Saturday, February 21, 2015

::: لوگوں کے ساتھ معاملات کو بہترین طور پر نمٹانے ، رشتے اورتعلق داریاں بنانے اور مضبوط کرنے کے قوانین :::


::: لوگوں کے ساتھ معاملات کو بہترین طور پر  نمٹانے ، رشتے اورتعلق داریاں بنانے اور مضبوط کرنے کے قوانین :::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
معاشرتی زندگی میں کوئی بھی اِنسان ایسا نہیں جسے دُوسروں کے ساتھ بہت سے معاملات پیش نہ آتے ہوں اور وہ  اُن معاملات کو  اچھے ، مثبت اور نفع بخش طور پر مکمل نہ کرنا چاہتا ہو ،
دُوسروں کے ساتھ معاملات کو اِس طور پر مکمل کرنے کے لیے کچھ کاموں کو ہم قانون کا أہم طریقوں کی حیثیت دے سکتے ہیں ، کہ اگر ہم اُن قوانین کو اپنائے رکھیں ، یا اُن طریقوں کے مطابق دُوسروں کے ساتھ اپنے معاملات نمٹانے کی کوشش کرتے رہیں تو ، اِن شاء اللہ ، یہ قوانین کافی مددگار ہوتے ہیں ،
اِن قوانین کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ بنیادی قانون اچھی طرح سے اپنے دِل و دماغ میں بٹھا لیجیے کہ نفسیاتی اثر اپنی جگہ ،اور اُن کے فائدے اپنی جگہ،  لیکن کوئی بھی سچے پکے اِیمان والا کسی ایسے فائدے کو نہیں اپناتا جو اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود سے خارج ہو کر ملتا ہو،  
:::پہلا قانون :::لوگوں کی  قدر و منزلت اور حیثیت و عِزت کا اظہار :::
اپنی قدر و منزلت ، اور حیثیت و عِزت کے بارے میں جاننا اور اُس میں اضافے کی کوشش کرنا  اِنسانی فِطرت کا ایک جُز ہے ،
 ہر اِنسان یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اُن لوگوں میں سے ہو جِس کا دُوسرے لوگوں میں ذِکر ہو ، فِطری ضروریات کے مُطابق کوئی بھی اِنسان سب سے پہلے اپنے لیے خوراک کا حصول ممکن بناتا ہے ، پھر لباس کا ، اور پھر حفظ و امان کا ، اور پھر وہ اپنی شخصیت کی قدر و منزلت اور حیثیت جاننے اور اُس میں اضافے کی کوشش کرتا ہے ،
اُن میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صِرف اپنی قدر و منزلت اور حیثیت بڑی ظاہر کرنے اور بڑی منوانے کا شوق ہوتا ہے ، اور اِس شوق کی تکمیل کے لیے انہیں عِزت اور بے عِزتی ، محبت و نفرت ، دوستی و دشمنی، رشتہ داری اور قطع تعلقی  کا کچھ لحاظ نہیں ہوتا ، اُنہیں فقط اپنے نفس کے لالچ کے مطابق خود کو منوانے کی حرص ہوتی ہے ، جس کے لیے وہ اپنا مال وقت اور بسا اوقات جان بھی خرچ کر دیتے ہیں ،
یہ لوگ صرف نام و شہرت کمانا چاہتے ہیں ، تعریف اور ستائش کے علاوہ کچھ اور سننا اُن کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے ، اپنی رائے اور اپنی بات کے سِوا کچھ بھی اور اُنہیں ٹھیک نہیں لگتا ، اور اگر لگے بھی تو وہ اُسے مانتے ہی نہیں ، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ  یہ لوگ عِزت اور شہرت میں فرق نہیں جانتے ، لہذا اِنہیں صِرف شہرت کی ہوس ہوتی ہے ، عِزت کی کوئی فِکر نہیں ہوتی ،  
اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جو اپنی قدر و منزلت اور حیثیت کے بڑے پن کی بنیاد عِزت و عِفت ، محبت ، دوستی اور چاہت کو بناتے ہیں ، پس وہ اگر معاشرے میں کمزور ، غریب ،بھوکے،میلے کچیلے بھی رہیں تو بھی  اُنہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی ، دُوسروں سے ملنے والی عِزت ، محبت اور دوستی اُن کے ہر غم کا درد ہلکا کر نے کا سبب بنتی رہتی ہے ،
اور سچے اِیمان والے کے ہاں عِزت ، محبت ، دوستی رشتہ داری اور لا تعلقی سب کچھ اللہ جلّ ثناوہُ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ کسوٹیوں کے مُطابق ہوتی ہے ، جو دُنیاوی کسوٹیوں سے مختلف ہیں ، پس سچے اِیمان والے اگر دُنیاوی معیار کے مطابق کم عِزت ، بے عِزت ، کمزور ، غریب ،لاچار ، بے بس ، دقیانوسی ، بنیاد پرست ، نا پسندیدہ وغیرہ بھی ہوجائیں تو بھی اُنہیں کوئی دُکھ ، کوئی غم ، کوئی پرواہ نہیں ہوتی ، کیونکہ وہ اپنی ذات اور شخصیت کی قدر و منزلت ، عِزت اور حیثیت اللہ عزّ و جلّ اور اُس کے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ کردہ کسوٹیوں کے مطابق پہچانتے ہیں ، نہ کہ کافر و مسلم ، نیک و بد  اِنسانوں کی معاشرتی کسوٹیوں کے مطابق ،       
پس ، ہر اِنسان کسی نہ کسی طور ، کسی نہ کسی انداز میں اپنی ذات اور شخصیت کی قدر و منزلت ، عِزت اور حیثیت جاننے اور بڑھانے کی کوشش میں ہوتا ہے ، اور اِس کوشش میں وہ اُن لوگوں کو تلاش کرتا  رہتا ہے جن کے ہاں اُس کی قدر و منزلت ، عِزت و حیثیت زیادہ ہوتی ہے ،  اور جب وہ ایسے لوگوں کو پاتا ہے تو اُن سے اپنا تعلق مضبوط رکھتا ہے ، اور اُن کی طرف سے دی گئی قدر و منزلت ، عِزت اور حیثیت کے مطابق اُن سے محبت کرتا ہے ، اُن کا احترام کرتا ہے ،
اور وہ لوگ بھی اُس شخص  کو اُس کی قدر و منزلت ، عِزت و حیثیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں ، تا کہ وہ اپنی اُس قدر و منزلت  اور حیثیت کو برقرار رکھے اور اس میں اضافہ کرے ،
اچھے لوگوں کے ہاں عِزت و عِفت کی برقراری کسی بھی اور قدر و منزلت اور حیثیت سے مقدم ہوتی ہے ،
اور سچے اِیمان والوں کے ہاں اپنے اِیمان کی سلامتی ، اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی رضامندی کا حصول اپنی ذاتی عِزت سے بھی بڑھ کر  مطلوب ہوتا ہے،
کسی بھی اِنسان کو اُس کی قدر و منزلت ، عِزت و حیثیت کے بارے میں آگاہ کرنا اُس اِنسان کی شخصیت کے مطابق اور اُسے ملنے والی خبر کے مطابق ، اُس اِنسان کے اندر مثبت یا منفی قوت کو مزید قوی کرتا ہے اور متحرک کرتا ہے ،  جو اُس  اِنسان میں شدید ترین حالات اور امتحانات کا سامنا کرنے کی جرأت کے ظہور کا سبب ہوجاتا ہے ،
ہمیں ہمارے محبوب ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت شریفہ میں یہ اسلوب ملتا ہے کہ اُنہوں نے  اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی تربیت  میں یہ طریقہ بھی اِستعمال فرمایا ،
پس ابو بکر رضی اللہ عنہ ُ کو اُن کی قدر و منزلت ، عِزت و حیثیت بتائی اور """صدیق ، یعنی حق کی تصدیق کرنے والا""" قرار دیا ،
عُمر رضی اللہ عنہ ُ کو """فاروق ، یعنی حق اور باطل میں فرق کرنے والا""" قرار دیا ،
عثمان رضی اللہ عنہ ُ کو خبر دی کہ """اللہ کے فرشتے بھی اُن سے حیاء کرتے ہیں """ یعنی عثمان رضی اللہ عنہ  ُ اِس قدر شرم و حیاء والے تھے کہ اللہ کے فرشتے بھی اُن سے حیاء کرتے تھے ،
علی رضی اللہ عنہ ُ کو خبر دی کہ """وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے لیے ایسے ہیں جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے لیے ھارون علیہ السلام تھے ، سوائے اس کے کہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی  کوئی رسول نہیں """،
اپنے چچا ، حمزہ رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں بتایا کہ وہ """اللہ اور اُس کے رسول کے شیر ہیں"""، اللہ ، اور اس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے حمزہ رضی اللہ عنہ ُ کے علاوہ کسی بھی اور کو یہ قدر و منزلت ، یہ عِزت و حیثیت ملنے کی کوئی خبرپایہ ثبوت نہیں پہنچتی ،  لہذا حمزہ رضی اللہ  عنہ ُ کے علاوہ کوئی بھی اور """اللہ کا شیر """لقب پانے والا نہیں ہے،
خالد ابن الولید رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں بتایا کہ وہ"""اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں"""،
ابو عبیدہ عامر ابن الجراح رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں خبر دی کہ وہ """اُمت کے امانت دار ہیں"""،
اور بھی کئی مثالیں ہمیں سُنّت شریفہ میں ملتی ہیں ،
پس ، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی اِنسان سے کوئی معاملہ کرتے ہوئے سب سے پہلے ہمیں اُس کی قدر و منزلت ، عِزت و حیثیت کو جان لینا چاہیے ، اور اُس کی جو قدر و منزلت ، عِزت و حیثیت ہمارے ہاں پائی جاتی ہو اُس شخص کو اُس کے بارے میں کسی مثبت اسلوب میں  آگاہ کیا جانا چاہیے ،
اور اگر کوئی شخص ہمارے ہاں اچھی قدر و منزلت  والا نہ ہو ، عِزت والا نہ ہو ، شرعی اور معاشرتی طور پر مناسب حیثیت والا نہ ہو تو اُس کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے سے گریز ہی بہتر ہے ، اور اگر معاملہ کرنا نا گزیر ہو تو پھر ہر جائز ممکن طریقے سے  اُس شخص کے شر سے بچ کر اپنا معاملہ مکمل کرنے کی کوشش کی جائے ،
 اور اُس شخص کی اصلاح کی غرض سے ،لیکن کسی بھی منفی اثر مرتب کرنے والے طریقے سے بچتے ہوئے اُس شخص کو اُس کی قدر منزلت ، اور حیثیت کے بارے میں بتایا جائے،
اور اگر اُسکے ہاں سے  مصیبتوں اور شر کے اضافے کے علاوہ کوئی امکان نہ ہو تو اپنا معاملہ مکمل کر کے اُس سے دُور رہا جائے ،
::: دُوسرا قانون ::: دُوسرے شخص کو احساس دلایے کہ آپ اُس کا بہت خیال رکھتے ہیں :::
یہ بھی اِنسانی نفسیات میں سے ہے کہ جِس شخص کو جِس کی طرف سے جِس قدر خیال اور اہتمام کا احساس ہوتا ہے ، وہ اُس کے لیے اگر اُس سے بڑھ کر نہیں تو اُسی قدر اہتمام ضرور کرتا ہے ،
سوائے ایسے لوگوں کے جو خود غرض ہوتے ہیں ،     
 پس آپ اپنے اِرد گِرد والے لوگوں ، اپنے رشتہ داروں ، اپنے دوستوں ، اور جاننے والوں کو یہ احساس دلواتے رہیے کہ آپ  اُن کا خیال کرتے ہیں ، جس کا سب سے موثر  طریقہ یہ ہے کہ آپ اُن  سے رابطے میں رہیے ، براہ راست اُن سے اُن کے حال احوال  کی خبر گیری کرتے رہیے ، یا کسی اور ذریعے سے کیجیے تو بھی یہ کوشش ضرور کیجیے کہ اُن تک یہ خبر پہنچے کہ آپ اُن کی خبر گیری کرتے ہیں ،
جہاں تک ممکن ہو خیر اور بھلائی کے کاموں اور معاملات میں اُن کی مددگاری کیجیے ، خاص طور پر ہمارے اِس زمانے میں جب کہ نفسا نفسی کا عالم ماضی کی نسبت بہت بڑھ چکا ہے ، لوگوں کے ساتھ معاملات کو اچھے انداز میں مکمل کرنے کے لیے اُن کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کا احساس ہوئے بغیر اُن کی خبر گیری رکھیے اور اُنہیں یہ احساس دلایے کہ آپ اُن کے لیے خصوصی اہتمام کرنے والوں میں سے ہیں،
رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھتے تھے ، اُن کے بارے میں معلومات رکھتے ، اگر کوئی دِکھائی نہ دیتے تو اُس کے بارے میں خبر گیری فرماتے ، اُن میں سے ، اُن کے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو عیادت کے لیے تشریف لے جاتے،
::: تیسرا قانون ::: لوگوں سے اپنی محبت کو چھپایے نہیں ، بلکہ اُس کا اظہار کیجیے :::
آپ اپنے اِرد گِرد والوں میں سے ، اپنے رشتہ داروں میں سے ، جس کسی کے لیے اپنے دِل میں محبت پاتے ہیں ، اُسے دِل میں ہی نہ چھپائے رکھیے ، اور نہ ہی صِرف اپنے اعمال کے ذریعے اُس کا اظہار کرنے کی کوشش کیجیے ، بلکہ اپنی ز ُبان سے اُس کا اظہار کیجیے ،
کہ ایسا کرنے سے آپ کا محبوب ، آپ کا محب ہوجائے گا ، اور اُس سے بڑھ کر جتنا کہ آپ اُس کے ہیں ،
اور وہ آپ کی بات پر مکمل توجہ کرے گا ، آپ کی ذات کے لیے ہر ممکن مددگاری کی کوشش کرے گا ،
یہ  بہترین قانون ، اور اِنسانی نفسیات کے اِس پہلو کا عِلم و ادراک بھی ہمیں ہمارے محبوب خلیل اللہ  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ سے ہی ملتا ہے ،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہ ُ سے اِرشاد فرمایا کہ ﴿يَا مُعَاذُ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّكَ وَاللَّهِ إِنِّى لأُحِبُّكَ:::اے معاذ اللہ کی قسم میں تُم سے محبت کرتا ہوں ، اللہ کی قسم میں تُم سے محبت کرتا ہوںسُنن ابو داؤو/حدیث/1524کتاب الوتر/باب 26 إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے صحیح قرار دِیا،
::: چوتھا قانون ::: لوگوں کے ساتھ اُن کی دلچسپی والے معاملات کے بارے میں بات چیت  کیجیے :::
یہ بھی اِنسانی فِطرت میں سے ہے کہ اِنسان اُس شخص   کی طرف مائل ہوتا ہے جو شخص اُس اِنسان کی دلچسپی اور مہارت و خصوصیت والے معاملات و موضوعات میں اُس شخص کے ساتھ گفتگو کرتا ہو،
لہذا لوگوں کے ساتھ اُن کی دلچسپی ، مہارت او رخصوصیات والے معاملات اور عُلوم کے بارے میں اپنے دلچسپی کا اظہار کیا جانا چاہیے اور اُن کے ساتھ اُس کے مُطابق بات چیت کی جانی چاہیے ،
ایک سچے مُسلمان کے لیے یہ جاننا ، سمجھنا اور اِسی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے اُن معاملات میں اپنی دلچسپی اور لگاؤ کا شِکار نہ ہونے پائے جو معاملات شرعی طور پر ناجائز ہیں ، اور جب اُن معاملات کے بارے میں لوگوں سے بات کرے تو اُن کی اصلاح کے لیے ، اچھے مُناسب اور دِل پذیر انداز میں نصیحت والی بات کرے ،
نصیحت کا انداز اچھا ، مُناسب ، مثبت اور پر کشش تو ہونا چاہیے ، لیکن ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے جس کے ذریعے کسی غلطی ، کسی گناہ کے شِکار کو اُس کی غلطی ، اُس کے گناہ کا احساس ہونے کی بجائے یہ خیال ہونے لگے یہ  نصیحت کرنے والا بھی اُن کاموں میں دلچسپی رکھتا ہے ،
::: پانچواں قانون ::: لوگوں کے ساتھ احسان یعنی نرمی ،  آسانی، اور سہولت کے ساتھ معاملات مکمل کیجیے :::
عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ہم کِسی اِنسان کے ساتھ اُس کے لیے نرمی ، آسانی اور سہولت کے ساتھ اپنے معاملات نمٹاتے ہیں تو یقیناً اُس کے دِل و دِماغ میں ہمارے لیے اچھا تاثر بنتا ہے ، اور نتیجے میں وہ بھی ہمارے ساتھ اُسی طرح معاملات نمٹانے کی کوشش کرتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ معاشرتی زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں فساد اور پریشانیوں میں کمی رہتی ہے ،باذن اللہ ،
::: چَھٹاقانون ::: لوگوں کی اچھائی ، اچھے کاموں اور اچھی صِفات کی تعریف کیجیے :::
شرعی حُدود میں رہتے ہوئے ، دُوسروں کی اچھائی ، اچھے کاموں اور اچھی صِفات کی تعریف کرنے بھی معاملات کی مثبت طور پر تکمیل میں مددگار ہوتا ہے ،
کسی کی تعریف کرنے کے بارے میں شریعت کا حکم درج ذیل مضمون میں نشر کیا جا چکا ہے ،
::::: کسی کی تعریف کرنے کا شرعی حکم ::::: http://bit.ly/1e7vBra::::::
::: ساتواں قانون ::: لوگوں کی برائیوں ، کمزوریوں اور عیب کی کھوج میں مت رہیے ، بلکہ اپنی ذات کا محاسبہ کرت ہوئے اُس میں پائی جانے والی برائیاں ، کمزوریاں اور عیب دُور کرنے کی کوشش  کیجیے :::
:::آٹھواں قانون :::اپنی حقیقت ، اور اپنے عیوب پہچانتے ہوئے رہیے ، اور اللہ کی خاطراِنکساری والا رویہ اپنائے رہیے  :::
جو اللہ کی خاطر ، دُوسروں کے ساتھ اِنکساری والا رویہ رکھتا ہے ، تو اللہ جلّ جلالہُ  اُس رویے کے ذریعے اِنکساری اختیار کرنے والے  کودُنیا اور آخرت  میں بلند عِزت اور اعلی قدر و منزلت عطاء فرماتا ہے ،
﴿ مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلاَّ عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلاَّ رَفَعَهُ اللَّهُ::: صدقہ کرنے سے مال میں کوئی کمی نہیں ہوتی ، اور درگذر کرنے والے بندے کو اللہ عِزت میں بڑھاوا ہی دیتا ہے ، اور جو کوئی بھی اللہ کی خاطر اِنکساری اختیار کرتا ہے اللہ اُس (کے درجات )کو بُلند فرماتا ہے صحیح مُسلم/حدیث /6757کتاب البر والصلۃ والادب/باب19،
 اور جو اللہ کی عطاء میں سے صدقہ کرنے سے گریز کرتا ہے ، وہ حقیقتاً اپنے اُس مال میں کمی کر رہا ہوتا ہے ، اور جو لوگوں کے ساتھ درگذر والا معاملہ کرنے کی بجائے اپنی ہی ہانکنے اور منوانے والا رویہ رکھتا ہے لوگ اُس سے متنفر رہتے ہیں اور کسی بھی دِل میں اُس کے لیے عِزت اور پیار نہیں رہتا ،اور جو کوئی اِنکساری والا رویہ اختیار کرنے کی بجائے تکبر والا رویہ رکھتا ہے اللہ دُنیا اور آخرت میں اسے رُسوا کرتا ہے،
:::نواں قانون ::: دُوسروں کی بات کو نہ کاٹنے ، کم بولنے ، اور خاموش رہنے کا فن سیکھیے اور اس کے مُطابق عمل کیجیے:::
 کیونکہ عام طور یہ ہی ہوتا ہے کہ  لوگ اُس شخص کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو اُن کی بات توجہ اور خاموشی سے سنتا ہے ، اور جب وہ بولتا ہے تو وہی لوگ اُس کی بات کو بھی توجہ سے سنتے ہیں اور اُس کی بات کی اُن کے ہاں اچھی قدر و قیمت ہوتی ہے ،
دُوسروں کی بات کاٹ کر اپنی ہی کہے جانے والوں کو نہ تو کوئی پسند کرتا ہے اور نہ ہی اُن کی بات کی دُوسروں کے ہاں کوئی قدر و قیمت ہو پاتی ہے ، ایسے لوگوں کو عموماً مجبورا ً ہی سُنا اور مانا جاتا ہے ، خوشی سے ماننے والے نہ ہونے کے برابر ہی ہوتے ہیں ،
:::دسواں قانون :::اپنے عِلم ، معرفت اور مہارات میں اضافہ کیجیے اور زندگی کے ہر میدان عمل میں دوست بنایے:::
یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ ایک مُسلمان کی حیثیت سے آپ کو عِلم ، معرفت ، مہارات اور دوستوں میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے دِین حق اِسلام میں مقرر کردہ حُدود سے تجاوز مت کیجیے گا ، کیونکہ میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ اُن حُدود سے گزر جانے کی کوشش  نہیں کریں گے، اِن شاء اللہ ،
:::گیارہواں قانون ::: شرعی حُدود میں رہتے ہوئے دُوسروں کی خوشیوں اور غمیوں میں شرکت کیجیے:::
:::بارہواں قانون ::: اپنے قول اور فعل کو واضح رکھیے:::
جی ہاں ،حتی الامکان کوشش کرتے رہیے کہ آپ  اپنے تمام معاملات میں اپنی ہر بات ، اپنے ہر کام کو بالکل صاف اور واضح رکھ سکیں ، کہیں کچھ ایسا نہ ہونے پائے جِس کی وجہ سے آپ کے اور دُوسروں کے درمیان غلط فہمیاں ہونے لگیں ، یا لوگ آپ کو ایک سے زیادہ چہرے والا شخص سمجھنے لگیں ،
 کیونکہ ایسی صُورت میں لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے معاملات کی  اکثریت  ایسی ہو گی جس کے نتیجے میں آپ شاید دُنیاوی طور پر توکوئی فائدہ اٹھا لیں ، جو کہ وقتی ہوگا ، کہ جیسے جیسے لوگوں کو آپ کی دورُخی کا،یا ایک سے زیادہ چہرے والی شخصیت ہونے کا  پتہ چلتا جائے گا ، وہ آپ کے ساتھ معاملات کرنا چھوڑتے جائیں گے ، یا اس قدر احتیاط سے کریں گے کہ آپ کوئی فائدہ نہ پا سکیں گے ، ،،،،ایسا ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات یقینی ہے کہ دو رُخی اپنانے والا  آخرت میں نقصان ہی پانے والا ہے ،
ہم سب جانتے ہیں کہ تقریباً ہر ز ُبان میں بہت سے ہم معنی ، ہم مفہوم اور  ایک سے زیادہ معانی اور مفاہیم رکھنے والے الفاظ ہوتے ہیں ، لہذا اپنی گفتگو میں ایسے الفاظ اختیار کیجیے جن کے معانی اور مفاہیم سے غلط فہمی پیدا نہ ہوسکے ، یا کوئی جان بوجھ کر انہیں غلط انداز میں استعمال  نہ کر سکے ،   
:::تیرہواں قانون ::: اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے:::
اپنے طور پر ، ہر ممکن کوشش کیجیے کہ آپ اپنے ہر وعدے کو پورا کر سکیں ، اور اِس طرح کہ آپ کی کوششوں کا دُوسروں کو بھی شعور ہو ، تا کہ آپ لوگوں میں وعدہ خِلاف نہ سمجھے جانے لگیں ،
جب لوگ آپ کے بارے میں یہ جان جائیں گے کہ آپ اپنا کوئی بھی عودہ پورا کرنے میں جان بوجھ کر کوتاہی نہیں کرتے تو ، لوگ بھی  آپ کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش کریں گے ، اور آپ کے اور اُن کے معاملات اچھے طور پر مکمل ہونے کی خاصی مضبوط صورت برقرار رہے گی ، اِن شاء اللہ ،
:::چودہواں قانون ::: اپنی ضرورت ، اپنے معاملات کو پورا کروانے کے لیے سختی مت  کیجیے:::
جِس کسی سے بھی آپ اپنی کوئی ضرورت پوری کروانا چاہتے ہوں ، کوئی معاملہ نمٹانا چاہتے ہوں ، اُس کے ساتھ سختی والا رویہ مت اپنایے ، اور ایسا کوئی انداز نہیں اپنایے جس کی وجہ سے اُسے یہ احساس ہو کہ اگر وہ آپ کا کام مکمل کرنے سے معذور رہا تو آپ اُس کا جائز اور سچا  عُذر بھی قُبول نہیں کریں گے ،
:::پندرہواں قانون ::: اپنے معاملات مکمل ہونے کے بعد بھی لوگوں سے ربط میں رہیے:::
جب آپ کسی کے ساتھ کوئی معاملہ مکمل کر چکیں ،  تو اُسے اپنی زندگی میں نکال مت پھینکیے ، بلکہ اُس کے ساتھ کسی نہ کسی طور ربط رکھیے ، تا کہ لوگ آپ کو مطلب پرست نہ سمجھیں ،اور مستقبل میں بھی اُن کے ساتھ کسی کام کے پیش آنے کی صُورت میں وہ آپ کے ساتھ اچھے طور پر معاملہ کریں،
:::سولہواں قانون ::: لوگوں سے مناسب حد تک اور  مناسب اوقات اور انداز میں میل مُلاقات  اپنایے:::
جب آپ کسی سے بالمشافہ مُلاقات کریں ، یا فون وغیرہ پر بات کریں تو خصوصی خیال رکھیں کہ وہ وقت اُس دُوسرے شخص کے لیے مشغولیت والا نہ ہو ، اور  نہ ہی آپ اُس کا زیادہ وقت لیں ، اور نہ ہی کسی بھی انداز میں آپ اُس کے لیےکسی پریشانی کا سبب بنیں ،
:::سترہواں قانون ::: بناوٹی اور بد تہذیبی والے انداز میں بات چیت مت کیجیے:::
دُسروں سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے فطری انداز میں بات چیت کیجیے ، ایسے انداز و اطوار مت اپنایے جو بناوٹی محسوس ہوں ، کہ اِس طرح آپ کی شخصیت کا کوئی اچھا اثر مرتب نہیں ہوگا، جی ہاں  یہ خیال ضرور رکھیے کہ آپ کے انداز میں کچھ ایسا  نہ ہو جو دُوسروں کو تکلیف یا بے عِزتی کا احساس دلوانے والا ہو ،
:::آٹھارہواں قانون ::: جو آپ کی قُدرت میں نہیں اُس کے بارے میں دعویٰ مت کیجیے :::
لوگوں کے ساتھ کسی ایسے کام کے کرنے کا  دعوی ٰ مت کیجیے جسےکرنا آپ کی قُدرت میں نہیں ، اور نہ ہی وہ کچھ ہونے کا دعویٰ کیجیے جو کچھ درحقیقت آپ کے پاس نہ ہو ،
:::اُنیسواں قانون ::: مذاق والی بات  کو  دُوسرے  سے تعلق اور اُس کے رتبے کی حدود میں رکھیے  :::
اور یقیناً کوئی بھی ایسا مذاق نہ کیجیے جو اِسلامی احکام کے خلاف ہو ،
:::بیسواں قانون ::: ہر شخص کے ساتھ آپ کے رشتے اورتعلق کے مطابق مشاورت  رکھیے  :::
اپنے معاملات کے بارے میں لوگوں کے ساتھ ، آپ کے رشتے ، اور تعلق کے مُطابق مشورہ کیا کیجیے ، ایسا کرنا  کسی بھی رشتے اور تعلق کو آپ کے ہاں أہمیت کا احساس دلانے کے ایک  مؤثر ذریعہ ہے ، جس کے اِن شاء اللہ عموماً بہت اچھے نتائج نکلتے ہیں ، اور بہت سے رشتہ دار اور تعلق دار پہچاننے میں بھی مدد ملتی ہے ،
اور مشاورت نہ کرنے کی صُور ت میں کم از کم یہ نقصان تو ضرور ہوتا ہے کہ آپ کے تعلق اور رشتہ داریوں میں دُکھ بھری کمزوریاں آنے لگتی ہیں ، جو کبھی کبھار اس قدر کمزور ہوجاتی ہیں کہ پھر کوئی پشیمانی اُنہیں قوی نہیں کر پاتی،
 یا نفرت بھری دُوریاں آ جاتی ہیں، جو کبھی کبھار اتنی طویل ہوجاتی ہیں کہ پھر اُنہیں طے کرنے کی کوشش میں  بھاگ بھاگ کر  انسان اپنی زندگی کے آخری مقام تک تو جا پہنچتا ہے لیکن وہ دُوریاں نہیں پاٹ پاتا،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ، اور ہمارے ہر مُسلمان بھائی بہن کو اِس دردناک کیفیت سے بھی محفوظ رکھے،
خاص طور پر ایسے معاملات میں مشاورت بہت فائدہ مند اور ضروری  ہے جو معاملات آپ کے اور آپ کے کسی رشتہ دار یا تعلق دار کے درمیان، جزوی طور  پر یا کلی طور پر مشترک ہوں ،
مشاورت کا حکم تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو بھی دِیا ہے کہ   ﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ::: پس (اے محمد)اللہ کی رحمت سے ہی آپ اِن لوگوں کے نرم مزاج ہوئے ، اور اگر آپ تیز مزاج اور سخت دِل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے دُور جا چکے ہوتے ، لہذا آپ اِن سے درگذر فرماتے رہیے ، اور اِن کے لیے(اللہ سے) بخشش طلب فرماتے رہیے ، اور (اپنے)کام میں اِن سے مشورہ فرمایا کیجیے ، اور جب آپ (مشورے کے بعد  کسی کا م کے بارے میں کوئی) اِرادہ فرما لیں تو پھر اللہ پر توکل کیجیے (اور وہ کام شروع کر دیجیے)یقیناً اللہ (اُس پر ) توکل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہےسُورت آل عمران(3)/آیت159،
مشاورت کے بارے میں ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اپنے رویے کی درستگی کا خوب اچھی طرح سے خیال رکھنا چاہیے ، جی ہاں ، مشورہ کرنے والے کی حیثیت سے ، اور مشورہ دینے والے کی حیثیت سے ،
مشورے کرنے والے ،  مشورہ مانگنے والے کی حیثیت سے ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اُن لوگوں سے مشورہ مانگیں جن کی امانت داری ، عقل ، فہم و فراست ، معاملے سے متعلق عِلم اور تجربے کے بارے میں یہ گمان ہو کہ وہ جان بوجھ کر کوئی غلطی نہیں کریں گے اور اچھا مفید مشورہ دیں گے ،
مشورہ دینے والے کی حیثیت سے ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی نے ہم سے کوئی مشورہ مانگا ہے تو ہمیں صرف اور صرف درست مشورہ ہی دینا چاہیے ، اگر اُس معاملے کے بارے میں اچھی طرح سے نہیں جانتے جس کے بارے میں مشورہ طلب کیا گیا ہےتو اپنی کم علمی کو چھپاتے ہوئے غلط مشورہ دینے کی بجائے اپنی کم علمی یا تجربے کی کمی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت کر لینی چاہیے ،
کیونکہ غلط مشورہ دینا گناہ بھی ہے جس کی وجہ سے ہماری آخرت کا نقصان ہو گا ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے ﴿ مَنْ قَالَ عَلَيَّ مَا لَمْ أَقُلْ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنِ اسْتَشَارَهُ أَخُوهُ فَأَشَارَ عَلَيْهِ بِغَيْرِ رِشْدَةٍ فَقَدْ خَانَهُ، وَمَنْ أَفْتَى بِفُتْيَا غَيْرِ ثَبْتٍ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَا :::فرماتا جِس نے مجھ سے منسوب کر کے وہ کچھ کہا جو میں نے نہیں کہا تو ایسا کرنے والے نے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا،اورجِس سے اُس کے کسی (مُسلمان) بھائی ن ے مشورہ طلب کیا اور اُس نے دُرست مشورہ نہ دِیا تو اُس نے مشورہ طلب کرنے والے سے خیانت کی،اور جِس نے بغیر ثبوت (دلیل) کے کوئی فتویٰ دِیا تو اُس (فتوے پر عمل کرنے والوں) کا گناہ اُس فتویٰ دینے والے (پر بھی) ہے مُستدرک الحاکم /حدیث/341کتاب العلم میں سے حدیث رقم61،
جان بوجھ کر غلط مشورہ دینے کے نقصانات آخرت سے پہلے دُنیا میں ہی مل جانے کے مشاھدات تو ہم سب ہی رکھتے ہیں ،
مشورہ دینے والے کی حیثیت میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی نے ہم سے مشورہ طلب کر کے ہماری عِزت افزائی کی ہے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس پر ہمارا مشورہ ماننا لازم ہو جاتا ہے ،
ہر شخص اپنے معاملات کا فیصلہ خود کرنے کا حق رکھتا ہے ، لہذا اگر کوئی ہمارے مشورے پر عمل نہیں کرتا ، اُسے نہیں مانتا تو ہمیں اِس بات پر ناراض نہیں ہونا چاہیے ، اور اپنی تعلق داری پر کوئی منفی اثر مرتب ہونے کا سبب نہیں بننے دینا چاہیے،
جی ہاں اگر آپ کا مشورہ اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت پر مبنی ہے ، اور مشورہ طلب کرنے والا اُس اطاعت والے مشورے کو نہیں مانتا ، تو آپ اپنی استطاعت کے مطابق اُس سمجھانے کی کوشش ضرور کرتے رہیے ، اور اگر پھر بھی نہ مانے تو اُس کے لیے ہدایت اور خیر کی دُعاء کرنے میں اضافہ کرتے ہوئے اُس کے معاملات  میں شمولیت سے باز  رہنے کی کوشش کیجیے ، اور حکمت کے ساتھ اُسے اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پیغامات پہنچاتے رہیے ،
کوئی نہیں جانتا کہ اللہ جلّ جلالہُ کب کس کو ہدایت عطاء فرماتا ہے اور کب کس کو گمراہی پر ہی چھوڑ دیتا ہے،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو خیر سیکھنے ، اور اُس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
تاریخ کتابت :20/4/1436ہجری ، بمُطابق ، 09/Feb/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔