::::::: التحیات کی ابتداء کا جھوٹا بے ثبوت قصہ :::::::
بِسّمِ اللَّہِ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
الحَمدُ
لِلّہ ِ وحدہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نبیَّ و لا مَعصُومَ بَعدَہ ُمُحمد ا ً صَلَّی اللَّہُ عَلیہ ِوعَلیٰ آلہِ وسلّمَ ، و
مَن أَھتداء بِھدیہِ و سلک َ عَلیٰ
مَسلکہِ ، و قد خِسَرَ مَن أَبتداعَ
و أَحدثَ فی دِینِ اللَّہ ِ بِدعۃ، و قد خاب مَن عدھا حَسنۃ ::: اکیلے اللہ کے لیے ہی ساری خاص تعریف ہے اور رحمت اور
سلامتی اس پر جِس کے بعد کوئی بنی نہیں اور کوئی معصوم نہیں وہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم، اور رحمت اور
سلامتی اُس پر جِس نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہدایت کے ذریعے راہ اپنائی اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم
کی راہ پر چلا، اور یقیناً وہ نقصان پانے
والا ہو گیا جِس نے اللہ کے دِین میں کوئی نیا کام داخل کیا ، اور یقیناً وہ تباہ
ہو گیا جِس نے اُس بدعت کو اچھا جانا ۔
السلام
علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
کچھ
لوگ نماز کے تشھد میں پڑھی جانے والے کلمات ""التحیات للہ ""
کی ابتداء کے بارے میں عجیب و غریب اُلٹے سیدہے سے واقعات نشر کر رہے ہیں ،
اور
صِرف نشر ہی نہیں کیے جا رہے بلکہ کچھ نصابی کتابوں میں بھی اِنہیں شامل کیا گیا ہے ،
یہ
واقعات نشر کرنے والے غیر معروف سی کتابوں
کے حوالے دینے کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں ، کِسی تفصیلی حوالے کے بغیر ہی بخاری و مُسلم بھی لکھ مارتے ہیں ،
مجھے
اِس قسم کے کچھ تصویری مراسلات وصول ہوئے تھے، اور کچھ تحریری ، جن میں کئی غیر معروف کتابوں کے نام بطور حوالہ
لکھے ہوتے ہیں ، اور اپنی بات کو وزن دار بنانے کے لیے غلط طور پر بخاری اور مُسلم
بھی ساتھ لکھ مارتے ہیں، اُن پیغامات میں جو کچھ لکھا ہوا تھا اُس کا لُب لُباب یہ
تھا کہ ،
"""
التحیات کی ابتداء ،
دراصل ، معراج کے سفر میں اللہ
تبارک و تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم کی مُلاقات کی ابتداء میں ادا کیے جانے آغازی
جملے ہیں ، جس میں پہلا حصہ ، یا
پہلا جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے ادا کیا گیا، پھر اُس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دِیا، اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک
جملہ فرمایا، او ر پھر فرشتوں نے ایک بات
کی، یہ تینوں باتیں التحیات بن گئیں اور نماز میں مقرر کر دی گئیں """
اس واقعہ کوئی با سند اصل نہیں ہے ،
مجھے
حیرانگی ہوتی ہے ، اور دُکھ بھی کہ ہم مُسلمان دُنیا کے کسی معا ملے ، کِسی خبر کی
چھان بین کرنے میں تو کافی چابکدستی کا مُظاہرہ کرتے ہیں لیکن ، دِین کی بات کے لیے نہیں ، بس اگر کوئی بھی شخص کسی بھی
کتاب کا حوالہ دے کر بات کر دے ، تو مان لیتے ہیں ، صرف مان ہی نہیں لیتے بلکہ اُس
کو نشر کر کے اپنے تیئں ثواب کماتے ہیں ،
محض
کسی سے حُسن ءظن کی بناء پر، ہم دِین اپنا
لیتے ہیں ،
ایک
مراسلہ تو ہمارے ہاں پائے جانے والے ایک مذہبی
سیاست دان ، اور جھوٹے بیانات دینے والے
اور جھوٹے قصے سنانے والے شخص کے نام
کے ساتھ تھا، جِس میں ایک کتاب
کے نا مکمل نام کا حوالہ دِیا گیا ، یعنی """معارج
النبوۃ""" لکھا ہوا ہے ، مجھے اپنے اہل سُنّت و الجماعت کے عُلماء
، کی عربی کُتب میں سے کسی کی کوئی کتاب اِس نام کی نہیں ملی ،
اُن
نام نہاد شیخ الاسلام صاحب نے التحیات کی
ابتداء کا جو واقعہ لکھا ہے ،وہ ہم اہل سُنّت
والجماعت یعنی ہمارے اور آپ کے عُلماء کرام ، محدثین کرام فقہا کرام رحمہم اللہ جمعیاً کے ہاں کہیں نہیں ملتا ،
اُس قصے کا کوئی ایک آدھ حصہ تفسیری بیانات ، شرح حدیث کی
چند ایک کتابوں اور صوفیاء کی کہانیوں میں ملتا ہے ،
مثال
کے طور پر ، "رُوح
البیان " جو کہ تفسیر الآلوسی کے نام سے معروف ہے ، اُس
میں سورت یٰس کی آیت ((( سَلامٌ
قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ ))) کی تفسیر میں اِس واقعہ کا ایک حصہ بیان ہو اہے ،
اور حدیث شریف کی شرح کی ایک دو کتابوں میں، تشھد کی
دُعا کے بیان میں اِس کا کچھ حصہ مذکور ہے
،
جیسا
کہ علامہ بدر الدین عینی
رحمہُ اللہ نے "شرح سنن ابو
داود" میں اور علامہ ملا علی قاری رحمہُ اللہ نے "مرقاۃالمفاتیح" میں ذِکر
کیا ہے،
اور فقہ کی کتب میں سے ایک دو کتابوں میں بھی اِسی طرح مجھول طور پر
اِس کا ذِکر ہے ،
لیکن کہیں بھی، کِسی کتاب میں اُس واقعہ کی کوئی سند ذِکر نہیں کی گئی ، بس سُنی سنائی آگے
بڑھائی گئی بات ہے ،
ایسی خبر کو کِس طرح قبول کیا جا سکتا ہے؟؟؟
جو سو فیصد غیبی امور میں سے ہے ،
اللہ عزّ و جلّ ، اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور اللہ کے
فرشتوں کی مجلس کے بارے میں ہے، جہاں کی کوئی خبر ، مجلس کے حاضرین میں سے کِسی کے
بتائے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے ،
کافی
تلاش بیسار کے بعد ایک کتاب بنام """معارج النبوۃ فی مدارج
الفتوۃ""" کی خبر ملی ،
لیکن
اسے لکھنے والا ایک ایرانی شیعہ تھا ، جس کا مکمل نام "معين الدين محمد بن محمد
مسكين فراهي" ہے ،
کیونکہ
اِس کتاب کی بارے میں یہ ہی معلومات ملی ہیں کہ اِس میں صاحب کتاب نے اپنی شیعی
روایات کو ، اپنی روایات کے مطابق بس قصہ
گوئی کے طور پر لکھ مارا ہے ، اکثر روایات کی
کوئی سند نہیں ، پتہ ہی نہیں کہ کہاں سے آئی ؟؟؟
لہذا
اِس حوالے کی کوئی وقعت نہیں ،
ہم ایسی
کسی بات کو اپنے کسی عام سے معمولی سے دُنیاوی مُعاملے میں بھی قُبول نہیں کر سکتے
چہ جائیکہ دِین کے ایک بنیادی اور أہم ترین معاملے میں اُسے مانا جائے ،
::::::یہ بات تو تھی شیعہ کتاب میں لکھے ہوئے من گھڑت، خود ساختہ
، بلا سند واقعے کی ،
اِس کے علاوہ ایک مراسلے میں یہ واقعہ کسی
"مظاہر حق جدید " نامی کتاب کے حوالے سے مذکور ہے ،
اس
کتاب کو لکھنے والے کوئی " نواب محمد قطب الدین دھلوی "صاحب ہیں ،
کتاب
میں واقعے کو دیکھے بغیر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں کوئی سند مذکورہ ہے یا دیگر
کتابوں کی طرح بلا سند ہی نقل کر دیا گیا
،
:::::: اب آیے اپنی اہل
سُنّت والجماعت کی کتابوں میں دیکھتے ہیں کہ ہمیں نماز میں التحیات کی ابتداء کے
بارے میں کیا صحیح ثابت شُدہ خبر ملتی ہے :::
عبداللہ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ """ہم نماز میں کہا کرتے
تھے کہ ، اللہ پر سلام ہو ، اور فُلاں پر سلام ہو ، تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم نے ہم سے اِرشاد فرمایا کہ ﴿ إِنَّ اللَّهَ هُوَ
السَّلاَمُ ، فَإِذَا قَعَدَ أَحَدُكُمْ فِى الصَّلاَةِ فَلْيَقُلِ التَّحِيَّاتُ
لِلَّهِ إِلَى قَوْلِهِ الصَّالِحِينَ . فَإِذَا قَالَهَا أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ
لِلَّهِ فِى السَّمَاءِ وَالأَرْضِ صَالِحٍ ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ
اللَّهُ ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ . ثُمَّ يَتَخَيَّرُ
مِنَ الثَّنَاءِ مَا شَاءَ ::: اللہ تو خُود سلام ہے (یعنی وہی تو سلامتی دینے
والا ہے) لہذا جب تُم میں سے کوئی نماز میں (تشھد کے لیے) بیٹھے تو کہے ، تمام تر تعظیم اللہ کے لیے ہی ہے ، (اور
)صالحین کہنے تک (ہمیں سِکھایااور پھر اِرشاد فرمایا)اگر نمازی نے یہ کہا تو اُس
(کی اِس دُعاء) نے آسمان اور زمین میں اللہ کے ہر نیک بندے کو شامل کر لیا ،(پھر
یہ سِکھایا کہ ہم اُس کے بعد یہ کہیں
کہ)اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے عِلاوہ کوئی حقیقی اور سچا معبود نہیں ، اور
میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ، پھراِس کے بعد
(اللہ کی )تعریف میں سے جو چاہے اختیار کرے﴾صحیح البخاری/حدیث6328/کتاب الدعوات/باب 17،صحیح مُسلم/حدیث 924/کتاب الصلاۃ/باب 16،
صحیح مُسلم کی روایت میں """ الثَّنَاءِ """ کی جگہ """ الْمَسْأَلَةِ ::: یعنی سوال """ہے ،
اِس حدیث شریف سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تشھد میں التحیات پڑھنا سِکھایا ، تو
اِس کی کوئی وجہ بیان نہیں فرمائی ، اور یہ واقعہ نماز کے فرض ہونے کے بعد کا ہی
ہے ، اور کافی بعد کا ہے ،
اگر معراج میں وہ کچھ پیش آیا ہوتا جو
کچھ تصویری مراسلہ میں نظر آنے والی اُس
خود ساختہ روایت میں لکھا ہوا ہے تو یہ تشھد تو نماز کے شروع ہوتے ہی سکھایا
جاناچاہیے تھا ، یعنی مکی زندگی میں ، نہ کہ سالوں بعد کی مدنی زندگی میں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ جاننے اور
سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے کہ اللہ پاک سے ، اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ
وعلی آلہ وسلم سے بلا تصدیق کوئی قول یا
فعل منسوب کرنے اور اُسے نشر کرنے کا انجام جہنم میں ٹھکانہ ہے ،
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے درج ذیل
مضمون کا مطالعہ ضرور فرمایے :
::: رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و علی آلہ وسلم سے بلا ثبوت بلا تصدیق کچھ منسوب کرنے کا انجام:::
والسلام علیکم۔
التحیات کے قصے والے اِس مضمون کا برقی
نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔