مقام اختیار کرتے ، جب کِسی مجلس میں تشریف لاتے تو جہاں جگہ ملتی وہیں تشریف فرما ہو جاتے ، اور اپنے صحابہ کو بھی ایسا کرنے کا حُکم فرماتے اور اپنی مجلس میں آنے والے ہر ایک کو اس طرح بِٹھاتے کہ کِسی کے دِل میں یہ خیال نہ آئے کہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کِسی دوسرے کو زیادہ عِزت و بزرگی دی ہے ، اگر کوئی اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو کِسی وجہ سے بِٹھا لیتا یا کھڑا کر لیتا تو اُس کے ساتھ اُس کی دِل جَوئی میں اُس وقت تک بیٹھے یا کھڑے رہتے جب تک وہ خود ہی اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رُخصت نہ ہو جائے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی کِسی سائل کو اُس کا سوال پورے کیے بغیر واپس نہ کرتے اور اگر دینے کے لیے کچھ نہ ہوتا تو اُس کی بہت اچی طرح سے دل جمعی کر کے اپنے پاس سے سے رُخصت فرماتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم خوش اِخلاقی سے ملنے والے ، نرمی اور مُحبت سے پیش آنے والے تھے ، نہ ہی تُرش رَو تھے ، نہ ہی بد کلام تھے ، نہ ہی سخت مزاج ، نہ ہی بلا سبب کِسی کی تعریف کرنے والے ، جو کام نہ کرنے والا ہوتا اُس کی طرف توجہ نہ فرماتے ، جو کام اُن سے متعلق نہ ہواُس میں دخل اندازی نہ فرماتے ، کوئی کام دِکھاوے کے لیے نہیں کرتے تھے، ہر کام درمیانہ روی سے کرتے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمیشہ خوش خبری سنانے والے تھے ، عِزت و احترام ومُحبت سے بات فرماتے تھے، کبھی کِسی کو بُرا نہ کہا ، کبھی کِسی کو بے پردگی ، راز افشائی نہیں کی ، کبھی حق بات کے عِلاوہ کچھ نہ فرمایا ، جب وہ کلام فرماتے تو اُن کی محفل میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم بالکل خاموش ہو جاتے اوراِس طرح ساکت ہو جاتے گویا کہ اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں ، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کلام مُبارک روکتے تو صحابہ میں سے جِسے ضرورت ہوتے بات کرتا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بات انتہائی جامع ہوتی ، اُس میں کوئی بے جا حرف تک بھی نہ ہوتا اور نہ ہی کِسی کمی کا احساس ہوتا ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ہنسی دِلوں کو موہ لینے والی مُسکراہٹ ہوتی ، مُنہُ و حلق پھاڑ کر قہقہہ لگانا کبھی اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو کبھی مُنہ یا حلق پھاڑ قہقہہ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا ، سُنا گیا ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی آنکھیں ، دُکھ کی حالت میں اشک بار وتِین لیکن کبھی ماتم و افسوس ، شکوہ و شکایت والے الفاظ اُن کی زُبان مُبارک پر نہیں آئے ،
::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات اللہ کے بعد ہر ایک لحاظ سے ، مُبارک ، مقدس، اور بہترین تھی ،
نہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پہلے کوئی ویسا تھااور نہ ہی اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بعد کوئی ہونے والا ہے ،
::: اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صفات کی کوئی مثال نہ تھی نہ ہو سکتی ہے ، کہ اُن کی ہر ایک صِفت اپنی مکمل ترین اور خوبصورت ترین صورت میں تھی ، اللہ تعالیٰ نے اُن کو اِسی طرح تخلیق فرمایا تھا اور اِس کا اعلان فرمایا﴿وَإِنِّکَ لعَلیٰ خُلقٌ عَظِیم ::: اور بے شک آپ عظیم اِخلاق والے ہیں
 اور جِس اِخلاق کی عظمت کی اللہ تعالیٰ گواہی دیں اُس سے بڑھ کے کوئی اِخلاق نہیں ہو سکتا ،
میرا سب کچھ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر قُربان ہو جائے۔
اللَّہُمَ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما صَلَّیتَ عَلی آلِ إبراھِیم وَبَارِک
علی مُحَمَّدٍ وَأَزوَاجِہِ وَذُرِّیَّتِہِ کما بَارَکتَ علی آلِ إبراھِیم إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔