Wednesday, October 29, 2014

۝ ۝ ۝ قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)،،،،، چوتھاقاعدہ 4 ۝ ۝ ۝


۝ ۝ ۝ قران کریم میں بیان کردہ قواعد (اصول ، قوانین)،،،،، چوتھاقاعدہ  4  ۝ ۝ ۝
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد :::
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ﴿ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ ::: اور تُم لوگوں کے لیے قصاص میں زندگی ہے سُورت البقرہ (2)/آیت 179،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ مذکورہ بالا فرمان  ہمارے موضوع "قران میں بیان کردہ  قواعد(اصول ، قوانین)"میں   چوتھے  قانون کے طور پر بیان کیا جارہا ہے ،اور شیخ صاحب کے دروس کے سلسلے میں 19 ویں نمبر  پر ہے ،
اِس مذکورہ بالا آیت شریفہ میں ایک ایسا قاعدہ ، ایسا قانون بیان فرمایا گیا ہے ، جو اِنسانوں کے درمیان معاملات نمٹانے کے بارے میں نہایت ہی اہم اور لازمی ہے ، ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اِنسانوں میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو کسی نہ کسی طور ظلم اور زیادتی اور حقوق تلفی کرنے والے ہیں ، اور بسا اوقات تو وہ ظلم یا زیادتی یا حق تلفی خود اُنکی اپنی ذاتوں سے ہی متعلق ہوتی ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ عظیم قاعدہ یہ عظیم قانون بیان فرمانے سے پہلے یہ اِرشاد فرمایا کہ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَى بِالْأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ   O ::: اے اِیمان لانے والو، تُم لوگوں پر قتل کے معاملات میں قصاص فرض کر دِیا گیا ہے ، آزاد اِنسان کے بدلے میں آزاد اِنسان اور غُلام کے بدلے میں غُلام،اور مؤنث (لڑکی ،عورت) کے بدلے میں مؤنث، اور جو کوئی اپنے (کسی مُسلمان) بھائی کو کسی معاملے میں  معاف کر دے ، تو معروف (نیکی)طور پر اُس کی تکمیل کی جائے،اور احسان کے ساتھ اُس ادا کیا جائے،یہ تُم لوگوں کے رب کی طرف سے تُم لوگوں کے لیے رعایت اور رحمت ہے ، لہذا جو کوئی بھی اِس کے بعد حد سے تجاوز کرے گا تو اُس کے لیے دردناک عذاب ہے سُورت البقرہ (2)/آیت 178،
 اور پھر اِرشاد فرمایا ﴿ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون::: اور تُم لوگوں کے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو،  شایدکہ تُم لوگ بچاؤ اختیار کر سکو سُورت البقرہ (2)/آیت 179،
ہمارے لیے اِس قاعدے میں ، اِس قانون میں بہت سے سبق اور درس ہیں :::
:::::: پہلا سبق ::::: اگر ہم اپنی دُنیا میں کافر و مسلم سارے ہی ملکوں پر نظر کریں تو ہمیں یہ صاف سمجھ آتا ہے کہ جن ممالک میں قاتل کو بھی قتل کیے جانے کی سزا مروج ہے وہاں قتل اُن ممالک کی نسبت کم ہوتے ہیں جہاں قاتل کو سزائے موت نہیں دی جاتی ، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کے مقرر کردہ اِس مذکورہ بالا قاعدے کی حقانیت کی ایک حسی دلیل ہے ،
جو لوگ شریعتء اسلامی پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ، اور قاتل کو سزائے موت دینے کے اِس الہی قانون کو انسانیت اور حِکمت وغیرہ کے خِلاف کہتے ہیں ، اور کچھ اس طرح کی بودی دلیلیں پیش کرتے ہیں کہ ایک تو قتل ہوا ہی تھا اب دوسرے کو بھی اُس کے بدلے میں قتل کردیا جائے تو اِنسانوں کی تعداد میں کمی ہوتی ہے جو مناسب عمل نہیں ، لہذا قاتل کو سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے ، کوئی اور سزا دی جائے ،اِس طرح ایک انسان بھی بچا رہے گا اور عین ممکن ہے کہ اپنی سزا بھگتنے کے بعد وہ انسانوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بھی بن سکے ،
یہ سب باتیں عقل و حِکمت سے عاری ہیں ، کیونکہ صدیوں سے یہ بات مشاہدے میں ہے کہ کوئی قاتل کسی اور انسان کی پیدائش کا سبب بن سکے یا نہ بن سکے ، لیکن عموماً کسی اور کا قاتل ضرور بن جاتا ہے ، یا اُس کو بدلے میں قتل کی سزا نہ ملنے پر اُس کے کیے ہوئے قتل کے سبب کئی اور قتل ہونے کا سبب ضرور بن جاتا ہے ،
پس اللہ جلّ و عُلا کا یہ فرمان بالکل حق ہے کہ ﴿ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون::: اور تُم لوگوں کے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو،  شایدکہ تُم لوگ بچاؤ اختیار کر سکو،
:::::: دوسرا سبق ::::: اللہ تبارک وتعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا فرمان میں ہمیں انسانی نفیسات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر قاتل کو قتل کے بدلے میں سزائے موت نہ دی جائے تو مقتول کے وارث اطمینان نہیں پاتے ، اور وہ انتقامی کاروائیوں پر اتر آتے ہیں ، جس کا یقینی نتیجہ مزید قتل ہوتا ہے ، لہذا بلا شک و شبہ یہ ہی حق ہے کہ﴿ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون:::اور تُم لوگوں کے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو،  شایدکہ تُم لوگ بچاؤ اختیار کر سکو،
:::::: تیسرا سبق ::::: اللہ پاک کے بیان فرمودہ اِس مذکورہ بالا قاعدے اور قانون میں ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ جب لوگوں کو اس بات کا اطمینان ہو گا کہ انہیں کسی کو قتل کرنے کی سزا  میں قتل نہیں کیا جائے گا تو لوگ دوسروں کوقتل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے اور اے انسانوں تمہاری زندگیاں بہت حقیر اور سستی ہو جائیں گی ، لہذا قصاص کے قانون میں تمہارے لیے موت نہیں بلکہ زندگی ہے، پس بلا شک و شبہ یہ ہی حق ہے کہ﴿ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون::: اور تُم لوگوں کے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو،  شایدکہ تُم لوگ بچاؤ اختیار کر سکو،
:::::: چوتھا سبق ::::: اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا فرمان میں سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اللہ جلّ جلالہُ کا مقرر کردہ اِس  قاعدے قانون کی حِکمت ہر کسی کی سمجھ میں آنے والی نہیں بلکہ اِسے عقل مند لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے﴿ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ:::اے عقل والو یعنی عقل والوں کو ہی مخاطب فرما کر اِس قاعدے کی حِکمت کی طرف توجہ دِلوائی ہے،   
:::::: پانچواں سبق ::::: اللہ تبارک وتعالیٰ کے اِس مذکورہ بالا فرمان میں یہ ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ قصاص کے قانون کا نفاذ ہمارے لیے عدل و اِنصاف کرنے میں زیادتی یا کمی کرنے سے بچنے کاذریعہ بھی ہے اور انتقامی کاروائیوں کا شکار ہونے سے بچنے کا بھی ،
::::::: ایک اہم مغالطے کا ازالہ :::::::
کچھ ایسے لوگ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے کلام کا موازنہ اِنسانوں کے کلام سے کرتے ہیں، اور افسوس کہ ایسے لوگ ہم مُسلمانوں کی صفوں میں بھی پائے جاتے ہیں ،  اُن گمراہ اور بد عقل   لوگوں کی یہ غلط فہمی بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان عربوں کے قول """القتل أنفیٰ للقتل ::: قتل کرنا ، قتل کرنے کی نفی ہے (یعنی قتل کو روکنا ہے) """ کے جیسا ہی ہے ، یہ لوگ
اِن لوگوں کی اِس بات کا کچھ تفصیلی جواب دینے سے پہلے میں اِمام ابو بکر  محمد بن الطیب الباقلانی(تاریخ وفات:403ہجری) رحمہُ اللہ کا یہ قول ذِکر کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے ایسے لوگوں کے بارے میں ہی لکھا جو لوگ مخلوق کے کلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام پاک کے مقابل رکھتے ہیں  ، مخلوق کے کلام کے جیسا سمجھتے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ،
اِمام صاحب رحمہُ اللہ نے لکھا :::
"""""فإن اشتبه على مُتأدب أو مُتشاعر أو ناشئ أو مُرْمَد فصاحة القرآن ، وموقع بلاغته وعجيب براعته فما عليك منه ! إنما يخبر عن نفسه،ويدل على عجزه ، ويُبين عن جهله ، ويُصرح بسخافة فهمه وركاكة عقله :::اور اگر کسی ادبی کلام والے، یا شاعرانہ کلام والے، یا کسی کم عُمر (یعنی کم عقل و فہم والے)، یا کسی خراب نظر والے کو قران کی فصاحت پر شبہ ہو، یا قران کی بلاغت کے مقام پر شبہ ہو ، تو تمہیں اُس کی باتوں پر پریشان نہیں ہوناچاہیے ، کیونکہ وہ تو صرف اپنے بارے میں خبر کر رہا ہوتا ہے ، اور( اُس کی باتیں اُس کی)اپنی بے بسی کے بارے میں دلیل ہوتی ہیں ، اور وہ اپنی جہالت کو واضح کر رہا ہوتا ہے ، اور اپنی ہی سمجھ کے کمتر ہونے اور اپنی ہی عقل کے کمزور ہونے کی صراحت پیش کر رہا ہوتا ہے"""، إعجاز القرآن /فصل فی کیفیۃ الوقوف علی اعجاز القران،
جب ہم لوگوں کی کہی ہوئی بات """القتل أنفیٰ للقتل""" کا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بات شریف﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون:::اور تُم لوگوں کے لیے قصاص میں زندگی ہے، اے عقل والو،  شایدکہ تُم لوگ بچاؤ اختیار کر سکوسے موازانہ کرتے ہیں تو ہمیں بڑی وضاحت اور صراحت سے درج ذیل فرق سمجھ آتے ہیں:::
::::::: (1) ::::::: اللہ جلّ و عُلا کی بات پاک میں حروف کی تعداد لوگوں کی بات سے کم ہے جو کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی بات کی فصاحت کی ایک دلیل ہے ،
::::::: (2) ::::::: اللہ سُبحانہ ُوتعالیٰ کے فرمائے ہوئے اِس قاعدے میں اِلفاظ کا کوئی تکرار نہیں اور معنی  ٰ اور مفہوم میں کہیں زیادہ وسعت اور درستگی ہے ،  اور کلام میں اِلفاظ کی کوئی تکرار نہیں،جبکہ لوگوں کی بنائی ہوئی بات میں لفظ """قتل """ کی تکرار ہے جو کہ کلام کی کمزوری اور عیب کی دلیل ہے ،،،ایک اور پہلو سے دیکھیے کہ""" قاف متحر ک """ کا دو ساکن حروف کے درمیان میں بات کرنے والوں کے لیے مشکل کا سبب ہے ، اور یہ بھی اِس کلام کی ایک اور کمزوری ہے ،
::::::: (3) ::::::: قران کریم میں اللہ جلّ ثناوہُ کی طرف سے بیان کردہ اِس قاعدے اِس قانون میں"""قِصَاص""" کا ذِکر فرمایا گیا ہے ، نہ کہ """قتل """ کا ، جس کا واضح مفہوم یہ ہوا کہ یہ قانون صِرف قتل کے لیے نہیں بلکہ ہر اُس جُرم کی سزا پر لاگو ہوتا ہے جو کسی بھی طور کسی اِنسان کی جان پر کیا گیا ہو ، جِس کی وضاحت ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے اِس فرمان میں ملتی ہے کہ ﴿وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ :::اور ہم نے اُن پر فرض کیا کہ جان کے بدلے جان،اورآنکھ کے بدلے آنکھ ، اور ناک کے بدلے ناک، اور کان کے بدلے کان ، اور دانت کے بدلے دانت، اور زخم کا بھی (ویسا ہی) بدلہ ہے، لیکن جو کوئی بدلہ (لینا) معاف کرد ے وہ اُس کے لیے کفارہ ہو ہے ، اور جو کوئی اللہ کے نازل کردہ(کلام و احکام )کے مطابق فیصلہ نہیں کرتےوہی لوگ (اپنی جانوں پر بھی)ظلم کرتے ہیںسُورت المائدہ(5)/آیت45،
::::::: (4) :::::::  اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیان کردہ قرانی قاعدے﴿ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ::: قصاص میں زندگی ہے میں قِصَاص میں زندگی ہونے کی یقینی اور حق خبر دی گئی ہے ، جبکہ لوگوں کی بنائی ہوئی بات میں قتل کو مزید قتل کے ذریعے روکنے کا ذِکر ہے جو کہ زندگی کے وجود کے خِلاف ہے ، کیونکہ اللہ جلّ و عزّ کے بیان فرمودہ قانون میں تو صِرف قاتل کو قتل کرنے کے بدلے میں قتل کرنے کا حکم ہے ، جبکہ لوگوں کی بنائی ہوئی بات میں قتل کو روکنے کے لیے مزید قتل کرنے کا ذِکر ہے اور یہ مزید کسی قاتل تک محدود نہیں بلکہ اِس زد میں کوئی بھی آتا ہے ،
::::::: (5) :::::::  اللہ العزیز القدیر یہ کلام پاک کا معنی ٰ اور مفہوم بھی بڑی وضاحت اور صراحت سے سمجھ میں آتا ہے اور کسی قِسم کے اندازوں ، ٹامک ٹوئیوں یا اِدھر اُدھر کی تاویلات کی گنجائش محسوس نہیں  ہوتی ، جبکہ لوگوں کی بنائی ہوئی بات کے کئی مفاہیم نظر آتے ہیں ،،،،،اور جب تک اِس بات میں مذکور قتل کو قِصَاص کے مفہوم میں قید نہیں کیا جائے گا ، اور وضاحت میں یہ شرط ظاہر نہیں کی جائے کہ بات میں مذکور پہلا قتل کسی نہ تو جان بوجھ کر ہوگا اور نہ ہی کسی دُشمنی کی وجہ سے ،
اگر یہ تقید اور تخصیص نہ ہو تو لوگوں کی یہ بات مجہول سی ہی رہتی ہے ،
پس ، کسی مخلوق کے کلام کو خالق کے کلام کے مقابل لانا اور خالق کے کلام کے جیسا سمجھنا یا سمجھانا انتہائی جاھلانہ کام ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مبارکہ ہر ایک لحاظ سے کسی بھی مخلوق کے کلام سے اعلیٰ و برتر ہیں ، خواہ کہیں کسی مخلوق کا کوئی کلام وہی مفہوم لیے ہوئے و مفہوم اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے کسی کلام کا ہو ، اللہ جلّ ثناوہ ُ کے کلام کے مُقام و رُتبہ تک پہنچنے کا تصور بھی محال ہے ،
یاد رکھیے ، اور خوب اچھی طرح سے یاد رکھیے کہ ہمیں اللہ کے کلام کو اللہ تعالیٰ کی شان ، حِکمت ، عِلم اور قُدرت کے مطابق سمجھنا ہے اور اُس پر اِیمان رکھنا ہے،
اللہ جلّ و عُلا ہم سب کو اُس کے نازل کردہ حق کو جاننے ، پہنچانے ، ماننے اپنانے اور اسی پر عمل پیرا رہنے کی توفیق دے ،اللہ کے دِین اور اُس دِین کے ماننے والوں کے دُشمنوں کو پہچاننے اور اُن کی چالبازیوں کو ناکام کرنے کی ہمت دے ، والسلام علیکم۔
ڈاکٹر ، شیخ ، عُمر المقبل حفظہُ اللہ کے ایک درس""" قواعد قرانیہ ،القاعدۃ التاسعۃ و العشر """ سے ماخوذ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: أہم وضاحت ::: خیال رہے کہ یہ مضامین محترم شیخ ، عُمر المقبل حفظہُ اللہ کے دروس سے ماخوذ ہیں ، نہ کہ اُن کے دروس کے تراجم ، بلکہ ان مضامین میں کم و بیش ساٹھ ستر فیصد مواد میری طرف سے اضافہ ہے، اس لیے اِن مضامین کو حرف بحرف محترم شیخ صاحب حفظہ ُ اللہ سے منسوب نہ سمجھا جائے  ۔اور مضامین کا تسلسل بھی میں نے محترم شیخ صاحب کے دروس کے تسلسل کے مطابق نہیں رکھا ، بلکہ مصحف شریف میں آیات کے تسلسل کے مطابق رکھا ہے ۔ عادل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 04/05/1435 ہجری ،بمطابق، 05/03/2014 عیسوئی ۔؎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نُسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔