Wednesday, June 29, 2016

::::: طلبءِ عِلم کے آداب :::::

::::: طلبءِ عِلم کے آداب :::::

بِسمِ اللَّہِ الرِّحمٰنِ الرِّحیم
الحَمدُ لِلّہِ وَحدہُ الذی لا اِلہَ اِلاَّ ھُو ،  و الَّذی لَیس أصدق مِنہ ُ قِیلا ،  و الَّذی أَرسلَ رَسولہُ بالھُدیٰ و تبیّن مَا ارادَ ، و الصَّلاۃُ و السَّلام عَلیَ مُحمدٍ عبد اللَّہ و رسولِ اللَّہ ، الَّذی لَم یَنطِق عَن الھَویٰ و الَّذی أمانۃ ربہِ قد اَدیٰ ،
شروع اللہ کے نام سے جو بہت ہی مہربان اور بہت رحم کرنے والا ہے ،
سچی اور خالص تعریف کا حق دار اللہ ہی ہے ، جس کے عِلاوہ کوئی بھی اور سچا اور حقیقی معبود نہیں ، اور جس سے بڑھ کر سچ کہنے والا کوئی نہیں ، اور جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ بھیجا اور وہ سب کچھ واضح فرما دیا جسے واضح کرنے کا اللہ نے ارداہ کیا ، اور سلامتی ہو اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) پر ، جو کہ اپنی خواہش کے مُطابق نہیں بات نہیں فرماتے تھے  ، اور جنہوں نے اپنے رب کی امانت مکمل طو رپر  دی۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
طلب عِلم کے آداب  جاننے سے پہلے ، یہ جاننا ضروری ہے کہ دِین  کے  کِسی  بھی  مسئلے  کا  حُکم  جاننے کےلیے  مندرجہ  ذیل میں  سے  کِسی  ایک  چیز  کی  دلیل  کا  ہونا  ضُروری  ہے   ::: 
 (1)قُرآن کریم  (2)صحیح  حدیث    (3)آثارِ  صحابہ  رضی  اللہ  عنھُم  أجمعین  (4)اِجماع     (5)اِجتہاد  یا  قیاس۔
[[[اَثرٌ  کا  لغوی مطلب ہے  نشانی  ،  یا  نقشِ  قدم  ، صحابہ  رضی  اللہ  عنھُم کے  اَقوال  و  اَفعال  کو  علم  مصطلع  الحدیث  میں  آثار  کہا  جاتا  ہے ]]]،
چونکہ عِبادت  اور  عقیدے  کے  مسائل  میں  اِجتہاد  یا  قیاس  کی  کوئی   گُنجائش  نہیں ،  اِس  کے  لیے  قُرآن کریم   اور  صحیح  حدیث  دونوں  یا  دونوں  میں  سے  کِسی  ایک میں  سے  نصِ  صریح  یعنی  واضح  دلیل  کا  ہونا  ضُروری ہے  اگر قرآن  اور  حدیث  میں  سے  کوئی  صریح  نص  یعنی  بالکُل  واضح  جواب  نہ مِل  سکے  تو  پھر  آثارِ  صحابہ  رضی اللہ عنہُم  أجمعین  اور اِجماع کی  طرف  توجہ  کی  جاتی  ہے  ، 
عُلماء کرام نے اِسلامی عُلوم کے حصول کے لیے بہت سے آداب بیان فرمائے ہیں،
اِن میں سے أہم درج ذیل ہیں:
::: (1) ::: إِخلاصء نیت :::
طالب عِلم کو اپنی نیت اللہ کی رضا کا حصول ہی رکھنی چاہیے، عالم کہلانے کے لیے علم طلب نہ کرے، اور نہ ہی لوگوں سے بحث مباحثے کرنے کے لیے ، بلکہ اپنی ، اپنے اھل خانہ و خاندان اور مسلمان بھائی بہنوں کی اصلاح کے لیے علم طلب کرے۔
::: (2) ::: حاصل کردہ عِلم پر عمل کرنا  :::
جن جن مسائل اور معالات کے شرعی احکام کا عِلم اللہ تعالیٰ ُسے عطاء کرے ، اُنہیں اللہ عزّ و جلّ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکام اور حُدود کے مُطابق مکمل کرتا چلے، تا کہ اُس کا رب اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اُس پر راضی ہو اور راضی رہے۔
::: (3) ::: اپنے تمام  ظاہری اور باطنی اعمال کا اللہ کو عِلم  ہونے کا یقین:::
ہر  وقت یہ اِس یقین کو حاضر رکھے کہ اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ اُس کے ہر ایک ظاہری اور باطنی عمل کا عِلم رکھتا ہے، یہ یقین اِن شاء اللہ اصلاح نیت کا سبب رہے گا۔
::: (4) ::: صبر اور ہمیشگی :::
حصول علم میں صبر کا دامن کبھی بھی نہ چھوڑے، کسی ایک مسئلے یا معاملے کو سمجھنے کے لیے خواہ اُسے کتنی ہی کوشش کرنی پڑے جب تک اُسے  واضح دلائل کے ساتھ جواب میسر نہ ہو، اور اُس کا دِل اُس پر مطمئن نہ ہو ، اپنی کوشش جاری رکھے۔
::: (5) :::حق جاننے میں شرم  نہ کرنا:::
إِمام بخاری رحمہُ اللہ نے اپنی صحیح میں إِمام مجاھد رحمہُ اللہ کا  یہ قول روایت  کیا ہے کہ """لاَ يَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ مُسْتَحْىٍ وَلاَ مُسْتَكْبِرٌ::: شرم کرنے والا ، اور ، تکبر کرنے والا عِلم نہیں حاصل کر سکتا """،
اور خصوصی طور پر عورتوں کے بارے میں ،  اِسی باب میں ، اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا کا یہ قول روایت کیا کہ """نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الأَنْصَارِ لَمْ يَمْنَعْهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِى الدِّينِ:::عورتوں میں ، سب سے اچھی عورتیں انصار کی ہیں کہ اُنہیں اُن کی حیاء دِین سمجھنے (سیکھنے) سے روکتی نہیں"""صحیح بخاری/کتاب العِلم/باب50 الْحَيَاءِ فِى الْعِلْمِ،
پس دِین کا کوئی بھی معاملہ ، کوئی بھی مسئلہ سمجھنے اور سیکھنے میں شرم نہیں کرنا چاہیے، اور تکبر تو  ہے ایک بُری صِفت ،
وہ شرم جو ہمیں حلال و حرام ، جائز و ناجائز ، پاکیزگی اور پلیدگی کے مسائل جاننے سے روکے بے محل، اور مذموم ہے،
جی ہاں ،اِس بات کا خیال رکھنا ہی چاہیے کہ  مسائل پوچھنے یا سمجھنے کے لیے اچھے سے اچھے، مہذب اور پردہ پوشی والے الفاظ استعمال کیے جائیں ۔
::: (6) :::عُلماء کے مابین اختلافات کی وجہ سے متنفر نہ ہونا:::
طالب عِلم کے بہت ضروری ہے کہ ابتدائی مراحل میں وہ عُلماء کے مابین پائے جانے والے اختلافات کی بنا ء پر حصول عِلم سے دُور نہ ہو جائے، اور نہ ہی کسی اختلافی مسئلے میں اپنی رائے قائم کرنے کی کوشش کرے، بلکہ  اللہ تبارک وتعالیٰ سے حق جاننے کی دُعاء کرتے ہوئے دلائل کی طرف توجہ کرے، اور جن دلائل  پر اُس کا دِل مطمئن ہواُن کے مُطابق آگے بڑھے، عُلماء کے اقوال اپنی جگہ مکرم ، لیکن مسائل دلائل کے مُطابق سیکھے جانے چاہیں ۔
::: (7) :::جو کچھ سیکھا جائے اُسے بہترین طور پر یاد رکھنا:::
کسی مسئلے ، کسی معاملے کو وقتی طور پر سیکھ کر بھول جانا عِلم حاصل کرنا نہیں ہوتا، جب کسی صاحب علم سے کچھ پوچھ، سن لیا جائے تو اُسے اچھی طرح سے یاد رکھا جانا چاہیے، اور اگر اُس میں مزید کی ضرورت ہو تو دوبارہ پوچھا  جانا چاہیے، یا،
::: (8) :::کتب کا مطالعہ ، یا، کسی اور ذریعے سے خالص علمی مواد کو اپنے ذہن تک پہنچانا:::
اُس سیکھے ہوئے کی مزید وضاحت  کے لیے، جانچ کے لیے، قابل اعتماد عُلماء کی ، موضوع سے متعلق کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، موجودہ دور میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے حصول عِلم کے اور بھی کئی ذرائع مہیا فرما دیے ہیں ، پس کتب کے ساتھ ، یا کتب کے عِلاوہ کوئی بھی ایسا ذریعہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو قابل اعتماد عُلماء کی طرف سے مہیا کردہ دلائل پر مبنی عِلم تک رسائی والا ہو، مثلاً ، صوتی مواد، یا ویب سائٹس پر مہیا کردہ مواد وغیرہ۔
::: (9) :::اپنے لیے علم دوست صحبت اختیار کی جائے:::
اپنے ساتھیوں ، اور دوستوں میں سے ایسے لوگوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذارا جائے جو عِلم حاصل کرنے میں آپ کے مددگار ہوں، اور اُس عِلم پر عمل کرنے میں بھی ،
یاد رکھیے کہ اِنسان کی طبعیت اپنے اِرد گِرد کے ماحول سے  ضرور متاثر ہو کر رہتی ہے ، لہذا اگر آپ کے اِرد گِرد ایسے لوگ ہوں گے جو عِلم دوست نہ ہوں، یا معاذ اللہ دِین سے دُور ہوں تو آپ کے حصول عِلم اور پھر اُس پر عمل کرنا مشکل ہی رہے گا۔
::: (10) :::کسی صاحب عِلم یا اپنے استاد سے متنفر نہ ہونا:::
غلطی  اور بُھول چُوک کا امکان ہر انسان کے ہاں ہوتا ہے، اگر کسی صاحب عِلم یا اپنے استاد کے ہاں ایسا کچھ ظاہر ہو تو اِس بنا پر اُس سے متنفر نہ ہوا جائے، بلکہ تمام تر اسلامی ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، اور علیحدگی میں اُن سے اُس غلطی، یا بُھول کے بارے میں بات کی جائے، اور اگر وہ نہ مانیں تو بھی ، اُس کی وجہ سے اُن کی پاس موجود دُرست عِلم کا حصول ترک نہ کیا جائے ۔
اللہ جلّ ثناوہُ ہم سب کو توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اِن آداب کو سمجھیں اور اپنائیں ، اور اُس کا دِین کا عِلم صِرف اُسی کی رضا پانے کے لیے حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔
::: ملاحظہ ::: یہ آداب إِمام الالبانی رحمہُ اللہ ، اور شیخ محمد المنجد حفظہُ اللہ کے کلام سے ماخوذ ہیں ۔ خیال رہے ماخوذ ہیں ، اُن کے اِلفاظ کا ترجمہ نہیں ہیں ، لہذا اِن الفاظ کو اُن میں سے کسی سے منسوب نہ سمجھا جائے۔
والسلام علیکم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔