Friday, September 6, 2019

::: دس محرم (یومء عاشوراء ) کا روزہ ، تاریخ اور فضیلت :::


  :::  دس محرم (یومء عاشوراء )  کا روزہ ، تاریخ اور فضیلت    :::

بِسمِ اللَّہ و الحَمدُ لِلَّہِ وَحدَہُ و الصَّلاۃُ و السَّلام ُ عَلیٰ مَن لا نَبِيَّ وَ لا رَسولَ وَ لا مَعصُومَ معہُ وَ لا بَعدَہُ ، وَ عَلیٰ آلہِ وَ ازوَاجِہِ وَ اصَحَابِہِ وَ مَن تَبعَھُم باِحسَانٍ اِلیٰ یَومِ الدِین،

شروع اللہ کے نام سے ، ساری ہی خالص اور حقیقی تعریف اکیلے اللہ کی ہی ہے ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو محمد پر جِن کے نہ ہی ساتھ اور نہ اُن کے  بعد  کوئی نبی تھا ، اور  نہ ہی کوئی رسول ، اور نہ ہی کوئی  معصوم ، اور اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو اُن صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر ، اور  مقدس بیگمات پر اور تمام اصحاب پر اور جو اُن سب کی ٹھیک طرح سے مکمل پیروی کریں اُن سب پر ۔

دس محرم کے روزے کی فضیلت بیان کرنے سے پہلے مُناسب معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً دس محرم کے روزے کی تاریخ اور  سبب بھی ذِکر کرتا چلوں، تا کہ پڑہنے والے اِن شاء اللہ یہ سمجھ جائیں کہ دس محرم کی فضیلت یا اِس دِن روزہ رکھنے کے اجر کا  نواسہء رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چوتھے بلا فصل خلیفہ  امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ و أرضاہُ  کے بیٹے   حسین  بن علی رضی اللہ عنہما و أرضاہُما  کی شہادت جس کے واقع ہونے کی تاریخ دس محرم  بتائی جاتی ہے ، اُس شہادت سے  دس محرم کے روزے کا کوئی تعلق نہیں ہے،

:::::دس محرم کا روزہ ، سُنّت اور تاریخ  کی روشنی میں :::::

      دس محرم ہماری اسلامی تاریخ کا وہ دِن جِس کے متعلق سب سے زیادہ جھوٹ پھیلائے گئے ، ایسے جھوٹ جِن کو گھڑنے والے بلا شک و شبہ مُنافق تھے اور ہیں  ،  جنہوں نے اپنے نفاق کو خاص پردوں میں چُھپانے کے لیے اور اُمتِ مُسلّمہ کو فنتے اور فساد کا شکار کرنے کے لیے یہ سب جھوٹ گھڑے ، پھیلائے اور مسلسل پھیلائے جا رہے ہیں ،

اُن لوگوں کی کاروائیوں کا اتنا دُکھ اور افسوس  نہیں ، کیونکہ یہ سب کُچھ اُنہوں نے تو کرنا ہی تھا ،

زیادہ دُکھ اور  افسوس  تو اپنے اُن کلمہ گو بھائی بہنوں پر ہے جو، اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے بخشش پائے ہوئے  اور جنتی ہونے کی اسناد پانے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی کِردار کُشی پر مبنی  اِن کہانیوں اور من گھڑت قصوں کو گویا کہ  قُرآن اور سُنّت  کی طرح سینوں سے لگائے ہوئے ہیں،

 اور جِس طرح اُنہیں قُرآن اور حدیث پر عمل کرنا اور اُس کی تبلیغ کرنا چاہیے تھی اُس طرح اِن خُرافاتی قصوں اور کہانیوں کی تبلیغ کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ قُرآن کریم  اور صحیح ثابت شُدہ حدیث سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ ایسی خُرافات کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں ، قُرآن کریم  کی تاویل اور صحیح ثابت شُدہ حدیث شریف  کا انکار کر دِیا جاتا ہے ،اور پھر بھی خود کو ''' سُنّت اور الجماعت کے تابع فرمان ''' سمجھتے اور کہتے ہیں ، میرا موضوع اِس وقت یہ نہیں ، بلکسہ اِس وقت  تو دس محرم کے دِن کی حقیقت اور اِس دِن کے روزے کی وجہ کے متعلق بات کرنا مقصود ہے ،  دس محرم  سے منسوب ان واقعات کے بارے میں بات چیت الگ عنوان کے تحت  گئی ہے ۔

::::: محرم کے مہینے کی فضلیت :::::

    اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا :::

(((((  اِنَّ عِدَّۃُ الشُّھُورِعِندَ اللَّہِ اَثنا عَشَرَ شَھراً فِیِ کِتَابِ اللَّہِ یَومَ خَلَق َ السَّمَوَاتِ وَ الاَرض َ مِنھَا اَربعَۃَ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ القَیِّمُ فَلا تَظلِمُوا فَیھِنَّ اَنفُسَکُم وَقَاتِلوُا المُشرِکِینَ کآفَۃً کمَا یقَاتِلُونَکُم کآفَۃً وَ اعلمُوا اَنَّ اللَّہَ مَعَ المُتَقِینَ :::  بِلا شک جِس دِن اللہ نے زمین اور آسمان بنائے اُس دِن سے اللہ کے پاس اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے جِن میں چار حُرمت والے ہیں اور یہ درست دِین ہے لہذا تُم لوگ اِن مہینوں میں اپنے آپ پر ظُلم نہ کرو اور شرک کرنے والوں سے پوری طرح سے لڑائی کرو جِس طرح وہ لوگ تُم لوگوں کے ساتھ پوری طرح سے لڑائی کرتے ہیں ، اور جان رکھو کہ اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے)))))سورت توبہ(9) /آیت 36 ۔

    اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((((  الزَّمَانُ قَد استَدَارَ کَہَیئَتِہِ یوم خَلَقَ اللَّہ ُ السَّماواتِ وَالاَرضَ السَّنَۃُ اثنَا عَشَرَ شَہرًا منہا اَربَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَاثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ ذُو القَعدَۃِ وَذُو الحِجَّۃِ وَالمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الذی بین جُمَادَی وَشَعبَانَ :::  سال اپنی اُسی حالت میں پلٹ گیا ہے جِس میں اُس دِن تھا جب اللہ نے زمنیں اور آسمان بنائے تھے ، سال بار ہ مہینے کا ہے جِن میںسے چار حُرمت والے ہیں ، تین ایک ساتھ ہیں ، ذی القعدہ ، ذی الحج ، اور مُحرم اور مُضر والا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے)))))صحیح البُخاری /حدیث 3025/کتاب بدا الخلق /باب2 ، صحیح مُسلم /حدیث 1679/کتاب القسامۃ و المحاربین و القصاص و الدِیّات /باب9،

اِس حدیث شریف کے مُطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ رجب کے مہینے  میں لڑائی اور قتال وغیرہ حرام ہے، اِس کے عِلاوہ رجب کے مہینے کی کوئی اور فضیلت ثابت نہیں ہوتی،

اِس کے بارے میں بات الگ موضوع کے طور پر ہو چکی ہے،  وللہ الحمد ، کتابی صُورت میں وہ گفتگو میرے بلاگ پر موجود ہے ،

اِس حدیث شریف میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ  محرم اُن مہینوں میں سے ہے جِس میں اللہ کی طرف سے لڑائی اور قتال وغیرہ سے منع کیا گیا ہے ، اِس کے عِلاوہ محرم کے مہینے میں روزے رکھنے کی ایک عمومی  فضیلت ملتی ہے جو مندرجہ ذیل ہے،

::::: محرم کے روزوں کی فضلیت :::::

    اَبو ہُریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿اَفضَلُ الصِّیَامِ بَعدَ رَمَضَانَ شَہرُ اللَّہِ المُحَرَّمُ وَاَفضَلُ الصَّلَاۃِ بَعدَ الفَرِیضَۃِ صَلَاۃُ اللَّیلِ :::  رمضان کے بعد سب سے زیادہ فضلیت والے روزے محرم کے روزے ہیں ، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضلیت والی نمازقیام الیل(رات میں پڑہی جانے والی نفلی نماز) ہے صحیح مُسلم /حدیث 1163 /کتاب الصیام /باب 38۔

یہ معاملہ تو پورے مہینے کے روزوں کا ہے ، اور خاص طور پر عاشوراء یعنی دس محرم کے روزے کی الگ سے فضیلت بیان ہوئی ہے ،

اور میری اِس وقت کی بات کا موضوع یہی یوم عاشوراء ، یعنی ، دس محرم   کا روزہ ہے ،

ابھی  بیان کردہ آیت پاک  کی روشنی میں ہمیں محرم کے مہینے کی فضلیت اللہ تعالیٰ کے فرمان  کے ذریعے معلوم ہوئی ، آیے دیکھتے ہیں کہ اللہ کے آخری رسول اور نبی محمد  صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے اِس ماہ یا اِس کے کِسی خاص دِن کے بارے میں ہمیں کیا بتایا  اور  سیکھایا گیا ہے ،

    ::::::عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  کا کہنا ہے کہ ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے  تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نےدریافت فرمایا ﴿مَا ھَذا؟::: یہ کیا ہے؟ ،

تو اُنہیں بتایا گیا کہ"""یہ دِن اچھا ہے (کیونکہ)اِس دِن  اللہ نے بنی اسرائیل کو اُن کے دشمن (فرعون )سے نجات دِی تھی تو موسیٰ علیہ السلام  نے روزہ رکھا تھا """،

 تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد  فرمایا ﴿فَانَا  أحقُ بِمُوسیٰ  مِنکُم ، فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ::: میرا حق موسیٰ پر تُم لوگوں سے زیادہ ہے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس دِن کا روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حُکم دِیا صحیح البُخاری /حدیث2004/کتاب الصوم/باب69 ۔

    اِس حدیث شریف  میں دس محرم کے روزے کا سبب ظاہر ہونے کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کا علم نہیں جانتے تھے ، اور یہ اِس موضوع ، اِس مسئلے کے بہت سے دلائل میں سے ایک ہے ،

    ::::::     ابو موسی رضی اللہ عنہ ُ     کا کہنا ہے کہ:::

"""كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ الْيَهُودُ عِيدًا::: دس محرم کے دِن کو یہودی عید جانتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿ فَصُومُوهُ أَنْتُمْ::: تُم لوگ اِس دِن کا روزہ رکھو """ صحیح البُخاری /حدیث 2005/کتاب الصوم/باب69،

اِس  فرمان مُبارک میں رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے   دس محرم کا روزہ رکھنے کی ترغیب دلانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سِکھایا  کہ ہمیں یہودیوں کی مخالفت کرنا ہے، یہ حدیث شریف  یہودیوں کی  مخالفت کرنے کی تعلیم کے بہت سے اسباق میں سے ایک سبق ہے ،   

::::: دس محرم کا روزہ رمضان کے روزوں سے پہلے بھی تھا ، لیکن فرض نہیں تھا :::::

  اِیمان والوں کی والدہ  محترمہ عائشہ ، اور   محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دُوسرے بلا فصل خلیفہ امیر المؤمنین عُمر الفاروق کے بیٹے عبداللہ ،اور  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم  اجمعین و أرضاھم سے روایات ہیں کہ ﴿ اِس دس محرم کا روزہ اہلِ جاہلیت بھی رکھا کرتے تھے اور رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھا کرتے تھے اور اِسکا حُکم بھی دِیا کرتے تھے اور اِسکی ترغیب دِیا کرتے تھے ، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ اِسکا حُکم دِیا ، نہ اِس کی ترغیب دِی اور نہ ہی اِس سے منع کیا یہ مذکورہ بالا باتیں، صحیح مُسلم /کتاب الصیام / باب صوم یوم عاشوراء کی مختلف احادیث کا مجموعہ ہیں،

سچے مؤمنین کے ماموں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے چَھٹے بلا فصل خلیفہ ،   امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ   کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا ﴿ھذا یَومُ عَاشُورَاء َ ولَم یَکتُب اللَّہُ عَلَیکُم صِیَامَہُ وانا صَائِمٌ فَمَن شَاء َ فَلیَصُم وَمَن شَاء َ فَلیُفطِر ::: یہ دس محرم کا دِن ہے اور اللہ نے تُم لوگوں پر اِس کا روزہ فرض نہیں کِیا ، اور میں روزے میں ہوں تو جو چاہے وہ روزہ رکھے اور جو چاہے وہ افطار کرے صحیح البُخاری حدیث 2003 /کتاب الصوم/باب69، صحیح مُسلم حدیث 1169/کتاب الصیام/باب19 ۔

::::: دس محرم کے روزے کی فضلیت اور أجر :::::

عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے  ﴿ مَا رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صَلّى اللهُ عَليهِ وَ علیٰ آلہِ وَسلّمَ - يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ ، إِلاَّ هَذَا الْيَوْمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهَذَا الشَّهْرَ . يَعْنِى شَهْرَ رَمَضَانَ  :::میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ نہ تو وہ(صلی اللہ علیہ  علی آلہ وسلم) کِسی بھی اور دِن کے (نفلی)روزے کواِس عاشوراء کے دِن  کے روزے کے عِلاوہ زیادہ فضلیت والا جانتے تھے اور نہ کِسی اور مہینے کو اِس مہینے سے زیادہ( فضیلت والاجانتے تھے ،یعنی رمضان کے مہینے کو)    صحیح البُخاری /حدیث 2006/کتاب الصوم/باب69۔

    ابو قتادہ رضی اللہ عنہ  ُ  ایک لمبی حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ،    رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ اَحتَسِبُ علی اللَّہِ اَن یُکَفِّرُ السّنَۃَ المَاضِیَۃَ::: اور  میں عاشوراء کے دِن (یعنی دس محرم) کے روزے کے بارے میں اللہ سے یہ اُمید رکھتا ہوں کہ (اِس کے ذریعے)پچھلے ایک سال کے گُناہ معاف فرما دے گا """صحیح مُسلم /حدیث 1162/کتاب الصیام/باب36، صحیح ابن حبان /حدیث3236 ۔

اِن صحیح احادیث مُبارکہ کے ذ ریعے بڑی ہی وضاحت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دس محرم ، یومء عاشوراء کا روزہ تو رمضان مُبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے بھی تھا، اور  اللہ کے آخری نبی اور رسول  محمد  صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  یہ روزہ رکھا بھی کرتے تھے اور یہ روزہ رکھنے کی ترغیب  بھی دی ،  لہذا ، اِس روزے کا حسین بن علی رضی اللہ عنہما و أرضاہما کی شہادت سے کوئی تعلق نہیں ،

تو، قارئین کرام ، ہمیں قُرآن اور  صحیح ثابت شُدہ احادیث مُبارکہ میں ، محرم کے مہینے اور خاص طور پر دس محرم کی صِرف اور صِرف یہ ہی فضلیت ملتی ہے ،  جو ابھی ابھی بیان کی گئی ہے ، اِس کے عِلاوہ اور کُچھ نہیں ،

عام مشہور تاریخی قصے کہانیوں کے مُطابق ساٹھ ہجری کے محرم کے مہینے میں  نواسہء رسول ، جنّت کے نوجوانوں کے سردار حُسین بن علی  رضی اللہ عنہما و أرضاہما ،  اور اُن کے خاندان کے کُچھ اَفراد کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا اِس حادثے کی تمام تر ذمہ داری اُن منافقوں پر آتی ہے جو اُس وقت اپنے آپ کو أمیر المؤمنین  علی رضی اللہ عنہ ُ اور جگر گوشہ ء رسول فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اُن کی اولاد رضی اللہ عنہم اور اُن کی اولاد رحمہم اللہ کے ہمدرد ظاہر کرتے تھے ، اِس حادثے کو بنیاد بنا کر اِن منافقوں کے وا ویلے سے مُتاثر ہونے والے مُسلمان آج بھی خیر اور نیکی سمجھ کر ، أمیر المؤمنین  علی اور جگر گوشہ ء رسول فاطمہ رضی اللہ عنہما اور اُن کی اولاد رضی اللہ عنہم و رحمہم جمعیاً سے محبت اور عقیدت سمجھ کر دو کام بڑے تسلسل اور شدّ و مد کے ساتھ کر رہے ہیں :::

::: (1) ::: مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا  ،

::: (2) ::: صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلا فصل چَھٹے خلیفہ، ، کاتبِ وحی ، اِیمان والوں کے ماموں ، معاویہ بن ابی سُفیان رضی اللہ عنہما ، مُغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ُ ،  أمیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ ُ کے بیٹے یزید پر لعن و طعن کرنا ، جبکہ تاریخ میں  اُس کے بارے میں صِرف وہی کچھ نہیں جو ہمیں سنایا اور پڑھایا جاتا ہے، بلکہ اِس کے برعکس اور کچھ بھی ہے  ، پس، تاریخی کہانیوں میں سے صِرف ایک ہی طرف نطر جمائے کچھ لوگوں پر طعن و تشنیع کا وطیرا اپنائے رکھنا قطعاً    نا مُناسب ہے،

اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین و أرضاہم کے خِلاف ہفویات بکنا  تو  بہت بڑی تباہی کا باعث ہے ،  

اس مسئلے کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لیے میرے مضمون ’’’ صحابہ کیا تھے ؟؟؟ اُن کی شخصیات کے بارے میں بری صِفات ماننے والے کیا جُرم کرتے ہیں ؟   ‘‘‘         کا مطالعہ فرمایے ، اِن شاء اللہ خیر کا سبب ہو گا ،  یہ مضمون درج ذیل ربط پر مُیسر ہے :

http://bit.ly/2d48QLo

ماہء محرم  سے متعلق قصے اور کہانیوں کی حقیقت کےبارے میں کچھ آگاہی حاصل کرنے کے لیے ، میرے مضمون """ محرم کے مہینے کی فضیلت اور کہانیاں """ کا مکمل مطالعہ فرمایے ، اِن شاء اللہ بہت سے اشکال رفع ہو جائیں گے ،

 جی ہاں ،    اگر آپ  نواسہ رسول صلی اللہ علیہ  و علی آلہ وسلم ،  حُسین بن علی رضی اللہ عنہما و أرضاہما کی شہادت  سے وابستہ کیے گئےجھوٹے قصوں کے بارے میں مُختصراً کُچھ جاننا چاہتے ہیں تو اِس  پورے مضمون کا مطالعہ کیجیے  ، اور اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے یا پہلے سے سُنے ہوئے قصوں کی وجہ سے پسند نہ آئے تو بلا تردد اُس کا اظہار کیجیے ،  اگر کوئی اعتراض یا انکار وارد کرنا ہو تو ضرور کیجیے لیکن تاریخی اور عِلمی دلائل کے ساتھ ، اور حق قبول کرنے کی ہمت کے ساتھ ، اِن شاءَ اللہ بہت کچھ واضح ہو جائے گا ۔

پورے مضمون کے آن لائن مطالعے اور برقی  نُسخہ کے حصول کے لیے :::

""" ماہ محرم اور ہم ، کہانیاں اور حقیقت ::: http://bitly.com/1oGiPbp     """

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

:::::: ایک أہم مسئلے کے بارے میں وضاحت  ::::::

::::: دس محرم کا روزہ اکیلا نہ رکھا جانا افضل ہے  :::::

دس محرم کے دِن کا اکیلا روزہ رکھنے سے کہیں زیادہ افضل یہ ہے کہ اُس سے پہلے والے دِن یعنی نو محرم کا  روزہ بھی رکھا جائے ،

 کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صحابہ  رضی اللہ عنہم کو دس محرم کا روزہ رکھنے کا فرمایا تو کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ """ یہودی اِس دِن کی تعظیم کرتے ہیں (یعنی تو بھلا کیا ہم اُن کی موافقت کریں ) """ ،

تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا (((((لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لأَصُومَنَّ التَّاسِعَ  :::اگر میں اگلے سال تک (دُنیا میں زندہ )باقی رہا تو میں ضرور نو (محرم )کا روزہ (بھی )رکھوں گا)))))صحیح مُسلم /حدیث /2723 کتاب الصیام/باب20،

فقہا ء کرام کے اقوال و مباحث میں سے دُرُست ترین بات یہ ہی سامنے آتی ہے کہ اور یہ کہ ، دس محرم کا اکیلا روزہ رکھنا مکروہ نہیں لیکن چونکہ دس محرم  کا روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ یہودیوں کی مخالفت کرنا بھی مطلوب ہے ، لہذا اِس کی تکمیل کے لیے دس محرم کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ بھی ملایا جا سکتا ہے ،

لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نو محرم کو اختیار فرمایا اور اُس دِن کا روزہ رکھنے کا مصمم اِرادہ ظاہر فرمایا ، لہذا افضل وہی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اختیار فرمایا ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے نو محرم کے دِن کو اختیار فرمانے میں ایک بڑی حِکمت یہ سُجھائی دیتی ہے کہ اس طرح بھی ہمیں نیکی کے کام میں تاخیر نہیں کرنے کی تعلیم و تربیت  عطاء فرمائی ہے ،

لہذا افضل یہی ہے کہ دس محرم کے روزے کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی ملایا جائے ،

اور یہ بات بھی خوب اچھی طرح سے یاد رکھنے کی ہے کہ ہفتے کے دِن صِرف اور صِرف فرض روزہ ہی رکھا جا سکتا ہے ، اس موضوع کی مکمل تحقیق و تفصیل  میری کتاب""" ہفتے کے دِن نفلی روزہ رکھنے کا حکم""" میں موجود ہے ،

 کچھ لوگ اِس غلط فہمی کا شِکار ہوتے ہیں کہ یہودیوں ، عیسائیوں اور دیگر کافروں نے جو کام اب کرنا چھوڑ دیے ہیں ، اُن کاموں سے متعلقہ حکموں کی اب وہ حیثیت نہیں رہی ،

اور  اِسلامی کاموں سے منع رکھنے کے لیے ایک باطل فلسفہ یہ بھی رکھتے ہیں کہ اب جو کام یہودی اور عیسائی اور دیگر کافر بھی کرتے ہیں وہ کام مسلمانوں کو نہیں کرنا چاہیے ، مثلاً داڑھی رکھنا ، وغیرہ ،

ایسے لوگوں کے باطل فلسفوں اور اندھیری عقلوں کی ایسی ٹھوکروں کے جواب میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ دِین کے احکام وہی ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ  اور اس کے خلیل ، اور آخری نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے دیے گئے ، اور وہ احکام قیامت تک کے لیے ہیں ، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ، اور نہ ہی اُن  محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ یا اُن کے بعد  اللہ کی طرف سے کسی پر کسی بھی طور کوئی وحی نازل ہوئی، اور نہ ہی  ہونے والی ہے کہ وہ کوئی نیا حکم پا لے ، یا کسی سابقہ حکم کو مسنوخ کہہ سکے ،

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، اور ہر کلمہ گو کو خصوصاً اور ہر ایک انسان کو عموماً حق جاننے ، پہچاننے ، ماننے اور اسی پر عمل پیرا رہتے ہوئے اللہ کی رضا پا کر اُس  کے سامنے حاضر ہونے  والوں میں سے بنائے ،

و  السلام علیکم و رحمۃُ اللہ وبرکاتہُ ،

طلب گارء دُعاء، عادِل سہیل ظفر،

تاریخ کتابت : 07/01/1423ہجری، بمُطابق،11/12/2002عیسوئی۔

تاریخ تجدید و تحدیث   :  /01  محرم / 1442 ہجری ، بمُطابق ، 20/08/2020 عیسوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برقی کتابی نُسخہ  (PDF) :   http://bit.ly/2jZbNma

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صوتی نُسخہ (آڈیو فائل) :   https://archive.org/details/20200822_20200822_1157     

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یو ٹیوب :   https://youtu.be/7Ejyk0xqd7I    

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔