Friday, September 26, 2014

::: دو سال کے گناہ معاف کروایے ::: یوم ء عرفات نو ذی الحج کا روزہ :::




::: دو سال کے گناہ معاف کروایے ::: یوم ء عرفات نو ذی الحج کا روزہ :::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
ماہ ذی الحج کے پہلے دس دِن بہت ہی فضیلت والے ہیں ، اِس کا بیان '''ماہ حج اور ہم::: ماہ حج کے پہلے دس دِن:: فضیلت اور احکام ''' میں کر پیش چکا ہوں ،اِن ہی دس بلند رتبہ دِنوں کا نواں دِن وہ ہے جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، اِس دِن اور قیام کی فضیلت بھی ابھی اُوپر ذِکر کیے گئے مضمون میں مختصراً بیان کر چکاہوں، وللہ الحمد ،
نو ذی الحج وہ دن ہے جس دن سب حاجی میدان عرفات میں جمع ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، لحظہ بہ لحظہ کی خبر ہونے کے باوجود جغرافیائی اختلاف کی بنا پر چاند کی تاریخوں میں اختلاف کی بنا پر مُسلمانوں کی عیدیں تو ایک نہیں ہو پاتیں ، لیکن یوم عرفات ایسا دن ہے جس کو کسی دوسری جگہ دوسری تاریخ میں نہیں مانا جا سکتا ہے ، کیونکہ دُنیا میں ایک ہی عرفات ہے اور وہاں کی مقامی تاریخ کے مطابق ہی ، نو9 ذی الحج کو سارے حاجی وہاں یعنی میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں ، پس کسی منطق و فلسفے میں گھسے بغیر صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ وہ دِن جِس دِن حاجی صاحبان میدان عرفات میں قیام کرتے ہیں وہی دِن ساری دُنیا کے مُسلمانوں کے لیے یوم عرفات ہی ہے ،اور یہ ہی وہ دِن ہے کہ  جِس دِن کا روزہ رکھنے والا غیر حاجی مُسلمان کے لیے بہت بڑے اجر و ثواب کی خُوشخبری عطاء فرمائی گئی ہے ،
اِس با برکت دِن میں عرفات میں قیام کرنے والوں کو اللہ کی طرف سے مغفرت کی خوشخبری دی گئی ، اور جو وہاں نہیں ہوتے لیکن اُس دِن اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیّت سے روزہ رکھیں تو اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی ز ُبانِ مُبارک سے یہ خوشخبری سُنائی گئی کہ (((((صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِى قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِى بَعْدَهُ:::عرفات کے دِن کے  روزے کےبارے میں مجھے اللہ  سے یقین ہے کہ اُس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ایک گذرے ہوئے سال اور ایک یومء عرفات کے بعد والے سال کے گناہ معاف فرما دیتا ہے)))))صحیح مُسلم/کتاب الصیام/باب36،
اور دُوسری روایت کے الفاظ ہیں((((( یُکَفِّرُ السَّنَۃَ المَاضِیَۃَ وَالبَاقِیَۃَ::: پچھلے ایک سال اور اگلے ایک سال کے گُناہ معاف کرواتا ہے)))))صحیح مُسلم/کتاب الصیام/باب36،
::::::: ایک بہت ہی أہم بات:::::::
دو سال کے صغیرہ (چھوٹے) گُناہ معاف ہونا ، عرفات کے دِن کے روزے کے نتیجے میں ہے ، یعنی وہ دِن جِس دِن حاجی میدانِ عرفات میں قیام کرتے ہیں ، نہ کہ اپنے اپنے مُلکوں ، عِلاقوں میں اپنے اپنے مذاہب و مسالک کی پابندتاریخوں کے مُطابق آنے والے نو ذی الحج کے دِن کے روزے کے نتیجے میں، پس اِس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ روزہ  قیام عرفات والے دِن کا رکھنا ہے ۔
::::::: ذرا غور تو فرمایے ::::::: اگر آپ اِس چھوٹے سے مضمون کو نشر کریں اور آپ کو سبب بنا کر اللہ تعالیٰ کچھ مُسلمانوں کو یوم عرفات کا روزہ رکھنے کو توفیق عطاء فرما دے ، تو اُن سب کے روزے کے ثواب کے برابر آپ کو بھی ثواب ملے گا ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے(((((مَن دَلَّ عَلَی خَیرٍ فَلَہُ مِثلُ اَجرِ فَاعِلِہ::: جِس نے خیر کی طرف راہنمائی کی اُس کو اُس خیر پر عمل کرنے والے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا))))) صحیح مُسلم /حدیث 1893/کتاب الامارۃ /باب38،
اللہ تعالیٰ اِس کو سبب بنا کر زیادہ سے زیادہ مُسلمانوں کو یوم عرفات کا روزہ رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اُن کے روزے قُبُول فرمائے اور ہمیں اُن کے برابر ثواب عطاء فرمائے۔
::::::: ایک اور أہم بات :::::::
اگر عرفات کا دِن ، یا کوئی بھی اور ایسا دِن جِس دِن میں نفلی  روزہ رکھنے کی فضیلت اور اضافی اجر وثواب کی خبر دی گئی ہو ، ہفتے کے دِن میں آن پڑے تو وہ روزہ نہیں رکھا جائے گا ،
 کیونکہ ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بہت سختی سے منع فرمایا ہے ،
ارشاد فرمایا ہے کہ ((((( لاتصوموا یومَ السبت اِلَّا فیمَا افتُرض َ علیکُم ، فاِن لم یَجِدَ أحدکُم اِلَّا عُودَ عِنَبٍ أو لَحَاءَ شجرۃٍ ، فَلیَمُصّہُ:::ہفتے کے دِن کا روزہ مت رکھو ، سوائے فرض روزے کے اگر تُم سے کِسی کو انگور کی لکڑی یا درخت کی جڑ کے عِلاوہ اور کُچھ نہ ملے تو اِسی کو چُوس لو)))))نہ ہی اس حکم سے کسی استثناء کی گنجإئش ہے ، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر  ہفتے کے ساتھ کسی اور دِن کا روزہ ملا لیا جإئے تو پھر ہفتے کا نفلی روزہ رکھا جا سکتا ہے ،
اس موضوع پر جنوری 2004 میں‌ میں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی تھی ، ان شاء اللہ جلد ہی اسے ری فارمیٹ کر کے قارٕئین کے لیے پیش کروں گا ، اِن شاء اللہ اُس کا مطالعہ تمام اشکال رفع کرنے کا سبب ہو گا ، فی الحال یہ سمجھ لیجیے کہ ہفتے کا نفلی روزہ نہیں رکھا جانا چاہیے،
اور اِسی طرح صِرف جمعے کے دِن کوئی نفلی روزہ نہیں رکھا جانا چاہیے ،یہ بھی ممنوع ہے ،لہذا اگر کوئی جمعے کے دِن کا نفلی روزہ رکھنا چاہتا ہے تو اُس کے لیے لازم ہے کہ وہ جمعے سے پہلے جمعرات کا روزہ بھی رکھے ، اِس مسئلے کی ساری تفصیل بھی میری اُس کتاب میں میسر ہے ، جس میں  سےکچھ حصے درج ذیل ربط پر کچھ شبہات کے جواب کے طور پر بھی میسر ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے : ::     http://bit.ly/1yulgla
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند کی تاریخیں مختلف ہونے کی وجہ  سے یومء عرفات کا روزہ رکھنے کے دِن کے بارے میں مختلف اقوال و آراء کا ظہور ہو چکا ہے ، لہذا اِس مسئلے کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے  درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی ضرور فرمایے :::
::: یوم ء عرفات  کا روزہ کِس دِن رکھا جانا چاہیے ؟:::  http://bit.ly/2bVJHle
والسلام علیکم۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوتی درس (آڈیو فائل) درج ذیل ربط پر مسیر ہے:
https://bit.ly/2D1L69G

Thursday, September 25, 2014

:::::ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ،،، ہمارے ہاں معروف و مروج حلالہ ایک حرام فعل ہے ،،، غصے میں دی گئی طلاق کا شرعی حُکم :::::

:::::ایک وقت میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ،،، ہمارے ہاں معروف و مروج حلالہ ایک حرام فعل ہے ،،، غصے میں دی گئی طلاق کا شرعی حُکم :::::
:::::: سوال ::::::
میں نے اپنی بیوی کو ایک ہی فون کال میں تین دفعہ کہی ، اور پھر لکھ کے بھی بھجوا دی ، اب ہم رجوع کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں (پاکستان) میں تقریباً سب ہی مولوی و مفتی صاحبان کہہ رہے ہیں کہ تین طلاقیں ہو گئی ہیں ، اور رجوع کی کوئی صورت نہیں ، سوائے حلالہ کروانے کے ، مزید برآں یہ بھی کہ طلاق دیتے ہوئے میں شدید غصے میں تھا ،
براہ مہربانی قران و سنت کے مطابق ہمیں اِن مسائل کے حل بتایے ۔
:::::: جواب :::::
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم بھائی ،  اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی اور آپ کے اھل خانہ کی تمام تر مشکلات کو اُس کی رضا کے ساتھ دُور فرمائے ،
آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں مجھے یہ معلومات ملی ہیں کہ آپ اپنی بیگم کو ٹیلیفون پر ایک ہی گفتگو میں ایک سے زائد دفعہ طلاق دے چکے ہیں ،
اوکچھ مولوی صاحبان یا عُلماء صاحبان یہ کہہ رہے ہیں کہ تین طلاقیں ہو گئی ہیں اور حلالہ کیے بغیر واپسی نہیں ہو سکتی ،
یہ دونوں باتیں ہی بالکل غلط ہیں ، اور قران کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ اور تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں ،
پہلے تو مختصر طور پر ایک وقت میں دی گئی طلاقوں کے بارے میں یہ واضح کرتا ہوں کہ اِس کے اسباب کچھ بھی رہے ہوں ، حق یہ ہے کہ ایک مجلس  میں دی گئی ، کہی گئی ، لکھ کر ارسال کی گئی طلاقیں ایک ہی طلاق ہوتی ہیں ، خواہ کہنے میں  ، لکھنے میں اُن کی تعداد کتنی بھی رہی ہو ،
اگر میں  مختلف مسالک و مذاھب کی بحثیں لکھنے لگوں تو یقینا ایک طویل عرصہ درکار ہو گا اور ایک اچھی خاصی کتاب بن جائے گی ، لہذا میں اِن شاء اللہ آپ کے اطمینان کے لیے، اور اُن لوگوں کو بتانے سمجھانے کے لیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں واقع ہوجانے کی بات کرتے ہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال بیان کرتا ہوں ، جو اس بات کا یقینی ثبوت ہیں کہ """ ایک دفعہ میں ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہیں ، خواہ دینے والے نے  ، کہنے  والے نے ، لکھنے والے نے کتنی ہی دفعہ طلاق دینے کا کہا یا لکھا ہو  یا لکھوایا ہو """،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ O فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ::: دو دفعہ(دی گئ)طلاق میں یا تو اچھے طریقے سے(بیوی کو واپس) پکڑ لینا ہے یا اچھے طریقے سے(عدت پوری ہوجانے پر) اُسے چھوڑ دینا ہے اور تُم لوگوں کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ تُم لوگ اُن (طلاق دی ہوئی بیویوں )سے اُس(مہر ، مال و متاع) میں سے کچھ واپس لو جو تُم لوگ انہیں دے چکے ہو  ، ہاں اگر تُم(دونوں میاں بیوی جن میں طلاق واقع ہوئی) اِس بات کا ڈر رکھتے ہوں کہ وہ اللہ کی حُدُود کا لحاظ نہ رکھیں گے تو ایسی صُورت میں اگر عورت (خاوند کو) کچھ مال دے دلا کر اُس سے آزاد ہوتی ہے تو  اُن دونوں پر کوئی گناہ نہیں، یہ اللہ کی(مُقرر کردہ)حُدُود ہیں لہذا ان حُدُود سے تجاوز مت کرنا ، اور (یاد رکھو) جو کوئی بھی اللہ کی (مقرر کردہ )حُدُود سے تجاوز کرے گا تو ایسا کرنے والے ہی(حقیقت میں اپنی جانوں پر)ظُلم کرنے والے ہیں O   (اب اگر دوسری طلاق کے بعد خاوند نے بیوی کو رکھ لیا )اور پھر (تیسری دفعہ )طلاق دے دی تو اب یہ عورت اُس کے لیے حلا ل نہیں رہی(یعنی رجعت کی کوئی گنجائش نہیں رہی)یہاں تک کہ وہ کسی  دوسرے مَرد سے نکاح کرے اور پھر اگر یہ (دوسرا خاوند)اُس عورت کو طلاق دے دے اور وہ دونوں(پہلے والا مرد یہ عورت)واپس(اپنے نکاح کو قائم کرنا )چاہیں اور انہیں یہ گمان بھی ہو کہ وہ اللہ کی حُدُود کو قائم رکھیں گے تو پھر سے اُن کے آپس میں نکاح کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، یہ اللہ کی(مُقرر کردہ)حُدُود ہیں جو اللہ تعالیٰ عِلم والوں کے لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہےسُورت البقرہ(2)/ آیات 229،230،
اور اِرشاد فرمایا      ﴿ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ  ذَلِکُم يُوعَظُ بِهِ مَن كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَن  يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا:::پس جب  وہ(طلاق دی گئی عورتیں )اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں اچھے طریقے سے اپنے نکاح میں تھام لو یا اچھے طریقے سے انہیں الگ کر دو ، اور(دونوں میں سے جو بھی صُورت اختیار کرو اُس پر )اپنے لوگوں میں سے دو مُنصف  مَردوں کو گواہ بنا لو  اور(اے گواہو تُم )الله کے لیے گواہی پوری دینا ، یہ نصیحت کی باتیں انہیں سمجھائی جاتی ہیں جو الله اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو الله(کی نافرمانی ،ناراضگی اور عذاب )سے بچتا ہے الله اس کے لیے(تنگی اور پریشانی سے)نکلنے کی جگہ مہیا فرما دیتا ہے سُورت الطلاق(65)/آیت2،                                     
اِن تینوں آیات مُبارکہ میں بڑی وضاحت سے یہ بیان ہوا ہے کہ بیوی سے مکمل علیحدگی کی دو ہی صورتیں ہیں :::
(1)پہلی یا دوسری طلاق  واقع ہونے کے بعد خاوند کی طرف سے بیوی کو واپس نہ لیا جانا یہاں تک کہ طلاق کی  عدت پوری ہو جائے ، اور ،یا (2)تیسری طلاق واقع ہو جانا ، 
آیات مُبارکہ میں استعمال فرمائے گئے الفاظ بالکل واضح ہیں ،  اور اِن  میں سے جو مسائل و مفاہیم میں ذِکر کر رہا ہوں وہ کسی منطق ، فلسفے یا کسی مذھب و مسلک کے محدود أفکار کی پیدا وار نہیں ہیں ، بلکہ اللہ کے سب سے بلند رتنے والے بندے ، اور آخری رسول و نبی محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  بیان کردہ عملی تفیسرکے مطابق ہیں ،  ملاحظہ فرمایے :::
:::::::: عبد یزید نامی  ایک صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ، اور وہ خاتون شکایت لے کر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئِیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُن صحابی رضی اللہ عنہ ُ کو بلا کر فرمایا کہ ﴿رَاجِعِ امْرَأَتَكَ أُمَّ رُكَانَةَ:::اپنی بیوی رُکانہ کی ماں  کو واپس لے لو ، 
عبد یزید رضی اللہ عنہ ُ نے کہا """إِنِّى طَلَّقْتُهَا ثَلاَثًا يَا رَسُولَ اللَّهِ:::اے اللہ کے رسول میں نے تو اُسے تین طلاقیں دی ہے""""
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا   ﴿ قَدْ عَلِمْتُ رَاجِعْهَا:::میں یہ بات جان چکا ہوں ، تم اپنی بیوی کو واپس لو ،اور یہ آیت مُبارکہ تلاوت فرمائی     ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ::: اے نبی جب تُم لوگ عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو انہیں ان (کی طہارت)کی عدت کے مطابق طلاق دو اور عدت کو گن رکھو سُنن ابو داود/حدیث2198/کتاب الطلاق/باب10،
اور مُسند احمد/مُسند عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث رقم 563، میں  مزید وضاحت سے یہ بھی منقول ہے کہ جب صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے کہا کہ """ میں نے اسے تین طلاقیں دی ہیں """،
 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا ﴿ فِى مَجْلِسٍ وَاحِدٍ ::: ایک مجلس میں ؟
جواباً صحابی رضی اللہ عنہ ُ نے  عرض کیا """ جی ہاں """ ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  اِرشاد فرمایا   ﴿ فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ::: وہ تو ایک ہی طلاق ہے ، لہذا اگر تُم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے سکتے ہو
ان دونوں روایات کی تحقیق میں اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے اِس واقعہ کو دونوں روایات کی أسناد کے مجوعے کی بنا پر """حَسن """ قرار دیا ہے ، الارواء ُ الغلیل /حدیث 2063کے ضمن میں ،
اس  مذکورہ بالا واقعے میں بڑی ہی وضاحت سے یہ بیان ہے کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق ماننا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فتویٰ ہے ، جن کے فتوے کے بعد کسی اور کے فتوے کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ،
یہ معاملہ یقینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زندگی مبارک میں اور ان کے بعد اُن کے دوسرے  بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عُمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ کی خِلافت کے پہلے تہائی تک ایک وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق مانا جاتا تھا کیونکہ یہی حق ہے ،
::::::::   صھیب ابو السھباء رحمہُ اللہ جو کہ عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کے غلام تھے ، انہوں نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا """ أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتِ الثَّلاَثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِىِّ -صلى الله عَليهَ وسلَّمَ- وَأَبِى بَكْرٍ وَثَلاَثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ::: کیا آپ جانتے  ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ، اور ابو بکر (رضی اللہ عنہ ُ ) کی (خِلافت میں ) اور عُمر (رضی اللہ عنہ ُ) کی خِلافت کے تین چوتھائی دور تک تین طلاقوں کو ایک ہی مانا جاتا تھا""" تو ابن عمر رضی اللہ عنہ ُ نے جواب میں تصدیق کرتے ہوئے فرمایا """نَعم:::جی ہاں"""صحیح مُسلم/حدیث 3747/کتاب الطلاق /باب2،سنن ابو داؤد/حدیث2202/کتاب الطلاق/باب10،
::: ایک أہم وضاحت :::دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ نے ایک وقت تک کے لیے ایسا حکم دیا تھا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی مانی جائیں گی کیونکہ لوگوں نے طلاق دینے کا حق غلط طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا ، اُس حکم کو اجماع سمجھنا کسی طور دُرُست نہیں ،  حیرت بلکہ دُکھ کی بات ہےکہ ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے کی بات کرنے والے ہمارے بھائی اپنے اِس نا دُرُست مسئلے کی تائید کے لیے، لہذادوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ کے حُکم کو دلیل بناتے ہیں ، اور اِس طرف توجہ ہی نہیں فرماتے کہ وہ حکم کیوں دِیا گیا تھا ، اور نہ ہی اِس طرف توجہ کرتے ہیں کہ اُس حکم سے رجوع بھی تو کیا گیا تھا ،
اور نہ ہی اپنے بہت سے ایسے معاملات و مسائل کی طرف توجہ کرتے ہیں جودوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المؤمنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ُ اور دیگر کئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے اقوال و افعال کے خلاف ہیں ،
اب آپ ہی بتایے کہ اِسے جہالت کہا جائے ، یا مذھبی و مسلکی تعصب ،
بہر حال  جو بھی ہو ، نا دُرُست اور غیر مطلوب ہے ، حق سے چشم پوشی ہے ،
ان مذکورہ بالا معلومات میں سے یہ بالکل واضح ہے کہ ایک دفعہ میں کہی گئی ، لکھی گئی ، لکھوائی گئی طلاقیں ایک ہی طلاق ہوتی ہے ،
سورت الطلاق کی پہلی آیت کے مطابق طلاق دینے کے بارے میں طلاق دینے کے وقت میں میاں بیوی کے درمیان آخری دفعہ جماع ہونے کے بارے میں بھی خاص حکم ہے ، کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو جماع کے بعد اگلا حیض آ کر اس کے پاکیزہ ہونے سے پہلے طلاق دے تو وہ طلاق بھی ایک ہی مانی جاتی ہے ، اس  کی تفصیل بھی سنت مبارکہ میں بڑی وضاحت سے ملتی ہے ،
لہذا ان سب معلومات کی روشنی میں یہ بات کسی شک کے بغیر ثابت ہوتی ہے کہ ایک وقت میں دی گئی طلاقیں ایک ہی ہوتی ہے ، اور ایک طلاق ہونے کی صُورت میں اگر میاں بیوی ایک دوسرےکے ساتھ رہنا چاہیں تو عدت پوری ہونے سے پہلے ایک دوسرے کے پاس واپس ہو سکتے ہیں ،
طلاق کی عدت طلاق پانے والی عورت کے تین حیض گذرنے کا وقت ہوتی ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے ﴿وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ:::اور جنہیں طلاق ہوئی ہو وہ اپنے آپ میں تین دفعہ پاک ہونے تک انتظار کریںسُورت البقرہ(2)/آیت 228،
یعنی طلاق کی عدت طلاق پانے والی عورت کا تین دفعہ حیض سے پاک ہونا ہے ، لہذا  یہ عدت پوری ہونے سے پہلے پہلے میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لیے دوبارہ ملاپ کر سکتے ہیں ،
اس  رجعت یعنی واپسی کے لیے کوئی رسم و رواج نہیں ،اور نکاح کی تجدید کرنے کی بھی کوئی دلیل نہیں ،
صِرف اتنا کرنا ہوتا ہے کہ میاں بیوی باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے کے ساتھ خصوصی تعلق دوبارہ جوڑ لیتے ہیں ، اور خاوند کی طرف سے اپنی دی ہوئی طلاق  اور پھر رجوع کے بارے میں اپنے اور بیوی کے اہل خانہ میں سے سنجیدہ ، صالح  اورمتقی لوگوں میں سے کچھ لوگوں کو گواہ بنانا ضروری ہے ، تا کہ زندگی کے کسی مقام پر کسی معاشرتی ، یا شرعی معاملے میں اس بات کی گواہی میسر رہے کہ اس جوڑے میں ایک طلاق اور پھر رجعت واقع ہو چکی ہے  ،
:::::::: اِس کے بعد اِن شاء اللہ بات کرتا ہوں ، """حلالہ """ کے بارے میں ، ہمارے ہاں جو حلالہ کیا اور کروایا جاتا ہے وہ بلا شک و شبہ حرام کام ہے ،
جی ہاں ، طلاق دینے کے لیے معاملہ طے کر کے کسی عورت سے نکاح کرنا اور پھر اُسے بیوی کے طور پر استعمال کرنے کے بعد اُسے طلاق دے دینا ، یہ کام ہمارے ہاں حلالہ کرنا کہلاتا ہے ،
اور یہ کام کسی ادنیٰ سے شک کے بغیر حرام ہے، کرنے والا اور کروانے والا دونوں ہی اللہ کی لعنت کے مستحق ہو جاتے ہیں ،
اللہ ہی جانے کہ ہمارے مولوی حضرات اِس قدر لا پرواہی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں !!!؟؟؟
کیا وہ اِن معاملات کا علم ہی نہیں رکھتے اور اپنی جہالت کے سبب اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی اللہ کی لعنت پانے والوں میں شامل کر لیتے ہیں !!!؟؟؟
یا خواہشات نفس اِس قدر حاوی ہو جاتی ہیں کہ وہ کام کرنے اور کروانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود بھی اللہ کی لعنت پاتے ہیں ،  اور دوسروں کو بھی اللہ کی لعنت پانے والوں میں شامل کر دیتے ہیں !!!؟؟؟
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:::
﴿أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِالتَّيْسِ الْمُسْتَعَارِ:::کیا میں تُم لوگوں کو کرایے کے بکرے  کے بارے میں نہ بتاؤں
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا ، ضرور اِرشاد فرمایے اے اللہ کے رسول ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿هُوَ الْمُحَلِّلُ لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ:::وہ ہے جو حلالہ کرتا ہے ، اللہ کی لعنت ہے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اُس پر سُنن ابن ماجہ /حدیث2011/کتاب النکاح/باب33،
اور امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ﴿لَعَنَ اللَّهُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ:::اللہ کی لعنت ہے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے اُس پرسُنن ابو داؤد/حدیث2078/کتاب النکاح/باب16،
اتنی صاف اور واضح احادیث مبارکہ کے بعد بھی کوئی حلالہ کرنے اور کروانے کو ٹھیک کہے ، تو اُس کے بارے میں اِس کے علاوہ اور کیا سمجھا جا سکتا ہے کہ یا تو وہ شخص جاھل ہے ، یا اپنی نفسانی خواہشات کا پیرو کار ، یا اپنے کسی مذھب اور مسلک وغیرہ پر متعصبانہ طور پر پابند ہے ، اور اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کی گئی ہوئی اللہ  کی لعنت حاصل کرنے والا ہے ،
پس یہ بات یقینی ہے کہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق طلاق دینے کے لیے نکاح کرنا اور نکاح والا تعلق پورا کرنے کے بعد طلاق دینا قعطاً حرام ہے ،
جی ، اگر کسی عورت پر طلاق بائن ہو چکی ہو ، یعنی ، تین طلاقیں دی جا چکی ہوں ، یا ایک ، یا دو طلاقوں کے بعد عدت پوری ہو چکی ہو تو ایسی صورت میں وہ عورت اپنے پہلے والے شوہر کے نکاح میں صرف اُسی صورت میں جا سکتی ہے کہ جب وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے ، دونوں کے درمیان  میاں بیوی والا خصوصی تعلق پورا ہو، اور پھر اُس کے بعد کسی جبر و اِکراہ کے بغیر ، کسی طے شدہ معاملے کے بغیر ، کسی لالچ  کے بغیر وہ نیا شوہر اُس عورت کو طلاق دے ، اور اُس عورت  کی عدت پوری ہو جائے ، تو پھر وہ اپنے پہلے والےخاوند  کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتی ہے ، لیکن یہ جو طے شدہ پروگرام کے مطابق حلالہ کیا جاتا ہے اس کی ہماری شریعت محمدیہ علی صاحبھا افضل الصلوۃ و السلام میں کوئی گنجائش نہیں ، یہ حرام ہے ،
::::::::  آخر میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلواتا چلوں ، اکثر سوال کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ "غصے میں طلاق دے دی ، تو کیا طلاق واقع ہوگئی ؟"،
اس کے جواب میں پہلے تو میں یہ کہا کرتا ہوں کہ :::
بھائیو ، بہنو ، نکاح ، طلاق ،اور طلاق سے رجوع ایسے کام ہیں جن میں کوئی مذاق اور غلطی وغیرہ بھی سنجیدہ حکم ہوتا ہے ،
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اِرشاد گرامی ہے ﴿ثَلَاثٌ جِدُّهُنَّ جِدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جِدٌّ النِّكَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ ::: تین کاموں میں سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور مذاق بھی سنجیدگی ہے ، نکاح ، طلاق اور رجعتسنن ابو داود/حدیث 2196/کتاب الطلاق /باب 9، سنن ابن ماجہ /حدیث2117/کتاب الطلاق/باب13، سنن الترمذی/حدیث1221/کتاب الطلاق اللعان /باب9 ، حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی مروی ہے  ،اس حدیث شریف کا درجہ ء صحت " حسن"ہے ،
اور اس کے بعد یہ کہا کرتا ہوں کہ """"جناب ، طلاق غصے میں ہی دی جاتی ہے ، کبھی پیار اور خوشی میں طلاق نہیں دی جاتی ، ایسا تو کبھی سننے پڑھنے میں نہیں آیا کہ کسی کو اپنی بیوی پر پیار آیا ہو اور اس نے کہا ہو کہ آج مجھے تم پر پیار آرہا ہے جاؤ تمہیں طلاق ہے ، یا کہا ہو کہ میں آج بہت خوش ہوں اِسی خوشی میں تمہیں طلاق ہے ، لہذا ان کاموں کے بارے میں ہمیشہ  بہت ہی محتاط رہنا چاہیے اور کسی بھی طور انہیں غیر سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے"""
اُمید یہ مذکورہ بالا معلومات آپ کو آپ کے مسئلے کا حل سمجھنے کے لیے کافی ہوں گی ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ اپنی دی ہوئی طلاق سے رجوع کر سکتے ہیں ، یعنی عدت پوری ہونے سے پہلے اپنی بیوی کو واپس اپنی ازداوجی زندگی میں شامل کر سکتے ہیں ،
یاد رکھیے ، اور اچھی طرح سے یاد رکھیے کہ آپ کے مسئلے میں ابھی رجوع کی مکمل گنجائش باقی ہے ،کیونکہ آپ کی طرف سے ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے اور ابھی اس کی عدت پوری نہیں ہوئی ، لہذا آپ رجوع کر سکتے ہیں ، اور اس کے لیے کسی رسم کی ادائیگی مطلوب نہیں ، اور نہ ہی نکاح کی تجدید کی ضرورت ہے ، صرف اپنے اور اُس کے اہل خاندان کے ذمہ دار ، صالح متقی لوگوں میں سے چند ایک کو اپنی طلاق اور رجوع کا گواہ بنالیجیے ،
ہمارے ہاں مروج حلالہ نامی کام سراسر حرام ہے ،ہماری اسلامی شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، لہذااس حرام کام کی طرف توجہ کی قطعا ضرورت نہیں ،
اِن معلومات کا جاننے کے بعد بھی اگر آپ کے ذہن میں کوئی اشکال ، کوئی سوال ہو تو ارسال کیجیے ، اِن شاء اللہ آسانی اور خیر والا حل میسر ہو گا ،کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو آسانیاں دینے والا ہے ، خیر کرنے والا ہے ،﴿ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ :::اللہ تُم لوگوں کے لیے آسانی چاہتا ہے اور تُم لوگوں کے لیے سختی نہیں چاہتا سُورت البقرہ(2) / آیت185،
سبحان اللہ ، جس نے اپنے بندوں کے لیے دین میں آسانیاں پسند فرمائی ہیں ، اور اسی کی تعلیم اُس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دی ہے ، اور ایک قاعدے قانون کے طور پر اِرشاد فرما دِیا ہے کہ﴿اِنّ الدِینَ یُسرٌ ::: بے شک دین آسانی ہے صحیح البُخاری ، کتاب الایمان ،
اور حُکم فرما دِیا کہ﴿بشِّرُوا وَ لا تُنفِّرُوا ، وَ یَسِّرُوا وَ لا تُعَسِّرُوا:::خوش خبری سناؤ اور نفرت نہ پھیلاو ، اور نرمی کرو سختی نہ کروصحیح مُسلم /حدیث 1733 ،
ایک اور دفعہ میں فرمایا ﴿ یَسِّرُوا وَ لا تُعَسِّرُوا وَ سَکِّنُوا وَ لا تُنفِّرُوا :::آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور سکون پہنچاؤ نفرت نہ پھیلاؤصحیح مُسلم/حدیث 1734 ،
سُبحان اللہ ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تو دِین کو آسان قرار فرماتے ہیں لیکن ہم لوگوں کی کم فہمی ، مذھبی مسلکی اور جماعتی تعصب اور ضد یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم  اپنے کنویں سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتے ، اپنے افکار ، آراء ، مذھب ، مسلک اور جماعت کے مخالف کلمہ گو مسلمانوں میں سے  کسی  کے بھی ساتھ بد تمیزی اور بد تہذیبی تو اُس پر کفر و شرک کے فتوے صادر کر کے اُس کی جان مال و عِزت تک حلال کر لیتے ہیں ، إِنا للہ و إِنا إِلیہ راجعون،
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے دِلوں کو شخصیت پرستی ، مذھبی،مسلکی اور جماعتی ضد اور تعصب سے نجات پانے ، حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے ، اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اُس کے سامنے حاضر ہونے والوں میں سے بننے کی ہمت عطاء فرمائے،
و السلام علیکم،طلب گار ء دعا ،آپ کا بھائی ،  عادل سہیل ظفر ۔
‏جمعه‏، 5‏ ذوالقعدہ، 1433، بعد نماز جمعہ،الموافق ،‏21‏ دسمبر‏،2201‏۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے اتارا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔