Tuesday, May 16, 2017

::::::: اپنے اِیمان کی جانچ کیجیے :::::::

::::::: اپنے اِیمان کی جانچ کیجیے  :::::::
بِسّمِ اللَّہِ الرَّحمٰن ِ الرِّحیم،  و الصَّلاۃُ و السَّلامُ علیٰ رِسولہِ الکریم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
تمام اِنسان مُعاشرتی معاملات میں ایک دُوسرے کے ساتھ مل جل کر اُن مُعاملات کو نمٹانے پر مجبور ہیں کہ کہیں کوئی تنہا اپنی مُعاشرتی زندگی کے مُعاملات اور ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتا ،
 اور مُعاشرتی زندگی میں اِنسانوں کے درمیان مُختلف مُعاملات کے بارے میں اِختلاف واقع ہونا ایک فِطری سی بات ہے ، لیکن اس اِختلاف کو اگر ختم نہ کیا جائے اور اُس میں اپنی اپنی ضد پر قائم رہا جائے تو اُس کے نُقصانات بسا اوقات بے شمار ہوتے ہیں اور صدیوں اور نسلوں پر محیط رہتے ہیں ،
اِنسانی زندگی کے مُعاملات میں سے سب سے أہم معاملہ دین کا ہے ، جس سے اِنسان کی دُنیا اور آخرت کا پر معاملہ وابستہ ہوتا ہے ، بحیثیت مُسلمان ہماری زندگی کا کوئی معاملہ دِین سے خارج نہیں ہوتا ، کسی مُسلمان کو یہ  زیب  ہی نہیں دیتا کہ وہ اپنے معاملات میں کچھ کو دِینی سمجھے اور کچھ کو محض دُنیاوی اور پھر جس طرح چاہے اُن کو نمٹاتا رہے ،
اِختلافات کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ اِختلاف کرنے والوں کے لیے کوئی صاحب عدل اور رحمت والی ہستی فیصلہ کرے ، اور اِس حق سے اِنکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ اکیلے لا شریک خالق اللہ تبارک و تعالیٰ سے بڑھ کر رحیم و رحمن اور انصاف کرنے والا  کوئی نہیں ،
 جس نے اپنی مخلوق کے اِختلافات کے خاتمے کے لیے اُن کی طرف اپنے رسول بھیجے اور اپنے دِین کی دعوت دی ، پھر جنہوں نے اِس دِین کو قبول کیا اور اِیمان والوں میں شامل ہو گئے ، اِن اِیمان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بے مثال عدل اور بے کراں رحمت کی بنا پر اُن کے ہر اِختلاف کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے ایک حاکم مقرر فرما دیا (((   فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا  :::پس(اے محمد) آپ کے رب کی قسم  ہے یہ لوگ کبھی اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے اِختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں(اور )پھر آپ  جو کچھ فیصلہ فرمائیں (اُس  فیصلے کے بارے میں )اپنے دِلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ  کریں اور( آپ کے فیصلوں کو )خوشی سے قبول کریں)))، سُورت النِساء(4)/آیت 65،
پس یاد رکھنے کی بات ہے کہ اِیمان صرف کسی قول کا نام نہیں ، صِرف اتنا ہی نہیں کہ کوئی """ لا اِلہَ اِلّا اللہ و مُحمدً رُسولُ اللہ """ کی ز ُبانی گواہی دے دے ، لازم ہے کہ اس گواہی اور اس قول کا تقاضا پورا کیا جائے کہ کہنے والے کو یقین کامل ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی اور معبود نہیں ، اس کے علاوہ جتنے بھی معبود تھے ، ہیں یا ہوں گے سب باطل تھے اور ہیں اور ہوں گے ، اور اللہ ہی اکیلا حقیقی نفع پہنچانے والا ہے ، نُقصان پہنچانے والا ہے ، وہی حقیقی حاکم ہے اور سب کچھ اُسی کی مَشیئت سے واقع ہوتا ہے ، اور اُس کے عِلاوہ کوئی شریعت بنانے والا نہیں ، اپنے انبیاء و رُسل  علیہم السلام میں سے جسے کتنا چاہا اتنا اختیار اور عِلم دیا ،
لہذا یاد رکھنا چاہیے کہ اِیمان محض الفاظ کی ادائیگی میں محدود نہیں ، اللہ کے اِس مذکورہ بالا فرمان کے مُطابق اِیمان کی دُرُستگی اور تکمیل کی نشانیوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اِختلافات کی صُورت میں اِیمان والے اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلوں پر ہی خوش دلی  سے عمل کرتے ہیں ، اور اگر ایسا نہ کریں تو اللہ کے ہاں اُن کا شُمار اِیمان والوں میں نہیں ہوتا ، اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے فرمان مُبارک پر غور فرمایے ،
(((فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ::: پس(اے محمد) آپ کے رب کی قسم  ہے یہ لوگ کبھی اِیمان والے نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے اِختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں)))،
 یعنی اللہ کے ہاں  اِیمان والوں میں شُمار ہونے کے لیے لازم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اپنے اِختلافات کے بارے میں حاکم مانا جائے ، اور یہ ماننا محض لفاظی نہ ہو ، بلکہ اِس پر کِسی منطق ، فلسفے ، شرط اور چُوں و چَراں کے بغیر  عمل کیا جانا لازم ہے ، ((( حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا  ::: جب تک کہ اپنے اِختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں(اور )پھر آپ  جو کچھ فیصلہ فرمائیں (اُس  فیصلے کے بارے میں )اپنے دِلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ  کریں اور( آپ کے فیصلوں کو )خوشی سے قبول کریں )))،
محبت ء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اور حق پرستی کے  صرف ز ُبانی دعووں اور نعروں کی بجائے، عملی طور پر اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کی مکمل تابع فرمانی کرتے ہوئے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اپنی محبت کا عملی ثبوت دے سکیں  ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے مُطابق عملی  مُسلمان بن کر رہ سکیں ،  تا کہ ، اللہ  عزّ و جلّ کے ہاں  حقیقی اور سچے اِیمان والوں میں شمار ہو سکیں ۔
والسلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ،
طلب گارء دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 21/08/1432 ہجری ،بمُطابق ، 22/07/2011عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

::: دِین اور مذھب میں فرق :::


::: دِین اور مذھب میں فرق  :::
بِسم ِِ اللَّہِ و الصَّلاۃ ُو السَّلام ُ عَلیٰ رسولَ اللَّہ
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ ،
دِین اور مذھب ، لُغوی طور پر تقریبا ً   ہم معنی اِلفاظ ہیں ، لیکن ،
اِصطلاحی طور پر مختلف مفہوم رکھتے ہیں ،
اِس لیے یہ کہنا بالکل دُرُست ہے کہ  دِین اور مذھب د والگ  الگ چیزیں ہیں ،
 گو کہ ہمارے ہاں ، اُردُو میں اِس فرق کو رَوا نہیں رکھا گیا ، دِین کو ہی  مذھب کہا جاتا ہے ، اِس لیے اکثر ہمیں" مذھب  اِسلام " پڑھنے اور سُننے میں ملتا ہے ،
اور دِین اِسلام میں پائے جانے والے مذاھب کو فرقہ کہا جاتا ہے ، جبکہ فرقہ کچھ اور ہے اور مذھب کچھ اور ،
دِین کی اِصطلاحی  تعریف یہ ہے کہ """دِین کِسی اِنسان کے ہاں پائے جانے والے خالق ، مخلوق ، غیبی امور اور آخرت سے متعلق  عقائد اور اُنہی عقائد کے مُطابق عمل اور عمل کے انداز پر مشتمل ہوتا ہے  """ ،
اور ، مذھب کی اِصطلاحی تعریف یہ ہے کہ :::
"""مذھب اِن اُمور  میں سے کُچھ سے مُتعلق ہوتا ہے، یا ، اِن اُمور کے کچھ مسائل سے مُتعلق ہوتا ہے، یا محض دُنیاوی زندگی کے مُعاملات سے  مُتعلق ہوتا ہے ( کہ اُن مُعاملات کو کِس انداز میں نمٹایا جانا ہے، جسے مَسلک بھی کہا جاتا ہے) """، بحوالہ :الموجز في الأديان والمذاهب المعاصرة: ڈاکٹر ناصر العقل اور ڈاکٹر ناصر القفاري – ص10،
دُوسرے اِلفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ """ دِین  کے مُعاملات کے بارے میں سوچ و فہم کے انداز کو مذھب کہا جاتا ہے """،
اور یہ بھی کہا گیا  کہ """کچھ مسائل  کے حل اور مُعاملات کی تکمیل  کے بارے میں کِسی اِنسان کے خیالات اور انداز و اطوار کا مجموعہ مذھب کہلاتا ہے  """،
پس ایک دِین میں کئی مذاھب ہوتے ہیں ، جیسا کہ دِین اِسلام میں ، حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی اور ظاھری مذھب وغیرہ،
مسیحی دِین میں کیتھولک،  پروٹیسٹنٹ، ارتھوڈکس ، وغیرہ ،
یہودی دِین میں  سامری، صدوقی، فریسی ، ارتھوڈکس وغیرہ ،
اور ، جب دِین ہی الگ ہو گا تو یقینی طور پر اُس سے مُتعلق مذاھب بھی الگ ہی ہوں گے ،
اِسی لیے اللہ عزّ و جلّ نے قُران کریم میں اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے یہ جواب دلوایا کہ (((لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ::: تم لوگوں کے لیے تمہارا دِین ہے اور میرے لیے میرا دِین  ))) سُورت الکافرون،
یہ نہیں کہلوایا کہ """ لَكُمْ مَذھَبكُمْ وَلِيَ مَذھَب """،
اِس آیت شریفہ  سے پہلے عِبادت اور مَعبُود کا ذِکر ہے ، جو  اوپر ذِکر کی گئی دِین کی تعریف کی دلیل ہے ،  کہ کفر ایک دِین ہے ،  اُس میں پائے جانے والے تمام اَدیان اور اُن میں پائے جانے والے سارے ہی مذاھب ایک ہی دِین  میں شامل ہیں ، اور اِسلام ایک دِین،
اِس  سے  یہ بھی واضح  ہوتا ہے کہ اِسلام ایک دِین ہے ، مذھب نہیں ،
اب اگر  اِسے مذھب کہنا اور لکھنا عام  ہو چکا ہے تو ہمیں اِس کی اِصلاح کرنی چاہیے ،
اگر کہیں یہ سوال سامنے آئے کہ   عہد رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میں، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں ، ہمیں یہ تفریق کیوں نہیں ملتی ؟؟؟
  تو  اِس کا سیدھا اور سادھا سا جواب ہے کہ  اُن مُبارک ادوار میں  ، اللہ کے دِین اِسلام میں  کِسی فقیہ ، کِسی عالم سے منسوب کوئی  مذھب نہیں تھا ،  کوئی مسلک نہیں تھا ،  عظیم ترین فقہاء موجود تھے ، لیکن کِسی کا مذھب رائج نہیں تھا، نہ کوئی ابوبکری تھا، نہ کوئی عُمری یا فاروقی، نہ کوئی عثمانی نہ کوئی علوی، نہ کوئی عائشوی،
تو  جہاں جِس چیز کا وجود ہی نہ ہو وہاں اُس کا ذِکر کیسے ملے گا ؟؟؟
اُمید ہے کہ یہ مختصر معلومات دِین اور مذھب کے اِصطلاحی مفاہیم  سمجھنے اور اِن دونوں میں فرق سمجھنے کے لیے کافی ہوں گی اِن شاء اللہ ، اور یہ بھی واضح  ہو جائے گا کہ اِسلام  ایک دِین ہے  جس میں کئی مذھب  ہیں ، لہذا دُرُست یہی ہے کہ اِسلام کو مذھب نہیں دِین کہا جائے ،
ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ اِن سب باتوں کا مقصد کیا ہے ؟؟؟
تو اِس جواب یہ ہے کہ اِن  کا مقصد دِین کی وسعت  اور مذھب  کی تنگی کے فرق کو  سمجھنا بھی ہے ، اور  دِین کے حقیقی اِصطلاحی مفہوم کے خِلاف اُسے مذھب کہنے کی غلطی کی تصحیح کی کوشش بھی ہے ،
یہ معلومات لوگوں میں رائج ہو چکے مفہوم ، یا اھل ز ُبان کے ہاں معروف ہو جانے والے مفہوم کی بحث  شروع کرنے کے لیے نہیں ہیں ، اور نہ ہی  ہمیں ایسی بحثوں میں وقت   ضائع کرنا چاہیے ، بلکہ خیر اور اِصلاح کی کوشش کرنا چاہیے ،
چراغ سے چراغ روشن ہوتا ہے ، عین ممکن ہے کہ  اِس ایک چراغ سے اتنے چراغ روشن ہو جائیں کہ  ہمیں یہ دِکھائی اور سُجھائی دینے لگے کہ ہمارا اِسلام  اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے نازل کردہ ایک مکمل دِین ہے ،
چند شخصیات کی فقہ ، یا ، سوچ و فِکر ، یا ، آراء  وغیرہ پر مشتمل  محض ایک مذھب نہیں ،
الحمد للہ ، فرقہ  کی تعریف  اور تفصیل کے بارے میں الگ مضمون پیش کیا جا چکا ہے ، اُس کا مطالعہ اِن شاء اللہ فرقہ کو سمجھنے میں مددگار ہو گا ،
::: فرقہ اور فرقہ واریت ، تعریف اور مفہوم ، فرقہ ناجیہ، نجات پانے والا فرقہ ، صِفات اور نشانیاں:::
اللہ تعالیٰ ہم سب کو  خیر پانے اور پھیلانے والوں میں سے اور اِصلاح  کرنے اور کروانے والوں میں سے  بنائے ،والسلام علیکم،
طلبگارء دُعا ء آپ کا بھائی ، عادِل سہیل ظفر
تاریخ کتابت : 06/05/1438ہجری ، بمُطابق، 03/02/2017عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مسیر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔