Tuesday, November 7, 2017

::::::: بچوں کا جُھوٹ بولنا ، أسباب اور عِلاج :::::::

بِسمِ اللہِ و الحَمدُ  لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ مَن لا نَبیَّ بَعدَہ ُ
 اللہ کے نام سے آغاز ہے اور تمام سچی تعریف صرف  اللہ کے لیے ہے اور اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو اُس پر جِس کے بعد کوئی نبی نہیں۔
:::::::  بچوں کا  جُھوٹ بولنا ، أسباب اور عِلاج  :::::::
والدین کے لیے وہ وقت  بڑا ہی اذیت ناک اور دُکھ بھرا ہوتا ہے جب والدین اپنے بچوں کی اچھی مثبت تربیت کے لیے   اپنی تمام تر اچھی صلاحیات اور وسائل  کا اِستعمال کرنے کے بعد  اور اپنے طور پر ان کی اچھی تربیت کرنے کے بعد یہ دیکھیں کہ اُن کے بچے یا بچوں میں سے کوئی جُھوٹ بولتا ہے ،،،،، لیکن ایسے اکثر والدین یہ نہیں جانتے کہ اُن کی اِس اذیت اوردُکھ کے اسباب کیا ہیں ، اور اِس لاعلمی کی بنا پر وہ اپنی صلاحیات اور وسائل کسی مثبت نتیجےکے حصول  کی کوشش میں خرچ کرتے رہتے ہیں لیکن مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں کر پاتے ،
کسی بھی کام  کو روکنے کے لیے  اُس کام کے ہونے کے اسباب جاننا بہت ضروری ہے ، اور اُن أسباب کو ختم کرنا ہی ایک ایسا  واحد ذریعہ ہے جو اُس کام کو مکمل طور پر ختم کرنے والا ہوتا ہے ، باذن اللہ ،
پس ، اِن شاء اللہ اب ہم سب سے پہلے اپنےآج کے  موضوع میں بیان کردہ کام کے أسباب جاننے کی کوشش کریں گے ،
::::::: بچوں کے جُھوٹ بولنے کے أسباب :::::::
::::: (1) خُود کو بچانے کی کوشش :::::
یہ سبب کِسی ایسے خاندان کے بچوں کو جُھوٹا بنانے کا بنیادی سبب ہے جن خاندانوں میں بچوں کی غلطیوں پر اُن کو شدید سزائیں دِی جاتی ہوں ، خواہ بدنی ہوں یا نفسیاتی ،
عموماً ایسے خاندانوں میں باپ یا ماں یا کوئی اور بڑا بزرگ ایک سمجھ دار، حکیم اور حلیم طبیعت والی شخصیت کی بجائے  ایسی شخصیت ہوتی ہے جو بات بات پر  بلا وجہ اور بلا ضرورت ممانعت ،پوچھ گچھ ،ڈانٹ ڈپٹ، کرنے والی ہوتی ہے اور اکثر اوقات مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کرتی ،
ایسے حالات میں پلنے والے بچے اپنے آپ کو ایسی بے جا اور ہر وقت کی ممانعت ،پوچھ گچھ ،ڈانٹ ڈپٹ، اور مار وغیرہ سے بچانے کے لیے جُھوٹ کا سہارا لینا شروع کردیتے ہیں ، خواہ اپنے جُھوٹ کے ذریعے کِسی اور کو کوئی بھی نُقصان پہنچا دیں ، اور یوں آہستہ آہستہ جُھوٹ بولنا ان کی عادت ہو جاتی ہے ۔
::::: (2) تقیلد ، نقالی :::::
لفظ """تقلید""" سے کِسی ماتھے پر بل نہ آئے ،  یہاں تقلید کو  کسی فقہی یا اِصطلاحی مفہوم میں اِستعمال نہیں کیا جا رہا بلکہ محض لُغوی طور پر اِستعمال کیا جارہاہے ، جس کا ایک معنی ہے  """ کسی شخص کی حقائق اور نتائج وغیرہ سے غفلت یا چشم پوشی کرتے ہوئے نقالی کرنا """،
جی ، تو یہ تقلید یعنی نقالی بھی کسی بچے کے جُھوٹ بولنے اور پھر مُستقل طور پر جُھوٹ بولنے والا بن جانے  کے اسباب میں سے ہے ، کہ جب وہ  اپنے اِرد گِرد اپنے بڑوں اور بالخصوص اپنے والدین کو مختلف کاموں کے بارے میں جُھوٹ بولتے دیکھتا ہے کہ اُس کے والد یا والدہ اپنی شخصیات کے بارے میں ، اپنے مال و جائداد کے بارے میں اور دیگر کئی مُعاملات میں جُھوٹ بولتے رہتے ہیں ،  بچہ والدین کی  ایسی حرکات دیکھ کر  اُن حرکات کو اچھا اور فائدہ مند سمجھنے لگتا ہے اور اُن کا شکار ہو جاتا ہے ،
یا کبھی والدین  بچے کو اُس کی کِسی پسندیدہ جگہ لے جانے کے نام پر کِسی ناپسندیدہ جگہ لے جاتے ہیں ، مثلاً  پارک وغیرہ لے جانے کے نام پر ڈاکٹر کے پاس لے جائیں ،
یا کبھی  بچے سے کِسی خاص کام کرنے  کی صُورت میں کوئی انعام دینے کا وعدہ کرنا اور وہ انعام نہ دیا جانا ،  وغیرہ ،
 پس اپنے بڑوں کو ایسے کام کرتے دیکھ کر بچہ فطری طور پر اُن کی تقلید کرتے ہوئے جُھوٹ بولنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ اُس کا عادی ہو جاتا ہے ۔
::::: (3) والدین خود ہی جُھوٹ بولواتے ہیں :::::
کبھی والدین یا دونوں میں سے کوئی ایک یا کوئی اور بڑا اپنے آپ کو کسی ممکنہ پریشانی یا ناپسندیدہ کام سے بچانے کے لیے اپنے پاس موجود بچوں کو جُھوٹ بولنے کا کہتا ہے ، مثلاً  کسی مہمان کی آمد کے وقت جسے یہ ملنا نہ چاہتا ہو بچے سے کہلوانا کہ فُلاں گھر پر نہیں ۔
::::: (4) ضِد  :::::
بچے جب اپنے والدین یا بڑوں میں مذکورہ بالا عادات دیکھتے ہیں اور وہی بڑے انہیں جُھوٹ سے منع کرتے ہیں اور سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں تو  عام اِنسانی نفسیاتی غلطیوں مثلاً  """ میں کیوں نہ کروں ؟ کیا میرا حق نہیں ؟ وغیرہ """ کا شِکار ہو کر محض ضِد میں آ کرجُھوٹ بولتے ہیں  ۔
::::: (5)  غُصہ :::::
کسی بچے کو کبھی کبھار جُھوٹ بولنے کے سبب بڑوں کی طرف سے جُھوٹا ہی کہے جاتے رہنے کی وجہ سے وہ بچہ غُصہ میں آ کر انتقامی طور پر واقعتا  جُھوٹ بولنے لگتا ہے ۔
::::: (6) ذاتی کمائی اور فوائد کے کے لیے :::::
بچے بھی بڑوں کی طرح اپنی پسند ، خُوشی ، اور فائدے والی چیزیں حاصل کرنا چاہتے ہیں ، بلکہ بچوں میں یہ خواہش بڑوں کی نِسبت زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور چونکہ انہیں جُھوٹ کے دِینی دُنیاوی اور اُخروی نقصانات کا بھی دُرُست اور مکمل علم نہیں ہوتا اِس لیے جب وہ دیکھتے ہیں کہ سچ بات کہنے سے وہ اپنے مطلوبہ ھدف کو حاصل نہیں کر سکتے تو جُھوٹ کی طرف مائل ہوتے ہیں اور جُوں جُوں جُھوٹ کے ذریعے اُنہیں اپنے اھداف آسانی سے ملنے لگتے ہیں تُوں تُوں وہ جُھوٹ کی دلدل میں پھسنتے چلے جاتے ہیں اورآخر کار مُستقل طور پر جُھوٹ بولنے والے جُھوٹے بن جاتے ہیں ۔

::::: (7) سچ اور سچائی کے بارے میں غلط نظریات :::::
بچوں اور  بعض اوقات سچوں کے جھوٹے بننے کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مُعاشرے میں  سچے لوگوں کے لیے عام طور پر یہ غلط نظریہ پایا جاتا ہے کہ  چونکہ یہ سچے لوگ  صاف دِل اور سیدھے سادھے لوگ ہوتے ہیں ، اِس لیے مضبوط طور پر کاروبار نہیں کر سکتے اور نہ ہی لوگوں سے مُعاملات نمٹا سکتے ہیں ، یعنی ٹھیک طرح پبلک ڈیلنگ نہیں کر سکتے ، اور اب اِس زمانے میں اِس طرح سچ بولنے کا وطیرہ فائدہ مند تو کیا نُقصان دہ ہے ، کیونکہ لوگ تو یہاں اپنی ذہانت اور عقلی بُہادری کے ذریعےطرح طرح کی باتیں کر کے دُوسرے لوگوں سے ہر قِسم کے فائدے حاصل کرتے ہیں اور  یہ سچ بولنے والے اکثر نقصان ہی اٹھاتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ،
 اِس قِسم کی باتیں اور نظریات بچوں میں یہ سوچ پیدا کرتی ہیں کہ سچ بولنا گویا کہ ایک کمی اور کمزوری ہے اور نُقصان دہ کام ہے ،لہذا سچ بول کر نہ تو اپنے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں میں ہوشیار ، عقلمند  ، ذہین شخصیت کے طور پر کوئی پہچان بن سکتی ہے ، پس  وہ بچے اپنے مادی  مقاصد حاصل کرنے اور اپنی شخصیت کو لوگوں میں عقلمند ،ذہین ،مضبوط وغیرہ ظاہر کرنے کے لیے جھوٹے بن جاتے ہیں ۔
مذکورہ بالا اسباب کو جاننے کے بعد اب ان شاء اللہ  ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان اسباب کو کس طرح ختم کیا جا سکتاہے یا کس طرح روکا جا سکتا ہے ؟
::::::: بچوں میں جُھوٹ بولنے کی بیماری کا عِلاج :::::::
اس عِلاج کی دو قسمیں ہیں :::
:::  (1) :::  بچے کوجُھوٹ بولنے کے اَسباب سے محفوظ رکھنا ،
::: (2) :::  اگر وہ  کبھی جُھوٹ بولے تو اُس کو اُس سے منع کرنا اور جُھوٹ کے دِینی اور دُنیاوی  اور اُخروی نُقصانات کے بارے میں سمجھانا،
اِن دو کاموں کو  مکمل اور دُرُست طور پر کرنے کے لیے مندرجہ ذیل کام کرنا لازمی ہیں :::
::::: (1) بچے کے لیے کوئی مثالی شخصیت (آئیڈیل) یا شخصیات مہیا کرنا  :::::
بچے کو ذہنی طور پرکَسی ایسے بہترین کِردار کے ساتھ مُنسلک کرنا جِس کی زندگی کا ہر پہلو اُس بچے کو اپنی مُعاشرتی اور ذاتی  زندگی کے ہر کام کو اعلیٰ ترین اخلاق کے معیار کے مُطابق کرنے پر مائل رکھے ، اور دُنیا کے فوائد سے پہلے آخرت کے فوائد کی سوچ میں مگن رکھے ، 
بلا شک و تردد ایسی مثالی شخصیات میں سب سے مکمل ترین شخصیت محمد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہے ، اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد تمام تر انبیاء اور رسول  علیہم السلام جمعیاً ، اور پھر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور پھر مُسلمانوں میں سے تقویٰ والے نیکوکار لوگ  ہیں ،
لہذا اپنے بچوں کو ایسی تربیت دِی جانے چاہیے جِس کے نتیجے میں وہ مذکوہ بالا مُقدس اور نیک ہستیوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں نہ کہ اُن لوگوں کو جو بظاہر تو کچھ دُنیاوی اچھائیوں کا مظہر ہوں، یا دُنیاوی معیار کے مُطابق جاذبیت والے ہوں ، لیکن حقیقتا  گناہوں اور برائیوں کے پیامبر ہوں ۔
::::: (2) اپنا کِردار بھی ایک سچے اِنسان کی طرح پیش کرنا :::::
والدین اور بڑوں کو چاہیے کہ وہ اپنی شخصیات کو بھی ایک سچے اِنسان کی طرح بچوں کے سامنے پیش کریں  ، یہ کام آغاز میں بیان کیے گئے اسباب کو ختم کرنے کے ضمن میں آتا ہے ،
 اِس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا درج ذیل  واقعہ بہت واضح تعلیم اورتربیت والا ہے:::
عبداللہ ابن عامر رضی اللہ عنہ ُ کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ میری والدہ  نے مجھے بلاتے ہوئے پکارا """ هَا تَعَالَ أُعطِيكَ :::یہاں آؤ میں تمہیں کچھ دُوں گی """،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے اُنہوں نے(میری والدہ کی  یہ بات سُن کر)اِرشاد فرمایا ((((( وَمَا أردتِ أن تَعطِیہِ ؟ :::اور تُم اُسے کیا دینے کا اِرادہ رکھتی ہو؟ )))))،
 اُم عبداللہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا """أُعطِیہِ تَمراً ::: میں اُسے کھجور دُوں گی """،
 تو اِرشاد فرمایا  (((((أمَّا إنَّك ِ لَو لَم تُعطِيهِ كُتِبَت عَليك ِ كِذبَة ٌ::: اور اگر تُم نے اُسے کھجور نہ دی تو تُم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جائے گا ))))) سُنن ابو داؤد /حدیث 4991 / کتاب الادب /باب 88 ، السلسۃ الاحادیث  الصحیحۃ /حدیث 748،
اِس حدیث شریف میں ہمیں بڑی وضاحت سے یہ سبق مل جاتا ہے کہ ، بچوں کے ساتھ بھی مذاق میں بھی جُھوٹ نہیں بولا جانا چاہیے اور نہ ہی اُنہیں کِسی کام کے کرنے کے اِنعام کے بارے میں کوئی جُھوٹا وعدہ کیا جانا چاہیے۔
::::: (3) نصیحت آموز واقعات :::::
بچوں کو ایسے سچے واقعات سُنائے اور پڑھائے جانے چاہیں جو سچ کی اچھائی اور دُنیا اور آخرت میں اُس کے فوائد کے بارے میں ہوں ، اور جُھوٹ کی برائی اور مذمت اور دُنیا اور آخرت میں اُس کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی ذِلت اور نُقصانات کے بارے میں ہوں ، تا کہ بچوں  کو  جُھوٹ کے وقتی فوائد اور دائمی نُقصانات کا عِلم ہو جائے ، اور اُن میں جُھوٹ   سے دُور رہنے اور  اُس سے بچنے کا شعور اُجاگر ہو،  اور سچ کے  وقتی اور دائمی فوائد کا عِلم ہو جائے ، اور اُن فوائد کو  حاصل کرنے کے لیے جدو جہد اور صبر کا حوصلہ مُیسر ہو جائے ۔
::::: (4) بچے کی دیکھ بھال کرتے رہنا :::::
بچے کی دیکھ بھال یُوں بھی کی جانے چاہیے کہ اِس بات کا خیال رکھا جائے کہ بچہ گھر میں اور مدرسے میں اور اپنے بھائیوں بہنوں اور دوستوں کے ساتھ کِس قدر سچ اور جُھوٹ والا رویہ رکھتا ہے ۔
::::: (5) بچے کی نفسیات کا خیال رکھنا :::::
بچے کی نفسیات پر بھی گہری نظر رکھی جائے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اور کِس چیز سے نفرت کرتا ہے؟
 اور اُس پسند اور نفرت کے بنا پر اُس کے اقوال میں کہاں اور کس قدر سچ اور جُھوٹ شامل ہوتا ہے؟
 اور پھر اُس کے مُطابق اُس کی تربیت کی جائے کہ وہ مثبت چیزوں کو پسند کرے اور منفی اثرات مرتب کرنے والی چیزوں سے نفرت کرے اور کِسی مُحبت اور کسی نفرت کے سبب جُھوٹ مت بولے ۔
::::: (6) حوصلہ افزائی اور حوصلہ شکنی کرنا :::::
بچے کے روزمرہ معمولات کو دیکھا جاتا رہے ، جہاں کہیں اُس کے سچ بولنے کا پتہ چلے اُس کی خوب اچھے طور پر حوصلہ افزائی کی جائے یہاں تک کہ وہ اُس بات پر مضبوطی سے قائم ہو جائے کہ اُسے سچ ہی بولنا ہے ،  اوراُسے اپنی دُنیا کی زندگی میں بھی  ہمیشہ ہر طرف سے یہی سننا ہے کہ وہ سچا ہے ،  اور اپنے اللہ کے ہاں بھی سچا بننا ہے ،
 اور جُھوٹ بولنے پر اُس کو سمجھایا جائے اورمُثبت طریقہ پراُس کی حوصلہ شکنی کی جائے ، یہاں تک کہ وہ اُس بات پر مضبوطی سے قائم ہو جائے کہ اُسے کسی بھی صُورت میں جُھوٹ نہیں بولنا ، اور اُسے کبھی بھی کہیں سے یہ نہیں سُننا کہ وہ جُھوٹا ہے ، نہ تو دُنیا میں ، اور نہ ہی اپنے اللہ کے سامنے ۔
::::: (7) صحیح اِسلامی  عقیدے کی تعلیم :::::
 اُن  مذکورہ بالا سب باتوں سے پہلے اور بعد میں یہ کہ بحیثیت مُسلمان ہمیں اپنے بچوں کو بالکل آغاز سے ہی صحیح اِسلامی عقیدہ سِکھاتے رہنا چاہیے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اور صِفات کی پہچان کرواتے رہنا چاہیے ، سچ بولنے پر اللہ تعالیٰ  کے انعامات اور جُھوٹ بولنے پر اللہ  تعالیٰ کے عذاب کی خبر سُناتے رہنا چاہیے ، اور یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ابھی تو چھوٹے ہیں یہ اِن باتوں کو کیا سمجھیں گے ،
جی ہو سکتا ہے وہ اُسی  وقت تو  نہ سمجھ سکیں لیکن """ العِلمُ فی الصِغرِ کالنّقشُ فی الحَجرِ ::: چھوٹی عمر میں حاصل کیا گیا عِلم پتھر پر لکیر کے مانند ہوتا ہے """ ،لہذا  زندگی میں کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں وہ باتیں اُنہیں یاد آئیں گی ، اور عین ممکن ہے اُنہیں برائی اور گناہ سے بچنے اور اچھائی اور نیکی کی راہ پر چلنے  کا سبب بن جائیں ،
پس ہمیں اپنی اولاد کی شخصیات کو پہلے ہی دِن سے اللہ عزّ وجلّ  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کی تربیت دیتے ہوئے  بنانا چاہیے ، اِن شاء اللہ جُھوٹ سے محفوظ رہیں گے ۔
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
طلبگارء دُعا ء،
 عادل سہیل ظفر ۔
تاریخ کتابت : 29/03/1431ہجری، بمُطابق،15/03/2010عیسوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔