Friday, June 30, 2017

::::: عورت اور مرد کی نماز کی ادائیگی کی کیفیت میں فرق :::::

:::::  عورت اور مرد کی نماز کی  ادائیگی  کی کیفیت میں فرق :::::
أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتَّبَع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشاقِقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبیَّنَ لہُ الھُدیٰ ، و اتَّبَعَ ھَواہُ فقدوَقعَ فی ضَلالٍ بعیدٍ۔
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جُنون،اور اُس کے دِیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اَشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اِس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئی اور(لیکن اُس شخص نے)اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دُور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
 تمام نبیوں اور رسولوں کے سردار ، اللہ  تعالیٰ کی مخلوق میں سے اللہ  پاک کو سب سے زیادہ جاننے والے ، اللہ جلّ جلالہُ کی سب سے بہترین اور مکمل ترین عِبادت کرنے والے ، اللہ تعالیٰ  کے بندے اور رسول مُحمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ  کی نگرانی اور اللہ کی عطاء کردہ عصمت میں اپنے منصبِ رسالت کو بہترین اور مکمل ترین طور پر نبھاتے ہوئے اللہ  پاک کے ہر ہر حُکم کی عملی اور ز ُبانی وضاحت فرما دی،
شاید ہی کوئی مُسلمان ایسا ہو گا جو ز ُبانِ قال سے اِس بات سے اِنکار کرتا ہو لیکن افسوس کہ ز ُبانِ حال سے اِنکار کرنے والے نظر آتے ہیں ، اور ایسی باتیں کہی اور لکھی جاتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قول و فعل سے ثابت نہیں بلکہ بسا اوقات اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قول و فعل کی مُخالفت بھی نظر آتی ہے ، اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کو اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل اتباع کی توفیق عطا فرمائے ،
اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کےاحکام ( حُکموں )میں سے ایک حُکم نماز قائم کرنے کا بھی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دِین کے اِس رُکن اور سب سے اہم ترین عِبادت کو ز ُبانی اور عملی طور پر بڑی وضاحت سے سمجھا دِیا اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے بڑی ہی باریک بینی اور امانت کے ساتھ اِس عِبادت کی ادائیگی کی تمام تر کیفیات اور طریقے دُوسروں تک پہنچا دِیں  ، اللہ تعالیٰ  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے عورت اور مرد کے لیے نماز کی کیفیت اور ادائیگی کے طریقے میں کہیں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ،
ہمارے کچھ  بھائی عورت اور مرد کی نماز کی کیفیت میں فرق بیان کرتے ہیں، کہیں اُسے  زمین کے ساتھ چپک کر نماز پڑھنے کا کہا جاتا ہے ، کہیں  کسی خاص انداز میں بیٹھنے کا کہا جاتا ہے ،
سالہا سال سے میں اُن کی کتابوں میں کوئی ایسی صحیح ثابت شُدہ  دلیل تلاش کر رہا ہوں  جو اُن کے اِس دعوے یا فتوے کی تائید کرتی ہو ، لیکن بِلا فائدہ  ،
 اُن سے اور اُن کے کئی عُلماء سے جو  ماشاء اللہ مُفتی کے منصب دار ہیں ، بالمشافہ پوچھ چُکا ہوں لیکن جواب ندارد،
 پھر بھی جو بات اُن کو ملی ہے اُسی پر عمل کیے جا رہے ہیں اور اُس کی تشہیر بھی کیے جارہے ہیں ، جبکہ اِس فرق کی کوئی صحیح ثابت شدہ دلیل  اُن کے پاس کوئی دلیل نہیں ،
سوائے اِس فلسفے کے کہ """چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عورت کو ڈھک چُھپ کر نماز پڑھنے کا حُکم دِیا ہے اِس لیے ہم اُسے زمین کے ساتھ چپک کر اور بازوپسلیوں کے ساتھ لگا کرسجدہ کرنے کا طریقہ سِکھاتے ہیں"""،
اِس فلسفے کے لیے کوئی ثابت شدہ دلیل مُیسر نہیں ،
جی، دو ضعیف روایات ہیں ، جِن کو شاید عورت اور مرد کی نماز کی کیفیت میں فرق کی بنیاد بنایا جاتا ہو، یہ دونوں روایات  إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے اپنی "سُنن الکبریٰ " میں روایت کی ہیں ،
اور اِن کو روایت کرنے سے پہلے لکھا ہے کہ """وَقَدْ رُوِىَ فِيهِ حَدِيثَانِ ضَعِيفَانِ لاَ يُحْتَجُّ بِأَمْثَالِهِمَا::: اور اِس (مسئلے میں ، یعنی عورت کی نماز کا طریقہ یا کیفیت الگ ہونے کے مسئلے ) میں  دو ضعیف (یعنی کمزور) حدیثیں روایت کی گئی ہیں ، ایسی حدیثوں کو حُجت نہیں بنایا جا سکتا   """،
وہ دو ضعیف ،یعنی کمزور ناقابلء حُجت روایات درج ذیل ہیں :::
::: (1) ::: ابو سعید الخُدری رضی اللہ سے  ایک طویل حدیث میں  کے درمیان میں روایت کیا گیا ہے کہ  (((وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَتَجَافُوا فِى سُجُودِهِمْ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ يَنْخَفِضْنَ فِى سُجُودِهِنَّ ، وَكَانَ يَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ يَفْرِشُوا الْيُسْرَى وَيَنْصِبُوا الْيُمْنَى فِى التَّشَهُّدِ ، وَيَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ يَتَرَبَّعْنَ  ::: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مَردوں کو حکم دِیا کیا کرتے تھے کہ اپنے سجدوں میں اپنے بازؤں کو کھلا رکھیں ، اور عورتوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ  اپنے سجدوں میں جُھک جایا کریں (زمین سے چپک جایا کریں )اور مَردوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ تشھد میں اپنے الٹے پاؤں کو بچھایا کریں اور سیدھے پاؤں کو کھڑا رکھیں کریں ، اور عورتوں کو حکم دِیا کرتے تھے کہ (تشھد میں ) اپنے دونوں پاؤں جسم کے نیچے  بچھا کر بیٹھا کریں  )))سُنن الکبریٰ للبیہقی /حدیث /3014کتاب الحیض /باب 335ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود ،
 اور خود إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ """ واللفظ الأول واللفظ الآخر مِن هذا الحديث مشهورأن عن النبي صلى الله عليه و سلم وما بينهما مُنكر والله أعلم:::اِس حدیث کا پہلا حصہ اور آخری حصہ دونوں ہی نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے  مشہور  (انداز میں  مروی )ہیں ،اور جو اِن دونوں کے درمیان ہے (یعنی یہ مذکورہ بالا اِلفاظ ) یہ منکر ہے  """،
لہذا ا یہ  روایت قابل حُجت نہیں ، اِس سے کوئی حکم نہیں لیا  جا سکتا ،
اِس کے بعد إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے درج ذیل روایت ذِکر کی ،
::: (2) ::: عبداللہ ابن عُمر سے روایت کیا گیا کہ  (((إِذَا جَلَسْتِ الْمَرْأَةُ فِى الصَّلاَةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلَى فَخِذِهَا الأُخْرَى ، وَإِذَا سَجَدْتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِى فَخِذَيْهَا كَأَسْتَرِ مَا يَكُونُ لَهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَيَقُولُ : يَا مَلاَئِكَتِى أُشْهِدُكُمْ أَنِّى قَدْ غَفَرْتُ لَهَا::: جب عورت نماز میں  بیٹھے  تو اپنی ایک ران کو دُوسری ران پر رکھے ، اور جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں کے ساتھ چپکا لے ،  کہ یہ اُس کے لیے سب سے زیادہ پردے والا ہو گا ، اور اللہ تعالیٰ اُس کی طرف دیکھتا ہے تو فرماتا ہے کہ ، اے میرے فرشتو ، گواہ رہنا کہ میں اِس عورت کی بخشش کر دی ہے ))) سابقہ حوالہ ،
 پہلی روایت کی سند میں عطاء بن العجلان نامی راوی ، اور دُوسری روایت میں ابو مطیع نامی راوی کی و جہ سے یہ دونوں روایات ضعیف ہیں ،
اِن دو ضعیف حدیثوں  کے بعد إمام البیہقی رحمہُ اللہ نے ایک مُرسل روایت بھی  ذِکر  کی ہے ، کہ ،  ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دو عورتوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو  اُن دونوں سے اِرشاد فرمایا (((إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِى ذَلِكَ كَالرَّجُلِ ::: جب تم سجدہ کرو تو   اپنے جِسم کا کچھ حصہ زمین کے ساتھ لگا دِیا کرو، کیونکہ نماز پڑھنے کے معاملے میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے )))سابقہ حوالہ ،
یہ روایت  یزید بن ابی حبیب کی مرسل  روایت ہے ، اور  مُرسل روایت بھی ضعیف یعنی کمزور، ناقابل حجت ہوتی ہے ، بالخصوص جب کہ اُسے کِسی صحیح روایت کی گواہی مُیسر نہ ہو ،
لہذا معاملہ بالکل صاف ہوا کہ عورت اور مرد کی نماز کی ادائیگی میں  ، نماز کے طریقے میں ، نماز کی کیفیت میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی فرق نہیں رکھا گیا،
صِرف افضلیت کے باب میں سے کچھ بزرگوں کے اقوال ایسے ملتے ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ عورت کو نماز پڑھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ڈھکا چھپا رکھنے کی کوشش کرنا ہی چاہیے ،
اور  شاید اِسی لیے   عورت کو سینے پر ہاتھ باندھنے کا حُکم فرمایا جاتا ہے ، جبکہ  عورت کا سینہ تو اللہ نے اُبھرا ہوا تخلیق فرمایا  ہے اب اگر وہ ہاتھ بھی سینے پر رکھتی ہے تو ڈھک چُھپ کر نماز پڑھانے کا  خیال نا دُرست  ہو جاتا ہے ،
 قطع نظر اِس کے کہ اِس فرق کی بھی قُران و سُنّت میں کوئی دلیل  نہیں ،
 اور نہ ہی مرد کے لیے سینے کے عِلاوہ کہیں بھی اور ہاتھ رکھنے کی ، جسسے عام طور پر ہاتھ باندھنے سے تعبیر کیا جاتا ہے ، نہ ہی اِس کی  کوئی صحیح  چابت شُدہ دلیل ہے ،
میرے محترم  مُسلمان بھائی بہنو، اللہ تعالی کا فرمان ہے ((( یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَرفَعُوا أَصوَاتَکُم فَوق َ صَوتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجہَرُوا لَہُ بِالقَولِ کَجَہرِ بَعضِکُم لِبَعضٍ أَن تَحبَطَ أَعمَالُکُم وَأَنتُم لَا تَشعُرُون::: اے ( لوگو)  جو أیمان لائے ہو اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند مت کرو اور نہ ہی اُس سے اونچی آواز میں بات کرو جیسے ایک دوسرے سے کرتے ہو ، کہیں ( ایسا نہ ہو کہ ) تمہارے أعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ ہو ))) سُورت الحجرات(49) / دُوسری آیت ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالٰی  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے آگے بڑھنے کا مطلب اللہ تعالیٰ  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فیصلوں اور حکموں کو ماننے اور اُن پر عمل کرنے کی بجائے اپنی یا کِسی اور کی رائے ، فتوے ، خیال یا بہانے بازی کرنا ہے ،
 اور اِسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی موت کے بعد اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی آواز سے مُراد اُن  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان ہیں جو اب تک نقل ہو کر آ رہے ہیں گویا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی آواز سُن رہے ہیں اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی آواز سے آواز بُلند کرنا اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پکار یا اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے بلائے جانے کو کِسی عام آدمی کی پکار سمجھ کر لاپرواہی کرنا ، اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات کو چھوڑ کر کِسی بھی اور کی بات کو أپنانا حرام ہے ،اور اِسکا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آفت یا عذاب کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایاہے ((( لَا تَجعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَینَکُم کَدُعَاء  بَعضِکُم بَعضاً قَد یَعلَمُ اللَّہُ الَّذِینَ یَتَسَلَّلُونَ مِنکُم لِوَاذاً فَلیَحذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَن أَمرِہِ أَن تُصِیبَہُم فِتنَۃٌ أَو یُصِیبَہُم عَذَابٌ أَلِیمٌ  ::: تُم رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) کے بلانے کو ایسا بلانا مت بناؤ جیسا کہ تُم لوگوں کا ایک دوسرے کو بلانا ہوتا ہے ، تُم میں سے اللہ اُنہیں خوب جانتا ہے جو ( رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے بلاوے پر ) نظر بچا کر چُپکے سے کِھسک جاتے ہیں لہذا جو لوگ اُس (اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں وہ خبردار رہیں کہ ( کہیں ) اُن پر کوئی آفت نہ آ پڑے یا ( کہیں ) اُنہیں کوئی عذاب نہ آ پکڑے )))سُورت النور(24) /آیت 63،
اللہ کرے کہ ہم لوگ  تبلیغِ دِین سے پہلے عِلمِ دِین کا کچھ بُنیادی حصہ تو حاصل کر لیں ، کم از کم اتنا  ہی جان لیں کہ جو بات ہم کہہ یا لکھ رہے ہیں وہ اللہ او ررسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے کِسی دلیل پر مبنی ہے کہ نہیں ،
 کم از کم دلیل تو جان لی جائے اُس کو دُرُست طور پر اِستعمال کِیا جا رہا ہے یا نہیں یہ جاننا دوسرا مرحلہ ہے ،
لیکن جب دلیل تک جاننے کی زحمت  ہی نہ  کی جائے تو پھر جِس کا جیسے جی چاہے اور جہاں جی چاہے ہمیں لیے چلتا ہے ۔
 اللہ تعالیٰ ہر کلمہ گو کو دِین اِسلام جاننے سیکھنے اور پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور اِسلامی مذاھب میں سے دُرست اور غیر دُرُست کی پہچان عطاء فرمائے ،
و السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
 طلبگارِ دُعا ،
 عادِل سُہیل ظفر۔
تاریخ کتابت : 13/125/1437ہجری ،بمُطابق ، 14/09/2016عیسوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, June 10, 2017

::: سترہ رمضان ، یوم الفرقان :::


::: سترہ رمضان ، یوم الفرقان  :::
اعُوذُ بِاللّہِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ و مِن ھَمزِہِ و نَفخہِ و نَفثِہِ
و الصّلاۃ و السَّلامُ عَلیَ خیرَ خَلقِہ ِ و عبدہِ و رَسولہِ محمد الذی لا نبیَّ ولا رسولَ بعدہُ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ،
سب سے پہلے تو یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون کِسی دِن کی، کِسی شخصیت کی  یا کِسی واقعے کی کسی بھی طور کوئی  یادگار ، کوئی سالگرہ وغیرہ منانے کے لیے نہیں ، بلکہ رمضان مبارک میں ہونے والے ایک عظیم واقعے کی بِناء پر اپنے اِیمان اور عمل کا جائزہ لینے کے لیے ہے ،
سترہ 17 رمضان مُبارک   وہ دِن ہے جِس دِن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نے  اپنے  صِرف تین سو تیرہ مجاھدین کے ساتھ اپنی جانیں اور مال سب ہی کچھ لے کر  اللہ کے دِین کی فتح کے لیے،  اللہ کے ، اور اللہ کے دِین  دُشمنوں کے ساتھ کفر و اِسلام کی  پہلی  جنگ لڑی ،  
باطل کے خلاف یہ  پہلا جہاد تھا ، اِس دِن اللہ تعالیٰ نے حق کو  باطل پر فتح عطاء فرما کر حق اور باطل میں واضح فرق کر دِیا ،  اِسی لیے اِس  دِن کو  اللہ تعالیٰ نے" یوم الفرقان " کہا ،
اور اِس جِہاد میں کفر اور باطل کا لعنتی سردار"ابو جھل" قتل ہوا ،
یہ بد بخت جہنمی شخص ہمارے محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو گالیاں نکالتا تھا ،   نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے   دو اِیمان والے، سچے اور عملی  محبانء رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم " معاذ بن عمرو ومعوذ بن عفراء رضی اللہ عنہما  "نے اِسے قتل و خون کی آندھی میں  ڈھونڈھ  ڈھونڈھ کر قتل  کیا،
یہ "ابو جھل "  وہ کافر تھا ، جِس کے بارے اللہ جلّ جلالہُ نے اپنے غیض و غضب کا ، اور اُسے جہنم میں داخل کرنے کا اعلان فرمایا ، سورت العلق (96)/آیات 10تا 18کا مطالعہ فرمایے ، یہ آیات اِسی کافر ابو جھل کے بارے میں نازل فرمائی گئی تِھیں،
یہ  بد بخت  ابو جھل ، اللہ تعالیٰ کا ، اُس کے دِین کا اور اُس  کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اتنا بڑا دُشمن تھا   کہ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ کافروں کا لشکر یہ جنگ کیے بغیر واپس جانے پر آمادہ تھا،  بلکہ ایک گروہ واپس بھی چلا گیا تھا ، لیکن اِس بد بخت نے باقی لوگوں کو پھر سے جنگ پر آمادہ کیا اور اپنے لیے جہنم میں ٹھکانہ پکا کر لیا ،
قارئین کرام ،  یہ کوئی معمولی سا جھگڑا نہیں تھا  ، کافروں کی طرف سے ایک بھاری اور اپنے دور کے بہترین اسلحے سے لیس فوج مُسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ اُن پر ٹوٹی پڑی تھی ، اور  اُن کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اُن کے جان نثار صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین روزے رکھ کر لڑتے رہے ،
یہ تھا اللہ سے مُحبت کا  عملی ثبوت ، اِیمان کا عملی ثبوت ، مُسلمانی کا عملی ثبوت ،
ہم سے شاید ہی اب کسی کو یہ پتہ ہو کہ ، قران کریم بھی رمضان میں نازل فرمایا گیا،  اور رمضان کے دِن روزہ کے ذریعے ، اور رمضان کی راتیں تراویح اور قیام اللیل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش پانے کے اوقات ہیں ، لیکن اب اِن کو طرح طرح "رمضان شوز " دیکھنے والے اوقات بنا دِیا گیا ہے ، 
اِس لیے آج ہم مُسلمانوں کا یہ حال ہے کہ رمضان کریم کے روزوں سے جان چھڑوانے کے لیے اپنے معمول کے عام سے بلا مشقت کاموں کو بھی عُذر بنانے کے لیے فتوے اور بہانے تلاش کرتے ہیں ،
اور جو ہماری خواہش کے مُطابق فتویٰ دے دے اُسے فوراً "مذھبی سکالر " ہونے کی سند جاری کر دیتے ہیں ،  خاص طور پر ہمارا میڈیا اِس قِسم کے مذھبی سکالرز کی ٖفصلوں کی  کاشت کاری میں بہت متحرک ہے ،
اِس میڈیا کی "برکات و کرامات " کے نتائج  کی وجہ سے ہی اب ہمارے"اسلامی جمہوریہ پاکستان "   میں معاشرتی انحطاط کا یہ عالَم ہو چکا ہے  کہ شاید ہی کوئی ایسا گناہ اور بدکاری نہ ہوتی ہو جِس کی بِناء پر  سابقہ اُمتوں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہوئے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سابقہ اُمتوں سے کہیں زیادہ اور کہیں بڑھ کر علی الاعلان وہ سب گناہ ہمارے معاشرے میں کیے جاتے ہیں ،  لواطت، ناپ تول میں کمی ، مِلاوٹ ، بد دیانتی، زنا ، شراب نوشی ، شراب کی خرید و فروخت ، بے پردگی ، بے حیائی، کفر و شرک پر مشتمل عقائد اور اُن عقائد پر مبنی خود ساختہ عِبادات ، اللہ  عزّ و جلّ کے احکام کا اِنکار ، اُن کا مذاق اُڑایا جانا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  کے احکام اور اعمال کا اِنکار اور اُن کا مذاق اُڑایا جانا ،  غرضیکہ  اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت والا ہر کام ہی کیا جا رہا ہے ،
افسوس صد افسوس کہ ہمارے  "اِسلامی جمہوریہ پاکستان "  میں اب بہت سے ایسے  "آزادی ء رائے  " اور "حریتء اختیار" کے علمبردار  پیدا کر دیے گئے ہیں جو اپنے آپ کو دِین ، اخلاقیات ، اِنسانیت  غرضیکہ ہر قِسم کی پابندیوں اور اقدار سے آزاد  کیے ہوئے ہیں ، اور اِسی گمراہی پر دُوسروں کو بھی لانا چاہتے ہیں ،
ہمارے اندر اب بھی بہت سے ابو جھل ہیں ، جنہیں اُن کے ماننے والے ابو الحکم بنا کر پیش کرتے ہیں ، ہمیں اِن لوگوں کی ، اور اِن کی دسیسہ سازیوں اور بظاہر علم والی لیکن درحقیقت جہالت اور کفر پر مبنی باتوں کا خوب اندازہ ہی نہیں بلکہ عِلم ہونا چاہیے ،
یاد رکھیے ، اگر ہم لوگ  ابھی سے ہی اپنے درمیان داخل کیے گئے ، بنائے گئے ، ابو جہلوں کی پہچان کر کے اُن کی مکاریوں کو آشکار نہیں کریں گے  تو ہماری آنے والی نسلوں میں سے بہت سے ایسے ہوں گے  جو اللہ پاک پر ایمان اور اپنے رب سے تعلق کو ، اُس کے دِین کو ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر ایمان اور تعلق کو ایک رسمی سی ،  کچھ تعارفی خانہ جات      پُر کرنے والی  کاروائی کےعِلاوہ اور کچھ  نہیں سمجھیں گے ، اور اُن کی شخصیات میں اللہ عزّ و جلّ کی ، اُس کے دِین کی ، اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مخالفت کرنا محض ایک اِنسانی حق ہو گا ، اور وہ اپنے اللہ کے دِین ء حق کی فتح و نصرت کے لیے کچھ کرنے والے نہ ہوں گے ، جِس کا یقینی انجام آخرت کی تباہی اور اُس سے پہلے دُنیا میں بھی ذِلت اور غلامی ہو گی ، جِس کی بہت سے مثالیں آج کے مُسلمانوں میں دِکھائی دے رہی ہیں ۔
(((     فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ ::: پس عِبرت حاصل، اے بصیرت والو)))۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون  کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔