٦٦ ٦ قران کے سایے میں ، قران فہمی٥ ٥ ٥
::::::: قران کریم میں خوف کے معانی و مفاہیم :::::::
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ
الرَّحِيمِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ
الرَّجِيمِ مِنْ هَمْزِهِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ ۔
و الصَّلاۃُ والسَّلامُ عَلیٰ رَسولہ
ِ الکریم مُحمدٍ و عَلیَ آلہِ وَأصحابہِ وَأزواجِہِ وَ مَن تَبِعَھُم بِاِحسانٍ
إِلٰی یَومِ الدِین ، أما بَعد:::
السلام علیکم ور حمۃُ اللہ و برکاتہ ،
"""خوف"""
ایسی نفسیاتی اور جسمانی کیفیت کو کہا جاتا ہے جو کسی ذی شعور مخلوق ( اِنسان یا جانور یا کچھ
نباتات وغیرہ) پر اُس وقت طاری ہوتی ہے جب اُسے اپنی کسی چیز کے بارے میں کوئی ایسا خطرہ لا حق ہو
،جِس خطرے سے نمٹنے کی وہ صلاحیت نہ رکھتی
ہو ، یا کسی پسندیدہ چیز کے کھو جانے کے اندیشے کی بنا پر ہو ،
"""خوف
"""کا متضاد """أمن """ ہوتا ہے ، جو
ایسی نفسیاتی اور جسمانی کیفیت کو کہا جاتا ہے جِس میں کوئی اِنسان ،جانور یا ذی شعور
و فہم مخلوق اپنے اور اپنی کسی بھی چیز
کے بارے میں کسی خطرے کا، کسی پریشانی کا شِکار نہیں ہوتا ،
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب کریم میں اِنسانوں کی
دینی ، دُنیاوی اور اُخروی زندگی میں اِن دونوں کیفیات کے ہونے کا ذِکر فرمایا ہے
،
اِن شاء اللہ میں اِس مضمون میں ، مختصر
طور پر """خوف """کے معانی اورمفاہیم کا بیان پیش
کروں گا ،
اِنسانوں میں سے اللہ پر اِیمان لانے
والوں میں کی زندگیوں میں سب سے بہترین ، اور حقیقی طور پر ہر لحاظ سے فائدہ مند
اور خیر والا"""خوف""" اللہ تبارک وتعالیٰ سے
"""خوف"""ہے ، جو اللہ
جلّ و عُلا کی عبادت کرنے والوں کی اعلیٰ ترین منازل تک پہنچنے کا ایک أہم اور
بنیادی سبب ہے ،
::::: قارئین کرام ، توجہ فرمایے ، سمجھ
لیجیے ، اور پھر ہمیشہ یاد رکھیے ،کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ سے
"""خوف"""کچھ اُس طرح کا رُعب یا خوف نہیں جو کسی
خونخوار درندرے ، یا کسی ظالم اِنسان ، یا کسی تباہ کُن موسم یا چیز کا سامنا کرنے
کے خیال سے یا سامنا کرنے سے پیدا ہوتا ہے
بلکہ ، اللہ القوی العظیم الجبار القہار
کی ناراضگی اور اُس کے عذاب سے بچنے کے لیے اُس کی نافرمانی کو ترک کرنا ہے اور
اُس کی تابع فرمانی اختیار کرنا ہے ، اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ"""
لا يُعَدُّ خائفاً مَن لم يكن لِلّذُنوبِ تاركاً ::: جو گناہ ترک کرنے والا
نہیں ہوتا وہ(اللہ سے)خوف کرنے والا شُمار نہیں ہوتا"""،
::::::: خوف
کی اِقسام :::::::
خوف کو بنیادی طور پر دو اِقسام میں تقسیم
کیا جاتا ہے ،
::::: (1) ::::: تعریف کیا گیا خوف ، مطلوب
خوف :::::::
یہ وہ خوف ہے جو بندے اور اللہ کی
نافرمانی کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اوربندے کو اللہ کی نافرمانی سے روکنے کا سبب
بنتا ہے ، اور اگر یہ خوف مطلوبہ حد سے
تجاوز ہو جائے تو یہ خوف اللہ کی رحمت اور مغفرت سے مایوسی میں داخل ہو جائے ۔
::::: (2) ::::: برا کہا گیا خوف ، غیر مطلوب خوف :::::::
یہ وہ خوف ہے جو بندے کو اللہ کی رحمت اور
مغفرت سے مایوس کردیتا ہے ، اور بندے کو اُس کے گناہوں میں کمی کرنے کی بجائے ،
مزید گناہوں پر اکساتا ہے ، اور اللہ کی مزیدنافرمانی پر مائل کرتا ہے ، مثلاً
لوگوں کا یہ سوچنا کہ میں تو فلاں فلاں گناہ کرچکا ہوں یا کرتاہوں ، میری بخشش
کہاں ہو گی ، لہذا اب کچھ اور بھی کر لوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ، وغیرہ ،
[[[الحمد للہ ، اللہ
سے خوف ، اور اُس کی مغفرت کی اُمید کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون بعنوان """اِیمان والا اُمید اور خوف کے درمیان
رہتا ہے""" پہلے نشر
کر چکا ہوں، تفصیل جاننے کے خواہش مند حضرات اُس کا مطالعہ فرمایے ، اِن شاءاللہ فائدہ مند ہو گا ، یہ مضمون میرے بلاگ پر درج ذیل ربط پر میسر ہے، http://bit.ly/1nvQa6p اور
اِس کے عِلاوہ دیگر کچھ فورمز پر بھی نشر کیا گیا تھا]]]
::::: قران کریم میں لفظ """
خوف""" کا اِستعمال مختلف صیغوں میں ، اور مختلف انداز و کیفیات کا
ذِکر لیے ہوئے ایک سو چوبیس (124)دفعہ ہوا ہے ،
:::::فعل کے طور
پر ، جیسا کہ﴿إِنِّي
أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ:::میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں﴾سُورت المائدہ(5)/آیت28،
::::: اسم کے طور پر ، جیسا کہ ﴿فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ
يَحْزَنُونَ:::لہذا جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو اُنہیں کوئی ڈر نہ ہو گا اور نہ ہی وہ غم زدہ ہوں گے﴾سُورت
البقرہ (2)/آیت3،
::::: لا ناھیہ(ممانعت والے حکم )کے ساتھ، جیسا کہ﴿لَا تَخَفْ نَجَوْتَ
مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ:::ڈرو نہیں ، تُمہیں ظالموں کی قوم سے بچا لیا گیا ہے﴾سُورت القصص (28)/آیت25،
::::: لا نافیہ (کسی کام کے نہ ہونے کے بیان کے طور پر )کے ساتھ،
جیسا کہ﴿وَمَنْ
يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا:::اور جوکوئی
اِیمان والا نیک کام کرے گا ، تو اُسے کسی ظلم کا ڈر نہ ہو گا اور نہ ہی کسی حق
تلفی کا ﴾سُورت طہٰ (20)/آیت112،
::::: لفظ """ خوف""" قران کریم
میں سات7 مختلف معانی میں استعمال فرمایا گیا ہے :::::
::::: پہلا معنی ٰ ::::: دُشمن سے خوف :::::
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُم
بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ
وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ::: اور ہم ضرور تُم لوگوں کو ڈر و خوف ، فاقہ کشی، اور مال اور
جان اور کمائی میں نقصان کے ذریعے آزمائیں گے ، اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری
سنا دیجیے﴾سُورت
البقرہ (2)/آیت155،
اِس آیت شریفہ کی تفسیر میں مفسر القران عبداللہ ابن عباس رضی
اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ""" اِس میں خوف سے مُراد دُشمن سے ڈر نا ہے"""،
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرمان﴿الَّذِي أَطْعَمَهُم
مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ::: جِس نے اُن لوگوں کو بھوک سے بچا کر کھانا کھلایا ، اور
اُنہیں (دُشمن کے)خوف سے أمن دِیا﴾سُورت قریش(106)/آیت4،
إِمام مجاھد رحمہُ اللہ نے کہا کہ"""اِس
کا مطلب ہے کہ انہیں اُن کے گھروں میں ہر دُشمن سے امن دِیا (یعنی محفوظ
رکھا)"""،
یاد رہے کہ دُشمن سے مُراد کوئی بھی ایسی چیز ہے جو جان ، مال ، عزت ،
کمائی ، آمدن وغیرہ میں کمی یا اُس کا خاتمہ کرنے والی ہو ۔
::::: دوسرا معنی ٰ ::::: جنگ سے خوف :::::
جیسا کہ اللہ جلّ و عُلا کا فرمان ہے کہ﴿أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ
فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ
كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُمْ
بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ أُولَئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا
فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا::: جو لوگ تُم
لوگوں کا ساتھ دینے میں کنجوس ہیں ، جب
خوف (جنگ کا خطرہ) آتا ہے تو اُس شخص کی
طرح آنکھیں پھیر پھیر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جِس شخص پر موت کی وجہ سے غشی طاری ہو
رہی ہو ، لیکن جب خوف (جنگ کا خطرہ)ٹَل
جاتا ہے، تو یہ لوگ مال کے لالچ میں تیز زبانوں سے تم لوگوں کو
اُبالتے ہیں (یعنی طعنے مارتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جن کی وجہ سے خون اُبلنے
لگے )، یہ لوگ(در حقیقت)اِیمان نہیں لائے ،لہذا (ان لوگوں کی ان حرکتوں کی وجہ سے)اللہ
نے اِن کے سارے اعمال تباہ کر دیے ،اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے﴾سُورت الاحزاب(33)/آیت19،
::::: تیسرا معنی ٰ ::::: قتل ہونے یا شکست پانےسے خوف :::::
جیسا کہ اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ﴿وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ
أَذَاعُوا بِهِ::: اور جب اِن لوگوں کے پاس أمن یا خطرے کی کوئی بات آتی ہے تو اُس بات کو پھیلانا شروع کر دیتے ہیں﴾سُورت
النِساء(4)/آیت83،
إِمام البغوی رحمہُ اللہ کہا
کہ""" اِس آیت(شریفہ)میں """خوف """
کا معنی ٰقتل ہونے یا شکست پانے کا ڈر ہے
"""، اور إِمام القُرطبی
رحمہُ اللہ نے اِس آیت(مُبارکہ)میں خوف کا معنی
ٰ یہ بتایا کہ"""لوگوں کا اُن کے دُشمن کے ہاتھوں نقصان
اُٹھانے کا خوف ہے """،
::::: چوتھا معنی ٰ ::::: کسی کام کے بارے میں جان لینا ، یا اُس
کے بارے میں سمجھ جانا(
العِلم و الدِّرایۃ) :::::
جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ
جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ
غَفُورٌ رَحِيمٌ ::: پس جس نے یہ جان لیا کہ وصیت کرنے والے نے طرفداری کی ہے یا گناہ (والی وصیت
کی ہے)تو وہ وارثوں کے درمیان اصلاح کر دے
تو اُس پر کوئی گناہ نہیں ، یقیناً اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے﴾سُورت
البقرہ (2)/آیت182،
إِمام البغوی رحمہُ اللہ
"""اِس آیت(شریفہ)میں"""خَافَ ، ڈرا """کا
معنی ٰ ،"""عَلِمَ ، جان گیا """ بیان کیا ،
اِس معنی
ٰ کی دوسری مثال اللہ العلیم کا یہ فرمان ہے﴿ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ
وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ
كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ::: اور اگر بیوی یہ جان لے کہ اُس کا شوہر اُس سے جفا کر رہا
ہے ، یا اُس سے بے رُخی برت رہا ہے تو پھر
وہ دونوں دونوں میاں بیوی (کچھ لینا دینا
طے کر کے )آپس میں اِصلاح کر لیں تو اُن پر کوئی گناہ نہیں ، اور اِصلاح کرنا ہی
خیر ہے ، اور نفس تو تنگ دلی اور لالچ پر مائل رہتا ہے ،اور اگر تُم لوگ نیکی والا معاملہ کرو ، اور تقویٰ اختیار کرو(یعنی اللہ کی ناراضگی اور خوف
سےبچو)تو یقیناً اللہ وہ سب جانتا ہے جو تم لوگ کرتے ہو﴾سُورت النِساء(4)/آیت128،
اِس آیت شریفہ کی تفسیر میں إِمام الطبری رحمہُ اللہ نےکہا"""بیوی
کا اُس کے شوہر کا کسی اور طرف مائل ہونے کے بارے میں جان لینا
"""،
::::: پانچواں معنی ٰ ::::: گُمان ، اندیشہ :::::
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ﴿إِلَّا أَنْ يَخَافَا
أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ :::سِوائے اِس کے
کہ وہ دونوں(میاں بیوی) یہ گمان کریں کہ وہ دونوں اللہ کی حُدود قائم نہ رکھ سکیں
گے، تو اگر تُم لوگ یہ گمان کرو کہ وہ دونوں اللہ کی حُدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو ایسے میں
اگر عورت کچھ(مال وغیرہ) دے کر(خاوند سے) آزادی لے لے تو اُن دونوں پر کوئی گناہ نہیں﴾سُورت
البقرہ (2)/آیت229،
إِمام الطبری رحمہ ُ اللہ نے اِس آیت
شریفہ کی تفسیر میں لکھا کہ"""عرب اپنی بات چیت میں کبھی
"""ظن (گُمان ،اندیشہ)"""کو """خوف"""کی
جگہ اور کبھی """خوف """کو """ظن
(گُمان ،اندیشہ)""" کی جگہ اِستعمال کرتے ہیں (اور کرتے تھے)
کیونکہ اِن دونوں (یعنی ظن ، اور خوف )کے معانی (مفہوم )ایک دوسرے کے بہت قریب
ہیں"""،
::::: چَھٹا معنی ٰ ::::: نُقصان ، کمی :::::
جیسا کہ اللہ جلّ جلالہُ کا فرمان ہے کہ ﴿أَوْ يَأْخُذَهُمْ
عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ :::یا(اللہ تعالیٰ
) اُن لوگوں کو نقصان (اور کمی) کی حالت میں پکڑ لے ، بے شک تُم لوگوں کا رب بہت ہی شفیق اور رحم کرنے والا ہے﴾سُورت النحل
(16)/آیت 47،
إِمام محمد بن علی الشوکانی رحمہُ اللہ نے
اِس آیت کی تفسیر میں لکھا کہ"""وَقِيلَ:
مَعْنَى «عَلَى تَخَوُّفٍ» : عَلَى تَنَقُّصٍ. قَالَ ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ، أَيْ:
عَلَى تَنَقُّصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ حَتَّى
أَهْلَكَهُمْ. قَالَ الْوَاحِدِيُّ: قَالَ عَامَّةُ الْمُفَسِّرِينَ: عَلَى
تَخَوُّفٍ، قَالَ: تَنَقُّصٍ إِمَّا بِقَتْلٍ أَوْ بِمَوْتٍ، يَعْنِي بِنَقْصٍ
مِنْ أَطْرَافِهِمْ وَنَوَاحِيهِمْ يَأْخُذُهُمُ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ حَتَّى
يَأْتِيَ الْأَخْذُ عَلَى جَمِيعِهِمْ. قَالَ: وَالتَّخَوُّفُ التَّنَقُّصُ،
يُقَالُ: هُوَ يَتَخَوَّفُ الْمَالَ أَيْ: يَتَنَقَّصُهُ، وَيَأْخُذُ مِنْ
أَطْرَافِهِ، انْتَهَى::: اور کہا گیا کہ ﴿عَلَىٰ تَخَوُّفٍ﴾ کا معنی ہے
"""نقص کی حالت میں """، ابن الاعرابی کا کہنا ہے
کہ ، اموال ، جان اور کمائیوں میں کمی کرتے کرتے اُن پر گرفت کرے ، یہاں تک کہ
انہیں ھلاک کر دے ، الواحدی کا کہنا ہے کہ ، عمومی طور پر مفسرین کا یہ ہی کہنا ہے
کہ ، تخوف کا معنی ہے ، نقصان اور کمی ، یا (ایک دوسرے کے )قتل کے ذریعے یا (کسی
اور سب سے )موت کے ذریعے ، یعنی اُن لوگوں کے دائیں بائیں اور پہلوؤں سے کمی اور
نقصان کے ذریعے ابتداء ہو ، یہاں تک کہ سب پر ہی گرفت ہو جائے ، اور کہا ، التخوف
، کا معنی ہے نُقص (کمی)، اور (جیسا کہ )کہا جاتا ہے کہ ، وہ شخص مال پر تخوف کرتا
ہے ، یعنی اُس مال کو اُس کے بیرونی حصوں سے کم کرتا ہے """،
::::: ساتواں معنی ٰ ::::: جو کہ عام طور پر معروف ہے ، یعنی ،
ڈر :::::
جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ﴿ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ::: لہذا اُن لوگوں
پر نہ کوئی ڈر ہو گا اور نہ ہی وہ لوگ غم زدہ ہوں گے﴾سُورت بقرہ (2)/آیت 38، قران کریم میں یہ الفاظ مُبارکہ
اِس آیت شریفہ کے علاوہ گیارہ 11دیگر آیات مبارکہ میں بھی فرمائے گئے ہیں ،
إِمام الطبری رحمہُ اللہ کا کہنا ہے کہ"""
اُن لوگوں کو کوئی ڈر نہ ہو گا ، کیونکہ وہ اللہ کے عذاب سے بچا دیے گئے ہوں گے ،
اور انہیں اپنے بارے میں اللہ کی خوشنودی کا یقین ہو چکا ہو گا ، لہذا اُنہیں اُس
ڈر سے (یعنی اللہ کے عذاب کے ڈر سے )نجات دی جا چکی ہو گی جِس ڈر کا وہ دُنیا میں
شِکار رہتے تھے"""،
اور جیسا کہ اللہ الغفور الرحیم کا اِرشاد
گرامی ہے کہ﴿ إِنَّ
الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ
الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ
الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ:::بے شک جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے ، اور پھر(اِس
بات پر) ڈٹے رہتے ہیں، اُن لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (جو یہ کہہ رہے ہوتے ہیں
)کہ تُم لوگ ڈرو نہیں ، اور نہ ہی غم زدہ ہو ، اور تم لوگوں کو جنّت کی خوشخبری
دِی جاتی ہے، جِس جنّت کا تُم سے وعدہ کیا جاتا تھا ﴾سُورت فُصلت (41)/آیت 30،
مفسرین نے اس آیت آیت شریفہ کی تفسیر میں
کہا کہ"""تم لوگ اپنی موت کے بعد جس طرف جا رہے ہو اُس کے بارے میں
مت ڈرو ، اور نہ ہی اپنے پیچھے کے معاملات کے بارے میں """،
قران کریم میں اس مذکورہ بالا معنی ٰ اور مفہوم کے مطابق """خوف
""" کا اِستعمال کئی دیگر مقامات پر بھی ہوا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اُس کا کلام اُس
کی مُراد کے مطابق سمجھنے ، ماننے ، اپنانے اور اُس پر عمل پیرا رہنے کی توفیق
عطاء فرمائے ، اور ہمیں بد عقلوں کی گمراہ
عقلوں ، فلسفوں اور افکار کے شر سے محفوظ
رکھے جو ہمیں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے کلام کو اُن کی
مُراد کے خِلاف سمجھنے اور سمجھانے کی طرف مائل کرتے ہیں ، والسلام علیکم۔
تاریخ کتابت : 21/04/1435
ہجری ، بمطابق ، 22/04/2014عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس مضمون کا برقی
نسخہ درج ذیل ربط سے نازل کیا جا سکتا ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔