Tuesday, November 10, 2015

::::::: غار میں پھنس جانے والوں کا واقعہ اور اُس میں سے ملنے والے سبق ::::::

::::: سُنّت مُبارکہ کے باغ میں سے :::::

::::::: غار میں پھنس جانے والوں کا واقعہ اور اُس میں سے ملنے والے سبق ::::::

أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ
بِسمِ اللَّہ ،و السَّلامُ عَلیَ مَن اتبع َالھُدیٰ و سَلکَ عَلیَ مَسلکِ النَّبیِّ الھُدیٰ مُحمدٍ صَلی اللہُ علیہِ وعَلیَ آلہِ وسلَّمَ ، و قَد خَابَ مَن یُشقاقِ الرَّسُولَ بَعدَ أَن تَبینَ لہُ الھُدیٰ ، و اتبِعَ ھَواء نفسہُ فوقعَ فی ضَلالاٍ بعیدا۔
میں  شیطان مردُود(یعنی اللہ کی رحمت سے دُھتکارے ہوئے)کے ڈالے ہوئے جنون،اور اُس کے دیے ہوئے تکبر، اور اُس کے (خیالات و افکار پر مبنی)اشعار سے، سب کچھ سننے والے ، اور سب کچھ کا عِلم رکھنے والے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں،
شروع اللہ کے نام سے ، اورسلامتی ہو اُس شخص  پر جس نے ہدایت کی پیروی کی ، اور ہدایت لانے والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ پر چلا ، اور یقینا وہ شخص تباہ ہوا جس نے رسول کو الگ کیا ، بعد اس کے کہ اُس کے لیے ہدایت واضح کر دی گئ اور(لیکن اُس شخص نے) اپنے نفس  کی خواہشات کی پیروی کی پس بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ۔
السلامُ علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ ،
عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿تُم لوگوں سے پہلے والوں میں سےتین لوگ کہیں جا رہے تھے کہ اُنہیں بارش نے آ لیا، تو اُنہوں نے ایک غار میں پناہ لی،(غار کے دھانے پر ایک چٹان آ گئی اور)غار کا دھانہ اُن پر بند ہو گیا،تو اُن میں سے کسی  نے کہا اے ساتھیو، اللہ کی قسم تم لوگوں  کے بچنے (کا سبب ) سِوائے صِدق کے اور کچھ نہیں ہو سکتا،
لہذا تُم سے ہر ایک اُس کام کے ذریعے (یعنی اُسے وسیلہ بنا کر اللہ سے)دُعاء کرے جس کام کے بارے میں اُسے یقین ہو کہ وہ کام اُس نے (اللہ تعالیٰ کے لیے خالص)صِدق سے کیا تھا،
تو اُن میں سے ایک نے(دُعاء کرتے ہوئے یہ)کہاکہ""" اے اللہ، آپ جانتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے پاس ایک شخص نے چاولوں کے فَرَق(تین صاع کے برابرا ایک پیمانہ)کے عوض میرے لیے کام کیا ،اور وہ اپنا معاوضہ لیے بغیر چلا گیا، تو میں نے (اُس شخص کے حق کا فَرق)زراعت میں اِستعمال کیا، اور اُس (زراعت سے حاصل کردہ نفع)کے ذریعےمیں کچھ گائے خریدیں
پھر وہ شخص میرے پاس آیا اور اپنے حق کا مُطالبہ کِیا، تو میں نے اُسے کہا کہ اُن گاوؤں کے پاس جاؤ اور اُنہیں لے جاؤ،
اُس نے کہا تمہارے پاس میرے لیے چاولوں کا ایک فَرق ہے ،
تو میں نے کہا کہ اُن گاوؤں کی طرف جاؤ، وہ سب گائے(چاولوں کے)اُسی فَرق میں سے ہیں،
تو اُس نے وہ سب گائے لِیں اور چلا گیا ،
(اے اللہ)اگر تو یہ میں نے تیرے خوف سے کِیا تھا تو ہمارا راستہ کھول دے،
تو (اِس دُعاء کے بعد)وہ چٹان تھوڑا سے ہٹ گئی،
تو (اِس کے بعد)دُوسرے شخص نے (دُعاء)کرتے ہوئے کہا ، اے اللہ ، تُو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے تھے ،اور میں ہر رات اُن کے لیے اپنی بکریوں کا  دُودھ لے کر آتا تھا،
ایک رات مجھے اُن کے پاس پہنچنے میں دیر  ہوگئی ، تو وہ دونوں سو چکے تھے ، اور میری بیوی اور بچے بھوک سے بے حال تھے ، (میری طرف آہ و بکا کر رہے تھے)،لیکن میں اپنے بیوی بچوں کو اُس وقت تک دُودھ نہیں پلاتا تھا جب تک میرے ماں باپ نہ پی لیں ، اور اِس وقت مجھے یہ گوارہ نہ ہوا کہ میں (بیوی بچوں کی خاطر)اپنے ماں باپ کی نیند خراب کروں، اور مجھے یہ بھی پسند نہیں تھا کہ  اُنہیں دُودھ (پلائے بغیر)چھوڑ دوں ، کہ کہیں وہ (مزید)کمزوری کا شِکار نہ ہوجائیں(کہ یہ دُودھ ہی تو اُن کے لیے رات کا کھانا ہوتا تھا)،
لہذا میں دُودھ کا برتن لے کر( اُن دونوں کے سرھانے ، اُن کے خود سے جاگنے کا) انتظار کرتا رہاحتیٰ کہ فجر ہو گئی،   (اے اللہ)اگر تو یہ میں نے تیرے خوف سے کِیا تھا تو ہمارا راستہ کھول دے،
تو (اِس دُعاء کے بعد) وہ چٹان تھوڑا سے ہٹ گئی،یہاں تک انہوں نے آسمان دیکھا(لیکن اتنا راستہ نہ کھلا کہ وہ نکل سکتے)،
تو (اِس کے بعد)تیسرے شخص نے (دُعاء)کرتے ہوئے کہا ، اے اللہ ، تُو جانتا ہے کہ مجھے میرےچچا(یا تایا) کی بیٹی سب سے زیادہ محبوب تھی ، اور میں نے اُسے(ناجائز تعلقات بنانے کے لیے) پُھسلانے کی بہت کوشش کی ،لیکن اُس کی یہی شرط رہی کہ میں اُسے سو دینار دوں تو پھر ہی وہ اِس کام پر راضی ہوگی،
پھر میں نے ایک سال کوشش کر کر کے  یہ مال جمع کیا ، اور اُس کو دِیا ،
تو اُس نے اپنا آپ میرے حوالے کر دِیا ، یہاں تک کہ جب میں اُس کے دونوں پیروں کے درمیان بیٹھ گیا ، تو اُس نے کہا کہ ، اللہ (کے غصے اور عذاب )سے بچو،اوربغیر حق کے مہر مت توڑو،
تو میں وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا ،ا ور سو دینار بھی چھوڑ دیے،
(اے اللہ)اگر تو یہ میں نے تیرے خوف سے کِیا تھا تو ہمارا راستہ کھول دے،
تو (اِس دُعاء کے بعد) اللہ تعالیٰ نے اُن کا راستہ کھول دِیا اور وہ لوگ باہر نکل گئےصحیح  البُخاری /  حدیث /3465کتاب احادیث الانبیاء/باب53،صیح  مُسلم  / کتاب الرقاق/ حدیث/7125باب2،
::::: فقہ الحدیث ::: حدیث کی تشریح اور أحکام :::::
اِس حدیث شریف میں ہمیں درج ذیل احکام اور سبق ملتے ہیں ،
::: (1) ::: اِیمان والا اللہ سے دُعاء کرتے ہوئے  اپنے اُن نیک کاموں کو وسیلہ بنا سکتا ہے جو اُس نے خالصتاً اللہ کی رضا کی نیّت سے کیے ہوں،
اور یہ نیک نیتی سے کیے گئے ، اور دُرست طور پر کیے گئے نیک کام ہی وہ وسیلہ ہیں جس کا ذِکر اللہ جلُ و عُلا نے اپنے اِس فرمان میں کیا ہے کہ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ::: اے إِیمان لانے والو، اللہ (کی ناراضگی ، غُصے اور عذاب )سے بچو، اور اللہ کی طرف قُرب تلاش کرو، اور اُس کی راہ میں جِہاد کرو، تا کہ تُم لوگ(آخرت کی) کامیابی حاصل کر سکو سُورت المائدہ(5)/آیت 35،
[[[وسیلے کے بارے میں مکمل تفصیل الگ کتاب کی صُورت میں بیان کی جا چکی ہے ، وللہ الحمد]]]
::: (2) ::: خوشحالی ، یعنی نرمی ، راحت، آسانی ، تونگری، صحت و عافیت اور سکون و اطمینان کی حالت میں ،نیک نیتی سے کیے گئے ، نیک کام اِیمان والوں کی سختی ، پریشانی اورشدت کی حالت میں فائدہ دیتے ہیں ، 
یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِن الفاظ میں بھی سمجھائی کہ ﴿تعرَّف إلى الله في الرَّخاء ، يَعرفكَ في الشِّدَّةِ :::تُم اللہ کو (اپنی)خوشحالی میں یاد رکھو وہ تمہیں (تمہاری)سختی والے وقت میں یاد رکھےگا صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ/حدیث 2961،
اِنسان پر فرض ہےکہ وہ صِرف اور صِرف اور براہ راست اپنے اکیلے لا شریک خالق ، مالک اور رب اللہ جلّ جلالہُ سے ہی دُعاء کرے ، خاص طور پر جب وہ کسی مصیبت یا پریشانی کا شِکار ہو تو ایسے میں تو اُسے اور زیادہ خالص توحید اختیار کرتے ہوئے صِرف اور صِرف اپنے اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہی دُعاء کرنی چاہیے ، مخلوق میں سے کسی بھی زندہ یا مُردہ کو ، یا اُس کی کسی صِفت ، رتبے ، جاہ ، حق ،طفیل ، صدقے ، وغیرہ کو وسیلہ بنا کر اپنی دُعاء کو اللہ کی رحمت کی بجائے اُس کی ناراضگی کا سبب نہ بنائے ،
یادرکھیے، اور خُوب اچھی طرح سے یاد رکھیے محترم قارئین کرام ،  کہ ،اللہ جلّ و عُلا کے ساتھ ، یا اُس کے عِلاوہ کسی بھی اور سے دُعاء کرنا ، یا اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے دُعاء کرتے ہوئے ، اللہ اور اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے منظوری کے بغیر دُعاء کی منظوری کے بارے میں کوئی ذریعہ کوئی عقیدہ اختیار کرنا ، اور کسی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ کسی کام  کو آپ کی دُعاء  کے مُطابق کرنے ، یا اللہ سے کروانے کی صِفت یا صلاحیت وغیرہ رکھتا ہے ، شرک میں سے ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان شریف ہے کہ ﴿وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ ::: اور (اے  میرے رسول محمد آپ )  اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی چیز کو نہ  پکاریے گا جو آپ کو نہ تو کوئی فائدہ دے سکتی ہے اور نہ ہی کوئی نقصان ، اور اگر آپ نے ایسا کیا تو پھر یقیناً آپ ظُلم (شرک) کرنے والوں میں سے ہو جائیں گےسُورت یُونُس(10)/آیت106،
قران کریم میں اللہ عزّ و جلّ کے کلام کے  عمومی اسلوب کے مُطابق اِس آیت شریفہ میں ظالمین کا معنی شرک کرنے والے ہی بنتا ہے ،اِسی لیے میں نے، ظالمین کا ترجمہ شرک کرنے والے لکھا ہے،
::: (3) ::: اللہ کی محبت کسی بھی اور محبت سے بڑھ کر ہونا، اپنے نفس کی خواہشات سے بڑھ کر ہونا، إِیمان والوں کی صِفت ہے ،
::: (4) ::: خوشحالی ، جو کوئی اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کے لیے زنا کرنے، یا کوئی بھی گناہ کرنے کے تمام تر مواقع موجود ہونے کے باوجود وہ گناہ نہ کرے ، تو اللہ  سُبحانہُ و تعالیٰ اُسے مصیبتوں اور مشکلوں سے نجات دیتا ہے،
::: (5) ::: جو کوئی محنت کاروں ، مزدوروں ، اور حق داروں کے حق محفوظ رکھتا ہے ، اور طلب  کیے جانے پر ادا کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ سختی اور پریشانی کے وقت میں اُس کی مدد کرتا ہےا ور اُسے بجات دیتا ہے،
اگر کسی کے حق میں سے کوئی مال آپ کے پاس رہ گیا ہو، اور صاحب حق تک رسائی ممکن نہ ہو ، تو آپ وہ مال کسی تجارت میں لگا سکتے ہیں ، لیکن جب صاحب حق اپنا حق طلب کرے تو اُس کا حق اور اُس کے ذریعے کمایا گیا سب مال ہی اُس کو دینا واجب ہے ، کیونکہ دراصل اُس کے حق کے مال کے ذریعے جو کچھ کمایا گیا وہ اُسی کا حق ہے،
ہم سے پہلی والی امتوں  جو شریعتیں دی گئیں ، اُن میں سے جن احکام اور مسائل کی تعریف کی گئی ، اور اچھائی کے طور پر اُن کی خبر دی گئی ، اور اُن کے منسوخ ہونے کی خبر نہیں دی گئی تو ایسے غیر منسوخ شُدہ احکام و مسائل ہماری شریعت میں بھی  قُبول و منظور ہیں ،
::: (6) ::: ماں باپ کے حق کی ادائیگی  کو بیوی بچوں کے حق ادا کرنے  پر أولیت دینا اللہ کے ہاں محبوب ہے ،  
::: (7) ::: ہر ایک کام کا اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے لیے اخلاص  ہونا ضروری ہے ، یعنی ، وہ کام خالصتاً صِرف اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو تو ہی وہ  اللہ کے ہاں مقبول ہوتا ہے،جیسا کہ غار میں پھنس جانے والے  تینوں آدمیوں نے کہا تھا کہ ﴿(اے اللہ)اگر تو یہ میں نے تیرے خوف سے کِیا تھا تو ہمارا راستہ کھول دے
لیکن خیال رہے کہکسی نیکی کا اللہ کے ہاں مقبول ہونے کے لیے صِرف اخلاص للہ ہی کافی نہیں ، بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس کے لیے دوسری شرط اُس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت بھی رکھی ہے،لہذا کسی ایک شرط کی غیر موجودگی کسی بھی نیکی کے قبول ہونے کی اُمید کو ختم کرنے والی ہوتی ہے،
اللہ جلّ و عزّ ہم سب کو حق جاننے،ماننے،اپنانے اور اُسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اپنے حضور حاضر ہونے والوں میں سے بنائے ۔
والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 17/11/1436ہجری،بمُطابق،01/09/2015عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4 comments:

Farrukh نے لکھا ہے کہ

السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہُ
یہ بہت ایمان افروز آرٹیکل ہے عادل بھائی۔۔ جزاک اللہ خیرا وکثیرا۔۔۔
ایک بات میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا بندے کو، اللہ سے یوں دعا کرتے وقت اپنی نیکیوں کو یوں گنوانا یا جتانا چاہئیے؟؟ کیونکہ اس علام الغیوب اور ستار العیوب، اور غفارالذنوب کو یوں اپنی نیکیاں بتانا کچھ عجیب سا نہیں لگتا؟؟؟

Farrukh نے لکھا ہے کہ

السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ
یہ بہت ایمان افروز آرٹیکل لکھا ہے عادل بھائی۔۔۔ جزاک اللہ کثیرا و خیرا۔۔۔
مگر کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ اس علام الغیوب، و ستار العیوب و غفار الذنوب، رب العالمین کو یوں اپنی نیکیاں جتائی جائیں یا گنوا کر دعا کیا جائے؟
ممکن ہے کہ واقعے میں یہ سمجھانے کے لئے ہو، مگر ذاتی طور پر میں رب کو یہ نہیں کہتا کہ میں نے فلاں فلاں نیکی کی تھی۔۔۔ بلکہ گناہوں کی معافی کے ساتھ اسکی لا محدود رحمت اور محبت کا واسطہ دینا زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔۔۔۔

والسلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہُ

Adil Suhail Zaffar عادل سھیل ظفر نے لکھا ہے کہ

و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم فرُخ بھائی ، جزاک اللہ خیراً ،
آپ کا توجہ بھرا مطالعہ بہت خوشی کا باعث ہوتا ہے ،
فرُخ بھائی ،
اِس واقعے کو بیان کرنے کی حِکمتیں وہ ہی ہیں جنہیں اسباق کے طور پر مضمون میں بیان کیا گیا ہے ،
اور اُن میں پہلا سبق یہ ہے کہ :::
""" اِیمان والا اللہ سے دُعاء کرتے ہوئے اپنے اُن نیک کاموں کو وسیلہ بنا سکتا ہے جو اُس نے خالصتاً اللہ کی رضا کی نیّت سے کیے ہوں"""۔
یہ اِسلامی عقیدے کا ایک بہت ہی أہم اور بنیادی سبق ہےجو اِس واقعے کے ذریعے بھی دِیا گیا ،
معاذ اللہ ، اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ کو اپنی نیکیاں گنوانے یا جتانے کا معاملہ نہیں ہے ، بلکہ یہ سمجھایا گیا ہے کہ جو کام خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا مندی کے حصول کے لیے کیے جاتے ہیں ، وہی کام اللہ کی رحمت کے حصول کا سبب ہوتے ہیں ، اور کسی مشکل یا مُصیبت کے وقت اپنے اُن کاموں کا ذِکر کر کے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا ، اللہ الرحمن الرحیم کی رحمت کو جوش دِلوانے کے اسباب میں سے ہے ، نہ کہ اپنی کسی نیکی کو جتانا ،
جس کا ثبوت حدیث شریف میں مذکور اُن کا تینوں کا ایک دوسرے سے یہ کہنا ہےکہ """ اے ساتھیو، اللہ کی قسم تم لوگوں کے بچنے (کا سبب )سِوائے صِدق کے اور کچھ نہیں ہو سکتا"""،
(((صِدق ، کے بارے میں ایک مضمون پہلے نشر کیا جا چکا ہے ، http://bit.ly/1avEyeY وللہ الحمد)))
اور پھر تینوں ہی اشخاص کے یہ الفاظ بیان فرمائے گئے ہیں کہ """(اے اللہ)اگر تو یہ میں نے تیرے خوف سے کِیا تھا تو ہمارا راستہ کھول دے"""،
پس یہ معاملہ ، اللہ عزّ و جلّ کو اپنی نیکیاں گنوانے یا جتانے کا نہیں ، اور نہ ہی ایسا کرنے کا کوئی جواز لیے ہوئے ہے،
آپ اگر اللہ جلّ و عُلا کی رحمت کا سوال کرتے ہوئے اِس وسیلے کو نہیں اپناتے تو کوئی حرج نہیں ، اِن شاء اللہ ، کیونکہ اِس وسیلے کو اپنانا فرض یا لازم تو نہیں ،
اور نہ ہی اِس وسیلے کو اپنانے کو کسی بھی طور نا مُناسب خیال کرنا مُناسب ہے ،
لیکن ، اِس بات کا خیال بہت ضروری ہے کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے سوال کرتے ہوئے ، دُعاء کرتے ہوئے وہی وسیلے اور واسطے اپنائیں جائیں جنہیں اپنانے کی کوئی دلیل میسر ہو ،
کچھ وقت ملے تو وسیلے کے بارے میری کتاب کا مطالعہ ضرور فرمایے گا ،
http://bit.ly/1LPJebe
اِن شاء اللہ ، چند دِنوں اِس میں کچھ اضافہ کر کے نیا اصدار بھی نشر ہونے کے لیے اِرسال کروں گا ،
اپنی دُعاؤں میں یاد رکھیے گا ، والسلام علیکم۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

جزاک اللہ خیراً

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔